WELCOME TO MELTED TRUTHS

All Truths are easy to understand once they are discovered;the point is to discover them.(Galileo Galilei)

عشق رسولﷺ Prophet Mohammad PBUH


عشق رسولﷺ



"سرور ِ کونین ، فخرِ موجودات ، حبیبِ کبریا ، حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی شان یہ ہے کہ  زمین کے سارے درخت کاٹ کر قلم بنا دیئے جائیں ، اور سارے سمندروں کے پانی  کو روشنائی میں ڈھال کر لکھا جائے ، تو سارے قلم ٹوٹ جائیں ساری روشنائی  ختم ہو جائے اور لکھنے والے ہاتھ لکھتے لکھتے ناکارہ ہوجائیں مگر پھر بھی میرے حبیبﷺ کی قصدہ خوانی تشنہ رہ جائے ۔"
 کہنے والے اُسےاعلیٰ قسم کی لفاظی  کہیں گے کہ جب سے کمپیوٹر، موبائلز  اور انٹر نیٹ نے ہماری زندگیوں کو اپنے پُر فریب جال میں جکڑا ہے ، زندگی سے کتاب  اورقلم کا رشتہ جیسے ٹوٹتا  جارہا ہے۔ اب کس کے پاس اتنا وقت ہے کہ گھنٹوں بیٹھ کر موٹی موٹی کتابوں میں سر کھپائے اور پھر ورق پر ورق کالے کرتا جائے ۔  آج کے اس ڈیجیٹل دور میں ہر کسی کے لیئے آسان ترین طریقہ لیپ ٹاپ اور سمارٹ فونز ہیں جن پر ہر طرح کی معلومات ایک کلک پر  دستیاب ہیں ۔ اور ہم یہ سوچے سمجھے بغیر گوگل پر میسر اسلامی معلومات بھرپور استفادہ کرتے ہیں کہ ان تفصیلات کا ماخذ کیا ہے ؟ کہیں ان میں قرآن ، حدیث اور اسلامی تاریخ سے ہٹ کر ملاوٹ تو نہیں کردی گئی ۔یہ کس حد تک تصدیق شدہ ہیں؟؟  اور یہ کہ بنا  چھان بین کی   اس طرح کی معلومات کو فیس بک ، ویب سائٹس اور بلاگز پر پوسٹنگ کے لیئے استعمال کرنے کے  نتائج کتنے بھیانک ہو سکتے ہیں ؟؟ اِ ن ملاوٹ شدہ معلومات کو شیئر کرنے سے نا صرف غیر مسلموں میں اسلام کے حوالے سے کنفیوژن بڑھتی ہے۔ بلکہ اِن کی وجہ سے  فرقہ پرستی کا زہر اتنا پھیل گیا ہے کہ  ہر فرقہ دوسرے فرقے والے کا گلا کاٹنے پر آمادۂ خاطر نظر آتا ہے ۔ اسلام ، قرآن اور حضورِ پاک ﷺ سے عشق کے دعوے کرنے
 والوں  کا اصل  چہرہ دیکھنے کا ایک بہت آسان سا نسخہ ہے ۔کہ انہیں کسی دوسرے ٹکر کے فرقے والے کےساتھ ڈیبیٹ پر بٹھا دیں ۔ پھر دنیا ہی نہیں آسمان بھی تماشہ دیکھتا ہے ، تب یہ قرآن  یا حدیث کو سمجھنے کا اختلاف نہیں رہتا ۔ بلکہ نفس غرور اور جاہ کی جنگ بن جاتی ہے  جسے  ہر حال میں جیتنا ہی آج کے مسلمان کا اولین مقصد ِ حیات ٹہرا ہے ۔۔ نہ دلوں میں ایک دوسرے کے لیئے گنجائش رہی ہے ۔ نہ دماغ دوسرے کی صحیح بات کو ماننے پر تیار ہیں ۔
کیا یہی عشق ہے کیا یہی پیار ہے
شکلِ عاشق سے معشوق بےزار ہے
عاشقِ نامدار اک  نظر دیکھیئے۔۔
عاشقی کی عمارت تو مسمار ہے ۔۔
آج کا مسلمان عشقِ رسول ﷺ کے دعوے کرتے وقت یہ قطعاََ بھول جاتا ہے کہ جس ہستی کی محبت کا وہ الم بردار  بنا  ،اپنے ہی مسلمان بھائی کا گریبان چاک کرنے  اور سر پھوڑنےپر مصر ہے ۔اُس عظیم المرتبت شخصیت کا ایسے وقتوں میں اپنا فعل کیا تھا ؟؟ وہ تو خطا کار سے درگزر کرنے والا اور اپنے حسنِ عمل سے بداندیش کے  دل میں  گھر کرنے والا اشرف ترین انسان تھا ۔ کہ جس کے سامنے پہاڑ بھی سجدہ ریز تھے ۔ وہ چلے تو ہوائیں اُس کے سنگ اپنا  رخ موڑ لیتی  تھیں وہ رکے تو دریاؤں کی تند و تیز موجیں اُس کے ساتھ تھم جایا کرتی تھیں ۔ یہ بلند و بالا  چوٹیاں ، یہ ٹھاٹیں مارتے دریا ، یہ شوریدہ سر سمندر کی   لہریں ، یہ چلتی ہوا ، یہ پربتوں پر اڑتے روئی کے گالوں سے بادل ۔ یہ سب بھی اُسی خدا کی  ثنائی پرمقررہیں ،جس نے مجھے ، آپکو ۔۔ اس کائنات کے ذرے ذرے کو صرف کن کہہ کر تخلیق کیا تھا۔ان کے پاس انسان کی طرح زبان نہیں ہے سو انکا ہر عمل حبیب ِ خدا ﷺ سے انکی والہانہ محبت کا گواہ ہے ۔ اور ہم مسلمان جو دل ، دماغ اور زبان  جیسے حسیات رکھنے کے علاوہ ۔  محمدﷺ کے امتی بھی ہیں اور ایک عظیم ورثے کے امین بھی ۔ انکا عمل ۔۔ یہ آئے دن کی سر پھٹول اور تو کافر میں مسلمان کی ہر طرف سے اٹھتی صدائیں ، دنیا کے سامنے ہمارے عشقِ رسولﷺ کی کیسی عمدہ تصویر کشی کرتی  ہونگی ۔
کیا یہی ہے مسلماں کا چال و چلن
معصیت ، معصیت پھر بھی اصرار ہے
طالبِ مغفرت بھی تو کوئی بنے
یہ بجا ہے کہ اللہ  غفار ہے ۔
آج  سارے عالم میں اسلام کا عمومی تصور ایک ایسے اکھاڑے کا ہے ۔۔ جس میں ہر ٹیم( فرقہ) اپنے کیپٹن ( عالمِ دین) کے ساتھ   لنگرلنگوٹ کس کر اترا ہواہے۔۔ یہاں مخالف کو پچھاڑنے کے لیئے ۔ جو بھی داؤ  آزمودہ ہوں، ہر کوئی بلا چوں چرا، بنا کسی خوف ِ خدا ، عذابِ قبر اور ہیبتِ روز محشر کے استعمال کرنے پر کمر بستہ نظر آتا ہے ۔ یہاں جب نفس کا کتا بھونکنا شروع کرتا ہے تو پھر ساری آوازیں پسِ پشت چلی جاتی ہیں ۔ نا قرآنِ پاک کی وہ دل گداز آیات یاد رہتیں ہیں  کہ جن کو پڑھ کر دھواں دار آنسو بہائے جاتے تھے ۔ نا   کوئی حدیث ، سنتِ رسولﷺ دماغ کے کونوں کھدڑوں، دریچوں ، روزنوں سے    اپنی جھلک دکھلاتی ہے۔ جن میں ماسٹرز کا ہر  تیسرا  بندہ یہاں دعویدار ہے ۔ یاد رہتی ہے تو بس حبِ جاہ  اور مخالف کو ہر حال میں چت کر دینے کی آرزو ۔۔ جس کو  پورا کرنے کی دھن میں اگر کفر  اور منافقت کی حدود بھی پار کرنی پڑیں تو کوئی مذا ئقہ نہیں ۔
منہ دکھائے گا کیسے سرِ حشر تو
پیٹھ پرجو گناہوں کا انبار ہے
اور تو ہے کہ گھر میں سویا پڑا
جوشِ ایمان شاید کے بیمار ہے
اپنی ہستی کو حق پر مٹا کر دکھا
اے مسلماں اگر تو وفادار ہے
    یقیناَ۔ گزرے زمانوں ،اوربیتے وقتوں کی دھول میں ۔  ہمارے اسلاف  اسلام کے اُن اعلیٰ اوصاف کو کہیں گنوا آئے ہیں ۔۔ جو اسلام کا جزو لافینک ہیں ۔ اسلام تو نام ہے اپنے حسنِ عمل، بلند کردار اور بہترین اخلاق سے  مخالف کے دل میں یوں  گھر کرنے کا ، کہ آپ خود بھی وہ گھر چھوڑنا چاہیں ۔ تو در و دیوار اجازت نہ دیں ۔ مگر آج کے مسلمان کا ظرف اتنا چھوٹا ہے کہ وہ اپنے علاوہ کسی اور کے نفع کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتا ۔آج روشنیاں پھیلانے کے دعویدار  یہ بھول بیٹھےہیں  دوسروں کے لیئے گھنی چھاؤں بننے کے لیئے ، تپتی دھوپ میں جھلسنا پڑتا ہے ۔  روشنیاں بکھیرنے کے لیئے خود  دیے بن کر جلنا پڑتا ہے ۔۔  یہ تیل سے پیدا ہونے والا نور نہیں ہوتا ۔۔ بلکہ  یہ روشنی دراصل اللہ پاک کی بخشش ہے جو  اس نے اپنے کرم سے ہر دیے کو عطا کی ہے۔ آج ہم ایک ایسے دور میں   جی رہےہیں جہاں فرقہ واریت ، لا قانونیت ، جرائم ، اور  مذہب کے نام پر رواں دہشت گردی نے سانسوں تک  کوآلودہ کردیا ہے ۔۔ یہ ظلمت کے اندھیرے کیونکر چھٹے گیں ۔؟؟ اللہ نے انبیاء ، رسول اور آسمانی کتابوں کا سلسلہ بند کیا تھا ۔۔ مگر ہدایت کے در اب بھی ہم پر کھلے ہیں ۔۔  اب کوئی محمد ﷺ نہیں  آئیگا ۔ جو خود کانٹوں پر گھسٹتا رہے ۔اور لوگوں کے لیئے  اندھیرے راستوں میں مشعلیں فروزاں کرتا رہے ۔ وہ جس نے اپنے حسنِ عمل سے  عرب کے وحشی قبائل کو  زیر کر لیا تھا ، وہ نہ جادوگر تھا نہ کاہن ۔۔  بلکہ دیکھا جائے تو وہ پڑھے لکھے بھی نہ تھے ۔۔ ان کے پاس میری آپکی طرح ڈگریوں اور سرٹیفیکیٹس کےانبار بھی نہ تھے ۔۔ نہ وہ ایسے غیر معمولی ذہین  انسان تھے ، جو اپنی تھیوریز ، فلسفے یا ٹیکنالوجی سے لوگوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیتے ، ان کے پاس صرف ایک تھیوری ، ایک کلیہ اور  ایک قانون تھا  جس کا منبع  اعلیٰ اخلاق و کردار اور مثالی اوصاف تھے ۔ وہ پتھر کا جواب اینٹ سے ، اور ایک تیر کے جواب میں سو تیر مارنے کی قدرت رکھنے کے باوجود  ہمیشہ مصالحت ، عفو کرم ، درگزر اور  صلاح صفائی کو ترجیح دیتے تھے ۔اور ہم ایسے نبی ﷺ کی امتی ہو کر اُس مغرب کو فولو کرنےمیں مگن ہیں جو ایٹم بم کے جواب میں کیمیائی ہتھیار ، اور  کروز میزائل کے توڑ میں کلسٹر بم بناتا ہے ۔ بلکہ اب تو  یہ  داستانیں بھی قصۂ پارینہ ہو چکی ہیں ۔۔آج کل   جنگیں کلچر  اور ثقافت کو تباہ کرکے ، مخالف   کو معاشی اور معاشرتی لیول پر زیر کرکے  ٹیکنالوجی کی مار  دیکر لڑی جاتی ہیں ۔
سیرتِ مصطفی ، صورت مصطفیﷺ
کیا ترقی کی راہوں میں دشوار ہے
غیر کے رستے پر چلتا ہے کیوں
راہِ سنت پر چلنے میں کیا عار ہے
اپنے اسلاف کو دیکھتا کیوں نہیں
کیوں نئی روشنی کا پرستار ہے
ہمارے اعلی اخلاق و کردار والے ، دین کا نور پھیلانے والے سچے لوگوں کو چن چن کر ، گاجر مولی کی طرح کٹوایا جاتا رہا، اور ہم اپنی آنکھوں  پر پٹی باندھے اغیار کی پیداوار فیس بک ، واٹس ایپ اور آئی ایم او پر  اپنی شامیں راتیں بتاتے رہےنمازیں پڑھتے رہے ، روزے رکھتے رہے ، حج و عمرہ  کے ٹیگ سے اپنی پیشانیاں جگمگاتے رہے ، اور ہمارے ارد گرد  مسلمان بھائیوں کا خون نا حق بہتا رہا ۔۔ لوگ مرتے رہے ، میلاد کی روح پرور محفلیں سجتی رہیں  اور دل معشوق کی محبت سے خالی ہوتے رہے ۔۔ اور  پھربھی حبِ حبیبِ کبریا ﷺ کے دعوے ہوتے رہے ۔۔!!
کیا یہی عشق ہے کیا یہی پیار ہے
شکلِ عاشق سے معشوق بے زار ہے

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭



Share on Google Plus

About Unknown

2 comments: