WELCOME TO MELTED TRUTHS

All Truths are easy to understand once they are discovered;the point is to discover them.(Galileo Galilei)

The Eternity 2nd Last Episode "دوام"


دوام

An inspirational and alluring tale of a Scientist's love to her 
HOMELAND

از صادقہ خان



(2nd Last Episode)


ایک ہفتے بعد وہ پوری طرح ہوش میں آئی تھی۔۔ اُس کے پورے جسم میں صرف آنکھیں تھیں۔۔ جنھیں وہ جنبش دے سکتی تھی اور باقی سارا جسم جیسے بے جان تھا ۔۔ ڈاکٹرز اور نرسیں کئی روز تک ۔۔منتہیٰ کے پاس آکر اسے جھوٹی تسلیاں اور تھپکیاں دیکرجاتے رہے ۔۔ !!
دس دن بعد اپنے پاس جو پہلا شناسا چہرہ اُسے نظر آیا ۔۔۔ وہ ۔۔ ارمان یوسف تھا ۔۔ بڑھی ہوئی شیو ۔۔ ستا ہوا چہرہ۔۔
اور سرخ متورم آنکھیں اُس کے رت جگوں کی گواہ تھیں ۔۔۔ منتہیٰ اُس سے نظر ملانے کی ہمت ہی نہیں کرسکی ۔۔ سرابوں کے تعاقب میں جس شخص کو اُس نے سب سے پہلے چھوڑا تھا ۔۔۔ وہ آج کڑے وقت پر سب سے پہلے آیا تھا ۔۔!!جس کی آنکھوں سے چھلکتے درد کو پڑھنے کے لیئے آج منتہیٰ دستگیر کو کسی عدسے کی ضرورت ہر گز نہیں تھی ۔۔ کامیابیوں کےپیچھے بھاگتے بھاگتے وہ بھول گئی تھی کہ وقت کی تلوار بہت بے رحم ہے ۔۔ اور دنیا میں ہر عروج کو زوال ہے !!!!
’’
یقیناٌ یہ بد نصیبی کی انتہا ہوتی ہے کہ انسان اپنے در پر آئی اللہ پاک کی رحمت کو ٹھکرا دے ۔۔ سچی محبت اور نیک جیون ساتھی عورت کے لیئے اللہ کا بہت بڑا انعام ہوتے ہیں ۔۔ لوگ کہتے ہیں کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہےلیکن دنیا کی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ عروج کی چوٹیوں کو سر کرنے والی ہر عورت کے پیچھے ایک نہیں ۔۔ کئی مردوںکا ہاتھ ہوتا ہے ۔۔!! فاروق صاحب۔ ڈاکٹر یوسف اور پھر ارمان ۔۔ خدا نے اُسے یہ تین مضبوط ستون عطا کیئے تھے ۔۔مگر سارا کریڈٹ خود بٹورنے کی دُھن میں منتہیٰ نے منہ کی کھائی تھی ۔۔۔‘‘
زندگی اتفاقات ، واقعات اور حادثات کا مجموعہ ہے ۔۔ کوئی نہیں جانتا کہ کب کون سا واقعہ یا حادثہ آپکو کسی بند گلی کے موڑ پرلیجا کر چھوڑ دیگا ۔۔جہاں اسے ایک بے مصرف زندگی گزارنی پڑیگی۔۔ ایک کامیاب ترین زندگی سے ایک بے مصرف وجود تک پہنچ جانے میں انسان پر کیا کچھ بیت جاتی ہے ۔۔یہ وہی جان سکتا ہے جو اِن حالات سے گزرے۔۔ تب زندگی گزارنے اور اِسے بیتنے کااصل مفہوم سمجھ میں آتا ہے ۔۔۔!!!!
پہلے اُس کے پاس زندگی کو سمجھنے کا وقت نہیں تھا ۔۔ اور اَب ۔۔ جب وقت ملا تھا ۔۔ تو زندگی اُس سے روٹھ گئی تھی ۔۔!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اجنبی شہر کے اجنبی راستے میری تنہائی پر مسکراتے رہے ۔۔۔
میں بہت دیر تک یونہی چلتا رہا ، تم بہت دیر تک یاد آتے رہے
دو ماہ پہلے PL lake کے کنارے کاٹی ایک رات اُس کی زندگی کی کھٹن ترین راتوں میں سے ایک تھی ۔۔اور آج پھرارمان کو ایک ایسی ہی رات کا سامنا تھا ۔۔ فرق صرف یہ تھا ۔۔۔اُس رات ۔۔ جس دشمنِ جاں نے رلایا تھا ۔۔آج اُسی
کے دکھ میں آنسو چھلکے تھے ۔۔
صبح اُسکی منتہیٰ کے ڈاکٹرز کے ساتھ فائنل میٹنگ تھی ۔۔ ڈاکٹرز کو spinal chord کیMRI رپورٹ کا انتظار تھاکیا وہ عمر بھر کے لیئے معذور ہوجا ئیگی ۔۔۔ ؟؟ یہ سوال ۔۔ عجیب دیوانگی اور وحشت میں وہ شدید ٹھنڈ میں ہسپتال سےنکلا تھا ۔۔یونہی سڑکوں پر دھول اُڑاتے اُس نے ساری شام کاٹی ۔۔ یہ دُھول تو شاید اب اُس کے مقدر میں لکھ دی گئی تھی۔۔
زہر ملتا رہا ۔ زہر پیتے رہے روز مرتے رہے روز جیتے رہے
زندگی بھی ہمیں آزماتی رہی اور ہم بھی اسے آزماتے رہے ۔۔
بے د ھیانی میں زور سے ٹھوکر لگنے پر ارمان منہ کے بل گرا ۔۔ اُس نے گرد آلود آنکھوں کو مسل کر دیکھا۔۔ سامنے ہاسٹن کا اِسلامک سینٹر تھا ۔۔ وہ آیا نہیں تھا ۔۔ لایا گیا تھا ۔۔ وضو کر کے وہ چپ چاپ امام صاحب کے گردلوگوں کے گروپ میں جا بیٹھا ۔۔جن کی شیریں آواز سماعتوں میں رَس گھول رہی تھی ۔۔۔
جو لوگ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیںُ ان کے لیئے ہدایت اور نصیحت ہے ، دل شکستہ نہ ہو ۔۔ یہ تو زمانے کے نشیب و فراز ہیں
جنھیں ہم لوگوں میں گردش دیتے رہتے ہیں ۔۔ تم پر یہ وقت اِس لیئے لایا گیا کہ اللہ تعالیٰ دیکھنا چاہتا تھا کہ تم میں سچے 
مومن کون ہیں ۔۔ !! ( سورۂ الِ عمران) 
خدا کی اِس وسیع و عریض کائنات کی سب سے بڑی خوبصورتی یہ ہے کہ یہاں ہر شے متحرک ہے۔۔ ہر رات کہ بعد سحراگر خدا کا قانون ہے ، تو ہر آسائش کے بعد تکلیف اور ہرُ دکھ کے بعدُ سکھ کی گھڑی بھی اِسی اللہ کے حکم سے میسر آتی ہےزندگی دھوپ چھاؤں کا کھیل ہے ۔۔ ہر وہ شخص جس نے اچھا وقت دیکھا ہو ۔۔ اُسے کبھی نہ کبھی بدترین حالات کا سامنا کرناہی پڑتا ہے۔۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں کے اعمال سے کچھ لینا د ینا نہیں ۔۔ وہ ہر شے سے بہت بلند ہے ۔۔!!
امام صاحب ایک لمحے توقف کو رکے ۔۔ آپکی زندگی میں آنا والا برا وقت خدا نخواستہ آپکے اعمال پر اللہ کا عذاب نہیں ہوتا ۔۔کبھی یہ محض ایک اشارہ ہوتا ہے کہ آپ بھٹک کر کہیں اور نکلنے لگے ہیں ۔۔ تو اپنی اوقات، اپنی اصل پر واپس آجائیے ۔کبھی یہ آزمائش ہوتی ہے ۔۔ جس طرح لوہا آگ میں تپ کر ۔۔ اور موتی سیپ میں ایک معین وقت گزار کر باہر آتا ہے ۔۔اسی طرح ہر انسان کے اندر چھپی اُسکی ہیرا صفت خصلتیں آزمائشوں کی کھٹالی سے گزر کر ۔کچھ اور نکھر کر ۔۔سامنے آتی ہے ۔اور اِس کھٹالی سے یقیناٌ وہی کندن بن کر نکلتے ہیں ۔۔جن کا ایمان اور توکل خالص اللہ تعالیٰ پر ہوتا ہے ۔۔۔!!!
’’
وقت کبھی رکتا نہیں گزر جاتا ہے لیکن۔۔ کچھ گھڑیاں ، کچھ ساعتیں ، کچھ آزمائشیں اپنے پیچھے اَن مٹ نقوش چھوڑ جاتی ہیں۔اور یقیناٌ فلاح وہی پاتے ہیں جو صرف اپنے رب سے مانگتے ہیں اور وہ اپنے ہر بندے کی یکساں سنتا ہے ۔۔‘‘
بے اختیار ارمان کے ہاتھ دعا کے لیئے اٹھے تھے ۔۔ اور ۔۔ دل کی گہرائیوں سے اَوروں کے لیئے مانگی جانے والی دعائیں
اللہ تعالیٰ کے دربار سے کبھی رَد نہیں ہوا کرتیں ۔۔۔!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منتہیٰ کے پاس سے کچھ دیر پہلے ہی نینسی گئی تھی ۔۔ اُس نے کسلمندی سے آنکھیں موندی ہی تھیں کہ دروازہ کھلا اور ارمان داخل ہوا ۔۔ اُس کے ہاتھ میں خوبصورت سا بُوکے تھا ۔۔ آل اِز ویل ہر گز نہیں تھا ۔۔ مگر ۔۔ منتہیٰ کی ایم آر آئی حیرت انگیزطور پر کلیئر آئی تھی ۔۔ ۲۰ہزار فٹ کی بلندی سے گرنے کے بعد ریڑھ کی ہڈی کا سلامت رہنا یقیناٌ ایک معجزہ تھا ۔۔!!
لیکن اُس کی بائیں ٹانگ میں دورانِ خون بند تھا ۔۔ وقتی یا عمر بھر کی معذوری ۔۔ تلوار ہنوز سر پر لٹکی تھی ۔۔ لیکن ہمت توکرنا تھی ۔۔۔!!!
ارمان ۔۔ آپکو ڈاکٹرز نے فائنلی کیا بتایا ہے ۔۔؟؟ آئرن لیڈی ہر نا گہانی کے لیئے خود کو تیار کیئے بیٹھی تھی ۔۔!!
ارمان کھڑکی کے قریب کھڑا تھا اور منتہیٰ کی طرف اُسکی پشت تھی ۔۔ وہ مڑا ۔۔ اور چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا اُس کے بیڈتک آیا ۔۔
ڈونٹ وری منتہیٰ ۔۔ آپکی ایم آر آئی بلکل کلیئر آئی ہے ۔۔ اور باقی باڈی انجریز ۔۔سے صحت یاب ہونے میں آپکو ۴ سے ۶ماہ کا عرصہ لگے گا۔۔ وہ آدھا سچ بتا کر آدھا چھپا گیا ۔۔!!
منتہیٰ نے بہت غور سے اُسے دیکھا ۔۔ وہ ہمیشہ کا گُھنا تھا ۔۔ اندر کا حال پتا ہی نہیں لگنے دیتا تھا ۔۔
وہ گھنٹوں ہسپتال میں اُس کے پاس یوں گزارتا ۔۔ جیسے سارے کاموں سے فارغ بیٹھا ہو ۔۔نیوز پڑھ کے سناتا ۔۔ کبھی ایس ٹی ای کے پراجیکٹس کی تفصیلات بتاتا ۔۔ کبھی لیپ ٹاپ لیکر بیٹھ جاتا اور ایسٹرانامی پر اسکی پسند کے آرٹیکلز سرچ کرتا۔۔ !!منتہیٰ کو ہاسپٹل میں دو ماہ ہونے کو آئے تھے ۔۔ اُس کے فریکچرز تیزی کے ساتھ ریکور ہو رہے تھے لیکن ڈسچارج ہونے کےبعد بھی ایک لمبے عرصے تک اُسے ایکسر سائز اور ٹریٹمنٹس کی ضرورت تھی ۔۔۔!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملک غلام فاروق دستگیر کے لیئے یہ زندگی کا سب سے کھٹن وقت تھا ۔۔ ایک طرف جان سے زیادہ عزیز ہونہار بیٹی کئی ماہ سے ہسپتال میں زیرِ علاج تھی ۔۔ تو دوسری طرف بوڑھی ماں کی شدید بیماری ۔۔ جنھیں اِس حالت میں منتہیٰ کے بارے میں کچھ بتانے کی غلطی وہ ہر گز نہیں کر سکتے تھے ۔۔ اگرچہ ارمان نے منتہیٰ کی فیملی سے اُسکی میڈیکل رپورٹس کی تفصیلات چھپاکر صرف اتنا ہی بتایا تھا کہ ۴،۵ ماہ میں وہ صحت یاب ہو جائیگی ۔۔ لیکن فاروق صاحب کے اپنے بھی کچھ ذرائع تھے ۔۔!!
جوان بیٹی ۔۔اور اُس کے سر پر لٹکتی عمر بھر کی معذوری کی تلوار ۔۔ اُس کے مستقبل کے اندیشے ۔۔۔ فاروق کی تو راتوں کی نیندیں اُڑ چکی تھیں۔۔ او ر عا صمہ تو جیسے جا نماز کی ہو گئی تھیں ۔ اُن کے دل کا قرار تو اُس روز سے لٹا ہوا تھا ۔۔ جب انہوں نے منتہیٰ کو ہارورڈ کے لیئے رخصت کیا تھا ۔۔۔ کتنا منع کیا تھا ۔۔ مت جا ۔۔ میرا دل کہتا تھا نہ ۔۔۔ ماں کے دل کی گواہی بھی آج تک کبھی غلط ہوئی ہے ۔۔۔؟؟؟
منتہیٰ اُن سے ساتھ سمندر کے فاصلے پر تھی ۔۔ سکائپ اور فون پر۔۔ وہ یوں بات کرتی جیسے کسی معمولی روڈ ایکسیڈنٹ سےگزری ہو۔۔ لیکن اُ سکی بظاہر مسکراتی آنکھوں کے پیچھے چھپے درد کو اُن سے بڑھ کر اور کون سمجھ سکتا تھا ۔۔۔منتہیٰ فی الحال سفر کے قابل نہیں تھی اور اسے مزید کئی ماہ تک مستقل دیکھ بھال اور سہارے کی ضرورت تھی ۔۔ اِس لیئے فاروق، رامین کو اس کے پاس ہوسٹن بھیج رہے تھے۔۔ رامین کی چند ماہ بعد رخصتی طے تھی ۔۔۔ مگر فی الحال اُن سب کےلیئے سب سے بڑا مسئلہ منتہیٰ کی صحت یابی تھی ۔۔۔!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اُنکا ہیلی کاپٹر تقریباٌ ۲۱ ہزار فٹ کی بلندی پر تھا ۔۔ اِس سے پہلے منتہیٰ کی co trainers مارلین ۔ نندا اور ربیکا اِسی بلندی سے چھلانگ لگا چکی تھیں اور نیچے اُن کے پیرا شوٹ چھتریوں کی طرح گول گول گھومتے نظر آ رہے تھے ۔۔۔ ون ۔۔، ٹو ۔ تھری اور پھر انسٹرکٹر کے ا شارے پر منتہیٰ نے جمپ لگائی ۔۔۔ بچپن سے امی اور دادی کی ہر کام بسم اللہ پڑھ کر شروع کرنی کی ہدایت آج بھی اُس کے ساتھ تھی ۔۔۔ !!!
تقریباٌ ۱۵ ہزار فٹ کی بلندی پر آکر انہیں پیرا شوٹ کھولنے کی ہدایت دی گئی تھی ۔۔ ایک ، دو ، تین ۔۔۔ ہر دفعہ بٹن دبانے پرصرف کلک کی آواز آئی ۔۔۔ شدید گھبراہٹ میں اُس نے نیچے ۱۴ہزار فٹ کی گہرائی کو دیکھا ۔۔ ہیلپ می اللہ ۔۔ ہیلپ می اللہ۔۔۔!!! دو مہینے میں یہ خواب شاید اُسے دسویں بار نظر آیا تھا ۔۔ وہ دوپہر کی سوئی تھی ۔۔اوراب شاید مغرب کا وقت تھا۔اُس نے آنکھیں کھول کر اِدھر اُدھر دیکھا ۔۔۔ بیڈ سے کچھ فاصلے پر۔۔ ارمان جانما ز پر دعا کے لیئے ہاتھ پھیلائے بیٹھا تھا۔۔
منتہیٰ یک ٹک اسے دیکھتی گئی ۔۔۔ دو ۔۔ پانچ ۔۔ پورے دس منٹ بعد اُس نے چہرے پر ہاتھ پھیر کر جا نماز لپیٹی اور پلٹا۔۔منتہیٰ کو یوں اپنی جانب دیکھتا پاکر چونکا ۔۔۔
آپ کب جاگیں منتہیٰ۔۔؟؟ وہ آج بھی پہلے کی طرح احترام سے اُسکا نام لیتا تھا ۔
لیکن منتہیٰ کچھ کہے بغیر چپ چاپ چھت کو گھورتی رہی ۔۔ وہ کچھ قریب آیاکیا بات ہے منتہیٰ طبیعت تو ٹھیک ہے نا ۔۔ ٹمپریچر تو نہیں ۔۔؟؟
اور پیشانی پرُ اس کے لمس نے جیسے منتہیٰ کی ساری حسیات بیدار کردی تھیں ۔۔ بہت دنوں سے ۔۔ بہت سے رکے ہوئے
آنسوؤں نے ایک ساتھ باہر کا راستہ دیکھا ۔۔۔
اور ارمان اپنی جگہ گنگ تھا ۔۔۔ یہ آنسو ۔۔ اُس کے لیئے اجنبی تھے ۔۔ آئرن لیڈی کبھی روئی ہی نہ تھی ۔۔!!
منتہیٰ۔۔ کیا بات ہے ۔۔ پین بڑھ گیا ہے کیا ۔۔؟؟ وہ سمجھنے سے قاصر تھا 
ار۔۔ارمان۔۔وہ اَٹکی اندر بہت کچھ بہت پہلے ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہو چکا تھا ۔۔ بس ایک اعتراف ۔۔ ایک معافی ۔۔!!!!
ارمان مجھے معاف کر دیں ۔۔۔!!!! ہچکیوں کے درمیان بہ مشکل ارمان کو اُس کے الفاظ سمجھ میں آئے۔۔ اُس نے سختی سےآنکھیں بھینچ کر گہرا سانس لیا ۔۔۔ منتہیٰ کو یوں روتے دیکھنا ۔۔ اُس کے لیئے دو بھر تھا ۔۔
آنسو نہ کسی کی کمزوری کی علامت ہوتے ہیں ۔۔ نہ کم ہمتی کی ۔۔ اشک بہہ جائیں تو من شانت ہو جاتا ہے ۔۔ رکے رہیں تو اندر کسی ناسور کی طرح پلتے رہتے ہیں ۔۔ پانی اگر ایک لمبے عرصے تک کسی جوہڑ یا تالاب میں رکا رہے تو گدلا اوربد بودارہو جاتا ہے ۔‘‘
 ارمان نے اُسے رونے دیا تھا ۔۔۔ وہ کھڑکی کے پاس کھڑا تھا ۔۔ اپنے سیل کی مدہم سی بیپ پر وہ کمرے سےباہر آیا ۔۔یار تجھے اپنی جاب کی کوئی فکر ہے یا نہیں ۔۔؟؟ دوسری طرف اَرحم ۔۔ چھوٹتے ہی برحم ہوا ۔۔۔ آج فائنل نوٹس آ گیا ہے ۔۔اگر تو نے ایک ہفتے تک آفس جوائن نہیں کیا تو ۔۔ تیری چھٹی ہے سمجھا تو ۔۔!!
ارمان نے گہری سانس لیکر دیوار سے ٹیک لگایا ۔۔ وہ مجنوں تھا نہ رانجھا ۔ کہ اپنی ہیر کے لیئے بن باس لیکر بیٹھا رہتا ۔۔
پاکستان میں ٹیلی کام سیکٹر میں ایک بہترین جاب ۔۔ ہر نوجوان کا خواب تھی ۔۔
میں اِسی ہفتے پاکستان آجاؤنگا ۔۔ ارمان نے اَرحم کو مطلع کیادیٹس گڈ ۔۔ پر تیری ہیر کا کیا ہوگا ۔۔؟؟
منتہیٰ کے پاس چند روز تک رامین آجائیگی ۔۔
چل یہ تو اچھا ہوا ۔۔۔ یہ بتا کہ وہ پاکستان کب تک آسکیں گی ۔۔۔؟؟
پاکستان وہ کیوں آئیں گی ۔۔ صحتیاب ہوکر وہ واپس ناسا کے مشن پر جائیں گی ۔۔ اُن کو اپنے خواب جو پورے کرنے ہیں نہ چاہتے ہوئے بھی وہ تلخ ہوا ۔۔اور تیرا کیا ہوگا پیارے ۔۔؟؟ تو جو یہ دو ماہ سے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ہاسپٹل کا ہوا بیٹھا ہے ۔۔۔ اُنکی زندگی میں تیری جگہ ۔۔کدھر ہے۔۔۔؟؟؟
اَرحم ۔۔۔کلوز دس ٹا پک پلیز۔۔ وہ برحم ہوا ۔۔ یہ اسکی دھکتی رگ تھی ۔۔ ہر زخم تازہ تھا ۔۔۔ کچھ بھی تو مند مل نہیں ہوا تھا ۔۔مگر وہ دشمنِ جاں شدید اذیت میں تھی ۔۔۔اور اب ۔۔ ایک گہری چوٹ کھا کر نادم بھی ۔۔۔!!!!
ہر فیصلہ وقت کے ہاتھوں چھوڑ کر وہ ہاسپٹل سے فلیٹ چلا آیا ۔۔ ۔ جو اس نے ایس، ٹی،ای کے کچھ امریکی سپانسرز کی مدد سےحاصل کیا تھا ۔۔۔اُسے اب پیکنگ کرنا تھی ۔۔ اِس فلیٹ میں چند دن بعد منتہیٰ نے رامین کے ساتھ منتقل ہوجانا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپی یہ جبران کے بڑے بھائی ہیں ۔۔ یہ انکا بھتیجا ہے ۔۔ رامین منتہیٰ کو اپنے نکاح کی پکچرز دکھاتے ہوئے ساتھ ساتھ بتاتی جا رہی تھی ۔۔ اس کے چہرے پر شفق رنگ بکھرے ہوئے تھے ۔۔ منتہیٰ نے غور سے اُسے دیکھا ۔۔ نکاح کے بعد وہ پہلےسے زیادہ پیاری ہو گئی تھی ۔۔بات بات پر کھلکھلاتی ۔۔ آنکھوں کے جگنو روشنیاں بکھیرتے ۔۔ کیا محبت واقعی عورت کاروپ بڑھا دیتی ہے ۔۔؟؟ چھوٹی چھوٹی با توں کو اب وہ پہروں بیٹھ کے سوچتی تھی ۔۔ کیونکہ اب سوچنے کے لیئے وقت ہی وقت تھا۔۔۔!!!ڈاکٹر جبران ٹیکساس میں اپنے بڑے بھائی کے ساتھ مقیم تھا ۔۔ رامین اور جبران کا یہیں سے specialization کا ارادہ تھا۔آپی ، آپ کو جبران کیسے لگے ۔۔؟؟ رات رامین نے اُس کے پاس بستر میں گھس کر کر پوچھا ۔۔؟ جبران وہاں سے تھوڑی دیرپہلے ہی گیا تھا ۔۔
Intelligent , smart and decent ہمیشہ کی طرح to the point جواب ۔۔۔
اف۔۔ آپی ۔۔ اچھا یہ بتائیں ہمارا کپل کیسا ہے ۔۔؟؟بہت پیارا ۔۔۔ منتہیٰ نے بچوں کی طرح اُس کے گال تھپتھپائے ۔۔ وہ کہیں اور گُم تھی ۔ارمان بھائی کی کال نہیں آئی کیا ۔۔ جو آپ اتنی کھوئی کھوئی سی ہیں ۔۔؟؟ رامیں نے اُسے چھیڑا
منتہیٰ نے تیزی سے اپنا رُخ پھیرا ۔۔ نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں ۔۔!! اُس دشمنِ جاں کے ذکر پر بہت سے سوئے زخم جاگےجب سے گیا تھا ۔۔ پھر رابطہ ہی نہیں کیا ۔۔۔ یاد تو آنا تھا ۔۔!!کچھ سوچتے ہوئے رامین نے کمرے کی لائٹس آف کیں اور باہر لاؤنج میں آکر ۔۔ ارمان کا نمبر پنچ کیاارمان آفس میں بے انتہا مصروف تھا ۔۔ بیل جاتی رہی ۔۔۔ کافی دیر بعد اُس نے کال ریسیو کی ھیلو رامین ۔۔ خیریت ہے نا ۔۔ منتہیٰ ٹھیک ہیں ۔۔؟؟
اُوہ ۔ہو۔۔ !! نہ سلام ۔۔ نہ دعا ۔۔ بڑا خیال ہے لوگوں کا ۔۔ آخر ہم بھی آپ کے کچھ لگتے ہیں ۔۔۔؟؟ رامین نے شرارت سے دیدے نچائے ۔۔
ارمان نے ریلیکس سا ہوکر چیئر کی پشت سے سر ٹکایا ۔۔ آپ کے بہت کچھ لگتے وہیں قریب ہی ہیں آپ کے پاس ۔۔ !!!ہم مم۔۔۔ اچھا یہ بتائیں آپی کو کب سے کال نہیں کی آپ نے ۔۔؟؟
کال میں کرتا رہتا ہوں ۔۔ کیوں کیا مسئلہ ہے ۔۔ اس نے گول مول جواب دیا وہ کئی دن سے بہت اُداس رہتی ہیں اور گُم صُم بھی ۔۔طبیعت ٹھیک نہیں ہے کیا انکی ۔۔؟؟ تم ڈاکٹر کے پاس لیکر جاؤ ۔۔ جبران کو بلا لو ۔۔
اُن کا ڈاکٹر تو پاکستان میں بیٹھا ہے ۔۔۔!! وہ آپکو مِس کرتی ہیں۔۔!! پلیز انہیں کال کر لیں ۔۔ رامین خدا حافظ کہہ کر کبکی کال کاٹ چکی تھی ۔۔ مگر ارمان اُسی طرح سیل ہاتھ میں لیئے بیٹھا تھا ۔۔۔
رامین کو یقیناٌ کوئی بڑی غلط فہمی ہوئی ہے ۔۔۔ سر جھٹک کر وہ دوبارہ کام میں مصروف ہو چکا تھا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خدا کے قوانین اِس زمین تک محدود نہیں ہیں ، یہ ساری کائنات میں جاری و ساری ہیں۔۔زمین اور اجرامِ فلکی کی پیدائش بھی اُسی خدا کی نشانیوں میں سے ایک ہے ، نیز وہ ذی حیات آبادیاں جو اللہ نے زمین اور آسمانی کروں میں پھیلا رکھی ہیں ۔یہ آبادیاں اس وقت تو الگ الگ ہیں ۔۔لیکن خدا اِس پر قادر ہے کہ انکو باہم ملا دے ۔ )سورۂ الشوریٰ(
ہر انسان قرآن کو اپنی اپنی علمی سطح کے مطابق سمجھتا ہے ۔۔ ۔ اللہ تعالی ٰ نے اگر قرآن پاک صرف چومنے ، سیپارے پڑھنےیا معاشرتی زندگی کے قوانین سمجھانے کے لیئے اتارا ہوتا تو پھر اتنی دقیق آیات کی ضرورت ہی نہ تھی ۔۔ جس طرح اِس آیت کی تشریح کی گئی ہے وہ متجسس ذہنوں پر آگہی کے نئے در وا کرتی ہے ۔۔ منتہیٰ قرآنِ پاک کیcosmology سے متعلق تمام آیات اور انکی ہر طرح کی تشریحات کو اکھٹا کر کے ایک کتاب لکھنے میں مصروف تھی ۔۔ اب اسکا سارا دن لیپ ٹاپ پرگزرتا ہے ۔۔ایک بہتے دریا کے بہاؤ کو اگر روک دیا جائے تو وہ یقیناٌ دریا نہیں رہتا بلکہ جھیل بن جاتا ہے ۔۔ جس کا اپنا علیحدہ حسن ہوتا ہے ۔۔ جینے کی لگن رکھنے والے ہر حال میں جینے کا ڈھنگ سیکھ لیتے ہیں ۔۔ سو اپنی مستقل مزاجی سے پتھر میں سوراخ کرکے منتہیٰ نے بھی اپنے لیئے راستہ بنا لیا تھا ۔۔ ناسا کے انسٹرکٹر زکے لیئے وہ اب کسی کام کی نہیں تھی ۔۔ وہ اپنے ریسرچ پراجیکٹ کے لیئے اُس کے صحت یاب ہونے کا طویل انتظار نہیں کر سکتے تھے ۔۔ ۔البتہ MIT میں اُسکی صلاحیتوں کےمعترف اب بھی کم نہ تھے ،۔۔ اِس کے با وجود اُس کی بڑھتی ہوئی گمبھیر خاموشی کو رامین نے ہی نہیں جبران نے بھی نوٹ کیا تھا ۔۔
یار رامین۔۔ یہ آپی اور ارمان بھائی کے درمیان آل از ویل ہے ۔۔ نہ۔۔؟؟ وہ پوچھے بنا نہ رہ سکا پتا نہیں ۔۔ رامین خود اسی ادھیڑ بن میں لگی تھی۔۔تو پتا کرو نہ ۔۔!!! جبران نے اُسے گھورا کیسے کروں ۔۔؟؟ وہ دونوں ہی گُھنے ہیں۔۔۔
ایکِ ٹرک ہے۔۔ جبران نے کچھ سوچتے ہوئے ۔۔ چٹکی بجائی ۔۔اور پھر رامین کے کان میں پلان بتانے لگا ۔۔
واہ ۔۔کبھی کبھی تم بڑی سمجھداری کی بات کرتے ہو ۔۔ یہ مجھے پہلے کیوں نہ سوجھا ۔۔؟؟
ایکچولی ۔۔ مسز جبران !میں تو ہمیشہ سمجھداری کی باتیں کرتا ہوں لیکن وہ آپکو سمجھ کبھی کبھی آتی ہیں ۔۔جبران نے کالر جھاڑےکیا مطلب میں کم عقل ہوں ۔۔؟؟
رامین نے اُسے آنکھیں دکھائیں ارے نہیں ۔۔ آپ ایک لائق فائق سمجھدار ڈاکٹر ہیں ۔۔ لیکن میری فلسفیانہ باتیں سب ہی کو مشکل سے سمجھ آتی ہیں ۔۔رامین نے ہاتھ میں پکڑا میگزین اُسے کھینچ کر مارا ۔۔ جو بر وقت جھکائی کے باعث کچن کاؤنٹر پر جا لگا ۔۔ رامین کو اب ارمانکی کال کا انتظار تھا ۔۔۔!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارمان گزشتہ دو روز سے اسلام آباد میں تھا ۔۔ جہاں اُسے آفس کی کچھ میٹنگز میں شرکت کرنا تھی اور پھر ڈاکٹر عبدالحق سےملاقات طے تھی۔ جو اَب پاکستان اٹامک انرجی کمیشن میں چیف ایگزیکٹو کے عہدے پر ترقی پا چکے تھے ۔۔ لیکن سیو دی ارتھ سے اُنکا تعلق ہنوز برقرار تھا ۔۔ وہ آج بھی اُس کے تمام نیوپراجیکٹس میں پہلے کی طرح ہی بھر پور دلچسبی لیا کرتے تھے۔
دو دن کا تھکا ارمان گھر پر اپنی خیریت کی اطلاع دیکر یوں گھوڑے گدھے بیچ کر سویا ۔۔ کہ پھر دو بجے شدید بھوک سے آنکھ کھلی ہوٹل ریسیپشن پر کھانے کا آرڈر دیکر اُس نے سینٹر ٹیبل پر پاؤں پھیلائے اور سیل پر کال اور مسجز چیک کرنے لگا ۔۔۔رامین کی کوئی ۲۰،۲۵ مسڈ کالز تھیں ۔۔ چونک کر وہ سیدھا ہوا اور کال ملائی ۔۔۔
رامین اُس وقت منتہیٰ کو ایکسرسائز کروا رہی تھی ۔۔
ھیلو ارمان بھائی کہاں غائب ہیں ۔۔؟؟
وہ بس آفس کی کچھ میٹنگز تھیں ۔۔ تم سناؤ سب خیریت ہے نا ۔۔ منتہیٰ کیسی ہیں ۔۔؟؟اُوہ ۔ہو ۔۔۔ فکر تو بہت رہتی ہے جناب کو ۔۔ رامین نے دیدے نچائے ۔ یہ لیں، خود ہی پوچھ لیں ۔۔ اُس نے سیل منتہیٰ کوتھمایا ۔۔۔
ھیلو منتہیٰ کیسی ہیں آپ ۔۔ ارمان نے دل میں رامین کو۔ کوستے ہوئے ۔ بات کا آغاز کیا ۔۔ دو ماہ سے منتہیٰ سے اُسکا کوئی رابطہ نہیں تھا ۔۔!!!دوسری طرف منتہیٰ کے حلق میں اٹکے آنسوؤں کے گولے نے اُسکی آوا زہی نہیں نکلنے دی ۔۔ منتہیٰ آپ ٹھیک ہیں ۔۔؟؟
ارمان نے دوبارہ پکارا ۔۔ اُسکا خیال تھا کہ منتہیٰ بات نہیں کرنا چاہتی ۔۔۔ اب اُس کے پاس خیال رکھنے والے موجودتھے۔۔ اُسے ارمان کی ضرورت نہیں تھی ۔۔۔۔ وہ ہمیشہ سے صرف ایک ضرورت تھا ۔۔ ۔یہ کڑوی گولی کئی ماہ پہلے ۔۔ارمانPL جھیل کے کنارے نگل چکا تھا ۔۔!!!
جی ۔۔ آنسوؤں پر بند باندھ کر منتہیٰ نے بمشکل جواب دیا ۔۔۔ ارمان نے اُسے معاف نہیں کیا تھا ۔۔!!
اُوکے اپنا خیال رکھیے گا ۔۔ اللہ حافظ ۔۔ ارمان کال کاٹ چکا تھا ۔۔ اور منتہیٰ اِس اجنبیت پر ۔۔ چہرہ ہاتھ میں چھپا کر پھوٹ پھوٹ کر ر و دی تھی ۔۔۔!!!پھر بہت سارے دن یونہی دبے پاؤں گزرتے گئے ۔۔ اِس خاموشی میں پہلا پتھر ۔۔ ارسہ کی آمد نے پھینکا ۔۔ ارسہ کا بیٹا فہام اب ماشاء اللہ دو سال کا تھا ۔۔ اور تین ماہ کی ننھی سی گڑیا علیزے۔۔ دو بچوں کی آمد نے گویا چھوٹے سےفلیٹ کو خو شیوں سے بھر دیا تھا ۔۔!!
’’ایک ہی آنگن کی چڑیاں ۔۔ ساتھ ہنستے کھیلتے ،، لڑتے جھگڑتے ۔۔بڑی ہونے والیاں۔۔دور دیسوں میں جا بستی ہیں ۔۔پھر جب کبھی لمبی مسافتوں کے بعد ایک چھت تلے جمع ہوتی ہیں تو گویا دھنک کے سارے بچھڑے رنگ مل کر سما باندھ دیتےہیں ۔‘‘
 تینوں مل کر سارا دن گپیں ہانکتیں ۔۔ جانے کب کب کی اُوٹ پٹانگ باتوں کو یاد کر کے پہروں ہنستیں ۔۔۔!!!!
آپی میری مانیں ۔۔ اب آپ بھی شادی کر لیں ۔۔۔ ایک روز اِرسہ نے منتہیٰ کو ننھی علیزے سے کھیلتے دیکھ کر مشورہ دیا ۔۔منتہیٰ کے ہاتھ ایک لمحے کو ساکت ہوئے ۔ پھر اُس نے خود کو سنبھال کر علیزے کو بیڈ پر لٹایا۔۔کیوں رامین میں نے صحیح کہا ہے نا ۔۔ آخر ارمان بھائی اور کتنا انتظار کریں گے ۔۔؟؟
ایک لمحے کو منتہیٰ اور رامین کی نگاہیں ملیں ۔۔ پھر منتہیٰ نے تیزی سے رُخ پھیرا۔
ارمان جیسے نیک صفت بندے کے لائق تو وہ پہلے بھی کبھی نہیں تھی ۔۔ پھر اب ۔۔اُس نے اپنی بائیں مفلوج ٹانگ کو دیکھا ۔۔جس میں حادثے کے چار ،پانچ ماہ بعد بھی دورانِ خون بندتھا۔۔۔!!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپی آپ میری شادی میں آئیگی نا ۔۔۔؟؟ 
اِرسہ کے بعد رامین بھی اب پاکستان رختِ سفر باندھنے کو تھی ۔۔ پاکستان میں اسکی شادی کی تاریخ رکھی جانے والی تھی ہاں میری جان کیوں نہیں ۔۔ میں کچھ دن پہلے آجاؤں گی ۔۔ منتہیٰ نے پیار سے رامین کے گال چھوئےدیکھیں ۔۔ اگر آپ نہیں آئی نہ تو میں کبھی شادی نہیں کرونگی ۔۔۔ رامین نے دھمکایاتین دفعہ قبول ہے ۔۔ تو تم میرے بغیر کہہ ہی چکی ہو ۔۔ مینا نے اُسے چھیڑاٹھیک ہے ۔۔ پھر آپ دیکھنا ۔۔ میں رخصتی نہیں ہونے دونگی ۔۔۔ ہونہہ تم نہیں جاؤگی تو۔۔ جبران تمہیں خود ہی اٹھا کر لے جائیگا ۔۔ بہت بے صبرا ہے وہ ۔۔
رامین کے گال شہابی ہوئے ۔۔ لب مسکرائے ۔۔ پھر اُس نے بہن کے گلے میں بانہیں ڈالیں ۔۔ جی ۔۔ارمان بھائی جیساصبر تو کسی کے پاس بھی نہیں ۔۔!!!
اُس دشمنِ جاں کے ذکر پر ۔۔ منتہیٰ کی آنکھوں میں کرچیاں سے اُتریں ۔۔ بیڈ کا سہارا لیکر وہ اٹھی ۔۔ اُسے پیکنگ کرنا تھی رامین کے پاکستان روانہ ہونے سے پہلے اسے نینسی کے ساتھ میسا چوسسٹس میں اُس کے فلیٹ منتقل ہونا تھا ۔۔وہ برسوں پہلے ۔۔ آنے والوں دنوں کا فیصلہ کر لینے والی ۔۔ وہ سپیڈ آف لائٹ کے ساتھ سفر کے خواب دیکھنے والی فی الحال اپنے مستقبل کے کسی بھی فیصلے کے بارے میں تذبذب کا شکار تھی ۔۔ اُسے یقیناٌ پاکستان ہی واپس جانا تھا ۔۔ اپنے ادھورےمنصوبے پورے کرنے کے لیئے ۔۔ لیکن ۔۔ !!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لنچ ٹائم تھا ۔۔۔ ارمان آفس میں ہی کچھ منگوانے کا سوچ رہا تھا کہ ۔۔ سیل تھر تھرایا ۔۔ رامین کالنگ۔۔
ھیلو ۔۔ ویلکم بیک رامین ۔۔ کیسی ہو ۔۔؟؟
ٹھیک ہوں ۔۔ ایسا ہے ارمان بھائی کے آپ کے آفس سے ۲۰ منٹ کی ڈرائیو پر Arcadian cafe ہے ۔۔میں آپکاوہاں انتظار کر رہی ہوں ۔۔ 
سب خیریت ہے نہ ۔۔؟؟ رامین کے انداز پر وہ اَلرٹ ہوا بس آپ پہنچیں ۔۔ پھر بتاتی ہوں ۔۔ رامین نے کال کاٹی ۔۔
ارمان نے ریسٹورنٹ میں داخل ہو کر تیزی سے اِدھر اُدھر نظر دوڑائی ۔۔ اُس کی توقع کے بر خلاف ایک کارنر ٹیبل پر بیٹھی رامین پورے سکون سے سیل پر کینڈی کرش کھیلنے میں مصروف تھی ۔۔
ایسے کیوں بلایا ہے ۔۔؟؟ 
بس بھوک لگ رہی تھی ۔۔ اور پیسے نہیں تھے ۔۔ رامین نے دانت نکالے ارمان نے گہرا سکون کا سانس لیکر چیئر کی پشت سے ٹیک لگایا ۔۔ کیوں تمہارے ڈاکٹر جبران کہاں ہیں ۔۔؟
وہ جہاں کہیں بھی ہیں ۔۔ کیا آپ مجھے ایک وقت کا اچھا سا لنچ نہیں کروا سکتے ۔۔ چلیں جلدی سے کچھ منگوائیں ۔۔ بھوک سے برا حال ہے ۔۔ رامین نے اُسے آنکھیں دکھا ئیں ۔۔
ارمان نے ویٹر کو اشارہ کرتے ہوئے محفوظ ہونے والے اندا ز میں اسے بغور دیکھا ۔۔ آخر وہ منتہیٰ کی بہن ہی تھی۔۔!!!
تمہاری شادی کی تیاریاں کہاں تک پہنچیں ۔۔؟؟ ارمان نے نے فرنچ فرائز اپنے پلیٹ میں ڈالتے ہوئے پوچھا
شادی ۔۔۔!! میں سوچ رہی ہوں کہ شادی کچھ عرصے کے لیئے پھر ملتوی کروا دوں ۔۔۔
واٹ ۔۔؟؟ ارمان ایک جھٹکے سے سیدھا ہوا کیوں ۔۔ کیا مسئلہ ہے ۔۔؟؟
مسئلہ بہت بڑا ہے ۔۔ اگر آپی میری شادی میں نہیں آئیں تو میں شادی نہیں کرونگی ۔۔ !!!
ارمان اُس کے نروٹھے انداز پر مسکرایا ۔۔ ڈونٹ وری ۔۔ وہ آجائیں گی ۔۔تم سے بہت پیار کرتی ہیں وہ ۔۔
آپ دیکھنا وہ نہیں آئیں گی ۔۔ رامین نے منہ بسورا ۔۔ کیونکہ وہ آئیں گی تو امی ابو کی طرف سے اُنکی اپنی شادی کے لئے
دباؤ بڑھے گا ۔۔۔!! 
رامین۔۔ منتہیٰ اپنے پرابلمز بہتر طور پر خود فیس کر سکتی ہیں ۔۔ انہوں نے شادی نہیں کرنی ۔۔ وہ سنبھال لیں گی سب کچھ۔۔ارمان کی آنکھوں میں کرچیاں سے اتری تھیں مگر ۔۔ وہ نارمل تھا ۔۔لیکن وہ تو شادی سے انکار نہیں کر رہیں ۔۔۔!!!
کیا مطلب ۔۔؟؟ ارمان کے ہاتھ سے کانٹا چھوٹ کر پلیٹ میں گرا ۔۔ وہ چونک کر سیدھا ہوا 
جی ۔۔شادی تو وہ کر لیں ۔۔ مگر ۔۔ مسئلہ یہ ہے کہ ۔۔ وہ ایک لمحے کو رکی ۔۔ اپنے دولہا کو تو وہ کچھ عرصے پہلے ناراض کر بیٹھی ہیں ۔۔ رامین کی مسکراہٹ بہت گہری تھی ۔۔
تمہیں کس نے بتایا یہ سب ۔۔؟؟ ارمان نے سامنے دھرے کولڈرنک کے گلاس کو گھورتے ہوئے پوچھا 
کس نے بتانا تھا ۔۔۔؟؟ آپی آپکو بہت مس کرتی ہیں ۔۔۔!!تمہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے رامین ۔۔!!بلکل بھی نہیں ۔۔ یو نو واٹ، بہنیں ایک دوسرے سے بہت کچھ چھپا سکتی ہیں ۔۔ لیکن حالِ دل نہیں ۔۔ میں نے بارہا نوٹ کیا ۔۔وہ آپ کے نام پر چونکتی ہیں ۔۔ لمحوں میں انکی آنکھوں کے کنارے بھیگتے ہیں ۔۔انہوں نے ایک بڑی چوٹ کھائی ہے رامین۔۔ وہ صرف شرمندہ ہیں ۔۔ مجھ ہی سے نہیں ، اپنی ذات سے منسلک اور بھی کئی رشتوں سے ۔۔ میں نے واپس آکر اِسی لیئے کانٹیکٹ نہیں رکھا تھا ۔۔ کہ میں انہیں مزید شرمندہ نہیں کرنا چاہتا ۔۔۔!!وہ بہت مضبوط ہیں ۔۔ ڈونٹ وری ۔۔ وہ موو آن کر جائیں گی ۔۔ ارمان سفاکی کی حد تک حقیقت پسند تھا ۔
جی نہیں ۔۔ وہ آپ سے محبت کرتی ہیں ۔۔ !! اگر آپ چاہتے ہیں کہ وہ ٹوٹ کر بکھریں نہیں ۔۔ موو آن کر جائیں ۔۔ تو پلیزایک دفعہ جاکر ان سے ملیے گا ضرور ۔۔۔!!!رامین اپنا بیگ اٹھا کر کب کی جا چکی تھی ۔۔ اور ارمان اپنی جگہ گنگ تھا
She is in love with you....!!
وہ ایک ایک کر کے رامین کے کہے الفاظ کی چاشنی اپنے اندر انڈیلتا گیا ۔۔!! لیکن نہیں ۔۔!!رامین کو ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے ۔۔ !! اُس نے سر جھٹک کر ویٹر کو بل لانے کا اشارہ کیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Astronomy in the light of Holy Quran ..!!
بہت سوچ کر منتہیٰ نے اپنی بک کا نام تجویز کیا تھا ۔۔ اور اب وہ بک ایڈیٹنگ کو فائنل ٹچز دینے میں مصروف تھی۔۔ سینٹرٹیبل پر فائل اور پیجز بکھرے پڑے تھے ۔۔ تھک کر منتہیٰ نے صوفے کی پشت سے ٹیک لگائی۔۔ کچھ سوچتے ہوئے ریموٹ تھام کر ٹی وی آن کیا ۔۔ پھر چینل پر چینل تبدیل کرتی گئی ۔۔۔ ایک سائنس چینل پر ۔۔ ڈیزاسٹر مینجمنٹ کی کسی انٹر نیشنل کانفرنس کو لا ئیو دکھا نے کی فوٹیج چل رہی تھی ۔۔ دنیا کے ذہین ترین افراد نیو یارک میں ایک پلیٹ فارم پر جمع ۔۔ سر جوڑے بیٹھے تھے ۔ان کے پاس وسائل تھے ، کچھ کر دکھانے کا عزم بھی تھا ۔۔لیکن اُن کے پاس کمی تھی تو صرف ایک چیز کی ۔۔ اِس اعتراف کی ۔۔کہ اللہ تعالیٰ نے تو یہ زمین انسان کو جنت بنا کر عطاکی تھی ۔۔ لیکن اِسے جہنم کا نمونہ اُس نے خود بنایا ہے۔۔ سپر پاورز اور جی ایٹ کے اِن مما لک نے جو آج انسانیت کےنا خدا بنے بیٹھے ہیں ۔۔۔!!!
چند یورپی شرکاء کے بعد سٹیج پر آکر مائک سنبھالنے والا ۔۔ ارمان یوسف تھا ۔۔ ڈارک بلیک سوٹ ، بلیو لائنر ٹا ئی ، آنکھوںپرنفیس فریم کا چشمہ ۔۔ منتہیٰ نے تیزی سے دھڑکتے دل کے ساتھ سکرین زوم کی ۔۔ اس کو اتنے دن بعد دیکھنا کتنا اچھالگ رہا تھا ۔۔ وہ پہلے سے زیادہ گریس فل ہو گیا تھا ۔۔!!
میں ایک ایسے خطے سے تعلق رکھتا ہوں جہاں کے باسیوں کی سوچ صدیوں سے یہ چلی آرہی ہے کہ قدرتی آفات ہمیشہ انسان کے برے اعمال پر اللہ کا عذاب ہوتے ہیں ۔۔ اپنی اس سوچ کے مطابق ۔۔ وہ دعا ؤں ، نذر و نیاز اورصدقہ خیرات کر کے ۔۔اِن آفات کو ٹالنے کی سعی کرتے ہیں ۔۔ اِس یقین کے ساتھ کہ مجموعی اعمال میں کوئی غیر معمولی تبدیلی لائے بغیر خدا اُن پر سے نا گہانی بلا کو ٹال دیگا ۔۔
چھہ برس قبل جب میں نے ایک چھوٹے سے پلیٹ فارم سے اپنی جدوجہد کا آغا زکیا تھا تو میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھاکے میرے لیئے سب سے بڑا چیلنج لوگوں کی یہ قدامت پسند سوچ بنے گی ۔۔ میں نے دیکھا ۔۔ کہ میرے وطن میں جو علاقے سب سے زیادہ قدرتی آفات کی زد پرتھے ۔وہاں کے باسی اپنی اِس سوچ میں اتنے ہی کٹر تھے ۔۔ ایسے لوگوں کالائف پیٹرن تبدیل کر کے انہیں آفات سے از خود نمٹنے کی سٹر ٹیجی کی طرف لانا جان جو کھوں کا کام تھا ۔۔ بہت بار میرے اورمیرے ساتھیوں کے قدم ڈگمگائے ۔۔ کئی دفعہ ہم سب کو اُن کے حال پر چھوڑ کر لوٹنے کو آمادہ ہوئے ۔۔۔ مگر خدا کو ہم سےایک بڑا کام کروانا منظور تھا ۔۔ جس طرح لوہے کو لوہا کاٹتا ہے ۔۔اور زہر کا تریاق زہر ہے ۔۔ میں نے بھی مذہب کا توڑمذہب سے کیا ۔۔ہمارے سامنے نبی آخرالزماں محمدﷺ کی عظیم مثال تھی۔۔ کہ جب وہ تبدیلی کا پیغام لیکر نکلے تو پورا خطہ عرب جہالت کے اندھیروں میں غرق تھا ۔۔ 
آج کے مسلمان کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہُ اس نے محمد ﷺ کے اعجاز سے ظہور میں آنے والے انقلاب کو صرف کتابوں میں پڑھا ہے ۔ اُس نے کبھی اِسےvisualize کرنے کی کوشش نہیں کی ۔۔!! میں نے جانا کے دیرپا تبدیلیاں استقامت اور خونِ جگر مانگتی ہیں ۔۔!!!!
ارمان اِس وقت نیو یارک میں UNO کے ایک معتبر پلیٹ فارم پرکھڑا تھا ۔۔ وہ ایک لمحے کو رکا ۔۔ حاضرین پر ایک اچٹتی نظر ڈالی ۔۔جس میں نہ کوئی ڈر تھا نہ خوف ۔۔اور نہ ہی اِن نگاہوں میں سامنے بیٹھے دنیا کے جینیئس مائنڈزکے لیئے کوئی مرعوبیت تھی ۔۔ وہ مبہوت بیٹھےِ ا س شخص کو سن رہے تھے ۔۔ جو انہیں محمدﷺ کا اصل پیغام سنا رہا تھا کہ انقلابات نہ خود کش دھماکوں کے زور پر آتے ہیں ۔۔ نہ توپوں ، ٹینکوں اور مہلک کیمیائی ہتھیاروں کے بل بوتے پر ۔۔!! انقلاب نام ہے دلوں کی تسخیر کا ۔۔!!
ہم نے چھوٹے چھوٹے گاؤں ، دیہاتوں میں ٹریننگ کیمپس لگائے ۔۔ awareness compaigns چلائیں ۔۔اپنی راتوں کی نیندیں حرام کر کے کبھی سیلاب، کبھی طوفان کی قبل از وقت وارننگ جاری کر کے بر وقت لوگوں کا انخلا کروایا ۔۔زلزلے کے شدید جھٹکوں کے بعد ہم اپنی جان کی پرواہ کیئے بغیر پاکستان آرمی سے بھی پہلے لوگوں کی مدد کو پہنچے ۔۔اور بعد کیRihabilitation میں ااپنا مؤثر کردار ادا کیا یقیناٌ ہم لوگوں کی سوچ مکمل طور پر اب تک تبدیل نہیں کر پائے ۔۔ آج وہاں کوئی ہمیں دیوتا سمجھتا ہے تو کوئی اپنا مسیحا ۔۔لیکن ہماری جدوجہد ہر طرح کے ٹائٹلز سے ماوراء تھی ۔۔!!!
آج آپ پاکستان میں جاکر دیکھیں تو آپکو ہر علاقے میں اسکا اپنا ڈیزاسٹر سینٹر ملے گا ۔۔ جو نا صرف جیو سینسنگ اور کمپیوٹر کی تمام سہو لیات سے پوری طرحoccuped ہے اور بلکہ اُسے وہاں کے مقامی افراد اپنے طور پر خود چلاتے ہیں ۔اِس سےوہاں لوگوں کو بہتر روزگار میسر آیا ۔۔ اور بڑھتی ہوئی دہشت گردی پر بھی قابو پانے میں مدد ملی ۔۔
آج نادرن ایریاز کا غیور پٹھان دوست اور دشمن میں فرق کی تمیز رکھتا ہے ۔۔ وہ پاک آرمی کے ساتھ کھڑا اپنی سرحدوںکا محافظ ہے ۔۔ اور مذہب کے نام پر دہشت گردی کا کھیل رچانے والوں کی گلی سڑی لاشوں کو گدھ نوچ کر کھا چکے ہیں!!یقیناٌ ہمارا سفر ابھی ختم نہیں ہوا ۔۔جب تک پاکستان کا ہر شہری اپنے طور پر نا گہانی آفات سے نمٹنے کی اہلیت حاصل نہیں کر لیتا ہمارا مشن جاری رہے گا ۔۔۔!!!
منتہیٰ نے قریب جا کر حسرت سے سکرین کو چھوا ۔۔۔ رامین نے کہا تھا ۔۔ آپی وہ ایک دفعہ ضرور آئیں گے ۔۔ارمان نیو یارک میں تھا ۔۔۔ بہت قریب ۔۔ کیا وہ آئیگا ۔۔۔؟؟؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو آخر تم جیتے ۔۔اور میں ہارا ۔۔!!! درِ محبوب پر دستک سے پہلے ۔۔ارمان نے اپنے باغی دل کو مخاطب کیا ۔۔ لاکھ پہرےڈالے ۔۔ زنجیریں پہنائیں لیکن بے سود ۔۔۔!!!
آخر تمہیں رامین کی غلط فہمی بھی تو دور کرنی ہے۔۔ بے ایمان دل نے ایک اور عذرِ ناتواں تراشا ۔۔!!
ارمان نے سر جھٹک کر کوئی دسویں دفعہ بیل کی ۔۔ وہ جانتا تھا کہ منتہیٰ کے در۔۔ دیر سے ہی کھلا کرتے ہیں ۔۔ چند منٹ بعددروازے کے دوسری طرف آہٹ سنائی دی ۔۔ پھرڈور آئی سے کسی نے جھا نکا ۔۔ دروازہ کھلنے پر ارمان پلٹا ۔۔!!!
دونوں کی نظریں ملیں ۔۔۔ وقت کی چال تھمی ۔۔ سانسیں ساکت ہوئیں ۔۔ اور پھر ۔۔ وہ دونوں ہی حقیقت کی دنیا میں 
لوٹ چکے تھے ۔۔۔
ہم کے ٹہرے اجنبی کتنی ملاقاتوں کے بعد۔۔۔!!!
منتہیٰ نے راستہ چھوڑا ۔۔ آئیے ۔۔
ارمان فلیٹ کا بغور جائزہ لیتے ہوئے ڈرائنگ روم تک آیا ۔۔ نینسی موجود نہیں تھی ۔۔ پھر مڑ کر اُس دشمنِ جاں کو دیکھا ۔۔اسکی چال کی لنگڑاہٹ نوٹ کی ۔۔ قریب ہی جا نماز بچھی تھی ۔۔ شاید منتہیٰ نماز پڑھ رہی تھی ۔۔
بیٹھیے ۔۔ !! اُسکی آوا ز اتنی مدھم تھی ۔۔ کہ ارمان کو بمشکل سنائی دی نہیں ، میں پہلے نماز پڑھو نگا ۔۔ کیا میں وضو کر سکتا ہوں ۔۔؟؟
منتہیٰ نے کچھ کہے بغیر اُسے واش روم کا راستہ دکھایا ۔۔ اور خود کچن میں کافی بنانے چلی آئی ۔۔
کیا دعائیں یوں بھی قبول ہوتی ہیں ۔۔؟؟ کل سے اُسے دیکھ کر لبوں پر بس ایک ہی دعا تھی ۔۔۔ اور وہ آگیا تھا ۔ارمان نے سلام پھیر کر سجدے کی جگہ کو انگلیوں سے چھوا ۔۔ آدھی جا نماز گیلی تھی ۔۔ آنسوؤں سے ۔۔ وہ کب سے رو رہی تھی ۔۔ ؟؟دکھ سے سوچتے ہوئے ارمان نے گیلی جا نماز فولڈ کی ۔۔
کیسی ہیں آپ ۔۔؟؟ کافی کا مگ اٹھاتے ہوئے ارمان نے اُسے بغور دیکھا ۔۔ سوجی متورم آنکھیں گواہ تھیں کہ تازہ برسات ہوئی تھی۔۔۔!!
ٹھیک ہوں ۔۔ مختصر جواب دیکر منتہیٰ سینٹر ٹیبل پر پھیلے پیجز اور فائل سمیٹنے کے لیئے اٹھی ۔۔ پھر لڑکھڑائی ۔۔ کل سے وہ سب کچھ ویسا ہی پڑا تھا ۔۔آپ بیٹھیے میں سمیٹتا ہوں ۔۔ ارمان کافی کا مگ ہاتھ سے رکھ کر اٹھا ۔۔ پھر پیجز کو فائل میں لگاتے ہوئے چونکا ۔۔ قرآنِ پاک کیآیات بمع تفاسیر تھیں۔۔ یہ آپ کوئی بک لکھ رہی ہیں کیا ۔۔؟؟
جی ۔۔ بس ایک چھوٹی سی کوشش کی تھی ۔۔۔ اب مکمل ہونی والی ہے ۔۔
اچھا ۔۔!! پھر کوئی پبلشر ڈھونڈا ۔۔؟؟ارمان کی دلچسبی بڑھی ۔۔ وہ جانتا تھا ۔۔ منتہیٰ ایک بہترین رائٹر ہے ۔۔
نہیں ۔۔ یہ شائع نہیں کروانی ۔۔ بس یونہی لکھی ہے ۔۔
ارمان نے اُسے بغور دیکھا ۔۔ وہ پہلے کی نسبت کچھ مزید کمزور، زرد ۔۔اور بجھی بجھی سی تھی ۔۔
میں یہاں ایک کانفرنس کے سلسلے میں آیا تھا ۔۔ سوچا آپ سے مل لوں ۔۔ کوئی مسئلہ تو نہیں ۔۔ اُسے اب بھی بہت فکر تھی ۔۔!!
نہیں۔۔ جھکی نظروں کے ساتھ پھر مختصر جواب آیا ۔۔ ایک لمحے کو سکارف درست کرنے کے لیئے منتہیٰ دایاں ہاتھ سر تک لیکرگئی ۔۔ ارمان کی نگاہیں اپنی جگہ منجمد ہوئیں ۔۔۔!!منتہیٰ کی نازک سی کلائی میں ارمان کا دیا ہوا ۔۔بریسلٹ تھا ۔۔!!!
یہ اعزاز ملا بھی تو کب ۔۔؟؟ جب اُن کے درمیان میں صدیوں کے فاصلے تھے ۔۔ اور فاصلوں سے اونچی اَنا کی دیوار حائل تھی ۔۔۔!!!
کیا میں اِسے ساتھ لے جاسکتا ہوں ۔۔؟؟ اٹھتے ہوئے ارمان نے منتہیٰ سی اسکی بک فائل لے جانے کی جازت چاہی ۔ میں دو تین دن تک یہیں ہوں ۔۔ نیو ائیر سیلیبریشن کے وجہ سے تمام فلائٹس بک ہیں ۔۔میں جاتے ہوئے آپکو واپس کر جاؤنگا۔اُس کے بے ایمان دل نے اٹھتے ہوئے بھی دوبارہ حاضری کا بہانا تراش لیا تھا ۔۔!!!
ہوٹل پہنچ کر ارمان نے کافی کے سپ لیتے ہوئے منتہیٰ کے پاس سے لائی فائل پڑھنا شروع کی ۔۔۔ اور پھر صبح تک ایک ہی نشست میں وہ کتاب ختم کر چکا تھا ۔۔ منتہیٰ کی صلاحیتیں ایک بڑے حادثے سے گزرنے کے بعد کچھ اور کھل کر سامنے آئی تھیں ۔۔ ’’ جب غرور کا بت ٹوٹ جائے ۔۔ تو اندر سے نکھرا ، اُجلا اور ہر حال میں اپنی اوقات یاد رکھنے والا انسان ۔۔اللہ کا عاجز بندہ باہر نکل آتا ہے ۔۔‘‘
ارمان شام کو اپنے ہوٹل سے نکلا ۔۔ برف کے چھوٹے چھوٹے گالے گرنے لگے تھے ۔۔ اور جاتے سال کے آخری سورج نے غروب ہونے سے بہت پہلے ہی ۔۔اپنا چہرہ چھپا لیا تھا ۔۔ دکھوں اور کڑی آزمائشوں پر محیط زندگی کا ایک سال ختم ہونے کو تھا! وہ فیصلہ کر کے نکلا تھا ۔۔ کہ منتہیٰ کو اِس کتاب کی پبلشنگ پر ضرور قائل کریگا ۔۔!!
کل کی نسبت منتہی آج قدرے بہتر حالت میں تھی ۔۔ آپی آپکو بہت مس کرتی ہیں ۔۔ کانوں میں رامین کے کہے الفاظ گونجےکافی دیر کی بحث اور تمحیث کے بعد منتہیٰ کتاب کو شائع کرانے پر راضی ہوئی تو ارمان سکون کا سانس لیتے ہوئے جانے کے لیئےاٹھا ۔۔ پبلشنگ کی تمام ذمہ داری وہ پہلی ہی لے چکا تھا ۔۔!!
ارمان ۔۔!! منتہیٰ نے اُسے پکارا ۔۔ وہ ٹھٹک کر پلٹا ۔۔ اِس پکار میں کچھ تھا ۔۔!!!
ارمان۔۔ آ۔۔آپ ۔۔ وہ اٹکی ۔۔ 
کیا بات ہے منتہیٰ۔۔؟؟ وہ براؤن جیکٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے پوری طرح اُسی کی طرف متوجہ تھا ۔۔
ارمان۔۔ آپ مجھے بھی پاکستان ساتھ لے جائیں ۔۔ منتہیٰ نے پھولی سانسوں کے ساتھ بمشکل اپنی بات مکمل کی ۔ایک لمحے کو ساری دنیا گھومی ۔۔ کئی مدار بدلے گئے تھے ۔۔ یہ لرزتی پلکیں ، یہ کپکپاتے لب۔۔، یہ کانپتے ہاتھ ۔۔ وہ کیا کہناچاہ رہی تھی ۔۔۔؟؟ ارمان کا دل یکدم بہت زور سے دھڑکا تھا ۔دبے پاؤں بہت سے لمحے سرکے ۔۔ کچھ ساعتیں گزریں ۔۔ پھر ارمان خود کو سنبھال چکا تھا ۔۔
لیکن آپ تو MIT جوائن کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں ۔۔ پھر ناسا مشن ۔ ۔۔آپکا خواب تھا ،، اُسے بھی تو پورا کرنا ہے آپ نے۔۔ ارمان نے زخمی مسکراہٹ کے ساتھ چوٹ کی ۔۔!!اور لوہا شاید کچھ زیادہ ہی گرم تھا ۔۔بھاڑمیں جائیں خواب ۔۔ مجھے صرف اپنے وطن ۔ اپنی مٹی میں واپس جانا ہے ۔۔ اپنے پیاروں کے پاس ۔۔۔!! ناسٹالجیا کا اٹیک شدید تھا ۔۔ آنسوؤں کی جھڑی لگی ۔۔ارمان نے کچھ کہنے کے لیئے لب کھولے ہی تھے۔۔ کہ اسکا سیل تھر تھرایا ۔۔ ممی کالنگ ۔۔وہ ایکسکیوز کرتا ہوا راہداری تک آیا۔۔ کال ریسیو کرنے سے پہلے وہ ایک فیصلہ کر چکا تھا ۔۔۔!!!
بہت دیر تک چہرہ ہاتھوں میں چھپائے ۔۔ منتہیٰ روتی رہی ۔۔ پھر اُسے یکدم ارمان کا خیال آیا ۔۔ وہ چلا تو نہیں گیا ۔۔ وہ تیزی سے لپکی ۔۔ ارمان کی آوازپر اُس کے بڑھتے قدم تھمے۔۔۔جی پاپا ۔۔ بس آپ کل ہی جا کر انکل سے ڈیٹ فکس کر آئیں ۔۔ وہ دیوار سے ٹیک لگائے کھڑا تھا ۔۔ آہٹ پر چونک کر پلٹاپھر جلدی سے خدا حافظ کہہ کر کال کاٹی ۔۔۔ سوری ممی کی باتیں ہی ختم نہیں ہو رہی تھیں ۔۔ آپ ساتھ جانا چاہتی ہیں ۔۔ تو موسٹ ویلکم ۔۔۔ خوش دلی سے جواب دیکر وہ دروازے کی طرف بڑھا ۔۔
ارمان۔۔اُس کے بڑھتے قدم ایک دفعہ پھر تھمے ۔۔ وہ مڑا ارمان آپ یوسف انکل سے کون سے ڈیٹ فکس کرنے کی بات کر رہے تھے ۔۔ ؟؟منتہیٰ کی سوئی کہیں اور اَٹکی رہ گئی تھی وہ ٹھٹکا ۔۔ بمشکل تھوک نگلی ۔۔ وہ منتہیٰ۔۔ دراصل ممی مجھے اب بلکل بھی ٹائم دینے کے لیئے تیار نہیں ۔۔ وہ میری واپسی کے چند ہفتے بعد ہی کی کوئی ڈیٹ شادی کے لیئے رکھ دیں گی ۔۔۔!!! 
آپ شادی کر رہے ہیں ۔۔۔؟؟ منتہیٰ کو لگا جیسے کسی نے سماعت پر بم پھوڑا ہو ۔۔ ایک ایسا وقت ارمان پر بھی آیا تھا ۔۔!!
لیکن کس سے ۔۔؟؟
وہ بس ممی ،پاپا کی جاننے والی کوئی فیملی ہے ۔۔ اچھا میں چلتا ہوں ۔ اللہ حافظ بظاہر بہت عام سے لہجے میں بتا کر ارمان جا چکا تھا ۔۔۔ اور منتہیٰ وہیں راہداری میں ۔۔ دیوار سے ساتھ بیٹھتی چلی گئی تھی ۔۔!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یورپ ، امریکہ ، فرانس، دبئی ۔۔ ایک عالم نئے سال کا جشن منانے کے لیئے سڑکوں پر امڈا ہوا تھا ۔۔ کہیں آتش بازی کی تیاریاں تھیں توکہیں رات بھر کی ہلڑ بازی ، جشنِ عیش و نشاط کی ۔۔ !!انسان بھی عجیب مخلوق ہے ۔۔ خود فریبی کے نا جانے کیسے کیسے طریقے ایجاد کر لیئے گئے ہیں ۔۔ ایک ایسے سال کا جشن منایاجا رہا تھا ۔۔ جس کے بارے میں کوئی بھی نہیں جانتا تھا ۔۔ کہ وہ اُن سب کے لیئے کیسے دکھ ، کیسی آزمائشیں ۔۔ ، کیسے خطراتاور کون کون سی آفات اپنے جلو میں لیئے وارد ہونے والا ہے ۔۔۔!!!
وہ جو آج جشن سالِ نو کی بد مستی میں سب سے آگے تھے۔۔کل اِسی سال کو رخصت کرتے ہوئے۔۔ کوسنے دینے میں بھی سب سے بڑھ کر ہوں گے ۔۔!! انسان جب اپنی زندگی سے اعلیٰ مقاصد کو نکال کر صرف اپنے لیئے جینا شروع کر دے۔۔ تو پھر ہیپی نیو ایئر اور ہیپی ویلنٹائن ڈے جیسی اصطلا حیں وجود میں آتی ہیں ، جن کا درحقیقت سرے سے کوئی سر پیر ہی نہیں ہوتا۔برج خلیفہ پر دنیا کے سب سے بڑے اور بے مثال آتش بای کے مظاہرے کا انتظام تھا ۔۔۔ کیا دنیا کے اِن کھرب پتیوں کوبھوک اور امراض سے مرتے افریقی قبائل نظر نہیں آتے ۔۔؟؟ کیا ایشیا میں غربت کی سطح سے کہیں نیچے بسنے والے کروڑوںافراد اِن کی نظروں سے پوشیدہ ہیں ۔۔؟؟؟
آنکھوں پر پٹی تو کسی کے بھی نہیں بندھی ہوئی ۔۔۔ ہاں۔۔اگر انسان خود ہی نہ دیکھنا چاہے تو الگ بات ہے۔۔!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منتہیٰ دستگیر کی دنیا اِس وقت شدید طوفانی جھکڑوں کی زد پر تھی۔۔۔ وہ کیوں رو رہی تھی ۔۔؟؟ اُسے کیا حق تھا ۔اُس شخص پر جسے وہ خود چھوڑ چکی تھی ۔۔ اپنے روشن مستقبل اور اپنے خوابوں کی تعبیر پانے کے لیئے ۔۔۔؟؟
وہ آسمان کی بلندیوں سے پاتال کی کھائیوں میں گری تھی ۔۔۔۔ اور وہ یقیناٌ خداکی ذاتِ پاک ہی تھی۔۔ جس نے اُس کےنصیب کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں امید کی شمعیں فروزاں کی تھیں ۔۔غم کی طویل رات ختم ہو چکی تھی ۔۔اور سپیدۂ سحر نمودار ہونے کو تھا ۔۔ منتہیٰ نے فجر کی نما زکے بعد قرآنِ پاک کھولا ۔
’’اور انسان طبعاٌ انتہائی نا شکرا واقع ہوا ہے۔۔جب اسکو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ پورے قلبی جھکاؤ کے ساتھ اپنے اللہ کو پکارتاہے ۔۔ لیکن اس کے بعد جب اُسے آسائش میسر آتی ہے تو وہ اپنی ساری گریہ و زاری کو بھول کر کہنے لگتا ہے کہ اسکا مسیحا تو کوئی اور بنا ۔۔ ‘‘ ( سورۂ الازمر )
آیت کیا تھی ایک برچھی تھی جو سیدھی منتہی ٰ دستگیر کے سینے پر عین وسط میں پیوست ہوئی تھی ۔۔ اور ارمان یوسف اُس کے صبر کاانعام نہیں تھا ۔۔۔ یہ فیصلہ ہو چکا تھا ۔۔۔!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے۔۔۔


اگلی قسط دس دن بعد اپلوڈ کی جائیگی۔۔۔ برائے مہربانی  کمنٹ کیجئے اور فیس بک پیج پر اپڈیٹ چیک کرتے رہیئے




Share on Google Plus

About Unknown

0 comments:

Post a Comment