WELCOME TO MELTED TRUTHS

All Truths are easy to understand once they are discovered;the point is to discover them.(Galileo Galilei)

"دوام " قسط نمبر3 The Eternity




" دوام "
      An inspirational and alluring tale of a Scientist's love to her                                                " Homeland "







تیسری قسط

)دوسراباب(


The Disaster...

Through many hearts are breaking

And many tears are shed

So many houses broken
Too many people dead.
GOD summoned his angels
Sent them to the disaster zone
To deliver their tiny perfect wings
So they did not travel alone
(Sally)
بہت سارے دلوں کو توڑتا 
بہت سے اَشکوں کو بہاتا 
لاکھوں گھروں کو تباہ کرتا ۔۔
ہزاورں جانوں سے کھیلنے کے بعد۔۔
طوفان تھم چکا ہے ۔۔۔!!خدا نے اپنے فرشتوں کو حکم دیا 
کہ اُس مقام پر جا ؤ۔ اور۔۔ 
مصیبت میں گھرے لوگوں کو 
اپنے مضبوط پروں کی پناہ میں لے لو
تاکہ آفت سے لڑتے لڑتے 
وہ تنہا نہ رہ جائیں ۔۔۔!!!                                           ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیا سمیسٹر ، نئے سبجیکٹس ،نئے چیلنجز۔۔۔ منتہیٰ اِن سب سے نمٹنے کے لئے بھرپور توانائی کے ساتھ تیار تھی ۔۔ ۔جس کی ابتداریسرچ سینٹر کے ڈسکشن پارٹ ٹو سے ہوئی تھی۔۔ ایک دفعہ پھر وہ سب کیل کانٹوں سے لیس ایک دوسرے کے مدِ مقابل تھے ۔۔ سپار کو سینئرز نے بات کا آغاز کرتے ہوئے ۔۔ بال ارمان کے کورٹ میں ڈالی !!
مسٹر ارمان آپ لوگوں کے سمیسٹر امتحانات کے باعث یہ عرصہ کچھ طویل ہو گیا ۔۔ میرا خیال ہے کہ اب تک اپنے پراجیکٹ کے متعلق آپ کوئی حتمی فیصلہ کر چکے ہونگے۔۔؟؟؟
ارمان نے کھنکار کر گلا صاف کیا ، جی سر ہم نے دو ماہ میں ہر زاویئے سے پراجیکٹ کا مکمل جائزہ لیا ہے اور اُس کے بعد ہم اِس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ۔۔ارمان نے ایک لمحے کو رک کر سب کے چہروں کو باری باری دیکھا ۔۔
اگر ہم واقعی قدرتی آفات سے نہتی لڑتی عوام کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے طور پر ایک کیمپین کا آغاز کرنا ہوگا ۔۔
جہاں حکومتیں نا اہل ہوں وہاں پھر عوام ہی میں سے کچھ لوگ اٹھ کر لوگوں کی مدد کرتے ہیں ۔ ہم کوئی نئی NGOبنانے نہیں جا رہے بلکہ ہم ایک ایسی تحریک کا آغاز کرنے جا رہے ہیں جو آج بہت سوں کو ایک دیوانے کی بَڑ معلوم ہوگی ۔۔ لیکن مجھےیقین ہے کہ اگر ہماری لگن سچی ہے۔ توہم بہت کچھ نہ سہی اپنی عوام کے لئے کچھ نہ کچھ ضرور کر لیں گے ۔ ارمان کا لہجہ دھیما مگرپُر عزم تھا ۔۔!!!۱
ڈسکشن روم کے پن ڈراپ سائیلنس کو ڈاکٹر عبدالحق اور ڈاکٹر حیدر خان کی مدہم سی تالیوں کی آواز نے توڑا !!مسٹر ارمان مجھے آپ سے یہی توقع تھی، آج کا ہر نوجوان اگر انفرادی طور پر اِسی جذبے سے سرشار ہو تو کوئی شک نہیں کہ ہم گورنمنٹ کے تعاون کے بغیر اپنے ہم وطنوں کی تقدیر بدل سکتے ہیں ۔ ڈاکٹر عبدالحق کے لہجے میں ارمان کے لئے ستائش تھی 
شہریار نے گردن اُونچی کر کے منتہیٰ کو دیکھا ۔۔جو بدستور سپاٹ چہرے کیساتھ ہاتھ کی انگلیوں میں ڈیٹا ٹر یولر گھما رہی تھی ۔۔مس دستگیرَ اب تو آ پ کو ہمارے پراجیکٹ پر کوئی خاص اعتراض نہیں رہا ہوگا ؟؟ وہ پو چھے بنا نہ رہ سکا 
یو نو مسٹر ، کہ اِس دنیا میں پرفیکٹ صرف خدا کی ذات ہے۔۔ باقی ہر شے میں خامیاں بھی ہیں اور نقائص بھی ۔۔ پہلے بھی میرا مقصد آپ کے پراجیکٹ میں کیڑے نکالنا یا رخنے ڈالنا ہر گز نہیں تھا ۔۔میں صرف یہ چاہتی تھی کہ ایک مکمل ریموٹ سینسنگ سسٹم اِس طرز پر تیار کیا گیا ہے تو اِ س سے عوام کو ریلیف بھی ملے ۔۔ منتہیٰ کا لہجہ سخت تھاسر میں نے ایک پریزینٹیشن تیار کی ہے میں آ پ لوگوں کو دکھانا چاہوں گی۔۔ اُس نے اجازت طلب کی کپمین کے لئے کئی ہفتوں کی محنت سے تیار کی گئی پریزینٹیشن کا پہلا بنیادی نکتہMatigation تھا یعنی سسٹم کے ذریعےسائنٹیفک بنیادوں پر قدرتی آفات کی زد پر رہنے والے علاقوں کا مکمل سروے ۔۔ نمبر۲Risk assessmentاِن علاقوں کو لاحق خطرات کی بروقت تشخیص ۔۔ نمبر ۳ ایک ایسی باقاعدہ مہم جس کے ذریعے اِن علاقوں کی عوام کو خطرات سے آگاہ کر کے ڈیسازٹر سے اَزخود نمٹنے کی ٹریننگ دیجائے ۔۔۔ نمبر ۴ ریکسکیو سینٹر ز کا قیام اور ان میں ٹریننگ کے لئے مقامی افراد کی بھرتی۔۔ جس سے انہیں بڑے پیمانے پر روزگار کی سہولیات دستیاب ہونگی ۔۔۔ نمبر ۵ اِن علاقوں خاص طور پر نادرن ایریازمیں بڑ ھتی ہوئی انتہا پسندی پر قابو ۔۔ کیونکہ ڈیسازسٹر سے نفسیاتی طور پر متاثر بے روزگار نوجوانوں کو پاکستانی اور افغان طالبان گروپ بڑے پیمانے پر دہشت گردی کے لئے استعمال کر رہے ہیں ۔۔۔!!!تقریباٌ آدھے گھنٹے کی پریزینٹیشن نے کانفرنس روم میں موجود ہر شخص کو متاثر کیا تھا ۔۔ حتیٰ کے تھوڑی دیر پہلے اُس سے چڑےبیٹھے شہریار نے بھی تالیاں بجا کر بھرپور داد دی تھی ۔۔
ویل مس منتہیٰ!! میں چاہونگا کہ آپ اِس پریزینٹیشن کی ایک کاپی مجھے اور سپارکو آفیسرز کو بھی دیں ،ارمان نے بات کرنے میں پہل کی ۔۔!!جی ضرور مجھے کوئی اعتراض نہیں۔۔ منتہیٰ نے بنا پس و پیش ڈیٹا ٹریولر ارمان کی طرف بڑھایا ۔
۔۔۔ guyz you are playing wellایک ہفتے بعد پھر میٹنگ رکھتے ہیں ۔۔ آفیسرز کو کسی کام سے جانا تھا ۔۔سو وہ تیزی سے الوداعی کلمات کہتے ہوئے جا چکے
تھے اور انکے پیچھے منتہیٰ بھی ۔۔۔۔’’ وہ آج بھی فاتح لوٹی تھی ۔۔۔‘‘‘                                                ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مکمل تیاریوں کے ساتھ ٹھیک ایک ہفتے بعد وہ سپارکو کے ریسرچ سینٹر کے پلیٹ فارم سے زمین کو بچاؤ 
(Save the earth) 
تحریک کا آ غاز کر رہے تھے جسکا ایجنڈہ اور مقاصد ارمان یوسف نے منتہیٰ کی پریزینٹیشن کی مددسے خود تحریر کئے تھے ۔۔
ابتدائی طور پر اس کمپین میں شمولیت اختیار کرنے والوں میں ریسرچ سینٹر کے آفیسرز اور عملہ ،LUMS اور پنجاب یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس اور ٹیچرز شامل تھے ۔۔ کمپین ہیڈ ارمان یوسف کی ابتدائی تقریر مختصر لیکن مدلل تھی ۔۔ وہ ایک اچھا مقرر تھا !!لگ بھگ چھ ماہ پہلے جب ہم نے ریموٹ سینسنگ پر اپنے پرا جیکٹ کا آغاز کیا تھا ۔۔تو ہمارا مقصد صرف اور صرف سمیسٹر کا پراجیکٹ پورا کرنا تھا ۔۔ ۔لیکن اس دوران اکتوبر میں آنے والے ایک خوفناک زلزلے نے ہماری توجہ ڈیسازسٹر مینجمنٹ کی طرف مبذول کروائی ۔کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ اگر آپکی نیت صاف ہو تو پھر راستے کے پتھر کچھ معنی نہیں رکھتے ۔۔ اللہ پاک کی بھر پور مدد ہمارے ساتھ تھی سو چند ہی ماہ میں ہمارے پراجیکٹ کو لمس سے سپارکو تک بوسٹ ملا ۔۔میں سپارکو کے سینئر آفیسرزاور مس منتہیٰ دستگیر کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں کہ انہوں نے ایک رفاحی تحریک کی جانب ہماری راہنمائی کی ۔۔۔ میں جانتا ہوں کہ جو کام ہم شروع کرنے جا رہے ہیں وہ قطعاٌ آسان نہیں ہمارے پاس وسائل کم ہیں اور مسائل بے پناہ ۔۔۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ آج تک وہی تحریکیں کامیابی سے ہمکنار ہوئی ہیں جن کی ابتداء چھوٹے پیمانے پر بہت کم وسائل کیساتھ کی گئی ۔۔
فائیوسٹار ہوٹلوں میں سیاستدانوں اور بزنس مینز کے آشیرواد سے جنم لینے والی این جی اوز صرف فائلوں یا بینک اکاؤنٹس تک محدود رہتی ہیں۔۔ جن کے اکاؤنٹس میں جمع کی جانے والی چیریٹی دراصل وہ کالا دھن ہے جو ہمارے سیا ستدان عوام کا خون چوس کر حا صل کرتے ہیں۔۔۔ ان این جی اوز کے سائے تلے جو گھناؤنے کھیل ۔۔کھیلے جارہے ہیں وہ اب عوام کی نظروں سے پوشیدہ نہیں رہے ۔۔۔!!!کسی بھی ڈیسازٹر سے نمٹنے کے لئے اپنی شرائط پر امریکہ اور یورپ سے ملنے والی گرانٹ دراصل بھیک کے وہ ٹکڑے ہیں جوعیاش اپنی من مانیاں جاری رکھنے کے لیئے اپنے کتوں اور کمیوں کے آ گے ڈالتے ہیں ۔۔ اور ہمارے بے ضمیر ، ننگِ انسانیت حکمران۔۔ اُسے من و سلویٰ سمجھ کے قبول کرتے ہیں ۔۔۔!!!                                      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


فاریہ کی انگلیاں کٹھا کھٹ لیپ ٹاپ پر بزی تھیں اور شرارتی چہرے کا اتار چڑھاؤ گواہ تھا کہ محترمہ کوئی کارنامہ سرانجام دینے میں مصروف ہیں ۔۔۔ مینا نے ایک آدھ بار گھور کر اسے دیکھا پھر اپنے کام میں مصروف ہوگئی ۔۔۔ 
یاہووووو!!!! کا نعرہ لگاتے ہوئے فاریہ نے اپنا لیپ ٹاپ بیڈ پر پھینکا اور مینا کے بیڈ پر چھلانگ لگائی ۔۔۔ اس بلائے ناگہانی پر منتہیٰ کے ہاتھ سے کپ گرتے گرتے بچا ۔۔ اور کافی اسکے کپڑوں پر چھلکی ۔۔
فاریہ تم انسان کب بنو گی ؟؟ منتہیٰ اپنے کپڑے جھاڑتے ہوئے گرجی 
پتا نہیں ۔۔۔ فاریہ نے مینا کی نقل اتاری
تو پتا کرو جا کے۔۔۔ مینا نے اسے بیڈ سے دکھا دیا 
تم بھی کمال کرتی ہو لڑکی ۔!! کیا اپنے بیڈ پر جا کر مجھے پتا لگ جائے گا کہ میں انسان کب بنو گی ۔۔ فاریہ نے دانت نکالے
ہاں گوگل کرلو ۔۔ مینا نے جواباٌ اسے آنکھیں دکھائیں
اُف!!! تم نے مجھے بھلا ہی دیا ۔۔ میں اتنے مزے کی بات بتانے لگی تھی 
لزانیہ یا لوبسٹر ۔۔؟ جھٹ سوال آیا 
اُف۔۔ کھانے کی بات نہیں کر رہی ۔۔ پتا ہے ارمان بھائی نے مجھے اور اَرحم تنویر کو سیو دی ارتھ کی سوشل میڈیا کمپین کا ہیڈ بنایا ہے ۔۔۔فاریہ خوشی سے چہکی 
واٹ!! مینا چونکی واؤ ۔۔یار کتنا مزا آئے گا نہ۔۔ !! ہمیشہ کی طرح فاریہ اوور ایکسائیٹڈ تھی 
کسی والنٹیر موومنٹ کی سوشل میڈیا کمپین ایک بڑی بھاری ذمہ داری ہوتی ہے تمہیں یقین ہے کہ تم یہ نبھا سکو گی ۔ ؟منتہیٰ فاریہ کی لا اُبالی طبیعت سے واقف تھی ۔۔
ہاں میں اب اتنی بھی نکمی نہیں ہوں ۔۔ فاریہ نے منہ بسورا
تم بلکل نکمی نہیں ہو میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہماری ساری پاور یوتھ ہوگی ۔۔جسے ایک پلیٹ فارم پر لانے کا بہترین ذریعہ سوشل میڈیا ہے ۔۔ ہمیں نیو آ ئیڈیاز اور ریفارمز متعارف کروانا ہونگی ۔۔!!وہ تو ہے ۔۔ ابھی تو آ غاز ہے یقیناٌ ہم سب ملکر بہت کچھ کریں گے ۔۔ نئے لوگ آئیں گے تو نئے آئیڈیاز بھی آتے رہیں گےاوکے بیسٹ آف لک ۔۔ منتہیٰ نے خلافِ عادت مسکرا کر اسے سراہا ۔۔ 
تھینک یو ۔۔ ہاں یاد آیا ، ارمان بھائی کہہ رہے تھے کے ہر ویک اینڈ پر میٹنگ ہوا کرے گی۔۔ جس میں سب کو شریک ہونا ہوگاآئی نو دیٹ ۔۔ ویسے یہ مسٹر ارمان تمہارے بھائی کب سے ہوئے ؟؟ 
لو اتنے ڈیسنٹ اور گریس فل سے تو ہیں ۔۔ مجھے اتنا اچھا لگا انکو بھائی کہنا ۔۔ فاریہ نے اسے گھورا 
تمہاری ڈکشنری میں ڈیسنٹ اور گریس فل کی تعریف کافی مشکوک لگتی ہے ۔۔!!!مینا نے منہ بنایا
میری ڈکشنری بلکل ٹھیک ٹھاک ہے تم اپنی آ نکھیں ٹیسٹ کرواؤ ۔۔ ہونہہ۔۔ فاریہ نے اسے کھینچ کر تکیہ مارا جو بیڈ کے سائڈ پر جا کر گرا ۔۔ اور منتہیٰ نے جھٹ اٹھا کر اپنے لیپ ٹاپ کے نیچے رکھا ۔۔۔
سو سویٹ آف یو ۔۔ مینا نے مسکراہٹ کے پھول بکھیرے ۔۔۔!!تم ایک انتہائی ڈفر اور کمینی لڑکی ہو ۔۔فاریہ نے اُسے گھورتے ہوئے اپنا لیپ ٹاپ اٹھایا ابھی اُسے سیو دی ارتھ کے فیس بک پیج کے لئے بہت سا کام کرنا تھا ۔۔۔
                                    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


چلے تھے یار کے مل جائے گی کہیں نہ کہیں 
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل
سیو دی ارتھ STE آ غاز انہوں نے کسی فورس کی طرح ونگ بنا کے کیا تھا ۔۔ارمان یوسف کے پاس غازی ونگ کی کمانڈ تھی جس میں شامل کارکنان کو ہر اول دستے میں رہتے ہوئے میدانِ جنگ میں لڑنا تھا ۔۔ یعنی سیلاب ، زلزلہ ، طوفان یا کسی بھی طرح کی ناگہانی آفت کی صورت میں بر وقت لوگوں کا انخلا اور بعد کی Rehabilitaton میں بھر پور معاونت۔۔۔
منتہیٰ دستگیر کے پاس برین ونگ کی کمانڈ تھی جس کا کام ریسرچ اینڈ آئیڈیاز ڈیویلپ کرنا تھا تاکہ نئی ریفارمز تیزی کے ساتھ متعارف کروائی جا سکیں ۔۔۔ ریموٹ سینسنگ اور جی آئی ایس ونگ کی کمانڈ شہریار جہانگیر اور لمس کے چند بہترین انجینئرز کے پاس تھی ۔۔ جنکا کام سسٹم کو پوری طرح ایکٹو اور اپ ڈیٹ رکھنا تھا ۔۔
سوشل میڈیا ونگ کی کمانڈ فاریہ انعام ، ارحم تنویر اور پنجاب یونیورسٹی کے کچھ سٹوڈنٹس کو سونپ گئی تھی ۔۔ تاکہ مناسب اور تیز رفتار کمپین کے ذریعے زیادہ سے زیادہ کارکنان کی شمولیت ممکن بنائی جا سکے ۔۔
اُنکا سب سے بڑا مسئلہ فنڈز تھے ۔۔ فی الحال سپارکو کے آ فیسرز بھی کچھ انویسٹ کرنے پر آمادہ نہ تھے ۔۔ اپنے طور پر تھوڑی تھوڑی رقم ڈال کر انہوں نے ماڈل ٹاؤن کے ایک بنگلے کی انیکسی کرائے پر لیکر آفس بنایا تھا جہاں وہ اپنی ویکلی میٹنگز ارینج کیاکرتے تھے ۔۔انہیں چیریٹی میں ملنے والی پہلی بڑی رقم ۵ ۱ لاکھ تھی جو ارمان کے کزن صمید نے اپنے ارب پتی باپ کی بہت منت سماجت کر کے حاصل کی تھی ۔۔سو ارمان نے فنانشیل ونگ صمید کو سونپ دی ۔ ۔۔
چند ماہ میں ۲۰ لاکھ کی رقم ۔۔ رزلٹ کچھ اتنا برا بھی نہ تھا ۔۔۔ اب انہیں بھر پور ریسرچ ، مکمل اعداو شمار اور تیاریوں کے ساتھ بالا کوٹ ، دیر، سوات اور اُن سے ملحقہ علاقوں میں جا کر کمپین چلانی تھی ۔۔ڈیزاسٹر ٹریننگ سینٹر بنا کر مقامی افراد کی ٹریننگ شروع کرنا تھی ۔۔۔وہ مختلف کالجز اور یو نیورسٹیز میں سیمینارز اور ورکشاپس کے انعقاد کے لیئے بھی پوری طرح سرگرمِ عمل تھےجس کی ذ مہ داری سوشل میڈیا ونگ کے پا س تھی ۔۔ اِن سب کاوشوں کے ساتھ وہ سب ہی اپنی اپنی سٹڈیز کو بھی ٹف ٹائم دیئے ہوئے تھے ۔۔۔ !!!                                   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ملک غلام فاروق دستگیر نے اپنی عمر کا ایک بڑا حصہ گورنمنٹ کی طرف سے ملے ہوئے گھر میں کاٹا تھا ۔۔ لیکن اچھے وقتوں میں انہوں نے لاہور کے فیصل ٹاؤن ایریا میں ایک ۱۲۰گز کے پلاٹ کی زمین خرید لی تھی ۔۔۔منتہیٰ کولاہور چھوڑتے وقت انہوں نے وہاں گھر کی تعمیر کا آغاز کیا تھا ۔۔۔ جو اب تکمیل کے مراحل میں تھا ۔۔ اُنکا ارادہ تھا کہ ارسہ کے بی ایس سےفارغ ہوتے ہی وہ فیملی کو لاہور منتقل کر دیں گے۔۔ انکی اپنی ریٹائر منٹ میں ابھی چھ ماہ باقی تھے ۔۔
تینوں بہنوں نے مل کر نئے گھر کی سیٹنگ کی ۔۔ اگرچہ منتہیٰ کو اِس طرح کے کاموں سے کوئی خاص دلچسبی نہیں تھی۔۔ پھر بھی باپ کی غیر موجودگی میں اب وہی گھر کی بڑی تھی ۔۔ اپنی چھوٹی بہنیں اُسے ہمیشہ سے ہی بہت عزیز تھیں۔۔
ویک اینڈ پر وہ تینوں ایک ساتھ STE کی ہفتہ وار میٹنگ میں شریک ہوئی ۔۔ اُسکی توقع کے بر خلاف ارسہ نے جی آئی
ایس اور رامین نے غازی ونگ جوائن کی تھی ۔۔۔ 
ارمان اپنے ۳۰ساتھیوں کے ساتھ دیر ، کالام کے بعد اب سوات میں زبردست اویئرنیس کمپین چلا رہا تھا ۔۔ اسکی غیر موجودگی میں ویکلی میٹٹنگس کو کبھی ڈاکٹر عبدالحق ، کبھی منتہیٰ اور کبھی شہریار ہیڈ کیا کرتے تھے ۔۔۔ وہ سب ارمان کی دی ہوئی انفاریشنز پر آگے کی سٹرٹیجی کی منصوبہ بندی کر رہے تھے ۔۔ کہ صرف ۳،۴ روز میں پشاور سے سوات تک اس قدر موسلہ دھار بارشیں ہوئیں کہ پہلے پہل سیلاب سے خیبر پختونخواہ ڈوبا اور پھر یہ شدید سیلابی ریلے آ گے بڑھتے ہوئے پنجاب ، سندھ اور بلوچستان کے ایک وسیع رقبے کو ڈبوتے چلے گئے ۔۔۔ ارمان اور اُس کے ساتھی سیلاب میں بری طرح پھنس چکے تھے ۔۔۔ دو دن بعدانکا لاہور میں ساتھیوں سے رابطہ بحال ہوا ۔۔ اُن کو مزید فورس درکار تھی ۔۔ یہ پہلا موقع تھا جب سیو دی ارتھ کے کارکنا ن نے پاک آرمی کے جوانوں کے شانہ بشانہ سیلاب میں گھرے ہوئے لوگوں کو نکالنے، محفوظ مقامات تک پہنچانے اور اشیائےخوردو نوشت کا انتظام کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔۔۔ !!مختلف ٹی وی چینلز پر سیلاب کی تباہ کاریاں دیکھنے کے بعد وہ سب ایک دفعہ پھر میٹنگ روم میں موجود تھی جس کی سربراہی ڈاکٹر عبدالحق کر رہے تھے۔۔ جو ہونا تھا ہو چکا ۔۔ ہم یقیناٌ ہونی کو نہیں روک سکتے ۔۔مجھے خوشی ہے کہ ارمان یوسف اور باقی کارکنان اِس کڑے وقت میں عوام کی مدد کے لیئے وہاں موجود ہیں۔۔ لیکن ہمیں آئندہ ایسی صورتحال کے لیئے بہتر پلاننگ اور تیاریاں کرنی ہیں ۔۔۔۔!!!مزید پلاننگ اور تیاریاں شروع کرنے سے پہلے ہمیں اپنی غلطیوں کی اصلاح کرنی ہوگی ۔۔پاکستان میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ ہی نہیں ہمارا سسٹم بھی اِن تباہ کن بارشوں کی قبل از وقت وارننگ جاری کرنے میں ناکام رہا ہے ۔۔!!!ہمارا سسٹم پوری طرح الرٹ تھا اور معمول کی مون سون بارشوں کا امکان ہی تھا ۔۔ ۔مگر پھر اچانک موسم میں تغیر ہوا اور پھرصرف۴،۳ روز میں اتنی شدید موسلا دھار بارشیں اس سے پہلے کبھی ریکارڈ نہیں کی گئیں ۔۔۔شہریار نے اپنے سسٹم کا دفاع کیا۔
موسم میں اچانک رونما ہونے والا یہ تغیر۔۔کیا ہارپ کی کسی آ ئیونو سفیئر ہیٹنگ سرگرمی کی نشان دہی نہیں کرتا۔۔؟؟
بلکل ایسا ہی ہوا ہے !! مس دستگیر۔۔ لیکن یُو نو واٹ ۔کہ اس معاملے میں سب ممالک بے بس اور خاموش تماشائی ہیں۔۔
پاکستان کا یہ سیلاب ہی نہیں چند سال پہلے آ نے والا ہیٹی کا تباہ کن زلزلہ ، جاپان فوکو شیما ،اور نیپال کے وہ زلزلے ۔۔جو وسیع انفرا سٹرکچر کی تباہی کا باعث بننے سب یقیناٌ ہارپ کی سرگرمیوں کا نتیجہ تھے ۔۔۔ لیکن حتمی طور پر کسی کے پاس کوئی ثبوت نہیں اور اگر ہو بھی تو کوئی کچھ نہیں کر سکتا ۔۔۔!! ڈاکٹر عبدالحق کا جواب خاصہ مدلل تھا ۔۔ 
یو آر رائٹ سر ۔۔ بے شک ہم انہیں روکنے یا پسپا کرنے کی صلا حیت نہیں رکھتے ۔۔ لیکن ہم ایک ایسا سسٹم ضرور ڈیویلپ کر سکتے ہیں جو ہارپ کی اِن ufo کی کسی بھی علاقے میں موجودگی کو نہ صرف فو ری طور پر ڈیٹیکٹ کر کے وارننگ جاری کرےبلکہ اِن کو analyse کر کے estimate کیا جائے ۔۔کہ انکی سرگرمی سے آ نے والی ناگہانی آ فت کیسی اور کس قدرتباہ کن ہوگی ۔۔ تاکہ فوری طور پر سسٹم کے ذریعے ریسکیو آ پریشن کی ایک سٹریٹیجی ڈیویلپ کی جا سکے ۔۔!!! منتہیٰ دستگیر بیشک ایس ٹی ای کا ۔۔۔برین تھی ۔۔۔!!خیبر سے بلوچستان تک، کروڑوں کی کھڑی فصلیں ، اربوں کے مکانات اور اراضی کو روندتا ہوا ۔اپنے پیچھے تباہی کی خون آ شام داستانیں چھوڑتا سیلاب گزر چکا تھا ۔۔۔ اتھاریٹیز بھی آ ٹا ، دال چاول کے تھیلوں اور خیمے بانٹتے ہوئے فوٹو سیشن کروا کر جا چکی تھیں اورِ نیرو چین کی بانسری بجاتا رہا ۔۔۔رات گئی بات گئی مٹی پاؤ ۔۔۔!!
’’ 
فاتحہ لوگوں کے مرنے پر نہیں بلکہ احساس کے مرنے پر پڑھنی چاہیئے ۔۔ کیونکہ لوگ مر جائیں تو کسی نا کسی طرح صبر آ ہی جاتاہے مگر احساس مر جائے تو معاشرہ مر جاتا ہے ۔۔ اور ہمارے حکمرانوں میں یقیناٌ احساس مر چکا ہے۔۔۔ خدا کا قانون ہے کہ نصیحت سے سبق حاصل کرکے وہی لوگ فلاح پاتے ہیں جن کے دل اور ضمیر زندہ ہوں ورنہ ۔۔ مردوں کا عبرت سے کوئی یارانہیں ہوتا ۔۔۔‘‘‘                          ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


لاسٹ سمیسٹر میں منتہیٰ کی مصروفیات بہت بڑھ چکی تھیں ۔۔ ایک تو Quantum mechanical wavesجیسے مشکل موضوع پر تھیسز کا چیلنج ۔۔ اور پھر ایس ٹی ای کے برین ونگ کی کمانڈ کئی دفعہ ایسا ہوتا کہ وہ ویکلی میٹنگ میں نہیں جا پاتی تھی لیکن اپنی ویکلی ریسرچ ،کوئی نیو آئیڈیا ، یا پریسینٹیشن وہ ارسہ اور رامین کے ہاتھ بھیج دیا کرتی تھی۔۔۔ کمپین میں شمولیت اختیار کرنے والوں کی تعداد اب لاکھوں میں تھی اِس کے باوجود ڈاکٹرعبدالحق سمیعت سب ہی اِس بات کےمعترف تھے کہ ارمان اور منتہی۔۔ دونوں کا متبادل اُن کے پاس اب تک نہیں تھا ۔۔
جس طرح دونوں نے اپنے اپنے ونگ میں کام کرتے ہوئے۔۔ کمپین کو بہت تھوڑے عرصے میں ایک مضبوط فاؤنڈیشن میں ڈھالا تھا۔۔ وہ اُنکی اپنے ہم وطنوں سے سچی محبت کا غماز تھا !!!لیکن صرف منتہیٰ اور ارمان ہی نہیں کئی اور بہت سے ارکان بھی اَنتھک محنت کے ساتھ چھوٹے پیمانے پر شروع ہونے والی اس کمپین کی کامیابی اور استحکام کے لیئے شب و روز مصروفِ عمل تھے ۔۔ایک طرف شہریار جہانگیر اپنے چند ساتھیوں کےساتھ NUST کے ریموٹ سینسنگ ڈیپارٹمنٹ کے تعاون سے اپنے جی آئی ایس سسٹم کو اپ ڈیٹ کرنے میں جان لڑائے ہوئے تھا۔۔ تو دوسری طرف فاریہ ، ارحم اور دیگر اراکین کی زبردست سوشل میڈیا کپمین نے ایس ٹی ای کو بہت کم عرصے میں یوتھ کی ایک ہر دل عزیز تحریک میں ڈھالا تھا ۔۔ اِس کے لوگوز والے شرٹس، کیپس یہاں تک کے بیگز اور مگزتک مارکیٹ میں آ چکے تھے جنہیں نوجوان ہاتھوں خریدا کرتے تھے اور یہ سب رقم چیریٹی میں جاتی تھی جس کی ایک ایک پائی کا حساب فنانشیل ونگ کے پاس تھا اور وہ کسی بھی طرح کے آ ڈٹ یا انسپیکشن کے لیئے ہمہ وقت تیار تھے۔۔۔!!!آہستہ آ ہستہ پاک آ رمی سمیعت کئی اور اداروں کی سپورٹ انہیں حاصل ہوتی جا رہی تھی ۔۔۔ اُن سب کے لگن سچی اور عزائم بہت بلند تھے ۔۔۔ 
                               ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


جنت شاید کوئی ایسی ہی جگہ ہوگی ۔۔۔!! سوات اور کالام میں ہر سو بھرے حسن کو دیکھ کر فاریہ بے اختیار بول اٹھی ۔۔!!
لیکن اس جنتِ ارضی کو انسان کس طرح جہنم بنا رہا ہے ۔۔ اِس پر بھی غور کرو۔۔ منتہیٰ کا مدلل جواب حاضر تھا 
پوائنٹ ٹو بی نوٹڈ۔۔ فاریہ نے کسی فلاسفر کی طرح سر ہلایا ۔۔ 
وہ گزشتہ ایک ہفتے سے دیر ، سوات ، بالا کوٹ اور ملحقہ علاقوں کی خواتین میں اویئرنیس کمپین چلانے کے لیئے رامین ، پلوشہ ،سنبل غازی ونگ کی کئی اور لڑکیوں کے ساتھ آئی ہوئی تھیں ۔۔ اگرچہ وہ غازی ونگ میں نہیں تھیں پر منتہیٰ، رامین کو اس طرح اکیلے بھیجنےپر آمادہ نہ تھی۔۔ سو مجبوراٌ اُسے ساتھ آنا پڑا ۔۔۔تھیسز جمع کروا دینے کے بعد وہ آج کل ویسے بھی فارغ تھیں ۔۔۔
ہم ایک لا حاصل مقصد کے پیچھے خوار ہو رہے ہیں ۔۔۔ کمپین کے چھٹے روز تھکی ہاری کیمپ پہنچ کر فاریہ پھٹ پڑی 
خیریت کیا ہوا ؟؟ ارمان قریب ہی ایک اونچے پتھر پر بیٹھا چائے پی رہا تھا 
کیا ہوا ؟یہ پوچھیے کہ کیا نہیں ہوا ۔۔ ہم سارا دن بمشکل پانچ خواتین سے ملاقات کر پائے ۔۔۔ جس گھر پر دستک دو، وہاں خونخوار سے بڑی بڑی مونچھوں والے آدمی نکل کر ہمیں یوں مشکوک نظروں سے گھورتے ہیں۔۔ جیسے ہم داعش کی نمائندہ ہوں رامین بہت اَپ سیٹ تھی ۔۔۔
اور جن خواتین سے ہمیں کسی نا کسی طرح شرفِ ملاقات نصیب ہوا ۔۔ اُن کے پلے ہماری بات نہیں پڑ تی ۔۔۔ پلوشہ نےانہیں مقامی زبان میں ہر طرح سمجھانے کی کوشش کی مگر ہماری باتیں اُنکی سمجھ سے باہر ہیں ۔۔۔ سنبل نے بھی بھڑاس نکالی تو پھر ہمیں کیا کرنا چاہئے ؟؟ارمان نے باری باری اِن سب کے ستے ہوئے چہروں کو دیکھا 
بس ہم کل سے کمپین پر نہیں جائیں گے ۔۔ رامین نے جیسے فیصلہ صادر کیا 
مس منتہیٰ آپ کیا کہتی ہیں؟؟ ارمان نے کافی دیر سے خاموش بیٹھی منتہیٰ کو مخاطب کیا 
ہمارا ٹاسک لا حا صل ہر گز نہیں ہے لیکن قبل از وقت ضرور ہے ۔۔۔یہاں کی عورتوں میں آگاہی اور شعور بیدار کرنے سےپہلے ہمیں اِنکے مردوں کی سوچ تبدیل کرنا ہوگی ۔۔ ورنہ غالب امکان یہ ہے کہ ۔۔ اِس طرح کی کوششوں سے ہم دوست کے بجائے اِنہیں اپنا دشمن بنا لیں گے ۔۔ کیونکہ یہاں کا غیور پٹھان بیوی ہی نہیں ماں ، بہن اور بیٹی کی گردنیں بھی گاجر۔۔،مولی کی نسبت زیادہ آسانی سے کاٹتا ہے ۔۔ ہمیشہ کی طرح مدلل جواب حاضر تھا 
وہ کیمپس کے قریب پہاڑی جھرنے کے ٹھنڈے پانی میں اپنے دودھیا پاؤں ڈالے بیٹھی تھی ۔۔۔ دن بھر کی کوفت اور تھکن سے اُسکا سپید چہرہ قدرے سرخ تھا ۔۔۔ ارمان اُسے دم بخود دیکھے گیا ۔۔ اور زندگی میں کچھ لمحے آتے نہیں۔۔ بلکہ دلوں پر وارد ہوتے ہیں ۔۔ ایسا ہی ایک لمحہ اُس روز ارمان یوسف کی زندگی میں بھی آیا تھا ۔ وہ جھرنے سے کچھ فاصلے پر ایک اونچےپتھر پر بیٹھا ہوا تھا پھر بھی کوئی پھوار سی اُسے شرابور کرتی چلی گئی تھی ۔۔۔ وہ بے خبر تھا ۔۔آج جو بیڑیاں اُس نے با خوشی اپنے پاؤں میں بندھوائی ہیں اب اُسے تا عمر انکا سیر رہنا تھا ۔۔۔!!!تم نے دیکھی نہیں عشق کے قلندر کی دھمال 
پاؤں پتھر پہ بھی پڑ جائے تو دُھول اڑتی ہے  
                                                                                                       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پروفیسر ڈاکٹر یوسف کو ملیریا کا اٹیک ہوا تھا اور وہ ہاسپٹل میں ایڈ مٹ تھے ۔۔۔۔ منتہی ٰ ایم فل ایڈ میشن کے چکر میں کچھ ایسی پھنسی ہوئی تھی کہ فاریہ لوگوں کے ساتھ ہاسپٹل جانا ممکن نہیں ہوا ۔۔ سو وہ شام میں ابو کے ساتھ ہاسپٹل پہنچی ۔
سر کو بوکے دیکر وہ پیچھے ہٹی ہی تھی کہ دروازہ کھلا اور ارمان اندر داخل ہوا ۔۔۔ ایک لمحے کو ٹھٹکا ۔۔ آج کافی عرصے بعد اِس دشمنِ جاں کا دیدار نصیب ہوا تھا ۔۔ فائنل ایگزامز کے باعث وہ ایس ٹی ای کی میٹٹنگس سے غائب تھا ۔ 
یہ میرا بیٹا ہے ارمان ۔۔ سر یوسف نے فاروق صاحب سے ارمان کا تعارف کروایا تو وہ انہوں نے اٹھ کر کافی گرمجوشی کیساتھ اس سے معانقہ کیا ۔۔ ماشااللہ آپ سے ملکر بہت خوشی ہوئی بیٹا، ارسہ اور رامین سے آپ کی بہت تعریفیں سنی تھیں ۔۔ خدا آپکوآپ کے مقصد میں کامیاب کرے ۔۔ آمین 
اس ڈائریکٹ تعریف پر ارمان تھوڑا خجل ہوا ۔۔۔ بس انکل جو بھی ہے سب آپ بزرگوں کی دعاؤں سے ہے ۔۔ اس نے جھک کر عاجزی سے جواب دیا ۔۔۔ 
اور مینا کا پارہ آسمان پر پہنچا ۔!! ابو بھی بس کمال کرتے ہیں کیا ضرورت تھی اِسکی اتنی تعریف کرنے کی غصے ۔سے اسکا چہرہ سرخ ہواارمان نے اُسے کن اَنکھیوں سے دیکھا ۔۔ پھر مسکرایا ۔۔ وہ جیلس تھی!!منتہیٰ آ پ کے ایم فل ایڈمیشن کا کیا ہوا ؟؟سر یوسف نے پوچھا 
پاپا پلیز فی الحال آپ صرف آرام کریں اپنے دماغ کو پر سکون رکھیں ۔۔ منتہی ٰ کے جواب دینے سے پہلے ہی ارمان باپ پر بگڑاارے یار !! میں نے صرف پوچھا ہی تو ہے میں کون سا پڑھانے بیٹھ گیا ہوں ۔۔ تم تو مجھے ڈاکٹر لگنے لگے ہو ۔۔ سر نے منہ بسوراارمان مسکرایا ۔۔ شکر کریں ابھی میں یہاں ہوں ممی ہوتی تو آ پ کو لگ پتا جانا تھا ۔۔۔ !!یہ لڑکا مجھے بہت اچھا لگا ۔۔ ویری امپریسیو ۔۔۔ اِسکی آ نکھوں ا ور ماتھے کی چمک بتاتی ہے یہ کچھ غیر معمولی کر دکھا ئے گا ۔۔۔ ابوکی سوئی باہر پارکنگ آنے تک وہیں اَٹکی ہوئی تھی ۔۔۔
اور منتہیٰ کا پارہ بس اب پھٹنے کو تھا ۔۔!! پہلے فاریہ، رامین اورارسہ ہی اِس کے گُن گاتی تھیں اب ابو بھی ۔۔ 
میرا کنٹریبیوشن کسی کو نظر آتا ہونہہ ۔۔۔ ارمان کی تعریف اور منتہی ٰ کو ہضم ہو جائے نا ممکن ۔۔۔ پتا نہیں وہ اُس سے اتنا کیوںچڑتی تھی ۔۔۔ ؟؟؟
                                         ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ارمان اس روز پشاور میں تھا ۔۔ کوہاٹ یونیورسٹی KUSTکے کچھ سٹوڈنٹس نے جی آئی ایس ونگ کے لیئے کچھ نیو 
کمپیوٹر پروگریمز ڈیزائن کیئے تھے ۔۔۔ ارمان نے اُن سے میٹنگ کے بعد ۔۔ونگ کمانڈر شہریار جہانگیر کو مطلع کیا تھا کہ وہ جلد از جلد اِن سٹوڈنٹس سے رابطہ کرے ۔۔۔ اُسے اب چند کچھ اور ضروری کام نمٹانے تھے ۔۔ ماسٹرز فائنل کے بعد اسے ptcl میں کچھ مہینہ انٹرن شپ مکمل کرنا تھی ۔۔ جاب اُس کے لیئے اتنا بڑا مسئلہ نہیں تھی فی الحال وہ تندہی کے ساتھ کچھ وقت ایس ٹی ای کو دینا چاہتا تھا ۔۔۔!!شام ۶ بجے کا وقت تھا ارمان اپنی تین ساتھی ورکرز کے ساتھ حیات آباد ہوٹل واپس جا رہا تھا ۔۔جب دو موٹر سائیکل سواروں نے دونوں طرف سے انکی کار پر شدید فائرنگ کی ۔۔۔ فائرنگ اتنی اچانک اور شدید تھی کہ۔۔ فوری طور پر انہیں سنبھل کرنیچے چھپنے کا موقع بھی نہیں مل سکا ۔۔۔ انکی کار توازن کھو کر درخت سے ٹکرائی ۔۔۔۔ ارمان ڈرائیونگ سیٹ سے ساتھ والی سیٹ پر تھا ۔۔ ۔عینی شاہدین کے مطابق فائرنگ بہت قریب سے اور اتنی شدید تھی کہ۔۔ اُن چاروں میں سے کسی 
کا بھی زندہ بچنا بہت مشکل تھا ۔۔۔!!!                                     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


آپی کچھ سنا آ پ نے رامین دھم سے بیڈ پر گری ۔۔ اُسکا جوش و خروش دیدنی تھا 
ہاں ۔۔ مختصر جواب آیا 
ہیں کیا ۔۔؟؟ رامین حیران ہوئی 
ایک دھماکہ اور بیڈ کی چند کراہیں جو تمہارے یوں دھم سے گرنے کے باعث ڈیویلپ ہوئی تھیں ۔۔ ہمیشہ کی طرح ٹو دی ٹاپک جواب آیا ۔۔
اف آپی ۔۔۔رامین جز بز ہوئی ۔۔ آ پ کو پتا ہے ارسہ آُ پی کا ایک بہت اچھا پروپوزل آیا ہے ۔۔۔ لڑکا لندن میں سوفٹ ویئرانجینئر ہے ۔۔
اچھا یہ تو بہت خوشی کی بات ہے ۔۔ مزید تفصیلات بتاؤ ۔۔ منتہیٰ نے جھٹ سے لیپ ٹاپ کی سکرین فولڈ کی ۔۔
مزید تفصیلات یہ ہیں کہ مسٹر فواد نے ارسہ آپی کو انکی کسی فرینڈ کی ویڈنگ میں دیکھا تھا ۔۔اور بس دل ہار بیٹھے ۔۔ کل شام انکی ممی رشتہ لائی تھیں ۔۔ امی ابو کو یہ رشتہ بہت پسند آیا ہے ۔۔۔ رامین نے ساری بلیٹن ٹیلی کاسٹ کی۔۔
اچھا۔۔ یہ ارسہ ہے کدھر۔۔ آؤ اِسکی خبر لیں اِس گھنی نے ہمیں ہوا بھی نہیں لگنے دی ۔۔ وہ دونوں آ ستینیں فولڈ کرتی ہوئی اٹھی اور باہر چھوٹے سے باغیچے میں اکیلی بیٹھی ارسہ کو جا لیا ۔۔ 
وہ دونوں ملکر ارسہ کو خوب چھیڑنے میں مگن تھیں جب رامین کا سیل تھرتھرایا ۔۔
رامین نے کال ریسیو کی ۔۔اور دوسری طرف کی بات سن کر اُسکا سر چکرایا ۔۔ 
رامین از ایوری تھنگ اوکے ؟؟ منتہیٰ نے اسکی بدلتی کیفیت نوٹ کی 
آپی ارمان بھائی پر پشاور میں اٹیک ہوا ہے ۔۔ وہ شدید زخمی ہوئے ہیں اور اُنکے ساتھی بھی ۔۔۔!!اور منتہی ٰ نے اندر دوڑ لگائی ۔۔۔ موبائل کافی دیر سے سائیلنٹ پر تھا ۔۔ فاریہ سمیعت ایس ٹی ای کے ونگ کمانڈرز کی ۲۰، کالز آچکی تھیں ۔۔۔!!!چند ہی گھنٹے میں ایس ٹی ای آپریشن ہیڈ ارمان یوسف پر اٹیک کی خبر وائرل ہو چکی تھی ۔۔۔ ارمان کے ساتھ ڈرائیونگ سیٹ پر موجود پشاور کا رہائشی داور خان جائے وقوع پر ہی دم توڑ گیا تھا ۔۔ جبکہ باقی تینوں کی حالت انتہائی تشویش ناک بتائی جا رہی تھی۔۔۔ سوشل میڈیا پرہر طرح کے تبصرے جاری تھے ۔۔ وہ کہتے ہیں نا کہ برا وقت پوچھ کر نہیں آتا ۔۔ اور جب بھی آتا ہے تو سب سے پہلے دوست نما دشمن ااپنی اصلیت دکھاتے ہیں ۔۔ سوشل میڈیا ٹیم ہی میں سے کسی نے یہ بریکنگ نیوز جاری کی تھی کہ ایس ٹی ای ۔۔اب ختم کر دی جائے گی ۔۔ کیونکہ ارمان یوسف اِز ڈیڈ ناؤ۔۔۔!!!                               ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
منتہیٰ کے لیئے یہ زندگی کا پہلا سب سے کڑا وقت تھا ۔۔ شہریار سمیت ۔۔ تقریباٌ تمام ونگس ہیڈ اسلام آباد ۔۔ PIMS میں ارمان کے پاس تھے جس کی حالت بدستور تشویشناک تھی ۔۔۔ جبکہ اُنکا ایک اور ساتھی حارث پمز پہنچنے سے پہلے ہی زندگی کی بازی ہار چکا تھا ۔۔۔!!منتہیٰ نے بہت تیزی کے ساتھ صورتحال کو سنبھالا تھا ۔۔۔ اگلے روز میٹنگ سے پہلے ہی اسکی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل
ہو چکی تھی ۔۔۔ ’’ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سیو دی ارتھ فردِ واحد کے دم پر کھڑی ہوئی۔ ایک عام سی فاؤنڈیشن تھی میں اُن کو یہ بتادینا چاہتی ہوں کہ ٰایس ٹی ای کے پاس ایک نہیں کئی ارمان یوسف ہیں ۔۔ تم ایک ارمان یوسف کا خون بہاؤ گے تو یاد رکھو اِس خونِ ناحق سے سینکڑوں ارمان یوسف جنم لیں گے ۔۔۔ آج ایک داور خان اور حارث منظور جان کی بازی ہارے ہیں ۔۔ 
کل شاید ہمیں اِس سے کئی گنا زیادہ کارکنان کے خون کی قربانیاں دینی پڑے۔ ۔ہمارے دشمنوں کو یہ سن کر یقیناٌ شدید مایوسی ہوگی کہ ہم سروں پر کفن باندھ کر نکلے تھے۔۔۔اور آخری دم تک لڑیں گے ۔۔۔
’’ 
ہم غازی رہیں گے یا شہید ۔۔۔ لیکن ہم میدان چھوڑ کر ہر گز نہیں بھاگیں گے ۔۔۔‘‘                                                ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


کچھ دُھندلا دُھندلا سا منظر تھا ۔۔ اُس نے آنکھیں ملیں ۔۔ ممی کچھ فاصلے پر کھڑی تھیں اُنکی سوجی متورم آنکھیں دیکھ کہ وہ تڑپا ممی کو کیا ہوا ہے وہ کیوں اتنا رو رہی ہیں ۔؟؟ اُس نے ہاتھ بڑھایا ۔۔ آوازیں دیں ۔۔ مگر ۔۔ مگر ۔۔ ممی میری آواز کیوں نہیں سن رہیں ۔۔ مجھے جواب کیوں نہیں دیتیں ۔۔ وہ دیوانہ وار ماں کی طرف بڑھا ۔۔۔ اور ٹھیک اُسی وقت ۔۔ ای سی جی مشین نے ،جو پچھلے ۳ منٹ سے سیدھی لائن شو کرر ہی تھی ۔۔ اُسکی پہلی ہرٹ بیٹ ڈیٹیکٹ کی ۔۔۔ ایک ماں کی دعا ۔۔۔ عرش سےفیصلہ تبدیل کروا کر اپنے لال کو واپس لے آئی تھی ۔۔ یا اُسکی تقدیر میں ابھی مزید زندگی لکھی تھی ۔۔وہ موت کو شکست دیکر زندگی کی وادی میں لوٹ آیا تھا ۔۔۔ اور پھر ہر آتے دن کے ساتھ اسکی حالت بہتر ہوتی گئی ۔۔۔۔ چھٹے روز ارمان یوسف کو ICUسے روم میں منتقل کردیا گیا تھا۔۔ !!!                                      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 


منتہیٰ نے اگلے روز میٹنگ ارینج کر کے سب سے پہلے سوشل میڈیا ونگ کی خبر لی ۔۔۔۔ ارمان کبھی باس پُرس نہیں کیا کرتا تھا اس نے تمام ونگ کمانڈرز کو مکمل آزادی دی ہوئی تھی ۔۔اور اِسی آزادی سے فائدہ اٹھا کر کچھ کالی بھیڑیں بھیس بدل کر کافی عرصے سے ڈیرے ڈالے۔۔ شاید کسی ایسے ہی موقع کی تلاش میں تھیں ۔۔۔!!۱۲۰ کا آئی کیو رکھنے والی نازک سی یہ لڑکی اپنے اندر پہاڑوں جیسا عزم اور سختی رکھتی تھی ۔۔ فاریہ اور ارحم کے علاوہ منتہیٰ کافی سوشل میڈیا ایڈمنز سے ذاتی طور پر واقف تھی ۔۔ اگلی صبح میٹنگ میں سب سے پہلے اس نے اِن کالی بھیڑوں کی درست نشاندہی کرکے اُن کا سفایا کیا ۔۔ پھر سوشل میڈیا ونگ کو سیکیوریٹی کے لئے سخت وارننگ جاری کی ۔۔ ساتھ ہی برین ونگ کو فوری طور پر سوشل میڈیا پر الرٹ کروایا تاکہ افواہوں کو فوری اور مؤثر طور پر ہینڈل کیا جاسکے ۔۔۔ 
ارمان کے ساتھ زخمی ہونے والاانکے چوتھے ساتھی کی حالت بھی سنبھل چکی تھی ۔۔۔ منتہیٰ ابو اور ڈاکٹر عبدالحق کے ساتھ شہید ہونے والے دونوں کارکنان کے گھرتعزیت پر بھی گئی ۔۔اگلے کئی روز تک وہ کسی ِ پھرکی کی طرح لاہور پشاور اور اسلام آ باد کے درمیان گھومتی رہی ۔۔۔
ارحم ، شہریار ، صمید ، صہیب میر ۔۔ تقریباٌ تمام ونگ کمانڈرز ارمان کے ہوش میں آنے تک مستقل ہاسپٹل میں تھے ۔منتہیٰ نے جس طرح اُسی رات سے کمان سنبھالی تھی ۔۔ اس کی تفصیلات انہیں ملتی رہی تھیں ۔۔
وہ اس دھان پان سی لڑکی کی ہمت اور حوصلے پر ششدرہ تھے ۔۔ خود اُن میں تین دن تک اِس حقیقت کو قبول کرنے کی ہمت نہیں آئی تھی کہ ارمان ہم میں نہیں رہیگا ۔۔اوراگر ایسا ہوگیا تو یقیناٌ وہ بکھر جائیں گے ۔۔۔ 
’’ 
وہ بے خبر تھے کہ منتہیٰ اُن سب کی کیسی کلاس لینے والی ہے ۔۔۔‘‘                                ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ارمان یوسف نے ہوش میں آتے ہی اپنی تینوں ساتھیوں کے بارے میں پوچھا تھا ۔۔؟؟
تو فکر مت کر وہ سب بھی اب خیریت سے ہیں شہریار نے اسے تسلی دی ۔۔
ارمان کچھ دیر تک خالی نظروں سے چھت کو گھورتا رہا ۔۔ شہری ! داور خان نے میرے ہاتھوں میں دم توڑا تھا ۔۔۔
شہریار اپنی جگہ ساکت ہوا اور لاجواب بھی ۔
حارث منظور بھی ہاسپٹل میں ختم ہو گیا تھا ۔۔ البتہ مسعود یہیں پمز میں ہے اور اسکی حالت تم سے بہتر ہے ۔۔ ارحم نے سچ بتانامیں ہی عافیت سمجھی ۔۔ ورنہ ارمان اپ سیٹ رہتا ۔
ارمان کے لیئے یہ زندگی کا انتہائی تکلیف دہ موڑ تھا ۔۔وہ جن ہم وطنوں کی تقدیر بدلنے نکلا تھا ظالم بے حس لوگوں نے انہی کے خون سے کھیل کر ارمان کو ایک دوراہے پر لا کھڑا کیا تھا ۔۔ وہ کہاں سے لا کر دے اِن دو اجڑے خاندانوں کو اُن کےجوان سپوت ؟؟ بری بھلی جیسی بھی گزر رہی تھی ۔۔ وہ زندہ تھے تو جینے کا آ سراہی تھا ۔۔!!!ڈاکٹر یوسف ارمان کی ا ندرونی کیفیت سے آگاہ تھے ۔۔ وہ انکی اکلوتی اولاد تھا جس کی دیوانی ماں کو وہ بہت مشکل سے گھر 
میں نیند کی گولیاں دیکر سلا کر آئے تھے ۔۔ وہ پچھلے ایک ہفتے سے مسلسل ہسپتال میں تھیں ۔۔ لیکن جو دو جوان شہید ہوئےتھے وہ بھی کسی کی اولاد تھے ۔۔۔ زلزلے ، طوفان اور نا گہانی آفات میں جو ہزاروں مرتے ہیں اُن کے دم سے بھی تو لاکھوںگھر آباد ہوتے ہیں ۔۔ !!!دو دن بعد ارمان نے ارحم سے اپنا سیل فون مانگا تھا۔۔ اُس کے سینے اور بائیں کندھے پر تین گولیاں لگی تھیں ۔۔ بمشکل سیل تھام کر اُس نے فیس بک لاگ اِن کی ۔۔۔ سیو دی ارتھ ۔۔ پیجز ، گروپس حتی کی اسکی اپنی پروفائل تک پر منتہیٰ کی ویڈیو چھائی ہوئی تھی ۔۔۔ اس نے کئی دفعہ ریورس کر کے ویڈیو دیکھی ۔ وہ اپنی جگہ ساکت تھا ۔۔ یہ دھان پان سی لڑکی ہر دفعہ اسے زندگی کے ایک نئے مفہوم سے آشنا کراتی تھی ۔۔۔ اُسکی نقاب سے باہر چھلکتی آ نکھوں میں کسی زخمی شیرنی کا سا جلال تھا ۔۔
ہم غازی رہیں گے یا شہید لیکن ہم میدان چھوڑ کر ہرگز نہیں بھاگیں گے ۔۔۔ ارمان نے زیرِ لب کئی دفعہ۔۔ اُس کے الفاظ دوہرائے ۔۔۔!!!وہ آج ایک دفعہ پھر جیت گئی تھی ۔۔۔ لیکن اب اُس سے ہارنا ۔۔ ارمان کو اچھا لگنے لگا تھا ۔۔!!!                                   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


آپی ہم لوگ ابو کے ساتھ ارمان بھائی کو پوچھنے جا رہے ہیں آپ چلیں گی ؟؟ رامین نے ڈرتے ڈرتے بہن سے پوچھا
منتہیٰ نے ایک لمحے کو سر اٹھا کر اُسے دیکھا ۔۔ ہاں ۔۔میں تیار ہوکر آتی ہوں۔۔
رامین کا منہ حیرت سے کھلا ۔۔ پر اُس نے بھاگ نکلنے میں ہی عافیت سمجھی ۔
آپی از اِن سٹرینج موڈ ۔۔وہ بڑبڑاتی ہوئی اِرسہ کے کمرے تک آ ئی ۔
فکر مت کرو آپی کا نز لہ ارمان بھائی پر نہیں گرے گا ۔۔۔ فی الحال ۔۔ اِرسہ ہنسی 
تو پھر کس پر گرے گا ؟؟ یو نو آپی ۵،۴ دن سے شدید غصے میں ہیں ۔۔!!میرا خیال ہے کہ شامت۔۔ کل شام میٹنگ میں ونگ کمانڈرز کی آئیگی ۔۔
چلو دیکھتے ہیں ۔۔ ویسے مزا آئیگا ۔۔آپی کا غصہ ۔۔ اللہ بچائے ۔۔ رامین نے ہنستے ہوئے کانوں کو ہاتھ لگائے
ایک گھنٹے بعد وہ ارمان کے بیڈ روم میں تھے ۔۔ ارمان تکیے سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا ۔۔ اُس کے پاس ارحم اور شہریار بھی
موجود تھے ۔۔ انہیں آتے دیکھ کر دونوں بجلی کی سی تیزی سے اٹھے ۔۔۔ آپی کی دہشت ۔۔ رامین نے ارسہ کو، کوہنی ماری۔۔
منتہیٰ پر نظر پڑتے ہی ارمان نے زور سے آنکھیں بھینچی ۔۔ چلو شکر ۔۔ محترمہ آئیں تو ۔۔!!ارمان کی خیریت پوچھ کر فاروق صاحب ، ڈاکٹر یوسف کے ساتھ ڈرائنگ روم میں چلے گئے ۔۔ اُن کے پیچھے ارحم اور شہریاربھی جانے کے لئے اٹھے ۔۔ آپ دونوں اپنا کچھ قیمتی وقت دینا پسند کریں گے ۔۔ منتہیٰ کی انتہائی خشک آواز نے انکے بڑھتےقدم روکے ۔۔!!جی جی ضرور۔۔ کوئی کام تھا آپ کو مس دستگیر ؟؟ شہریار مڑ کر زبردستی مسکرایا 
جی کام تو بہت سارے ہیں انشاء اللہ کل میٹنگ میں بتاؤں گی ۔۔۔ فی الحال آ پ کو صرف ایک ویڈیو بنانی ہے 
منتہیٰ نے اپنا پرس کھول کر ایک فولڈ پیج نکالا اور رامین کو تھمایا کہ ارمان کو دیکر آئے ۔۔!!یہ کیا ہے مس منتہیٰ ؟؟ ارمان حیران ہوا ۔۔جو نقاہت کے باوجود ۔۔منتہیٰ کے خطرناک موڈ کو بھانپ چکا تھا 
یہ آپکی سپیچ ہے ۔۔ چونکہ فی الحال آ پ اس کنڈیشن میں نہیں ہیں کہ اپنے دماغ پر زیادہ زور ڈال سکیں ۔۔ اِس لیئے میں نے لکھ دی ہے ۔۔۔ منتہی ٰنے تھیکی نظروں ارحم کو گھورا ۔۔( یہ سوشل میڈیا ونگ کا کام تھا) 
پھر وہ اَرحم کی طرف پلٹی آواز میں شدید سختی در آئی ۔۔ اس کی ویڈیو ایک گھنٹے کے اندر سوشل میڈیا پر وائرل ہونی چاہئے ۔۔
رائٹ !!اپنی بات مکمل کرکے وہ تیزی سے دروازے کی طرف بڑھی ۔۔ِ ارسہ اور رامین اپنی جگہ ویسے ہی بیٹھی ہوئی تھیں ۔
تم دونوں نے چلنا نہیں ہے۔۔؟؟ منتہیٰ گرجی ۔۔
آپی آپ چلیں ہم پانچ منٹ میں آتے ہیں ۔۔ رامین نے ڈرتے ڈرتے کہا 
اور منتہیٰ دستگیر ، ارمان یوسف پر ایک نظر ڈالے بغیر جا چکی تھی ۔۔ اُس کے نکلتے ہی کمرے میں رامین اور ارسہ کے قہقہے گونجےجو وہ بہت مشکل سے روکے بیٹھیں تھیں ۔۔
یہ اِن دونوں کو کیا دورہ پڑا ہے ۔۔؟؟ شہریار پہلے ہی جلا بھُنا بیٹھا تھا 
اپنی لاڈلیوں کو تھوڑی کچھ کہنا ہے ۔۔ میڈم آئرن لیڈی نے ۔۔ہونہہ ۔۔ ارحم نے بھڑاس نکالی 
آئرن لیڈی پر ۔۔ رامین اور ارسہ نے ایک اور قہقہہ لگایا ۔۔ ارمان بھائی آپ تو بچ گئے ۔۔ لیکن باقی کسی کی خیر نہیں ۔۔ کل آپ دونوں میٹنگ میں بلٹ پروف جیکٹ پہن کر آنا ۔۔ ارسہ نے ارحم اور شہریار کو خبردار کیا ۔
اٹھو اِرسہ آپی ۔۔ورنہ گھر پہنچ کر تمہاری بھی خیر نہیں ۔۔ رامین نے ارسہ کو ہاتھ پکڑ کر کھینچا ۔
ارمان آج ہفتوں بعد کھل کر مسکرایا تھا ۔۔ اسے یہ دونوں فتنیاں چھوٹی بہنوں جیسی لگا کرتی تھیں ۔۔
ابے جلدی کر ۔۔ ویڈیو بنا ۔۔ شہریار نے اَرحم کو دھپ رسید کی ۔۔ منتہیٰ کے خطرناک موڈ سے انہیں اندازہ ہو گیا تھا ۔۔ کل کسی کی بھی خیر نہیں تھی ۔۔۔!!!                                   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ارمان کی ویڈیو اَرحم نے اُسکے فیس بک اور ٹویٹر اکاؤنٹ سے اَپ لوڈ کی تھی۔۔۔اور صرف ۱۵ ، ۲۰ منٹ میں اس ویڈیو پر
لائیکس اور کمینٹس کے تعداد ۵۰ ہزار سے تجاوز کر چکی تھی ۔۔۔!! اسکی آواز نسبتاٌ کمزور اور نقاہت زدہ تھی لیکن اسکی آنکھوں کی چمک اُسکے بلند عزائم کی عکاس تھی ۔۔!!!میری ماں کے بعد یہ آپ سب کی دعائیں تھیں جو مجھے موت کے منہ سے نکال کر زندگی کی طرف واپس لیکر آئیں ۔۔ یقیناٌہمارا ایک بڑا نقصان ہوا ہے ۔۔ ہمارے دو بہت پیارے اور با ہمت ساتھی اب ہم میں نہیں رہے ۔۔ لیکن میں آ پ سے وعدہ کرتا ہوں کہُ انکا خونِ نا حق ہم ضائع نہیں جانے دیں گے ۔۔’’ شہید کا خون تاریک راہوں میں وہ چراغ فروزاں کرتا ہے جو اَمر ہیں ۔۔ جن کی روشنیاں تا اَبد بہت سوں کو راستہ دکھاتی رہتی ہیں ۔۔‘‘ہم بنی گالہ کے محلات اور مخملیں گدوں پر سونے والے وہ لوگ نہیں ہیں جن کے دعوے اور وعدے صرف سیاسی جلسے اور جلوسوں تک محدود رہتے ہیں ۔۔۔ ہم نے جب آغاز کیا تھا ،، ہم تب بھی جانتے تھے کہ انقلابات پھولوں کی سیج کسی کے لئے بھی نہیں ہوتے ۔۔۔تبدیلیاں لانے کے لیئے عام آدمی ۔۔ اپنے کارکنان کے ساتھ کبھی تپتی سڑکوں پر ، کبھی جھلستے ریگستانوں میں،کبھی یخ بستہ نیم منجمد پہاڑوں میں طوفانوں سے لڑنا پڑتا ہے ۔۔ مجھے خوشی ہے کہ ہماری تحریک میں جو پہلا خون بہا ء۔۔ہوا ،
اس میں میرا اپنا خون بھی شامل ہے۔۔ اور جب تک اس جسمِ ناتواں میں خون کا آخری قطرہ باقی ہے میں لڑتا رہوں گا۔۔۔
’’ 
ہم غازی رہیں گے یا شہید لیکن ہم میدانِ جنگ چھوڑ کر ہر گز نہیں بھاگیں گے۔۔۔‘‘                          ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

I am going to fired all wing Commanders and vice commanders ....except
Sheheryar jahangir.......... !!!!!!
منتہیٰ کی گونجیلی آواز نے کانفرنس روم کے پن ڈراپ سائلنس کو توڑا ۔۔
ہنگامی میٹنگ کا آغاز ہو چکا تھا جس میں ڈاکٹر عبدالحق نے منتہیٰ کی درخواست پر خصوصی طور پر شرکت کی تھی ۔۔ جبکہ ارمان یوسف کے لئے سپیشل سکائپ بندوبست ارحم تنویر نے کیا تھا ۔
مس منتہیٰ آپ اتنے بڑے فیصلے کی وجہ بتانا پسند کریں گی ؟؟ and why not sheheryarغازی ونگ کے وائس کمانڈر صہیب میر نے قدرے ناگواری سے پوچھا 
مسٹر وائس کمانڈر !! مجھ سےِ ریزن پوچھنے سے پہلے کیا آپ یہ بتانا پسند کریں گے کہ جن عہدوں سے برطرفی آپ کو اتنی کِھل رہی ہے۔۔ وہ کس کے دم سے ہیں ؟؟ یقیناٌ فاؤنڈیشن کے دم سے نا ۔۔۔!! تو جب اس پر کڑا وقت آیا ہر طرف فیک نیوز ویڈیوز ۔۔ یہاں تک کے چند گھنٹے میں فاؤنڈیشن کے ختم ہوجانے تک کی نیوز وائرل ہو گئی اُس وقت کہاں تھے آپ لوگ؟؟؟
منتہیٰ کی گرج کسی شیرنی سے کم نہیں تھی ۔
ہمارا ارمان اور اُس کی فیملی کے پاس موجود ہونا ضروری تھا ۔۔ وہ ہمارا جگری یار ہے۔۔اور ۔۔اور ۔۔پھر چند گھنٹوں میں آپ سب صورتحال سنبھال چکی تھیں ۔۔!! صہیب میر کے آخری الفاظ خود اسکی زبان کا ساتھ نہیں دے پائے تھے 
منتہیٰ نے ایک غضب ناک نظر صہیب پر ڈالی ۔۔ پھر ڈاکٹر عبدالحق کی طرف مڑی 
Sir !! would you please settle this issue ??
Yeah !! you are doing that right .. go ahead ...
ڈاکٹر عبدالحق کے فیصلے کے بعد سب کو سانپ سونگھ چکا تھا ۔۔ منتہی نے تیزی کے ساتھ نئے ونگ کمانڈرز کے نام اناؤنس کیئےارمان کے صحتیاب ہونے تک آپریشن کمانڈ اُس نے اپنے پاس رکھی تھی ۔۔۔ جبکہ باقی تمام ونگز میں وہ نچلے درجے کےکارکنان کو کمانڈ ہیڈ تک لائی تھی ۔۔۔۔ ارمان نے گہرا سانس لیکر سر تکیے پر ٹکایا ۔۔ اس کا فیصلہ سو فیصد درست تھا ۔ اِس سےموجودہ صورتحال میں مایوس کارکنان ایک دفعہ پھر پرجوش ہوکر سر گرم ہو جاتے ۔۔!!منتہیٰ کیا میں پوچھ سکتی ہوں کہ تم نے شہریار جہانگیر کو کیوں فارغ نہیں کیا ؟؟
میٹنگ کے اختتام پر ۔۔ فاریہ نے ڈرتے ڈرتے وہ سوال داغ ہی دیا جو اُن سب کے دماغوں میں کلبلا رہا تھا 
منتہیٰ نے کھا جانے والی نظروں سے فاریہ کو دیکھا ۔۔پھر نظریں جھکائے بیٹھے شہریار کو ۔۔!!کیونکہ اِن کے ونگ کی باری کچھ دن بعد آنی ہے ۔۔۔!!! دُرشتی سے کہتی وہ کانفرنس روم سے جا چکی تھی ۔۔اور ارمان سمیعت اُن سب نے بھر پور قہقہہ لگایا تھا ۔۔۔ منتہیٰ دستگیر اور کسی کو بخش دے ۔۔۔ نا ممکن !!!                                           ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


                                           جاری ہے۔۔


Next episode coming soon                                                        




Copyrights reserved to @Saadeqakhan!      
          Any concerned person found copying  or publishing this Novel with his        
        or  someone's else name would be legally treated
Share on Google Plus

About Unknown

0 comments:

Post a Comment