WELCOME TO MELTED TRUTHS

All Truths are easy to understand once they are discovered;the point is to discover them.(Galileo Galilei)

"دوام " قسط نمبر2 The Eternity


" دوام "
     
       An inspirational and alluring tale of a Scientist's love to her                                                " Homeland "



''  دوسری قسط''                                                 


اگلے رو ز وہ ٹھیک ٹا ئم پر ریسرچ سینٹر پہنچی ۔۔ وہیں انھیں پتا لگا کہ ورک شاپ میں سپارکو کے سینئرز کے لیکچر کے علاوہ۔۔LUMS کے سٹوڈنٹس اپنا کوئی پراجیکٹ بھی متعارف کروا ئیں گے ۔۔۔ لمس کے سٹوڈنٹس اپنی سیٹس پر بیٹھ کر فاریہ نے تجسس سے اِدھر اُدھر نظر دوڑائی اور سٹیج کے قریب ہی ارمان یوسف کسی آ فیسر سے محو گفتگو تھا ۔۔
فاریہ نے منتہیٰ کو ٹھوکا دیا ۔۔ذرا اُدھر دیکھنا ۔۔۔
دیکھ چکی ہوں جہاں ہم جائیں یہ ضرور آٹپکتے ہیں۔۔ ہونہہ مینا نے ناک سے مکھی اڑائی 
اِس کو تم ریورس گئیر بھی لگا سکتی ہو ۔۔ جہاں وہ جائیں ہم ٹپک پڑتے ہیں۔ فاریہ نے شرارت سے دیدے نچائے
جسٹ شٹ اپ ۔۔ چپ کر کے بیٹھو ۔۔
ورک شاپ کا آغاز سینٹر کے سینئر آ فیسر نے اپنی حالیہ تحقیقات اور پروجیکٹس سے کیا ۔۔ ریموٹ سینسنگ ۔وقت کی ضرورت ہے ، یہ ارتھ سے متعلقہ سائنس ہے جس میں انتہائی حساس آلات اور سٹیلائٹ کے ذریعے زمین سے متعلق معلومات حاصل کی جاتی ہیں دنیا بھر میں اِس ٹیکنیک کوجیو سینسنگ ، آ ئل اور منرلز کی تلاش کے لئے بڑے پیمانے پر استعمال کیا جارہا ہے ۔ لیکن ایک اور اہم استعمال اب تک ایشیائی ممالک کی نظروں سے پوشیدہ ہے ۔ یہ ٹیکنیک قدرتی آ فات کی ہنگامی صورتحال سے بہتر طور پر نمٹنے میں انتہائی کار آمد ثا بت ہو سکتی ہے ۔ہمارا وطن پاکستان پچھلے کچھ عرصے سے مسلسل قدرتی آ فات کی زد پر ہے ،
خاص طور پر نادرن ایریاز آ ئے دن زلزلے ، موسلا دھار بارشوں اور سیلاب سے متاثر ہوتے رہتے ہیں ۔ اِس ورک شاپ کے انعقاد کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ہم اِس طرح کی صورتحال سے بہتر طور پر نبردآزما ہونے کیلئے ریموٹ سینسنگ کو بڑےپیمانے پر استعمال میں لائیں۔۔ یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز لاہور کے چند انجینئرز نے اِس سلسلے میں ایک پراجیکٹ ڈیزائن کیاہے اور ہم نے اِنہیں اس پلیٹ فارم کی fecility فراہم کی ہے تاکہ یہ فل بوسٹ کر سکے ۔۔!!!
چند دیگر آفیسرز کے بعد لمس کے پراجیکٹ ہیڈ ارمان یوسف نے سٹیج پر آکر اپنے سسٹم کا مختصر مگر جامع تعارف کروایا ۔۔
ہمارا یہ پراجیکٹ (GIS (geographic information system
کی ٹیکنیک پر ڈیزائن ایک کمپیوٹر بیسڈانفارمیشن اینڈ کمیو نیکشن ٹول ہے ۔۔ جس میں کسی بھی   طرح کے ڈیزاسٹر کی پیشگی اطلاع سے لیکر بعد کے حالات سے بہترطور پر نمٹنے کی تمام انفارمیشنز فیڈ اپ ہوں گی ۔ بنیادی طور پر یہ ایک ( decision making tool) ہے جس میں نا صرف سٹیلائٹ کے ذریعے متاثرہ علاقوں کا تیز ترین سروے ، تباہ شدہ انفرا سٹرکچر کا مکمل اور تصدیق شدہ ڈیٹا بر وقت دستیاب ہوگا ، بلکہ یہ ایمرجینسی ریلیف آپریشن اور ریسکیوکی تمام معلومات اور گائڈ لائنز بھی فراہم کریگا ۔۔!!

ابتدائی تعارف کے بعد ورکشاپ کے شرکاء کاسوال وجواب کا سیشن تھا ۔۔ چند شرکاء نے پراجیکٹ ٹیکنالوجی سے متعلق سوال پوچھے ۔جس کے بعد منتہیٰ کی باری آ ئی اور بقول فاریہ۔ مینا کے سوال بھی اُسکی طرح بد لحاظ ہوتے ہیں۔۔!!مجھےِ اس پراجیکٹ میں کئی ڈیفیکٹس ( خامیاں) نظر آ رہی ہیں ، سب سے پہلے تو یہ کہ آپ نے کہا اسکا سسٹم قدرتی آ فات کی پیشگی اطلاع بھی فرہم کریگا ۔۔ بٹ یو نو ڈیٹ ویری ویل ٹو ۔۔ کے سال بھر میں دنیا کے مختلف خطوں میں آنے والے زلزلےطوفان ، سائیکلون میں ۹۰فیصد ہاتھ امریکن weather machine(HAARP) کا ہوتا ہے ۔۔ تو میرا خیال ہے کہ آ پ کو  ہارپ کیufoسے متعلق کچھ انٹروڈیوسڈ کروانا چاہیے۔۔
  
ارمان یوسف نے بلیک عبائے میں ملبوس اس دھان پان سی لڑکی کو بہت غور سے دیکھا جو پچھلے چند ماہ میں کئی بار ٹکرا چکی تھی ۔۔
ایسا ہے مِس کہ ہارپ کے بارے میں داستانیں زیادہ مشہور ہیں اور حقیقت سے بہت کم لوگ آ گاہ ہیں لیکن نکارنہیں کہ دنیا بھر میں شدید موسمیاتی تبدیلیوں کا ایک بڑا سبب یہیufo بنی ہیں اس امرسے کسی کوا  
   ۔اگرچہ ہمارا سسٹم کسی حد تک اِن کو ڈیٹیکٹ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن کچھ نیا متعارف کروانے سے فی الحال ہم قاصر ہیں آپ یا کسی اور کے ذہن میں اس حوالےسے کوئی آئیڈیا ہو تو we will cordially appriciate ....!!!!
ارمان کے مدلل جواب کے ساتھ ہی سوال و جواب کا سیشن ختم ہو چکا تھا ۔اور حسبِ عادت مینا کو اب یہاں سے نکلنے کی جلدی تھی ، ایک تو تم فور اٌ ہَواکے گھوڑے پر سوار ہو جایا کرو ۔ ہونہہ بندہ کہیں جاتا ہے تو ملتاملاتا ہے ریلیشنز بڑھاتا ہے اور ایک تم ہو۔
 مجھے معلوم ہے کہ تم کِن سے ریلیشنز بڑھانے کے لیئے فکر مند ہو ۔۔ مینا نے اُسے گھورا ۔۔ا چھا ذرا مجھے بھی بتانا کہ کِن سے ۔۔؟؟ فاریہ نے کن کو خوب کھینچ کر لمبا کیا تم ضرور کسی دن میرے ہاتھوں قتل ہو جاؤگی ۔۔ شرافت سے جلدی جلدی چلو۔۔ ہمیں ڈیپارٹمنٹ پہنچا ہے ۔
یار میرا بلکل دل نہیں۔۔ چلو کینٹین چلتے ہیں۔ فاریہ کو بھوک نے ستایا ایک تو تمہیں ہر وقت کھانے پینے کی پڑی رہتی ہے ۔۔ سمین لوگوں سے چلی جانا ۔۔۔ ہونہہ دونوں ایک دوسرے کی ضد تھیں پھر گزشتہ ۶ سال سے ایک ساتھ تھیں مقناطیس کے دو مخالف پولز کی طرح۔۔!!!
                                     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارمان کے لیئے آج کا دن انتہائی یاد گا ررہا تھا ۔۔ اسکی پریزینٹیشن بھی خوب تھی سوائے منتہیٰ کے آخری سوال کے ۔۔ وہ تھوڑاجز بز تو ہوا تھا لیکن جو پوائنٹ اُس نے اٹھایا تھا۔۔ یقیناٌ اس میں وزن تھا !!یار یہ دونوں بھوتنیاں کیوں ہر جگہ ٹپک پڑتی ہیں۔؟؟ ارحم خاصہ بد مزہ ہوا تھا ۔
ہمارے ارد گرد تو روز ہی لیٹسٹ (latest) ماڈل کی بھوتنیاں پائی جاتی ہیں تم کس کی بات کررہے ہو ؟؟ ارمان کا دھیان کہیں اور تھا ۔
ابے میں اس منتہیٰ دستگیر کی بات کر رہا ہوں ۔۔ اسکی دوست تو اچھی بھلی لڑکی ہے پر یہ خود ۔۔۔ہونہہ دماغ دیکھو ساتویں آسمان پر ہے ۔ ارحم نے الحمراء ہال والی سُبکی کی بھڑاس نکالی۔ 
تمہیں اُس نے کچھ کہا ہے کیا ؟؟ ارمان نے دلچسبی سے پوچھا 
کچھ نہیں بلکہ بہت کچھ ۔۔۔ ارحم نے الحمراء کی ساری کتھا ایک سانس میں سنا ڈالی اور ارمان کے بلند ہوتے قہقہے نے اُسے مزید طیش دلایا ۔۔ اِس میں ہنسنے والی کون سی بات ہے ۔۔ ؟؟
کچھ نہیں یار ۔۔ ارمان نے ہنسی دبائی ۔ لیکن وہ خاصہ لطف اندوز ہوا تھا ۔ ’’دنیا میں ہر شے بکنے کے لیئے نہیں ہوتی کچھ چیزیں بے مول ہوتی ہیں ۔ ‘‘ منتہیٰ دستگیر سے اُسے ایسے ہی جواب کی توقع تھی ۔۔ وہ جو ہمیشہ کی ضدی اور منہ پھٹ تھی ۔۔۔ لیکن وہ اُس سے بار بار کیوں ٹکرا رہی تھی ؟؟ کیا یہ محض اتفاق تھا یا تقدیر کا کوئی کھیل ۔۔۔؟؟ وہ وقت کے فیصلے سے بے خبر اپنی اپنی دنیامیں تیزی سے کامیابی کے زینے چڑھ رہے تھے ۔۔۔ ایسے کسی فضول سوال پر غور کرنے کے لیئے اُنکے پاس قطعاٌ وقت نہیں تھااور ارمان کا دماغ اُس وقت بھی اِس لڑکی بجائے اُن ڈیفیکٹس میں الجھا ہوا تھا جن میں سے ایک وہ بتا گئی تھی اور باقی۔۔۔۔
یقیناًاُسے وہ بھی معلوم کرنے تھے مگر کیسے ؟؟؟ اِس سر پھِری لڑکی سے اَز خود کونٹیکٹ ۔۔۔؟؟ ارمان نے بے اختیار کانوں کو ہاتھ لگائے ۔۔۔!!!!
                                                                                               ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آپی میں اور رامین کل شاپنگ پر جارہے ہیں کچھ منگوانا ہو تو بتا دیں؟؟ رات واٹس ایپ پرِ ارسہ نے پوچھالان کے سادے سے کچھ سوٹ لے آ نا ۔۔۔ حسب عادت وہی لان کے سوٹ ۔۔ اِرسہ چڑ ہی گئی افوہ آ پی! آ پ تو ڈفر کی ڈفر ہی رہیں۔۔ لاہور بھی آ پ میں کوئی فیشن سینس پیدا نہیں کر سکا ۔۔ ہونہہ منتہیٰ ذہانت میں یہ نہیں خوبصورتی میں بھی یَکتا تھی ۔۔ لیکن فطرتاٌ بہت سادہ تھی ۔ نہ اور لڑکیوں کی طرح اُسے ڈھیروں ڈھیرکپڑے بنانے کا شوق تھا نا سجنے سنورنے کا ۔۔ہمیشہ وہی لمبے گھنے بالوں کی سادہ سی چوٹی یا جُوڑا ۔۔۔ وہ شادی بیاہ کی تقریبات میں بھی شاذو نادر ہی جایا کرتی تھی وہ بھی لان یا کاٹن کے سوٹ میں اتنی سادہ کہ تنگ آکر امی نے اُسے خود ہی لے جانا چھوڑ دیا تھا ۔۔ وہ ہمیشہ سے ایسی ہی تھی۔۔ اپنے آپ سے لا تعلق کتابوں اورنوٹس میں گھِری خوش رہا کرتی تھی ۔۔

منتہیٰ کی پھپو مہرالنساء صرف بیٹے کی پسند پر اسکا رشتہ لائی تھیں ورنہ یہ لڑکی انھیں کبھی ایک آنکھ نہ بھائی تھی ۔۔ نہ پہننے اوڑھنےکا سلیقہ ۔۔نہ گھر داری کی سمجھ بوجھ ۔۔ ہونہہ ۔۔ پھر کچھ سوچ کر مطمئن ہو گئی تھیں کہ اُن کے سامنے تو بڑے بڑے شیر بھیگی بلی بن چکے تھے جن میں انکے اپنے سسرال والے بھی شامل تھے ۔۔ انکی قینچی جیسے چلتی زبان اور شاطر دماغ سے ہر کوئی پناہ مانگتا تھا ۔۔’’ کچھ لو گوں کی عقل انکے دماغ کے بجائے ٹخنوں میں ہوتی ہے، ساری عمر اپنی بے لگام زبان کی وجہ سے ٹھوکریں کھاتےہیں لیکن جب بڑھاپے میں عقل آتی ہے تب تک پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہوتا ہے ۔۔۔ وقت کی خاصیت ہےکہ رکتا نہیں ۔۔ اچھا یا برا ،گزر ہی جاتا ہے،، لیکن پھر صرف پچھتاوے ہی مقدر میں باقی رہ جاتے ہیں۔۔۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سر یوسف آ ئن سٹائن کی تھیوری آف ریلیٹیوٹی سے متعلق بہت اہم ٹاپک سمجھا رہے تھے اور فاریہ سمیعت کلاس کے چیدہ چیدہ چلبلے اُونگھنے میں مصروف تھے ۔۔۔!!
تھیوری آف ریلیٹیوٹی کی بنیاد فریم آف ریفرنس پر ہے۔۔ جبکہ عام حالات میں ہم اشیاء کا مشاہدہ کرتے ہوئے کسی بھی طرح کے ریفرنس فریم کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔۔
جی سر بجا فرمایا آپ نے۔۔۔ ہم نہ تو آنکھوں میں فریم فٹ کروا سکتے ہیں نہ ہی ایک چوکھٹا ساتھ لے کہ پھر سکتے ہیں ۔۔ فاریہ نوٹس پیڈ پر چٹکلے ٹیکسٹ کرتی جا رہی تھی ۔۔۔ منتہیٰ نے اسے سخت نظروں سے گھورا ۔۔ اسکی تمام تر توجہ لیکچر کی طرف تھی۔۔ 
نظریۂ اضافیت کے مطابق کوئی بھی دو آبزرور کسی ایونٹ کے متعلق ایک جیسی حتمی رائے نہیں دے سکتے کیونکہ وہ دو مختلف طرح کے ریفرنس فریم سے واقعات کا مشاہدہ کرتے ہیں ۔۔ 
exactly sir یہی پاکستان میں ہوتا ہے کسی بھی کرائم یا ایکسیڈنٹ پر ہر وٹنس کا بیان بلکل الگ ہوتا ہے۔۔

 فاریہ کا نیکسٹ ٹیکسٹ آیا ۔!
Sir can I ask a question?
منتہیٰ نے اجازت چاہی۔۔
یس یو کین ۔۔
سر آئن سٹائن کی تھیوریز بیک وقت اَرتھ اور سپیس دونوں پر لاگو ہیں اینڈ یو نو کہ خلا میں سمتوں کا تعین زمین کی طرح تھری یا فور ڈائیمینشنل نہیں رہتا تو ہم نظریۂ اضا فیت کو کسی اور سیارے کی مخلوق پر کس طرح اپلائی کریں گے ؟؟ زمین سے ایک فش باؤل جیسا ہمیں نظر آ تا ہے وہ اُنکے ریفرنس فریم سے کچھ اور دکھا ئی دیگا ۔۔۔؟؟؟
سر یوسف کے جواب دینے سے پہلے ہی فواد نے مداخلت کی ۔۔ سر مس منتہیٰ کو شاید سپیس میں جانے کی بہت جلدی ہے ۔یہ ہرتھیوری کوفوراٌ خلا پر اَپلائی کر دیتی ہیں۔۔ ہونہہ
فواد منتہیٰ کے سوالوں سے بہت چڑتا تھا حالانکہ اُس کے اپنے سوال باقی کلاس کو جلیبی کی طرح سیدھے لگا کرتے تھے ۔۔!!
لو جی کر لو ۔ گَل۔۔!! اب سر نے اٹھا کر ایک نئی اسائنمنٹ دے دینی ہے ۔۔ فاریہ نے منہ بنا کرنے اپنے دائیں جانب بیٹھی سمین کے کان میں سرگوشی کی ۔۔ اور سر یوسف جو بہت زیرک تھے۔ کلاس کے ہر سٹوڈنٹ کے دماغ کو پڑھنے کی صلاحیت رکھتے تھے ۔۔۔فاریہ سے مخاطب ہوئے۔۔
Exactly miss Faria I am going to give you all this new assingment ..
لیکن خلائی مخلوق کے متعلق جو بھی تصور آپ اپنے ذہن میں رکھتے ہیں اُسے ثابت بھی کرنا ہوگا ۔۔۔ فاریہ اپنی جگہ گنگ سرکی شکل دیکھے گئی ۔۔۔ اور فاریہ! یہ اپنے رائٹنگ پیڈ کا فرنٹ پیج مجھے دیدیں ۔۔۔ سر نے ہاتھ بڑھا کرُ اس کے پیڈ کا فرنٹ پیج پھاڑ کر فولڈ کیا ۔۔ فاریہ کے ساتھ آج یقیناًبہت بری ہوئی تھی ۔۔ منتہیٰ نے بمشکل اپنی ہنسی ضبط کی ۔
سر یوسف نے کلاس سے جاتے ہوئے پلٹ کر دیکھا ۔آپ فری پیریڈ میں میرے پاس آ ئیے مس منتہیٰ۔۔!!!
ہیں۔۔۔؟؟ یہ سر نے مجھے کیوں بلایا ہے ؟؟ مینا کو حیرت ہوئی ۔۔ اسکا خیال تھا کہ شامت اور بلاو ا فاریہ کا آ نا ہے ۔۔!!
اور فاریہ جو پوری کلاس کے سامنے ہونے والی شرمندگی پر جلی بھنی بیٹھی تھی پھٹ پڑی ۔۔ اِس لیئے کہ تم نے اُن کے ہونہارسپوت کے اتنے اہم پراجیکٹ میں کیڑے نکالے تھے ۔۔ ۔اُس نے جا کر باپ سے شکایت کی ہوگی اور اب تمہاری پکی شامت آ ئی ہے ۔۔!!!

ہونہہ ، تم نے سر یوسف کو اتنا ڈفر سمجھ رکھا ہے؟؟؟مینا نے ناک سے مکھی اڑائی 
وہ تو خیر آج تمہیں بھی پتا لگ جانا ہے کہ سر ڈفر ہی نہیں پورا اوور کوٹ ہیں ۔۔!! فاریہ کی ڈھٹائی اب بھی عروج پر تھی۔۔دو پیریڈز کے بعد اگلا پیریڈ فری تھا سو منتہیٰ سیدھی سر کے آفس پہنچی ۔
may I come in sir ??
ناک کر کے اجازت طلب کی ۔۔سر اُس وقت ریلیکس سے بیٹھے سٹیفن ہاکنگ کی نئی کتاب پڑھ رہے تھے ۔۔ منتہیٰ نے ٹائٹل دیکھا ۔ universe in a nutshell ۔۔ وہ پڑھ چکی تھی۔ 
سر نے اُسے بیٹھنے کا اشارہ کیا پھر گویا ہوئے ۔۔ مس منتہیٰ چند دن پہلے آپ نے مجھ سے سپارکو کے ریسرچ سینٹر کی ایک ورک شاپ کاذ کر کیا تھا ۔۔کہیے کیسی رہی ورکشاپ ۔۔۔؟؟؟ 
ورکشاپ کے نام پر اُسے فاریہ کے خدشات یاد آ ئے ۔۔ پھر اس نے سر جھٹکا 
It was very interesting and informative Sir ...
مختصر جواب پر اکتفا کیا ۔
ہوں۔۔ایسا ہے مس منتہیٰ کے مجھے ورکشاپ کی کچھ تفصیلات ملی ہیں ۔۔ آ پ نے LUMSکے ریموٹ سینسنگ پراجیکٹ پرکچھ پوائنٹس اٹھائے تھے ۔۔سر یوسف کی نظریں اُس کے چہرے پر گڑی ہوئی تھیں ۔۔لیکن وہ پُر اعتماد تھی ۔۔ !!
یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس نے ریسرچ سینٹر کے توسط سے ڈیپارٹمنٹ رابطہ کیا تھا ۔۔ وہ آپ کے ساتھ ایک ڈسکشن سیشن چاہتےہیں۔۔ سر بات جاری رکھتے ہوئی گہری نظروں سے اسکا جائزہ بھی لے رہے تھے ۔
انھیں اپنے پراجیکٹ کو اپ ڈیٹ کرنے کیلئے آپ کا تعاون درکار ہے ۔۔ آر یو شیور ۔ کہ آ پ ایک ڈسکشن پینل کو اِن ڈیفیکٹس پر قائل کر لیں گی ؟؟ یو نو کہ یہ پراجیکٹ بہترین انجینئرز نے ڈیزائن کیا ہے اور اب اِسے سپارکو کا مکمل تعاون بھی حاصل ہےیس آئی ایم شیور سر ۔۔ میں اِس ڈسکشن سیشن کے لیئے تیار ہوں منتہیٰ کا اعتماد دیدنی تھا !!
سر یوسف کے لبوں پر گہری مسکراہٹ آئی ا نہیں یہی امیدتھی۔۔ ٹھیک ہے میں آ پ کو کونٹیکٹ نمبر دے رہا ہوں مزید تفصیلات آپ خود طے کر لیں ۔۔اگرچہ آپ انفرادی طور پر اِس ڈسکشن میں شریک ہونگی لیکن میری خواہش ہے کہ آ پ مجھے اسکی اوور آل پروگریس سے آ گاہ کریں ۔۔۔ سر نے خوش دلی سے کہا ۔
وہ میں نہ بھی کروں تو سر آ پ کا سپوتِ نامدار آ پ کو سب خود ہی بتا دیگا ۔۔ مینا نے جل کر سوچا ۔ 
اوکے شیور آئی ول سر ۔۔ سنجیدگی سے جواب دیکر وہ جانے کے لیئے اٹھی۔
یہ پیج مس فاریہ کو واپس کر دیجئے گا ۔۔ سر نے ایک فولڈ پیج اسکی طرف بڑھایا۔ اب وہ اپنے سیل کی طرف متوجہ تھے
منتہیٰ نے آفس سے باہر آکر پیج کھولا سر کی ہینڈ رائیٹنگ میں اوپر ہی ایک نوٹ لکھا تھا 
Really appriciating !! miss Faria your sense of humour is
Quite impressive .. I hope your assingment on Aliens will be more
amusing.....!!!!
اور منتہیٰ نے اپنااونچا قہقہہ بمشکل ضبط کیا ۔
تم نے بتایا نہیں سر نے تمہیں کیوں بلایا تھا ؟؟ رات تک فاریہ کا تجسس عروج پر پہنچ چکا تھا 
تمہارے رائٹنگ پیڈ کا پیج واپس کرنے کے لئے۔ منتہیٰ نے پرس سے کاغذ نکال کر اُس کے سامنے پھینکا 
حیرت سے دیدے گھماتے ہوئے فاریہ نے پیج کھولا ۔۔۔ سامنے ہی سر کا نوٹ تھا۔۔ اور پھر پیٹ پکڑ کر وہ کافی دیر تک ہنستی رہی یہ سر یوسف کتنے کیوٹ ہیں نہ۔۔۔ بمشکل اپنی ہنسی پر قابو پا یا 
فاریہ بی بی! صبح تک سر آ پ کو ڈفر بلکہ اوورکوٹ لگا کرتے تھے ۔۔ مینا نے اُسے جتایا ۔
وہ تو اب بھی لگتے ہیں اور لگتے رہیں گے فاریہ جیسے ڈھینٹ پیس کم ہی تھے ۔۔ اچھا تم مجھے چکر مت دو شرافت سے بتاؤ کہ سرنے تمہیں کیوں بلایا تھا ۔۔؟؟ فاریہ کو یقین تھا کہ ارمان یوسف کے پاس اپنے سارے بدلے چکانے کا بہتر ین موقع تھا !!
اور منتہیٰ نے اسے مختصراٌ ڈسکشن سیشن کی تفصیلات بتائیں۔۔ شام میری سینٹر بات ہوئی تھی انہوں نے ایک ہفتے بعد کی ڈیٹ رکھی ہے ۔۔اور فاریہ کا منہ حیرت سے کھلے کا کھلا رہ گیا ۔۔
اف! تم نے ڈیٹ تک فائنل کرلی ۔۔یار منتہیٰ کچھ عقل کے ناخن لو وہ انجینئرز ہیں اپنے پراجیکٹ کے بارے میں ہم سے کہیں زیادہ نالج رکھتے ہیں !!
تمہارا خیال ہے۔۔ کہ میں نے محض تفریحاٌ سوال کیا تھا ؟؟ 
تو اور کیا ۔۔ ہونہہ۔۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ گھنٹہ دو گھنٹہ کی عمومی تفصیلات سے تم خامیاں ڈھونڈ لو ۔۔ فاریہ نے ناک سے مکھی اڑائی فاریہ بی بی ہم پچھلے چھ ، سات سال سے ایک ساتھ ہیں اور تم اچھی طرح جانتی ہو کہ منتہیٰ ہارنا نہیں جانتی ۔۔ میں نے آج تک کبھی سیکنڈ پر کمپرومائز نہیں کیا ۔۔ مینا کا اعتماد دیدنی تھا !! یہ پراجیکٹ کچھ عرصے پہلے نیٹ پر میری نظر سے گزرا تھا اور میں انتہائی گہرائی تک اِسکی تمام تفصیلات سے آگاہ ہوں ۔۔۔ پھر تم چل رہی ہو نا میرے ساتھ؟؟ تمہارے نئے سوٹ کل ہی ٹیلر کے پاس سے آ ئے ہیں ۔۔ مینا نے شرارت سے اسے آفر کی ۔
کمینی !! تم اکیلی بھگتو اپنے پنگے۔۔ فالتو میں مجھے مت گھسیٹو ۔۔ہونہہ فاریہ کو سو فیصد یقین تھا ارمان یوسف نے منتہیٰ کو بری طرح گھیرا تھا چانسز کم تھے۔ کہ وہ اِس بار بھی فاتح لَوٹے گی۔۔!!!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب آ ئی بکری چھری تلے اَرحم کی ایکسائٹمنٹ قا بلِ دید تھی ۔۔۔!!تم مجھے تو ساتھ لیکر جا رہے ہونا ؟؟ سارے بدلے چکانے کا اس سے بہتر موقع بھلا ارحم کو اور کب ملنا تھا ۔
ہر گز نہیں ،،میرے ساتھ صرف شہریار جائے گا ۔۔ ارمان نے اپنے بیسٹ فرینڈ کا نام لیا جس کا پورے پراجیکٹ میں بھرپو تعاون تھا ۔۔۔ اگر وہ لڑکی اتنی آسانی سے ایک ڈسکشن سیشن پر آمادہ ہے تو لازمی اس کے پوائنٹس میں وزن ہوگا۔۔۔ ہمیں ایک دفعہ پھر سے پراجیکٹ کا مکمل جائزہ لینا ہوگا ۔۔۔ ارمان نے شہریار کو مخا طب کیا جو منتہیٰ کی ہسٹری سے نا واقفیت کےسبب ہونقوں کی طرح دونوں کی شکل دیکھ رہا تھا ۔۔
ارے یار تو اِسکو اتنا سیریس کیوں لے رہا ہے ۔۔ وہ لڑکی فزکس میں تھوڑی بہت نالج کی بنا پر اَکڑ رہی ہے ۔۔ ہونہہ، وہ بھلا ہم انجینئرز کا مقابلہ کر سکتی ہے، وہ بھی جب سپارکو کے آفیشلز ہمارے پراجیکٹ کو کلیئر کر چکے ہیں ۔!! ارحم نے ناک سے مکھی اڑائی لیکن ارمان فیس بک کی طویل ڈسکشنز میں بارہا دیکھ چکا تھا کہ۔۔ منتہیٰ دستگیر صرف اسی موضوع پر بولتی ہے جس پر اسے مکمل عبور ہوتا ہے ۔۔۔!!!پیر کے روز وہ بھرپور تیاریوں کے ساتھ سپارکو ریسرچ سینٹر پہنچے ۔۔ سپارکو کے دو آفیسرز ڈسکشنز روم میں موجود تھے۔۔ اور منتہیٰ ٹھیک وقت پر پہنچی تھی ۔۔ بلیک عبایہ اور سکارف میں ملبوس اِس دھان پان سی لڑکی کو شہریار نے بہت غور سے دیکھا ۔۔ گرمی کے باعث جس کا سپید چہرہ لال بھبوکا ہو رہا تھا ۔۔۔ بیوٹی وِد برین ۔۔کیا دونوں اکھٹی ہو سکتی ہیں ؟؟ ابھی لگ پتا جائیگا محترمہ کتنے پانی میں ہیں ۔۔ شہریار کو ارحم ، منتہیٰ کی ساری ہسٹری اَزبر کروا چکا تھا ۔۔ شہریا ر کے برعکس ابتدائی تعارف کے بعد ارمان نے ایک اُچٹتی نظر بھی منتہیٰ پر نہیں ڈالی تھی۔۔ وہ اپنے رائٹنگ پیڈ پر کچھ نوٹس لینے میں مصروف تھا ۔
مس دستگیر پانچ روز پہلے پراجیکٹ کی تمام تفصیلات آپ کو اِس وارننگ کے ساتھ میل کی گئی تھیں کہ یہ کانفیڈینشل رہنی چاہئے۔آپ یقیناٌ انکا جائزہ لے چکی ہونگی؟؟ سینئر آفیسر نے بات کا آغاز کیا ۔
منتہیٰ نے اثبات میں سر ہلایا وہ محتاط تھی یہ فیس بک کا کوئی ڈسکشن گروپ نہیں تھا۔۔ایک حساس جگہ تھی ۔۔سپارکو کی اِس پراجیکٹ میں دلچسبی کی ایک بڑی وجہ پاکستان میں قدرتی آفات کی بڑھتی ہوئی شرح اور اُن سے بڑے پیمانے پر ہونے والی تباہی تھی جن سے نمٹنے میں ہماری اتھارٹیز تقریباٌ ناکام ہو چکی ہیں ۔۔!!مس دستگیر آپ نے کوئسچن آ نسر سیشن میں ہارپ کی ufo سے متعلق پوائنٹ اٹھایا تھا ہم نے اِس پر ایک ہفتے تک کافی تحقیق کی ہے یہ بے انتہاء طاقتور الیکٹرومیگنیٹک ویو ز زمین کے اندر گہرائی تک جذب ہوکر اِس کے اندرونی درجۂ حرارت کو آ خری حد تک بڑھا کر ۔اِسکی ٹیکٹونک پلیٹس کوچند منٹوں میں متحرک کر دیتی ہیں ۔۔ جتنی طاقتور یہ ہونگی اتنی ہی شدت کا زلزلہ آ ئیگا ۔۔ دوسری صورت  میں اگر اِنکا اینگل آف پروجیکشن ۱۸۰ ڈگری کی حد میں ہو تو یہ سیدھا سفر کرتی ہوئی ایٹموسفیئر میں جذب ہوکر فوری طور پر سٹرینج کلاؤڈ ز ڈیویلپ کرتی ہیں۔۔ جس سے اِس اِیریا کے موسم میں اچانک بڑی تبدیلی رونما ہوکر کبھی طوفان یا سائیکلون، کبھی ٹورناڈویا موسلا دھار بارشوں کا سبب بنتی ہیں ۔۔۔ کچھ علاقوں میں اِن کے باعث بارش کی قلت اور خشک سالی بھی نوٹ کی گئی ہے۔
لیکن اِن سب تفصیلات سے قطۂ نظر اب تک کسی بھی ملک کے پاس ایسی ٹیکنالوجی نہیں ہے جس کے ذریعے اِن موجوں
کو روکا یا پسپا کیا جا سکے ۔کیونکہ بظا ہر یہ ا مریکہ کا High frequency active auroral research program
ہے ۔۔ جس کا تعلق Ionosphere کی سٹڈی سے ہے ۔ارمان نے تمام تفصیلات بتا کر بات ختم کی ۔
یہ سب مجھے معلوم ہے ۔۔ منتہیٰ نے ناک سکیڑی ۔۔یہ ufo براہِ راست اوزون پر اثر انداز ہو رہی ہیں۔۔ جس کے باعث پوری دنیا شدید موسمیاتی تبدیلیوں کی زد پر ہے ، اِن کے لئے صرف جیو سینسنگ کافی نہیں ہوگی بلکہ ہمیں سٹیلائٹ یا راڈار سے ایسا سسٹم متعارف کروانا ہوگا۔۔ جو بر وقت اِن برقی مقناطیسی موجوں کو ڈیٹیکٹ کرے ۔ جہاں شر ہو وہاں اللہ تعالیٰ خیر بھی ضروراتارتا ہے ۔۔یہ لوگ آج انسانیت کے خدا بنے بیٹھے ہیں لیکن بہ حیثیت مسلمان ہم صرف ایک خدا کی ذاتِ پاک پر کامل یقین رکھتے ہیں۔ ۔۔ہمیں میں سے کسی نے آگے بڑ ھ کر زمین کے اِن خداؤں کو چیلنج کرنا ہے ۔مس آپ کے دلائل کافی خوبصورت ہیں لیکن یو نو کہ باتیں تو سب ہی بنا لیتے ہیں کیونکہ یہ دنیا کا سب سے آسان کام ہوتاہے
شہریار نے چوٹ کی ۔
ایگز یکٹلی !! منتہیٰ اِس طنز سے بلکل بھی متاثر نہیں تھی ۔۔ایسا ہے کہ کسی بھی تعمیری کام کی بنیاد ڈسکشن پر ہی رکھی جاتی ہے دو چار افراد بیٹھ کر ایک عمارت کی منصوبہ بندی کرتے ہیں تو سالوں بعد ایک تعمیری شاہکار وجود میں آتا ہے ۔ ہم اشاروں سے کام نہیں چلا سکتے اپنا اپنا مؤقف ہمیں باتوں کے ذ ریعے ہی واضح کرنا ہے ۔۔ منتہیٰ کی جواباٌ چوٹ سخت تھی۔
اُوکے تو پھر آپ to the point رہتے ہوئے اِن خامیوں کا ذکر کریں جو آپ کو ہمارے پراجیکٹ میں نظر آ رہی ہیں ۔۔شہریار کا خیال تھا کہ لڑکی باتوں میں اصل موضوع کو گھما رہی ہے ۔ 
جی اگر آپ تھوڑا صبر کر لیتے تو میں اسی طرف آ رہی تھی ، منتہیٰ نے تھیکی نظروں سے شہریار کو گھورا ۔۔ ایئر کنڈیشن کمرے میں بھی باہر کی سی گرمی در آ ئی تھی ۔۔۔!!
ایسا ہے کہ جو سسٹم آپ نے ڈیویلپ کیا ہے وہ ابتدائی وارننگ بھی دیگا ،دور دراز علاقوں کی بھر پور معلومات وغیرہ بھی ۔۔ سب  آپشنز اس میں موجود ہیں لیکن اسکی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ منتہیٰ نے ایک لمحے رک کر شہریار اور ارمان پر گہری نظر ڈالی۔ یہ صرف estimations تخمینے فراہم کریگا ۔۔ اس سے زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ USیا,UNO ۲کے بجائے ۵ کروڑ کی امداددی دینگے ۔۔ لیکن یو نو کے ہماری اتھارٹیز نا اہل ہیں ۔۔صرف تخمینے اُن المیوں کا سدِ باب نہیں کر سکتے جو کسی بھی طرح کے ڈیسازٹرسے جنم لیتے ہیں۔۔!!!
مِس ۔ڈیسازٹرز سے نمٹنا اور ریلیف فراہم کرنا ۔۔۔ہم انجینئرز کا نہیں گورنمنٹ کا کام ہے۔ اب کہ ارمان نے مداخلت کی ۔۔
تو پھر آپ یہ لکھ لیں کہ اِس پراجیکٹ کو سپارکو بو سٹ اپ کرے یا ناسا ۔انجینئرنگ لیول پر آپ کو کتنے ہی واہ واہ یا ا یوارڈ مل جائیں۔۔۔یہ قدرتی آ فات سے نہتی لڑتی عوام کے کسی کام کا نہیں ہے ۔۔ منتہیٰ کے چہرے پر گہری سنجیدگی تھی۔
سر آ پ کی اس بارے میں کیا رائے ہے ارمان نے سینئر ریسرچ آفیسر کو مخاطب کیا ۔جو کافی دیر سے خاموش تھے۔۔۔۔۔
مس دستگیر کی بات میں وزن ہے ہم اِس سے پہلے بھی گورنمنٹ کو اِس طرح کی کئیfecilities فراہم کر چکے ہیں لیکن ہماری بیورو کریسی کسی بھی طرح کے فلاحی کام کو آ گے بڑھنے نہیں دیتی ،اگر سسٹم کے فوری تخمینوں کے مطابق بھرپور ریلیف آپریشن کیا جائے ، جو گائڈ لائنز یہ سسٹم دیتا ہے اس پر مکمل طور پر عمل کرتے ہوئے ایک سٹریٹیجی ڈیولپ کی جائے تو عوام کو بھر پور ریلیف ملیگا ۔۔۔ لیکن حقیقت میں ایسا ہو اِس کے چانسز ۵۰فیصد بھی نہیں ۔۔!!!
اور سر آپ کیا کہتے ہیں ۔۔ شہریار نے دوسرے آفیسر سے پوچھا ؟؟ اسے ڈاکٹر عبدالحق کا تجزیہ ایک آنکھ نہیں بھایاتھا۔۔
میرا خیال ہے کہ اس ڈسکشن کو کچھ ہفتوں کے لیئے ملتوی کرتے ہیں ۔۔ سب کو سوچنے کے لیئے وقت چاہئے ، اگر صرف ایک سسٹم بنا کر اتھاریٹیز کو دینا ہے تو میں اس میں چھوٹے موٹے نقائص ہی دیکھ رہا ہوں جو زیادہ اہمیت نہیں رکھتے ۔لیکن اگر ہم  بڑے پیمانے پر عوام خصوصاٌ نادرن ایریاز کے قدرتی آفات سے تباہ شدہ انفراسٹرکچر کے لیئے کچھ کرنا چاہتے ہیں،تو ہمیں ابھی بہت کچھ اپ ڈیٹ کرنا ہوگا بہت سی تبدیلیاں لانی ہونگی۔۔۔ سیشن کی اگلے ڈیٹ سے آپ لوگوں کو جلد مطلع کر دیا جائے گا ۔
شہریار وہاں سے کافی بد دل ا ٹھا تھا ،جبکہ ارمان کسی گہری سوچ میں غرق تھا ۔۔ یہ لڑکی واقعی کبھی سیکنڈ پر کمپرومائز نہیں کرتی ۔۔!!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رامین نے پری میڈیکل فیصل آباد ڈیویژن میں ٹاپ کیا تو سب سے پہلی خبر منتہیٰ کو دی ۔۔ فوری طور پر گھر جانا ممکن نہیں تھاکیونکہ رمضان سے پہلے سمیسٹر کے امتحانات تھے اور سر انور نے اُسے ریسرچ پیپر کا چیلنج بھی دیا ہوا تھا ۔۔ اُسکی مخفی صلاحیتیں اب کچھ اور نکھر کر سامنے آ چکی تھیں ۔۔اگلے دن وہ یونیورسٹی سے سیدھی لبرٹی مارکیٹ گئیں ۔۔ رامین کے لیئے اس کے پسندیدہ کچھ سوٹس لیکر TCS کئے اور پھر کافی دیر تک اِدھر اُدھر ونڈو شاپنگ کرتی رہیں ۔۔ فاریہ کا ارادہ آج لاہور کی فوڈ شاپ سے سیخ کباب اور کڑاہی اڑانے کا تھا، دونوں نے ڈھیر ساری باتیں کرتے ہوئے مزیدار کھانا کھایا ۔۔ اگرچہ فاریہ کی خوش خوراکی سے مینا ہمیشہ سے چڑتی تھی۔۔ مگر کبھی کبھار کی یہ تفریح اب اُسے اچھی لگنے لگی تھی ۔۔سٹڈیز اور سیمینار کے پیپر کا جو بوجھ ہفتوں سے وہ کندھوں پر لیئے پھر رہی تھی آج گھنٹوں میں اس سے نجات ملی تھی ۔۔ انسان اگر صرف کتابوں میں گھِراجینے لگے تو اُسے بہت جلد کسی سائیکاٹرسٹ کی خدمات درکار ہوتی ہیں ۔۔ فاریہ نے منتہیٰ جتایا ۔۔ تم ہر بات میں آئن سٹائن، فائن مین اور سٹیفن ہاکنگ کے حوالے دیتی ہو ۔۔ یو نو کہ آئن سٹا ئن کہتا تھا انتہائی ذہین افراد کی زندگی میں سب سے بڑا فقدان خوشیوں کا ہوتا ہے ۔۔ ہزاروں دلوں پر راج کرنے والوں کے اپنے دل سونے کیوں کیوں رہ جاتے ہیں ؟اِس لیئے کہ دنیا کی آنکھوں کو خیرہ کرنے والے ہیرے کو کوئی ایسا نہیں ملتا جو اُسے چھُو کرپارس کردے۔!!
فاریہ کبھی کبھار فلسفہ بھی جھاڑا کرتی تھی ۔
اِسکی وجہ یہ ہے کہ اِیسے لوگوں کا وجدان مختلف اور عام آدمی کی سطح سے بہت بلند ہوتا ہے ۔۔ اُنہیں ہجوم میں بھی کوئی اِیسا نہیں ملتا جس سے وہ برابری کی سطح پر بات کر سکیں اور وہ اُسے سمجھ بھی سکے۔۔ مینا نے ناک سے مکھی اڑائی 
اُوہ اچھا ! تو آپ لوگوں کے پاس دل نام کی کوئی شے بھی ہوتی ہے ؟؟ 
بلکل ہوتی ہے کیوں ہم انسان نہیں ہوتے ۔۔ مینا نے باقاعدہ برا منایا 
ہم ۔۔۔ حسبِ عادت لمبی سے ہم کرتے ہوئے فاریہ نے شرارت سے دیدے نچائے ۔۔چلو کچھ لوگوں سے ملاقاتوں نےتمہیں یہ باور تو کرایا کہ تمہارے پاس دل بھی ہے ورنہ کچھ عرصے پہلے تک یہ صرف بلڈ پمپنگ ہی کیا کرتا تھا ۔۔!!
اگر اُس وقت وہ میٹرو میں نہ ہوتیں تو آج فاریہ نے مینا کے ہاتھوں قتل ہی ہوجانا تھا ۔۔ میٹرو عورتوں اور بچوں سے کچھا کچھ بھری ہوئی تھی ۔۔سو منتہیٰ خون کے گھونٹ پی کے رہ گئی ۔۔۔
پاکستانی عوام اپنے جاہلانہ طور طریقوں کو شاید ہی کبھی خیر باد کہہ سکیں ۔۔ ہر پانچ منٹ بعد چلنے والی میٹرو میں بھی یوں ٹھونس ٹھونس کے بیٹھے ہوتے ہیں جیسے یہ آ ج چلنے والی آ خری بس ہو ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری جان!! کبھی اپنی ان سٹڈیز سے باہر بھی نکل آیا کرو ۔۔ ممی نے لاڈ سے ارمان کے بال سنوارے جو ایک ہاتھ میں کافی کا مگ لیئے لیپ ٹاپ پر بزی تھا ۔ 
ممی بس پراجیکٹ کی وجہ سے مصروفیات کچھ بڑھ گئی ہیں ۔۔ ٹھیک ہے لیکن اب تمہیں ہر صورت ٹائم نکالنا ہے ۔۔ اگلے ہفتےتمہارے کزن رامش کی شادی ہے سارے کزنز ہلے گلے کا پروگرام بنائے بیٹھے ہیں اور ایک تم ہو کہ پڑھائی سے فرصت نہیں ممی نے پیار سے اُسے ڈانٹا ۔۔ یہ وہی ارمان تھا جسے وہ کبھی سٹڈی کے لیئے گھرکا کرتی تھیں ۔۔!!
اُوکے ممی ڈونٹ وری میں فنکشن اور کوئی بھی امیوسمنٹ مِس نہیں کرونگا ۔۔ میں خود تھو ڑی چینج کے موڈ میں تھا ۔۔ آپ کب جارہی ہیں ماموں کی طرف ؟؟؟
میں اِسی لیئے تو آئی تھی کل تمہاری خالہ نیو جرسی سے آ ئی ہیں میں اور تمہارے پاپا ملنے جا رہے ہیں تم بھی چلو ۔۔ اِس وقت وہکہیں بھی جانے کے موڈ میں نہیں تھا پر ممی اُس سے بہت کم اِصرار کرتی تھیں سو ۱۵ منٹ بعد وہ ڈرائیونگ سیٹ پر تھا ۔
ماموں کے گھر فکنشنز کی تیاریاں عروج پر تھیں ۔۔۔ سب بڑے لان میں جبکہ کزنز پارٹی کا ڈیرہ لاؤنج میں تھا ۔۔ ماموں ، خالہ اور خاندان کے باقی بڑوں کو سلام کرتا ہوا ارمان اندر پہنچاَ ۔۔۔
ارمان کا ماموں زاد را مش ایم بی اے کے بعد اپنے باپ کا وسیع بزنس سنبھالتا تھا جبکہ اُس سے چھوٹا ارمان کا ہم عمر صمید ابھی بی بی اے میں تھا ۔۔ اندر آتے ارمان پر پہلی نظر صمید ہی کی پڑی تھی۔۔
ارے واہ!! آ ج تو بڑے بڑے لوگ آئے ہیں۔۔ کہاں ہوتا ہے یار تو ؟؟ گلے ملتے ہی ساتھ شکوہ بھی حاضر تھا 
بس یار سٹڈیز اور پراجیکٹس سے ہی فرصت نہیں ملتی سب کزن سے ملکر ارمان کاؤچ پر بیٹھا ہی تھا کہ پیچھے سے آتی آواز نےچونکایا۔۔ گلیڈ ٹو میٹ یو ارمان ۔۔!! یہ زارش تھی ارمان کی خالہ زاد جو کل ہی نیو جرسی سے آ ئے تھے ۔
ارمان کچھ زیادہ مذہبی یا بیک ورڈ تو نہ تھا پھر بھی فیمیلز سے ہاتھ ملانے سے اجتناب ہی کیا کرتا تھا مگر زارش کا سپید نازک ساہاتھ سامنے تھا سو اسے ہاتھ ملاتے ہی بنی ۔۔۔ سب کزنز کا مشترکہ انٹرسٹ مہندی فنکشن تھا ۔۔ ارمان کے خاندان میں ایک سے بڑھ کر ایک ڈانسر موجود تھا ۔۔ بہت سے پیئرز ( میل + فیمیل) مقابلے کے لئے تیار تھے!!
ارمان تم ایسا کر و ۔۔زارش کیساتھ اپنا پیئر بنا لو ۔۔ رامش نے صلح دی ۔
نہیں یار تم لوگ انجوائے کرو۔۔ میری تو کوئی پریکٹس ہی نہیں ، ارمان نے جان چھڑائی 
لو پریکٹس ابھی ہو جائیگی تم میرے ساتھ دو سٹیپ تو لو ۔۔ ردھم بن گئی تو دیکھنا ہم ان سب کو ہرا دینگے۔ زارش کی ایکسائٹمنٹ عروج پر تھی !! بیشک سب پیئرز میں انکا کپل تھا بھی لا جواب۔۔ 
یار ایسا ہے کہ میں ابھی پراجیکٹ کا کام ادھورا چھوڑ کر آیا تھا ۔۔ پھر کل فرصت میں ملتے ہیں ۔۔ اس سے پہلے کہ وہ بلا دوبارہ گلے پڑتی ارمان باہر لان میں تھا ۔۔
اور کل !! کس نے دیکھی ہے زارش بی بی ۔۔۔!!! وہ خاصہ بد مزا ہوا تھا 
اور پھر دو دن بعد وہ ممی کے ساتھ مہندی فنکشن پر ہی پہنچا تھا ۔۔۔ یار تو کدھر تھا میں اور زارش تجھے کال کر کر کے تھک گئےرامش چھوٹتے ہی ناراض ہوا ۔۔
یار وہ بس پراجیکٹ ڈسکشن کے لیئے سپارکو جانا پڑا ۔۔ ارمان نے ہفتوں پہلی کی ڈسکشن کا بہانا بنایا ۔۔۔ زار ش اب کسی اور 
کزن کے ساتھ پیئر بنا چکی تھی اُسکا خیال تھا کہ ارمان کچھ سپیشل ایکسکیوز کریگا۔۔ لیکن اس نے تو ایک کے بعد۔۔ اُس پر دوسری نظر بھی نہیں ڈالی تھی۔۔ حالانکہ سب ہی کزن کا خیال تھا ،کہ سی گرین شرارہ، سلیو لیس اور کھلے گلے کے بلاؤز ، فُل میک اپ اورڈھیر ساری چوڑیوں کے ساتھ۔۔ وہ قیامت ہی تو ڈھا رہی تھی ۔۔۔!!
ہونہہ خود کو سمجھتا کیا ہے؟؟ اس نے نخوت سے ارمان کو دیکھا ۔۔ اِسے اپنے قدموں میں نا جھکایا تو میرا نام بھی زارش نہیں ۔۔!!
ابے تو نے زارش جیسی حسینہ کو ناراض کردیا ۔۔ صمید کا صدمے سے برا حال تھا ۔
میری اُن سے کبھی دوستی ہی نہیں تھی تو ناراضگی کا کیا سوال ۔۔ ؟؟ ارمان نے ناک سے مکھی اڑائی 
اف!! میرے شہزادے ۔۔ اُس نے رامش بھائی سے خود اشاروں کہا تھا کہ اسکا کپل تمہارے ساتھ بنائیں ۔۔صمید کی
وضاحت پر ارمان کا حلق کچھ اور کڑوا ہوا ۔۔!!
سو واٹ!! مجھے اُن کی کسی بھی طرح کی آفر سے کچھ فرق نہیں پڑتا ۔۔۔ مجھے نا ڈانس کا شوق ہے نا کپلز بنانے کا ۔۔ ہونہہ
ابے تو تیرے لیئے کوئی سپیشل پری آسمان سے اترے گی ۔۔ صمید نے اسے دھپ رسید کی ہاں بلکل کوئی ملے ایسی جو چیلینج کرے ۔۔ جسے پانے کی مجھے جستجو کرنی پڑی ۔۔ اِن کٹی پتنگوں کی طرح نہیں کہ خود ہی جھولی میں آ گریں۔۔ ارمان نے ناگواری سے سامنے سجی سنوری اپنی کزنز کی فوج کو دیکھا۔
اچھا پھر چل تو آج اپنی نا معلوم حسینہ کے نام پر کو کو ۔۔ کورینا ۔۔ہی سنا دے ۔۔۔ صمید کب جان چھوڑنے والا تھا 
ارمان کوئی باقاعدہ سنگر نہیں تھا ۔۔ کبھی کبھار یونیورسٹی یا دوستوں کی محفل میں کچھ سنا دیا کرتا تھا ۔۔ اے لیول میں عاطف اسلم سے متاثر ہوکر اس پر سنگر بننے کا بھوت سوار ہوا تھا ۔۔مگر پھر انجینئرنگ یوں چیلنج بن کر سامنے آئی تھی کہ وہ سنگنگ، پینٹنگ سمیعت اپنے سارے شوق بھول گیا تھا ۔۔’’ زندگی میں بارہا ایسے مقامات آتے ہیں جو لائف کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوتے ہیں ، سالوں سے ایک ہی ڈھب پر چلتی ہوئی زندگی اچانک یوں راستہ بد ل لیتی ہے کہ انسان خود ششدرہ رہ جاتا ہے ۔۔‘‘
آج بہت عرصے بعد اسکا دل چاہا تھا کہ وہ کچھ سنائے۔۔ سو وہ صمید کے پیچھے سٹیج کی طرف بڑھ گیا ۔
بول دو نہ ذرا دل میں جو ہے چھپا 
میں کہونگا کسی سے نہیں 
اتنی محبت کرو نا ۔۔ میں ڈوب نا جاؤں کہیں
واپس کنارے پر آ نا میں بھول نا جاؤں کہیں
دیکھا جب سے چہرہ تیرا ۔۔ میں تو ہفتوں سے سویا نہیں 
بول دو نا ذرا دل میں جو ہے چھپا میں کہونگا کسی سے نہیں
ہماری کمی تم کو محسوس ہوگی بھگو دیں گی جب بارشیں
میں بھر کر لایا ہوں آنکھوں میں اپنی ۔۔ ادھوری سی کچھ خواہشیں 
بول دو نا ذرا دل میں جو ہے چھپا۔۔۔۔۔۔۔
آج واقعی ارمان وَجد میں تھا سو اپنی دھن میں گاتا چلا گیا اِس بات سے بے خبر کہ زارش نے اس گانے کا کیا مطلب لیا ہے؟؟
                                       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمہارے ابو کل لاہور آ رہے ہیں رامین کے ایڈمیشن کے لیئے ۔۔ امی نے اسے صبح صبح کال پر آگاہ کیا۔۔ حالانکہ منتہیٰ کو سب کچھ کئی دنوں سے معلوم تھا ۔۔ پوزیشن کے بعد رامین کا سکالر شپ due تھا سو اس نے کینیئرڈ میڈیکل کالج کا انتخاب کیا تھا۔
ہر روز صبح یونیورسٹی جانے سے پہلے اور آ نے کے بعد وہ سب سے پہلے امی کو کال کیا کرتی تھی۔’’ ماں کا دل بھی خدا نے ناجانے کس مٹی سے بنایا ہے کہ اسکی ہر دھڑکن اپنی اولاد کی سلامتی سے وابستہ ہوتی ہے ۔۔ کسی مرغی کی طرح اپنے چوزوں کو پروں میں چھپائے وہ مطمئن رہتی ہے، لیکن جب اُن میں سے کوئی دور چلا جائے تو جیسےُ اسکی روح کا ایک حصہ بھی کہیں بہت دور چلاجاتا ہے ‘‘۔ہر آ تی جاتی سانس کے ساتھ فکر اور اندیشے ۔۔ پتا نہیں ناشتہ کر کے گئی ہوگی، کینٹین کی کیا الا بلا کھا لی ہوگی ۔۔ ہاسٹل کے مینو پر تو اُنہیں بہت ہی تاؤ آتا تھا ۔۔ گرمی نے میری پھول سی بچی کا کیا حا ل کر دیا ہے ،سکائپ پر انہیں منتہیٰ کا رنگ ہر روز کچھ اور سنولایا ہوا محسوس ہوتا ۔۔۔ اور اب تو رامین بھی رختِ سفر باندھنے کو تھی ۔۔ عاصمہ کے دل کو جیسے کسی نے مُٹھی میں لے رکھا تھا مگر کچھ کہنا فضول تھا وہ جانتی تھیں فاروق ہی نہیں انکی اولاد بھی جب ایک فیصلہ کر لے تو پھر اس سے پیچھے نہیں ہٹتی ۔۔ اُن کی ہونہار بیٹیاں سکالر شپ پر میڈیکل ، انجینئر نگ میں جا رہی تھیں ۔۔ وہ اب بہت فخر سے اپنے حلقۂ احباب میں بتایا کرتی تھیں۔۔۔یہ امیاں بھی نا بس۔۔۔!!!                                        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ارمان لیپ ٹاپ پر بزی تھا ۔۔ کہ سیل تھر تھرایا ۔۔ صمید کالنگ۔۔
اُس نے کام جاری رکھتے ہوئے کال ریسیو کی ۔۔ ہیلو صمید 
کل برات سے کیوں غائب تھا تو ۔۔چھوٹتے ہی شکوہ حاضر ۔۔؟؟
یار بس ایک اسائنمنٹ میں دوستوں کے ساتھ ایسا پھنسا کہ رات ۱۱ تک فارغ ہوئے ۔۔ ممی سے ڈانٹ کھا چکا ہوں اب تیری میں کچھ نہیں سنوں گا ۔۔ ارمان نے سیدھی ہری جھنڈی دکھائی۔ 
بے شک مت سن ۔۔ پھر اپنی خیر خود ہی منانا ۔۔ صمید نے منہ بنایا 
واٹ؟؟ از ایوری تھنگ اُوکے؟؟ ارمان الرٹ ہوا 
بلکل بھی نہیں ۔۔ مہندی والے دن تو نا جانے کس دُھن میں تھا ۔۔۔ زارش نے سارے کزنز میں پھیلا دی ہے کہ وہ سونگ تو نے اُس کے لیئے ایکسکیوز میں گایا تھا ۔۔۔ صمید نے دانت نکالے ۔
واٹ؟؟ اپنی شکل دیکھی ہے اُس بھوتنی نے ۔۔۔ہونہہ 
خیر شکل کی تو کافی پیاری ہے ۔۔ صمید نے سائڈ لی  تجھے ہی لگتی ہونگی ایسی ماڈلز پیاری ۔۔۔ ہونہہ ۔۔ خیر سمجھتی رہے مجھے کیا ۔۔ مائی فٹ ۔۔
ہاں تجھے کیا ۔۔ پر پیارے ولیمے میں آکر اُس کی غلط فہمی دور کر دے ۔۔ ورنہ یہ بلا تیرے گلے پڑ جائے گی ۔۔ وہ آ نٹی کے
بھی گلے لگ کر یوں شرما رہی تھی ۔۔جیسی اُنکی بہو اناؤنس ہو گئی ہو ۔۔۔ صمید نے گویا بم پھوڑا 
اوہ مائی گاڈَ ۔۔ کیا مصیبت ہے ؟؟ دیکھ لونگا میں ڈونٹ وری ۔۔ اُس نے غصے میں سیل بیڈ پر پھینکا ۔۔ کمرے کے چار پانچ چکرکاٹے ۔۔ پانی کا جگ خالی تھا ۔۔ کچن میں جا کر پوری بوتل غٹا غٹ منہ سے لگا کر خالی کی ۔
ارمان !۱ پیچھے سے ممی کی غصیلی آ واز پر وہ چونک کر پلٹا ۔۔ ہزار دفعہ منع کیا ہے کہ بوتل کو منہ لگا کر پانی مت پیا کرو ۔۔ انہوں نے بوتل اسکے ہاتھ سے جھپٹ کر گلاس سامنے پٹخا ۔۔۔ لیکن وہ اِس وقت ممی کا کوئی لیکچر سننے کے موڈ میں نہیں تھا ۔۔ گلا س کو نظر اندازکر کے فریج سے دوسری بوتل نکالی ۔۔۔ اور منہ کو لگاتا ہوا لاؤنج کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔وہ غصے میں تھا ۔۔ مریم کو یہ جاننے میںایک منٹ بھی نہیں لگا ۔۔!!
وہ کچھ سوچتے ہوئے اُسکے پیچھے آ ئیں ۔۔ ارمان کیا بات ہے؟؟ وہ ٹی وی آن کیئے غائب دماغی سے چینل پر چینل بدل رہا 
تھا ۔۔ ارمان۔۔ مریم نے لاڈ سے اُسکے بال سنوارے ۔۔۔ کیا ہوا ہے۔۔ میرا کُول بیٹا اتنے غصے میں کیوں ہے؟؟
ممی پلیز ۔۔ اپنی اِن سٹوپڈ بھانجیوں، بھتیجیوں کو مجھ سے دور رکھا کریں۔۔ زہر لگتی ہیں یہ مجھے ۔۔ وہ جیسے پھٹ پڑا 
کیا زارش سے لڑائی ہوئی ہے تمہاری ۔۔ ؟؟
میری اس سے کبھی کوئی دوستی ہی نہیں تھی تو لڑائی کا کیا سوال ۔۔ اس نے ناک سے مکھی اڑائی 
لیکن وہ تو ۔۔۔ وہ تو کہہ رہی تھی ۔۔ جی وہ فرما رہی تھیں کہ میں نے کزنز کی فوج میں اُنکا انتخاب کر لیا ہے ۔۔ یہی نہ۔۔۔ تو آ پ سن لیں کہ۔ یہ اُنکے دماغ کا فتورہے ۔۔۔ آ ئی ایم ناٹ انٹرسٹڈ اَن ہر ریئلی ۔۔۔ ہونہہ تو کیا برائی ہے اس میں خوبصورت ہے ، اچھی تعلیم یافتہ فیملی ہے ۔۔۔میں تو اُسے پسند کر چکی ہوں۔۔
ممی ۔۔ وہ تڑپ کر کھڑا ہوا ۔۔۔ خدا کے لیئے مجھے بخش دیں ۔۔ زہر لگتی ہیں مجھے ایسی لڑکیاں ۔۔ پھر پاؤں پٹختے ہوئے لاؤنج نکلا ۔۔۔!!!مریم نے غصے سے اُسے جاتے دیکھا اور پھر پیچھے کھڑے ڈاکٹر یوسف کو جن کے لبوں پر گہری مسکراہٹ تھی ۔۔ وہ جل ہی تو گئیں جی !! بس آ پ کی کمی تھی ۔۔ اڑا لیں آپ مذاق ۔کول ڈاؤن مریم ۔۔ یہ ایسا کوئی بڑا ایشو نہیں ہے ابھی وہ پڑھ رہا ہے اسکی شادی میں بہت ٹائم ہے۔۔ انہوں مریم کو کندھوں سے تھام کر پر سکون کرنے کی سعی کی ۔ٹھیک ہے تم دونوں باپ بیٹا کوئی افلاطون بہو ڈھونڈ کر لے آنا میری بھانجیاں بھتیجیاں تو اِسے زہر لگتی ہیں ۔۔ ہونہہ مریم کی سوئی اب تک وہیں اَٹکی ہوئی تھی ۔نہیں ہم تمہیں بھی ساتھ لیکر جائیں گے ۔۔ !!!ڈاکٹر یوسف نے اُنہیں چھیڑا ۔



۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان میں توانائی کا بحران اور متبادل ذرائع ( Energy crises in pakistan and renewable sources) پر سیمینار تھا اور منتہیٰ نے اپنے ریسرچ پیپر کے لیئے(Wind power) کا موضوع منتخب کیا تھا ۔۔
پوری دنیا کی طرح پاکستان بھی شدید موسمیاتی تبدیلیوں کی زد پر ہے پنجاب اور سندھ ہی کیا خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے وہ علاقے جو پہلے اپنے معتدل موسم کی وجہ سے جنت سمجھے جاتے تھے اب اپریل مئی سے سورج وہاں بھی آگ اگلنا شروع کردیتاہے، جس کے ساتھ طویل لوڈشیڈنگ کے تو عوام عادی ہو ہی چکے ہیں ۔ ہماری گورنمنٹ توانائی کے اِس بحران سے نمٹنے کےلیئے نہ تو مناسب منصوبہ بندی کرتی ہے، نہ ہی اُس کا دھیان اِن متبادل ذرائع کی طرف جاتا ہے جو قدرت کی طرف سے ہمیں مفت دستیاب ہیں ۔۔۔!!!
خدا کی کا ئنات جتنی وسیع ہے اُسکا ظرف بھی اتنا ہی بڑا ہے ، اگر ہم کائنات کے آ فاقی نظام پر غور کریں تو ہمیں اِسکی ہر چیز ایک دوسرے سے تعاون کرتی نظر آ ئیگی ۔۔ اگر سورج اپنی روشنی روک کر چاند اور زمین پر ٹیکس لگا دے تو دنیا کی ایسی کون سی طاقت ہے جو سورج کی یہ روشنی ہمیں فراہم کر سکے ۔ جو زمین پر انسانی بقا کے لیئے لازمی ہے ۔ زمین کے سارے سمندر ، دریا ، جھیلیں اپنے پانی پر انسانوں سے بل وصول نہیں کرتیں ۔ لیکن صد حیف کہ خدا کی ہر نعمت سے مفت لطف اندوز ہو کر انسان زمین کےایک ٹکڑے پر اپنی کم ظرفی دکھاتا ہے ۔۔ زن، زر اور زمین یہ سب نعمتیں اللہ پاک نے اسے عطا کی تھیں۔۔ لیکن انہیں اپنی پراپرٹی سمجھ کر وہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے اور عزتیں اچھالنے میں مصروف ہے ۔۔
ہم نے اپنا سوسائٹی سسٹم کچھ ایسا بنا لیا ہے کہ یہاں کھیتی صرف اُسی پروان چڑھتی ہے جو دوسروں کی پرواہ کیئے بغیر صرف اپنےکھیت سیراب کرتا ہے ۔۔’’جبکہ قرآن کا آ فاقی پیغام یہ ہے کہ کھیتی اسی کی سر سبز رہتی ہے جو دوسروں کی ضرورت کو اپنی ضرورت پر ترجیح دیتا ہے ۔۔‘‘
ہوا بھی خدا کی ایک ایسی ہی نعمت ہے جو مناسب منصوبہ بندی کے ساتھ لا محدود توانائی کا ذریعہ بنائی جا سکتی ہے۔۔ وائنڈ
پلانٹس کی لاگت ، پیداوار اور پاکستان بھر میں وہ تمام مقامات جو ایسے پلانٹس کے لیئے موزوں ترین ہیں ان کی سب تفصیلات منتہیٰ کے ریسرچ پیپر میں موجود تھیں ۔۔ اس کے ٹیچرز نے ہی نہیں سیمینار کے شرکاء نے بھی ریسرچ پیپر کو بھرپور سراہاتھا۔۔ پاکستان میں نہ تو ٹیلنٹ کی کمی ہے نہ ہی وسائل کی ، ایک سے بڑھ کر ایک ذہین نوجوان جب یہاں سے باہر کی یونیورسٹیز میں جاتا ہے تو اُسکی یہ صلاحیتیں کچھ اور نکھر کر سامنے آ تی ہیں ۔۔لیکن پھر باہر کی چمک دمک اور اپنی اولاد کا روشن مستقبل اُسے بہت  حد تک خود غرض بنا دیتا ہے ۔۔۔ اور پیاری دھرتی کہیں پسِ پشت چلی جاتی ہے۔۔ انڈیا آ ج ITکے میدان میں ہم سے کئی گُناآ گےِ اس لیئے ہے، کہ ا نہوں نے با صلاحیت نوجوان نسل کو اپنے وطن میں باہر کے ممالک سے بڑھکر نہیں تو اِن کے ہم پلہ سہو لیات و ذرائع ضرور فراہم کیئے ہیں ۔۔ اگر آج پاکستان میں بھی یہ سہولیات دستیاب ہوں تو ہزاروں محبِ وطن نوجوان اپنی دھرتی لوٹ آ ئیں جنھیں موجودہ حالات میں مستقبل کے اندیشے دیارِ غیر کو خیر باد نہیں کہنے دیتے۔۔۔!!!!!


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                                                               جاری ہے۔۔۔


Next episode coming soon                                                        


         Copyrights reserved to @Saadeqakhan!
          Any concerned person found copying  or publishing this Novel with his        
        or  someone's else name would be legally treated
Share on Google Plus

About Unknown

0 comments:

Post a Comment