WELCOME TO MELTED TRUTHS

All Truths are easy to understand once they are discovered;the point is to discover them.(Galileo Galilei)

دریچہ" قسط نمبر2 The Valve



''دریچہ''
 " A Novel based on Artificial Intelligence "
    
                                                                               از صادقہ خان


دوسری قسط

اسلام آباد ائیر پورٹ کے بین الااقوامی آ مد (Arrival) لاؤنج سے باہر آتے ہی صفہ کی نگاہیں۔۔ کسی شناسا چہرے کوڈھونڈ رہی تھیں۔اُس وقت واقعتاٌ انہیں احساس ہوا تھا کہ التمش کا کم سامان ساتھ لیکر جانے کا مشورہ کتنا اہم تھا ۔۔ایک ہاتھ میں یوشع اور دوسرے ہاتھ سے سامان کی ٹرالی دھکیلتی ہوئی ۔۔ وہ تیزی سے آگے بڑھیں۔ تو سامنے ہی افراسیاب انکا منتظر تھا ۔۔ بہت پر جوش انداز میں اس نے ننھے یوشع کو اُن کی گود سے لیا ۔۔ جو بطاہر تین ماہ کا تھا مگر اپنی اچھی صحت اورتیز نشونما کے باعث چھ ماہ کا لگتا تھا ۔۔!!!بابا نہیں آئے۔۔؟؟
 صفہ نے افراسیاب کو اکیلے دیکھ کر پوچھاایکچولی بھابھی ۔۔ وہ تو آ نے کے لیئے بضد تھے ۔۔۔ مگر طویل سفر انکو تھکا دیتاسو میں انہیں خود ہی نہیں لیکر آ یا ۔۔افراسیاب اُن کے ہاتھ سے ٹرالی لیکر آگے بڑھا۔۔ ایک لمبے سفر کے بعد ۔۔دوسرے سفر کا آغاز ہو چکا تھا ۔۔ صفہ کے لیئے وہی جانے پہچانے راستے تھے ۔۔ جہاں وہ سالوں سفر کرتی رہی تھیں۔۔اور ننھا یوشع ان کے گود میں بیٹھا ۔۔حسبِ عادت اپنی بڑی بڑی گول مٹول آنکھوں سے ہر شے کا بغور مشاہدہ کرنے میں مصروف تھا ۔۔ ا فراسیاب نے ڈرائیونگ کرتے ہوئے کئی دفعہ مڑ کربھتیجے کو دیکھا ۔۔ وہ پہلی نظر میں ہی پہچان گیا تھا ۔۔میاں صاحبزادے اپنے باپ سے کئی ہاتھ آگے تھے ۔اپنے بڑے بھائی کی ذہانت ہمیشہ ہی سے اسے بےانتہا متاثر کرتی رہی تھی ۔۔اور یقیناٌ اُن کی فیملی میں ایک اور جینیس کا اضافہ ہو چکا تھا ۔۔رات بارہ بجے کے لگ بھگ جب وہ گھر پہنچے تو صفہ کا تھکن سے برا حال تھا ۔۔اور ننھا یوشع کب کا سو چکا تھا ۔۔ مگر پورا گھربقۂ نور بنا ہوا تھا ۔۔اور گھر کا ہر فرد ننھے مہمان کے استقبال کے لیئے پوری طرح مستعد تھا ۔۔ صفہ کے لیئے یہ گھر انکا میکہ بھی تھا ۔۔اور سسرال بھی ۔۔وہ بہت تیزی سے تقریباٌ دوڑتے ہوئے اماں جانی کے گلے لگی تھیں۔۔
مگر آج کا مہمانِ خصوصی تو یوشع خان تھا ۔۔ ہر ایک کی خواہش تھی کہ وہی اُسے سب سے پہلے گود میں لے۔۔ عام بچوں کی طرح نیند سے جاگ کر نہ تو وہ ۔۔کسمسایا تھا ۔۔نہ ہی نئے چہروں کو اپنے اتنے قریب دیکھ کر وہ گلہ پھاڑ کے رویا تھا ۔۔روتا تو وہ شاذو نادر ہی تھا ۔۔ چند ہی دنوں میں گھر کا ہر فرد اِس حقیقت سے واقف ہو چکا تھا کہ وہ ایک بہت مختلف بچہ تھا۔۔!!!
اُس روزصبح ۔۔صفہ یوشع کے کاموں سے فارغ ہوکر بیٹھی ہی تھیں ۔۔کہ بابا جانی کی طرف سے انکا بلاوا آیا ۔۔ وہ یوشع کوگود میں لیکر ۔۔لاؤنج تک آئیں تو وہاں افراسیاب اور سکی بیوی گل رخ سمیت سب ہی جمع تھے ۔۔اور بابا جانی کےچہرےپر گمبھیر خاموشی کے ڈیرے تھے ۔۔ صفہ ہمیں آج ہی گاؤں جانا ہے ۔۔بیٹا آپ تیاری کر لیجیے۔۔تیمورخان کی آواز میں کچھ ایسا تھا ۔۔جو صفہ کو چونکا گیا۔۔گاؤں کیوں بابا جانی ۔۔؟؟ جمال کی حالت کافی بگڑچکی ہے وہ ایک عرصے سے آپ سے ملنے کی خواہش کر رہا ہے ۔۔مگر یوشع کی پیدائش کی وجہ سے آپ کا پاکستان آناممکن نہیں تھا ۔۔ سو التمش نے یہ بات آپ سے چھپائے رکھی ۔۔ میں اُن سے کبھی نہیں ملوں گی بابا جانی ۔۔صفہ کو یوں لگا تھا جیسے برسوں کے سوئے زخموں پر کسی نے نمک چھڑک دیا ہو۔۔ایسی باتیں نہیں کرتے بچے ۔۔تیمور خان نےشفقت سے ان کے سر پر ہاتھ رکھا ۔۔وہ صفہ کے ہر درد سے پوری طرح آشناتھے ۔۔یہ وہی تھے جن کے بھرپورتعاون کے باعث۔۔گاؤں کی ایک ڈری سہمی ۔۔میٹرک پاس لڑکی آج نا صرف اعلیٰ تعلیم یافتہ تھی ۔۔بلکہ امریکہ میں ٹاپ کی کمپنی بوسٹن ڈائینامکس میں کام کرنے والے سوفٹ ویئر انجینئر کی ایک پُر اعتماد بیوی بھی تھی ۔۔میرے بچے ۔۔وہ بہت اذیت میں ہے اور اپنے کیئے کی بہت سزا بھگت چکا ہے ۔۔جب اللہ تعالیٰ انصاف کر دے تو پھراُسکے بندوں کو بھی درگزر سے کام لینا چاہئے۔۔ایک دفعہ ملکر اُسے معاف کردو ۔۔ تاکہ وہ سکون سے مر سکے۔۔تیمور خان نے رسانیت سے انہیں سمجھایا۔۔
گاؤں کے گھنٹہ دو گھنٹہ کے سفر میں ۔۔صفہ مسلسل روتی رہی تھیں ۔۔ انہی راستوں سے گزرتے ہوئے۔۔انہوں نےگہرےزخم کھائے تھے۔۔جو وقت کی دھول میں بظاہر مند مل ہو گئے تھے ۔۔ مگر در حقیقت ۔۔وہ آج بھی ان کےاندر کسی ناسور کی طرح پلتے تھے ۔۔اور دادا کی گود میں بیٹھے ننھے یوشع کے لیئے ماں کے یہ آنسو قطعاٌ اجنبی تھے۔۔پیدائش کے بعد ۔۔اُس روز پہلی دفعہ وہ یوں گلہ پھاڑ کے رویا تھا ۔۔کہ صفہ اپنے سارے دکھ بھول کر اُسےچپ کرانے میں ہلکان ہو گئی تھیں۔۔!! صفہ جمال خان کے گھر جنم لینے والی اسکی تیسری اولاد تھی ۔۔اُس سےبڑے دو بیٹے تھے ۔۔اسکی پیدائش کے وقت ناکافی طبی سہولیات کے باعث اسکی ماں صفیہ ۔۔پہ در پہ امراض کاشکار ہوکر کچھ ہی عرصے میں بلکل چارپائی سے لگ گئی تھی ۔۔صفہ جیسے تیسے پلتی رہی ۔۔چار برس کی عمر میں ہی اِسبے انتہاء حساس بچی نے اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے گھر کے کام کاج کا آغازکر دیا تھا ۔۔ماں کے ساتھ اب وہ خود بھی روز باپ کے قہر کا شکار ہوتی ۔۔اِس چھوٹی سی غزالی آنکھوں والی بچی کا تکیہ روز ہی آنسوؤں سے بھیگتا ۔۔اور بدن باپ کی دی ہوئی مار پر ٹوٹتا رہتا ۔۔ناجانے قدرت کے نظام میں انسان نے یہ کیسا خلل ڈالا ہے کہ یہاں چوٹ کھانے والا روز ٹوٹ کر بکھرتا رہتاہے ۔۔ مگرمارنے والے بے ر حم ہاتھ نا تو ٹوٹتے ہیں ۔۔نا ہی تھکتے ہیں۔۔ پھر ایک رو ز یوں ہوا کہ جمال خان نے ادھ موئی صفیہ کو اتنا پیٹا ۔۔کہ اسکی روح ہمیشہ کے لیئے بدن سے ناتا توڑ گئی ۔۔اور ننھی صفہ ظالم ، بے رحم ہاتھوں میں رلنے کے لیئے تنہا رہ گئی ۔۔چھوٹی عمر سے اُس نے اپنے ارد گرد جو کچھ دیکھا اور سہا تھا ۔۔اُن تلخ تجربوں نےاُسے بدترین حالات سے سمجھوتا کرنا سیکھا دیا تھا ۔۔ سالہاسال کی بے روزگاری۔بڑھتی عمر اور مالی پریشانیوں نےجمال خان کو کچھ اور زیادہ چڑچڑا اور بد مزاج کر دیا تھا ۔۔پہلے تو اُس کے ہاتھ صرف بیوی اور بیٹی ہی پر مشقِ ستم کیاکرتےتھے مگر اب گھر سے باہر بھی ہر چھوٹا، بڑا۔۔اسکی زد پر آنے لگا تھا ۔۔دونوں بیٹے باپ کی کاپی تھے ۔۔زندگی کیاتھی ۔ایک جہنم تھی ۔۔جس سے نکلنے کا کوئی راستہ ہی سجھائی نہیں دیتا تھا ۔۔دوزخ تک جانے راستے تو بہت سےہوتے ہیں ۔۔مگر اُس سے نکلنے کا راستہ ایک ہی ہوتا ہے ۔۔اور وہ یقیناٌ انسان کی اپنی دسترس میں نہیں ہوتا۔۔وہ تقدیر کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔۔!!
                                             ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


یک دم گاڑی نے زور کا جھٹکا کھایا ۔۔ صفہ نے چونک کر تیزی سے یوشع کو سنبھالا ۔۔جو کافی دیر رونے کے بعد اب سوگیاتھا۔۔ گاؤں کا پُر پیچ۔۔ خم دار راستہ شروع ہو چکا تھا۔۔اور ٹھیک دس منٹ کے بعد انکی مر سڈیز ایک خستہ حال،بوسیدہ چھوٹے سےگھر کے دروازے سے کچھ فاصلے پر جا رکی۔۔ جسکی ظاہری حالت ۔۔اُس کے مکینوں کی بد حالی کا پردہچاک کرتی تھی ۔۔ افراسیاب نے نیچے اتر کر صفہ کی جانب کا دروازہ کھولا ۔۔تو اُس کے پاؤں من من بھر کے ہورہے تھے ۔۔آٹھ برس قبل جب رات کے اندھیرے میں ایک ڈری سہمی ۔۔نوجوان لڑکی نے یہ دہلیز پار کی تھی۔تو اُس کے سامنے صرف اور صرف اسکی بقا تھی ۔۔ آؤ بیٹا۔۔! تیمور خان کی آواز ۔صفہ کو زمانۂ حال میں کھنیچ لائی۔۔ اُس نے بمشکل اپنے آنسوؤں پر قابو پایا جو ۔۔آنکھوں کی باڑ پار کرنے کو تھے ۔۔ کہ مبادہ یوشع جاگ کر دوبارہ نہ رونا شروع کردے۔اِس چھوٹے سے جن کو پالنا ۔۔اس کے لئےدن بدن مشکل ہوتا جا رہا تھا ۔۔!!!گھر کا آنگن جیسےزمانوں کی گرد سے اٹا ہوا تھا ۔۔ ہر طرف خزاں ذدہ پتوں کا راج تھا ۔۔ صفہ کو وقت یاد آیا ۔۔جب وہ اپنے ننھےننھے ہاتھوں سے اِن پتوں کو صبح شام سمیٹتے ہوئے ہلکان ہو جایا کرتی تھیں ۔۔!!صفہ میری جان! کیوں خود کو تھکا رہی ہے ۔۔
جاڑے کا موسم ہے ابھی صاف کرے گی تو کچھ ہی دیر میں پھر ہر طرف یہی گند ہوگاجلدی سے روٹی ڈال لے۔۔تیراباپ آتا ہوگا ۔۔دیر ہوگئی تو آتے ہی جوتا اٹھا لیگا ۔۔جھلنگا سی چارپائی پر لیٹی صفیہ کا دل اپنی پھول سی بچی کےلیئے کٹتارہتا تھا ۔۔جس نے بہت چھوٹی عمر سے اُنکا بھرپور ساتھ دیا تھا ۔۔شاید یہ دونوں کا وجدان تھا ۔۔کہ انکا ساتھ بہت تھوڑے وقت کا ہے ۔۔صفہ کے ذہن میں اب ماں کی چند پرچھائیاں ہی باقی رہ گئی تھیں۔۔!! اُسی وقت یوشع نےانکی گود میں کسمسا کر آنکھیں کھولی۔افراسیاب نے صفہ کی ابتر حالت نوٹ کرتے ہوئے تیزی سے آگے بڑھ کریوشع کوانکی گود سے لیا ۔۔ جو بہت غور سے ماں کے چہرے کو تک رہا تھا ۔۔ اورصفہ من من بھر کے قدم اٹھاتی ہوئی۔۔ سست رفتاری سے آگے بڑھ رہی تھی۔۔!! خدا کا قانونِ مکافات واقعی اٹل ہے ۔۔ جس کے دائرے سے آج تک کوئی فرعون، کوئی قارون ۔۔ کوئی شداد نہیں بچ سکا ۔۔ انسان طاقت کے بل بوتے پر ۔۔نا خدا تو بن بیٹھتا ہے۔۔ مگروہ یہ بھول جاتا ہے کہ جس مولا کی خدائی کو وہ چیلنج کر رہا ہے۔اسکی قدرت انسان کے اعمال کی طرح اندھا دھند نہیں ہے۔۔اُسکا ہر کام ایک لگے بندھے دائرے ۔۔ ایک قانون کے اندر ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بارہا ہر اُس جابر۔قاہر اور ماکر کو بارہا للکارا ہے ۔۔جو تھورے سے زمینی اقتدار۔۔جاہ و نسب یا طاقت کے بل بوتے پر خود کو اسکی مخلوق کانا خدا سمجھ کر ظلم کے پہاڑ ۔۔توڑتا ہے۔۔!!
وہی مقام تھا ۔۔اُسی بوسیدہ سے کمرے کے ملجگے سے درو دیوار تھے۔ شاید وہی ٹوٹی ہوئی ۔۔جھلنگا سی چارپائی تھی ۔۔ جس پر ایک روز لہولہان صفیہ کے پنجر سے وجود نے آخری سانسیں لی تھیں ۔۔اور آج وہیں ایک فالج ذدہ ڈھانچہ پڑا تھا ۔۔جس کے ذندہ  ہونے کا واحد ثبوت اسکی متحرک آنکھیں کو پتلیاں تھیں ۔۔ یہ جمال خان تھا ۔۔ جس کے جلال سےکبھی اِس گھر کے درو دیوار  لرزہ کرتے تھے ۔۔!! صفہ نے خستہ حال دروازے کا سہارہ لیکر ۔۔بشمکل خود کو چکراکر گرنے سے روکا ۔۔ آہٹ پاکر ۔جمال خان نے بند آنکھیں کھولیں۔۔اور پھر یہ آنکھیں دروازے کے عین وسط میں کھڑی صفہ پر ٹکی رہ گئیں۔۔بے بسی ، لاچاری، احساسِ ندامت معافی کیا کچھ نہیں تھا اِن نگاہوں میں۔۔!! بہت دیر تک جب جمال خان کی پتلیوں میں کوئی جنبش نہیں ہوئی ۔۔ تو تیمور خان ۔گھبرا کر آگے بڑھے۔۔ مگر اب فیصلہ ہو چکا تھا ۔۔جمال خان کی روح۔۔کب کی بدن کا ساتھ چھوڑ کر آزاد فضاؤں میں پرواز کر چکی تھی ۔۔ اور صفہ کا ٹھنڈا وجود ۔۔ وہیں دروازے کے وسط میں ڈھیتا چلا گیا تھا ۔۔۔!!!
                                             ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(The rank brain, search engine land)
۔۔۔ یوشع کے ریسرچ پیپر کی بیس تھا ۔۔ جو فائنل ٹچزکے بعد مقابلے کے لیئے جمع کرایا جا چکا تھا ۔اِس مقابلے میں دنیا بھر کے با کمال سوفٹ ویئر انجینئرزاور آئی ٹی ایکسپرٹس حصہ لے رہے تھے۔۔یوشع کے لئے ایسے مقابلے کوئی نئی بات نہیں تھے ۔۔وہ بچپن سے اب تک آئی ٹی کی دنیا میں اپنی ذہانت کی دھاک بٹھا چکا تھا ۔۔!! دراصل رینک برین ۔۔ایک رینکنگ سگنل سے زیادہ ایک پروسیسنگ ٹول سمجھا جاتا ہے۔جو آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی (hype)ہے یعنی کمپیوٹر کا سیکنڈوں سے بھی کم عرصے میں انسانی دماغ کو پڑھ کر Guess کرنے کی صلاحیت۔۔گوگل کے انجینئرز جو دن رات اِن الگورتھمز پر کام کر رہے ہیں ۔۔انہوں نے کچھ عرصے پہلے اِس پر کچھ تجربات کیئے تھے ۔۔
جن میں چند مخصوص موضوعات کو لیکر انتہائی جینیئس افراد سے رائے معلوم کی گئی تھی ۔۔کہ گوگل کا سرچ انجن اِن میں سے کس کو  ٹاپ پر رکھتا ہے ۔۔ تو حیرت انگیز طور پر ان غیر معمولی ذہین افراد کی رائے۷۰ فیصد درست تھی۔۔جبکہ رینک برین رزلٹ۸۰ فیصد درست تھا ۔۔اور یوشع نے اپنے ریسرچ پیپر میں ۔۔ کچھ ایسے آئیڈیاز اورنارمز متعارف کروائی تھیں ۔۔ جن پر کام کر کے یہ رزلٹ ۔۔۹۰ فیصد تک درست ممکن تھا ۔۔ اُس کی معاونت کرنے والے ٹیچرز کو پورا یقین تھا ۔۔ کہ غیر معمولی ذہانت کا حامل یوشع خان ۔۔آئی ٹی کے بعد ۔۔آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی دنیا میں بھی دھوم مچانے جا رہا ہے۔۔!!!
                                           ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفہ نے خوبصورت بیلوں سے ڈھکے ہوئے اُس خوشنما گھر پر ایک اچٹتی ہوئی سے نظر ڈال کر ڈور بیل پر ہاتھ رکھا ۔۔ افراسیاب کا گھر آرمی پبلک سکول سے کچھ ہی فاصلے پر تھا ۔۔۔ وہ ان دنوں پاک آرمی میں لیفٹیننٹ رینک پر تھا ۔ ملازم نے دروازہ کھولتے ہی انہیں اونچی آواز میں سلام کیا ۔۔ تو گل رخ نے کچن کی کھڑکی سے جھانکا ۔۔ پھر باہر لپکی ۔۔
ارے بھابھی آپ۔۔ میں بس کھانا لگوا ہی رہی تھی ۔۔ افراسیاب بھی آتے ہونگے ۔۔صفہ جب نماز پڑھ کر ڈائننگ ٹیبل پر آئی تو واقعی افراسیاب آچکا تھا ۔۔اور انکا منتظر تھا ۔۔ ویلکم ہوم بھابھی ۔۔ جلدی سے آجائیےآج گل نے بڑی مزیدار ڈشز بنائی ہوئی ہیں ۔۔ چکن کڑھائی۔۔مونگ کی دال۔۔ سلاد اور رائتہ ۔۔ وہ ایک۔۔ ایک کر کےساری ڈشز صفہ کی طرف بڑھاتا گیا ۔۔ مگر صفہ انتہائی بے رغبتی سے چند لقمے لیکر ۔۔ہاتھ کھانے سے کھینچ لیا ۔۔
خیریت بھابھی ۔۔آپکی طبیعت تو ٹھیک ہے نا ۔۔ گل رخ کو تشویش ہوئی ۔ایکچولی میں کچھ دن یہیں رہونگی ۔۔ یوشع میراسامان شام کو لے آئیگا ۔۔ پلیژر بھابی ۔۔ آ پکا اپنا گھر ہے ۔۔ہم تو دل سے چاہتے ہیں کہ آپ ہمیشہ کے لیئے ہمارےپاس آجا ئیں ۔۔ افراسیاب نے آج پھر وہی بات دہرائی تھی ۔۔ جو ایک عرصے سے اسکی زبان پر تھی ۔۔ مگر صفہ کی خودداری کے آگے کبھی کسی کی نہیں چل سکی تھی ۔۔
رشتے صرف خون ہی کے تو نہیں ہوتے ۔۔کچھ رشتے انسانیت کے ہوتے ہیں ۔۔ کبھی انکی اساس انسیت بنتی ہے۔۔توکبھی یہ خلوص کی مٹی سے گوندھے جاتے ہیں ۔۔ وگرنہ اگر باہمی تعلقات میں سے محبت ، احترام ۔۔اوراخلاص کو نکال دیا جائے تو خونی رشتے بھی اپنی وقعت کھو بیٹھتے ہیں ۔۔!! صفہ نے ایک گہری نظر افراسیاب پرڈالی ۔۔اُس کے عقب میں انہیں گئے زمانوں کی ایک پر چھائیں سی حرکت کرتی نظر آئی جیسے کسی نے وقت کی دھول میں گم ہو جانے والی بیتے زمانوں کی فلم کا فلیش دیوار پر چلا دیا ہو ۔۔
                                         ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


کمال خان کمرے میں کسی بھوکے شیر کی طرح کمرے میں اِدھر سے اُدھر چکر کاٹ رہا تھا اور جمال خان چہرے پرگہراتفکر لیئے بانس کی اُسی جھلنگا سی چارپائی پر بیٹھا تھا جس پر چند برس قبل ۔۔صفیہ نے زندگی کی آخری سانسیں لی تھیں۔۔ گھر کی عورت کو مار کر ۔۔اُسے غیرت کے نام پر قتل قرار دیکر بری الذمہ ہو جانا کتنا آسان ہوتا ہے ۔۔ مگر یہی ہاتھ جب باہر والوں پر بے قابو ہو جائیں تو لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں ۔۔ تینوں باپ بیٹا ۔۔ کچھ دیر پہلے ہی جرگےکافیصلہ سن کر آئے تھے ۔۔ دو روز قبل جمال خان ڈیرے پر کسی سے جھگڑ بیٹھا تھا ۔۔ جھگڑے تو اُس کا روز ہی کامعمول تھے ۔۔ مگر اِس دفعہ سامنے وا لا بھی کوئی اُسے جیسا خر دماغ ہی تھا ۔۔بات ہاتھا پائی تک رہتی۔۔اگر کمال خان اور بخت آور خان باپ کا ساتھ دینے کیلئے۔۔ میدان میں نا اتر آتے۔۔دونوں جانب سے اسلحہ کا استعمال ہوا ۔۔ اور یوں کمال خان کے ہاتھوں مخالف پارٹی کا ایک آدمی مارا گیا ۔۔
جرگے کے فیصلے کے مطابق ۔۔اب جمال خان کو خون بہا میں۔۔ ایک بڑی رقم ادا کرنی تھی ۔یا پھر اپنے گھر کی لڑکی اُنکےحوالے کرنی تھی ۔۔ بہت دیر تک وہ تینوں سر جوڑے بیٹھے رہے ۔۔اور باہر شدید ٹھنڈ میں تنہا بیٹھی صفہ۔۔لرزتی رہی۔۔اور اُس کے خدشات کے عین مطابق ۔۔اُن کے منصوبوں کی تان صفہ پر ہی ٹوٹی تھی۔۔آدھی رات سے زیادہ بیت چکی تھی ۔۔ رات کے اِس پہر کے گہرے سکوت میں ۔ تینوں باپ بیٹا کے مطمئن اور آسودہ خراٹے ماحول کو کچھ اورزیادہ ہولناک بناتے تھے۔۔ایسے میں گھر کے ایک کونے سے کچھ دبی دبی سی سسکیاں سنائی دیتی تھیں ۔۔ ہمیشہ گھٹ گھٹ کر جینے والی صفہ آج بھی اپنی سسکیاں کو گلا گھوٹنے کی ناکام کوشش میں مصروف تھی ۔۔وہ ایک جہنم سے نکال کر۔اُس سے برے جہنم میں دھکیلی جانے والی تھی ۔۔۔!! صفہ نے بچپن سے ماں سے یہی سنا تھا ۔۔ کہ االلہ پاک کبھی اپنے پیارے بندوں کو تنہا اور بے آسرا نہیں چھوڑتا۔۔ایک عزم کے ساتھ اپنے لگاتار بہتے ہوئےآنسوؤں کو پونچھتے ہوئے وہ اٹھی ۔۔اب اپنی بقا کی جنگ اسے خود ہی لڑنی تھی ۔۔‘‘
سوات کے آرمی آفیسرز کالونی کے اس گھر میں مکین ابھی فجر کی نماز کے لیئے اٹھنا ہی شروع ہوئے تھے ۔جب کسی نے مین گیٹ بہت زور سے لگاتار بجایا ۔تیمور خان طونک کر گیٹ کی طرف بڑھے۔ مگر اُن ست پہلے ہی انکابڑابیٹا التمش دروازے تک پہنچ چکا تھا صاحبزادے کی اِس بہادری اور دلیری پر انہیں ہلکا سا تاؤ آیا ۔۔ جو اِس وقت یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور میں ۔۔ سوفٹ ویئر انجینئرنگ کا سٹوڈنٹ تھا ۔۔اور چھٹیوں میں گھر آیا ہوا تھا ۔۔التمش گیٹ کا قفل کھولتے ہی کرنٹ کھا کر پیچھے ہٹا ۔۔ابھی پُو پوری نہیں پھٹی تھی ۔۔اور ہر طرف ملجگے سے اندھیرے کا راج تھا۔ علی الصبح کی اِس مدھم سی روشنی میں ۔۔اسے دوسری جانب ایک لڑکی کھڑی نظر آئی تھی ۔۔ جس نے اپنا چہرہ نقاب سے ڈھانپا ہوا تھا ۔۔التمش نے مڑ کر اچھنبے سے باپ کو دیکھا ۔۔مگر تب تک وہ لڑکی بہت تیزی کے ساتھ گھر کی دہلیز پار کر کے اندر آچکی تھی۔۔ تیمور خان کو اُسے پہچاننے میں ۔۔سیکنڈ بھی تو نہیں لگے تھے ۔۔تو تیزی سے آگےبڑھے۔۔ 
التمش اپنی جگہ ساکت ہکا بکا کھڑا تھا ۔۔ وہ لڑکی اُس کے باپ کے سینے سے لگی اب لگاتار آنسو بہا رہی تھی ۔۔ مین گیٹ بندکر کے وہ گھوم کر دوسری طرف آیا ۔۔لڑکی کے چہرے سے نقاب ہٹ چکا تھا ۔ وہ اُس کے چاچا کی بیٹی ۔۔صفہ تھی۔۔پانچ ،چھہ برس قبل التمش نے اُسے ۔۔اپنی چاچی صفیہ کی وفات پر دیکھا تھا ۔۔ تب وہ بہت چھوٹی تھی۔۔ مگراب جو لڑکی اُس کے سامنے کھڑی ۔۔
دھواں دار آنسو بہا رہی تھی ۔۔وہ ایک بھر پور جوان لڑکی تھی ۔۔ جس نے ماشاء االلہ بہت اچھا قد کاٹ نکالا تھا۔۔تیمورخان صفہ کو اپنے بازوؤں میں سنبھالے اندر لیکر گئے تب تک گھر کے باقی افراد بھی جاگ چکے تھے ۔۔یہ اس وقت۔۔اکیلی گل بی بی نے بہت حیرت سے بند گیٹ کی طرف دیکھا ۔۔کہ شاید اُس کے ساتھ کوئی آیا ہو۔۔ تیمور خان نے التمش کو ہاتھ کے اشارے سے پانی لانے کا اشارہ کیا ۔۔ بہت دیر بعد ۔کچھ پُر سکون ہوکر ۔۔گل بی بی کے سینےسے لگی صفہ نے رک رک کر سب کو اپنی داستانِ الم سنائی ۔۔تو کرنل تیمور خان کا چہرہ غصے اور ندامت۔۔کچھ اور جھکا ہواتھا ۔۔
انکا بڑابھائی ۔۔جاہل۔ اجڈ اور گنوار تو تھا ہی ۔۔مگر وہ اس حد تک بے غیرت بھی ہوگا ۔۔اسکا اندازہ انہیں نہیں تھا ۔۔!!
                                    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


کرنل تیمور خان نے اپنی رسٹ واچ پر ایک اچٹتی نظر ڈالی۔۔دوپہر کا ڈیڑھ بج رہا تھا ۔۔ وہ لنچ پر گھر جانے کے لیئے اٹھے ہی تھے کہ فون کی بیک بجی ۔۔ ہیلو ۔۔ اور دوسری طرف سے آ نے والی آواز کو شناخت کرنے میں ۔۔انہیں کوئی دشواری نہیں ہوئی تھی ۔۔۔ وہ بلا شبہ جمال خان ہی تھا ۔۔ صفہ کی گمشدگی کو ایک ہفتہ ہو چکا تھا ۔۔ جمال خا ن اور اُس کے بیٹوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ جس ۔۔ لڑکی کو انہوں نے پاؤں کی جوتی بنا کے پالا ہے ۔۔ وہ اتنا بڑا قدم اٹھانے کی جرات کر سکتی تھی ۔۔ کئی روز تک بھوکے شیروں کی طرح وہ گاؤں کے چپے چپے میں اُسے تلاش کرتے رہے تھے۔۔ جمال دو دفعہ کے گھر بھی آیا تھا ۔۔اور بھائی کے انتہائی سرد روئیے نے اُسے باور کرا دیا تھا ۔۔کہ ہو نا ہو صفہ ۔۔تیمور خان کے گھر ہی میں تھی ۔۔ مگر آرمی آفیسرز کالونی ہونے کے باعث وہ کوئی انتہائی قدم اٹھانے سے قاصر تھا ۔۔۔ دوسری طرف بات ختم کر کے جمال خان کال کاٹ چکا تھا ۔۔ اور تیمور خان کڑے تیوروں کے ساتھ ریسیور گھورتے رہ گئے تھے ۔۔ کیا آج کے اِس مادہ پرست دور سے خونی رشتوں کا احترام بلکل ختم ہو گیا ہے ۔۔؟؟ اُن کے پاس صرف دو گھنٹے تھےصفہ یا لاکھوں کی مد میں ایک بڑی رقم انہیں جمال خان کے حوالے کرنی تھی۔۔اس روز صبح ہی التمش یونیورسٹی کے لیئے لاہور روانہ ہوا تھا ۔۔اور اب وہ جمال خان کے قبضے میں تھا ۔۔ منٹوں میں فیصلہ کرکے کرنل تیمور گاڑی کی چابی اٹھا کر ۔۔
 تیزی  سے باہر لپکے ۔۔۔ شام ڈھلے وہ التمش کو بازو سے تھام کر ۔۔اُس خستہ حال گھر سے نکلے ۔۔جس سے اُن کے اپنے بچپن کی بہت سے کھٹی میٹھی یادیں وابستہ تھیں ۔۔ مگر آج وہ ہر یاد کو اسی دہلیز پر دفنائے آئے تھے ۔۔ پھر کبھی واپس نالوٹنے کے لیئے ۔۔
التمش کی حالت کافی دگر گوں تھی ۔۔اسے بری طرح مارا پیٹا گیا تھا ۔۔ یہ زخم چند دن میں مند مل ہو گئے تھے ۔۔ مگر جوگھاؤ۔۔ اُس روز التمش ہی نہیں ۔۔ کرنل تیمور کو بھی لگے تھے ۔۔ انہیں بھرنے میں ایک لمبا عرصہ لگنا تھا ۔۔ یہ سب کچھ التمش اور تیمور خان کے درمیان ہمیشہ راز ہی رہتا ۔۔ اگر صفہ ۔۔اک روز التمش کی ڈائری نا پڑھ لیتی ۔۔۔!!
                                                   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


بھابھی ۔۔ کہاں کھو گئیں آپ ۔۔؟؟؟ گل رخ نے صفہ کو پکارا ۔۔ تو وہ ماضی کے دریچے بند کرتے ہوئے ۔۔حال میں لوٹیں۔۔ میں چائے بنواتی ہوں آپ کے لیئے ۔۔ گل ملازم کو آواز دینے ہی لگی تھیں۔۔کہ صفہ نے ہاتھ اٹھا کر انہیں روکا ۔۔ نہیں ۔ابھی میں کچھ دیر آرام کرنا چاہتی ہوں ۔۔ صفہ گلاس سے پانی کے آخری گھونٹ لیتے ہوئے اٹھیں۔۔بھابی ۔۔ کیا آپ کو یوشع کی طرف سے کوئی پریشانی ہے۔۔؟؟ تیمور خان نے پُر مژدہ چہرہ دیکھ کر ۔۔ اندھیرےمیں تیر چھوڑا۔۔ اگرچہ وہ اپنے جینیئس بھتیجے کو بہت اچھی طرح جانتے تھے ۔۔ وہ پرابلمز create کرنے والا نہیں بلکہ انہیں چٹکیوں میں اڑا دینے والی ’’ مخلوق ‘‘ تھا ۔۔ یوشع چند دن میں کیلیفورنیا جا رہا ہے ۔۔اپنےسینیئر ٹیچرز کے ساتھ ۔۔ وہاں انٹر نیشنل کانٹیسٹ کے لیئے اسکا ریسرچ پیپر اسکی۔۔ یونیورسٹی نے بھیجا ہے۔۔ بات مکمل کرتے ہوا ۔۔ صفہ کا چہرہ ہنوز جھکا ہوا تھا ۔۔ تو بھابھی اِس میں اتنی پریشانی کی کیا بات ہے ۔۔ ہمارا یوشع تو ماشاء اللہ ہر سال ہی ایسے کانٹیسٹ جیتتا آیا ہے ۔۔ آپ آرام کیجئےمجھے آپ کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی۔۔ افراسیاب نے صفہ کو آفر کی ۔۔ تو وہ کچھ بولے بغیر ۔۔ اٹھ کھڑی ہوئیں ۔ چند ثانیےکے لیئے تیمور اور گل رخ کی نگاہیں ملیں ۔۔جن میں فکر مندی تھی ۔۔!!!
صفہ نے کمرے میں پہنچ کر ۔۔ اپنا سیل چیک کیا ۔۔ حسبِ عادت یوشع کا گڈ ایوننگ مام کا مسیج آیا ہوا تھا ۔۔ انہوں سیل سائلنٹ پر ڈال کر تکیے پر سر رکھا ۔۔جو کسی پھوڑ ے کی طرح دکھ رہا تھا ۔۔ التمش اور یوشع ۔۔ انکی زندگی کا سرمایہ ۔۔انکی عزیز ترین ہستیاں تھیں ۔۔ سونے جاگنے کی کیفیت میں۔۔ صفہ کہیں بہت دور ماضی کی خوشگوار یادوں میں کھوتی چلی گئی ۔۔۔
                                                     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


کیلیفورنیا میں اُن کے چھوٹے سے خوبصورت گھر کی اوپری منزل پر ایک کمرہ التمش کی سرگرمیوں کے لیئے مختص تھا۔۔وہ روبوٹس بنانے والی ایک ٹاپ کی بین الاقوامی کمپنی ’’ بوسٹن ڈائنامکس‘‘ میں روبوٹک انجینئرنگ کے ایک خاص پراجیکٹ پر کام کر رہا تھا ۔۔سو آفس سے واپس آکر بھی اُس کا زیادہ تر وقت ۔۔اوپر کی منزل میں اپنی لیبارٹری میں ہی گزرتا تھا ۔۔ صفہ کو ننھے یوشع نے گھن چکر بنایا ہوا تھا ۔۔ جس قدر تیزی کے ساتھ وہ بڑا ہو رہا تھا ۔۔ اُس سے کہیں زیادہ تیزی کے ساتھ وہ  سیکھتا ۔۔ سمجھتا او ر کیچ کرتا تھا ۔۔سو التمش اپنا روم اب لاکڈ ہی رکھتا تھا ۔۔ روبوٹس بنانے کے لیئے ابتدا ہی سے کمپیوٹر ایڈڈ ڈیزائننگ استعمال کی جاتی ہے ۔۔التمش کئی روز سے اپنے روبوٹ پرا جیکٹ کے Human facial replicationپر اٹکا ہوا تھا ۔۔ جب صفہ نے اُسے پاکستان سے فون آنے اطلاع دی۔وہ اپنا کام ویسے ہی چھوڑ کر نیچے لپکا ۔۔۔ کام کی مصروفیات کے باعث کوئی دس دن سے گھر رابطہ نہیں کر سکا تھا ۔۔آدھے گھنٹے تک ۔۔ گھر بھر سے بات کرنے کے بعد صفہ کو اچانک ۔۔اپنے ننھے جن کا خیال آیا ۔۔ جو تھوڑی دیر پہلے ۔سامنےصوفے پر بیٹھا تھا ۔۔ دونوں ایک ساتھ اوپر کمرے کے طرف لپکے ۔۔اور اُن کی توقع کے عین مطابق ۔۔یوشع خان باپ کی کمپیوٹر چیئر سنبھالے ۔۔ کسی فلاسفر کی سی سنجیدگی سے ۔۔ سکرین میں گم تھے ۔۔ جو جلدی میں جاتے ہوئے ۔۔التمش آن چھوڑگیا تھا ۔۔التمش نے ہاتھ کے اشارے سے صفہ کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا ۔۔اور خود دبے قدموں ۔کمپیوٹر چیئر کے پیچھے جا کھڑا ہوا ۔۔یوشع نے ایک دفعہ مڑ کر باپ کو دیکھا ۔۔ التمش نگاہ شناس تھا ۔۔ اِ ن ننھی آنکھوں میں۔۔ بجلی کی سی چمک تھی ۔۔






اُس روز کے بعد سے یوشع خان کا سارا وقت چھوٹے چھوٹے کھلونا روبوٹس بنانے میں گزرتا ۔۔ سکول کی پڑھائی اُس کےلیئےبائیں ہاتھ کا کھیل تھی ۔۔ اُن کے گھر کے ایک کونے میں ایک ۔۔اور روبوٹ لیبارٹری وجود میں آچکی تھی ۔۔ التمش اسے ہر طرح کی سہولیات فراہم کرکے ابھی سے گروم کر رہا تھا ۔۔!!پانچ سال کی عمر میں یوشع خان نے اپنی زندگی کے پہلے روبوٹ کانٹیسٹ میں حصہ لیا تھا۔یہ یونیورسٹی آف روک فورڈ کی طرف سے انڈر ۱۴ کی لیئے ایک بین الاقوامی مقابلہ تھا ۔۔ التمش کی ذاتی اور یوشع کی سکول انتظامیہ کی کوششوں سے اُسے سپیشل پاس ملا تھا ۔۔جس میں سٹوڈنٹس نے اپنے ہوم میڈ روبوٹس ۔۔ پیش کیئے تھے ۔۔اور یوشع خان ۔۔دوسرا انعام حاصل کرنے والادنیا کا کم عمر ترین بچہ تھا ۔۔ پانچ سال کی عمر میں اُس نے آئی ٹی کی دنیا میں اپنی غیر معمولی صلاحیتوں سے دنیا کو اپنی جانب مبذول کروایا تھا ۔۔اور اُس کے بعد ۔۔ہر سال مختلف فورمز۔۔ پر یہ نام کسی نا کسی حوالے سے زیرِ بحث رہا تھا ۔۔!!
اور اب ۲۱ برس کی عمر میں ۔۔یوشع خان اپنی زندگی کا ایک اور سنگِ میل عبور کرنے کو تھا ۔۔‘‘
                                  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


کسی آہٹ پر صفہ نے کسلمندی سے آنکھیں کھولیں۔۔ شام ڈھلنے کو تھی ۔۔ماضی کی سنہری یادوں نے جیسے دل پر پڑےبھاری پردوں کو سرکا دیا تھا ۔۔آہستہ سے کمبل ہٹا کر بیڈ سے اتریں ۔۔سامنے انکا سامان ترتیب سے رکھا تھا ۔۔ یوشع آگیا ۔۔شال اپنے گرد لپیٹتے ہوئے وہ لاؤنج تک آئیں ۔۔مسلسل بارشوں کے باعث موسم کافی سرد ہو گیا تھا ۔۔اور اس وقت بھی باہر ۔۔گہرے بادلوں کا راج تھا ۔۔ جو کسی وقت بھی برسنے کو تلے بیٹھے تھے ۔۔صفہ چھوٹے چھوٹے قدم دھرتی لان تک آئیں ۔۔سب ہی جمع تھے ۔۔ افراسیاب ، گل رخ۔۔ یوشع اور افراسیاب کی بیٹی عنایہ۔۔ لیجیے مما بھی آگئیں ۔۔ یوشع نے ماں کو دیکھتے ہی نعرہ لگایا ۔۔
عنایہ تیزی سے اٹھ کر ۔۔صفہ کے گلے لگی ۔۔ وہ یوشع سے تین سال چھوٹی تھی ۔۔اور غلام اسحاق خان انسٹیوٹ ہی میں ۔سوفٹ ویئر ا نجینئرنگ کے پہلے سال میں تھی ۔۔ ا فراسیاب کا بیٹا سروش پاک آرمی میں کیپٹن تھا ۔۔بھابھی کیسی طبیعت ہے اب آپ کی ۔۔؟؟ گل رخ نے پوچھا تو یوشع نے ایک گہری نظر ماں کے ستے ہوئے چہرے پر ڈالی۔۔اُسکی بے انتہا ذہین۔۔ زیرک نگاہیں۔۔ لمحوں میں عار پار دیکھنے کی صلاحیت رکھتی تھیں ۔۔چاچی ۔۔اب آپ بہت سارےدن ہمارے پاس ہی رہنا ۔۔ عنایہ نے لاڈ سے صفہ کی گردن میں بانہیں ڈالیں ۔۔ارے ارے ۔۔دیکھ کر ۔۔بیچاری میری کمزور سی مما ہیں ۔۔ تھوڑا کم وزن ڈالو موٹی ۔۔یوشع نے عنایہ کی فربہی پر چوٹ کی۔۔ آپ اپنی آنکھیں ٹیسٹ کروائیں اچھا ۔۔عنایہ کو حسبِ توقع شدید طیش آیا ۔۔yashire cat۔۔ چاچی اِسے کم کھلایا کریں۔۔دیکھیں ساری چیزیں یہ اکیلی چٹ کر گئی ہے ۔۔ مما کے لیئے کچھ بھی نہیں ۔۔ چھوڑا ۔۔ یوشع نے لوہا گرم دیکھ کر اُسے مزید تپایا ۔۔
گل رخ نے چونک کر سامنے ٹیبل پر دھرے چائے کے لوازمات کو دیکھا ۔۔ سموسے۔ کباب۔ بسکٹس ۔۔کیک ۔۔واقعی۔۔ساری پلیٹیں صاف ہو چکی تھیں ۔۔عنایہ ۔۔ گل نے ایک ملامت بھری تنبیہی نظر سے ۔۔ اسے گھورامما ۔۔ یہ سب میں نے اکیلے نہیں کھایا ہے ۔۔ عنایہ نے منہ بسور کر اپنی صفائی پیش کی ۔۔جی چاچی ۔۔ بس دس بسکٹس ۔۔ ۶ سموسے۔۔ اور ۸ کباب اِ س نے کھائے ہیں ۔۔ باقی سب کچھ ہم نے کھایا ہے ۔۔یوشع کےلبوں پر بڑی تاؤ دلانے والی مسکراہٹ تھی ۔۔
عنایہ غراتی ہوئی ۔۔یوشع کی طرف لپکنے کو تھی ۔۔ کہ اُس سے پہلے ۔۔صفہ نے آگے ہو کر یوشع کا کان کھینچا ۔۔کیوں میری بچی کو تنگ کیئے جا رہے ہو ۔۔؟؟؟ارے نہیں بھابھی ۔۔ یوشع ٹھیک کہہ رہا ہے ۔۔ آپ دیکھیں عنایہ نے جب سے یونیورسٹی جوائن کی ہے ۔۔ یہ دن بدن فربہ ہوتی جا رہی ہے ۔۔ گل کی آواز میں خالص ماؤں والی تشویش تھی ۔۔جی بلکل چاچی ۔۔ اور اگر اِس کا یہی حال رہا تو ۔۔ بی ایس ۔۔کے کانوکیشن پر اِسے کرین میں ڈال کر لیجانا پڑیگا ۔ یوشع کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی ۔۔عنایہ کسی جنونی بلی کی طرح غراتی ہوئی اُس کی طرف لپکی ۔۔ مگر یوشع بھی الرٹ تھا ۔۔ اُسکے تیور دیکھ کر وہ پہلے ہی دوڑ لگا چکا تھا ۔۔پھر بہت دیر تک لان میں چکر کاٹ کر ۔۔وہ اندر لاؤنج میں پہنچے ۔۔ یوشع اسے اوپر نیچے ۔۔ بھگاتا رہا ۔۔ قدرے فربہی ۔۔مائل عنایہ کی اچھی خاصی ایکسرسائز کروا کر قہقہے لگاتا ہوا ۔۔ جب وہ واپس لان میں آیا ۔۔ تو موٹی موٹی بوندیں برسنے لگی تھیں ا فراسیاب اور صفہ اندر جانے کے لیئے تیزی سے اٹھے ۔۔ مگر یوشع وہیں کھڑا بھیگتا رہا ۔۔
تڑ تڑ تڑ ۔۔ بوندیں موسلا دھار بارش میں ڈھلیں ۔۔ صفہ نے لا ؤنج سے اُسے آوازیں لگائیں ۔۔ تو وہ برے برے منہ بناتاہوا ۔۔ اندر آیا ۔۔ خبردار ۔۔ جو اپنے گندے جوتے لیکر ہمارے گھر کے اندر آئے ۔۔ سامنے صوفے پر لال بھبھوکا چہرہ لیئے بیٹھی عنایہ وہیں سے چلائی ۔۔
یو شع نے ایک نظر اُس پر ڈال کر بہت گہری مسکراہٹ کے ساتھ اطمینان سے جاگرز اتارے ۔۔ عنایہ آنکھیں پھاڑ کراس کی ساری کاروائی دیکھتی رہی ۔۔ یوشع اور اتنا فرمانبردار ۔۔لیکن جب یوشع اُس سے کچھ فاصلے پر صوفے پر جا کربیٹھا ۔۔ تو وہ دوبارہہ منہ پھلا کر ۔۔ لا تعلق سی بنی ۔۔ ریموٹ سے ٹی وی چینلز بدلتی رہی ۔۔
چیشائر کیٹ ۔۔ چلو دوستی کرلو ۔۔ یوشع نے کچھ دیر انتظار کرکے سیز فائر کا اعلان کیا ۔۔ صرف ایک شرط پر ۔۔عنایہ نے ایک ترچھی نظر اُس پر ڈالی ۔۔
ایک نہیں ۔۔دس منوالو ۔۔ یوشع نے جیسے ہاتم طائی کی قبر پر لات ماری ۔۔ تو عنایہ اپنی گود میں رکھ ریموٹ ایک طرف پھینکتے ہوئےتیزی سے اپنے روم کی طرف بھاگی ۔۔ یوشع نے آگے ہوکر ریموٹ اٹھایا ۔۔ اور مزے سے چینل بدلنےلگا ۔۔ اُسے معلوم تھاعنایہ کو اپنی کسی اسا ئنمنٹ ۔۔ کسی پراجیکٹ کے لیئے مدد چاہیئے ہوگی ۔۔ وہ اکثر یونیورسٹی میں بھی وقت بے وقت۔۔ اسکا سر کھاتی رہتی تھی ۔۔۔ 
آدھے گھنٹے بعد ۔۔ جب صفہ اور گل رخ ۔۔ کچن سے رات کے کھانے کی تیاری کر کے نکلیں ۔۔ تو بارش کچھ اور تیز ہوچکی تھی۔۔اور یوشع اور عنایہ ۔۔دنیا سے بے خبر ۔۔اپنے لیپ ٹاپ میں گم تھے ۔۔۔!!!
                                                                                           
                                                                                                                        (جاری ہے) 
                                                   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    Next episode Coming soon

 بلاگ پر کمنٹ سیکشن پر کمنٹ کیجیے اور اپ ڈیٹس چیک کرتے رہیئے ۔۔

Share on Google Plus

About Unknown

0 comments:

Post a Comment