WELCOME TO MELTED TRUTHS

All Truths are easy to understand once they are discovered;the point is to discover them.(Galileo Galilei)

افق کا چہرہ لہو سے تر ہے APS Tregedy



افق کا چہرہ لہو سے تر ہے۔۔۔

تحریر: عفیفہ بخاری


16 دسمبر کو پا کستانی تا ریخ کے دو بڑے واقعات رونما ہوئے ۔پہلا سانحہ سقوط ڈھاکہ کا تھا، جب ہمارے ملک  کا آدھا حصّہ ہم سے کٹ گیا۔تب کیا منظر ہوگا ا ور  تکلیف کی کیسی شدت ہوگی، ہم نے اس کا مشاہدہ نہیں کیا۔ تاہم دوسرا  بڑا سانحہ جو 2014 میں رونما ہوا، اس دن کی تکلیف اور شدت بیان سے باہر ہے۔ یوں لگتا تھا کہ آنکھوں سے آنسو نہیں خون ٹپک رہا ہو۔ وہی خون جو پشاوراسکول  میں بچوں کا بہایا جارہا تھا۔۔
پاکستان ایک عرصے سے دہشت گردی کا عذاب جھیلتا آرہا تھا۔ دوسروں کے مفادات کی جنگ میں پاکستانی خون ایندھن کا کام کر رہا تھا۔ بلخصوص شہر پشاور کا ذکر کیا جائے تو شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو  جس نے اپنے پیاروں کا خون اس ایندھن کا حصّہ نہ بنتے دیکھا ہو۔لیکن اس شہر کے لوگ  اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے پر امید تھے۔ ہزاروں ماؤں کی طرح   اے پی ایس میں پڑھنے والے بچوں کی مائیں بھی آنکھوں میں حسین خواب سجائے ہر طرح کے حالات میں اپنے بچوں کو اسکول چھوڑ کر آیا کرتی تھیں۔
 16 دسمبر کا دن بھی ویسا ہی دن تھا۔بچوں کو اسکول چھوڑ کر آتے ہوئے کسی کو معلوم نہیں تھاکہ کچھ دیر بعد کیسا ہولناک منظر دیکھنے کو ملے گا۔ گولیوں سے چھلنی در و دیوار  فرش پر جا بجا بکھرا ہوا خون ، خون میں لتھڑی کتابیں، کا پیوں پر بہترین طلبا کے تبصرات کے نیچے خون کے قطرات، ٹوٹی پنسلیں، خون سے بھرے ہوئے جوتے، ایسے مناظر دیکھ کر تو موت بھی کا نپ گئی ہوگی۔ کوئی نہیں جانتا تھا یہ صبح عام صبح نہیں ہےبلکہ اس دن ظلم و بر بریت ، خون ریزی اور قتل و غارت گری کی ایسی مثال پیش کی جائے گی جو ہلاکو خان اور چنگیز خان جیسے ظالموں کو  بھی لرزا جائے گی۔ یہ صبح انسانیت اور اخلاقیات  کی تمام حدود کو توڑ کر درندگی کی انتہا کو بطور مثال پیش کرے گی۔
اس دن فرنٹیر کا نسٹبلری کی وردیوں میں ملبوس دہشت گردوں نے ان نہتے بچوں پر حملہ کر دیا جو مستقبل کے ہزاروں خواب آنکھوں میں سجائے ہوئے تعلیم حاصل کرنے گیے تھے۔ اطلاعات کے مطابق انہوں نے اس کام کے لیے اسکول کا عقبی حصّہ استعما ل کیا ۔اڈیٹوریم میں گھستے ہی ان درندوں کے اندھا دھند فائرنگ شروع کردی ۔ اس کے نتیجے میں 148 افراد جن میں 132 بچے تھے، شہید ہوگئےاور زخمی ہونے والوں کی تعداد 124 تھی۔
جب یہ واقعہ رونما ہوا تب بھی سوال یہی تھا  کہ ان بچوں کا خون کس کے ہاتھوں پر تلاش کیا جائے؟ آج بھی یہی سوال ہے کہ آخراصل  مجرم کون ہے؟
 سانحہ کے بعد ایک شہید بچے کی والدہ کا کہنا تھا کہ،
"کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ پاک فوج اپنے ہی بچوں کو نہ بچا سکی؟کہاں گئی آئی ایس آئی، کہاں گیا وزیر داخلہ اور  اس کی خبر  گیری؟"
ایک طالب علم  اسفند خان کی والدہ مسز شاہا نہ اجون نے کہا،
"اسکول کی حفاظت کی بنیادی ذمہ داری آرمی کی تھی اور انہوں نے کیا سیکورٹی کی تھی وہ اس بارے میں والدین کو بتائیں ۔ اس کےبعد وفاقی اور صوبائی حکومتیں ذمہ دار ہیں ۔"
ان دونوں بیانا ت کو دیکھا اور محسوس کیا جائے تو واقعی حقیقت یہی ہےلیکن ذرا ٹھریے اپنے ہاتھ بھی دیکھیے کہیں یہاں بھی تو خون کے دھبے نظر نہیں آرہے! اے پی ایس اٹیک ظلم و بر بریت کی کہا نی کا نقظہء عروج تھا مگر یہ کہا نی شروع کہاں سے ہوئی؟ شیعہ سنی فسادات سے یا علا قائی اور قبائلی جھگڑوں سے؟ یا تب شروع ہوئی جب قادیانوں کو مارا جا  رہا تھا،عیساؤ ں کو جلایا جارہا تھا، ہندوؤں کو زبر دستی مسلمان کیا جارہا تھا اور ہم سب خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے۔ اگر ہم ان سب واقعات پر خاموش نہ رہتے ، اگر ہم پہلے دہشت گرد حملے پر اٹھ کھڑے ہوتےتو اتنا قیمتی خون نہ بہتا۔ اگر چھوٹے چھوٹے حملوں کا مقابلہ کرتے تو بڑے واقعات پیش نہ آتے۔ ان معصوم بچوں کے قتل کے ذمہ دار انٹیلی جنس ایجنسیاں، سیکورٹی ادارے ، صوبائی اور ملکی حکومت کے ساتھ ہم بھی ہیں۔ ہم سب نے مل کر ان بچوں کو دھوکہ دیا ، خود کو اور اپنی آنے والی نسلوں کو بھی دھوکہ دے رہے ہیں۔
پشاور اٹیک کے بعد  تمام سیاسی جماعتوں نے ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا  ہونے کا تہیہ کیا، لیکن یہ عہد پہلے کیوں نہیں کیا گیا؟ 6 سال بعد سزائے موت کے قیدیوں کو پھانسی کا حکم دیا گیا مگر سوال یہ ہے کہ چھ سال تک کیوں انہیں ہمارے خرچے پر پالا جا تا رہا؟ اس طرح فوری طور پر جو فیصلے لیے گیے کیا اس سے قبل ان  فیصلوںکی ضرورت  نہ تھی؟ اس سب کے بعد سب سے اہم سوال تب کیے جا نے والے فیصلوں پر کس حد تک عمل درآمد ہوا اور ہورہا ہے؟ کیا یہ بات طے ہو چکی  ہے کہ پاکستا نی قوم شدید تکلیف کے وقت ہی ایک ہوگی؟ کیا کبھی ایسا نہیں ہوگا کہ ہم بحیثیت قام اتنے مضبوط ہو جائیں کہ اس طرح کے حادثات رونما ہی نہ ہونے دیں؟ ہمیشہ ہوں ہوتا ہے جب وقت ہمارے زخموں پر مرہم رکھ دیتا ہے تو ہم زخم ہی بھول جاتے ہیں۔ اب کی بار بھی دو سال گزرنے پر یہ احساس ہورہا ہے کہ ہم اپنے زخم بھولتے جا رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے نہ صرف ظلم و بر بریت کے اس واقعے کو یا د رکھا جائے بلکہ اس سے سبق حاصل کیا جائے تاکہ آئندہ اس طرح کے واقعات سے بچا جا سکے۔

کہاں ہے ارض و سماں کا مالک ؟
جو چاہتوں کی رگیں کریدے
ہوس کی سرخی رخِ بشر کا
حسین غازہ بنی ہوئی ہے
کوئی مسیحا ادھر بھی دیکھے
کوئی تو چہرا گری کو اترے
افق کا چہرہ لہو سے تر ہے
زمین جنازہ بنی ہوئی ہے

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
Share on Google Plus

About Unknown

0 comments:

Post a Comment