WELCOME TO MELTED TRUTHS

All Truths are easy to understand once they are discovered;the point is to discover them.(Galileo Galilei)

دریچہ " قسط نمبر4 The Valve




دریچہ


"A Novel Based on Artificial Intelligence "




از صادقہ خان
                                                              

قسط نمبر4





یوشع نے سر جھٹک کر کھڑکی کے بلائنڈر گرائے۔۔اور آنکھیں موندیں ۔۔تو ساتھ بیٹھے ڈاکٹر آفتاب ملک نے سکون کا گہرا سانس لیا ۔۔اگرچہ کافی دیر سے ان کی بھرپور توجہ یوشع کی ہی طرف تھی ۔۔مگر وہ اُس نمی کو نہیں دیکھ سکے تھے ۔۔جو اچانک کسی احساس سے اُسکی آنکھوں میں در آئی تھی ۔۔
کسی آہٹ پر ۔۔ ڈاکٹر آفتاب کی آنکھ کھلی ۔۔تو انہوں نے چونک کر گھڑی دیکھی ۔۔ وہ پورے چار گھنٹے سوتے رہے تھے ۔۔  اب ائیر ہوسٹس پچھلی سیٹ پر  ڈنر سرو کر کے ان کی طرف آ رہی تھی ۔۔
یوشع نے خلاف ِ توقع صرف ایک سوفٹ ڈرنک لیا۔۔ مزیدار کھانے سے پوری طرح انصاف  کرتے ہوئے ڈاکٹر آفتاب نے دو ایک بار یوشع پر ایک سرسری سی نگاہ ڈالی ۔۔اِس اچٹتی سی نظر میں بھی ۔۔سوفٹ ڈرنک کے کین پر اس کی مضطرب انگلیوں کی لرزتی گرفت کو انہوں نے واضح محسوس کیا تھا ۔۔ وہ اپ سیٹ تھا ۔۔
یوشع از ایوری تھینگ اوکے ۔۔؟؟    کھانے   کے بعد کریمی کافی کی چسکیاں لیتے ہوئے ڈاکٹر آفتاب نے ۔۔اُس سے پوچھا ۔۔
یس سر ۔۔ نتھنگ سپیشل ۔۔ وہ اپنے مخصوص انداز میں ہولے سے مسکرایا ۔۔
آئی ڈونٹ تھینک سو ۔۔یو آر لائک مائی چائلڈ ۔۔اور جس طرح میں کہے بغیر اپنے بچوں کی پریشانیاں جان لیتا ہوں ۔۔اسی طرح میرے لیئے تمہارا پرابلم جان لینا بھی بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔۔ڈاکٹر آفتاب نے ٹشو پیپر سے گلاسز صاف کرتے ہوئے اُس کی طرف دیکھے بغیر کہا ۔۔
آپ بے شک ایک بہترین اور زیرک باپ بھی ہیں اور استاد بھی ۔۔لیکن یوشع کے بارے میں جان لینا اب اتنا بھی آسان نہیں ۔۔ اُس نے مسکراہٹ دباتے ہوئے ۔۔ایک ترچھی نظر ۔۔اپنے ٹیچرپر ڈالی۔۔  جواس کے بہترین دوست بھی تھے۔۔۔
SO you are challenging me … haan ??
Offcourse not sir ..how could even I dare..
میں تو صرف اپنی خوش فہمیاں ٹیسٹ کرنا چاہ رہا تھا ۔۔ یوشع نے دانت نکالے ۔۔
ڈاکٹر آفتاب ہولے سے مسکرائے ۔۔ وہ اپنی ٹینشن سے باہر آرہا تھا ۔۔سو انہوں نے بات جاری رکھی ۔۔ مما ٹھیک ہیں تمہاری ۔۔ اکیلا چھوڑ کر آئے ہو انہیں ۔۔؟؟
نہیں سر ۔۔ وہ چاچا کے گھر پر ہیں ۔۔ یوشع نے رخ موڑ کر خفت چھپائی ۔۔ آخر استاد تھے ۔۔اسکی پریشانی کی آدھی وجہ تو جان ہی گئے تھے ۔۔تو وہاں عنا یہ ہے نا ۔۔ وہ انکی دیکھ بھال کر لیگی ۔۔شی از اے۔۔ ویل سمارٹ گرل۔۔
یوشع کے ساتھ رہنی کی بدولت ۔۔عنایہ اُس کے اکثر ٹیچرز کی نظر میں آ چکی تھی ۔۔ جو ماشا اللہ خود بھی ایک لائق سٹوڈنٹ تھی ۔۔بلاشبہ ۔۔یوشع کے خاندان کا ہر فرد ذہانت میں یکتا تھا ۔۔
لفظ سمارٹ پر یوشع نے اپنی ہنسی روکتے ہوئے ۔۔سرآفتاب کے گلاسز کو دیکھا ۔۔ لگتا ہے سر کو بھی آئی سائٹ ٹیسٹ کی ضرورت ہے ۔۔تو پھر کیا مسئلہ ہے یوشع ۔۔ کون سی چیز تمہیں بےچین کیئے ہوئے ہے ۔۔ مجھے یقین ہے کہ تم کونٹیسٹ۔۔ یا پریزینٹیشن  کی وجہ سے ہر گز پریشان نہیں ہو ۔۔ یو آر اے موسٹ کانفیڈینٹ گائے۔۔۔
مگر یوشع انہیں جواب دینے کے بجائے ۔۔ اپنے ہاتھ کی لکیروں میں ناجانے کیا تلاش کرتا رہا ۔۔ کچھ لمحے سرکے ۔۔
یوشع ۔۔ ڈاکٹر آفتاب نے اُسے دوبارہ پکارا ۔۔ کیا ۔۔تمہاری پریشانی کا تعلق ۔۔ التمش سے ہے ۔۔ ؟؟
یوشع کا جھکا سر ۔۔بے اختیار  گردن پر گرا ۔۔ وہ واقعی ۔۔اسے پوری طرح جانتے تھے ۔۔ انہوں نے یوشع کے طرف مڑ کر ۔۔شفقت سے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا ۔۔
میں جانتا ہوں ۔۔کہ تمہارے بچپن کی  ساری یادیں کیلیفورنیا سے وابستہ ہیں ۔۔ اور مجھے معلوم ہے کہ تم کچھ بھی نہیں بھولے ہو ۔۔ بٹ یوشع ۔۔ مائی بوائے ۔۔ یہی زندگی ہے ۔۔ تم جہاں جا رہے ہو ۔۔وہاں قدم قدم پر  ۔۔ہر دوسرے موڑ پر ۔۔وہ لوگ ملیں گے جو التمش کے ساتھ کام کرتے رہے ۔۔۔ یا کم از کم وہ اسکی غیر معمولی صلاحیتوں سے آگاہ ضرور تھے ۔۔ اللہ تعالیٰ نے بس اسے زندگی تھوڑی دی تھی ۔۔ مگر اس  کم مدت ۔۔اِس تھوڑی سی مہلت میں بھی وہ اپنی تمام تر صلاحیتیں  ۔۔تم میں سمو گیا ہے ۔۔
آئی ٹی ۔۔اور اے آئی کی دنیا میں  تو بڑی سے بڑی تبدیلی کے لیئے  چند ماہ کافی ہوتے ہیں ۔۔ التمش کو ہم سے بچھڑے برسوں بیت چکے ہیں ۔۔ وہ بیج جو اس نے بہت سے لوگوں کے ساتھ مل کر بوئے تھے۔۔آج تناور درخت بن چکے ہیں ۔۔ جن کے پھل سی ایک عالم فیضیاب ہو رہا ہے ۔۔ آرٹیفیشل انٹیلیجنس نے جیسے وقت کو انسان کی مٹھی میں کردیا ہے ۔۔ اب  تمہاری نسل کی باری ہے ۔۔ نیو جنریشن کی ۔۔کہ تم لوگ نئی فصل بو ۔۔ جس سے آنے والی نسلیں مستفید ہوں۔۔ بات ختم کرتے ہوئے ۔۔ شدتِ جذ بات سے۔۔ ان کی آواز بوجھل ہورہی تھی ۔۔
یوشع نے چونک کر اپنے بہت عزیز استاد کا ۔۔ سرخ پڑتا چہرہ دیکھا ۔۔پھر وہ دیر تک انہیں تکے گیا ۔۔اس کا لائق فائق ۔۔اعلیٰ کوالیفائڈ ۔۔ برسوں کا تجربہ رکھنے والا  ذہین و فطین استاد ۔۔ایک کتنا اہم نکتہ نظر انداز کر رہا تھا ۔۔ مگر یہ ۔۔ اہم ترین نکتہ ۔۔ یوشع کو گروم کرتے ہوئے ۔۔التمش نے اتنی دفعہ دوہرایا تھا ۔۔ کہ وہ اپنا نام تو بھول سکتا تھا ۔۔ مگر یہ پوائنٹ جیسے اسکے ذہن کی سلیٹ پر ہمیشہ کے لیئےکندہ ہوگیا تھا ۔۔۔
ایسے کیا دیکھ رہے ہو ۔۔  ؟؟ اپنے چہرے پر پڑتی اسکی غیر معمولی ذہین آنکھوں کی تپش  کو محسوس کرکے ڈاکٹر آفتاب نے اچھنبے سے پوچھا۔۔۔
کچھ نہیں ۔۔ کچھ بھی تو نہیں ۔۔۔ یوشع نے سر جھٹک کر اپنی نگاہوں کا زاویہ بدلا ۔۔ مگر اسکے ذہن کی رو بار بار بہک کر ۔۔التمش کے انہی الفاظ پر جا ٹہرتی تھی ۔۔
" یوشع میری جان ۔۔ ہر نئی ایجاد کے مثبت اور منفی دونوں پہلو ہوتے ہیں ۔۔ اور ہر اچھا ڈیزائنر ۔۔ پراگریمر ۔۔ یا ٹیکنالوجسٹ اپنی اختراع کو معاشرے کی اصلاح اور انسانیت کی فلاح کے لیئے ہی استعمال کرنا چاہتا ہے ۔۔ مگر یہ دنیا ہے جنت نہیں ہے ۔۔ کہیں نہ کہیں سے ۔۔ کوئی شیطان ۔۔ کوئی ملععون ۔۔ کسی کالی بلی کی طرح آکر آپکا راستہ کاٹتا ہے ۔۔ اور پھر ۔۔آپکی خواہش ۔۔ سوچ ۔۔توقع اور سب سے بڑھ کر آپ کے خوابوں کے برعکس بہت کچھ منفی ہوتا چلا جاتا ہے ۔۔اِس لیئے بھی کے انسان کی فطرت ہمیشہ سے شر کی طرف زیادہ مائل رہی ہے ۔۔ اور پھر آپ کا اصل امتحان شروع ہوتا ہے ۔۔اِس پلِ صراط کو ۔۔اپنا ایمان اور کردار سلامت رکھ کر ۔۔پار اترنا ہوتا ہے ۔۔"
ایک تیز آواز یوشع کو  یادوں کے بھنور سے کھینچ کر باہر لائی ۔۔ کاک پٹ سے فلائٹ کے چند منٹوں میں باحفاظت لینڈنگ کا اعلان کیا جارہا تھا ۔۔ یوشع نے ونڈو کے بلائنڈر اوپر کیئے ۔۔ باہر ایک بھیگی بھیگی سی دھند میں ڈوبی رات اسکی منتظر تھی ۔۔
I am here Papa…..finally..!!!
زیر ِ لب  یہ الفاظ دوہراتے ہوئے ۔۔اس نے سیٹ بیلٹ کھولی۔۔ وہ پورے دس برس بعد اُس سر زمین پر قدم رکھ رہا تھا ۔۔ جو اس کی جائے پیدائش بھی تھی ۔۔اور اُس کے باپ کی آخری آرام گاہ بھی ۔۔ ہر برس مختلف بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت کے لیئے وہ کہیں نہ کہیں جا تا ہی رہتا تھا ۔۔ مگر ۔۔  کیلیفورنیا ۔۔ وہ پھر کبھی نہیں آیا ۔۔ یہ قسمت کا کوئی کھیل تھا ۔۔ یا محض اتفاق ۔۔ یوشع کو  فی الحال۔۔اس معمے کو حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی ۔۔ اُس کا پورا دھیان اِس وقت کہیں اور تھا ۔۔ وہ اپنی دھن میں ٹرالی دھکیلتا ہوا ۔۔ائیر پورٹ سے باہر آیا ۔۔ پھر رسٹ واچ دیکھی ۔۔
بارہ بج کر چالیس منٹ ۔۔ یعنی سات جولائی کا دن شروع ہو چکا تھا ۔۔ ٹھیک  دس برس قبلاسی روز کیلیفورنیا کے ایک ہسپتال میں ۔۔ التمش نے زندگی کی آخری سانسیں لی تھیں ۔ دو گھنٹے بعد ۔۔ وہ سر جھکائے ۔۔ہوٹل کے روم میں ۔۔بیٹھا تھا ۔۔ ہاتھوں کی مٹھیاں ۔۔ بری طرح بھنچی ہوئی تھی ۔۔ ایک عجیب سی وحشت تھی۔۔ جو اس کے پورے وجود کو گھیرے ہوئے تھے ۔۔کانوں میں مسلسل ایک ہی آواز گونج۔۔رہی تھی ۔۔ کوئی اُسے پکار رہا تھا ۔۔ اور وہ پکار اتنی شدید تھی ۔۔ کہ یوشع بے اختیار۔۔دیوانہ وار ۔۔ اُس کی طرف کھینچتا چلا گیا ۔۔۔پو پھٹنے کو تھی اوائلِ سحر کے آثار نمودار ہونے لگے تھے ۔۔ جب یوشع ۔۔ایک قطار میں بنی سالہاسال پرانی قبروں کے کتبوں پر ۔۔ پینسل ٹارچ کی روشنی ڈالتا ۔۔آگے بڑھتا جا رہا تھا ۔۔ پھر یکدم روشنی کا ہالہ ایک  کتبے پر آ ٹہرا اور پھر۔۔ بہت دیر تک وہیں رکا رہا ۔۔




التمش تیمور خان ۔۔۔ 2005-1970 

یوشع کے تیزی سے آگے بڑھتے قدم جہاں کے تہاں رہ گئے ۔۔  چند لمحوں کے لیئے  جیسےساری کائنات ساکت ہو گئی تھی ۔۔ وہ بھول گیا تھا ۔۔ کہ وہ کون ہے ۔۔ کہاں ہے ۔۔ اُسے بس یاد تھی تو   سبزےسےڈھکی وہ قبر یاد تھی ۔۔ یوشع بیٹھتا  گیا ۔۔ ٹارچ ہاتھ سے چھوٹ کر لڑھکتی ہوئی دور چلی گئی ۔۔ مگر اسکو کچھ خبر نہیں تھی ۔۔بے اختیار ۔۔ قبر پر اگی گھاس کو مٹھیوں میں بھینچ کر جیسے ۔۔وہ زمین میں مدفن اِس وجود کے لمس کو محسوس کرنا چاہ رہا تھا ۔۔ جو اُس کی عزیز ترین ہستی تھی ۔۔ اشک تھے کے بے حساب۔۔ لگاتار  بہے چلے جا رہے تھے ۔۔
دس سال سے وہ جن آنسوؤں پر بند  باندھتا آیا تھا ۔۔ آج انہیں بہا ؤ کا راستہ مل گیا تھا ۔۔یوشع آج تک  زندگی میں  کبھی یوں  ۔۔ سرِ عام نہیں رویا تھا ۔۔وہ تب بھی نہیں رویا تھا ۔۔ جب اُس نے افراسیاب کے ساتھ باپ کے تابوت کو لحد میں اتارا تھا ۔۔ یہ آنکھیں تب بھی خشک ہی رہی تھیں ۔۔ جب تیزی سے گرتے مٹی کے ریلوں تلے۔۔ وہ تابوت اسکی نگاہوں سے اوجھل ہوتا گیا تھا ۔۔ جس میں اسکی ۔۔ کل کائنات محوِ خرام تھی ۔۔ یہ آنسو تب بھی اسکا باندھا مضبوط ترین بند  نہیں توڑ پائے تھے ۔جب  اپنا  سرمایۂ حیات۔۔ مٹی کے حوالے کر کےوہ گھر لوٹا تھا ۔۔ تو ماں کی اجڑی صورت دیکھ کر ۔۔شدت سے یہ احساس ہوا تھا ۔۔ کہ وہ جیسے عین جوانی میں بوڑھی ہو گئی تھی ۔۔۔!!
اِس  سر زمین کو الوداع کہتے وقت بھی ۔۔اسکی آنکھیں ہر گز نم نہیں ہوئی تھیں ۔۔ صفہ کی ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ کر اس نے پلین کی ونڈو سے ۔۔ ایک گہری نظر ۔۔ زمین  کے اِس ٹکڑے پر ڈالی تھی ۔۔ جہاںاب اس کے باپ کا مستقل مسکن تھی ۔۔ ان نگاہوں میں  ملال نہیں تھا ۔۔ ایک چمک تھی ۔۔ ایک عزم تھا ۔۔ میں یہاں دوبارہ آؤنگا ۔۔ اور وہ ۔۔ آگیا تھا ۔۔
کب مشرق سے سورج نے اپنا سنہرا چہرہ دکھایا ۔۔ کب دھوپ آہستہ آہستہ ۔۔سبزے سے ڈھکی قبروں پر پھیلتی ہوئی ۔۔ یوشع تک آئی ۔ اسے کچھ خبر نہیں تھی ۔۔ وہ گھنٹوں سے یونہی ۔۔ دوزانوں ۔۔ ہاتھوں کی مٹھیوں میں قبر کی گھاس کو بھینچے ساکت بیٹھا تھا ۔۔ جو اسکی مضبوط گرفت کے باعث کچل گئی تھی ۔۔پھر کسی نے بہت آہستگی سے ۔۔ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا ۔۔ تو یوشع نے چونک کر سر اٹھایا ۔۔ اس کی پشت پر ۔۔ڈاکٹر آفتاب ملک تھے ۔۔ انکی نگاہوں میں اس کے لیئے بے انتہا ۔۔۔شفقت تھی ۔۔ وہ اسکے درد سے پوری طرح آگاہ تھے ۔۔۔
یوشع نے تیزی سے رخ پھیر کر اپنی آنکھیں رگڑیں ۔۔ جو مسلسل رونے کے باعث ۔۔ سرخ اور متورم ہو چکی تھیں۔۔ آؤ ۔۔یوشع واپس چلیں ۔۔ ڈاکٹر آفتاب نے نرمی سے ۔۔اسے شانوں سے پکڑ کر اٹھایا چند فٹ دور جا کر ۔۔ یوشع پلٹا ۔۔ پھر کسی سوچ کے زیرِ اثر اپنا سیل نکالا ۔۔ سکرین آن کرتے ہی ۔۔وہ بری طرح چونکا ۔۔ انٹرنیشنل رومنگ پر پڑے ۔۔اس کے نمبر پر ۔۔ صفہ ۔۔ عنایہ۔۔اور افرسیاب سمیت کئی قریبی  دوستوں کی بے شمار مسڈ کالز تھیں ۔۔ حالانکہ موبائل سائلنٹ پر نہیں تھا ۔۔پھر  بھی وہ ان کالز سے لاعلم رہا تھا ۔۔ کوئی دیوانگی سی دیوانگی تھی ۔۔
ڈاکٹر آفتاب کے بڑھتے قدم تھمے ۔۔ انہوں نے اچھنبے سے مڑ کر ۔۔ یوشع کو دیکھا ۔۔ جو اپنے سمارٹ فون سے تیزی کے  ساتھ ۔۔ قبر کی  تصاویر بنا رہا تھا ۔۔ہوٹل  واپس پہنچ کر اُس نے واٹس ایپ پر  وہ تصاویر ۔۔صفہ اور افراسیاب کو فارورڈ کیں ۔۔اور سیل سائلنٹ پر ڈال کر ۔۔تکیے میں منہ دیکر لیٹ گیا ۔۔ وہ سونا چاہتا تھا ۔۔ایک لمبی نیند ۔۔ اسے کبھی خواب
 نظر نہیں آتے تھے ۔۔ وہ خوابوں پر یقین ہی نہیں رکھتا تھا ۔۔ مگر اُس روز ۔۔گہری نیند میں ۔۔ جیسے ہر طرف  ۔۔سبزے سے ڈھکی وہ خوبصورت قبر اور اسکا دلبر مکین  ہر سمت نظر آتے رہے ۔۔ ایک عجیب سی دلفریب مہک تھی جس نے یوشع  کے پورے وجود کا احاطہ کیا ہوا تھا ۔۔ وہ لاعلم تھا ۔۔ یہ خوشبو ۔۔اب تا عمر اسکی  ہم سفر رہنی تھی ۔۔۔!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عنایہ نے لیپ ٹاپ ۔۔ایک طرف رکھ کر ۔۔محتاط نظروں سے اِدھر اُدھر دیکھا ۔۔ کچھ فاصلے پر لاؤنج کی گلاس وال کے قریب پڑے صوفے پر  صفہ اور گل رخ بیٹھی تھیں ۔۔ گل۔۔صفہ کو کسی میگزین سےنئے ڈیزائنر ویئر دیکھا رہی تھیں ۔۔ یوشع کے جانے کے بعد ۔۔اگلے تین چار دن صفہ کی طبیعت شدید خراب رہنے کے بعد دو دن سے کچھ سنبھلی تھی ۔۔ افراسیاب کو یوشع پر  بہت غصہ چڑھا تھا ۔۔ اُسے ماںکو قبر کی  تصاویر یوں واٹس ایپ نہیں کرنی چاہیئے تھیں ۔۔ جب وہ پہلی سی ہی اپ سیٹ تھی ۔۔ مگر وہ خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا تھا ۔۔
یوشع خود بھی  نہیں سمجھ پایا تھا ۔۔ ناجانے کس احساس کے زیر ِ اُس نے ماں کو وہ فاورڈ میسج کیا تھا ۔۔رات کو واٹس ایپ چیک کر کے وہ خود بھی بھونچکا رہ گیا تھا ۔۔کئی روز تک ۔۔اس میں پاکستان فون کرنےکی ہمت ہی نہیں ہو پائی تھی ۔۔اور نہ گھر سے ازخود کوئی رابطہ کیا گیا تھا ۔۔ وجہ وہ جانتا تھا ۔۔ کونٹیسٹ کے لیئے ابتدائی سیشن وہ کروا چکا تھا ۔۔ اگلے روز روک ریوور اور سٹینڈ فورڈ یونیورسٹی ۔۔کے سٹوڈنٹس کے ساتھ اسکا ڈسکشن سیشن تھا ۔۔ سو خود کو ہر طرح کی ٹینشن اور فکر سے آزاد کرنے کے لیئے اُس نے سکائپ پر عنایہ کو کال کی ۔ جو صوفے پر دراز ۔گود میں لیپ ٹاپ لیئے ۔کھٹا کھٹ ٹائپ کرنے کے ساتھ ساتھ کشن کی پیچھے چھپائی ۔۔ میگنم سے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے۔۔ماں کی نظر  بچا کر۔۔ منہ میں ڈال رہی تھی۔۔۔سامنے پڑا سیل تھر تھرایا۔۔ یوشع کالنگ ۔۔ عنایہ نے گھور کر سیل کی سکرین دیکھی ۔۔اُس ڈفر نے سات سمندر پار بیٹھ کر بھی اسکی چوری پکڑ لی تھی ۔۔  عنایہ نے لیپ ٹاپ پر  سکائپ آن کیا ۔۔
کیا ہو رہا ہے ۔۔کیشائر کیٹ ۔۔دوسری طرف یوشع بہت ڈھیلے ڈھالے انداز میں نیم دراز تھا ۔۔
عنایہ نے منہ میں گھلتے میگنم بار کو تیزی سے ساتھ نگلا ۔مگر  اس پر ٹکی یوشع کی زیرک نگاہوں نے لمحوں میں اسکی حرکت نوٹ کی تھی ۔۔ یہ میرا سٹڈی ٹائم ہے کیوں کال کی ہے ۔۔؟ اُس نے منہ پھلایا ۔۔ اس رات کی سبکی وہ اب تک بھولی نہیں تھی
کیا ہے عنایہ کے یہ کشن کے پیچھے ۔۔تم میگنم بار کا ریپر صحیح طرح چھپا نہیں سکی ہو ۔۔ یوشع نے دانت نکالے ۔۔ تو عنایہ نے تیزی سے کشن کے پیچھے ہاتھ مارا ۔۔ پھر مارے خفت کے اسکا چہرہ سرخ ہوا ۔۔ بارکا ریپرتو وہ ۔۔اپنے روم کی ڈسٹ بن میں  ڈال آئی تھی ۔۔
یوشع نے ایک فاتحانہ نظر اس کے لال بھبھوکا چہرے پر ڈالی ۔۔ پھر مزید خفت سے بچانے کے لیئے  بات بدلی۔۔ عنایہ ۔۔مما کیسی ہیں ۔۔؟؟مما۔۔؟ ؟ بڑی جلدی خیال آگیا آپکو انکا ۔۔ کوئی کسر چھوڑی تھی ۔۔ان کو ہرٹ کرنے میں  آپ نے ۔۔؟؟مما سے تو کچھ دن آپ بات ہی مت کرنا ۔۔ورنہ آپکی خیر نہیں ۔۔ ہونہہ
یوشع ۔سر جھکائے ۔۔ اسکی ساری لعنت ملامت ۔۔ ڈانٹ پھٹکار سنتا رہا ۔۔ اُس کے پا س کہنے کے لیئے بہت کچھ تھا ۔مگر شاید کچھ بھی نہیں تھا ۔۔ صرف صفہ تھی جو اسکی بات سمجھ سکتی تھی ۔۔ مگر  وہ ماں کو مزید کسی آزمائش میں ڈالنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا ۔۔
اب یہ نالائقوں کی طرح منہ کب تک لٹکا کر بیٹھنا ہے۔۔۔؟؟ بہتر ہیں چاچی اب ۔۔ ماما کے ساتھ  ڈریس ڈیزائنز پر باتیں کر رہی ہیں ۔۔
گڈ ۔۔ یوشع نے سکون کا سانس لیا ۔۔  اور کیا ہورہا تھا ۔۔ میگنم بار چوری کے علاوہ ۔۔وہ لمحوں میں اپنی کینچلی بدل چکا تھا
مسٹر یوشع خان ۔۔ یہ میرا گھر ہے ۔۔میں یہاں آزاد ہوں ۔۔ مجھے چوری کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔۔ عنایہ کو  تاؤ آیا ۔۔۔
ارے ارے ۔۔کیشائر کیٹ ۔۔ ہولڈ یوور ہورسز  پلیز ۔۔ اس نے صلح کے لیئے جھنڈی لہرائی ۔۔
عنایہ نے مزید کچھ سخت سست کہنے کے لیئے منہ کھولا ہی تھا ۔۔کہ گل رخ کی آواز نے  اسے چونکایا ۔۔ عنایہ کس سے باتیں کر رہی ہو۔۔؟؟ وہ غصے میں شاید کچھ اونچا بول گئی تھی ۔۔
ماما۔۔ چاچی کے اکلوتے پیس سے ۔۔ جواب دینے کے ساتھ وہ لیپ ٹاپ لیکر صفہ کی طرف بڑھی تو ۔۔ یوشع نے کھا جانے والی نظروں سے اُسے گھورا ۔۔ وہ فی الحال ماں کا ستا ہوا ۔۔ کمزور زرد چہرہ اور ابتر حالت ہر گز نہیں دیکھنا چاہتا تھا ۔۔ مگر لیپ ٹاپ ۔۔صفہ تک پہنچنے سے پہلے ہی ۔۔گل رخ نے راستے میں اچک لیا ۔۔
یوشع یہ کیا حماقت تھی ۔۔؟؟ مجھے تم جیسے جینیئس بچے سے اس طرح کی بے وقوفی کی بلکل توقع نہیں تھی ۔۔ گل کا لہجہ انتہائی کرخت تھا ۔۔ صوفے کے پیچھے کھڑی عنایہ کے دل پر جیسے ٹھنڈے آبشار کی پھوارگری۔۔ اس نے یوشع کو معنی خیز نظروں سے گھورا ۔۔
آئی ایم رئیلی ویری سوری چاچی ۔۔ آئی ڈونٹ نو وائی آئی ڈو ڈیٹ ۔۔ بٹ۔۔ اس نے  مجرموں کی طرح سر جھکایا ۔۔ تو گل نرم پڑیں ۔۔
اچھا ٹھیک ہے۔۔ لو اپنی مما سے بات کرو ۔۔ انہوں نے لیپ ٹاپ صفہ کے سامنے کیا ۔۔ تو عنایہ آگ بگولہ ہوئی ۔۔ ماما ۔۔یہ بہت اچھے ایکٹر ہیں ۔۔آپ ان کی ڈرامے بازیوں کو نہیں سمجھتیں ۔۔ ہی ڈیزرو مور۔
اس نے دوبارہ ماں کو تاؤ دلایا ۔۔ تاکہ اسکا حساب برابر ہو سکے ۔۔ یوشع نے خونخوار نظروں سے اُسے  گھورا ۔۔ جن کی دھمکی بہت واضح تھی ۔۔ مگر اس وقت بال عنایہ کے کورٹ میں تھی ۔۔
عنایہ ۔۔ مجھے اچھی طرح پتا ہے کہ کس کو ۔۔کس وقت کتنا اور کیا کہنا ہے ۔۔ سمجھیں ۔۔ تم اپنے کام سے کام رکھو ۔۔گل نے سختی سے عنایہ کو گھرکا ۔۔ پھر کچن کی طرف بڑھیں ۔۔ یوشع نے بشمکل اپنی ہنسی ضبط کی اور ماں سے نارمل انداز میں حال احوال پوچھنے لگا ۔۔ صفہ اب تک سنبھل چکی تھیں ۔۔ وہ ماؤں کی طرح اس سے کھانے پینے اور روٹین کے بارے میں پوچھتی رہیں ۔۔ تو یوشع کے چہرے پر بشاشت آئی
اس نے ذرا ترچھا ہو  کر صفہ کے ساتھ بیٹھی ۔۔عنایہ کی موجودگی نوٹ کی ۔۔۔کیشائر کیٹ ۔۔کچھ سٹڈی بھی کر لیا کرو ۔۔نکمی لڑکی ۔۔۔
وہی کر رہی تھی ۔۔۔ ہونہہ ۔۔ اُس نے منہ پھلایا ۔۔
لیپ ٹاپ خالی ہو تو پھر میں اپنا کام سٹارٹ کروں ۔۔ مگر یوشع اسکی یہاں موجودگی کی اصل وجہ جانتا تھا ۔۔ صفہ خداحافظ کرکے اور اسکو اپنا خیال رکھنےکی ہدایات دیکر ۔۔ اٹھیں ۔۔تو یوشع نے ابرو اچکا کر ۔۔عنایہ کو معنی خیز نظروں سے دیکھا ۔۔ دونوں کی نگاہیں ملیں ۔۔ عنایہ نے اُسے زبان چڑائی ۔۔ پھر دونوں دیر تک ہنستے رہے ۔۔ نا ان سے ساتھ رہا جاتاتھا ۔۔ نہ وہ ایک دوسرے کے بغیر زیادہ دن رہ  پاتے تھے 
عنایہ کی نان سٹاپ ہنسی پر کچن سے نکلتی ۔۔ گل رخ نے اُسےایک دفعہ پھر  سختی سے گھورا ۔۔ تو اسے یکدم بریک لگا ۔۔ تیزی کے ساتھ سکائپ آف کرکے ۔۔سکرین فولڈ کی اور سر جھکا کر ۔۔کچن کی طرف بڑھی اُسے سب کو ڈنر سرو کرنا تھا ۔۔
گل رخ کی تیز نگاہوں نے کچن تک اسکا پیچھا کیا ۔۔ وہ جانتی تھیں ۔۔ دونوں ایک دوسرے کے بہترین دوست بھی تھے ۔۔ اور جانی دشمن بھی ۔۔نمونے کہیں کے ۔۔ وہ بڑ بڑاتی ہوئی اپنے روم کی طرف بڑھیں۔۔
ڈنر کے بعد اپنی ڈیوٹی کے کاموں سے فارغ ہوکر۔ عنایہ نے دوبارہ لیپ ٹاپ کھولا ۔۔ اسے آج پروٹوٹائپ والی اسائنمنٹ ہر حال میں مکمل کرنی تھی ۔۔ ریویو کرتے ہوئے وہ بار بار کسی چیز پر اٹک رہی تھی ۔۔کوئی اہم پوائنٹ تھا جو وہ نظر انداز کر گئی تھی ۔۔ کچھ سوچتے ہوئے ا س نے اپنی وہ نوٹ بک کھولی جس میں اہم نکات کو شارٹ نوٹس کی صورت میں یوشع لکھ گیا تھا ۔۔ تاکہ وہ کیلیفورنیا میں اس کا سر نہ کھائے ۔۔کسی سوفٹ ویئر پروگریمر  یا امپلیمینٹیٹر کے لیئے سب سے اہم  یوزرز کا فیڈ بیک ہوتا ہے ۔۔اکثر اوقات ۔ڈویلیپرز اپنی پراڈکٹ کا پروٹو ٹائپ یعنی نمونہ ۔۔ مارکیٹ میں لا کر ۔۔ پبلک کی آراء معلوم کرتے ہیں ۔۔۔پبلک کی دلچسپی سے اسے اندازہ ہوتا ہے کہ انکا پلان کیا ہوا پراڈکٹ یا سوفٹ وئیر جب فائنل شکل میں دستیاب فراہم کیا جائیگا۔۔ تو وہ یوزرز کے لیئے کتنا فائدہ مند ثابت ہوگا ۔اور انکی ضروریات کے مطابق اُس میں کس حد تک تبدیلی لا ناہوگی ۔۔  بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی سوفٹ ویئر  کو  عوام ۔۔پروٹوٹائپ کی بیس پر ہی رد کر دیتے ہیں۔۔اسی لیئے بہت سے کیسز میں فائنل پراڈکٹ۔۔اس کے پروٹوٹائپ سے
یکسر مختلف ہوتی ہے ۔۔۔چونکہ یوزرز کی سوچ ۔۔معیار اور ضروریات ۔۔ وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل  ہوتی رہتی ہیں۔۔اس لیئے ہر سوفٹ ویئر کو مسلسل اپ ڈیٹ کیا جاتا ہے ۔۔
عنایہ نے سر جھٹک کر ۔۔ دوسرا پیج کھولا ۔۔ یہ پوائنٹ تو وہ اسے خود سمجھا گیا تھا ۔۔ پھر کیوں لکھا ہے ڈفر نے ۔۔  سٹیو جابز بننے کی ناکام کوشش ۔۔ اُس نے یوں منہ چڑایا جیسے یوشع سامنے ہی بیٹھا ہو ۔۔
تھرو اووے پروٹوٹائپ ایک خاکے کی طرح ہوتا ہے جیسے پینسل سکیچ ۔۔یا اینیمیٹڈ ڈرائنگ ۔۔ سولڈ ماڈل۔۔لیکن جب یہ بریڈ بورڈ پر جاکر ۔۔فنکشنل سسٹم میں ڈھلتا ہے ۔۔تو پھر یہ ایوو لیوشنری پروٹوٹائپ بن جاتا ہے ۔۔ ہوں ں۔۔ ڈیٹ از دی پوائنٹ ۔۔ عنایہ نے سر ہلا کر ۔۔ہائی لائٹ کیا ۔۔ اور پھر دونوں طرح کے پروٹوٹائپ پر ڈیٹیلز میں لکھتی گئی ۔۔
کافی کے مگ سے چھوٹی چھوٹی چسکیاں لیتی ۔۔ ساتھ بیٹھی صفہ ۔۔ نے مگ سائڈ ٹیبل پر رکھا ۔۔ اور ہاتھ  بڑھا کر چادر کھولی ۔۔ مسلسل کئی روز سے برستی بارش کے تھمتے ہی گرمی نے دوبارہ زور پکڑنا شروع کر دیاتھا ۔۔ عنایہ نے سر اٹھا کر انکو دیکھا ۔۔ صفہ جب بھی افراسیاب کے گھر رہنے آتی تھیں ۔۔ عنایہ ان کے ساتھ سوتی تھی ۔۔ ماں سے زیادہ وہ چاچی کی لاڈلی تھی ۔۔
چاچی ۔۔آپ نے میڈیسنز لے لی ہیں نہ ۔۔؟؟
صفہ نے منہ سے بولے بغیر آہستہ سے سر ہلایا ۔۔ پھر اُس کے سامنے  کھلی نوٹ بک پر ایک نظر ڈالی۔۔ یوشع کی لکھائی کو وہ ۔۔ہزاروں میں بھی پہچان سکتی تھیں ۔۔ اِس لیئے بھی کہ وہ التمش کی لکھائی کی کاپی تھی۔۔پروٹوٹائپ کو ہم سوفٹ ویئر انجینئرنگ سے ہٹ کر بھی  سمجھ سکتے ہیں ۔۔ ان فیکٹ یہ معاشرے میں مثبت اقدامات ۔۔اور  تبدیلیاں لانے میں بہت کارآمد ثابت ہوسکتا ہے ۔۔ کیونکہ اس کی مدد سے دنیا بھر کی وسیع معلومات ۔۔ بہت آسانی سے ذخیرہ اور اورگینائز کی جا سکتی ہیں ۔۔ لیکن بہر حال یہ سکیما نہیں  ہوتا ۔۔اگرچہ دونوں کا تعلق پہلے سے حاصل شدہ معلومات پر ہوتا ہے ۔۔ مگر معاشرتی لیول پر کسی بڑی مثبت تبدیلی کے لیئے سکیما ۔۔نسبتاََ  وسیع نقطۂ نظر فراہم کرتا ہے ۔۔
خوبصورت لکھائی کے چھوٹے چھوٹے نوٹس میں ۔۔ یوشع نے ٹاپک کو پوری طرح کوور  کرنے کی کوشش کی تھی ۔۔صفہ نے تیزی سے نوٹ بک کے ورق الٹ کر دیکھے ۔۔ آدھے سے زیادہ  صفحے یوشع ہی کی ۔۔لکھائی سے بھرے ہوئے تھے ۔۔ کہیں کہیں ۔۔عنایہ نے ۔۔ انڈر لائن اور ہائی لائٹ کیا ہوا تھا ۔۔ صفہ کے دل کو جھٹکا سا لگا ۔۔ نوٹ بک اُن کے ہاتھ سے چھوٹ کر بیڈ پر گری ۔۔ وہ کئی لمحوں تک خالی خالینظروں سے عنایہ کو دیکھے گئیں ۔۔
 ایک اور صفہ ۔۔  نہیں ۔۔۔وہ سوچتے ہوئے بھی  لرز رہی تھیں ۔۔
چاچی ۔۔آپکی طبیعت تو ٹھیک ہے نا ۔۔ پاپا کو بلاؤں ۔۔ عنایہ ان کی کیفیت نوٹ کرتے ہوئےبیڈ سے اتری ۔۔ تو انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روکا ۔۔وہ کوئی جواب دیئے بغیر چادر سر تک تان کر ۔۔چپ چاپ لیٹ گئیں ۔۔ عنایہ حیرت ذدہ انہیں دیکھے گئی۔ مگر وہ آجکل انکی ذہنی حالت سے آگاہ تھی ۔۔ سو خاموشی سے لائٹ آف کرکے۔۔ سائڈ لیمپ آن کیا ۔۔پھر دوبارہ اپنا کام کرنے لگی ۔۔۔ اور بیڈ کی دوسری سائڈ ۔۔آنکھوں پر ہاتھ رکھے لیٹی ہوئی صفہ ۔۔ بیتے زمانوں کی اُن سنہری یادوں میں کھوتی چلی گئیں ۔۔ جو بلاشبہ انکی زندگی کا خوشگوار ترین باب تھا ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

التمش نے شرٹ سے گلاسزرگڑتے ہوئے ۔۔ ایک نظر اپنے امنے سر جھکائے بیٹھی ۔۔ نوٹ بک پر سوال حل کرتی اِس لڑکی پر ڈالی۔۔ اُسے صفہ کو پڑھاتےہوئے ۔۔تیسرا ہفتہ تھا ۔۔ اور ابتدا کی کوفت کی جگہ اب دلچسپی اور شوق نے لے لی تھی ۔۔ اسے صفہ پر زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی تھی ۔۔ وہ ماشا اللہ ایک ذہین لڑکی تھی ۔۔ جو بہت تیزی کے ساتھ پیچیدہ حسابی اصولوں کو سمجھ رہی تھی ۔۔
التمش نے چونک کر ایک نظر رسٹ واچ پر ڈالی ۔۔ دس منٹ ہوچکے تھے ۔۔مگر صفہ نے ابھی تک سوال حل نہیں کیا تھا ۔۔ وہ یقیناَََََ کہیں اٹک گئی تھی ۔۔اور اُس سے پوچھتے ہوئے ڈر رہی تھی۔۔ اس کےنرم رویئے کے باوجود وہ اب تک۔۔ اُس سے ہچکچاتی تھی ۔۔
صفہ ۔۔کافی ٹائم ہوگیا ۔۔ ادھر دکھاؤ کیا  مسئلہ ہے ۔۔ اسکی آواز پر صفہ نے ڈرتے ڈرتے نوٹ بک اسکی طرف بڑھائی ۔۔ التمش نے انگلیوں میں پین گھماتے ہوئے چیک کیا ۔۔ وہ لمٹس کا طریقۂ کار تو سمجھ گئی تھی ۔۔ مگر وہ ا لجبرا کا صحیح فارمولہ نہیں لگا پارہی تھی ۔۔التمش کو اس کا پرابلم سمجھنے میں ۔۔لمحے لگے تھے ۔۔ چونکہ اس نےمیٹرک لیول پر صحیح طرح میتھس نہیں پڑھا تھا ۔۔اس لیئے وہ بیسک الجبرا میں کمزور تھی ۔۔
عموماََ مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ سٹوڈنٹس ۔۔کالج لیول پر جا کر لا ابالی ہوجاتے ہیں ۔۔ سکول میں دل لگا کر پڑھنے والے  کا دل بھی پڑھائی سے اچاٹ ہو جاتا ہے ۔۔ اسکی ایک وجہ ماحول کی تبدیلی کے علاوہ یہ بھی ہے ۔۔کہ ٹیچرز  انکا  بنیادی مسئلہ سمجھ کر اسے حل کرنے کے بجائے صرف سلیبس کور کروانے پر زور دیتے ہیں ۔۔میتھ میٹکس آجکل ایسامضمون تصور کیا جاتا ہے جسے کوچنگ یا ٹیوشن کی بغیر ۔۔بچے بلکل بھی سمجھ نہیں پاتے ۔
اعلیٰ سے اعلیٰ کوالیفائڈ ۔۔ پروفیسر بھی کسی سٹوڈنٹ کو اس وقت تک میتھس نہیں سمجھا سکتا جب تک ابتدائی ۔۔ حساب کے متعلق اسکی مکمل معلومات نہ ہوں ۔۔ یا وہ پڑھ کر پچھلا سب بھول گیا ہو ۔۔آپ حساب کو گھول کے نہیں پی سکتے ۔۔ نہ ہی اور مضامین کی طرح اسکا رٹا لگایا جا سکتا ہے ۔۔  یہاں تک کے تبدیل شدہ امتحانی پیٹرن کے مطابق آپ میتھس کی پیپر میں چیٹنگ بھی نہیں کر سکتے ۔۔ کیونکہ سوالات سلیبس کی ویلیوز سے تبدیل کر کے دیئے جاتے ہیں ۔۔ میتھس پڑھنےکے لیئے ۔۔پیٹرن سمجھنے کے ساتھ ساتھ ۔۔ اپنی میموری ۔۔فریش اور اپڈیٹ رکھنا ۔۔انتہائی ضروری ہے ۔
وہ صفہ کو صحیح فارمولہ بتا کر دوبارہ حل کرنے کا کہہ کر اپنے روم میں گیا ۔۔ اور ایک خالی نوٹ بک لیکر آیا ۔۔  اُس دن کے بعد ۔۔وہ صفہ کی فارمولہ بک بنتی گئی ۔۔ بیسک الجبرا ۔۔ ٹرگنومیٹری ۔۔ انٹیگریشن۔۔ہر طرح کے  کلیے ۔۔وہ اس  نوٹ بک میں درج کرتا گیا ۔۔ اور اُس کے واپس یونیوسٹی لوٹ جانے کے بعد ۔۔صفہ خود  ہر نئی مساوات ۔۔ فارمولہ ۔۔ کوئی نیا طریقہ ۔۔ سب کچھ اُس میں نوٹ کرتی گئی ۔۔
چھ ماہ بعد ۔۔سمیٹر اینڈ پر جب ۔۔التمش واپس گھر آیا ۔۔ تو صفہ اے گریڈ کے ساتھ ۔۔فرسٹ ائیر  کلیئر کر چکی تھی ۔۔
گزرتے ماہ و سال کے ساتھ ۔۔ اُس پہلی نوٹ بک جیسی کئی اور فارمولہ بکس ۔۔ وجود میں آتی گئیں ۔۔ میتھس کے بعد ۔۔فزکس ۔۔کمپیوٹر ۔۔ بہت کچھ التمش اسے سکھاتا گیا ۔۔صفہ کا اعتماد بڑھا ۔۔ تو ان کے درمیان حائل ہچکچاہٹ اور تکلف کی دیوار بھی کمزور ہوتی گئی ۔۔افراسیاب ساتھ ہوتا ۔۔تو وہ مل کر لوڈو کھیلتے ۔۔ تو کبھی لان ٹینس پر انکی شرطیں لگتیں ۔۔ جس مین عموماََ ہار صفہ کی ہوتی ۔۔ اور ۔وہ ہارنے پر  اس سے مزیدار چیزیں پکوا کر ۔۔ لطف اٹھاتے ۔کبھی انکا ڈیرا ۔۔التمش کا روم بنتا ۔۔اور وہ گھنٹوں ۔۔ اس کے پراجیکٹس ۔۔ریسرچ پیپرز ۔۔اور روبوٹکس کے بارے میں ۔۔سوالات پوچھ کر اسکا کھاتے۔۔
صفہ کو کمپیوٹر میں کافی دلچسپی تھی ۔۔ مگر التمش کی توقع کے بر خلاف ۔۔اس نے انجینئرنگ فیلڈ میں جانے کے بجائے ۔۔  بی ایس میتھ میٹکس کا  انتخاب کیا تھا ۔۔ کرنل تیمور اس انتخاب پر کچھ چونکے ضرور تھے وہ لڑکی جو سال ڈیڑھ سال پہلے حساب میں کمزور تھی ۔۔ وہ اب خود ۔۔اسی فیلڈ کو منتخب کر رہی تھی ۔۔ وہ التمش کی صلاحیتوں کے ہمیشہ سے معترف رہے تھے ۔۔ مگر اس دفعہ وہ صرف امپریس نہیں ہوئے تھے ۔۔ وہ اُس کے احسان مند بھی تھے ۔۔۔
دو ڈھائی سال کی قلیل مدت میں گاؤں کی ڈری سہمی ۔۔ لڑکی ۔۔اب کو ایجوکیشن یونیورسٹی  کی ایک پر اعتماد ۔۔ ایکٹو سٹوڈنٹ تھی ۔۔  اور بہت سی تبدیلیوں کے ساتھ ۔۔ اچھی خوراک اور خوشگوار۔۔ من پسند ماحول ملنے کے باعث اسکا نو خیز حسن ۔۔  یوں نکھر کر سامنے آیا تھا ۔۔ کہ گل بی بی ۔۔نظر لگ جانے کے ڈر سے خود بھی اُسے نگاہ بھر کر نہیں دیکھتی تھیں ۔۔ مگر کوئی اور تھا ۔۔ جو نا محسوس انداز میں ۔۔اُس پربہت گہری نظر رکھنے لگا تھا ۔۔۔
صفہ جمال خان ۔۔وہ پہلی اور آخری لڑکی تھی ۔۔ جس نے التمش خان  جیسے جینیئس ۔۔گریس فل ۔۔ اور مایہ ناز ۔۔انجینئر کے دل کی دہلیز پار کی تھی ۔۔ اور اسکی آخری سانس تک ۔۔۔ کسی  ملکہ کی طرح ۔۔وہاں راج کرتی رہی ۔۔۔اور موت بھی اُن کے اِس تعلق کو توڑ نہیں پائی تھی۔۔                                                                                                                                                                                                                                                    (جاری ہے)                                                                                                                         
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگلی قسط دو ہفتے بعد اپ لوڈ کی جائیگی ۔۔ بلاگ ہر کمنٹ کر کے اپنا فیڈ بید دیجئے۔۔اور فیس بک پیج پر اپڈیٹ چیک کرتے رہیے
                                   
Share on Google Plus

About Unknown

0 comments:

Post a Comment