WELCOME TO MELTED TRUTHS

All Truths are easy to understand once they are discovered;the point is to discover them.(Galileo Galilei)

STEPHEN HAWKING





سٹیفن ہاکنگ
Stephen Hawking
                                                                    
وہ ہاسٹل کے کمرے میں سر جھکائے کسی گہری سوچ میں غرق تھا ۔۔ آج مسلسل تیسرا روز تھا ۔۔ جب اسکی گرل فرینڈ اس سے ملنے آئی تھی ۔۔اور وہ ملنے نہیں گیا تھا ۔ وہ اب تک اُس لڑکی کا سامنا کرنے کہ ہمت نہیں کر پایا تھا ۔۔ اپنی اِس نیم مفلوج ٹانگ کے ساتھ وہ کس طرح اُس پیاری ، معصوم سی لڑکی سے جاکر ملتا ۔۔جس کی جھیل سی گہری آنکھوں میں محبت کے دیپ جلے ابھی کچھ ایسا زیادہ عرصہ بھی نہیں ہوا تھا ۔۔ وہ جلد مجھے بھول کر کسی اور کو ساتھی چُن لیگی۔اُ س نے سر جھٹک کر سامنے ٹیبل پر پڑی کتاب اٹھائی ہی تھی کہ ۔۔ دروازہ بہت زور سے کھلا ۔۔اور ہاسٹل رولز کی پرواہ کیئے بغیر ۔ جَین اُس کے کمرے میں موجود تھی ۔۔۔ ہاکنگ گھبرا کر تیزی سے اٹھا ۔۔ پھر لڑکھڑایا ۔۔ اور جِین اپنی جگہ ساکت تھی ۔۔ چلی جاؤ ۔۔ پلیز چلی جاؤ ۔۔ میری زندگی سے ہمیشہ کے لیئے چلی جاؤ ۔۔ میں تمہیں کچھ نہیں دے سکتا ۔۔وہ آنسوؤں کے درمیان زور سے چلایا ۔۔ مگر جَین وہیں اپنی جگہ کھڑی رہی ۔۔اور پھر وقت نے دیکھا کہ جین وائلڈ اگلے چھبیس برس تک ہاکنگ کا ساتھ نبھاتی رہی ۔۔ اُس کے تین بچوں کی ماں بن کر ۔۔ وہ کسی بچے کی طرح اُس کا خیال کرتی  آہستہ آہستہ اُس کے سارے اعضاء کو ناکارہ کرتا گیا ۔۔ ہاکنگ کی زندگی سے کامیابیاں ، امنگیں اور خوشیاں ایک ایک کرکے رخصت ہوتی گئیں ۔۔ مگر جین کسی آہنی چٹان کی طرح پے در پے آنے والے طوفا نوں کا مقابلہ کرتی رہی ۔۔ ہاکنگ کے پاس زندگی کی طرف واپس لوٹنے کے لیئے کچھ بھی تو نہ بچا تھا ۔۔مگر جین جانتی تھی ، اُس کے پاس بہترین دماغ تھا ۔اور دماغ یقیناًٌ ہر انسانی عضو کا بادشاہ ہے۔۔



اکیس برس کی عمر میں جب ہاکنگ پر پہلی دفعہ
اٹیک ہوا تھا توڈاکٹرز کے اندازوں کے مطابق وہ صرف دو برس اور جی سکتا تھا ۔۔ اُس کے والدین نے گہری
 تشویش میں کیمبرج یونیورسٹی رابطہ کیا ۔۔ کہ آیا وہ اپنا پی ایچ ڈی مکمل کر سکے گا ۔۔ ؟؟ تو یونیورسٹی کا جواب زیادہ حوصلہ افزا نہیں تھا ۔۔
مگر اِس بالشت بھر کے انسان ۔۔جس کی کُل کائنات ایک وہیل چیئر اور اُس پر نصب چند کمپیوٹر سسٹمز اور ایک سکرین ہےنے دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے ۔۔ وہ آج زندگی کی  پچھتر بہاریں دیکھ چکا ہے اور اب بھی ستاروں پر کمندیں ڈالنے کے خواب دیکھتا ہے۔۔

 وہ جس کی پوری زندگی بذاتِ خود ایک معجزہ ہے ۔۔وہ نا معجزوں پر یقین رکھتا ہے ۔۔ نا ہی پوری طرح خدا کے وجود پر ۔۔ اسکا کہنا ہے کہ سائنس نے خدا کے وجود کو دھندلہ دیا ہے ۔۔
وہ جو مقدر کا سکندر ہے وہ تقدیر کے لکھے پر یقین نہیں رکھتا ۔۔ اُس کا استدلال ہے ۔۔ میں نے دیکھا ہے کہ جو لوگ تقدیر کے اَٹل اور نا قابلِ تغیر ہونے پر پختہ ایمان رکھتے ہیں۔۔، وہ بھی سڑک پار کرتے ہوئے دائیں بائیں ضرور دیکھتے ہیں۔
سٹیفن ولیم ہاکنگ

  کو فرینک ہاکنگ اور ازوبیل ہاکنگ کے ہاں جنم لینے والا انکا پہلا بچہ تھا ۔۔ اسی تاریخ کو تقریباٌ
  تین سو سال قبل مشہورِز مانہ فزکسٹ گلیلیو گلیلی
 کی وفات ہوئی تھی ۔۔ درحقیقت گلیلیو ہی وہ پہلا سائنسدان تھا جس کی تھیوریز سے کائنات کے سر بستہ 
راز وں پر تحقیق کا آغاز ہوا ، جسے انتہاء پر سٹیفن ہاکنگ نے پہنچایا۔۔
اُس کی پیدائش کے وقت فرینک ہاکنگ کی مالی حالت کافی دگرگوں تھی ۔۔ ورلڈ وار کی وجہ سے ایک وسیع علاقہ بمباری کی زد پر تھا ۔۔ بچپن میں اس کا شمار کچھ زیادہ ذہین سٹوڈنٹس میں نہیں ہوتا تھا ۔پڑھائی کے بجائے وہ ٹرین، راکٹ اور جہاز بنانے میں دلچسبی رکھتا تھا ۔۔ وہ اکثر اوقات اپنے گھر کے پچھواڑے گھنٹوں تنہا بیٹھ کر آسمان کو تکا کرتا تھا ۔۔ اسکی ماں ازوبیل اسے بہلانے کے لیئے کہا کرتی تھی کہ ایک روز ستارے تمہیں اپنے ساتھ آسمان پر لے جائیں گے۔ اور آج وہ 
یقیناٌ ستاروں کے ساتھ سفر کرتا ہے ۔۔
سٹیفن ہاکنگ نے ابتدائی تعلیم سینٹ البان سکول اور یونیورسٹی کالج آکسفورڈ سے حاصل کی۔ اس کے والدین بھی آ کسفورڈکے فارغ التحصیل تھے ۔۔ فرینک ہاکنگ ٹراپیکل ڈیسزپر ریسرچ کر ہے تھے اور انکا ارادہ ہاکنگ کو بھی میڈیسن میں بھیجنے کا تھا ۔۔ مگر انکی توقع کے بر خلاف اُس نے میتھمیٹکس کو ترجیح دی ۔۔چونکہ اس وقت تک آکسفورڈ کالج میں میتھ میٹکس کی ڈگری نہیں تھی سو ہاکنگ نے اپنے لیئے تھیوریٹیکل فزکس کا انتخاب کیا ۔۔ نوجوانی سے ہی اُس میں اعتماد کی شدید کمی تھی ۔۔بظا ہر ہونق سے نظر آنے والے ہاکنگ کو صنفِ نازک ہی نہیں عموماٌ اسا تذہ بھی زیادہ اہمیت نہیں دیتےتھے۔ جب ہاکنگ آکسفورڈ میں سکالر شپ کا امتحان دینے گیا ۔۔تو وہ اتنا زیادہ نروس تھا کہ پریکٹیکل امتحان بھی صحیح طرح نہیں دے پایا ۔۔ وہ آکسفورڈ میں ایڈمیشن سے تقریباٌ مایوس ہوکر کہیں اور قسمت آزمائی کا سوچ ہی رہا تھا کہ ایک روز اسے سکالر شپ لیٹر موصول ہوا ۔۔ یہ اس پر قدرت کی مہربانیوں کا آغاز تھا ۔۔ مستقبل بھی بارہا ایسا ہوتا رہا۔۔ کہ جب کبھی وہ مایوسیوں کے اندھیروں میں غرق ہوکر فنا ہونے کو تھا۔توکہیں نہ کہیں سے آس اور امید کے در وا ہوکر ۔۔اُسے زندگی کی طرف واپس لاتے رہے ۔۔۔اسکا شمار اُن سٹوڈنٹس میں ہوتا تھا جو آخری وقت میں کتابیں کھول کر شدید ڈپریشن کو دعوت دیتے ہیں ۔۔ آکسفورڈکے آخری سال میں اسکا د ل پڑھائی سے بلکل ہی اچاٹ ہو چکا تھا ۔۔ اِس کے باوجود وہ اے گریڈ کے ساتھ کامیاب ہوا ۔۔
وہ اپنے فیصلوں سے ہمیشہ والدین کو ششدرہ کرتا رہا ۔۔ اُس نے کیمبرج یونیورسٹی میں ریسرچ کے لیئے کاسمولوجی کی فیلڈ اختیار کی جو اُس وقت تک وہاں علاقۂ غیر سمجھی جاتی تھی ۔۔ یہیں پہلے سال کے دوران اُس کی طبیعت گری گری رہنے لگی ۔۔ کئی دفعہ وہ سیڑھوں سے ٹھوکر کھا کر گر پڑا ۔۔تب ہاکنگ پر یہ خوفناک انکشاف ہواکہ وہ ایک ایسے موذی مرض میں مبتلا ہے جس سے مسلز کو کنٹرول کرنے والے اعصاب آہستہ آہستہ کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں ۔یہ خبر اسکے لیئے انتہائی
تکلیف دہ تھا ، ابھی تو اُس نے بلیک ہول پر اپنی ریسرچ کا آغاز کیا تھا ۔۔ وقت بہت کم تھا ،سو ہاکنگ نے اپنی تمام توانا ئیاں اپنی ریسرچ پر مبذول کر دیں ۔
۱۹۶۵ میں جَین وائلٖڈ کے ساتھ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوکر اسے جیسے جینے کا نیا حوصلہ ملا ۔۔ وہ کہتا ہے کہ ایک طرح سےمیری یہ بیماری میرے لیئے گڈ وِل چارم ثابت ہوئی ۔۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ زندگی مجھے اور کتنا وقت دینے والی ہے ۔۔ سومیں نے ہر میسر لمحے کو پوری طرح استعمال کیا ۔کہ جب کبھی ۔۔کسی بے رحم لمحے میں موت اپنے آہنی پنجوں کے ساتھ میری طرف بڑھے ۔۔تو میری آنکھوں میں کوئی نا تمام حسرت نہ 
ہو۔۔

۱۹۶۹ تک ہاکنگ کے جسم پر بیماری کا اثر اتنا بڑھ چکا تھا کہ وہ یونیورسٹی جانے کے لیئے وھیل چیئر استعمال کرنے لگا ۔۔ ہاتھوں میں ریشہ اس قدرتھا کہ وہ ہاتھ سے ایک چھوٹی سی ایپلیشن بھی لکھنے سے قاصر تھا ۔۔ کبھی جَین ، کبھی اسکا کوئی یونیورسٹی فیلو ریسرچ پیپرز ٹائپ کر دیا کرتے تھے ۔۔ اِس دوران اُسے زندگی کی دو بڑی خوشیاں نصیب ہوئیں ۔۔۱۹۶۸ میں اس کے ہاں پہلے بچے رابرٹ کی پیدائش ہوئی تو جیسے زندگی کو جینے کا نیا مفہوم ملا ۔۔پھر ایک سال بعد ننھی پری لوسی نے آکر تو جیسےکائنات ہی مکمل کردی ۔ اَسی سال بلیک ہولز پر اسکی ریسرچ کو سراہتے ہوئے اُسے انسٹیٹیوٹ آف ایسٹرانامی کیمبرج کی اعزازی رکنیت سے بھی نوازا گیا ۔
اتنی ڈھیر ساری خوشیوں نے اسے جینے کا نیا ولولہ عطا کیا اور آہستہ آہستہ جسم پر بیماری کا اثر کم ہوتا چلا گیا ۔۔۔ یہ ہاکنگ کے عروج کا آغاز تھا اور آج لگ بھگ
۴۵ سال بعد بھی ۔۔زندگی کے کسی بھی دشوار ترین دور ، کسی بھی اذیت ناک لمحے میں اُسے زوال کا منہ دیکھنا نہیں پڑا ۔۔۔
۱۹۷۳ میں سٹیفن ہاکنگ کی پہلی کتاب زمان و مکاں کا وسیع تصوراتی ڈھانچہ منظرِعام پر آئی ۔۔اگرچہ اس کتاب کو اسکی مستقبل میں شائع ہونے والی کتابوں کی نسبت زیادہ پزیرائی حاصل نہیں ہوئی، پھر بھی بلیک ہولز کے خدوخال کے متعلق جو تھیوریز ہاکنگ نے اِس کتاب میں متعارف کروائیں ۔۔انہوں نے اسے فزکس اور ایسٹرانامی کے حلقوں میں زبردست شہرت سے نوازا ۔۔اور تب ہی ہاکنگ ریڈییشنز کی اصطلاح وجود میں آئی ۔
اور اُس کے بعد اِس منہنی سے شخص نے پھر مڑ کر نہیں دیکھا ۔زندگی اُس پر پے در پے ستم توڑتی چلی گئی ۔۔
۱۹۸۵ میں سرن میں ایک کانفرنس کے دوران سٹیفن ہاکنگ نمونیا کا شکار ہوا ۔اور چند ہی رو ز میں اس کے حالت اتنی بگڑ گئی کہ ڈاکٹر اسکی زندگی کی طرف سے مایوس ہو کر وینٹیلیٹر ہٹانے لگے تھے ۔۔مگر جَین کا وجدان کہتا تھا کہ ہاکنگ کو ابھی اور بہت سارے سال جیناہے ۔۔ جین نے فوری طور پر اُسے ایڈن بروک ہاسپٹل کیمبرج منتقل کروایا ۔۔ جہاں ڈاکٹر نے ایک بڑا رسک لیتے ہوئے اسکی سرجری  کا فیصلہ کیا ۔۔ اِس آپریشن سے پہلے بھی ہاکنگ کی گویائی اتنی متاثر ہو چکی تھی کہ صرف اُس قریب رہنے والے لوگ ہی اسکی بات سمجھ پاتے تھے ۔۔پھر بھی دنیا سے رابطے کا ایک ٹوٹا پھوٹا ہی سہی سہارا تو تھا ۔۔وہ اپنے سیکرٹری کی مدد سے ریسرچ پیپر لکھوا لیا کرتا تھا ۔۔کانفرنس اور سیمینارز میں اس ترجمہ نگار کی سہولت فراہم کی جاتی تھی ۔جو اُس کے بے ربط جملوں کو قابلِ مفہوم بناتا ۔۔ مگر اِس آپریشن کے بعد دنیاسے رابطے کا آخری در بھی بند ہو گیا تھا ہاکنگ جتنی ہمت کرتا تھا ۔۔ز ندگی اس کے لیئے اتنا ہی بڑا اور کھٹن امتحان لیکر آتی تھی ،، ایک عرصے تک وہ اپنے گھر کے بیڈ روم ۔۔تو کبھی لاؤنج میں اپنی الیکٹرک وہیل چیئر پر بیٹھ کر خلاؤں میں تکتا رہا۔۔ رات میں جب کبھی شدید ڈپریشن میں
کھلے آسمان تلے جا کر بیٹھتا تو اَن گنت ستارے ، سیارے ، اور کہکشائیں اس کے گرد رقص کرنے لگتیں ۔۔وہ ہاکنگ کو کائنات کے انوکھے نغمے ، اَ ن کہی داستانیں سناتے ۔ لیکن بے رحم وقت نے دنیا سےرابطے کا آخری وسیلہ بھی چھین لیا تھا ۔۔
ہاکنگ کے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں رہا تھا جس سے وہ دنیا کو آسمانوں کی وہ مخفی کہانیاں سنا سکے ، جو اسے بہت
واضح دکھائی بھی دیتی تھیں اور سنائی بھی ۔۔
جَین سے اسکی یہ حالت چھپی نہیں ہوئی تھی ۔۔ راتوں کو جب ہاکنگ تنہا بیٹھ کر ستاروں کو تکا کر تا ۔۔۔ تو اندر بیڈ روم میں جین کا تکیہ آنسوؤں سے بھیگتا رہتا ۔۔ مایوسی کے انہی گھٹاٹوپ اندھیروں میں ایک روز جَین اُس کے پاس سپیل کارڈلیکر آئی جس پر انگریزی کے حروف واضح درج تھے ۔ہاکنگ ان حروفے تہجی کو آنکھ کے اشارے یا سے منتخب کرکے الفاظ اور جملے بناتا ۔۔ لیکن اس طریقۂ کار سے سامنے والے کے لیئے اسکی بات سمجھنا ایک دشوار گزار عمل تھا ۔۔ زندگی اسے ہرانے پر مصر تھی ۔۔ مگر وہ ہار ماننے پر تیار نہیں تھا ۔۔ اسے جینا تھا ۔۔اور بہت کچھ کرکے جینا تھا ۔اُسے چوبیس گھنٹے نرسنگ کی ضرورت تھی ۔ جس کے اخراجات اٹھانا اُن کے لیئے ناممکن ہوتا جا رہا تھا ۔۔ لہذا بہتر مستقبل کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے وہ انگلینڈ سے کیلیفورنیا منتقل ہو گئے ۔۔ اگرچہ جین کو ا بتدا میں اس فیصلے پر اعتراض تھا مگر بعد میں  کیلٹیک  کی طرف سے جو سہولیات ہاکنگ کو فراہم کی گئی وہ ان کے لیئے بہت مددگار ثابت ہوئی ۔۔ 
قسمت ایک دفعہ پھر ہاکنگ ہر مہربان ہوئی کیمبرج کے ڈیوڈ میسن نے اس کی الیکٹرک چیئر اپ ڈ یٹ کرنے کا بیڑا اٹھایا ۔۔ ایک سپیچ سینتھیسائزرکے ساتھ ایک کمپیوٹر سکرین اس چیئرمیں نصب کی گئی جس کے ذریعے وہ ابتدا میں فی منٹ تین الفاظ منتخب کرسکتا تھا ۔۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنی سوچوں کو الفاظ میں ڈھال کر کمپیوٹر کی ڈسک میں سیو کرنے کی سہولت بھی اسے میسر آگئی تھی ۔۔۔۔یہ طریقۂ کار ہاکنگ آج تک دنیا کی ناموریونیورسٹیز اور سیمینارز میں لیکچرز دینے کے لیئے استعمال کرتا ہے ۔۔ جو آواز سینتھیسائزرنشر کرتا ہے وہ ہاکنگ کا ٹریڈ مارک سمجھی جاتی ہے اگرچہ یہ اسکی قدرتی آوا زسے مکمل مشابیہ نہیں ہے ۔۔
بڑھتی ہوئی مالی پریشانیوں نے جَین کو بہت چڑ چڑا کر دیا تھا ۔۔ تین بچوں کا ساتھ اور ایک معذور شخص ۔۔ ہاکنگ سے اسکی یہ حالت پوشیدہ نہیں تھی ۔ ان شدید حالت سے نمٹنے کا ایک ہی راستہ اسے سجھائے دیتا تھا ۔۔ اس نے بگ بینگ پر ایک کتاب لکھنے کابیڑا اٹھایا ۔۔ جس میں ایک بڑا مسئلہ حسابی فارمولوں اور مساواتیں لکھنے کا تھا ۔۔ بعض اوقات اس پر اتنی شدید مایوسی طاری ہوجاتی کہ وہ سنجیدگی سے خودکشی کے بارے میں سوچنے لگتا ۔۔ مگر خدا کو اسکی مزید زندگی ابھی منظور تھی ۔
قدرت ایک دفعہ اس پر مہربان ہوئی ۔۔اور اسے لیٹکس نامی ایک ایسا کمپیوٹر پروگرام مل گیا جس کے ذریعے وہ ہر طرح کے فارمولے اور مساواتیں لکھ سکتا تھا ۔۔ اگرچہ وہ اب تک خدا کی مدد پر یقین نہیں رکھتا ۔۔۔ مگر خدا بار بار حالات کی سختی کو گھما کر اسکی طرف لاتا رہا ہے ۔۔کہ شاید کبھی اسکا ایمان پختہ ہوجائے ۔۔ ہاکنگ آج تک انسانیت اور سائنس کے لیئے جو کچھ کر پایا ہے بظاہر وہ سائنس کا کرشمہ نظر آتا ہے ۔۔ مگر در حقیقت یہ ہر اس ذی شعور کے لیئے قدرت کا ایک جیتا جاگتا شاہکار ہے جو ٹیکنالوجی سے متا ثر ہو کر ملحد بنتا جا رہا ہے ۔۔


انہی حالات میں اسکی دوسری کتاب "وقت کا سفر "شائع ہوئی اور کاسمولوجی  کی دنیا میں اِ س کتاب نے تہلکہ مچا دیا ۔۔ یہ کتاب تقریباٌ ۴ سال تک لندن سنڈے ٹائمز کی بیسٹ سیلر لسٹ پر رہی ۔ اِس کتاب کے پیچیدہ ترین اور ہمہ گیر موضوع سے قطعہ نظر ۔۔اِسے ایک ایسے شخص نے لکھا تھا جو پوری طرح اپنے ہاتھوں کو جنبش بھی نہیں دے سکتا ۔۔ ہاتھ سے لکھنے والے شاید اندازہ کر سکیں کے اِس شخص نے ایک ایک لفظ کمپیوٹر سکرین پر منتخب کرکے یہ دقیق کتاب کس طرح لکھی ہوگی ۔۔ اگرچہ اُس وقت ہاکنگ اپنی انگلیوں کو جنبش دے سکتا تھا ۔۔لیکن اِس کے بعد شائع ہونے والی اپنے نو 
کتابیں اُس نےگالوں اور مسلز کی حرکت کی مدد سے لکھی ہیں
اس کتاب کی آج تک چالیس ملین کاپیز فروخت ہو چکی ہیں اور اردو سمیت چالیس سے زائد
زبانوں میں اِس کا ترجمہ کیا جا چکا ہے ۔۔ حالانکہ یہ زمان و مکاں کےموضوع پر لکھی گئی ایک مشکل ترین کتاب ہے جو عام آدمی کی سمجھ سے باہر ہے ۔۔اِس کے باوجود اس کے اگلے ایڈیشنز بھی بیسٹ سیلر لسٹ میں شامل رہے۔۔1993 میں ہاکنگ کی تیسری کتاب بلیک ہولز اینڈ بے بی یونیورس بھی شائع ہوتے ہی ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوئی ۔۔ بلیک ہولز کے بارے میں آج تک جتنا سٹیفن ہاکنگ نے لکھا ہے ، کسی اور فزکسٹ کو یہ اعزاز حاصل نہیں ہو سکا ۔۔ اس کا دعویٰ ہے کہ عام آدمی دو یا تین سمتوں میں چیزوں کو پرکھتا ہے ۔۔جب کہ وہ گیارہ سمتوں میں پرکھنےکرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔۔اِس گیارہ سمتوں والے تصور کو ہاکنگ نے  میں اپنی معرکتہ الاآرا کتاب"دہ گرینڈ ڈیزائن " میں انتہائی دلچسپ طریقے سے بیان کیا ہے 
اگرچہ اِس کتاب پر رومن کیتھولک چرچ اور پادریوں کی طرف سے شدید اعتراضات اٹھائے گئے کہ سٹیفن ہاکنگ نوجوان نسل کو بھٹکا کر اُن میں دہریت کو فروغ دے رہا ہے ۔۔ مگر وہ آج تک اپنے مؤقف پر ڈٹا ہوا ہے ہاکنگ خدا کے وجود کا منکر نہیں ہے لیکن جس طرح وہ  آفاقی قدرتی قوانین کو بیان کرتا ہے وہ عام آدمی کی سمجھ سے باہر ہیں۔۔
1975کے بعد جوں جوں سٹیفن ہاکنگ کے اعضاء اُس کا ساتھ چھوڑتے گئے ۔۔زندگی اُس پر کامیابیوں کے اُتنے ہی دَر وا کرتی گئی ۔۔انٹیل کارپوریشن نے اسکی وہیل چیئر کے کمپیوٹر سسٹم کو ایک دفعہ پھر اپ ڈیٹ کیا ۔۔کیونکہ اب انگلیوں کی جنبش بھی ہاکنگ کا ساتھ چھوڑ چکی تھی ۔۔ تب سے آج تک وہ گالوں اور چہرے کے خدوخال کی حرکت کی مدد سے کمپیوٹر سکرین آپریٹ کرتا ہے ۔۔ بڑھتی عمر اور ہمہ روز کی بیماروں نے اس کے چہرے کے خدوخال کو بہت متاثر کیا ہے۔۔اسکا چہرہ ایک جانب ڈھلک چکا ہے۔۔ لیکن اس کا دماغ آج پہلے سے زیادہ تیزی سے کام کرتا ہے۔
۱۹۷۸ میں اسے ملنے والا پہلا ایوارڈ البرٹ آئن سٹائن ایوارڈ تھا ۔۔اِس کے ایک سال بعد اُسے آئن سٹائن میڈل سےنوازا گیا ۔۔ اور یوں ایوارڈز کا ایک نا ختم ہونے والا سلسہ شروع ہوا جو آج تک جاری ہے ۔۔ دنیائے فزکس کا شاید ہی کوئی ایسا اعزاز ہو جو ہاکنگ کی ایوارڈ گیلری میں موجود نہ ہو ۔۔
Lucasian profesor of mathematics in cambridge university
کی اعزازی چیئر پر وہ تقریباٌ
۳۰ سال براجمان رہا ۔یہ چیئر۔۔ نیوٹن کے بعد آئن سٹائن جیسے مایہ نازسائنٹسٹ کو بھی نہیں مل سکی تھی ۔۔بہت سے دیگر حوالوں کے با وجود ایک یہی اعزاز ہاکنگ کو تاریخ میں امر کرنے کے لیئے کافی ہے۔۔ہاکنگ کی کامیابیوں کا سفر جاری رہا ۔۔ وہ ستاروں ، بلیک ہولز اور کہکشاؤں پر کمندیں ڈالتا رہا ۔۔اور دنیا اُس پر ایوارڈز کی بارش کرتی گئی ۔۔۲۰۰۹ میں ہاکنگ کوپریزیڈینشل ایوارڈ آف فریڈم اور ۲۰۱۳ میں رائل ا یسٹرانامیکل سوسائٹی کی طرف سے گولڈ میڈل اور پرائز سے نوازا گیا۔


ایک سیلیبریٹی ۔۔راک سٹار سائنٹسٹ کا امیج رکھنے کے با وجود سٹیفن ہاکنگ کی ذاتی زندگی کچھ ایسی خوشگوار نہیں رہی ۔۔اگرچہ جَین ہاکنگ ایک بلند حوصلہ خاتون تھی ، جس نے ہر کھٹن وقت میں ہاکنگ کا بھر پور ساتھ نبھایا ۔۔ اِس عورت نے اپنی بھرپور جوانی کے ۲۵سال ایک ایسے شخص کے ساتھ نبھاتے گزار دیئے جس کے اپنے اعضاء اسکا ساتھ چھوڑتے جا رہے تھے ۔۔ لیکن ہاکنگ محسوس کرنے لگا تھا کہ جَین اب تھک چکی ہے ۔۔ تینوں بچے اب جوان اور سمجھدار تھے۔۔جین اسکی بہترین دوست تھی اور وہ اسے خوش دیکھنا چاہتا تھا ۔۔سو باہمی رضامندی سے   انکی علیحدگی اور کچھ عرصے بعد 
  طلاق ہو گئی ۔جَین نے اسی برس اپنے دیرینہ دوست سے شادی کرلی اور ہاکنگ بھی اپنی نرس کےساتھ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہو گیا  مگر بد قسمتی سے یہ بندھن بھی زیادہ عرصے نہ چل سکا ۔۔  
گزشتہ دس سال سے ہاکنگ اکیلا رہتا ہے ۔۔اس تنہائی نے اسکی صلاحیتوں کو مزید جلا دی ۔۔ کائنات کے سربستہ راز کچھ اور انوکھے اندا ز میں اس پر وارد ہونے لگے ۔۔ اسکی تحریری صلاحیتیں کچھ اور نکھر کر سامنے   آئیں۔اِس دوران اسکی مزید
سات کتابیں منظرِعام پر آچکی ہیں ۔۔جن میں سٹیفن ہاکنگ اور لوسی ہاکنگ کی مشترکہ کاوش جارج کامک
  ایڈونچرز کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی ۔۔اِس سیریز کی اب تک تین کتابیں شائع    
 ہو ئی ہیں جو بنیادی طور پر سٹار وارز کی طرز کی ماورائی ایڈونچر کہانیاں ہیں ۔۔


سٹیفن ہاکنگ کی شخصیت اتنی متنوع اور ہمہ گیر ہے کہ اُسے الفاظ کے کوزے میں بند کرنا بہت مشکل ہے ۔۔ وہ ہر روز ایک نئے عزم کے ساتھ جاگتا ہے ۔۔ ہر طلوع ہوتا سورج اُس پر کائنات کے کچھ اور نئے ، اچھوتے پوشیدہ رازوں کو آشکا رکرتا ہے۔اسکی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں نے اُسے ایک راک سٹار سائنٹسٹ کا امیج دیا ہے ۔۔وہ کہتا ہے کہ ہر سلیبریٹی کی ایک خاص وجۂ شہرت ہوتی ہے ۔۔اور میری پہچان میری یہ وہیل چیئر ہے ۔۔!!
کبھی وہ کسی کامیڈی شو میں اپنی جھلک دکھلاتا ہے تو کبھی ٹی وی چینلز پر دنیا کے نامور سائنسدانوں کے ساتھ مباحثوں میں شرکت کر کے ایک عالم پر اپنی قابلیت کی دھاک بٹھاتا نظر آتا ہے ۔
 آرٹیفیشل  انٹیلیجنس پر اسکے ٹی وی مباحثوںکو بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی ۔۔ ہاکنگ کا کہنا ہے کہ میں ٹیکنالوجی میں بڑھتی ہوئی پیشرفت کے ساتھ اور ٹیکنالوجی اور انسان کا تصادم ہوتے دیکھ رہا ہے ۔۔ لوگ آجکل اپنی ذاتی ز ندگی کے بجائے ویب سائٹس اور سوشل میڈیا کو کچھ زیادہ اہمیت دینے لگے ہیں۔۔
  اسکی زندگی پر بنا ئی جانے والی فلم کو دنیا بھر میں زبردست پزیرائی حاصل ہوئی اور اُسے فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا ۔۔ اس فلم نے آسکر ایوارڈ کے لیئے پانچ نامزدگیاں بھی حاصل کیں ۔۔اس فلم کا سکرپٹ
۲۰۱۳ میں منظرِ عام پر آنے والی ہاکنگ کی بایو گرافی اور جین ہاکنگ کی بایو گرافی سے  ماخوذ تھا ۔خون کے آنسو رلا دینے والی داستان ۔۔ دونوں کا مشترکہ دکھ ۔۔ جب زندگی سسکتی رہی ۔۔اور زمانے کے نشیب و فراز میں انکی محبت کہیں خلاؤں میں گم ہو گئی ۔۔۔ فاصلے اتنے بڑھ گئے ۔کہ ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب وہ ایک دوسرے کی شکل سے بیزار تھے مگر کڑا وقت گزر گیا ۔۔ جین آج کسی اور کی شریک حیات ہے مگر وہ اب بھی ہاکنگ کے دل کے نہاں خانوں میں رہتی ہے
ہاکنگ کا کہنا ہے کہ اگر زندگی سے تفریح اور مزاح کو نکال دیا جائے تو پھر باقی کچھ بھی نہیں بچتا ۔۔ وہ خود بھی ہنستا ہے اور اوروں  کو بھی ہنساتا رہتا ہے ۔۔ اسے دوسروں کے دکھ سمیٹ کر اُن کے لبوں پر مسکراہٹ بکھیرنے کا کمال فن آتا ہے ۔۔

اسکا نیا پراجیکٹ ہے بریک تھرو سٹار شاٹ ہے جس میں اسکی مالی معاونت مارک زوکر برگ اور  رشین کھرب پتی کررہے ہیں جس کا مقصد اگلے ۱۰ برسوں میں  ایک سپیس کرافٹ کو خلا میں بھیجنا اور روشنی کی رفتار سے تیز ترین سفر کا تجربہ کرنا ہے ۔۔
حال ہی میں سٹیفن ہاکنگ کےبی بی سی ریتھ لیکچرز کو کتابی شکل میں شائع کیا گیا ہے جو ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو رہی ہے ۔۔اِن لیکچرز پر سٹیفن ہاکنگ کو گلوبل ٹیچر ایوارڈ کے لیئے بھی نامزد کیا گیا تھا۔اس کا تازہ ترین شاہکار "جینیس "نامی ٹی وی شو ہے جسے قلیل عرصے میں بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی ہے ۔۔اس شو کے ذریعے وہ لوگوں میں یہ تحریک پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ صرف روٹین لائف نہ گزاریں ۔۔ بلکہ اِس وسیع کائنات کو اَزخود سمجھنے کی سعی کریں ۔۔


سٹیفن ہاکنگ کا کہنا ہے کہ اگر آپ کسی طرح کی معذوری کا شکار ہیں تو یقیناٌ اِس میں آپ کا کوئی قصور نہیں 
ہے ،، لیکن اپنے پیاروں اور ارد گرد کے لو گوں سے ترس کی توقع کرنے کے بجائے اپنی مدد آپ کیجئے ۔۔ جسمانی معذوری کو نفسیاتی مسئلہ بننے سے روکیئے ۔۔میں سمجھتا ہوں کہ میں معذوروں کے اولمپکس میں شرکت کے لئے موزوں نہیں ہو ں ۔۔ لیکن اپنےلیئے اسے ایک ایشو بنانے کے بجائے میں کہہ دونگا کہ مجھے اولمپکس پسند ہی نہیں ہیں ۔۔۔مثبت طرزِ فکر اپنائیے ۔۔خود کو حتی الامکان حد تک مصروف رکھیئے اور زندگی کی آزمائشوں کو چیلنج سمجھ کے قبول کیجئے۔آج میں ۷۵ برس کی عمر میں بلکل آسودہ اور مطمئن ہوں ۔۔ میں نے کبھی زندگی سے لڑنے کی کوشش نہیں کی ۔۔ وہ جو ستم مجھ پرتوڑتی گئی میں نے ہمیشہ انہیں خندہ پیشانی سے قبول کیا ۔۔ زندگی میرے لیئے بیک وقت بہت مہربان بھی رہی اور ظالم بھی ۔مگر میں نے لوگوں کے رویوں پر آنسو بہانے کے بجائے خود کو اِس قابل بنایا کہ
آج ایک عالم کائنات کے سربستہ رازوں کی گھتیاں سلجھانے کے لیئے ۔۔مجھ سے رجوع کرتا ہے"


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭



Share on Google Plus

About Unknown

0 comments:

Post a Comment