WELCOME TO MELTED TRUTHS

All Truths are easy to understand once they are discovered;the point is to discover them.(Galileo Galilei)

" دریچہ " قسط نمبر1 The Valve




"دریچہ"


"A Novel Based on Artificial Intelligence "

       از  صادقہ خان








(پہلی قسط)

"The Paradox of our Age "


We have bigger houses but smaller families,
More conveniences but less time,
We have more degrees but less sense,
More knowledge but less judgement,
More experts but more problems,
More medicines but less healthiness,
 ,We have been all the way to the moon and back
But have trouble crossing the street to meet the new neighbor,
We built more computers to hold more information to produce
 More copies than ever,
But have less communications,
We have become long on quantity, but short on quality,
These are times of fast food but slow digestion,
Tall man but short character,
Steep profits but shallow relationships,
It’s the time when there is much in the window but nothing in the room,
"Dalai Lama"                        
*******************************                                         


" وقت کا المیہ"

آج انسان کے پاس عالیشان گھر تو ہیں
مگر اِن میں بسنے والے خاندان بہت ہی مختصر ہیں
انسان نے خود کو اتنے خود ساختہ مسئلوں میں الجھا رکھا ہے
کہ اُس کے پاس ۔۔ اپنے لیئے بھی وقت نہیں ہے۔۔
ڈگریوں کے انبار تلے انسان کی وہ خصوصیات۔۔
جو اُسے اشرف المخلوقات کے درجے پر فائض کرتی تھیں ۔۔۔ کہیں کھو گئی ہیں
انسان کی علمی سطح تو بہت بڑھ گئی ہے ۔۔مگر
وہ آج بھی خیر اور شر میں قطعی فیصلہ کرنے سے قاصر ہے
اُس نے اوج و کمال کی جتنی چوٹیاں سر کی ہیں
یہ ترقی انسانیت کو درپیش مسائل میں اتنے ہی اضافے کا سبب بنی ہے
آج علاج معالجے کی جتنی بہتر سہولیات میسر ہیں ۔۔پہلے کبھی نا تھی ۔
پھر بھی دنیا ۔۔نت نئی بیماریوں کا شکار ہے
انسان نے چاند ستاروں کے فاصلے تو مسخر کر لیئے ہیں ۔۔ مگر
وہ چند قدم چل کر اپنے ہمسائے کا حا ل پوچھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا
وہ ٹیکنالوجی میں روز افزوں ترقی کی منازل عبور کر کے ۔۔
بہتر سے بہتر انفارمیشن سسٹمز بنانے میں ہمہ وقت اتنا مگن ہے ۔۔ کہ
اپنے پیاروں ۔۔ اپنے ساتھ بسنے والوں سے اُس کا رشتہ ٹوٹتا جا رہا ہے
آج کا انسان معیار سے زیادہ مقدار کو اہمیت دیتا ہے
لوگ تازہ غذا ۔۔پر فاسٹ فوڈ کو ترجیح دیتے ہیں
جو جسمانی نظام کی تباہی کا سبب بنتی ہے
یہاں جو جتنے بڑے رتبے پر فائض ہے ۔۔ کردار میں ۔۔اتنا ہی چھوٹا ہے
مال و زر کے انباروں میں۔۔ باہمی محبت اور خونی رشتے۔۔فنا ہوتے جا رہے ہیں
آج ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں ۔۔ جہاں ۔
کھڑکی کے پار دیکھنے کو خوبصورت منظر ۔۔ منتظر ہے
مگر اس سے لطف اٹھانے والی آنکھیں موبائل اور ٹیبلٹ پر ہمہ وقت مصروف ہیں
اندر خالی کمروں کی طرح۔۔ انسان کا وجود بھی کھوکھلا ہو گیا ہے ۔۔!!!!


                                          ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


یوشع نے تیزی کے ساتھ سٹیئرنگ وہیل گھماتے ہوئے ٹرن لیا ۔۔ سامنے ہی غلام اسحاق خان انسٹیٹوٹ آ ف سائنس اینڈٹیکنالوجی کا خوبصورت ا ور پُر شکوہ کیمپس تھا ۔۔ ہر روز کی طرح وہ آج بھی ٹھیک ٹائم پر پہنچا تھا ۔۔ مما کو آرمی پبلک سکول ڈراپ کرکے یونیورسٹی پہنچتے تک۔۔ اسےایک گھنٹہ لگ جاتا تھا ۔۔
اُس روز صبح ہی سے گہرے بادلوں نے ڈیرا ڈالا ہوا تھا ۔۔جو کسی بھی وقت برسنے کو تیار تھے ۔۔ کوئی اور وقت ہوتا تو یوشع ٹہلتا ۔۔موسم سے پوری طرح لطف اٹھاتا آدھے گھنٹے میں ڈیپارٹمنٹ پہنچتا ۔۔ مگر اُس وقت بہت تیزی کے ساتھ کار پارک کرکے وہ اندھا دھند بھاگا تھا ۔۔ یہ اسکا سوفٹ ویئر انجینئرنگ میں آخری سمیسٹر تھا ۔۔اور آج اسکی ایک انتہائی اہم پریزینٹیشن تھی ۔۔ جسکی تیاری میں وہ ایک ہفتے سے دن رات مصروف تھا ۔شام چار بجے جب وہ اپنے دوستوں کے ساتھ کاندھے پر بیگ لٹکائے ۔۔ ڈیپارٹمنٹ سے باہر آیا ۔۔ تو بادل دو گھنٹے سےدھواں دھار برس رہے تھے ۔۔اور یوشع کے موڈکی خوشگواری دو چند ہو چکی تھی ۔ایک تو زبردست پریزینٹشن کے بعد سر اعجاز کی بھر پور تعریف ۔۔اور پھر یہ سہانا موسم ۔۔ وہ دوستوں کے ساتھ گپیں لڑاتا ۔۔ پھبتیاں کستا ۔۔موسلا دھار بارش میں بھیگتا
پارکنگ تک پہنچا ہی تھا کہ اس کا سیل تھرتھرایا ۔۔ کار میں بیٹھ کر اُس نے کال ریسیو کی ۔۔ جی مما ۔۔؟؟
کہاں ہو تم یوشع۔؟؟ مما کی آواز میں فکر مندی تھی ۔۔اسی وقت عقب میں بادل زور سے گرجے ۔۔
مما میں بس نکل ہی رہا تھا۔۔ یوشع نے کار سٹارٹ کی ۔۔ اُسے معلوم تھا کہ جب تک وہ گھر نہ پہنچ جائے ۔۔ مما کی سانساٹکی رہتی ہے ۔۔
اور ہوا بھی یہی۔۔کوئی چالیس منٹ کے بعد جب وہ ندیاں بنی سڑکیں عبور کرتا گھر پہنچا ۔۔ تو مما ٹیرس پر ہی کھڑی تھیں اوربادل اب بھی زور و شور سے برس رہے تھے ۔۔!!!
جب وہ فریش ہوکر لاؤنج میں آیا ۔۔تو مما ۔۔گرما گرم پکوڑوں اور بھاپ اڑاتی چائے کے ساتھ اسکی منتظر تھی یاہووو.کا نعرہ لگا کر یوشع وہیں کارپٹ پر ماں کے قدموں میں بیٹھا اور ۔۔ تیزی کے ساتھ پکوڑوں کی پلیٹ صاف کرنے لگا ۔۔
صفہ اسکے گیلے بالوں میں نرمی سے ہاتھ پھیرتے ہوئے محبت پاش نظروں سے اُسے دیکھتی رہیں ۔۔ وہ اپنے باپ کا پر توتھا ۔۔ وہی آنکھیں ۔۔ وہی کشادہ پیشانی ۔۔ وہی تھیکے دل میں اتر جانے والے نین نقش ۔۔ صفہ کہیں دور زمانوں میں کھوتی چلی گئیں ۔۔!!!
                                             ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۲۰ برس قبل ۔۔۱۹۹۵ وہ ایک بہت نکھری نکھری سی شام تھی ۔۔ التمش ہسپتال کی راہداری میں بہت بے چینی کے ساتھ اِدھر سے اُدھر چکر کاٹ رہا تھا ۔وہ کوئی ایک بجے کے قریب صفہ کو۔۔ رش ڈرائیونگ کرتا ہوا ہسپتال لایا تھا ۔۔ اور اب مغرب کا وقت تھا ۔۔ ڈلیوری میں شاید کوئی پیچیدگی تھی ۔۔انتظار کا وقفہ طویل ہوتا جا رہا تھا ۔۔۔ التمش نے عشاء کی نماز کے بعد سلام پھیر کر دعا کے لیئے ہاتھ اٹھائے ہی تھے ۔۔کہ نرس تیزی سے اسکی طرف لپکی ۔۔


   . Congratulations Mr Altamash, you have blessed with a healthy baby boy
نرس ایک ہی سانس میں جواب دیکر پلٹی ۔
التمش نرس کے پیچھے لپکا 
And what about my wife  ???
آپکی وائف کی حالت کچھ بگڑ گئی تھی ۔۔ لیکن پریشانی کی کوئی بات نہیں ۔۔اب وہ خطرے سے باہر ہیں ۔۔ نرس نے شستہ انگلش میں جواب دیتے ہوئے التمش کا کاندھا تھپتھپایا ۔۔
بے بی پنک کمبل میں لپٹے ہوئے ننھے سے گڈے کو ہاتھوں میں لیکر التمش کو یوں لگا تھا ۔۔کہ آج اسکی کائنات مکمل ہو گئی ۔۔اُس نے بہت نرمی سے بیٹے کے روئی جیسے گال چومے ۔۔ تو یکدم اُس نے کسمسا کر آنکھیں کھول دیں ۔۔ ۔وہ بہت گہری نیلی آنکھیں تھیں ۔۔ بلکل التمش کی اپنی آنکھوں کے مشابہہ۔۔!!!
صفہ کی تشویش ناک حالت کے باعث اسے اگلے روز شام کو ہی اُس سے ملاقات کا موقع ملا تھا ۔۔ ہسپتال کے کمرے کے ملجگے سے اندھیرے میں صفہ کا پیلا چہرہ ۔کچھ اور زیادہ زرد معلوم پڑتا تھا ۔۔ التمش نے جھک کر اسکی پیشانی پر بکھری چند لٹیں سنواریں اور صفہ کے لئے یہ لمس دنیا کی عزیز ترین شے تھا ۔۔ بہت ہمت کر کے ۔۔اس نے آہستگی سے پلکیں اٹھائیں ۔۔منظر کچھ دھندلہ دھندلہ سا تھا ۔۔التمش اسکی محبوب ہستی ۔۔اسکا کل جہان ۔۔اُس پر جھکا بہت محبت سے اسکی پیشانی چوم رہا تھا ۔۔
Now you are a proud mother of a cute baby boy
عقب میں کھڑی نرس نے کمبل میں لپٹے بچے کو اسکے ساتھ لٹاتے ہوئے آگاہ کیا ۔۔  بیٹا مبارک ہو صفہ ۔۔ التمش کی آواز میں بے پناہ محبت تھی ۔۔ آپ کو بھی مبارک ہو ۔۔ صفہ نے بمشکل اپنے لب کھولے ۔۔پھر جھک کر ساتھ لیٹے بیٹے کو دیکھا ۔۔ جو پیدائش کے چند گھنٹوں بعد ہی اپنی بڑی بڑی آنکھیں کو مٹکا کر ہر شے پر غور و فکر کرنے میں مصروف ہو چکا تھا ۔۔
ایک ہفتے بعد جب صفہ ہسپتال سے فارغ ہوکر کیلیفورنیا میں اپنے چھوٹے سے خوبصورت گھر لوٹیں ۔ تب تک محترم صاحبزادے نے باقاعدہ انگوٹھا چوسنا شروع کر دیا تھا ۔۔
التمش اسکا نام تو رکھ دیں ۔۔ اُسی روز رات کو ۔۔صفہ نے التمش کو پکارا ۔۔جو کمپیوٹر ٹیبل پر بہت سی فائلز بکھیرے بیٹھا تھا ۔
کس کا نام ۔۔؟؟ التمش کا دھیان کمپیوٹر سکرین کی طرف تھا
میرا ۔۔ !! صفہ نے جھلا ئیں
التمش نے ایک لمحے کو سکرین سے نظر ہٹا کر ۔۔ مسکرا کر صفہ کو دیکھا ۔۔ پھر کی بورڈ کو ٹیبل کے اندر کر کے کارپٹ پر قدم دھرتا بیڈ تک آیا ۔۔
تم نے سوچا ہے کوئی نام ۔۔؟؟ اس نے ننھے گڈے کو گود میں لیکر پوچھا ۔جو ماں کی گود میں خوب ہمک رہا تھا ۔۔ مگر باپ کے بازوؤں میں آتے ہی ۔۔ کسی فلاسفر کی سی گہری نگاہوں سے اُسے گھورنے لگا تھا ۔
نہیں۔۔ آپ ہی رکھیں نہ ۔۔ صفہ نے فرمانبردار بیویوں کی طرح جواب دیا
چلو۔ میں سرچ کرتا ہوں کوئی اچھا سا نام۔۔التمش منے کو اسے پکڑا کر ۔۔ کمپیوٹر کی طرف بڑھا
استغفراللہ ۔۔ التمش ۔۔ بچوں کے نام قرآنِ پاک سے ڈھونڈے جاتے ہیں ۔۔اور آپ گوگل پر سرچ کر رہے ہیں ۔۔ صفہ اپنی نا گواری چھپا نہیں سکی ۔۔
مگر التمش اسکی ناگواری کو خاطر میں لائے بغیر بہت دیر تک گوگل پر سرچنگ کرتا رہا ۔صفہ منے کو تھپتھپا تے ہوئے کب کی سو چکی تھی ۔۔ مگر منھے میاں کی گول مٹول آنکھیں۔۔ باپ کے عقب میں نظر آتی کمپیوٹر سکرین پر مرکوز تھیں ۔۔ جیسے وہ خودبھی منتظر ہو ۔۔کہ اُس کے لیئے کون سا نام منتخب کیا جاتا ہے ۔۔!!
پھر ملا آپکو کوئی نام ۔۔؟؟ اگلی صبح ناشتہ کرتے ہوئے ۔۔صفہ نے پوچھا
ہاں! اسکا نام ہوگا ۔۔ ’’ یوشع‘‘ ۔۔التمش نے توس پر مکھن لگا کر صفہ کی طرف بڑھایا
یوشع ۔ اِس کے معنی کیا ہوتے ہیں ۔۔؟؟
یہ عبرانی زبان کا لفظ ہے ۔۔ جس کے معنی ہیں ۔۔’’ نجات دلانے والا ‘‘ ۔۔ حضرت یوشع ؑ کا قصہ تو تم نے سن رکھا ہوگا نہ ۔۔؟؟
لیکن صفہ کے جواب دینے سے پہلے ہی ۔۔ منے میاں نے ایک زوردار قلقاری مار کر اپنی موجودگی کا احساس د لایا ۔۔
لو جی ۔۔!! تمہارے بیٹے نے اپنا نام اوکے کر دیا ہے ۔۔ التمش نے ہنستے ہوئے ۔ننھے گڈے کو دیکھا ۔۔جو ابتدا ہی سے ایک بہت مختلف عادات والا بچہ ثابت ہو رہا تھا ۔۔
’’ پوت کے پاؤں پالنے میں ہی نظر آنے لگے تھے ۔۔ بے شک وہ ایک ذہین باپ کی جینیئس اولاد تھا ۔۔‘‘
                                                ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

یکدم بادل زور سے گرجے ۔۔ صفہ چونک کر حال میں واپس لوٹیں ۔ مما لگتا ہے کہ ساون کی یہ جھڑی اِس دفعہ ۔۔بہت کچھ لے ڈوبے گی ۔۔ یوشع نے کھڑکی سے باہر دھواں دار برستی بارش کو دیکھ دیکھا جو اَب طوفان میں ڈھلتی جا رہی تھی ۔
اللہ خیر کرے ۔۔ کیوں منہ سے بد فالیں نکالتے ہو یوشع۔۔ صفہ نے اُسے ایک ہلکی سی چپت لگائی
مما یو نو واٹ ۔۔ کہ یوشع جب ایک بات کہہ دے تو ۔۔ پھر وہ ہوکر رہتی ہے ۔۔ یوشع نے ان کے دوپٹے سے اپنے گلاسز صاف کرتے ہوئے کسی فلاسفر کے سے انداز میں جواب دیا ۔
اچھا زیادہ بکو مت ۔۔ یہ بتاؤ کہ پریزینٹشن کیسی رہی ۔۔؟؟
زبردست مما ۔۔ہمیشہ کی طرح ۔۔آپ کا یہ لاڈلہ آج تک کبھی ناکام لوٹا ہے ۔۔ یوشع نے کالر جھاڑے
نہیں ہوئے تو بہت جلد ہو جاؤگے ۔۔ اگر یہ خود پسندی تمہارے دماغ میں جڑ پکڑتی چلی گئی ۔۔ صفہ نے اُسے بری طرح گھرکا۔ جس کی تربیت آپ جیسی سپر مام ۔۔اور بہترین ٹیچر نے کی ہو ۔۔ بھلا خود پسندی اُس کے دماغ میں جڑ پکڑ سکتی ہے۔۔ یوشع نے بہت لاڈ سے ماں کے گلے میں بانہیں ڈال کر ۔۔ انکی پیشانی چومی ۔۔پھر وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔۔ صفہ اسکی
پشت دیکھتی رہیں۔۔ وہ جانتی تھیں اب وہ رات بارہ بجے تک سوئے گا ۔۔ اور پھر باقی رات جاگ کر سٹڈی کریگا ۔۔
اُس نے یہ ساری اوٹ پٹانگ عادتیں اپنے باپ سے ورثے میں پائیں تھیں ۔۔وہ باپ کی کاپی تھا ۔۔
اور صفہ اسکی ہر نئی اچیومنٹ ۔۔ ہر نئے کارنامے پر اندر اندر لرزتی رہتی تھیں ۔ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے وہ ایک محبوب ہستی کو کھو چکی تھیں ۔۔ اور دوسرا پیارا ۔۔انہی راستوں کا مسافر بننے کو تھا ۔۔!!!
حسبِ عادت یوشع رات ساڑھے گیارہ بجے جاگا تھا ۔ صفہ مائیکرو ویو میں اُس کے لیئے کھانا رکھ چھوڑتی تھیں۔۔ڈٹ کر کھا ناکھا کر اُس نے اپنے لیئے سٹرانگ سی بلیک کافی بنائی۔۔ ایک نظر مما کے کمرے میں جھانکا ۔۔وہ کمبل منہ تک لپیٹے گہری نیند میں تھیں ۔۔افف۔۔ ایک تو مما کو پتا نہیں کیسے پورا منہ ڈھک کر نیند آجاتی ہے ۔۔ اُس نے کوفت سے سوچتے ہوئے نہایت آہستگی سے اُن کے کمرے کا دروازہ بند کیا ۔۔ کہ مبادہ وہ جاگ نا جائیں۔۔
باہر گھنٹوں سے لگاتار برستی بارش اب قدرے تھم چکی تھی ۔۔ یوشع نے بیڈ پر بیٹھ کر اپنا لیپ ٹاپ آن کیا ۔۔اُسے اپنا ریسرچ پیپر ریویو کرنا تھا ۔ (Rank brain) گوگل کے الگورتھم کا ایک حصہ سمجھا جاتا ہے۔۔جس کی مدد سے سرچ انجن ۔سیکنڈوں میں سرچ کے آپشنز ڈسپلے کر دیتا ہے ۔۔ یوشع اپنے آخری سمیسٹر کے آغاز سے ہی آرٹیفیشل انٹیلی جینس کی اِس نئی صنف پر کام کر رہا تھا ۔۔اسکی یونیورسٹی کی جانب سے ۔۔اِس ریسرچ پیپر کو کیلیفورنیا یونیورسٹی کے تحت منعقد ہونے والے ایک عالمی مقابلے میں بھیجا جانا تھا ۔۔یوشع کے لیئے ایسے مقابلے کوئی نئی بات نہیں تھے ۔۔وہ اِس سے پہلے بارہا ۔۔ کمپیوٹر سوفٹ ویئر ہی نہیں روبوٹکس پر بھی ۔۔کئی بین الا قوامی اعزاز حاصل کر چکا تھا ۔۔۔!!
لیکن آرٹیفیشل انٹیلی جینس اس کے لیئے ایک نئی فیلڈ تھی ۔۔اگر اسکا یہ ریسرچ پیپر کامیاب ہو گیا تو امریکہ میں ایک روشن ۔۔ مستقبل بازو وا کیئے اسکا منتظر تھا ۔۔ وہ نان سٹاپ کام کرنے میں یوں مگن تھا کہ وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا ۔اپنے بالوں میں ایک نرم سے شفیق ہاتھ کا لمس جیسے اُسے حال میں واپس لایا ۔
ارے مما آپ جاگ گئی ۔۔ یوشع چونکا..

جی بیٹا ۔۔فجر کی اذان ہوئے کافی دیر ہو چکی ہے ۔۔صفہ نے سخت نظروں سے اُسے گھورا ۔۔یوشع انکی ہر طرح کی ڈانٹ پھٹکار کے با وجود نماز کی پابندی نہیں کرتا تھا ۔۔
چلیں آج ناشتہ ما بدولت بنائیں گے ۔۔ اس نے تیزی سے بات بدلی ۔۔ مبادہ ماں کا لیکچر نہ شروع ہو جائے ۔۔ وہ میں بنا چکی ہوں ۔۔ صفہ کی نظریں لیپ ٹاپ کی سکرین پر تھیں ۔۔پھر انہوں نے سکرین کا ترچھا رخ اپنی طرف موڑا۔۔
اور بغور پڑھنا شروع کیا ۔۔ مما میرا یہ ریسرچ پیپر ۔۔ کیلیفورنیا یونیورسٹی کے ایک مقابلے میں بھیجا جارہا ہے ۔ آپ بس دعا کریں ۔۔ ایک دفعہ مجھے کیلیفورنیا یونیورسٹی جیسا بڑا پلیٹ فارم میسر آگیا ۔۔تو دیکھنا آپ کا یہ لاڈلہ آئی ٹی ہی نہیں اے ای کی دنیا میں بھی ۔۔کیسا تہلکہ مچاتا ہے
یوشع کی آواز جوش و خروش سے لبریز تھی ۔۔ مگر صفہ اپنی جگہ گنگ تھیں۔۔ کیلیفورنیا یونیورسٹی ۔۔ وہی جگہ ۔۔ وہی مقام ۔۔ وہی فیلڈ۔۔کیا وقت پھر انہیں اسی دوہراہے پر لا کھڑا کرنے والا ہے ۔۔بہت تیزی کے ساتھ اپنے آنسوؤں کو چھپاتے ہوئےوہ یوشع کے کمرے سے باہر لپکیں ۔۔ آجاؤ ناشتہ ٹھنڈا ہو رہا ہے ۔۔
اور یوشع نے انکی بدلی ہوئی حالت کو ہی نہیں ۔۔انکی آوا ز کی نمی کو بھی بغور نوٹ کیا تھا ۔۔ کچھ تھا جو وہ ہمیشہ اُس سے چھپا جا تی تھیں ۔۔ مگر کیا ۔۔؟؟؟ یہی سوچتا ہوا وہ کچن ٹیبل تک آیا ۔۔ تو صفہ دونوں ہاتھوں میں چہرہ لیئے ۔۔ سر جھکائے بیٹھی تھیں۔۔

 مما از ایوری تھنگ اوکے ۔۔؟؟ یوشع نے ماں پر ایک جانچتی ہوئی گہری نظر ڈالی ۔۔
ہاں۔۔ تم ناشتہ کرو ۔۔ صفہ نے پراٹھا اسکی طرف بڑھایا ۔۔ یہ پراٹھا ۔ وہ ہفتے میں ایک دفعہ بہت شوق سے کھایا کرتا تھا ۔۔ مگر آج ۔۔ماں کا اداس اور پُر ملال چہرہ دیکھ کر ۔۔اس کے لیئے ایک لقمہ نگلنا بھی مشکل ہو رہا تھا ۔۔اگر پاپا سے ریلیٹڈ کوئی خاص بات ہے تو یہ مجھ سے چھپاتی کیوں ہیں۔۔؟؟
یوشع کسی گہری سوچ میں غرق ۔۔ چھوٹے چھوٹے نوالے ٹھونگتا ہوا ۔۔ سوچتا رہا ۔۔اور صفہ اسکی اپنے چہرے کا طوافکرتی بہت گہری نگاہوں سے بے نیاز ۔۔ کہیں بیتے وقتوں میں کھوتی چلی گئیں ۔۔۔!!!
                                    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفہ کا جوش و خروش دیدنی تھا ۔۔وہ پورے دو سال بعد پاکستان واپس جا رہی تھیں ۔۔
صفہ پلیز سامان کم سے کم رکھو ۔۔ چھوٹا بچہ ہے تمہارے ساتھ ۔۔التمش نے انکی تیاریوں کو نوٹ کرتے ہوئے منتباہ کرنا ضروری سمجھا ۔۔
ہاں سارا سامان یوشع ہی کا تو ہے ۔۔ صفہ نے مصروف سے انداز میں جواب دیا
یہاں سے لیکر جانے کے بجائے ۔۔ تم وہاں سے نیا لے لینا ۔۔ واپسی پر میں بھی ساتھ ہونگا ۔۔تو اتنی پرابلم نہیں ہوگی
واٹ۔۔؟؟ صفہ تیزی سے التمش کی طرف گھومیں۔۔ آپ پاکستان آئیں گے ۔۔؟؟ ا سکی آواز میں خوشگواری ملی حیرت تھی ہاں۔۔ آجاؤنگا ۔۔ کچھ دن کے لیئے ۔التمش کی نظریں بدستور کمپیوٹر سکرین پر تھیں۔۔۔
آدھے سے زیادہ دن آپ کا آفس میں گزرتا ہے ۔۔ اور گھر آکر آپ یہ کمپیوٹر کھول کے بیٹھ جاتے ہیں ۔۔صفہ جھلائیں...
اوہ۔۔ تو تمہیں یہ اپنی سوتن لگنے لگا ہے ۔۔ التمش محفوظ ہوئے
میں کیوں جلنے لگی ۔۔ میری بلا سے آپ اصلی والی سوتن لے آئیں ۔۔ صفہ جل ہی تو گئی تھیں
سوچ لو ۔۔ سچ مچ لے آیا تو پھر رونا مت ۔۔ التمش نے انکو مزید تپایا ۔۔
روئیں میرے دشمن ۔۔ پھر وہ اور آپ کا یہ کمپیوٹر ۔۔ایک دوسرے سے خود ہی نمٹیں گے ۔۔ ہونہہ یو نو واٹ صفہ ۔۔ آج کل ایسے پراجیکٹس پر کام کا آغاز ہو رہا ہے ۔۔جو سیکنڈوں سے بھی کم عرصے میں ۔۔انسانی دماغ کو  پڑھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں گے ۔۔التمش کی آواز بہت پر جوش تھی ۔۔
کیا مطلب ۔۔؟؟ صفہ نے نا سمجھی سے انکی طرف دیکھا
مطلب یہ کہ ۔۔ التمش ایک لمحے کے لیئے سوچنے کو رکے ۔۔ کہ صفہ کو آسان انداز میں کس طرح سمجھائیں۔۔
تم نے گوگل کا کرومیم ورشن میرے کمپیوٹر میں دیکھا ہوگا نہ ۔۔ جس سے ہم کوئک سرچنگ کرتے ہیں ۔۔ یہ ابھی پبلک کو میسر نہیں ہے ۔۔مگر اِس پر تحقیق جاری ہے ۔۔جلد ہی گوگل کے ایسے ورژنز عام آدمی کو باآسانی دستیاب ہوں گے ۔۔جو سرچ آپشنز کو بوجھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں گے ۔۔ ہماری کمپنی (
Humanoid robotics) پر کام کر رہی ہے ۔۔اِس طرح کی ۔۔ ٹیکنالوجی سے روبوٹکس کی د نیا میں انقلاب آجائیگا ۔۔ التمش نے تفصیل سے صفہ کوسمجھایا صفہ نے چونک کر سامنے دیکھا ۔۔کاٹ میں لیٹے یوشع کی بہت گہری نگاہیں اپنے باپ پر مرکوز تھیں ۔۔صفہ نے ہی نہیں۔۔التمش نے بھی نوٹ کیا تھا ۔۔وہ باپ کی ایسی لوجیکل باتیں بہت غور سے سنتا تھا ۔۔
مجھے لگتا ہے ۔۔ اسے میری باتیں سمجھ آتی ہیں ۔۔التمش نے بھی رخ موڑ کر یوشع کو بغور دیکھا ۔۔
جی بلکل ۔۔ آپ کے گوگل ورژنز کو یوشع ہی تو ا پ ڈیٹ کریگاَ ۔۔ صفہ نے جل کر جواب دیا
انشاء اللہ ۔۔ تم دیکھنا ۔میرا بیٹا اِس سے بھی بہت آگے جائیگا ۔۔التمش نے بہت محبت سے ۔۔بیٹے کو گود میں لیکر اسکے گال چو
مےجو ہنوز کسی فلاسفر کی طرح ۔۔اپنے ہاتھوں پر غور کرنے میں مصروف تھا ۔۔ آپ نے مجھے باتوں میں لگا دیا ۔۔ابھی اتنی ساری پیکنگ پڑی ہے ۔۔صفہ کو ایک دم سے تیاریاں یاد آئیں تم بیویوں کی بھی نہ۔۔ ہر ادا نرالی ہوتی ہے ۔۔ التمش کو تاؤ آ یا ۔۔ جب چلی جاؤنگی نہ تو پھر ۔۔ میری اصل قدر ہوگی آپکو ۔۔ دھمکی بڑی واضح تھی ۔۔ التمش کے لبوں پر بہت دلکش مسکراہٹ آ ئی تمہاری قدر اس دل میں کتنی ہے تم کیا جانو ۔۔ التمش نے جذبات سے بوجھل آواز کے ساتھ صفہ کو کندھوں سے تھام کر انکا رُخ اپنے طرف موڑا ۔۔ کسی کو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں تھی ۔۔ وہ ایک دوسرے کے لیئے کھلی کتاب کی طرح تھے ۔۔ التمش نے جھک کر صفہ کی فراخ پیشانی چومی ۔۔ ٹھیک اُسی وقت۔۔یوشع کے کاٹ سے ایک زوردار۔۔ خوشی سے لبریز نعرہ بلند ہوا ۔۔ یہ واقعی ۔۔سب کچھ سمجھتا ہے ۔۔ التمش نے کڑی نظروں کے ساتھ اُس کے کاٹ کو گھورا ۔۔۔!!!
                                   
                                                                  (جاری ہے ۔۔)

                                ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


اگلی قسط دوہفتے بعد اپلوڈ کی جائیگی ۔۔براہِ مہربانی بلاگ پر کمنٹس آپشن پر کمنٹ کیجئے۔۔اور (Unity Teamکے فیس بک پیج پر اپ ڈیٹس چیک کرتے رہیے)

Share on Google Plus

About Unknown

11 comments:

  1. Engrossing them....well written begining....hope we will find a superb peice of writting...waiting for the nxt epi...

    ReplyDelete
    Replies
    1. Insha Allah will work hard to suffice out readers standard thoroughly...

      Delete
  2. so nice and good work. best wishes for you.

    ReplyDelete
  3. so nice and good work. best wishes for you.

    ReplyDelete
  4. Nice start....... episode thori bari krn or jo time dy rahy hain usi pe upload zarur krdia krna .. aisy novel ka craze rehta hai.

    ReplyDelete
  5. Thank you very much for your response, we will upld the next episode soon

    ReplyDelete