WELCOME TO MELTED TRUTHS

All Truths are easy to understand once they are discovered;the point is to discover them.(Galileo Galilei)

"دریچہ" قسط نمبر 3 The Valve


 "دریچہ "
                    
" A Novel Based on Artificial Intelligence "

از صادقہ خان   



       "تیسری قسط "    
                                      

                                        پروٹو ٹائپ امپلیمینٹشن ۔۔ سوفٹ ویئر انجینئرنگ میں ریڑھ کی ہڈی
حیثیت رکھتا ہے ۔۔جس کا تعلق بنیادی طور پر ’’ رسک اسیسمنٹ‘‘ سے ہے ۔ یعنی ایک پراجیکٹ کے پروٹو ٹائپ کا بنیا دی مقصد ۔۔ اس میں سے ہائیلی رسک آپشنز کو نکالنا ہوتا ہےآپ ایک سوفٹ وئیر بناتے وقت اِس بات کا بھرپور خیال رکھتے ہیں کہ وہ مارکیٹ میں کتنا بوسٹ کریگا اگرکسٹمرز ۔۔
اُس میں زیادہ دلچسپی نہ لیں تو لازمی آپ کو اُس کو اپڈیٹ کر کے کسٹمرز کی ڈیمانڈ پوری کرنا ہوگی ۔۔ جس میں آپ کا بہترین مددگار ۔۔ یہ پروٹوٹائپ ۔۔ ثابت ہوگا ۔۔ یوشع کسی منجھے ہوئی پر وفیسر کی طرح ۔۔ لیکچر دینے میں مصروف تھا ۔۔اور عنایہ دم بخود سنے جا رہی تھی ۔۔ یونیورسٹی کے لیکچر میں جو کچھ اُس کے سر کے اوپر سے گزر گیا تھا ۔۔ وہ یوشع نے گویا اُسے گھول کے پلا دیا تھا ۔۔!افراسیاب نے کھڑکی سے باہر ۔۔ موسلا دھار برستی بارش کو دیکھا ۔۔پھر پلٹ کر لیپ ٹاپ اور بکس میں گم بچوں کو ۔۔ یوشع ۔۔۔ التمش کا ہم شکل تھا ۔۔ خاص طور پر اسکی گہری ۔۔ذہانت سے بھر پور چمکتی آنکھوں کو دیکھ کر ۔۔ بے اختیار بھائی کی یاد ۔۔اکثرانکی آنکھوں کو نم کر دیا کرتی تھی ۔۔
التمش ۔۔افراسیاب سے تین برس بڑا تھا ۔۔ مگر اپنی کم گوئی اور قدرے لیئے دیئے رہنے کی عادت کی وجہ سے۔۔وہ افراسیاب کو خود سے دس برس بڑا لگا کرتا تھا ۔۔ وہ جب کبھی کیڈٹ کالج سے گھر آتا ۔دونوں بھائیوں کا سارا وقت اکھٹے گزرتا ۔ افراسیاب کا اٹھنا بیٹھنا ۔۔اوڑھنا ۔۔بچھونا ۔۔اگر آرمی تھی ۔۔ تو التمش کی ساری دنیا ۔۔کمپیوٹر کے گرد گھومتی تھی ۔۔ طبیعتوں میں ۔۔ گہرےتفاوت کے باوجود ۔۔ایک دوسرے سے انکی انسیت ۔۔ شدید محبت ۔۔اور بے مثال دوستی قابلِ دید تھی ۔۔!
یہ اُن بھلے وقتوں کا ذکر ہے ۔۔ فیس بک اور واٹس ایپ پر ۔۔فرینڈز کے ساتھ چیٹ میں مگن نہیں رہتا تھا ۔جب زندگی میں ۔ سچے رشتوں اور محبتوں کی مہک باقی تھی ۔۔ جب چھوٹے ۔۔چھوٹے ۔۔اختلافات ۔۔اور جھگڑوں پر نوبت ۔۔ایک دوسرے کا دست و گریبان پکڑنے تک نہیں آ یا کرتی تھی ۔۔!!
یہ اُن اچھے وقتوں کی کہانی ہے ۔ جب انسان اپنی ذات سے منسلک رشتوں کی اہمیت اور حقوق سے نا صرف پوری طرح آگاہ تھا ۔بلکہ حتی الامکان حد تک ۔۔اُن کو نبھانے کی کوشش بھی کرتا تھا ۔۔ وہ آج کے انسان کی طرح ۔۔سیل اور ٹیبلٹ ہاتھ میں لیئےساتھ بیٹھے ماں ، باپ کو نظر انداز کر کے ۔۔۔۔۔
اس وقت تک انسان کی زندگی یوں ٹیکنالوجی کے جال میں جکڑی نہیں گئی تھی ۔۔ سو وہ اپنی مرضی سے کھلی فضا ۔میں سانس لینے کے لئے آزاد تھا۔۔ وہ رشتوں ۔۔ محبتوں کے اصل رنگ سے پوری طرح لطف اٹھایا کرتا تھا ۔۔ جو ہماری زندگوں سے کب کے رخصت ہو چکے ہیں ۔۔سوشل میڈیا پر ایک وسیع سرکل ۔۔ایک طویل فرینڈ لسٹ رکھنے کے با وجود آج کا انسان ۔ خود کو اندر سے خالی اِس لیئے محسوس کرتا ہے کہ سوشل ویب سائٹس اسکی ایک مصنوعی زندگی کی طرح ہیں ۔۔جنھوں نے اُسے حقیقی زندگی کی خوشیوں اور رشتوں سےاتنا دور کر دیا ہے کہ ۔۔ ساتھ بیٹھے ۔۔میاں بیوی ایک دوسرے سے روبرو ۔اظہارِ محبت کرنے کے بجائے سٹیٹس دیکر ۔باقاعدہ پبلک میں اپنے جذبات کا ظہار کرنا پسند کرتے ہیں ۔۔ جہاں لڑکیاں حقیقی بھائی سے چاہے دو دن بھی بات نہ کریں ۔۔، مگر فیسبک کے بھائی انہیں علی الصبح ہی یاد آ جاتے ہیں ۔۔ جہاں ۔۔ رشتے۔۔ محبت ۔۔احترام ۔۔ اور جذبے سب کچھ محض دھاوا ہیں ۔۔
آج کا انسان چاند اور دیگر سیاروں پر کمندیں تو ڈال رہا ہے ۔ ہر لمحہ مانیٹرز کے ذریعے ۔مارس پر بھیجے جانے والے ’’ کیوریوسٹی روور‘‘ کی نقل و حرکت نوٹ کرتا رہتا ہے ۔۔ یوں جیسے مارس کی سطح میں کوئی قارون کا خزانہ دفن ہو ۔ یا کوہِ قاف کی پریاں بستی ہوں ۔۔جو یکدم چھو منتر پڑھ کر حاضر ہو جائیں گی ۔۔مگر اُس کے پاس اولڈ ہومز میں موجود ۔۔اپنے والدین ۔۔ اپنے ساتھ والے گھر میں رہنے والے ہمسائے کا حال دریافت ۔۔ کرنے کے لیئے وقت نہیں ہے ۔۔ آج کا انسان بارش کی پہلی بوند کے گرتے ہی ۔مٹی کی سوندھی مہک کو محسوس کرنے کے بجائےوائی فائی آن کرتا ہے ۔۔ پھر گوگل پر کوئی خوبصورت سی تصویر ۔۔ کوئی انوکھی سی نظم یا غزل تلاشتا ہے ۔۔ تاکہ بارش انجوائےکرنے کا سٹیٹس اپڈیٹ کر سکے ۔۔
جب شدید گرمی کے بعد تڑ تڑ ۔ مینہ برستا ہے ۔۔تو اِس بارانِ رحمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے بجائے ۔آج کی یوتھ۔ سیل فون پر کھٹا کھٹ میسیجز اور کمنٹس ۔۔ٹائپ کرنے میں مصروف نظر آتی ہے۔۔ وہ قطعاََ بھول جاتے ہیں ۔۔ کہ کچھ دیر پہلےتک وہ گرمی سے جاں بلب تھے ۔۔اور یہ بارش خدا کا اپنے بندوں پر کتنا بڑا کرم ہے ۔۔ جو ایک سسٹم کے مطابق ۔۔ہمیشہ برستی رہتی ہے ۔۔اللہ پاک کی ثنائی ترستی رہ جاتی ہے ۔۔ اور انسان ۔۔ جس کے لیئے ۔ اِس کائنات میں رنگ بھرے گئے۔۔ جس کی راحت کے لئے زمین پر اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کی نعمتوں کا جال بچھا یا ۔۔اور اپنی ہر مخلوق کو ۔۔جس کا زیرِ تابع کیا ۔۔ وہ دھڑا دھڑ ۔۔سیلفیاں لیکر ۔۔ بہترین ایپلیکیشنز کے ذریعے ۔۔ خدا کی تخلیق کو کچھ اور جاذبِ نظر ۔۔ متاثر کن بنا کر ۔۔ قدرت کی کاوش میں ملاوٹ کرکے ۔۔ واٹس ایپ اور فیس بک پر ۔۔ سٹیٹس اپ ڈیٹ کرنے میں دنیا جہان کو بھلا ئے۔۔بیٹھا ہوتا ہے ۔۔!!
ایک تیز آواز ۔۔ افراسیاب کو سوچوں کے بھنور سے ۔۔کھینچ کر باہر لائی ۔۔ انہوں نے چانک کر دیکھا ۔۔یوشع ۔۔ عنایہ کی گود میں رکھے لیپ ٹاپ کو پٹخ کر اُسے بازو سے کھینچ کر باہر لیکر جا رہا تھا ۔۔ یار عنایہ ۔۔اتنی زبردست بارش ہے اور یہ موٹے موٹے ۔۔ تمہاری آنکھوں کے سائز کے اولے پڑ رہے ہیں ۔۔ بھاڑ میں جھونکو ۔۔ پروٹو ٹائپ امپلی مینٹیشن ۔۔اوراسائنمنٹ کو ۔۔ یہ بارشیں روز روز تھوڑا ہی برستی ہیں ۔۔
صفہ نے ۔۔کچھ آگے جھک کر ۔۔لاؤنج کی ۔۔گلاس وال سے باہر لان میں جھانکا ۔۔ وہ دونوں ۔۔اپنی مٹھیوں میں اولے بھربھر کر ایک دوسرے کو مار رہے تھے ۔۔ اور اُن کے لیپ ٹاپ ۔۔ صوفے پر یونہی دھرے تھے ۔۔!!!
بہت دیر تک باہر کھیلنے کے بعد وہ دونوں اندر آئے تو سردی اور بھوک سے دونوں کا برا حال تھا ۔۔ مما کھانا لگوا دیں ۔۔کچن سے آنےوالی خوشبو نے عنایہ کی اشتہاء کچھ اور بڑھا دی تھی ۔۔ گل رخ نے ایک سخت نظر بیٹی پر ڈالی ۔۔ تو انکی نگاہوں کی زبان سمجھتے ہوئےعنایہ برے برے منہ بناتی ہوئی کچن کی طرف بڑھی ۔۔ 
دیکھیں چاچی کام کے نام پر کیسے سڑے سڑے منہ بنا رہی ہے ۔۔ یوشع کی آواز پر کچن کی طرف بڑھتی ہوئی ۔۔عنایہ کے قدم تھمےاُس نے مڑ کر کھا جانے والی نظروں سے یوشع کو گھورا ۔۔ مگر ماں کی کڑی نگاہ کو نوٹ کرتے ہوئے ۔۔خون کے گھونٹ پی کر رہ گئی گھر میں نوکر ہونے کے باوجود ۔۔ گل رخ نے کچھ کاموں کی ذمہ داری ۔۔عنایہ پر ڈالی ہوئی تھی ۔۔وہ لاڈ پیار میں اکلوتی بیٹی کوبگاڑ دینے کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھیں ۔۔ اگرچہ عنایہ گھر بھر کی ہی نہیں ۔۔ صفہ اور التمش ۔۔کی بھی بے حد لاڈلی رہی تھی ۔۔
عنایہ ۔۔کھانے کے برتن دھو کر ۔۔کافی بنانے کی تیاری کر ہی تھی ۔۔ تب یوشع نے کچن میں جھانکا ۔۔کیشائر کیٹ ۔۔ کافی سٹرانگ سی بنانا ۔۔ اُس نے فریج کھول کر پانی کی بوتل نکالی ۔۔ عنایہ نے مڑ کر اُسے گھورا ۔۔ مگر وہ بوتل منہ سے لگا کر پینے کے بجائے ۔۔بہت آرام سے ۔۔پانی گلاس میں نکال کر پی رہا تھا ۔۔روز ڈانٹ کھاتا ہوں عنایہ بی بی ۔۔ مما نے کھینچ کھینچ کر ۔۔میرے یہ کان خرگوش جتنے بڑے کر دیئے ہیں ۔۔ سو ۔۔اب پانی گلاس میں نکال کر ہی پیتا ہو ۔۔اُس نے کچن کاؤنٹر سے ٹیک لگا کر ۔۔ عنایہ کو مطلع کیا ۔۔عنایہ نے تیزی سے رخ موڑ کر اپنے تاثرات چھپائے ۔۔ یوشع کی ذہانت اور تیزی سے بات کیچ کرنے کی صلاحیت ۔۔اُسےہمیشہ ہی حیران کردیا کرتی تھی ۔۔وہ کہے بغیر حال جان لینے کے با کمال فن سے واقف تھا ۔۔

13 عنایہ نے بھاپ اڑاتی ۔۔کریمی کافی مگز میں انڈیلی تو ۔۔یوشع تیزی سے آ گے بڑھا ۔۔د و مگ  اٹھائے۔۔ ایک میرا۔۔ ایک میرا اور ایک مما کا ۔۔کچن کے دروازے پر پہنچ کر ۔۔اُس نے مگ سے ایک لمبا سا گھونٹ لیا ۔۔ پھر عنایہ کی طرف مڑا ۔۔ کیشائر کیٹ ۔۔کافی اچھی بنانے لگی ہو ۔۔کیپ اِٹ ۔۔اَپ۔۔ گڈ نائٹ۔۔ یوشع کو رات یہیں گزارنی تھی ۔۔اگلے روزبارہ بجے انکی اسلام آباد روانگی تھی اور پھر دو دن بعد ۔۔کیلیفورنیا کی فلائٹ تھی ۔۔اپنے مگ سے چھوٹے  ۔۔۔چھوٹے گھونٹ بھرتا ۔۔ یوشع جب کمرے میں آیا تو ۔۔ صفہ کمبل لپیٹے ۔۔ دونوں ہاتھوں ۔۔میں چہرہ دیئے گہری سوچ میں غرق بیٹھی تھیں۔۔ اُس نے ماں کے قریب بیٹھ کر ۔۔ایک مگ انہیں تھمایا ۔۔
مما ۔۔یہ کیشائر کیٹ تو بڑے مزے کی کافی بنانے لگی ہے۔۔ یوشع نے ماں کا موڈ بہتر کرنے کی ایک سعی کی ۔۔ مگر صفہ نے بے رغبتی سے کافی کا ایک گھونٹ لیکر مگ سائڈ ٹیبل پر رکھا ۔۔ اُن کی طبیعت پر ۔۔۔چند روز سے عجیب سی کسلمندی چھائی ہوئی تھی ۔۔یوشع نے اپنا مگ ۔۔اُن کے مگ کے ساتھ رکھ کر ۔ایک گہری نظر ماں پر ڈالی ۔۔پھر کچھ قریب ہوکر ۔۔اُن کے دونوں ہاتھ ۔۔ تھامے ۔۔مما ۔۔اگر آپ نے اپنی یہی حالت بنائے رکھی ۔۔ تو قسم سے میں نہیں جا ؤنگا ۔۔اُس نے گویا ماں کو دھمکایاصفہ اُس کے انداز پر ہولے سے مسکرائیں ۔۔ یہ یوشع کی نہیں ۔۔التمش کی ادائیں تھیں جو اُس نے باپ سے ورثے میں پائی تھیں ۔۔ وہ بھی یونہی ۔۔ہمیشہ انہیں دھمکا کر ۔۔تو کبھی بلیک میل کر کے اپنی منوا لیا کرتا تھا ۔۔
میں ٹھیک ہوں تم میری فکر مت کرو ۔۔اپنا بہت خیال رکھنا ۔۔صفہ نے اسکا چہرہ ۔۔دونوں ہاتھوں میں لیکر ۔۔اسکی پیشانی چومی اور ایک یوشع نے اپنی چمکتی ہوئی ۔۔پُر سوچ نگاہیں کچھ دیر ماں پر مرکوز رکھیں ۔۔ جیسے فیصلہ کر رہا ہو کہ ماں کو بتائے یا نہیں۔۔ پھر کچھ ۔۔بولے بغیر ۔۔اُس نے صفہ کے ہاتھ سے فیڈر لیکر تھاما ۔۔ اپنی گود میں لیٹا کر صفہ اس کے بالوں میں کنگھی کرتی رہیں ۔۔وہ کچھ روٹھا روٹھا سا ۔۔ منہ پھلائے ۔۔دودھ پیتا رہا ۔۔
شام کو جب التمش گھر آیا ۔۔ تب تک وہ یونہی ۔۔ اپنے ننھے ہاتھوں میں منہ دیئے ۔۔نروٹھا سا صوفے پر بیٹھا تھا 
کیا ہوا یوشع ڈارلنگ۔۔؟؟ التمش نے اُس کے بال سنوارے ۔۔ وہ گود میں لیا جانا ۔۔ یا ’’کِس‘‘ کرنا بلکل پسند نہیں کرتا
تھا ۔۔ دونوں ماں باپ رفتہ رفتہ اسکی عادات سے واقف ہوتے جا رہے تھے ۔۔
آئی ڈانٹ ۔۔مائی شیلپ بک ۔۔( آئی وانٹ مائی سکریپ بک ۔۔) یوشع نے اپنی توتلی زبان میں بدستور ۔۔ منہ پھلائے 
جواب دیا ۔۔
so why dnt you ask your mother ??
یوشع نے ایک ناراض نظر ماں پر ڈالی جو کچن میں ۔۔چائے مگوں میں ڈالنے میں مصروف تھی ۔۔
she never got.... اُس نے برا سا منہ بنایا ۔۔
التمش نے ساری بات سمجھتے ہوئے ایک اونچا قہقہہ لگایا ۔۔ صفہ یہ اپنی سکریپ بک مانگ رہا تھا ۔۔ اُس نے ہنستےہوئے۔۔صفہ کوآگاہ کیا ۔۔
تو یہ مجھے بتاتا نہ۔۔ میں نے اِس سے پوچھا بھی ۔۔ یہ شیلف سے کچھ اتارنے کی کوشش کر رہا تھا ۔۔ صفہ کو التمش کے یوں ہنسنےپر تاؤ آیا ۔۔تم سمجھتی نہیں ہو اس لیئے ۔۔اُس نے تمہیں بتانا چھوڑ دیا ہے ۔۔ جینیئس بیٹے کی ۔۔نا سمجھ مما ۔۔ التمش نے انہیں مزید تاؤ دلایاصفہ نے چائے کے مگز ۔۔سامنے ٹیبل پر پٹخ کر ۔۔التمش کو کھینچ کر ۔۔ پاس پڑا کشن مارا ۔۔ اور خود ۔۔کمرے سے یوشع کی۔۔
سکریپ بک اور کلرزلینے چلی گئیں ۔۔
وہ ہاتھ جو بہت چھوٹی عمر میں ۔۔بہت اوپر پہنچنے کی سعی کرنے لگے تھے ۔۔اب نوجوانی میں قدم رکھتے ہی ۔۔ اوپر بہت بلندیوں پر ۔۔ کمندیں ڈالنے کو تھے ۔۔مگر اُس کی باتیں سمجھنے اور اس کو ہر لمحہ گروم کرنے والا ۔۔اس کا باپ ۔۔ وہ بہت پہلے ۔۔اُس سےبچھڑ چکا تھا ۔۔یہ وہ ناسور تھا ۔۔ جو صفہ اور یوشع ۔۔دونوں ہی کے اندر مختلف انداز میں پلتا رہا تھا ۔۔مگر وہ کبھی ایک دوسرےسے اپنے احساسات ۔۔اپنے دکھ اور کرب کو شیئر نہیں کرتے تھے ۔۔ صفہ کو اندر کہیں اندیشوں کے ناگ ۔ ڈستے رہتے تھے ۔۔
تو یوشع ۔۔ وہ کیا سوچتا تھا ۔۔ کیا چاہتا تھا ۔۔؟؟ یہ آج تک حتمی طور پر کوئی بھی نہیں جان پایا تھا ۔۔!!!
                                           ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  

دروازے پر ہوتی مدھم سی دستک پر صفہ نے مڑ کر دیکھا ۔۔ مگر یوشع اُسی طرح آنکھیں موندھے لیٹا رہا ۔۔اُسے معلوم تھا آنے والی عنایہ ہوگی ۔۔
عنایہ ہاتھ میں کافی کا مگ لیئے ۔۔ بیڈ کی دوسری سائڈ پر آکر بیٹھی ۔۔ تب تک یوشع ۔۔یونہی منہ پھلائے لیٹا تھا ۔۔
کبھی اپنے کدو کا وزن کیا ہے ۔۔؟؟ بے چاری چاچی کے پاؤں دکھ جائیں گے عنایہ نے ایک نظر یوشع پر ڈال کر چوٹ کی
ڈونٹ یو وری ۔۔مائی ڈیئر کزن ۔۔میرے سر میں ۔۔تمہارے سر کی طرح بھوسا نہیں بھرا ہوا ۔۔یہ ویٹ لیس ہے ۔۔اُسےنے یونہی آنکھیں بند کیئے جواب دیا ۔۔
پھر تو بھوسا آپ کے سر میں ہوا ۔۔ bcz straws are weightless 
indeed they are weightless my dear cousin لیکن جب یہ مسلسل جمع ہوتے رہیں ۔ اور صفائی نہ کی جائے ۔۔تو کافی وزنی ہو جاتے ہیں ۔۔اس نے عنایہ کی جانب کروٹ لیکر کسی فلاسفر کی طرح وضاحت کی ۔ تب بھی ۔۔آپ کے سر کا سائز بڑا ہے ۔۔اِس میں زیادہ کچرا جمع ہوتا ہوگا ۔۔برابر کا جواب آیا ۔۔
ڈیئر کزن ۔۔میری مما بہت اچھی سویپر ہیں ۔۔صبح شام جھاڑو لگاتی ہیں ۔۔یوشع نے دانت نکالے 
دیکھیں چاچی۔۔ آپ کو ’’ سرِ عام ‘‘ سویپر کہہ رہے ہیں ۔۔عنایہ نے اُسے آنکھیں دکھائیں ۔
ہاں ۔۔تو کیا کچھ غلط کہا ہے میں نے ۔۔ مائیں اپنی اولاد کی میڈ۔۔ سویپر ۔۔ کک ۔۔ سب ہی کچھ تو ہوتی ہیں ۔۔ہمیں جنم
دیکر اس دنیا میں لانے سے لیکر ۔۔جوان ہونے تک ۔۔یہ ماں ہی تو ہوتی ہے ۔۔جو ہمیں زمانے کے سرد و گرم سے بچاتی ہےاور پھر جب ہم عملی زندگی میں قدم رکھ کر ۔۔ دنیا کی ٹھوکروں ۔۔ اور حوادث کی زد پر ہوتے ہیں نا ۔۔۔تو تب بھی یہ ماں کی دعاہوتی ہے ۔۔جو ہر دفعہ ۔۔بھنور میں پھنسی ہماری کشتی کو پار لگاتی ہے ۔۔ یوشع اپنے مخصوص فلاسفرانہ انداز میں بولتا گیا ۔۔ اورصفہ کی آنکھیں بھیگتی چلی گئیں ۔۔انہوں نے جھک کر یوشع کی فراخ پیشانی چومی ۔۔
مما بس کریں ۔۔ کچھ لوگوں کی جیلس نگاہیں ۔۔ادھر ہی ہیں ۔۔کہیں نظر نہ لگ جائے ۔۔اُس نے اِن ڈائریکٹ ۔۔شوق سےاِدھر ہی دیکھتی عنایہ پر ۔۔دوبارہ چوٹ کی ۔۔
میں کیوں لگانے لگی اپنی پیاری چاچی کو نظر ۔۔عنایہ نے اُسے ٹھینگا دکھاتے ہوئے ۔۔ صفہ کے گلے میں بانہیں ڈالیں 
ارے ارے موٹی ۔۔ دیکھ کے ۔۔ کہیں مما کی گردن میں فریکچر نہ ہوجائے ۔۔یوشع کب باز آنے والا تھا ۔۔صفہ نے اُس کے گال پر ہلکی سی چپت لگائی ۔۔ یوشع کیوں میری بیٹی کو ہر وقت ۔۔موٹی موٹی بولتے رہتے ہو ۔۔اتنی پیاری ۔۔
سمارٹ سی تو ہے ۔۔
مما ۔۔میں سوچ رہا ہوں ۔۔کہ واپس آکر سب سے پہلے آپ کی آئی سائٹ ٹیسٹ کروا ؤنگا ۔۔ یوشع نے ترچھی نظر وں سے ۔۔عنایہ کو دیکھا ۔۔جس کا چہرہ غصے سے سرخ ہو رہا تھا ۔۔
عنایہ نے شدید طیش میں آکر ۔۔تکیہ اُسے کھینچ کر مارا ۔۔ چاچی اپنے بدتمیز ’’پیس ‘‘ (بیٹے ) کو اپنے گھر ہی چھوڑ کر آیا کریں ۔۔کمرے سے جاتے ہوئے ۔۔اُس نے اپنے پیچھے زور سے دروازہ بند کیا تھا ۔۔ مگر پھر بھی ۔۔یوشع کے بلند قہقہے نے ۔لاؤنج تک اس کا پیچھا کیا تھا ۔۔!!
                                       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔                   

التمش نے بازو پوری طرح پھیلا کر ۔۔ بھرپور انگڑائی لی ۔۔یکدم وہ چونکا ۔۔آنکھیں پھاڑ کر ۔۔چھت اورپھر درو دیوار کو دیکھا ۔یہ اسکا ہاسٹل روم نہیں تھا ۔۔ وہ بدک کر بستر سے نکلا ۔۔ وہ کہاں تھا ۔۔؟؟
پوری کھلی آنکھوں سے اُس نے کمرے کا جائزہ لیا تو ۔۔ یہ اس کے گھر کا کمرہ تھا ۔۔ایک ٹھنڈی سانس لیکر ۔۔وہ دوبارہ کمبل میں گھس گیا ۔۔ وہ پورے نو ماہ بعد گھر آیا تھا ۔۔ تیمور خان نے اُسے پچھلے سمیسٹر اینڈ پر گھر آنے سے روک دیا تھا ۔۔ وہ اب بھی بہت محتاط تھے ۔۔ رشتوں کا بھرم جب ایک دفعہ پارہ پارہ ہو جائے۔۔ تو پھر دنیا کی کوئی طاقت اسے جوڑ نہیں سکتی ۔۔ التمش نے کسلمندی سے آنکھیں بند کی ہی تھیں کہ ۔۔ ہلکی سی آہٹ سے دروازہ کھلا ۔۔ اُس نے ذرا کی ذرا ۔۔ نظر اٹھا کر دیکھا ۔
آنے والی گل بی بی تھیں ۔۔ وہ اُس کے سرہانے آکر بیٹھیں ۔۔ تو التمش نے لاڈ سے سر ماں کی گود میں ڈال دیا ۔۔نو ماہ میں اسے سب سے زیادہ ماں اور انکی میٹھی آغوش ہی تو یاد آئی تھی ۔۔گل بی بی ۔۔ہولے ہولے اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتی رہیں ۔۔ تجھے اتنے ماہ میں ایک دفعہ بھی ماں یاد نہیں آئی ۔۔ان کی آواز میں نمی تھی ۔۔
التمش نے سختی سے آنکھیں بھینچ کر کھولیں ۔۔ پھر کوہنی کے بل ذرا سا اٹھ کر ۔۔ماں کے دونوں ہاتھ تھامے ۔۔آپ ایسا سوچتی ہیں کہ مجھے آپکی یاد نہیں آئی ہوگی ۔۔ گھر سے دور ۔۔ میں پڑھائی میں کتنا ہی بزی کیوں نہ ہوں ۔۔ کوئی لمحہ ایسا نہیں ہوتا ۔۔جب آپ مجھے یاد نہ آتی ہوں۔۔اُس نے ماں کے دونوں ہاتھ آنکھوں سے لگا ئے ۔۔ 
چل جھوٹے ۔۔ گل بی بی نے کچھ مصنوعی خفگی سے اپنے ہاتھ چھڑائے ۔۔ یاد آئی تھی تو آیا کیوں نہیں ۔۔
التمش اٹھ کر بیٹھا ۔۔ پھر ماں کے گلے میں بانہیں ڈال کر ۔۔ انہیں اپنے ساتھ لگایا ۔۔اسے نہ چاہتے ہوئے بھی اُن سے جھوٹ بولنا پڑ رہا تھا ۔۔ کیونکہ تیمور خان نے اُسے سختی سے منع کیا ہوا تھا ۔ کہ وہ صفہ یا گل بی بی کو اپنے اغواء اور بعد کی صورتحال سے متعلق کبھی کچھ نہیں بتائیگا ۔۔
مما ۔۔ یونیورسٹی کی طرف سے سب سمر ٹرپ پر جا رہے تھے ۔۔ دوستوں کے شدید اصرار پر مجھے بھی ساتھ جانا پڑا ۔۔اُس نے کچھ کچا پکا جھوٹ تراشنے کی کوشش کی ۔۔
گل بی بی نے پیار سے اسکی پیشانی چومی ۔۔ انہیں کرنل تیمور پہلے ہی اس حوالے سے مطمئن کر چکے تھے ۔۔ اچھا چلو اٹھو ۔۔کب تک سونا ہے ۔۔میں تمہارے لیئے ناشتا بنواتی ہوں ۔۔اُن کے کمرے سے نکلتے ہی التمش نے ایک گہرا پر سکون سانس لیا ۔۔پھر اٹھ کر واش روم کا رخ کیا ۔۔
ناشتا کرکے وہ یونہی بے مقصد گھر میں پھرتا رہا ۔۔ سازو سامان تو وہی تھا ۔۔ مگر سیٹنگ میں کچھ تبدیلیاں اُس نے بغور نوٹ کیں ایک کمرہ اب صفہ کے زیر استعمال تھا ۔۔وہ لان میں نکلا ۔۔ہر طرف آتی سردیوں کی خوشگوار دھوپ پھیلی ہوئی تھی ۔۔پائپ لگا کر اس نے پودوں کو پانی دینا شروع ہی کیا تھا ۔۔ کہ ڈور بیل بجی ۔۔ کیاری میں پائپ پھینکتا ہوا ۔۔ وہ مین گیٹ کی طرف بڑھا ۔۔ اپنی دھن میں لاک کھول کر ۔۔وہ نو ماہ پہلے کی طرح کرنٹ کھا کر پیچھے ہٹا ۔۔ دوسری طرف کالج یونیفارم کے ساتھ نفاست کے ساتھ لمبا سا سکارف باندھے۔۔ ہاتھوں میں بکس لیئے ۔۔صفہ کھڑی تھی ۔۔ التمش کے پیچھے ہٹتے ہی ۔ وہ با آواز سلام کرتی ہوئی ۔ جھکی نظر کے ساتھ اندر کی طرف بڑھ گئی ۔۔ لاک لگا کر ۔ ا س نے واپس آکر کیاری سے پائپ اٹھایا ۔۔ مگر اُس کا دھیان اب بھی کہیں اور تھا ۔۔۔ نو ماہ میں گاؤں کی ڈری سہمی ۔۔ روتی بلکتی ۔۔ لڑکی کافی تبدیل ہو گئی تھی ۔۔ یقیناًیہ گل بی بی کی بھرپور توجہ کا کمال تھا ۔۔ التمش نے دل ہی دل میں ماں کے سلیقے کو داد دی ۔۔
شام کو اپنے کچھ پرانے دوستوں سے ملکر التمش گھر لوٹا ۔۔ تو تیمور خان ۔۔لاؤنج میں بیٹھے ۔۔صفہ کو پڑھانے میں مصروف تھے فریج سے گلاس میں پانی نکال کر پیتے ہوئے التمش نے خوشگوار حیرت سے باپ کو دیکھا ۔۔وہ سٹڈیز کے معاملے میں ہمیشہ سے بہت سخت رہے تھے ۔۔التمش تو خیر اپنی غیر معمولی ذہانت کے باعث ٹاپ پر ہی رہتا تھا ۔۔ مگر افراسیاب کبھی کبھار ۔۔ان کے عتاب کا شکار ہوا کرتا تھا ۔۔ مگر وہ اِس وقت نہایت شفقت اور نرمی کے ساتھ صفہ کو پڑھا رہے تھے ۔ اُس کی مسلسل اِس جانب تکتی نگاہوں کو محسوس کرکے ۔۔ کرنل تیمور نے مڑ کر دیکھا تو ۔۔ وہ ہولے سے مسکرا کر اپنے روم کی طرف بڑھ گیا ۔۔
ماں اور باپ دونوں کی بھرپور توجہ کا مرکز اِس وقت صفہ تھی ۔۔اور افراسیاب کے آنے میں ابھی کچھ دن تھے ۔۔ التمش چھت کوگھورتے ہوئے چھٹیوں کا پلان بنا ہی رہا تھا کہ دوازے پر ہولے سے دستک ہوئی ۔۔ پھر دروازہ کھلا ۔۔
ارے بابا جانی آپ ۔۔ وہ تیزی سے اٹھ کر بیٹھا ۔۔
اور کیا ہو رہا ہے صاحبزادے ۔۔ تیمور خان بیڈ پر اس کے سامنے آکر بیٹھے ۔۔
کچھ نہیں بابا ۔۔ بس سوچ رہا تھا کہ چھٹیاں کیسے گزاروں ۔۔ 
ہوںںں۔۔ تم ایگزامز سے پہلے اپنے کسی ریسرچ پیپر کا ذکر کر رہے تھے ۔۔ اسکا کیا بنا ۔انہوں نے بیٹے پر ایک گہری نظر ڈالیِ ِ جی پاپا۔۔ وہ انٹیلی جینس سسٹمز پر ایک ریسرچ پیپر تھا جسے مکمل کر کے میں کمپیٹیشن کے لیئے جمع کروا آیا ہوں۔۔ مجھے پوری امید ہے کہ انٹر نیشنل لیول پر میرے اس ریسرچ پیپر کو ضرور سراہا جائے گا ۔۔کچھ تفصیل میں بتاؤ ۔۔ تیمور خان تکیے سے ٹیک لگا کر بیٹھے ۔ اگرچہ کمپیوٹر یا آئی ٹی سے اُن کی دور کی یاری ۔رشتہ داری ۔۔ نہ تھی پھر بھی اپنے جینیئس بیٹے کی پُر مغز باتیں ۔۔وہ اُس کے بچپن سے ہی انجوائے کیا کرتے تھے ۔۔ التمش انٹر نیشنل لیول پر اپنی
پہچان بنانے لگا تھا ۔۔ با با جانی ۔۔۔ ایکچولی ۔انٹیلی جینس سسٹمز ایسی ایڈوانس مشینز ہیں جن کے ذریعے۔۔ پوری دنیا سے بھر پور طریقے سے رابطہ ممکن ہے ۔۔ اِ س میں دو چیزیں اہمیت کی حامل ہیں ۔۔ پہلی یہ کہ کوئی بھی مشین اپنے انوائرمنٹ کے ساتھ کس طرح پِرسیو۔۔)سمجھتی) ہے ۔۔ دوسری یہ کہ ماحول بذاتِ خود ۔۔اس مشین کے ساتھ کس طرح انٹریکٹ کرتا ہے ۔۔اگر دونوں عملی طور پر ۔۔
ایک دوسرے کے ساتھ مکمل ہم آہنگ ہو جائیں ۔۔تو ۔۔it would be a breakthrough
کرنل تیمور کی پیشانی پر سوچ کی لکیریں ابھریں ۔۔لیکن کوئی مشین اپنے انوائرمنٹ کو کس طرح پرسیو کر سکتی ہے ۔۔؟؟؟
بابا۔۔ التمش تھوڑا سا جھک کر مزید قریب ہوا ۔۔ باپ کی بڑھتی دلچسپی نے ۔۔اسکا جوش و خروش سوا کر دیا تھا ۔۔وہ طبعاٌ بہت کم گو تھا ۔۔ مگر جہاں اسکی دلچسپی کا موضوع ہو ۔۔وہاں وہ گھنٹوں لگا تار بول سکتا تھا ۔۔۔
بابا ۔۔اسکا بہترین طریقہ وژولائزیشن ہے ۔۔۔ یعنی مشین کا سسٹم وژن کے ذریعے۔۔متعلقہ انوائرمنٹ کو بوجھ سکے ۔۔ یا کمپیوٹر ساکن تصاویر ۔۔یا ویڈیوز کے ذریعے کسی شخص ۔۔جگہ کے بارے میں وژول انفارمیشن فراہم کرے ۔۔ یہ ۱۹۶۰ سےٹیکنالوجی کا ہائی ٹرینڈ چلا آرہا ہے ۔۔اور بڑے پیمانے پر کمرشل ، انڈسٹریز حتیٰ کہ گورمنٹ سیکٹر پر بھی استعمال کیا جا رہاہے ۔۔التمش نے رسان ے اپنی بات مکمل کی ۔۔۔
تو تم نے اپنے ریسرچ پیپر میں ۔۔کون سے اپڈیٹس متعارف کروانے کی کوشش کی ہے ۔۔تیمور خان کی دلچسپی ۔۔اب عروج پر تھی ۔۔
با با ۔۔ میں اِس میں فیشل ری آگنیشن کے آئیڈیا سے متعلق کچھ پروگرامز متعارف کروانا چاہ رہا ہوں ۔۔اِ س پر میں نے کافی ٹائم سرف کرکے ۔۔اور سینئر ٹیچرز کے ساتھ خاصی ریسرچ ۔۔اور ورک کرکے ۔۔ پیپر لکھا ہے ۔۔ بنیادی آ ئیڈیا یہ ہے کہ ۔۔اس طرح کے سٹمز کو فزیکل اور سوشل انوائرمنٹ ۔۔ میں مثبت تبدیلیا ں لانے کے لیئے کس طرح استعمال کیا جا سکتا ہے ۔۔ آج کلجو روبوٹس بنائے جا رہے ہیں ان کی اوٹونامی ۔۔ محدود ہے ۔۔ وہ صرف چند افعال کو بار بار دوہرا نے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔۔کیونکہ ان کے سسٹم میں از خود فیصلہ کرنے کی خصوصیت ابھی تک نہیں ہے ۔۔
robotics is a predictable world so far ..
میرے ریسرچ پیپر کی بیس یہ ہے کہ روبوٹ کی اٹانومی کو ۔۔آرٹیفیشل انٹیجنس سسٹمز پر اپ ڈیٹ کیا جائے ۔۔تاکہ وہ ماحول کو ازخود سمجھ کر فیصلہ کر سکے ۔۔اور اُس کے افعال پریڈکٹیبل نہ رہیں ۔۔اس طرح روبوٹکس میں ایک انقلاب آجائیگا ۔۔خصو صاٌ ۔۔انڈسٹریز کے لیئے ۔۔اس طرز پر ڈیزائن کے گئے روبوٹس ۔۔بہت کارآمد ثابت ہونگے ۔۔ التمش اپنی دھن میں ۔۔بولتا چلا گیا کرنل تیمور بہت گہری نگاہوں سے بیٹے کو تکتے رہے ۔۔اگرچہ وہ خود پاک آرمی کے ذہین ترین آفیسرز میں شمار ہوتے تھے ۔۔
مگر التمش کی ذہانت بلاشبہ غیر معمولی تھی ۔۔ انہوں نے سیدھے ہوکر شفقت سے اسکا کندھا تھپتھپایا ۔۔  گڈ لک مائی چائلڈ۔۔ پھر وہ جانے کے لیئے اٹھے ۔۔ پھر چونک کر پلٹے ۔۔ ارے باتوں باتوں میں ۔۔اصل کام تو بھول ہی گیا جس کے لیئے آیا تھا ۔۔ 
جی بابا ۔۔ التمش چند قدم چل کر اُن کے قریب گیا ۔۔ کرنل تیمور نے بے تکلفی سے اُس کے کندھوں پر بازو پھیلائے ۔۔۔وہ یار ۔۔ صفہ کو سٹڈیز خصوصاٌ۔۔ انگلش اور میتھ میٹکس میں کافی پرابلم ہے ۔۔ یو نو واٹ ۔۔ کے گاؤں کے گورمنٹ سکولز میں پڑھایا ہی کیا جاتا ہے ۔۔ پھر گھر کی ابتر حالت کی وجہ سے بچی بمشکل ہی میٹرک کر پائی ہے ۔۔ انگلش میں ۔۔میں اس کی ہیلپ کر دیتا ہوں ۔۔ تم آج کل فارغ ہو ۔۔ تھوڑا میھتس امپروو کروا دو ۔۔
کیا وہ مجھ سے پڑھ لیگی بابا ۔۔التمش کی گہری پر سوچ نگاہیں ۔۔ باپ پر مرکوز تھیں ۔۔
ہاں ۔۔ پڑھ لیگی ۔۔ میں نے اسے سمجھا دیا ہے ۔۔لیکن تم بھی زیادہ افلاطون بننے کی کوشش مت کرنا ۔ اسے ۔۔اُس کے لیول پر جج کرنا ۔۔ کرنل تیمور نے شگفتگی سے ۔۔التمش کو گُھرکا ۔۔تو اُس نے خجالت سے سر کے بال کھجائے ۔۔
اوکے بابا ۔۔ نو پرابلم ۔۔!!!
کرنل تیمور کے کمرے سے نکلتے ہی التمش نے ایک گہرا ٹھنڈا سانس لیکر چھت کو گھورا ۔۔لو یہ ایک نئی بلا گلے پڑ گئی ۔۔ برا سا منہ بناتے ہوئے ۔۔وہ دھم سے بیڈ پر گرا ۔۔التمش لڑکیوں سے ویسے ہی بہت الرجک رہتا تھا ۔۔یونیورسٹی میں اُس کی زبردست پرسنالٹی ۔۔اور غیر معمولی ذہانت کے باعث اُس کے ارد گرد منڈلانے والی الٹرا ماڈرن گرلز کی تعداد کچھ کم نہیں تھی ۔۔ مگر اس کی کم گوئی اور ریسروڈ طبیعت کو دیکھ کر ۔۔ سب ہی کچھ دن اُس کے گرد طواف کر کے ۔۔پھر کوئی نیا مدار تلاش کر لیتی تھیں ۔۔پھر گاؤں کی ایک میٹرک پاس لڑکی کو پڑھانا ۔۔ جینیئس التمش خان ۔۔تمہیں یہ دن بھی دیکھنے تھے ۔۔ بری طرح بے مزا ہو کر ۔۔اس نے پاس پڑی بک اٹھائی ۔۔!!!
                                              ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


پروفیسر ڈاکٹر آفتاب ملک نے کوئی تیسری دفعہ ۔۔ منتظر نظروں سے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے ۔یوشع کو دیکھا۔۔ کہ وہ شاید اب کھڑکی کے بلائنڈر گرا دے ۔۔تاکہ وہ کچھ دیر سکون سے سو سکیں ۔۔ یہ کراچی سے کیلیفورنیا تک ۔۔ انکی ڈائریکٹ فلائٹ تھی مگر ۔۔یوشع کی ذہانت سے بھرپور نگاہیں ۔۔ کھڑکی سے باہر ۔۔ اڑتے بادلوں میں ۔۔ نہ جانے کیا تلاش کرنے میں مصروفتھی ۔۔ڈاکٹر آفتاب ۔ غلام اسحاق خان انسٹیوٹ میں سینئر ترین پروفیسر تھے اور ڈین آف کمپیوٹر سائنس فیکلٹی کے عہدے پر فائض تھے ۔۔ گزشتہ چار سال میں وہ اپنی جینئس ترین سٹوڈنٹ کی رگ رگ سے واقف ہو چکے تھے ۔۔وہ اگر کہیں گم تھا ۔۔ تو یقیناًٌ دور کی کوڑی لیکر آئیگا ۔۔ سوچتے ہوئے وہ ہولے سے مسکرائے ۔۔
ڈاکٹر آفتاب ملک ذاتی طور پر ۔۔التمش کی ساری ہسٹری سے واقف تھے ۔اُس جیسے باکمال سوفٹ ویئر انجینئر کے ذہین بیٹے کو گروم کرنا ۔۔ وہ اپنے لیئے اعزاز سمجھتے تھے ۔۔ بارہا انہوں نے نوٹ کیا تھا ۔۔ کہ التمش بہت تھوڑے وقت میں ۔۔ اپنے ۔بیٹے کو بہت اعلیٰ پیمانے پر ٹرینڈ کر گیا ہے ۔۔یہ استاد اور شاگرد ۔۔ کی زبردست ذہنی ہم آہنگی تھی ۔۔ یا محض اتفاق ۔۔ کہ یوشع کی سوچوں کا محور بھی اس وقت ۔۔التمش ہی تھا ۔۔ اسکی میموری ہمیشہ سے زبردست رہی تھی ۔۔ بچپن کی ساری یادیں ۔۔اس کے دماغ پر ۔۔ بیتے کل کی طرح محفوظ تھیں ۔۔ یوشع کو آج بھی یاد تھا۔۔ التمش نے کبھی ۔۔اسے انگلی پکڑ کر چلنا نہیں سکھایا تھا ۔۔اگر صفہ مامتا کے جوش میں آکر ۔۔اپنے چھوٹے سے گرتے پڑتے۔۔ لڑکھتے ۔۔ بیٹے کو تھامنے کے لیئے آگے بڑھتی ۔۔تو وہ اسے سختی سے روک دیا کرتا تھا ۔۔ وہ چھہ ماہ کی عمر سے وقتِ رخصت تک اُسے ہمیشہ خود کوشش کر کے آگے بڑھنے پر اکساتا رہا تھا ۔۔!!
شاید مما مجھے آ ج بھی بچہ سمجھتی ہیں۔۔ حا لانکہ میں تو کبھی بچہ تھا ہی نہیں ۔۔ اپنی سوچوں میں گُم ۔۔یوشع ہولے سے مسکرایا ۔۔اپنےدکھوں ۔۔اندیشوں اور خدشات کو چھپا کر ۔۔وہ خود کو بہت بہادر شو کرتی رہتی ہیں ۔۔ تاکہ میں اُن حالات ے لاعلم رہوں ۔جن سے پاپا ۔۔ زندگی کے آخری سالوں میں گزرے ۔۔اور مما ہی کیا ۔۔ پاپا خود بھی آخری سانس تک یہی سمجھتے رہے ۔۔ کہ اندربند کمرے میں بہت مدھم آواز میں ۔۔ جب وہ مما کو کیلیفورنیا ۔۔میں اپنے پراجیکٹ اور آفس کی خفیہ کہانیاں سنایا کرتے تھے ۔۔
اور مما ۔۔بمشکل اپنی سکیاں دبایا کرتی تھیں ۔۔ تو میں ان سب سے لا علم رہا ۔۔!!!
No my dear Parents , I was aware of all those hidden stories ...........!!!!!


                                                               (جاری ہے )

  اگلی قسط دو ہفتے بعد اپلوڈ کی جا ئیگی ۔براہِ کرم کمینٹ سیکشن پر کمینٹ کیجیے
                                                                                                       Copyrights@Saadeqakhan

Share on Google Plus

About Unknown

1 comments: