WELCOME TO MELTED TRUTHS

All Truths are easy to understand once they are discovered;the point is to discover them.(Galileo Galilei)

Gen(R) Raheel Shareef


قبیلے کی آنکھ کا تارا۔۔۔۔

 تحریر: عفیفہ بخاری

اگر آج ایک سوال پوچھا جائے کہ 16-2015 کی مقبول ترین شخصیت کون ہے تو جواب "جنرل راحیل شریف " کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے؟ گلی ، محلوں، بازاروں ہر جگہ ایک ہی نام کی گونج سنائی دیتی ہے۔ کہیں بازاروں میں آویزاں "جانےکی باتیں جا نے دو " جیسے پوسٹرز نظر آتے ہیں تو کہیں رکشوں ، ٹرکوں اور بسوں کے پیچھے راحیل شریف کی تصاویر لوگوں کی ان سے محبت کا اظہاریہ ہیں۔
ایک عرصے سے سوشل میڈیا کا مقبول ترین # ٹیگ شکریہ راحیل شریف ہے۔آخر اس قدر مقبولیت کی کیا وجہ ہے ؟ وہ کون سا کارنامہ ہے جو راحیل شریف نے انجام دیا؟ ان سوالات کا سادہ سا جواب ہے کہ ایمانداری سے اپنے فرائض انجام دینے کا کارنامہ۔۔۔۔ ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کو روکنے ، امن کی صورت حال بہتر بنانے، پورے ملک اور بلخصوص کراچی کو سیکورٹی فراہم کرنے ، سیاسی معاملات سے دوری ان کے وہ کارنامے ہیں جو نہ صرف ان کی شہرت کا سبب ہیں بلکہ انہیں دائمی حیات بخشنے کا  باعث بھی بنیں گے۔
گجرات سے 10 کلومیٹر کی مسافت پر 217 میٹر کی بلندی پر ایک چھوٹا قصبہ  'کنجاہ'  واقعہ ہے۔ یہ جنرل شریف بھٹی کا آبائی علاقہ  ہےجو ایک بہادر اور یماندار فوجی آفیسر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔16 جون 1956ء کو جب وہ کوئٹہ میں تعینات تھے ، ان کے گھر ایک بیٹا پیدا ہوا، جس کا نام راحیل شریف رکھا گیا۔ اس سے قبل ان کے دو بیٹے اور بیٹیاں اور بھی ہیں۔یہی وہ گھر ہے جس میں میجر شبیر شریف پیدا ہوئے اور پلے بڑھے ۔ یہاں تک کہ  1960ء میں فوج میں کمیشن حاصل کر لیا۔ 1971ء کی جنگ کے دوران ان کی تعیناتی اوکاڑہ میں ہوئی ۔ یہاں انہوں نے دشمن کا جواںمردی سے مقابلہ کیا اور جام شہادت نوش کیا۔ ان کی بہادری کی بدولت انہیں پا کستان کا اعلیٗ ترین فوجی اعزاز نشان حیدر دیا گیا۔
یہ گھرانہ ممتاز شریف کا گھرانہ بھی ہے، جو راحیل اور شبیر شریف کے بھائی ہیں۔ وہ بھی پاکستان آرمی کا حصّہ رہے اور کپیٹن کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔میجر راجہ عزیز بھٹی بھی اس خاندان سے خاص تعلق رکھتے ہیں۔ وہ راحیل شریف کے ماموں جان ہیں ۔ آپ 1965ء کی جنگ میں شہید ہوئے اور اعلیٗ ترین فوجی اعزاز نشان حیدر سے نوازے گیے۔
راحیل شریف اس اعلیٰ عسکری خاندان کے فرد ہیں۔چناچہ بہادری ، ایمانداری اور  دانشمندی جیسے اوصاف نہ صرف وراثت میں ملے بلکہ ان کی تربیت کا بھی حصّہ رہے۔ یہی تربیت زندگی کے ہر میدان میں ان کے ہمقدم رہی۔
راحیل  شریف اپنے بڑے بھائی شبیر شریف سے 13 برس چھوٹے ہیں۔اپنے بچپن کا بیشتر وقت اپنے بڑے بھائی کے زیر سایہ گزارا۔جنہوں نے ان کی تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔ان کی   خاندان کی وجہ سے ان سے بہت سی امیدیں وابستہ تھیں۔جن پر پورا اترنے کے لیے انہیں انتھک محنت کر نا پڑی۔ ان کے بہت سے سینیئرز  ایسے تھےجن سے ان کے خاندان کے قریبی اور دوستانہ تعلقات تھے۔ وہ اگر چاہتے تو اپنا خاندانی اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے کا میابی کی منازل تیزی سے طے کر سکتے تھےتاہم ایسی باتیں ان کے لیے باعث رنج تھیں۔ وہ ہر قدم پر محنت اور کو شش سے آگے بڑھتے رہے ، آہستہ آہستہ اپنا مقام پیدا کیا اور اپنی الگ شناخت قائم کی۔

راحیل شریف نے گورنمنٹ کالج لاہور  سے تعلیم حاصل کی۔1976 میں فرنٹیر فورس رجمنٹ کی 614 بٹالین میں کمیشن حاصل کیااور گلگت میں فرائض انجام دیے۔ انہوں نے بطور بریگیڈیر کشمیر میں 6 فرنٹیر فورس رجمنٹ اور سیالکوٹ بارڈر  پر  26 فرنٹیر فورس رجمنٹ کی کمانڈ کی۔ زندگی بھر مختلف عہدوں پر فائز رہے۔جہا ں بھی رہے اپنی کارکردگی کی بدولت نمایاں رہے۔
آخر کار 27 دسمبر 2013 کو وزیر اعظم نواز شریف نے انہیں پاکستانی فوج کا سپہ سا لار مقرر کیا ۔ انہیں دو سینئر جرنیلوں لیفٹینٹ جنرل ہارون اسلم اور لیفٹینٹ جنرل راشد محمود پر ترجیح دی گئی ہے۔جب انہوں نے اپنے عہدے کا چارج سنبھالا تو ملکی حالات انتہائی ابتر تھے۔بلخصوص بلوچستان اور کراچی آگ میں جل رہے تھے۔ ماضی میں ہونے والے کئی آپریشنز کے باوجود حالات میں بہتری کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی۔ روشنیوں کا شہر کہلانے والا کراچی سر شام ہی اندھیرے میں ڈوب جا تا تھا۔ بھتہ خوری ، ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گرد حملوں نے بے یقینی کی صورت حال پیدا کر دی تھی۔ حالات کے پیش نظر فوج سے مدد طلب کی گئی ۔ چناچہ راحیل شریف کی موثر قیادت میں فوج نے کارروائی کی اور شہر کراچی کی روشنیاں لوٹ آئیں۔
2014 میں آرمی اسکول پر ہونے والا  حملہ ظلم و بر بریت کی انتہا تھی۔ جس نے نہ صرف پورے ملک کو بلکہ پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس واقع کے بعد جرنل صاحب کا کردار خاص طور پر نما یا ں  ہوا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ان کے عزائم مزید مستحکم ہوگئے۔
قبائل کو قریب لانے  اور ہم آہنگی پیدا کرنے میں راحیل شریف کا کردار قابل ستائش ہے۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ ملکی تاریخ کا بڑا اور اہم ترین آپریشن " ضرب عضب" ہے۔ " ضرب عضب " کے دوران ان کر کردار کی پختگی  اور ان کی ذات کی بہادری تھی جو ان کے جونیئرز میں حوصلے اور ہمت کو جوان رکھتی۔ وہ ہر مشکل وقت میں اور مشکل جگہ پر اپنے جو نیئرز کا حوصلہ بڑھانے کے لیے مو جو د ہوتے۔ جیسا کے پر ویز مشرف نے کہا۔
"وہ ضرب عضب کے دوران ایسی خطر ناک جگہوں پر گیےجہاں پر کوئی اور اپنی زندگی کے خطرے کے پیش نظر جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا"


انہیں دو سینیئرز پر فوقیت دینے کی وجہ ان کی سیا ست میں عدم دلچسپی تھی اور ان کی یہ عدم دلچسپی آخر تک قائم رہی۔ ان کے دور ملازمت میں بہت سے ایسے مواقع آئے جب وہ حکومت کی باگ دوڑ سنبھال سکتے تھے۔ بہت دفعہ لوگوں اور سیاسی جماعتوں کی جانب سےانہیں مارشل لاء لگانے پر اکسایا گیا۔ تاہم ان کے نزدیک اداروں کا احترام اہم رہا۔ انہوں نے سیاسی معملات سے دوری اختیار کی اور ملکی معاملات چلانے میں جمہوری حکومت کا ساتھ دیا۔
2016 میں ان کی ریٹائرمنٹ سے کا فی عرصہ قبل عوام کی جانب سے ان کے عہدے میں توسیع کی خواہش کا بھرپور  اظہار سامنے آیا ۔ تاہم انہوں نے اس دوران اپنے ادارے پر بھرپور اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
" پاکستانی فوج ایک عظیم ادارہ ہے ۔ میں ایکسٹینشن پر یقین نہیں رکھتا۔"

ان کے اس واضح بیان کے باوجود بھی اس خواہش کا اظہار بارہا کیا جاتا رہا۔ تاہم وہ آج 16-11-29 کو مدت ملازمت پوری ہونے پر ریٹائر ہورہے ہیں۔یہ ان کا اپنے ادارے پر بھی اعتماد ہے اور ا پنی مٹی پر بھی جو اور راحیل شریف پیدا کرسکتی ہے۔ ا ن کا دور اداروں کے استحکام کا دور ہے ۔جس میں راحیل شریف جیسی شخصیت بھی ادارے کا ایک فرد ہے، وہ شخصیت جو جاتے جاتے ایمان داری ، عزم اور ہمت کا درس دےگئی۔ انہیں ہمیشہ ایک محب الوطن پاکستانی ، پیشہ ور اور سچے سپاہی کے طور یاد  رکھا جائے گا۔

وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا
شباب جس کا ہے بے داغ ،ضرب ہے کاری
Share on Google Plus

About Unknown

0 comments:

Post a Comment