WELCOME TO MELTED TRUTHS

All Truths are easy to understand once they are discovered;the point is to discover them.(Galileo Galilei)

"علامہ اقبال اور فلسفۂ آد میت" Manhood philosophy of IQBAL


"علامہ اقبال اور فلسفۂ آدمیت"
ALLAMA IQBAL AND MANHOOD PHILOSOPHY

ڈا کٹر علامہ محمد اقبال  ایک  ایسا نام ہے جس سے آج کی ڈیجیٹل ورلڈ اور سوشل میڈیا کی چکا چوندمیں جینے والی نوجوان نسل بھی بخوبی آگاہ ہے ۔۔ اگرچہ اِس نوجوان نسل میں اقبال کی شاعری اور فلسفۂ زندگی  کو سمجھنے والوں کی تعداد  شاید آٹے میں نمک کے برابر ہو ۔۔ پھر بھی بہت غنیمت ہے کہ انگلش پر فخر کرنے والی۔۔  وارن بفے، کارل سیگان اور پائلو کوئلوکی دلدادہ۔۔آج کی اِس یوتھ کے لیئے علامہ اقبال۔۔ایک پسندیدہ اور معتبر شخصیت کا درجہ رکھتے ہیں۔۔!!
مرے جنوں نے زمانے کو خوب پہچانا۔
وہ پیرہن مجھے بخشا جو پارہ پارہ نہیں۔۔
غضب ہے عین کرم میں بخیل ہے فطرت
کہ لعل و ناب میں آتش تو ہے شرارہ نہیں

9 نومبر 1877 کو سیالکوٹ میں پیدا ہونے والا ایک عام سا دیہاتی طرزِ زندگی کا شیدائی ۔جس کو پہلی نظر میں دیکھ کر یہ یقین کرنا مشکل ہوتا تھا کہ اسِ سادہ فطرت شخص کی ذات  کی اتاہ گہرائیوں اور روح کی پنہائیوں میں ایسےتلاطم اور طوفانِ بلا خیز مخفی ہیں ۔۔ جس کے اشعار  آج بھی گلیشیئرز کی برفوں کو پگھلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔۔ عموماَََ گھر میں ۔۔بانس کی چارپائی پر ۔۔
دھوتی میں ملبوس ۔۔ حقہ گڑگڑاتے ہوئے ۔۔ دیکھا جاتا تھا ۔۔  یہ آج کی آئیڈیلزم کی ماری  نوجوان نسل کے لیئے ایک عمدہ مثال ہے ۔۔ جو قول و فکر کے بجائے ۔۔ ظاہری حالت، نمود ونمائش ۔۔ سٹائل۔۔ جاذبیت اور جسمانی کشش سے  بہت جلد متاثر ہو کر۔۔آئیڈیل کو آئیڈول  بنانے میں  کچھ زیادہ وقت نہیں لگاتی ۔۔

شاعری صدیوں سے انسان کا نفسِ مضمون رہا ہے۔۔ جس کے ذریعے وہ اپنے خیالات۔۔ زمانے کی ٹھوکروں سے حاصل ہونے والے اسباق ۔۔اور زندگی کے اُن نشیب و فراز ، اتار چڑھاؤ اور مدو جزر  کو  کبھی سہل ۔۔ تو کبھی  رمز و کنایہ  میں بیان کرتا رہا ہے ۔۔ مگر علامہ اقبال نے اِسے ۔۔ایک انوکھے طرزِ فکر میں ڈھال کر ۔۔اس قدر دلنشین انداز میں پیش کیا ۔۔جو انہیں۔۔ادب کی دنیا میں امر کرنے کے ساتھ ساتھ " شاعرِ مشرق" جیسے اعلیٰ اعزاز سے نوازے جانے کا سبب بنا ۔۔




بلاشبہ اقبال کی شاعری ۔۔زندگی کے اُس فلسفے  کے پردے چاک کرتی نظر آتی ہے ۔۔ جو روٹین لائف گزارنے والے عام  سمجھ بوجھ رکھنے والے انسان کی ذہنی اپچ سے بہت اوپر ہے۔۔
یہ عام آدمی کے روٹی ، کپڑا ۔۔اور مکان کے تصورِ زندگی کی نفی کرتے ہوئے ۔۔ اُسے (اوریجن) منبع ۔۔اور کریئیٹر(خالق) سے قریب تر کر کے ۔زندگی کے مخفی راستوں سے گزارتےہوئے خالق اور مخلوق کے اصل تعلق سے روشناس کرواتی ہے

خرد مندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے
کہ میں اِس فکر میں رہتا ہوں میری انتہا ء کیا ہے۔۔

انسان کی اصل حقیقت کیا ہے ۔۔؟؟  اُس کی تخلیق کا مقصد کیا تھا ۔۔ کیا وہ صرف انفرادی یا گھریلو ۔۔خاندانی سطح پر زندگی گزارنے کے لیئے اِس دنیا میں بھیجا گیا تھا ۔۔؟؟  یہ فلسفے کے وہ سوالات ہیں جن پر ہر دور میں ۔۔ مفکرین ، دانشور  حضرات اور علماء ۔۔ اپنی اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق اظہارِ خیال کرتے رہے ہیں ۔۔ اقبال کی شاعری کا ما خذ کائنات کے عالمگیر قوانین رہے ہیں ۔۔ سو اُسکے مطابق اِن سوالات کے بہترین جوابات ۔۔  اِس  کائنات کی عالمگیر سکیم میں ہی پوشیدہ ہیں۔۔۔
ترے مقام کو انجم شناس کیا جانے
کہ خاک زندہ ہے تو تابعِ ستارہ نہیں

سائنس اور قرآن ۔۔دونوں ہی اس امر پر پوری طرح متفق ہیں ۔۔ کہ یہ کائنات ۔۔ اجرام ِ فلکی اور آسمانوں پر کہکشاؤں کا  وسیع سلسہ ۔۔ سب کچھ  انسان کی تخلیق سے بہت پہلے وجود میں آچکا تھاآج سائنسدان ۔۔فلکیات میں روز افزوں تحقیق کے ساتھ کائنات کے جن سر بستہ رازوں  کو منکشف کرنے پر ہمہ وقت  سرگرداں ہیں۔۔ قرآنِ پاک اُن رازوں پر سے صدیوں پہلے پردہ اٹھاچکا ہے ۔۔ مگر قرآن کی اِن آیات کے اصل مفہوم کو سمجھ کر ان پر تحقیق کر نے کی جو ذمہ داری اللہ پاک نے مسلمانوں پر ڈالی تھی ۔۔ وہ اُس کو پورا کرنے سے قاصر رہے ۔۔



اِس کائنات کے عالمگیر نظام پر  غور کیجئے ۔۔ یہاں کی ہر شے دوسری شے سے تعاون کرتی نظر آئیگی ۔۔زمین سورج کے گرد محوِ گردش ہے ۔۔ جو زندہ حیات کے لیئے  لازم و ملزوم حرارت کا وا حد ماخذ ہے ۔۔زمین کے علاوہ اِس نظام ِ شمسی کے باقی  8سیارے بھی اسی مرکز کے گرد محوِ خرام ہیں ۔۔ ہر ایک کا منبع سے فاصلہ یقینا ََ مختلف ہے ۔۔مگر سب کا مرکز ایک سورج ہی ہے ۔۔
موجودہ تحقیقات کے مطابق ۔۔سورج ۔۔بذاتِ خود ( ملکی وے) کہکشاں کے گرد گردش کر رہا ہے ۔۔
کچھ ایسا ہی نظام انسانی زندگی کا بھی ہے ۔۔ زمین پر بسنے والے انسان ۔۔ چھوٹے ، بڑے ۔۔اعلیٰ و ادنیٰ ۔۔نیک و بد ۔۔ ہر طرح کی فطرت ، جبلت اور رغبت کے حامل رہے ہیں ۔۔ مگر سب کا خالق ، مالک ۔۔اور مرکزو محور صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ِ پاک ہے ۔۔ جو ہر خوبی کا سزاوار ہے ۔۔ مگر انسان جو اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز تھا ۔۔ خدا کے اِن عالمگیر قوانین کو  ۔۔اجرامِ فلکی کی طرح فولو نہیں کر سکا ۔۔ اُس کی فطرت  اسے ایک ہی مدار میں گردش کرنے سے روکتی ہے۔۔ وہ میسر سے جلد دل بھر جانے ۔۔اور بہت کچھ پانے کی دھن میں جب ایک  دفعہ خدا کے متعین راستے سے ہٹتا ہے ۔۔ تو پھر ساری عمر کی در بدری ۔۔ صحرا نشینی ۔۔ ذلت و رسوائی ۔۔ہی اسکا مقدر ٹہرتی ہے ۔۔

یہ گنبدِ مینائی ۔۔یہ عالمِ تنہائی ۔۔۔۔۔۔۔
مجھ کو تو ڈراتی ہے ۔۔اِس دشت کی پنہائی


ایک اور مقام پر اقبال انسان کی حالتِ زار کو کچھ  یوں بیان کرتے ہیں ۔۔

بھٹکا ہوا راہی تو۔۔ بھٹکا ہوا راہی میں ۔۔۔
منزل ہے کہاں تیری ۔۔اے لالۂ صحرائی

غور کیجیئے ۔۔اگر  مریخ اپنے مدار سے تھوڑا سا بھی ہٹ جائے۔۔ یا کسی  شدید طاقتور بیرونی قوت کے زیرِاثر ۔۔اپنے مدار سے مکمل نکل جائے ۔۔تو بلاشبہ اِس بے کراں کائنات میں اُس کی حیثیت ایک بھٹکے ہوئے مسافر کی سی ہوگی ۔۔وہ آسمانوں کی لا محدود وسعتوں میں ہمیشہ کے لیئے گم ہوجائیگا ۔۔کیونکہ خلا میں تمام اشیاء ایک دوسرے سے بہت زیادہ فاصلے پر ہونے کے باعث ۔۔کششِ ثقل یا دوسری باؤنڈڈ فورسز سے  بندھی ہوئی نہیں ہوتی ۔۔ لیکن زمین پر کششِ ثقل ۔۔ اشیاء ہی نہیں ۔۔انسانوں کو بھی گم نہیں ہونے دیتی۔۔ایک معین وقت تک ۔۔زمانے کی ۔۔ٹھوکروں اور نشیب و فراز سے گزر کر بھٹکا ہوا ۔۔خدا کے قوانین کا منحرف  انسان۔۔کسی نا کسی سٹیج پر ۔۔واپس اپنے مدار  ۔۔ اپنی اصل میں لوٹ ہی آتا ہے ۔۔ کیونکہ  زندگی کا مرکز و محور صرف ایک اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ۔۔ انسان لاکھ ہاتھ پاؤں مارے ۔۔ وہ خدا کے دائرے سے فرار نہیں ہو سکتا ۔۔۔

نہنگِ زندہ ہے اپنے محیط میں آزاد ۔۔
نہنگِ مردہ کو موجِ سراب بھی زنجیر ۔۔

اللہ پاک چاہتا تو اُس کے لیئے ۔۔چنداں مشکل نہ تھا ۔۔کہ وہ انسان کو بھی ۔۔اِن اجرامِ فلکی اور دیگر مخلوقات کی طرح  عالمگیر قوانین کا تابع اور ایک ہی دائرے پر زندگی گزارنے کا پابند کر۔۔اِ سکے بجائے اُس نے انسان کو نا صرف عقل و شعور عطا کیا ۔۔ بلکہ اِس زمین پر اپنا نائب بنا کر مکمل اختیار و اقتدار بھی  عطا کیا۔۔تاکہ وہ اپنے حواس کو استعمال کرتے ہوئے ۔۔اچھےبرے ۔۔ نیک و بد اور خیر و شر میں امتیاز کرتے ہوئے۔۔ اپنے لیئے ازخود زندگی کا راستہ متعین کرے۔۔اور اِس معمے کو حل کرنے میں اس کے حواس ِ خمسہ کے بعد ا نسان سب سے بڑی مددگار اسکی "خودی"  رہی ہے ۔۔

خودی کی پرورش و تربیت پر ہے موقوف
کہ مشت ِ خاک میں پیدا ہو آتشِ ہمہ سوز
رباعیاتِ ارمغانِ حجاز میں اِسی  پیغامِ خودی کو علامہ اقبال کچھ یوں بیان کرتے ہیں ۔۔

کبھی دریا میں مثلِ موج ابھر کر
کبھی دریا کے سینے میں اتر کر ۔۔
کبھی دریا کے ساحل سے گزر کر ۔۔
مقام اپنی خودی کا فاش تر کر ۔۔

آج مسلمانوں کی حالتِ زار۔۔اور موجودہ عالمی حالات پر غور کیجیئے ۔۔سائنس ۔۔علم و ادب۔۔ فنونِ لطیفہ ۔۔ غرض یہ کہ کون سی ایسی فیلڈنہ تھی جہاں مسلمان مفکرین ، دانشوروں اور سائنسدانوں نے اپنی قابلیت کا سکہ نہ بٹھا دیا تھا۔۔ صدیوں پر محیط ۔اوج و کمال سے تر بتر شیرازے تک کا  یہ طویل سفر طے کرتے ہوئے ۔۔  امتِ مسلمہ نے  اپنی اعلیٰ ترین صفت "خودی" کو کہیں بہت پیچھے راستے کی بھول بھلیوں میں گم کر دیا ہے ۔۔آج کا مسلمان سارے عالم میں رسوا ہے ۔۔ دنیا کا کوئی ایسا کونہ نہیں رہا جہاں مسلمان کا "خونِ ناحق " نہ بہایا گیا ہو ۔۔  کہیں غیروں کے ہاتھوں۔۔ تو کہیں اپنوں نے سینے میں دشمنیوں کے خنجر گھونپ کر ۔۔ہمیں  تباہی و بربادی کے پاتال میں لا دھکیلا ہے ۔۔ اور ہم پھر بھی نوشتہ دیوار پڑھ کر کچھ سبق سیکھنےکے بجائے ۔۔ مغرب کی پیداوار ۔۔ سوشل میڈیااور ڈیجیٹل ورلڈ میں خود کویوں گم  کیئے بیٹھے ہیں ۔۔ کہ اقبال کا فلسفہ خودی ۔۔ ہمارے لیئے ۔۔ "چہ معنی دارد ۔۔"
اور آخر میں امت ِ مسلمہ کے نام ۔۔اقبال کا ایک پُر امید پیغام۔۔۔ اندھیرا جب بہت بڑھ جائے تو پھر یقینا سحر قریب ہی ہوتی ہے ۔۔

سر شکِ چشم ِ مسلم میں نیساں کا اثر پیدا
خلیل اللہؑ کے دریا میں ہوں گے گہر پیدا
کتابِ ملت ِ بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے
کہ شاخ ِ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگو بر پیدا
جہاں بانی سے دشوار تر کارِ جہاں بانی ۔۔
جگر خوں ہو تو چشم ِ دل میں ہوتی ہے نظر پیدا

                                      ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭                          


                 بلاگ پر کمینٹ سیکشن پر کیمنٹ کیجیے۔۔آپ کے فیڈبیک کا انتظار رہے گا 

Share on Google Plus

About Unknown

4 comments:

  1. It is very interesting . I liked it very much. It contains an important lesson for us. May the Muslims rise again and lead the world !

    ReplyDelete
  2. It is very interesting . I liked it very much. It contains an important lesson for us. May the Muslims rise again and lead the world !

    ReplyDelete
  3. Khudi ka cocept sb se pahly shaid molana roomi Ny diya that magr Allama Iqbal NY isay aik naye andaz main biyan kiya. Asar e khudi farsi main aik shahkar ki tarah hai. Is k alawa manhood k topic per bhat umda explain kiya ap ny iqbal ko. Badi baat hai ap iqbal ko itna parh rahi hain or samaj b rahi hai. I apreciate you for that. But ye teh hai jitni badi shaksiyat iqbal hain unain thora bhat samajna hi badi baat hai. Iqbal to khud b Iqbal se aashnaa nhn hai... To hum kiya hain.

    ReplyDelete