WELCOME TO MELTED TRUTHS

All Truths are easy to understand once they are discovered;the point is to discover them.(Galileo Galilei)

زندگی بھر نہیں بھولے گی وہ دسمبر کی سحر۔۔ THE REAL TALE OF 16th DECEMBER 2014


THE REAL TALE OF 16th DECEMBER 2014
The "BLACK DAY"






زندگی بھر نہیں بھولے گی  وہ دسمبر کی سحر۔۔


دھند میں ڈ وبی ہوئی  دسمبر کی وہ اک سرد سی صبح تھی۔ رات سے چلتی تیز ٹھنڈی ہوائیں چیڑ ، دیودار  اورصنوبر کے درختوں سے ٹکراتی، سر پٹکتیں جیسے کسی انہونی کے ہونے سے پہلے ہی ماتم کا آغاز کر چکی تھیں۔ اور بلند و بالا یہ درخت جو ہواؤں کی زبان  پوری طرح سمجھتے تھےمحض بے بس تماشائی تھے ۔ بہت تیزی سے جھڑتے اُن کے خزاں ذدہ پتوں نے آرمی پبلک سکول پشاور کو جاتی اس سڑک اور  اُس کے عقب کو  اپنی دبیز چادر سے یوں ڈھانپ رکھا تھا ۔ جیسےوہ اُس خفیہ  راستے کو چھپا دینا چاہتے ہوں ، جہاں سے کچھ دیر بعد پاکستان 
کی تاریخ کی سب سے بڑی اور  ہولناک ترین نقب لگنے والی تھی۔ مگر ہونی تو ہر حال میں ہوکر رہتی ہے ۔



مین گیٹ سے ایڈمنسٹریشن  بلاک کی  طرف جاؤ ، تو پرنسپل طاہرہ قاضی  سفید سویٹر اور بلیک شال  میں ملبوس ہمیشہ کی طرح چاک و چوبند آفس میں داخل ہوتی نظر آتی تھیں۔ آرمی کالونی میں موجود اپنے گھر سے سکول تک پہنچنے میں انہیں بشمکل پانچ سے دس منٹ لگتے تھے  مگر وہ ہمیشہ   وقت سے پہلے آنے کی عادی تھیں۔۔ انکی اسی روٹین کے باعث سکول کا عملہ بھی وقت کا  انتہائی  پابند تھا ۔ میڈم قاضی کی اپنے پیشے سے لگن اور کمٹمنٹ کا یہ عالم تھا کہ دو برس قبل انہیں " پرنسپل آف دی ایئر" کے اعزاز سے نوازا جا چکا تھا ، وہ ہمہ جہت ۔ باہمت اور بلند حوصلہ خاتون تھیں۔ جو بڑے سے  بڑے خطرے کے سامنے سینہ سپر ہونے کی طاقت رکھتی تھیں ، مگر اُس روز ان کا مشفق ، ذہین چہرہ کچھ اور ہی طرح جگمگاتا تھا ۔ طاہرہ قاضی کی قابلیت اور انتطامی صلاحیتوں کا ایک عالم معترف تھا  مگر آج وہ ایک اور سنگِ میل  عبور کر کے ہمیشہ کے لیئے  امر ہونے والی تھیں ۔ تاریخ کے جھروکوں میں جھانکوں  تو ہر زمانے میں ایک سے ایک لائق اورقابل استاد مل جائےگا ۔ مگر جو اعزاز 16 دسمبر 2014 کو اپنی لازوال قربانی کی بدولت طاہرہ قاضی کے حصے میں آیا ۔۔ وہ مقام  نصیبوں والوں کو ملتا ہے ۔


پرنسپل آفس سے چند قدم کے فاصلے پر  سٹاف روم میں جاؤ تو افشاں سحر، بینش  پرویز اور حفصہ خوش سمیت کافی ٹیچرز آچکی تھیں ۔ بینش پرویز  لندن یونیورسٹی کی فارغ التحصیل  ایک انتہائی قابل استاد ، اور تین  معصوم بیٹیوں کی ماں تھیں ۔۔ افشاں سے باتیں کرتے ہوئے بھی ان کا دھیان ، اِس وقت بھی اپنی سب سے چھوٹی بیٹی میں اٹکا ہوا تھا  جو ٹھنڈ بڑھ جانے کے باعث موسمی فلو اور کھانسی کا شکار تھی ۔ گھر سے نکلتے وقت جب انہوں نے اپنی  بے خبر سوتی  ننھی پری کو کمبل میں اچھی طرح لپیٹ کر  اسکی پیشانی  چومی تھی ۔۔ تو دل نا جانے کیوں بہت اداس تھا ۔ شاید یہ ایک ماں کا وجدان تھا کہ آج کے بعد وہ پھر کبھی اپنی بیٹیوں سے نہیں مل پائے گی ۔ یہ ننھی معصوم جانیں ماں کی شفقت اور محبت بھری چھاؤں سے ہمیشہ کے لیئے محروم ہونے والی تھیں۔


  بینش کی طرح افشاں بھی اُس روز کچھ کھوئی کھوئی سی  تھی ۔ نہ دل کو قرار تھا ۔نہ طبیعت پر وہ روز کی طرح کی خوشگواری تھی جس کے باعث ۔۔اسکا شمار سٹوڈنٹس کی  پسندیدہ ترین ٹیچرز  میں ہوتا تھا ۔ چوبیس سالہ افشاں سحر ایک باہمت اور بہادر لڑکی تھی  مگر وہ اتنی نڈر ثابت ہوگی کہ آگ کے شعلوں میں گھر کر بھی اپنے معصوم سٹوڈنٹس کی جان بچاتی رہے گی ، یہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا ۔ وہ ملعون جنھوں نے اُسے زندہ نذرِآتش کیا یہ  قطعاََ بھول بیٹھے تھے ۔کہ  یہ آگ دوزخ کی اس ہلاکت خیز نار کے سامنے کچھ بھی نہیں ۔ جس کا روزِ قیامت وہ خود ایندھن بننے والے ہیں ۔


سٹاف روم کے سامنے  ہی خشک پتوں سے ڈھکا  برا سا لان تھا ، جس کے ایک کونے پر کھڑا مبین شاہ  تیزی سے گرتے خزاں ذدہ پتوں کو دیکھتا اپنی جگہ دم بخود تھا ۔۔ یہ  منظر بس میرے ایک پرفیکٹ کلک کا منتظر ہے ۔۔ وہ کچھ سوچتے ہوئےہولے سے مسکرایا ۔ مگر کیمرے کا شیدائی ، " سیلفی بوائے " کے نام سے مشہور  مبین بے خبر تھا  کہ  اس روز وہ اسکی زندگی کا آخری کلک تھا۔ اور پھر اُس کے وہ فیس بک اور ٹویٹر اکاؤنٹس ہمیشہ کے لیئے سونے رہ جائیں گے  جنھیں وہ  آئےروز نت نئی تصاویر ، سیلفیز اور دوستوں کے ساتھ گروپ فوٹوز سے سجانے  کا از حد شوقین تھا ۔ فیس بک پر اس کا آخری سٹیٹس  تھا ۔" ہم وہ قوم ہیں جس کی مسکراہٹ بندوق سے زیادہ طاقتور ہے "


لان کے پار دوسری طرف کلاسز کا سلسلہ شروع ہوجاتا تھا ۔  جہاں اب کافی تعداد میں سٹوڈنٹس آچکے تھے ۔۔ اور روز کی طرح خوش گپیوں میں مصروف تھے۔  نائنتھ کلاس میں صرف ایک سٹوڈنٹ داؤد ابراہیم غیر حاضر تھا ۔ یار آج داؤد نہیں آئیگا کیا ۔۔ عامش  سلمان نے  اذان تریالئی سے پو چھا۔پھر ایک دفعہ تفکر سے رسٹ واچ دیکھی ۔۔ اسیمبلی میں بہت تھوڑا سا ٹائم رہ گیا تھا ۔ داؤد کے بغیر  کلاس میں عامش کا دل ہی نہیں لگتا تھا ۔۔ رات ہی اسکی بات ہوئی تھی ۔


داؤد کسی رشتہ دار کی شادی میں گیا تھا ۔ اور جیسا کہ ہمارے ہاں شادیوں کا معمول ہے ۔واپسی دیر سے ہی ہواکرتی ہے ۔ تو مسٹر داؤد خوابِ خرگوش کے مزے لینے میں مصروف ہیں ابھی تک ۔۔ ٹہر جا کل جب آئیگا نا ۔۔ تو دیکھنا میں نےتیری کیسی کلاس لینی ہے ۔۔ عامش نے غصے سے وال کو مکا مارا ۔۔ مگر وہ کل تو اُس کے مقدر میں ہی نہیں تھی ۔ عامش ، اذان، ر فیق بنگش ۔  یسین  سمیت  امنگوں اور ولوں سے  بھرپور، داؤد کے سارے کلاس فیلوز ہمیشہ کے لیئے اس سے بچھڑ گئے ۔ الارم نے اسکی جان بچا لی تھی ، یا شہادت اس کے مقدر  میں ہی نہیں لکھی گئی تھی ۔۔؟؟


 کلاس کے دروازے پر سکول کا " برائیٹسٹ سٹوڈنٹ"  محمد عمر حیات گردن میں مفلر کستا دیکھا جا سکتا تھا ۔ وہ آرمی ٹیم کی طرف سے دی جانے والی فرسٹ ایڈ ٹریننگ کے لیئے پوری طرح مستعد اور پُر جوش تھا ۔ آرمی تو اس کا خواب تھی ، دن رات اٹھتے بیٹھتے ۔ آرمی کا عشق یوں سر چڑھ کر بولتا تھا کہ اسے کچھ اور دکھائی ہی نہ دیتا تھا۔ دوسرے سٹوڈنٹس کے بر عکس اسکی فیس بک پروفائل بھی آرمی کے سٹیٹس سی بھری پڑی تھی۔۔ عمر حیات کے خواب تو کبھی تعبیر نہ پاسکے ۔مگر وہ لاکھوں  کے لیئے مشعلِ راہ ضرور بن گیا ۔ کیونکہ شہید کا خون تاریک راہوں میں وہ چراغ فروزاں کرتا ہے جو امر ہیں ۔ جن کی روشنی تا ابد اپنی ضوفشانیاں بکھیرتی رہتی ہے ۔

دسویں کلاس میں سب ہی طالبعلم آچکے تھے ۔ جو بظاہر خوش گپیوں میں مصروف تھے مگر  سب ہی پر اس روز ایک عجیب سی کسلمندی سوار تھی ، بظاہر وہ روز کی طرح ایک دوسرے پر پھبتیاں کس رہے تھے مگر  اندر سب کا دل ناجانےکیوں بہت اداس تھا ۔۔  کانوں میں سیٹیاں سی بجتی تھیں ۔۔ ہوائیں کچھ نئی خبریں انہیں سنانا چاہتی تھیں ۔۔ مگر وہ انکی زبان سمجھنے سے قاصر تھے ۔۔  اُس روز سکول کی گھنٹی کانوں کو کسی تازیانے کی طرح معلوم پڑتی تھی۔۔ اور پھر وقت رخصت کچھ اور قریب آیا ۔ دنیا نے   ٹی وی چینلز پر لائیو ظلم و بربریت کی ایک انوکھی خون آشام داستان رقم ہوتے دیکھی ۔کہیں والدین روتے پیٹتے اپنے لختِ جگروں کے لیئے سرگرداں نظر آتے تھے ۔۔ تو کہیں ایمبولینس کی قطارماحول کی حولناکی کو کچھ اور سوا کرتی تھی ۔۔ کتنی خون کی ندیاں بہیں ۔ ایک سو اڑتالیس جانیں گئیں ۔ جو ننھے پھول علم کی پیاس بجھانے نکلے تھے  ، ظالموں نے ان کے خون سے اپنی بربریت کی پیاس بجھا ڈالی ۔ وہ بچے جو جہالت کی تاریکیوںمیں علم و آگہی کے چراغ جلانے نکلے تھے ۔ دہشت گردوں نے انکی زندگی کے چراغ گل کر کے دنیا کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ اسلام جاہلوں کا مذہب ہے جس کے نام لیواؤں کا اولین مقصد قتل و غارت گری اور ایک لا قانونیت کا راج قائم کرنا ہے ۔۔ مگر  یہ ننگِ انسانیت  لوگ یہ بھول بیٹھے ہیں کہ اسلام اللہ پاک کا دین ہے جس کے  پودے کی آبیاری اس کے حبیبﷺ نے اپنے خونِ جگر سے کی تھی ۔ یہ خونِ ناحق یقیناََ ضائع نہیں جائیگا ۔ یہ جلد یا بدیر آنے والے اس کا انقلاب کا پیش خیمہ ہے جس کے بعد ایک نئی سحر کا سورج طلوع ہوگا  اور ظلمت کے یہ اندھیرے انشاءاللہ ہمیشہ کے لئے چھٹ جائیں گے ۔

لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوح ِ ازل میں لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہِ گراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گے
سب محکوموں کے پاؤں تلے
یہ دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
اور ظالموں کے سر اوپر
یہ بجلی کڑ کڑ  کڑکے گی
جب ارضِ خدا کے کعبے سے
سب بت اٹھوائے جائیں گے
ہم اہلِ صفا، مردودِ حرم
مسند پہ بٹھائے جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
بس نام رہے گا اللہ کا
جو غائب بھی ہے حاضر بھی
جو ناظر بھی ہے منظر بھی
اٹھے گا انا الحق کا نعرہ
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
اور راج کرے گی خلق خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


Share on Google Plus

About Unknown

0 comments:

Post a Comment