WELCOME TO MELTED TRUTHS

All Truths are easy to understand once they are discovered;the point is to discover them.(Galileo Galilei)

The Grand Design by Stephen Hawking


" LOST IN TRANSLATION "

A series of Translations from famous fiction 
"BOOKS"



 The Grand Design
This is a popular-science book written by physicists Stephen Hawking and Leonard Mlodinow and published byBantam Books in 2010. The book examines the history of scientific knowledge about the universe and explains 11 dimension M-theory. The authors of the book point out that a Unified Field Theory (a theory, based on an early model of the universe, proposed by Albert Einstein and other physicists) may not exist.




The Grand Design
Chapter 2
The Rule of Law
ضا بطۂ قانون

TRANSLATION BY SAADEQA KHAN

Skoll the wolf who shall scare the Moon
Till the flies the Wood - of -Woe
Hati the Wolf , Hridvitnir 's kin
Who shall pursue the Sun.


قدیم ما ورائی  داستانوں کی اکثریت  ایسی  کہا نیوں پر  مبنی ہے  جن کے کردار ما فوق الفطرت ہوا کرتے تھے ،انہی میں سے ایک داستان ٭ سول  (سورج ) اور٭ مانی ( چاند ) کی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ  سول اور مانی دو بہن بھائی تھے  جو اکثر اپنی بگھی  میں  بیٹھ  کرآسمان  کی سیر کو جایا کرتے تھے ، کچھ عرصے بعد دیوتاؤں نے دن اور رات  کے حصے ان دونوں  کو مختص کر دیئے، یعنی سول دن میں اور مانی رات میں پر جایا کریں گے ۔ اسی کہانی کے دو مزید کردار ٭ سکول  (تضحیک) اور٭  ہیٹی  ( نفرت )  نامی دو بھیڑ یے  تھے   جو آسمان پر سول اور مانی کا پیچھا کیا کرتے تھے ۔ ایک دفعہ وہ مانی کو پکڑ نے میں کا میاب ہو گئے  ( در حقیقت ) اس روز چاند گرہن تھا  جسے لا علمی اور دقیا نوسیت  کے سبب نیا رنگ دے کر پیش کیا گیا ) ۔  لوگوں نے مانی کو کو  سکول  کے چنگل سے نکالنے کے لیئے بے انتہا  شور کیا  تاکہ بھڑ یئے ڈر کر بھا گ جائیں ۔ ۔ اسیطرح کی  ما فوق الفطرت داستانیں  ٭آئس لینڈ  کی تاریخ میں موجود ہیں ، لیکن کچھ عرصے بعد لوگوں کو احساس ہوا کہ چاند اور سورج ، گرہن سے دوبارہ نمودار ہو جاتے ہیں جس کا تعلق  ان کی چیخ و پکار سے قطعا   نہیں ہوتا ۔ مزید کچھ عرصے بعدانھوں  نےمحسوس کیا کہ گرہن کا ہونا   اتفاقیہ نہیں  بلکہ یہ ایک مخصوص طریقۂ کار پر خود کو دہراتے رہتے ہیں ۔ یہ ماڈل چاند گرہن کے وقت اتنا واضح ہوتا ہے کہ قدیم بابل کے رہنے والے  چاند گرہن کی بلکل ٹھیک پیشن گوئی کر لیا کرتے تھے ،حالانکہ وہ یہ نہیں سمجھ سکے تھے کہ ان کے رونما ہونے کی اصل وجہ زمین کا سورج کی روشنی روک لینا ہے، سورج گرہن   کی پیشن گوئی کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ یہ صرف زمین کی گزر گاہ پر  نظر آتے ہیں جو تقریبا 30میل چوڑی ہے ۔  اب اس طریقۂ کار کےذریعے  یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ  گرہن کسی مافوق الفطرت ہستی کے زیر تابع نہیں بلکہ قوانین کے مطابق رونما ہوتے ہیں۔


 
ابتدا میں فلکیاتی اجسام کے متعلق  کامیاب پیشن گوئی  کے با وجود  ہمارے آباو اجداد دیگر  قدرتی عوامل کےبارے میں پیشن گوئی کرنے سے قاصر تھے ۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ زلزلے ، طوفان ، طاعون اور  انگلیوں کے ناخن کا بڑھنا سب کسی  واضح سبب اور طریقہِ کارکے بغیر وقوع پزیر ہوتا ہے ۔ قدیم زمانے میں یہ طرز عام تھا کہ  غیر طبعی قدرتی عوامل کو خداؤں  کے ساتھ شرارتوں سے منسوب کر دیا جاتا تھا ،  اورآفات    انھیں    کوئی نقصان  پہنچا نے کی  علامات سمجھی جاتی تھی ۔ مثال کے طور پر560 قبل مسیح میں  ٭اوریگان  میں ٭زمزمہ پہاڑ کا آتش فشاں پھٹ گیا  اور راکھ کی بارش کئی سال تک ہوتی رہی ،  جس کے نتیجےمیں  کئی سال تک موسلا دھاربارش ہوئی اور آتش فشاں کا علاقہ پانی سے بھر گیا  جو کے آج کل ٭کریٹر جھیل کہلاتا ہے ۔
کریٹر جھیل کے متعلق آئس لینڈ کی  تاریخ میں کئی طرح کی کہا نیاں مشہور ہیں  جن میں  ایک٭کلامتھ  قبیلےکی کہا نی ہے عموماُ  قبائل میں ایسے بڑے  بوڑھےکثرت سے پائے جاتے ہیں  جن کا اولین مقصد ِحیات پرانے واقعات کو  بڑھا چڑھا کر پیش کرنا تھا ۔۔۔۔۔
 ایسا ہی ایک ایک داستان گو  اوریگان  کے کلامتھقبیلے میں بھی تھا  جو ہر واقع کا اختتام  کچھ یوں کرتا تھا  جیسے تمام قدرتی آفات کا ذمہ دار انسان خود ہو ۔ اس دور میں لوگوں کی سمجھ بو جھ  صرف اتنی ہی تھی کہ وہ اس طرح کی داستانیں   سن کر  کچھ سوچنے کے بجائے انسان کو  ان کا ذمہ دار قرار دے دیا کرتے تھے ۔ کریٹر جھیل کے متعلق جو داستان مشہور ہےاس کے مطابق  اس دور میں زمین اور آ سمان کے دیوتا  اپنی سلطنتوں کا انتظام الگ الگ چلا یا کرتے تھے
ایک دفعہ کچھ یوں زمین کا دیوتا ٭ لیاؤ ، کلامتھقبیلے کے سردار کی    بیٹی  کو دیکھتے ہی اس پر  فریفتہ ہو گیا  ، مگر  اس لڑکی اور اس کے باپ نے  دیوتا کو رد کر دیا ، اس بے عزتی کا بدلہ لینے کے لیئے  لیاؤ نے کلامتھ قبیلے کو نذرِ آ تش کرنے کی کوشش کی  لیکن آسمان  کے دیوتا  نے اسکی اس کو شش کو نا کام بنا دیا ،  ایک خونریز جنگ
کے بعد لیا ؤ مارا گیا  اور زمزمہ پہاڑ کےقریب آکر گرا  جس سے وہا ں ایک  بہت بڑا گڑھا بن گیا جو رفتہ رفتہ  پانی سے بھرتا گیا  اور ایک جھیل کی صورت اختیار کر لی ۔



قدیم زمانے  میں قدرت سے لا علمی کی وجہ سے لوگ  انسانی ذ ندگی کے ہر مظہر کے متعلق خدا بنا لیا کرتے
تھے ، ان کے محبت، جنگ ، سورج ، زمین اورآسمان کے دیوتا تھے ،  یہاں تک کے  سمندر ، دریا ، بارش  اور گرج چمک، زلزلہ اور آتش فشاں تک خدابنائےہوئے تھے ۔ جب  یہ دیوتا خوش ہوتے تھے ،بنی ِنوع انسان قدرتی آفات ، اور بیماریوں سے محفوظ رہتاتھا ، لیکن جب یہ نا خوش ہوتےتھےتو  سال ، جنگ ، طاعون اور دیگر وبائی امراض پھوٹ پڑتے تھے ۔ چونکہ وجوہات کے تانے بانے ان کی نظروں سے اوجھل تھے ، یہ خدا نا قابل تحقیق تھے اور لوگ ان کے رحم و کرم پر تھے۔٭تھیلز آف مائلیٹس( ایک مصری فلاسفر جس نے 585 قبل مسیح میں گرہن کی پیشنگوئی کی تھی ) سے تقریبا 2600 سال پہلے تبدیلی کا آغاز ہوا ،  یہ تصور پیدا ہوا کہ قدرت اصول و ضوابط  کے مطابق عمل کرتی ہے ،
جس سے یہ معمہ حل ہو سکتا تھا۔ لہذا دیوتاؤں کے راج کی جگہ کائنات کے اصولوں؎کو  دینے میں ایک عرصہ لگا ، جو کہ قدرتی قوانین کے مطابق چلتے ہیں  ۔ اور ایک خاص پس منظر کے مطابقتخلیق ہوئے ہیں جو شاید  کسی دن ہم سمجھسکیں گے۔
یہ دیکھا گیا ہے کہ انسانی زندگی کےصفحۂقرطاس پر سائنسی تحقیق ایک نئی جہت تھی ، ہماری نسل ٭ہومو سیپی اینس  کا آغاز افریقہ کے صحارہ ریگستان میں لگ بھگ 2،00،000 قبل مسیح میں ہوا ، لیکن تحریری طور پر جو تاریخ موجود ہے وہ قبل 7000مسیح ہےتہذیب ایسی جگہوں پر وجود میں آئیجہاں گندم کاشت کی جا سکتی تھی ،( چند قدیم کتابوں میں درج ہے کہ اس دور میں شہریوں کو بیئر کا روزانہ کا راشن دیا جاتا تھا ) ۔ ان سب میں قدیمترین تحریری ریکارڈ مصر کی عظیم تہذیب نویں صدی قبل مسیح کا ہے ۔ لیکن تہذیب کا عروج کلاسیکل ریکارڈ اس کے کئی سال بعد 500کا ہےجس کا آغاز 500 قبل مسیح کے بعد ہوا٭ارسطو ( 384-322) قبل  مسیح ، کے مطابق٭  تھیلز ہی وہ پہلاشخص تھا جس نے ایک ایسا تصور پیش کیا  جودنیا با آسانی سمجھ سکتی تھی ،  یعنی  ہمارے ارد گرد وقوع پزیر  ہونے والے بہت سے پیچیدہ عوامل  کو سادہ اصولوں میں ڈھالا جا سکتا ہے ، اور جس کے لیئےکسی مافوق الفطرت  ہستی اور علم معرفت ( سائنس آف گاڈ) کی وضاحتوں کی قطعا ٌضرورت نہیں ۔
  
  
تھیلز کو 585 قبل مسیح میں سورج گرہن کی سب سے پہلے پیشنگو ئی کرنے کا اعزاز حاصل ہے ، اگرچہ اس میں
 
بڑی غلطیوں ے کےباعث یہ ایک ممکنہ قیاس تھا،تھیلز ایک پر چھائیں تھی  جس نے اپنے پیچھے  اپنا کوئی تحریری ریکارڈ نہیں چھوڑا ، اس کا تعلق ٭آیونہ کے علاقے سے تھا جو روشن خیال لوگوں
 کا مرکز کہلا تا تھا ،  جہاں مصریوں نے کا لونیز بنائی اور ا یسی شان و شوکت چھوڑی جو بلا آخر ترکی اور مغرب میں اٹلی تک پہنچی ۔ ٭آنیین  سائنس  اس امر
میں گہری دلچسبی کی وجہ سے قابل  ستا ئش ہے کہ بنیادی قوانین کو قدرتی عوامل پر کسطرح لا گو کیا جا سکتا ہے
انسانی فکر پر  اسےایک سنگ میل کیحیثیت حاصل ہے ۔ ان لوگوں کی سائنس میں دسترس بہت واضح تھی اور کئی معاملات میں ان کا حتمی نتیجہحیران کن طور پر وہی تھا جو  آج جدید ٹیکنا لو جیکل طریقۂ کار، جس پر ہم یقین رکھتے ہیں   ،سےحاصل ہوا۔یہ ایک شاندار آغاز کیا پیامبر  ہے ۔لیکن صدیوں پر صدیاں گزرنے سے  آنیین سائنس کو بھلا یا جا چکا ہے ، شاید پھر کبھی اسےدوبارہ اختراع کیا جائے روایتی ادب کے مطابق  پہلا حسابی فامولہ جو آجکل قانون کہلاتا ہے  آنیین ( 580-490)  کے زمانے میں  ٭فیثا غورث  نے پیش کیا ، وہ اپنے اسی تھیورم جو اس کے نام پہ ہے کی وجہ سے مشہور ہے ( فیثا غورث تھیورم )۔    جس کے مطابق  ایک قائمۃ الزاویہ مثلث میں  وتر کا مربع ، قاعدہ اور عمود دونوں کے مربعوں کے مجمو عے کے برابر ہوتا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ فیثا غورث نے  میو زیکل آلات  میں استعمال ہونے والےسٹرنگ(تار)  کی مقداری قیمت اورآوازوں میں ہارمونک مما ثلت  دریافت کی تھی آج کل اس قانون کو اس طرح بیان کرتےہیں کہ  ایک تا جو کے ایک مستقل تناؤ پر وائبریٹ کر رہا ہے ، کی فریکو ئینسی ( ایک سکینڈ میں وائبریشنز کی تعداد ) تار کی لمبائی کے براہ راست متناسب ہوتی ہے ۔ تجرباتی نقطۂنظر سے یہ  وضاحت کرتا ہے کہ  باس گٹار ( جس کے 6  تار ہوتے ہیں اور پچ سب سے کم )  کا سٹرنگ عام گٹار سے لمبا کیوں ہوتا ہے ؟؟ یقینا  فیثاغورث نے یہ دریافت نہیں کیا تھا ، غالبا ٌاس نےوہ  تھیورم بھی دریافت نہیں کیا تھا جو اس کے نام پر ہے ، لیکن یہ شہادت موجود ہے کہ اس کے دور میںسٹرنگ اور پچ کے تعلق کے بارے میں سمجھ بوجھ ضرور تھی ۔
اگر ایسا تھا تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ تھیوریٹیکل فزکس کی ایک مثال ہے۔
 
  

فیثا غورث کے سٹرنگ قانون سے قطعۂنظر  وہ اولین طبعی قوانین جو زمانۂ قدیم میں صحیح طرح جانے جاتے تھے وہ٭ ارشمیدس( 287-212 قبل مسیح) کے 3 قوانین تھے ۔یہ قدیم زمانے کا مشہور ترین طبیعات دان تھا ۔آج کل کی اصطلاح میں لیور کے قانون کو یوں بیان کیا جاتا ہے کہ مقدار میں کم فورس کے ذریعے  ذیادہ وزن اٹھایا جا سکتا ہے ،کیو نکہ لیور اپنے فلکرم سے فاصلے کی نسبت سے قوت کی مقدار کو بڑھا دیتا ہے ٭۔ بو یینسی ( تیراکی ) کے قانون کے مطابق کوئی بھی شے جس کو مائع میں ڈالا جائے اتنی ہی مقدار میں فورس کا سامنا کرتی ہے  جو کہ مائع میں اس کے وزن کے برابر ہوتی ہے ۔اور انعکاس کے قانون کے مطابق  روشنی کی شعاع اور آئینہ کے درمیان زاویہ ، مقدار میں اس زاویے کے برابر ہوتا ہے جو آئینہ اور منعکس شعاع کے  درمیان بنتا ہے ۔ لیکن ارشمیدس نے انھیں قوانین نہیں کہا اور نہ ہی مشاہدات اور مقداروں کے ذریعےان کی وضاحت کی ، اس کے بجائے اس نے  انھیں حسابی قوانین کے طور پر پیش کیا  ، بلکل  اسی طرح کا ایک قانونی نظام ٭ایو کللیڈ نے جیو میٹری کے لئیے بنایا  تھا۔
جیسے جیسے آنیین دائرہ کار بڑھتا گیا ،یہ مشاہدہ کرنے والوں کی تعداد  ذیادہ ہوتی گئی کہ  کا ئنات کا اپنا ایک اندرونی قاعدہ ہے جسے مشاہدات اور اسباب کے ذریعے سمجھا جا سکتا ہے ۔  ٭انیکزیمینڈر ( 610-546 قبل مسیح )  جو کہ تھیلز کا دوست اور ممکنہ شاگرد تھا ، نے دلیل پیش کی کہ انسانوں کے بچے پیدائش کے وقت  بے بس ہوتے ہیں ،اگر دنیا میں آنے والا پہلا شخص ایک بچہ تھا تو لاما ٌ وہ زندہ  نہیں رہا ہوگا ۔ انسانی ارتقاءکے متعلق یہ یقیناٌ پہلی اصطلاح تھی ، لوگوں اورا نیکزیمینڈر نے یہ دلیل پیش کی  کہ  یہی ارتقائی عمل دوسرےجانوروں کے لیئے بھیرہا ہوگا  جن کے بچے مضبوط جسم رکھتےہیں  ۔سسلی ( بحیرہ روم کا ایک جزیرہ )  میں ٭ایمپیڈوکلز( 490-430 قبل مسیح)  نے ایک آلے ٭کلیپسیدرا ( وہ آلہ جو  بہتے پانی کو ناپتا ہے ) کامشاہدہ کیا ، اسے چمچہ یا ڈوئی بھی کہا جاتا ہے  جس کا درمیانی حصہ کھلا ، اورنیچے کی جانب سوراخ ہوتے ہیں  اگر اس کے درمیانی حصے کو ڈھانپ کر  اسےپانی میں ڈالا جائے تو پانی اس  کے سوراخوں سے باہر نہیں نکل  پاتا ، اس نے مزید مشاہدہ کیا کے اگر  اسے پانی میں ڈا لنے سے پہلے ڈھانپ دیا جائے تو پانی اس کے اندر داخل نہیں ہو سکے گا اس نے دلیل پیش کی کہ کوئی ایسی   غیر مرئی شے موجود ہے جو پانی کو سوراخوں  میں داخل ہونے سے روکتیہے ۔  اس نے وہ مادی شے دریافت کی جسے آج ہم " ہوا" کہتے ہیں ۔
لگ بھگ اسی دوران  ڈیمو قراطیس ( 460-370 قبل مسیح) جس کا تعلق شمالی ایتھنز (مصر) میں آنیین کا لونی سے تھا،نے غور و غوض کیا کہ جباشیاء کو ٹکڑوں میں کاٹتے ہیں تو کیا تبدیلی رونما ہوتی ہے ؟؟اس نے دلا ئل دیئے کہ اس عمل کومسلسل جارییہ نہیں رکھا جا سکتا اوردعوی کیا کہہر شے بشمول انسان ، بنیادی ذرات سے وجود میں آئے  ہیں جن کو مزید توڑایا کاٹا نہیں جا سکتا ۔ اس نے ان بنیادی ذرات کو  "ایٹم" کا نام دیا  جس کے اضافی مصری معنی  " نا قا بل تقسیم " کے ہیں۔٭ڈیمو قراطیس کا یقین تھا کہ ہر مادی عمل  ایٹمز کے درمیان  ٹکراؤسے پیدا ہوتا ہے، اپنےاس  تصور کو اس نے ٭" ڈبڈ ایٹمزم"کا نام دیا یعنی تمام ایٹمز  خلا میں گردش کرتے رہتے ہیں اور بکھرنے  کےبجائے ایک طریقئہ کار سے آگے بھڑتےہیں ۔آجکل ہم اسے ٭" انرشیہ " یا جمود کا قانون کہتے ہیں ۔یہ ارتقائی نظریہ کہ ہم اس کا ئنات میں رہنی والی واحد مخلوق نہیں  بلکہ بہت سوں کی طرح ہیں، اس میں ہماری پہچان یہ ہے کہ ہم اس کے مرکز پر  ہیں ،  پہلی دفعہ  ٭ارسٹارچس ( 310-230 قبل مسیح) کو پیش کرنے کا اعزاز حاصل ہے ، جو آنییین سائنس کا اختتام تھا ۔  اس کی صرف ایک کیلکو لیشن ہی باقی بچی ہے  ، وہ  پیچیدہ  جیو میٹری کا  ایک تجزیہ تھا ۔اس میں بہت احتیاط سے ایک چاندگرہن کے دوران  زمین کے بننے والے سائے سے اس کے سائز کا مشاہدہ کیا  گیا تھا ، اپنے ڈیٹا سے  ارسٹارچس نے نتیجہ اخذ کیا کہ سورج ،زمین سے سائز میں بہت بڑا ہے،۔شاید وہ اس آ ئیڈیا  سے متاثر تھا کہ چھوٹی اشیاء ،  نسبتاٌ بڑے اجسام کے گرد گردش کرتی ہیں اور دائرے سے منحرف نہیں ہوتی ۔ یہی وہ پہلا شخص تھا جس نےدلا ئل دیئے کہ  زمین ہمارے نظام شمسی کا مرکز نہیں ہے، بلکہ  یہ اور دوسرے سیارے اپنے سے بہت بڑے سورج کے گرد ش کرتے ہیں۔
  
  
اس تصور سے کہ سورج کو کوئی خصوصیت حاصل نہیں ہے یہ اس ادراک کی طرف ایک چھوٹا سا قدم تھا کہ زمین بھی ایک سیارہ ہے ۔ ارسٹارچس نے دفاع کیا کہ معاملہ یہی  تھا  اور وہ یقین رکھتا تھا کہ ستاروں کو سادہ آنکھ سے دیکھا جا سکتا ہے ، اور یہ صرف دور دراز بکھرے ہوئے سورج ہیں ۔لیکن آنیین سائنس ،مصری سکول آف فلاسفی میں سے  تھا جن میں سے ہر ایک کی مختلف اور بر عکس روایتیں تھیں ۔ بد قسمتی سے آنیین کا نظرئیہ قدرت  جس کی جنرل قوانین سے وضاحت کی جا سکتی تھی اور سادہ اصولی سیٹوں میں ڈھالا جا سکتا تھا ،  کاطا قتور اثر  صرف چند صدیوں تک بر قرار رہا ۔ 
  اس کی وجہ یہ ہے کہ آنیین کی تھیوریز میں بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ  ذاتی مرضی اور خیالات کی کوئی جگہ نہیں ، اور اس تصور کی کہ دنیا کا نظامچلانے میں خدا کا کوئی عمل دخل ہے۔ یہ ایک عظیم غفلت تھی جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ، مصری فلاسفرز ،آج کل کے بہت  سے لوگوں کی طرح صدیوں تک اس وجہ سے بے چین رہے ۔ مثال کے طورپر  ایک فلاسفر ٭ایپی کیورس ( 341-270 قبل مسیح)  نے ایٹمی نظریے کی اس بنیاد  پرمخالفت کی کہ  خدا کےمتعلق ماورائی  داستانوں پر عمل کر کے  اس کے غلام  بننا ہی  ایک فلسفی کی حقیقی منزل ہے ۔  ارسطو نے بھی ایٹمی نظریے کو رد کر دیا کیو نکہ  وہ یہ قبول نہیں کر سکتا تھا کہ انسان  بے روح اور بے جان  ذرات سے بنا ہے ۔  فلکیات کو سمجھنے کے لئیے آنیین کا یہ آئیڈیا ایک سنگ ِ میل تھا کہ کا ئنات کا  مرکز انسان نہیں ہیں ۔  لیکن یہ صرف ایک تصور تھا جسے ایک دفعہ رد کر کے دوبارہ اس پر غور   نہیں کیا گیا ۔ تقریباٌ 20 صدیوں بعد گلیلیو کے زمانےمیں اسے معمولی قبول کر لیا گیا تھا ۔
قدیم مصری تصورات میں سے زیادہ تر تحریریں  آجکل کی سائنس پر لاگو نہیں ہوتی  ، کیو نکہ یہ اسی طرح نظر سے اوجھل ہیں جیسے ان ِ کے قدرت کے  متعلق  نظر یات۔۔،  چونکہ مصریو ں نے سائنسی طریقۂ کار دریافت نہیں کیا تھا   ،ان کی تھیوریز تجر باتی طورپرتصدیق شدہ نہیں تھی ۔ لہذااگر ایک سکالر یہ دعوی کرتا تھا کہ  ایک ایٹم اس وقت تک سیدھے راستے ( لائن) پر  حرکت کرتا ہے جب تک وہ کسی اور ایٹم سے ٹکرا  نہیں جاتا ، اور کوئی دوسرا سکالریہ  چیلنج کرے کہ  ایٹم  تب تک سیدھی لائن میں حرکت کرتا ہے جب تک وہ کسی ٭سائیکلوپ ( ایک آنکھوالا  سسلی کا دیو ) سے جا ٹکرائے ، تو کوئی ایساصحیح طریقۂِ کار نہیں تھا کہ اس بحث کا فیصلہ کیا جا سکے ۔ اس کے ساتھ ہی آنیین سائنس میں انسان اورطبعیقوانین کے درمیان کوئی واضح فرق نہیں تھا۔
تھا، مثال کے طور پر 5ویں صدی میں ٭انیکزیمینڈر لکھتا ہے کہ تمام اشیاء ایک پرائمری  شے سے وجود میں  آئی ہیں اور اسی کی طرف واپس چلی جاتیہیں ، جیسے انھیں کسی نا انصافی پر جرمانہ اور تاوان ادا کرنا ہو ۔ 
آنیین فلسفی ٭اقلیدس ( 535-475 قبل مسیح ) کے مطابق سورج ہمیشہ اسی طرح طلوع ہوتا رہے گا ورنہ حکم عدولی کی صورت میں خدا کا انصافاس کو ختم کر دیگا ۔ اس کے کئی دہا ئیوں بعد ٭سٹوکس  جس کا تعلق تیسری صدی میں ابھرنے والے مصری سکول آف فلاسفی "سے تھا  ،نے انسان کے بنائے بتوں اور قدرتی قوانین کے درمیان فرق واضح کیا ۔ لیکن  انھوں نے  یہ اضافہ کیا کہ  جن قوا نین پر انسان عمل کرتا ہے وہ عالمگیر  ہیں ۔
جیسے کہ  خدا کی تعظیم اور اور والدین کی تا بعداری  قدرتی قوانین کی صف میں شامل ہوتے ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی وہ طبعی عوامل کو قانونی شقوں میں بیان کرتے تھے اور ان کو نافذ کرنے کی ضرورت پر زور دیتے تھے ، ان کے مطابق اشیاء جن قوانین پر عمل کرتی ہیں وہ بے جان ہیں ۔ اگر آپ یہسوچتے ہیں کہ انسان کو ٹریفک کے قوانین سمجھانا  مشکل ہے تو تصور کیجیے کہ  ایک سیارچے کی ایک الائپس ( بیضوی مدار ) میں گردش کو واضح کرنا کتنامشکل ہوگا ۔
اس کے بعد آ نے والے مفکرین کو  اس طریقۂ کار نے کئی صدیوں تک متاثر کیا ، 13 ویں صدی کے آغاز میں ایک  کرسچین فلاسفر  ٭ تھا مس ایکویناس(1274-1225 ) نے اس تصور کے متعلق  دلائل پیش کیئے  اس کے مطابق  بے جان اجسام اپنے انجام کوغیر متوقع طور پر نہیں  بلکہ ارادے سےپہنچتےہیں  کوئی ایسی ذہین ہستی ہے  جس کے حکم پر ہر قدرتی شے کا انجام ہوتا ہے ۔ اس کے ایک طویلعرصے بعد جرمن ماہر ِ فلکیات ٭ جوہنس کیپلر(1630-1571 )  نے اپنا نظریہ پیش کیا کہ  ستاروں اور سیاروں میں  عقل و شعور ہے  اور وہ تمام تر آ گاہی کیساتھ  جس نے ان کے دماغ کو جکڑا ہوا کیساتھ  قوانین حرکت پر عمل کرتے ہیں ۔  اس قیاس نے کہ قوانین ِ قدرت  پر اراداتاٌ عمل کیا جاتا ہے، قدیم زمانے کے لوگوں کو یہ سنجیدگی سےسوچنے پر آمادہ کیا کہ قدرت کیوں اس طرح عمل کرتی ہے ؟ اس کے بجائے کہ کس طرح یہ کارخانۂ قدرت مسلسل چل رہا ہے ؟
ارسطو اس طریقۂ کار کا سب سے بڑا محرک تھا کہ سائنس کے آئیڈیاز کی بنیاد مشاہدوں پر ہے ۔قدیم زمانے میں بلکل ٹھیک پیما ئش اور  میتھمیٹیکل کیلکو لیشن ممکن نہیں تھی ، 10 کی قوت کا طریقہ جو حسابی تاریخوں کے لئیےہمیں بہت مناسب لگتا ہے، تقریباٌ  700عیسویں پرانا ہے  ، جب ہندوؤں نے پہلا بڑا قدم لیتے ہوئے اس مضمون کو ایک طاقتور آلہ بنا دیا ۔ اسی طرح حسابی جمع اور تفریق کے خلا صے 15ویں صدی تک نہیں آئے تھے ۔ 16ویں صدی تک نا تو برابر کا نشان اور نا ہی گھڑی ایجاد ہوئی تھی جو وقت کو سیکنڈ کی حد تک پیمائش کر سکے ۔
حالانکہ ارسطو نے پیمائش اور گنتی میں پیش  آنے والے ان مسائل کو نہیں دیکھا تھا جن کے ذریعے مقداری پیشنگوئی کی جا سکتی ہے،اور جو  فزکس کی تشکیل میں ایک رکاوٹ تھے ، اور نہ ہی اس نے  انھیں بنانے کی ضرورت محسوس کی ۔ اس کے بجائے ارسطو نے فزکس کو ان اصولوں پر تخلیق کیا  جنہوں نے اسے دانشمندانہ  طور پر متاثر کیا ،اور وہ حقائق جو اسے غیر متاثر کن لگےانھیں ذیلی لکھا ۔اور اپنی کوششیں ان توجیہات پر مرکوز رکھی جن کے مطابق عوامل وقوع پزیر ہوتے ہیں ۔اور اس وضاحت پر نسبتاٌکم انرجی سرف کی کہ ہوا کیا تھا ؟؟ ارسطو نے وہاں اپنا نتیجہ اخذ کر دیا جہاں ان مشاہدات میں مخل ہونے والے اختلا فات کو نظر نداز نہیں کیا جا سکتا تھا ، لیکن یہ نتائج جو زیادہ تر وقتی وضاحتیں تھیں  نے صرف اتنا کام کیا کہ اختصار میں مزید اضافہ کر دیا ۔ 
اس طرح یہ کوئی بڑی بات نہیں رہی کہ اسکی تھیوریز  حقیقت سے کتنی منحرف تھی، وہ کسی بھی وقت یہ ظاہر کرنے کے لیئے ان میں ترمیم کرسکتا تھا  کہ وہاس جھگڑے کو ختم کرنا چاہتا ہے ۔  مثال کے طور پر اسکا قانونِ حرکت یہ ظاہر کرتا ہے کہ بھاری اجسام ایک مستقل سپیڈ سے نیچے کی طرف گرتے ہیں جو  ان کےوزن کے براہ ِراست متناسب ہوتی ہے ۔ یہ قانون اس امر کی وضاحت ہے کہ گرتے ہوئے اجسام تیزی سے سپیڈ پکڑتی ہیں۔ ارسطو نے ایک اصول ایجاد کیا کہ جب اجسام بہت تیزی سے آگے کی طرف گرتے ہیں اور جب وہ اپنے قدرتی حا لتِ سکون والے مقام کے قریب پہنچتے ہیں تو  پھر ایکسلریٹ کر جاتے ہیں ۔  یہ ایک ایسا اصول ہے جو آجکل بے جان اجسام کے بجائے کچھ لوگوں کے متعلق زیادہ موزوں وضاحت لگتا ہے ۔ اگرچہ ارسطو کی تھیوریز کی پیشنگوئی کرنے میں بہت کم اہمیت تھی ، مگر سائنس پر اسکی دسترس نے  مغرب پر رقریباٌ 2000 سال تک حکومت کی ۔
اسکے بعد آنے والے مصری عیسائیوں نے یہ تصور رد کر دیا کہ کائنات کا انتظام  قدرتی قوانین کے ذریعے چلتا ہے ، اور اس تصور کو بھی یہاں انسان کو ایک قابل قدر مقام حاصل ہے ۔ اگرچہ ٭میڈیول ( مصر کا درمیانی عرصہ ) میں کوئی واحد مربوط  فلسفیانہ نظام نہیں تھا ۔ ایک عام نفسِ مضمون یہ تھاکائنا ت خدا کا "ڈول ہا ؤس "ہے ، اور قدرتی عوامل کے بارے میں پڑھنے سے کہیں زیادہ قابلِ قدر مذاہب کے متعلق  مطالعہ کرنا ہے ۔
بشپ  ٹیمپیرآف پیرس  (1277)نے ،جو پاپ جان 21 کی ہدایات پرعمل کرتا تھا، ایک  فہرست  شائع کی جو 219ایسی اغلاط ااور خطرات پرمشتمل تھی  جنکی مذمت کیجاتی تھی ۔ ان خطرات میں یہ آئیڈیا بھی شامل تھا کہ قدرت قوانین پر عمل کرتی ہے ، کیو نکہ اسکا خدا کی قدرتِ کاملہ سے جھگڑا ہے۔
یہ امر دلچسبی سے خالی نہیں کہ چند ماہ بعد  پاپ جان ، قانونِ ثقل کے زیرِ اثر مارا گیا  جب اسکے محل کی چھت اس پر گر پڑی ۔ قوانینِ  قدرت  کےجدید نظر یے کا آغاز 17ویں  صدی میں ہوا ، بظاہر جو ہنس  کیپلر ہی  وہ پہلا سائنسدان نظر آتا ہے جس نے یہ نکتہ جدید سائنس کے تصور کےساتھ سمجھا۔ اگرچہ جیسا  کےکہہ ہم کہہ چکے ہیں وہ طبعی اجسام کے متعلق بے جان ہونے کا تصور رکھتا تھا۔ ٭گلیلیو (1642-1564) نے اپنی زیادہ تر سائنسی تحقیق میں "قانون" کا لفظ استعمال نہیں کیا( اس کے کام کے کچھ تراجم میں  یہ لفظ استعمال ہوا ہے ) اس بات سے قطعۂ نظر کے اس  نے یہ لفظ استعمال کیا یا نہیں ، لیکن اس نے کئی عظیم قوانین بےنقاب  کیے ، اور اہم اصولوں کے متعلق دلا ئل دیئے کہ مشا ہدات سائنس کی بنیاد ہیں، سائنس کا مقصد ہی یہی ہے کہ طبعی عوامل کے درمیان مقداری تعلق پر تحقیق کی جائے ۔ لیکن وہ پہلا شخص جس نے  تشریح کےساتھ شدید محنت کر کے قوانینِ قدرت کے اصولوں کو فامولے کی اس  صورت میں ڈھالا جس میں ہم آج انھیں سمجھتے ہیں وہ ٭" رین ڈیسکر یٹس " ( 1650-1596) تھا۔



ڈیسکریٹس  یقین رکھتا تھا کہ قوانینِ قدرت کی ماسز ( ایٹم) کے  ٹکراؤ سےوضاحت کی جا سکتی ہے ،جو 3 قوانین کے مطابق عمل کرتے ہیں،یہ نیوٹن کےقوانین کی  کے متعلق قبل از وقت فال تھی ۔ اس نے وثوق سے دعوی کیا کہ یہ قوانین ہر جگہ اور تمام اوقات  میں لا گو ہیں ، اور وضاحت کی کہ ان پر تابعداری سے عمل کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے  کہ اجسام اپنا ذہن رکھتے ہیں۔ ڈیسکریٹس اس بات کی اہمیت کو بخوبی سمجھ گیا تھا  جسے آج ہم ٭ابتدائیحالت ( ا نیشیل سٹیٹ ) کہتے ہیں ،جو کسی سسٹم کی ابتدائی حالت کو بیان کرتی ہے چاہے پیشنگوئی وقت کے کسیبھی وقفے میں کی گئی ہو ۔ ا نیشیل سٹیٹ کے ایک معلوم سیٹ کے ذریعے ، قوانینِ قدرتیہ ظاہر کرتے ہیں کہ کس طرح کسی سسٹم کو وقت کے مطابق حل کیا جا سکتا ہے ، لیکن ایسے سیٹ کی غیرموجودگی میں کوئی انکشاف کرنا نا ممکن ہے ۔ مثال کے طور پر زیرو وقت میں  ایک کبوتر سر پر سے پلک جھپکتے میں گزر جاتا ہے ، اس اڑنے والے جسم کا راستہ( پاتھ )  نیوٹن کے قوانین کے ذریعے معلوم کیا جا سکتا ہے کبوتر ابھی تک ایک ٹیلیفون تار پر بیٹھا ہے یا 20 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اڑ رہا ہے ؟؟
اس پر فزکس کے قوانین لاگو کرنے کےلیئے سسٹم کی ابتدائی حالت کا معلوم ہونا ضروری ہے ۔یایہ کہ ایک مخصوص وقت میں اسکی پوزیشن کیا تھی ؟  (بلکل اسی طرح ان قوانین کے ذریعے کسی نظام کو  بیک ٹائم میں اختیار کیا جا سکتا ہے )۔
اس از سرِ نو تشکیل پانے والے یقین کے ذریعے  نئے مواقع حاصل ہوئے کہ ان قوانین  کے ساتھ ہی اس تصور کا بھی فیصلہ کر دیا جائے کہ خدا کا کوئی وجود ہے ؟؟ ڈیسکریٹس کے مطابق   کسی اخلاقی تجویز  یا  حسابی تھیورم کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ قدرت نہیں بلکہ خدا کرتا ہے ۔ وہ یہ  یقین رکھتا تھا کہ تمام قوانین خدا نے بنائے  اور  منتخب  کیئے ہیں  اور ان میں  انسان کا کوئی دخل نہیں ۔ کیو نکہ یہی ممکنہ قوانین ہیں جن کا ہم تجربہ رکھتے ہیں ، اس نے دلیل پیش کی کہ قوانین  خدا کی قدرت سے متصا دم نہیں بلکہ اسکی اپنی اندرونی حقیقت کا عکس ہیں ۔اگر یہ سچ ہے تو کوئی بھی یہ سوچ سکتا ہے کہ خدا کے پاس اختیار ہےکہ وہ ایسی کئی اور دنیائیں تخلیق کر سکتا ہے جس میں سے ہر ایک کا تعلق  علیحدہ علیحدہ ابتدائی حالتوں سے ہو۔ لیکن ڈیسکریٹس نے اسے خود بھی  یہ کہہ ردکر دیا کہ کائنات کے آغاز کے وقت مادے کی تر تیب چاہے کچھ بھی رہی ہو یہ ممکن نہیں کہ کسی وقت ایک اور ہماری جیسی دنیا ظاہر ہوئی ، اس نے  مزیدیہ محسوس کیا کہ ایک دفعہ  دنیا کو بنا کر اور انتظام چلا کر خدا نے اسے مکمل طور پر تنہا چھوڑ دیا ۔
ایسی ہی پوزیشن (چند اعتراضات کےساتھ)   ٭ آ ئیزک نیوٹن( 1727-1643) نے بھی اختیار کی ۔ نیوٹن ہی وہ شخص ہے جسے سائنسی قوانین میںجدید تصورات کےساتھ  بڑے پیمانے پر حما یت کا اعزاز حاصل ہے ۔ جن میں اس کے 3 قوانینِ حرکت اور گریویٹی کا قانون شامل ہیں ، جو کہ زمین ، چاند اور سیاروں کے مداروں کے متعلق ہے اور مزید چند عوامل  مثلاٌ سمندر کا مدو جزر کی وضاحت کرتے ہیں ۔ اس نے کئی مساواتیں بنائی اور وہحسابی طریقۂ کار واضح کیا جو ہم نے اس سے اخذ کیا ہے ، اور آج بھی پڑھایا جاتا ہے ، جب کبھی کوئی آرکیٹیکٹ  کسی عمارت کا ، کوئی انجینیئر کسی  کارکا ڈیزائن بناتا ہے ، یا کوئی  فزسسٹ  حساب لگاتا ہے کہ راکٹ کی سیدھ کیسے منتخب کر کے  اس کو مریخ پر اتارا جائے تو یہی طریقۂ کار استعمال کیا جاتا ہے ۔



جیسے کہ شاعر ٭ایلکزینڈر پاپ نے کہا
 قدرت اور قوانین رات کے اندھیرے میں چھپے ہوئے تھے
خدا نے کہا جاؤ نیوٹن اور سب روشن ہو گیا ۔۔۔۔۔!!!!!!!!!!!
 آج کل زیادہ تر سائنسدان یہ کہتے ہیں کہ قوانینِ قدرت ایک ضا بط ہیں  جن کی بنیاد باقاعدہ مشاہدہ ہے 
    جن کے ذریعے پیشن گوئی کیجاتی ہے ، جس کا تعلق عمومی  بنیادی صورتحال سے ہے۔ مثال کے طور پر  ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ سورج  ہر صبح مشرق سے  طلوع ہوتا ہے، اور یہ قانون  بناتے ہیں کہ سورج ہمیشہ مشرق سے نکلتا ہے ، چونکہ سورج کا طلوع ہونا لیمیٹڈ مشاہدہ ہے لہذا اس سے مستقبل کے بارے میں مزیدار پیشنگو ئیاں کی جا سکتی ہیں ،  جبکہ دوسری جانب ایک اور بیان کہ اس آفس میں تمام کمپیوٹر بلیک کلر کے  ہیں، یہ قانونِ قدرت نہیں ہے کیو نکہ اس کا تعلق صرف آفس میں موجود کمپیو ٹرز سے ہے ، لہذا ایسی کوئی پیشنگوئی ممکن نہیں کہ اگر آفس نیا  کمپیو ٹر خریدے تو وہ بھی بلیک کلر کا ہوگا ۔
قوا نینِ قدرت کے   متعلق ہمارا یہ نیا ادراک ایک لمبے عرصے سے  فلاسفرز کے لئیے ایک ایشو رہا ہے ، اور یہی وہ پر اسرار سوال ہے جو ہر کوئی پہلی  د فعہ  پو چھتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک فلا سفر ٭جان ڈبلیو کیرول نے  دو  بیانات کا موازنہ کیا ۔ جن میں سے ایک یہ تھا کہ تمام سونے کے  کرے ایک میٹر سے کم چوڑے ہوتے ہیں ،جبکہ دوسرا بیان یہ تھا کہ تمام یو رینیم کے کرے ایک میٹر سے زیا دہ چوڑے نہیں ہوتے ۔ ہمیں  اپنے مشاہدے سےمعلوم ہے کہ حقیقتاٌ کو ئی سونے کا ٹکڑا ایسا نہیں جو ایک میٹر سے زیادہ چوڑا ہو ، اور مستقبل میں   بھی ایسا ہونا ممکن نہیں ، لیکن ہمارے پاس اس مشاہدے کے لیئے کوئی عقلی دلیل موجود نہیں ہے لہذا اس بیان کو قانون نہیں کہا جا سکتا ۔ جب کے دوسری جانب یہ بیان کہ یورینیم 235کے تمام کرے ایک میٹر سے کم چوڑے ہوتے ہیں ایک قا نونِ قدرت سمجھا جا سکتا ہے  ، کیو نکہ نیو کلئیر فزکس کے مطابق اگر کوئی یورینیمکرہ تقریبا ٌ 6 انچ سے زیادہ بڑا ہو جائے  تو وہ خود کو   ایک نیو کلیئر دھما کے کی صورت میں اڑا دیتا ہے ، اس لئیے ہم یہ یقین کر سکتے ہیں کہ ایسا کوئی کرہ   وجود میں نہیں آ سکتا ۔
( اگرچہ قانون بنانے کا یہ ایک با  ضا  بطہ طریقہ نہیں ہے ) لیکن پھر بھی یہ اہمیت رکھتا ہے کہ وہ مشا ہدات  جو تصدیق شدہ ہوں وہ قوانین کہلا ئیں گے ۔اور ایسے تمام قوانین کا تعلق نسبتاٌ بڑے قوانین کے سسٹم سے ہوتا ہے ۔ جدید سائنس  میں قدرتی قوانین کو  میتھ میٹکس کی زبان میں اس طرح  لکھا گیا ہے کہ وہ اعتر اض کے بغیر  بلکل صحیح سمجھے جاتے ہیں کیو نکہ ان کا مشاہدہ کیا جا چکا ہے ۔اگرچہ عالمگیر قوانین کے طور پر نہیں  کم از  کم،  شرائط کے مشروط سیٹ کے طور پر ہی سہی ۔۔۔۔، مثال کے طور پر ہم یہ جانتے ہین کہ اگر اجسام کی موونگ ولاسٹی  روشنی کی سپیڈ کے برابر ہو تو نیوٹن کے قوانین کو جدید صورت میں  ڈھا لا جا سکتا ہے، ابھی تک  نیوٹن کے ان قوانین کو اس لیئے قوانین سمجھاجاتا ہے کیو نکہ یہ  کم از کم اندازوں پر بہت اچھی طرح پورے  اترتے ہیں ۔  روز مرہ  ذ ندگی کے معاملات میں جس سپیڈ سے ہمارا واسطہ پڑتا ہے وہ روشنی کی سپیڈ سے بہت کم ہے ۔
 اگر قدرت قوانین کے مطابق چل رہی ہے تو  یہ تین سوالات  ذہن میں آتے ہیں ،
٭1  ٭ان قوانین کی ابتدا کیا تھی ؟؟
٭2 ٭کیا ان قوانین  کے بر خلاف کچھ ہوا ہے ، جیسے کہ معجزات کا رونما ہونا ؟؟
٭3  ٭کیا ان قوانین کا کوئی ممکنہ سیٹ بھی ہے ؟؟
   یہ سوالات مختلف طریقوں سے سائنسدانوں ، فلا سفرز ، اور  عالمِ دین سے پو چھے جاتے رہے ہیں اور عام طور پر ان کے جو جوابات دیئے جاتے ہیں وہ کیپلر ، گلیلیو ، ڈیسکریٹس اور نیوٹن کے دیئے گئے یہی جوابات ہیں کہ  ان قوانین کا خالق خدا ہے ،  حالانکہ یہ تو صرف خدا کی تعریف  ہے ، ورنہ اسکی قدرت کو  اس طرح بھی مخصوصکیا جا سکتا ہے جیسے پرانے  عہد ناموں٭( انجیل کا آخری وصیت نامہ )  کو تخلیق کرنے واالا خدا ۔۔!!!
جب ہم پہلے سوال کے جواب میں خدا کو شامل کرتے ہیں تو  پھر ایک کے بعد ایک معمہ   سامنے آتا چلا جاتا ہے ۔ اور  اصل پیچیدہ صورتحال  دوسرے سوال میں پیدا ہوتی ہے ۔  یعنی کیا ان قوانین کے بر خلاف کچھ رونما ہو سکتا ہے جیسے کے  معجزات کا  ہونا ۔۔۔۔؟؟؟؟؟
دوسرے سوال کے جواب کے متعلق آرا تقسیم ہو چکی ہیں ،   جیسےکے سب سے زیادہ مستند اور اور قدیم مصری ادیب ارسطو اور  پلا ٹو کا کہنا تھا کہ انکے ذریعے کچھ  ثا بت نہیں کیا جا سکتا، لیکن اگر بائبل کا  جائزہ لیا جائے  تو معلوم ہوگا کہ خدا نے نا صرف یہ قوانین بنائے  ہیں بلکہ وہ اپیل کرتا ہےکہ  بیماروں کی صحت یابی ،   خشک سالی کے خاتمے یا ٭بیس بال کو دوبارہ اولمپک کھیل  مقرر کرنے  اور دیگر کاموں کیلیئے دعا کرو تا کہ معجزات رونماہوں۔ ڈیسکریٹس کی تقریباٌ تمام  عیسائی مفکرین نے  پر زور مخالفت کی کہ خدا ان قوانین کو معطل کرنے کی قدرت رکھتا ہے تاکہ معجزات
ظہور میں آ سکےیہاں تک کہ نیو  ٹن بھی ایک طرح سےمعجزات پر یقین رکھتا تھا ۔ اسکی سوچ تھی کہ سیاروں کے مدار غیر مستحکم ہیں۔کیو نکہ سیارے ایک دوسرےپر لگنے والی  کششِ ثقل ، مدار میں خلل پیدا کرتی ہے ، جو کہ وقت کیساتھ ساتھ بڑھتی جاتی ہے ، نتیجتاٌ  یا تو سیارہ سورج میں جا گرے گا   یا پھر نظامِ شمسی  سے باہر نکل جائے گا ۔ نیو ٹن  یقین رکھتا تھا کہ خدا ہی ان مداروں کو  دوبارہ ترتیب دیتا ہے ، یا خدا نے ایک آسمانی گھڑی بنائی   ہوئی ہےجو کہ 
مسلسل چلتی رہتی ہے ۔ حا لانکہ٭ پیری سائمن اور ٭ کا رلو ئس ڈی لا پلیس ( 1827-1749) جسے عموماٌ لا پلیس کہا جاتا ہے ، نے دلائل دیئے کہ تبدیلی کی وجہ آہستہ آہستہ  اضافہ نہیں ہو گی بلکہ پیریا ڈک  ہوگی جو کے ریپیٹڈ سائیکلز سےواضح ہوتی گئی اور تب نظام  شمسی نے خود کو دوبارہ ترتیب دیا ہوگا ۔  لہذا یہ بلکل واضح ہے کہ کسی خدائی وسا طت کے بغیر  نظامِ شمسی آج اس حالت میں کیو نکر موجود ہے۔
لا پلیس کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے پہلی دفعہ سائنسی فلا سفی کو  واضح نکات کی شکل دی  اور ایک مخصوص وقت میں کائنات کی حالت کو قوانین کے سیٹ کی صورت میں پیش کیا ۔ جس کے ذریعے ماضی اور مستقبل دونوں کے متعلق پیشن گوئی کی جا سکتی ہے ۔ جن میں سے معجزات اور خدا کا  ایکٹو  رول کو منہا کر دیا گیا ہے ۔ جو سائنٹیفک فلا سفی  لا پلیس  نے  فامولے کی صورت میں پیش کی وہی سوال دو کا سائنٹفک جواب ہے اور ایک ایسا قانون ہے جو کہ اس  کتاب میں نہا یت اہمیت کا حامل ہے۔
ایک سائنسی نظریہ صرف اس وقت ہی ایک قانون قرار پاتا ہے جب  کوئی ماورائی ہستی اس میں مداخلت نہ کرے ، یہ سب کچھ سمجھتے ہوئی نپولین نے لا پلیس سے پوچھا تھا کہ خدا کا تصور اس تصویر میں کہا ں فٹ آتا ہے ؟؟؟ لا پلیس کا جواب تھا  "سر مجھے ایسا کوئی دعوی کرنےکی قطعاٌ ضرورت نہیں ہے ۔"
 چونکہ دنیا میں رہتے ہوئے لوگوں کا دوسری اشیاء سے واسطہ پڑتا ہے   لہذا یہ سائنسی فلا سفی بلکل اسی طرح لو گوں پر بھی لا گو ہوتی ہے ،  تاہم یہ کئی  طبعی عوامل  کو فولو  کرتے ہوئے  اس انسانی رویئے پر بھی نکتہ چین ہے کہ وہ  خود مختار ہیں ، مثال کے طور پر  ٭فری ول کے تصور کی وضاحت کرنے کیلیئے ڈیسکریٹس کہتا ہے کہ انسانی دماغ میں کوئی ایسی چیز ہے  جو طبعی دنیا سے مختلف ہے ۔ اور اس کےقوانین کے تابع نہیں ہے ۔ اس کے خیال میں ایک شخصیت کے دو حصے ہیں ،ایک جسم اور دوسرا روح ، جسم ایک عام مشین  کیطرح ہے اور روح کا نفسِ مضمون  سائنسی قوانین نہیں ہیں۔ ڈیسکر یٹس کو٭انا ٹومی اور سائیکا لوجی میں بہت دلچسبی تھی ، اس نے دماغ کے مرکز میں ایک چھوٹے سے عضو کو ٭پا ئینل ( اینڈو کرائن گلینڈ) کا نام دیا  اور روح کا بنیادی مقام قرار دیا ۔ اس کے خیال میں یہی وہ گلینڈ ہے  جہاں ہماری تمام سوچ جنم لیتی ہے ۔
کیا لو گوں کی کوئی آزاد سوچ  یا مرضی ہوتی ہے ؟ اگر ایسا ہے تو ارتقائی عمل میں یہ کہاں نشونما پاتی ہے ؟؟  کیا ٭بلیو گرین ایجی یا  بیکٹیریاکی کوئی فری ول ہے ؟؟ یا ان کے روئیے آٹو میٹک اور سائنسی طریقہ کار کے اندر  ہوتے ہیں؟؟ کیا صرف ملٹی سی جانداروںمیں  فری ول ہوتی ہے یاصرف ممالیہ میں ؟
ہم یہ سوچ سکتے ہیں کہ جب ایک چمپینزی ایک چبانے والی چیز کی جگہ ایک کیلے  کا انتخاب  کرتا ہے  یا ایک بلی آپ کے صوفے کو نوچتی ہے تو  کیا وہ  اپنی مرضی کا مظاہرہ کرتے ہیں ؟ لیکن ایک ٭راؤنڈ وارم جو 959 سیل پر مشتمل  ایک سادہ مخلوق ہےکیا وہ بھی فری ول کی خصو صیت رکھتا ہے ؟؟ 
وہ تو صرف ایک مردود  کیڑا ہے جو  آج مجھے لنچ میں کھانے کو ملے گا ، یہ کوئی زیا دہ مزیدار نہیں ہوتا اور بندہ اس کے بجائے کھانے کو کچھ اور تلاش کرتا ہے ۔   توپچھلے تجزیئے کے مطابق کیا یہ ٭فری ول کا مظاہرہ ہے اگر چہ ہم محسوس کرتے ہیں کہ اپنے لیئے کام کا انتخا ب ہم خود کرتے ہیں ، مالیکیو لر بیا لوجی کے مطابق تمام حیا تیا تی عوامل  فزکس اورکیمسٹری کے قوا نین کے مطابق  اسی طرح چلتے ہیں جیسے سیارے اپنے مداروں میں ۔  نیورو سائنس میں  موجودہ تحقیق سے بھی یہ ثابت ہو چکا ہے کہ یہ ہمارا فزیکل برین ہے جو ان قوانین کے مطابق عمل کرتا ہے،جنھیں ہم اچھی طرح جانتے ہیں اور یہی ہماری حرکات کو بھی متعین کرتے ہیں ۔ مثال کے طور ایک مریض کے زندہ دماغ  کی برین سرجری  کے مشاہدے سے معلوم ہوا  کہہ دماغ کے مخصوص حصوں کو الیکٹرک شاک دینے سے اس میں یہ ہاتھ یا پاؤں ہلا نے کی تحریک پیدا کی جا سکتی ہے   یا  وہ لبوں کو حرکت دیکر کچھ بولے ۔ یہ سمجھنا بہت مشکل ہے کہ  جب ہمارا رویہ  طبعی قوانین سے متعین ہوتا ہے تو فری ول کس طرح کام کر سکتی ہے ؟؟؟ لہذا ایسا لگتا ہے کہ انسان ایک بایو لوجیکل مشین سے زیادہ  نہیں اور خود مختاری محض ایک " فریب " ہے ۔
 جب ہم یہ قبول کر لیتے ہیں کہ انسانی رویہ  قدرتی قوانین سے متعین ہوتا ہے  تو یہ بات بھی معقول نظر آتی ہے کہ یہ سب عمل اتنے بھر پور انداز میں اور  اتنے سارے تغیرات کیساتھ ہوتا ہے کہ  عملی  طور پر اسکی پیشنگوئی کرنا نا ممکن ہے ۔  کیو نکہ اس کے لیئے انسانی جسم کے کھر بوں  کھربوں مالیکیو  لز  میں سے ہر ایک کی ابتدائی حالت کا معلوم ہونا ضروری ہے  تا کہ ان سے متعلقہ بہت سی مسا واتوں کو حل کیا جا سکے ۔ جس کے لیئے کچھ  ارب سال درکار ہوں گے۔ یہ ایسا ہی ہوگا ایک بطخ بیٹھ کے شکاری کا انتظار کرے ۔۔۔۔ !!!
کیو نکہ یہ نا قابلِ عمل ہے کہ فز یکل قوانین کو انسانی روئیے کے متعلق پیشنگوئی کرنے کے لیئے استعمال کیا جائے   لہذا اس مقصد کے  لیئے ایک ٭" افیکٹو تھیوری "   اختیار کی جاتی ہے ۔  یہ فزکس کا ایک ایسا فریم ورک ہے  جس میں بنیادی عمل کی  تفصیلات کا ذکر کیے بغیرمخصوص مشاہداتی عوامل کو ظاہر کرنے کے لیئے تشکیل دیا جاتا ہے ۔  مثال کے طور پر  کسی انسان کے جسم میں موجودتمام ایٹمزکا دنیا میں موجود باقی تمام ایٹمز کیساتھ ثقلی تعلق کی مسا واتوں کو صحیح طرح حل نہیں  کیا جا سکتا  ۔ لیکن تجرباتی مقا صد کے لیئے  ہر شخص اور زمین کے درمیان کششِ ثقل کو  صرف چند نمبروں کے ذریعے  ظاہر کیا جا سکتا ہے ۔ مشلاٌ اس شخص کا کل ماس اسی طرح ہم پیچیدہ ایٹمز  اور مالیکیو لز کے کے عومل کو کنٹرول کرنے والی مسا واتیں کو بھی حل  نہیں کر سکتے۔ لیکن ایک مؤثر تھیوری بنائی گئی ہے جو "کیمسٹری " کہلا تی ہے، جو کہ باہمی عمل کی تفصیلات کو  بیان  کیئے بغیر پوری طرح وضا حت  کرتی ہے کہ ایٹم اور مالیکیو ل کیمیا ئی عمل میں کسطرح  " بی ہیو " کرتے ہیں ؟؟ اسی طرح چونکہ انسانوں کے معاملات میں میں بھی ان مساواتوں کو حل نہیں کیا جا سکتا جو ان کے رویوں کو متعین کرتی ہیں ، یہاں ایک افیکٹو تھیوری استعمال کی جا سکتی ہے کہ لوگ " فری ول" رکھتے ہیں، ہماری خود مختاری اور اس سے رونما ہونےوالی ہماری حرکات کا علم  " سائنس آفسائیکالوجی " کہلاتا ہے ۔ اسی طرح  اکنا مکس بھی ایک  پر اثر تھیوری ہے جس کی بنیاد خود مختارقیاس اور اس مفروضے پر ہے کہ انسان اپنی ممکنہ  متبادل راہوں کو تشخیص کر کے ، اپنے لیئے بہترین کا انتخاب کرتے ہیں ۔
 لیکن یہ دیکھا  گیا ہے کہ افیکٹو تھیوری  محدود پیمانے پر صرف انسانی رویوں کی پیشنگوئی کرنے  میں کامیاب ہوئی ہے ، ہم سب جانتے ہیں کہ  فیصلے اکثر اوقات  منطقی نہیں ہوتے  اور نا ہی انتخاب کے متعلق کسی  مؤثر تجزیئے کا سبب ہوتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کا بیڑا غرق ہو گیا ہے ۔ تیسرا سوال اس ایشو ( نتیجہ ) کو  بیان کرتا ہے کہ یہ قوانین ِ  کائنات جوانسا نی  رویوں کو متعین کرتے ہیں، کیا یہ " بے نظیر " ہیں؟؟؟ گر پہلے سوال کا جواب یہ دیا جائے کہ خدا نے تمام قوانین تخلیق کیےہیں  تو یہ سوال مزید دریافت کرتا ہے کہ کیا خدا کو ان کا انتخاب کرنے میں کھلی چھٹی ملی  ہوئی تھی؟؟ 
ارسطو اور پلاٹو ، اپنے بعد آنے والے ڈیسکریٹس اور  آئن سٹائن کیطرح  یقین رکھتے تھے   کہ " قوانینِ قدرت " ضرورت سے ما ورا ہیں ،  کیو نکہ یہ منطقی مفہوم رکھتے ہیں لہذا ارسطو اور بعدمیں آنے والے اسکے  جانشینوں نے  محسوس کیا ، اس  نکتہ پر زیادہ توجہ دیئے بغیر کہ قدرت کسطرح عمل کرتی ہے  ،ان قوانین کو با آ سانی اخذ کیا جا سکتا ہے ،  اسطرح کے  تمام تو  جہ اس امر پر رکھی جائے  کے قوا نین کی اصلیت کیا ہے ؟؟  اس کے بجائےکہ اجسامانھیں فولو   کیوں کرتی ہیں ؟؟؟
اس کا  نتیجہ وہ خاصیتی قوانین  نکلے  جو کہ زیادہ تر غلط تھے  او ر  صد یوں تک سائنسی  افکار پر غالب رہنے کے باوجود کسی بھی طرح زیا دہ کار آ مد ثابتنہیں ہوئے ، اس کے بہت عرصے بعد  گلیلیو جیسے لوگوں نے ہمت کر کے  ارسطو کی اتھا ر ٹی کو چیلنج کیا ، اوراس کے بجائے کہ  واضح " سبب " اسےکیا کرنے پر  راغب کرتے ہیں؟؟مشاہدہ کیا کہ قدرت کس طرح عمل کرتی ہے ؟؟
 اس کتاب کی بنیاد ٭" سا ئنٹیفک ڈ یٹر ما ئینیشن " ( سائنسی دا ئرہ ِ کار )ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ معجزات یا قدرتی قوا نین کے خلاف کچھ وقوع  پزیر ہونا نا ممکن ہے  ۔ لہذا ہم زیادہ گہرائی والے سوا لات #1 اور #3 کیطرف  پلٹتے ہیں ، اس نکتہ کی طرف کہ یہ قوا نین کس طرح قائم ہوئے ؟اور کیا  یہی ممکنہ قوانین  ہیں؟؟ لیکن اس سے پہلے اگلے باب میں ہم  اس نکتے کو بیان کریں گے کہ  قوانین کیا ظاہر کرتے ہیں ؟؟؟ زیادہ تر سا ئنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ ایک بیرونی حقیقت کا حسابی  عکس ہیں ،  جو  ٭آبزرور( جو اسے دیکھ رہا ہے )  کی مو جودگیسے ما ورا ہے۔ لیکن جب گہرائی میں جا کر اس طریقۂکار کا جائزہ لیا جاتا ہے جس  کے ذریعے ہم مشا  ہدہ کر کے  اپنے ماحول کے متعلق تصورات  بناتے ہیں  تو  ہم اس سوال سے جا ٹکراتے ہیں کہ  کیا واقعی ہمارے پاس  یہ یقین کرنے کی کوئی  معقول وجہ ہے کہ"ایک غیر جانبدار ہستی " وجودر کھتی ہے ؟؟؟؟
       ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭              


Share on Google Plus

About Unknown

0 comments:

Post a Comment