WELCOME TO MELTED TRUTHS

All Truths are easy to understand once they are discovered;the point is to discover them.(Galileo Galilei)

The Eternity Last Episode " دوام"




دوام

An inspirational and alluring tale of a Scientist's love to her
HOMELAND 

از صادقہ خان                                                                         




ارمان فجر کی نماز پڑھ کر کھڑکی میں کھڑا تھا ۔۔ اور موسم کی تمام پیشن گو ئیوں کے بر خلاف ۔۔نئے سال کا پہلا سورج پوری آب و تاب کے ساتھ طلوع ہوا تھا ۔ کل شام سے گرتی کچی بر ف، سورج کی کرنیں پڑتے ہی ۔۔ چاندی کی طرح جگمگانےلگی تھی۔۔!!!
رات بھر ۔۔سالِ نو کا جشن منانے والے ۔۔ نشے میں دھت اپنے اپنے بستروں میں مدہوش پڑے تھے ۔۔ !!
’’
اور یہ طلوع ہوتا سورج ، یہ گرتی برف ، ۔یہ پربتوں پر روئی کے گالوں جیسے اُڑتے بادل۔۔، یہ سونا مٹی ۔۔ اور اِس سےپھوٹتی ہریالی ۔۔ انسان سے شکوہ کنا ں تھی ۔۔۔ ‘‘
کیا خدا نے یہ سب نعمتیں اِس لیئے اتاری تھیں ۔۔کہ انسان کی زندگی کا مرکز و محور۔۔ صرف اور صرف اُسکی اپنی ذات۔۔۔ ٹہرے ۔۔؟؟
وہ عیش و مستی میں دن رات خدا کی اِن سب نعمتوں کی نا قدری کرتا ہے ۔۔ انسانیت کی تذلیل کرتا ہے ۔۔ او ر وہ قطعاٌ بھول بیٹھا ہے کہ اگر کسی روز سورج نے طلوع ہونا بند کر دیا ۔۔ چاند نے سمندروں  پر اپنا فسوں بکھیرنا چھوڑ دیا ۔۔ یایہ ہر دم رواںرہنے والی ہوا ۔۔ کسی دن ہمیشہ کے لیئے اُس سے روٹھ گئی ۔۔ تو پھر وہ کہاں جا ئیگا ۔۔۔؟؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تین دن بعد کی فلائٹ ہے ۔۔ آپ پیکنگ کر لیں ۔۔ رات ارمان نے منتہیٰ کو آگاہ کیا ۔۔
مگر دوسری طرف ہنوز گمبھیر خاموشی رہی ۔۔ میری کسی مدد کی ضرور تو نہیں ۔۔؟؟؟ اُس نے بات کرنے کی ایک اور سعی کی نہیں۔۔ !! میں ذرا امی ابو کو بتا دوں ۔۔ اُس دشمنِ جاں کا سامنا پتا نہیں آج اتنا دشوار کیوں تھا ۔۔ 
ارمان کچن میں کافی بناتے ہوئے گاہے بگاہے ۔۔ایک نظر اِس لڑکی پر ڈال لیتا تھا ۔۔ جو ایک ہی رات میں مزید کئی ماہ کی بیمار لگنے لگی تھی ۔۔۔!! لیکن وہ کیا کر سکتا تھا ،، فی الحال تو کچھ بھی نہیں۔۔!!!
منتہیٰ میری جان ۔۔!! مجھے تمہارے اِس فیصلے سے جتنی خوشی ہوئی ہے میں بتا نہیں سکتا ۔۔ فاروق صاحب کی آواز شدتِ جذبات سے بوجھل تھی ۔۔ ہم نے تاریخ رکھ دی ہے آج ہی ۔۔۔!!
تاریخ۔۔؟؟؟ اوہ اچھا ابو ،رامین کی شادی کی تاریخ کی بات کر رہے ہوں گے ۔۔ اُس نے غائب دماغی سے سوچا جی ابو ۔۔ میں بھی بہت خوش ہوں ۔۔ صبح کا بھولا دیر ہی سے صحیح ۔۔ مگر گھر لوٹنے کو تھا ۔۔!!!
کال بند کر کے منتہیٰ بہت دیر تک سیل ہاتھ میں لیئے روتی رہی ۔۔اور سامنے صوفے پر ارمان نے اُسے چپ کرانے کی کوئی بھی کوشش نہیں کی تھی ۔۔۔ وہ مزے سے کافی کی چسکیاں لیتا رہا ۔ اور پھر جانے کے لیئے اٹھ کھڑا ہوا ۔۔
فلیٹ سے نکلتے ہی ۔۔ سیڑھیوں پر اسکی مڈ بھیڑ نینسی سے ہوئی ۔۔ جس نے اُسے دیکھتے ہی ۔۔ پہلے دیدے گول گول گھمائےپھر سیٹی بجائی ۔
so fianally you came ... I said her .. just wait and have faith
اور جواب دینے کے بجائے ارمان اُسے سیڑھیوں سے نیچے دھکیلتا گیا تھا ۔۔۔!!!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات سات بجے کی فلائٹ تھی ۔۔۔
کلیئرنس وغیرہ سے فارغ ہوکر جب وہ ڈیپارچر لاؤنج پہنچے ۔۔تو ارد گرد کوئی سہارا نہ ہونے کے باعث منتہیٰ ڈگمگائی ۔ارمان اُسے سہارا دینے کے لیئے بڑھا ۔۔ دونوں کی نظریں ملیں ۔۔کچھ لمحے بیت۔۔ کچھ سا عتیں گزریں ۔۔ پھر منتہیٰ نے تیزی سے خود کو سنبھال کر ۔ اپنا ہاتھ چھڑایا ۔۔ ارمان منتہیٰ سہارے نہیں لیا کرتی ۔۔!!!
ارمان نے بمشکل خون کے گھونٹ پیے۔۔یہ لڑکی بھی نہ ۔۔ خیر منتہیٰ بی بی !! ارمان یوسف بھی کم نہیں ۔۔یاد رکھو گی ۔۔!!
ائیرپورٹ پر بہت سارے لوگ اُن کے منتظر تھے ۔۔ امی ، ابو ، رامین ، جبران ۔۔ ارحم ، شہریار ۔۔ وہ آج بھی اُن سب کےلیئے پہلے جیسی اہم تھی ۔۔۔اور معتبر بھی ۔۔!!دنیا کی ٹھوکریں کھا کر بلآخر اولاد واپس وہیں پلٹتی ہے ۔۔ جو ماں باپ بچپن سے سکھا اور سمجھا رہے ہوتے ہیں ۔۔ لیکن عقل تبھی آتی ہے جب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہوتا ہے ۔۔ذلت ، تنہائی اور زمانے کی ٹھوکریں مقدر میں لکھ دی گئی ہوں ۔۔ تو کیا کیجیے ۔۔ وہ لوٹ تو آئی تھی ۔ ۔ مگر آگے بڑھ کر گلے لگنے کی ہمت نہیں تھی ۔۔۔ !!
اولاد نکمی ہو یا ہونہار ۔۔، کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ کر لوٹی ہو۔۔ یا ٹھوکریں کھا کر ۔۔ والدین کے لیئے وہ صرف اُنکی اولاد ۔۔ اُن کے وجود کا ایک بچھڑا حصہ ہوتی ہے ۔۔اپنی آخری سانس تک وہ بازو وا کیئے ۔۔ منتظر رہتے ہیں کہ طویل ۔۔مسافتوں سے تھک کر ۔۔ مسافر اُنکی آغوش میں دم لینے کو ضرور پلٹے گا ۔۔ منتہی ٰ کے لیئے بھی بازو و اکیئے ماں بھی منتظر تھی اورباپ بھی ۔۔۔!!!
اور پھر آنسوؤں کا ایک سیلاب تھا ۔۔ جو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا ۔۔ ارحم اور شہریار نے بہت دکھ اور حیرت سے ارمان کودیکھا ۔۔ یہ ٹوٹی پھوٹی آنسو بہاتی لڑکی ۔۔ یہ کون تھی ۔۔؟؟ یہ منتہیٰ دستگیر تو نہ تھی ۔۔ جسے ارحم آئرن لیڈی کہا کرتاتھا ۔۔اگرچہ طویل فلائٹ میں منتہیٰ نے صرف آرام ہی کیا تھا ۔۔ جس سے ارمان خاصہ بور ہوا تھا ۔۔ پھر بھی دادی کی گود میں سررکھتے ہی وہ یوں بے فکر ہو کے سوئی ۔۔ کہ مغرب پر رامین نے اُسے جھنجوڑ کر اٹھایا۔۔۔
آپی اٹھیے ۔۔ آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے نہ ۔۔؟؟ 
ہاں میں ٹھیک ہوں ۔۔ ویسے ہی تھکن ہو رہی تھی ۔۔ منتہیٰ نے کیچر میں اپنے لمبے بال سمیٹے ۔۔۔
مینا اب اٹھ بھی جاؤ ۔۔ امی کمرے میں چائے کا کپ لیکر داخل ہوئیں ۔۔شادی کا گھر ہے ۔۔ پہلی ہی دسیوں کام ادھورےپڑے تھے ۔۔ اوپر سے تمہارے یہ جلد بازی کے فیصلے ۔۔ امی نے اُسے پیار بھری ڈانٹ سنائی ۔۔ عا صمہ بہت خوش تھیں
جی امی آپ فکر مت کریں میں رامین کے ساتھ سب کروا لونگی ۔۔ اُس نے ماں کے گلے میں بانہیں ڈالیں ۔۔
اچھا ۔۔!! رامین کی شادی کے کارڈ تو چھپ کر آگئے ہیں ۔۔ اب تمہارے ابو اور دے آئے ہیں ۔۔تین چار دن میں مل جائیںگے ۔۔ امی نے اُسے مطلع کیا ۔۔!!
اور کارڈ کیوں امی ۔۔؟؟؟ منتہیٰ چونکی 
ارے امی ۔۔!! آپ چولہے پر کچھ رکھ کر آئی ہیں ۔۔ دیکھیں جلنے کی بو آرہی ہے ۔۔ رامین کو تو جیسے پتنگے لگ گئے تھےمجھے تو نہیں آ رہی ۔۔۔۔ امی نے برا سا منہ بنا یا ۔
ارے امی جا کر تو دیکھیں ۔۔میں آپی کو ویڈنگ ڈریسز دکھا تی ہوں ۔۔ رامین نے ماں کو راہ دکھائی ۔۔ 
رامین یہ امی کون سے کارڈز کی با ت کر رہی تھیں ۔۔؟؟ منتہیٰ کی سوئی وہیں اٹکی رہ گئی تھی ۔۔
وہ آپی ۔۔ رامین نے سر کجھایا ۔۔ ہاں وہ ۔۔ کارڈز کم پڑ گئے ہیں نا ۔۔ اب آ پ بھی تو اپنے فرینڈز کو انوائٹ کریں گی ۔۔۔تو ابو اور کارڈ چھپنے دے آئے ہیں ۔۔
میں کس کو انوا ئٹ کرونگی ۔۔؟؟ منتہیٰ نے غائب دماغی سے سوچا ۔۔
آپی میں ذرا ایک کال کر آؤں پھر آکر آپ کو ڈریسز دکھاتی ہوں ۔۔۔ رامین باہر لان تک آئی ۔۔ اور ارمان کا نمبر پنج کرنے لگی امی نے ڈنر پر خاصہ تکلف کیا ہوا تھا ۔ ڈنر سے فارغ ہوکر وہ بیٹھے ہی تھے ۔۔ کہ ڈور بیل بجی ۔ منتہیٰ چونکی اِس وقت ۔۔کون؟؟
پھر آنے والوں کو دیکھ کر ایک لمحے کو اپنی جگہ ساکت ہوئی ۔۔ پتھرائی ۔۔ ڈاکٹر یوسف کاسامنا کرنے کا حوصلہ اب تک اُس میں نہیں تھی۔۔ اُن کے ساتھ مریم اور ارمان بھی تھے ۔۔!!
منتہیٰ نے بمشکل خود کو سنبھال کر سلام کیا ۔۔۔ مریم ہی نہیں ڈاکٹر یوسف نے بھی ایک بہت گہری نظر منتہیٰ کی حالت پر ڈالی۔۔اور پھر اپنے دیوانے بیٹے پر ۔۔۔!!!
تھوڑی سی دیر بیٹھ کر وہ اٹھ آئی ۔۔ اور اُس کے پیچھے رامین بھی ۔۔ آپی پھر کل میرے ساتھ چل رہی ہیں نہ شاپنگ پر ۔۔ رامین کی اپنی تیاریاں ہی کیا کم تھی ۔۔ کہ اب اُسے بہن کی مدد بھی کرنی تھی ۔۔۔!!
منتہیٰ کے جواب دینے سے پہلے ناک ہوئی۔۔ دروازے کے عین وسط میں ارمان سینے پر ہاتھ باندھے ایستادہ تھا ۔۔۔رامین لپک کر اُس کے سر پر پہنچی ۔۔ آپ یہاں کیا کر رہے ہیں ۔۔؟؟ شرارت سے کمر پر ہاتھ رکھ کر اُس نے ارمان کا راستہ روکا ۔۔ !!
میں آنٹی اور انکل سے اجازت لیکر آیا ہوں رامین بی بی ۔۔ ارمان اُسے پرے دھکیلتا ۔۔اندر آیا
منتہیٰ میں یہ اپنی شادی کا کارڈ آپکو دینے آیا تھا ۔۔ اُس نے قریب آکر ایک گولڈن اور میرون امتزاج کا خابصورت ساکارڈا سکی طرف بڑھایا ۔۔!!!
ایک لمحے کو منتہیٰ کے ہاتھ کانپے تھے ۔۔ صرف ایک لمحہ۔ تھینک یو ۔۔ کب ہے آپکی شادی ۔۔؟ پھر وہ خود کو سنبھال چکی تھی ۔
وہ آپ خود پڑھ لیں ۔۔ ارمان نے ناک سے مکھی اڑائی ۔۔۔
ہاں آپی دیکھیں نہ کیسا ہے جناب کی شادی کا کارڈ ۔۔ رامین نے دوبارہ کارڈ اُسے تھمایا ۔۔ جو اب سائڈ ٹیبل پر دھرا تھا ۔
کیسا ہونا ہے۔۔۔؟؟ جیسے ویڈنگ کارڈ ہوتے ہیں ویسا ہی ہو گا ۔۔ انہوں نے کیا اپنا انسائکلو پیڈیا پبلش کروا یا ہوگا ۔؟؟منتہیٰ نے برا سا منہ بنا کر کارڈ دوبارہ تھاما۔۔
ہاں میں نے سوچا کہ ۔۔ بندہ زندگی میں ایک ہی دفعہ شادی کرتا ہے تو کوئی ۔۔ یونیک سا کارڈ۔۔ کوئی awesome ساآئیڈیا ہونا چاہیے۔۔ارمان کے لبوں بہت دلکش مسکراہٹ سجی تھی ۔۔
اِس دشمنِ جاں کے منہ سے اُس کی شادی کا ذکر اور پھر ۔۔ یہ گہری مسکراہٹیں۔۔ منتہیٰ نے بہت سے آنسو اندر اتار کر۔۔۔ کارڈ کھولا ۔۔ اور پھر زمین گھومی تھی ۔۔ یا آسمان ۔۔ وہ خواب میں تھی ۔۔ یا جاگتے میں خواب دیکھنے لگی تھی ۔۔ اُس نے ایک دفعہ آنکھیں مسل کر بغور کارڈ کو اور پھر حیرت سے ساتھ بیٹھی رامین کو دیکھا ۔۔
بہت بہت مبارک ہو آپی ۔۔ ارمان بھائی آپکے تھے ۔۔اور آپ کے ہی رہیں گے ۔۔ رامین اُس کے گال چومے۔۔ کمرے سے رفو چکر ہوتے وقت ۔۔ وہ اپنے پیچھے دروازہ بند کرتی گئی تھی ۔۔۔۔!!!!
ارمان آہستہ آہستہ کارپٹ پر قدم دھرتا اُس کے پاس بیڈ تک آیا ۔۔لیکن منتہیٰ ابھی تک گنگ بیٹھی تھی ۔۔ کیا واقعی اللہ تعالیٰ نےاُسے معاف کر دیا تھا ۔۔ ارمان سمیعت اُن تمام نعمتوں کی نا شکری پر جو وہ آج تک کرتی چلی آئی تھی ۔۔ !!
نیک مرد نیک عورتوں کے لیئے ۔۔اور نیک عورتیں ، نیک مردوں کے لیئے بنائی گئی ہیں ۔۔، وہ نیک نہیں تھی پھر بھی نوازی جارہی تھی ۔۔!!!
منتہیٰ۔!! ارمان نے بہت نرمی سے اُس کے ہاتھ تھام کر اسے پکارا ۔۔۔ اور منتہیٰ کو لگا تھا کہ اُ سے ارمان نے نہیں ۔۔ زندگی نے پکارا تھا ۔۔ وہ اُس کے روٹھے نصیب کی پکار تھی ۔۔!!!آنسو کا ایک سیلاب تھا ۔۔جو اُسکی کجراری آنکھوں سے نکل کر ،ارمان یوسف کے شرٹ کو بھگوتا چلا گیا ۔۔!!
دروازے پر ہوتی مدھم سی دستک ۔۔ جیسے دونوں کو حال میں واپس لائی ۔۔منتہیٰ، ارمان کے بازوؤں سے تیزی سے نکل کرپیچھے ہٹی ۔۔ اورارمان بھی جیسے کسی خواب سے جاگا ۔۔۔ رامین ہاتھ میں کافی کی ٹرے لیئے اندر آئی ، تب تک وہ دونوں خودکو سنبھال چکے تھے ۔۔
شکر کریں ۔۔ عین وقت پر میں نے امی کو روک لیا ۔۔ وہ کافی لیکر آرہی تھیں ۔۔ رامین نے ساری سچویشن سمجھتے ہوئے دونوںکو چھیڑا ۔۔منتہیٰ کے گال شہابی ہوئے۔۔!!
شکر کیوں کریں۔۔ ہمیں پتا تھا باڈی گارڈ باہر ہی ہوگا ۔۔ ارمان کچھ کم ڈھینٹ نہیں تھا 
اچھا زیادہ باتیں مت بنائیں ۔۔ جلدی سے کافی ختم کر کے یہاں سے نکلیں ۔۔ دادی ناراض ہو رہی ہیں آپ کے آنے پر ۔۔شادی میں دن ہی کتنے رہ گئے ہیں ۔۔؟؟
رامین بی بی !میں سب بڑوں کو بتا کر آیا تھا کہ ۔۔ منتہیٰ سے بک کے فائل لینی ہے ۔۔ تاکہ پبلشر سے بات کر سکوں ۔۔!!
وہ تو ٹھیک ہے ۔۔ لیکن اگر اُنکو پتا لگ جائے نہ کہ آپ نے اُنکی لاڈلی کو کیسے ستایا ہے ۔۔؟؟ تو آپ کی خیر نہیں۔۔
اُنکی لاڈلی نے بھی دوسروں کو کچھ کم دکھ نہیں دیئے ۔۔سو تھوڑا حق میرا بھی بنتا تھا ۔۔ارمان نے زخمی مسکراہٹ کے ساتھ مگ کے کناروں کو گھورا ۔۔کمرے میں یکدم گمبھیر خاموشی چھا ئی ۔
ارمان نے تیزی سے کافی ختم کر کے مگ رامین کو تھمایا ۔۔پھر چند قدم چل کر منتہیٰ کے بیڈ تک آیا ۔ جس کا سر ندامت سے جھکاہوا تھا ۔۔ ارمان نے اُسکی تھوڑی تلے ہاتھ رکھ کر چہرہ اوپر اٹھایا۔۔
تو پھر آپ آ رہی ہیں نہ میری شادی پر ۔۔ اسکی آوا زہی نہیں ۔۔ نگاہوں میں بھی بے پناہ شرارت تھی ۔
کمرے میں رامین کا اونچا قہقہہ گونجا ۔۔ بہت سی آزمائشوں ، کٹھن اور طویل انتظار کے بعد۔۔ وہ ایک ہونے کو تھے۔۔ کیونکہ وہ ایک دوسرے کے لیئے ہی بنائے گئے تھے ۔۔۔!!!


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
مریم یوسف نے اپنے سارے ارمان نکالتے ہوئے ، ولیمے کا جوڑااور زیورات خاصے بھاری لیئے تھے ۔۔ سلور کام والا وائٹ شرارہ اور موتیوں کے زیورات ۔۔ منتہیٰ کسی ریاست کی راجکماری سے کم نہیں لگ رہی تھی ۔۔ سارا وقت وہ سٹیج پر رشتے داروںاور دوستوں میں گھری اکیلی ہی بیٹھی رہی ۔۔ ارمان کے مہمان بہت تھے ۔۔ وہ صرف ایک دفعہ ۔۔ اپنے yale کے ساتھی انجینئرز کو منتہیٰ سے ملوانے سٹیج پر آیا تھا ۔۔ بلیک سوٹ ہمیشہ سے ہی اُس پر بہت ججتا تھا ۔۔ پر آج اسکی سج دھج ہی نرالی تھی ۔۔ !!
رات گھر پہنچ کر ۔۔ وہ منتہیٰ کو سہارا دیکر اندر کمرے تک لایا تھا ۔۔ اتنا بھاری شرارہ سوٹ اور پھر اسکی لرزتی بائیں ٹانگ۔۔وہ کہیں گر ہی پڑتی ۔۔!!
میرا خیال ہے کہ ممی کو آپ کے لیئے اِس بھاری ڈریس کے بجائے۔۔ (astronuat costume)خلا بازوں کا لباس بنوانا چاہئے تھا ۔۔ تاکہ آپ آرام دہ محسوس کرتیں۔۔ ارمان نے اسکی کوفت دیکھ کر چھیڑا ۔۔منتہیٰ برا سا منہ بنا کر دھپ سے بیڈ پر بیٹھی ۔۔ بہت سا درد دانتوں تلے دبایا ۔۔ اُسکی بائیں ٹانگ بری طرح دُکھ رہی تھی ۔۔
ارمان نے اُسکے ساتھ اپنی کچھ سیلفیز بنائیں۔۔ تو منتہیٰ مزیدکوفت سے پیچھے ہٹی ۔۔
یار اپنے لیئے بنا رہا ہوں ۔۔ آخر اتنے سارے دن مجھے اب اپنی وائف کے بغیر جو رہنا ہے ۔۔۔!!
کیا مطلب ۔۔ منتہیٰ نے تیزی سے رخ اسکی طرف پھیرا ۔۔بایاں پاؤں مڑا ۔
منتہیٰ مجھے کل شام مائیکل، سٹیون اور انکی ٹیم کے ساتھ ۔۔تھر کے لیئے روانہ ہونا ہے ۔۔ارمان نے ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کی۔۔کوٹ اتار کر صوفے پر پھینکا ۔۔ وہ یقیناٌ اَپ سیٹ تھا ۔
اور منتہیٰ کے لئے فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا تھا ۔۔کہ ٹیسیں بائیں ٹانگ سے اٹھی ہیں یا دل ۔۔سے ۔۔!!
کتنے دن کے لیئے جانا ہے ۔۔؟؟ بمشکل حلق سے آواز نکلی 
شاید ایک ماہ ۔۔ یا اُس سے کچھ کم ۔۔ ابھی کہہ نہیں سکتا ۔۔ارمان نے بیڈ پر پاؤں پھیلا کر پیچھے ٹیک لگایا ۔۔پھر اپنی جگہ گُم صُم بیٹھی منتہیٰ کو دیکھا ۔۔ ناراض ہو ۔۔؟؟
منتہیٰ نے صرف نفی میں سر ہلایا ۔۔ بہت سے آنسوؤں پر بند باندھ کر خود کو نارمل کیا ۔
ارمان نے اُس کے ہاتھ تھا مے ۔۔ آئی نو کہ یہ بہت تکلیف دہ ہے ۔۔ مگر مجبوری ہے ، ہماری شادی کچھ اتنی جلدی میں ہوئی۔۔یہ سب تو کافی عرصے سے طے تھا ۔۔
اِٹ اِ ز اُوکے ۔۔!! خود کو سنبھال کر اُس نے ہاتھ چھڑایا ۔اور اٹھی ۔۔ بھاری کپڑے اور زیورات اُسے عذاب لگ رہے تھے۔ دو قدم چل کر ہی شرارے میں پھنس کر گری۔۔ بائیں ٹانگ بری طرح مڑی تھی ۔۔ وہ درد سے بلبلائی ۔۔بہت سارے رکےہوئے آنسوؤں نے ایک ساتھ باہر کا راستہ دیکھا ۔۔ ارمان نے تیزی سے اٹھ کر اُسے سنبھالا ۔ ۔۔
ارمان کے سینے سے لگی ۔۔وہ روتے روتے کب سو گئی ۔۔اُسے کچھ خبر نہیں تھی!!


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منتہیٰ نے کھڑکی کا پردہ سرکایا ۔۔ رات کی بارش کے بعد بہت چمکیلی دھوپ نکلی ہوئی تھی کئی ماہ کی دھند چَھٹی تھی ۔۔اور بہت نکھرااجالا پھیلا ہوا تھا۔۔ ۔۔ ڈاکٹر یوسف اور مر یم لان میں چیئرز ڈالے دھوپ سینکنے میں مصروف تھے ۔۔اور ارمان کل شام ہی جاچکا تھا ۔۔ منتہیٰ چھوٹے چھوٹے قدم دھرتی لاؤنج عبور کر کے لان تک آئی۔۔
آؤ بیٹا ۔۔ بیٹھو۔۔ اُسے آتے دیکھ کر وہ دونوں خوش ہوئے ۔۔ ڈاکٹر یوسف نے اپنے ساتھ والی چیئر کی طرف اشارہ کیا
کیسی نیند آئی بیٹے ۔۔طبیعت تو ٹھیک ہے نا ۔۔؟؟ مریم ارمان کے یوں چلے جانے پر خاصی خفا تھیں ۔۔ لیکن۔۔!!
ممی میں ٹھیک ہوں ۔۔ڈونٹ وری ۔۔۔منتہیٰ نے سامنے ٹیبل پڑا اخبار اٹھایا ۔۔ وہی سیاستدانوں کے کارنامے ، دہشت گردی اور لوٹ مار کی خبریں ۔۔
اچھا میں تمہارے لیئے ناشتہ یہیں بجھواتی ہوں ۔۔ اُس کے منع کرنے کے باوجود مریم اندر جا چکی تھیں ۔۔
منتہیٰ نے اپنی بائیں ٹانگ سیدھی کر کے پھیلائی ۔۔ دھوپ پڑتے ہی سنسناہٹ جاگی تھی ۔۔ درد۔ رات سے کچھ کم تھااس پاؤں کی کنڈیشن کیا ہے بیٹے ۔۔؟؟ ڈاکٹر یوسف کا دھیان بھی اِدھر ہی تھا 
پاپا۔۔ تھوڑی ریکوری ہے ۔۔ ٹائم تو لگے گا ۔۔اُس نے گول مول جواب دیا ۔۔ پتا نہیں ارمان نے انہیں کتنا بتایا تھا 
ہوں۔۔ ڈاکٹر ہوسف نے ہنکارا بھرا ۔۔ یعنی بیٹا ، بہو میں پکی دوستی ہو چکی ہے ۔۔ وہ مسکرائے ۔
ایک بات پو چھوں منتہیٰ۔۔؟؟
جی پاپا ۔۔ ضرور ۔۔اجازت کی ضرورت ہی نہیں ۔ 
تم ہارورڈ ۔ MITاور الاسکا یونیورسٹی میں بہت کچھ کرتی رہی تھیں ۔۔ وہ سب کچھ۔۔ گنواآئی ہو ۔۔ یا تمہارے منصوبے اورترجیحات اب بدل گئی ہیں ۔۔؟؟ انکی گہری کھوجتی نظریں اُس کے چہرے پر تھی۔۔
نہیں پاپا ۔۔ نہ میں بدلی ہوں نہ میرے منصوبے ۔۔!!!
شئیر کرنا پسند کرو گی ۔۔؟؟
منتہیٰ نے چونک کر اپنے باپ جیسے عزیز استاد کو دیکھا ۔۔ آنکھوں میں کرچیاں سے اُتریں ۔۔اُسی وقت ملازمہ ناشتے کی ٹرےلیکر نمودار ہوئی ۔۔ چلو تم ناشتہ کرو ۔۔ ڈاکٹر یوسف شفقت سے اُس کے سر پر ہاتھ رکھ کر اُٹھے۔۔ انہیں یقین تھا ۔۔ منتہیٰ اب کبھی انہیں مایوس نہیں کریگی ۔۔!!!


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کوئی طریقہ ہے کہ ولیمے کے اگلے روز اپنی دلہن کو چھوڑ کر چلا گیا ۔۔ دادی ارمان پر بہت برحم تھیں ۔۔ منتہیٰ کچھ دن کے لیئےامی ابو کے پاس رہنے آئی ہوئی تھی ۔۔
ارے دادی ۔۔ باہر سے انجینئرز کی ٹیم آئی ہوئی تھی نہ ۔۔ آجائیں گے کچھ دن میں ۔۔ بہت سا درد اندر دبا کر دادی کے گلےمیں بانہیں ڈال کر وہ مسکرائی۔۔
اور یہ تم کیوں سادہ جھاڑ منہ لیئے پھر رہی ہو۔۔؟؟ یہ سونی کلا ئیاں، کاٹن کا سوٹ ۔۔ارمان کو چھوڑکر ۔اب اُنکی توپوں کارُخ منتہیٰ کی طرف تھا ۔۔
دادی نہیں پہنا جاتا مجھ سے یہ سب ۔۔ہونہہ۔۔اُسے کوفت ہوئی
اے لو ۔۔لڑکی پہلے کی بات اور تھی ۔۔اب ماشاء ا اللہ تم بیاہتا ہو ، خبردار جو اگلی دفعہ تم میرے سامنے اِس طرح آئیں ۔۔
عاصمہ ۔۔او عاصمہ ۔۔انہوں نے آوازیں لگائیں ۔۔ اور پھر انہوں نے اُسے سب کچھ پہنا کر دم لیا ۔۔
منتہیٰ نے آئینے میں خود کو دیکھا ۔۔ سی گرین ہلکے کام والا سوٹ ۔۔ کانوں میں ٹاپس اور اور ڈھیر ساری چوڑیاں ۔۔ آئینےمیں کسی کا عکس ۔۔ کسی کی پُر اشتیاق نگاہیں اُبھریں ۔ اُس نے سر جھٹکا ۔۔ اور کچن میں امی کے پاس آ گئی ۔۔اب اُسے کسی کے لیئے تھوڑی کوکنگ بھی سیکھنا تھی۔۔۔!!! امی کے منع کرنے با وجود اُس نے زندگی میں پہلی دفعہ کھانا خود بنایا ۔۔
ارمان چائینیز شوق سے کھاتا تھا ۔۔وہ ممی سے تھوڑی سن گن لے چکی تھی ۔۔ !!کھانے سے فارغ ہوکر ۔۔وہ اپنے روم میں سب بلاؤں سے نجات کا سوچ ہی رہی تھی کہ سکائپ پر ارمان کی کال آئی۔اُس نے جھٹ لیپ ٹاپ آن کیا ۔۔ دو دن بعد یاد آئی تھی جناب کو ۔۔!!
سوری منتہیٰ یار ۔۔۔ میں کونٹیکٹ نہیں کر سکا ۔۔ایکچولی ریموٹ ایریا سے دور سگنل پرابلم تھی ۔۔ارمان نے فوراٌ ایکسکیوز کی اٹ از اوکے ۔۔۔!! میں بھی بزی تھی ۔۔ منتہیٰ نے ناک سے مکھی اڑائی ۔
اچھا واقعی۔۔کہاں بزی تھیں آپ ۔۔؟؟ ارمان نے ہنس کر پیچھے چیئر کی پشت سے سر ٹکایا ۔۔وہ خاصہ تھکا ہوا لگ رہا تھا
بہت سے کام ہوتے ہیں مجھے ۔۔ میں آپکی طرح فارغ نہیں ہوتی ۔۔ ہونہہ
وقت نے چال بدل لی تھی ۔۔ اُن کے مدار الٹ گئے تھے ۔۔ ایک دور تھا ۔۔ جب منتہیٰ کے پاس خود اپنے لیئے بھی ٹائم نہیں تھا ۔
جی بلکل ۔۔ ویسے یہ آپ کہیں جا رہی تھیں کیا ۔۔؟؟ ارمان نے اسکی سج دھج نوٹ کی نہیں تو اِس وقت میں نے کہاں جانا ہے ۔۔؟؟
تو پھر یہ تیاریاں ۔۔ اُس نے شرارت سے تیاریاں کو خوب کھینچ کر لمبا کیا ۔۔ یہ سب تو مجھے دادی نے بہت ڈانٹ ڈپٹ کر پہنایا ہے ۔۔ منتہیٰ نے کوفت سے منہ بنایا ۔
اچھا ۔۔ ویسے آپ اتنی فرمانبردار پوتی تھیں تو نہیں ۔۔ارمان نے چھیڑا 
اب بن گئی ہوں۔۔ ٹھوکریں کھا کر ۔۔ زخمی مسکراہٹ کے ساتھ جواب آیا 
اوہ کم آن ۔۔منتہیٰ ۔۔ زندگی دھوپ چھاؤں کا کھیل ہے ۔۔ دنیا میں آج تک کوئی ایسا کامیاب انسان نہیں گزرا جس نےو قت یا زمانے کے ہاتھوں ٹھوکریں نا کھائی ہوں ۔۔!!!! منتہیٰ جھکی نگاہوں کے ساتھ انگلی میں پہنا رنگ گھماتی رہی ۔۔جوارمان نے اُسے شادی کی رات پہنایا تھا ۔۔
اچھا جب میں آؤں گا تب بھی پہنو گی نہ یہ سب ۔۔۔ ارمان نے اسکا موڈ بدلنے کی سعی کی ۔
سوچوں گی ۔۔!!
واٹ۔۔؟؟ کیا سوچو گی ۔۔ وہ حیران ہوا 
یہی کہ یہ سب پہنوں یا نہیں ۔۔!!! کیونکہ میں اچھی بیٹی اور پوتی تو بن گئی ہوں ۔۔ لیکن۔۔
لیکن کیا ۔۔ وہ بے صبرا ہوا ۔۔!!
لیکن ۔۔ میرا ابھی فرمانبردار بیوی بننے کا کوئی خاص ارادہ نہیں ۔۔ شرارت سے کہہ کر اُس نے سکائپ آف کرکے لیپ ٹاپ کی سکرین فولڈ کی۔۔ ارمان اُسے آوازیں ہی دیتا رہ گیا ۔۔
اگلے روز صبح اُس نے میسا چوسسٹس سے ساتھ لایا ہوا سامان سٹور سے نکالا ۔۔ جو اَب تک یونہی پڑا تھا ۔۔ اسے وقت ہی نہیں ملا تھا ۔۔وہ سامان الگ کرتی گئی ۔۔ کچھ ساتھ گھر لیکر جانا تھا ۔۔ اس میں لکڑی کے نفیس نقش و نگار والا وہ باکس بھی تھا ۔۔ جوجانسن سپیس سینٹر جانے سے پہلے ۔۔اُس نے ننیسی کے پاس اما نت رکھوایا تھا ۔۔ اسے نینسی یاد آئی ۔۔ ۔ جسے ارمان نے 
خاص طور پر شادی پر انوائٹ کیا تھا ۔۔ بہت گُھنے تھے یہ سب ۔۔ ہونہہ ۔۔
اب اسے جلدی جلدی کچھ اور اہم کام نمٹانے تھے ۔۔ وہ کمرا بند کر کے شام تک لگی رہی۔۔ پھر تھک کر سو گئی ۔۔!!
وقت آگیا تھا ۔۔ اب پنڈوربکس جلد کھلنے والا تھا ۔۔!!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فروری کے اوائل کے باوجود تھر میں دن کا درجۂ حرارت اُن سب کے لیئے نا قابلِ برداشت تھا ۔۔ ارمان اگرچہ لاہور کی شدیدگرمی کا عادی تھا ۔۔ پھر بھی یہاں اُسکے دماغ کی دہی بنی ہوئی تھی ۔۔ جبکہ مائیکل اور اسکی ٹیم کا پہلی دفعہ اس قدر شدید موسم سے واسطہ پڑا تھا ۔۔اِس کے باوجود وہ سب ہی اس صحرا کو گل و گلزار کرنے اور اور یہاں کے مکینوں کی انتظار سے پتھرائی آنکھوں
میں امید کے نئے دیپ روشن کرنے کے لیئے پوری طرح سرگرم بھی تھے اور پُر عزم بھی ۔۔!!!
ارمان لنچ کے بعد ٹھنڈی چھا چھ کا پورا جگ چڑھا کر ۔۔سستانے کو لیٹا ہی تھا ۔۔کہ سیل تھرتھرایا 
ھیلو شہری ۔۔!! کیا حال ہے یار ؟؟ شدید مصروفیت کے باعث اسکا کئی روز سے کسی سے بھی رابطہ نہیں تھا 
ٹھیک ٹھاک ۔۔ تو سنا ۔۔ زندہ ہے ؟؟
بس یار جی رہا ہوں ۔۔ ارمان نے ٹھنڈی آہیں بھریں ۔۔ صحرا کی گرمی آج تک صرف سنی ہی تھی ۔۔ پہلی دفعہ پتا لگا کہ صحرامیں سفر کیا چیز ہوتا ہے ۔۔!!
ہاں۔۔ اور وہ بھی جب بندہ اپنا دلِ بے قرار کہیں اور بھول آیاہو ۔قسم سے پورا صحرائی اونٹ لگ رہا ہے تو ۔ شہری نے پھبتی کسی ۔
اڑالے مذاق بیٹا ۔۔ ہونہہ ۔۔ اچھا یہ بتا۔ زید کیسا ہے۔۔؟؟ شہریار کے ڈیڑھ سالہ بیٹے میں ارمان کی جان تھی 
ٹھیک ہے ۔۔کل لیکر گیا تھا ۔اُسے بھابی کے پاس ۔آنٹی پسند آگئی ہے اُسے ۔۔ اب تیری چھٹی ۔۔ وہ ہنسا
وہ ہے ہی ایسی جادوگرنی ۔۔ ارمان کی آنکھوں کے سامنے اُس پری وش کا سراپا لہرایا ۔
ہم مم۔۔ خیر تیری جادوگرنی کا کام کر آیا ہوں میں ۔۔!!
کام۔۔؟؟ کیسا کام ۔۔؟؟ ارمان الرٹ ہوا ۔
اوہ تجھے نہیں بتایا بھابھی نے ۔۔ انہوں نے خود بلایا تھا ۔۔ ایک پیکٹ دیا تھا کہ یہ کانفیڈینشل ہے۔۔ اسے بہت احتیاط سےاسلام آباد ، ڈاکٹر عبدالحق تک پہنچانا ہے ۔۔ میں ابھی وہی نمٹا کر آیا ہوں ۔۔ شہریار نے پوری بات بتائی ڈاکٹر عبدالحق ۔۔!!ارمان چونک کر سیدھا ہوا 
تو منتہیٰ بی بی فارم میں واپس لوٹنے کو ہیں ۔۔۔ ویلکم بیک مسز ارمان ۔۔!!!


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارمان کو گئے تیسرا ہفتہ تھا ۔۔ وہ پاپا کے ساتھ ہاسپٹل سے پاؤں کی تھراپی کروا کے لوٹی تھی ۔۔ درد کچھ اور بڑھ گیا تھا ۔۔اوراحساسِ تنہائی بھی ۔۔ رات دو بجے کا وقت تھا ۔۔ مگر نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی ۔۔تبھی اچانک باہر کچھ کھٹکا سنائی دیا ۔پھرکھڑکی کے پاس سے سایہ سا گزرا ۔۔ منتہیٰ کو الرٹ ہونے میں سیکنڈ لگے تھے ۔۔ وہ تیزی سے بستر سے نکلی ۔۔ باہر جو کوئی بھی تھا وہ اب اندر آچکا تھا ۔۔ ڈورلاک میں چابی گھمانے کی آواز آئی ۔۔ تب تک منتہیٰ بھاری گلدان ہاتھ میں لیئے دروازے کےپیچھے پہنچ چکی تھی ۔۔آنے والا ناب گھما کر احتیاط سے دروازہ کھولتا اندر داخل ہوا ۔۔۔ ون،ٹو۔۔تھری ۔۔منتہیٰ نے پوری طاقت سے گلدان کا بھرپور وار کیا ۔۔۔ مگر آنے والا الرٹ تھا ۔۔جھکائی دے گیا۔۔منتہیٰ گلدان سمیعت لڑھکی ۔۔ پاؤں کادرد کچھ اور سِوا ہوا ۔پھر آنے والے نے اُسے اپنے بازوؤں میں سنبھالا ۔۔ وہ ارمان تھا ۔۔اُسکا لمس وہ اب پہچاننے لگی تھی ۔
اٹھیے میڈم ہلاکو خانم ۔۔ پتا تھا مجھے کہ وائف ہماری کتنی بہادر اور الرٹ ہیں ۔۔ارمان نے اسے سہارا دیکر بیڈ پر بٹھایا ۔
یہ کوئی طریقہ ہے چوروں کی طرح اپنے گھر آنے کا ۔۔منتہیٰ کا چہرہ شدتِ درد سے لال ہو رہا تھا لیجیئے جناب ۔۔ایک تو آپ سب کی نیند کا خیال کیا ۔۔ نیکی کا تو زمانہ ہی نہیں ۔۔ارمان نے افسوس سے سر ہلایا 
تو آپ بتا نہیں سکتے تھے کہ آپ آرہے ہیں ۔۔ابھی جو گلدان آپکو لگ جاتا ۔۔اپنا درد بھول کر اسے فکر ستائی۔
تو پتا ہے کیا ہوتا ۔۔ارمان نے ڈرامائی انداز میں کارپٹ پر پڑاگلدان اٹھایا۔۔ یہ مجھ سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جاتا ۔۔ تجربہ کر کے دیکھ سکتی ہیں آپ ۔۔ارمان نے منتہیٰ کو آفر کی جو بگڑے تیوروں کے ساتھ اسے گھور رہی تھی۔ پھر وہ واش روم کی طرف جاتے ہوئے چونک کر پلٹا۔۔اُوہ میں تمہیں ایک بہت ضروری بات تو بتانا بھول ہی گیا ۔۔
کیا۔۔؟؟ سب خیریت ہے نا ۔۔ پراجیکٹ میں تو کوئی مسئلہ نہیں ۔۔ منتہیٰ اُس کے اسطرح واپس آنے پر ویسے ہی چونکی تھی
ارمان نے سر کو پیچھے جھٹکا دیکر ایک لمحے کو آنکھیں زور سے بھینچی۔۔ یہ بیویاں بھی نہ ۔۔ پھر منتہیٰ کے قریب گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اُسکے ہاتھ تھامے ۔۔۔ مجھے یہ بتانا تھا کہ میں نے اِن تین ہفتوں میں تمہیں بے انتہامس کیا ۔۔بے انتہا ۔۔!!
بعض اوقات محبت کے اظہار کے لیئے الفاظ ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتے ۔۔محبت تو یہی ہے کہ بن کہے محسوس کی جائے ۔۔کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ۔۔ لفظوں میں ڈھل کر جذبے اپنی وقعت کھو دیتے ہیں ۔!! اُس نے جھک کر منتہیٰ کی پیشانی چومی ۔
اور واش روم کی طرف بڑھ گیا ۔۔
صبح وہ ممی پاپا سے مل کر دوبارہ سو گیا ۔۔ کسی نے اُسے ڈسٹرب نہیں کیا ۔۔وہ خاصہ تھکا ہوا لگ رہا تھا 
دوپہر کے وقت آہٹ سے ارمان کی آنکھ کھلی ۔۔ُ اس نے کمبل سے منہ نکال کر دیکھا ۔۔منتہیٰ اسکا سفری بیگ کھول کر ۔اِس میں کپڑے نکال رہی تھی ۔۔ وہ یک ٹک اُسے دیکھے گیا ۔۔ آئرن لیڈی کا گرہستن پارٹ۔۔۔!!
پھر کچھ سوچتے ہوئے ایک دم سے اٹھا ۔۔ارے ۔ارے یہ کیا کر رہی ہو ۔۔؟؟
کیوں۔۔کیا ہوا ۔۔؟؟ کپڑے ہی تو نکال رہی ہوں۔۔ منتہیٰ نے حیرت سے اسے دیکھا 
یار مت نکالو ۔۔میں پھر یہی بیگ لے جاؤنگا ۔۔ 
کیا مطلب۔۔؟؟ پھر جانا ہے ۔۔کب۔۔؟؟ 
کل ۔۔ارمان نے منہ بسورا ۔
تو آئے ہی کیوں تھے ،، منتہیٰ نے غصے سے شرٹ واپس بیگ میں پھینکی ۔۔وہ رو دینے کو تھی
ارمان دوسری سائڈ سے گھوم کر اسکے ساتھ آکر بیٹھا ۔۔پھر اُسکی طرف جھک کر سرگوشی کی ۔۔تمہیں لینے ۔۔۔!!!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موسم انگڑائی لے رہا تھا ۔۔ مری کی برفیں اب پگھلنے کوتھیں ۔۔وہ گزشتہ دوروزسے مری میں تھے ۔۔ارمان کے ساتھی انجینئرزنے اسے زبردستی واپس بھیج دیا تھا ۔۔ وہ سب ہی کام سے اسکی لگن سے شدید متاثر تھے ۔
منتہیٰ ایک اونچے پتھر پر بیٹھی تھی اورارد گرد بہت چمکیلی دھوپ نکلی ہوئی تھی ۔۔ لیکن مری کے بے ایمان موسم کا کچھ پتا نہیں ہوتاکب کس لمحے بادل نمودار ہو کر برسنے لگیں ۔۔ کسی کی نگاہوں کی تپش پر وہ چونکی۔۔ارمان اسکے قریب بیٹھا ۔۔بہت غور سےاسے دیکھ رہا تھا ۔۔ہونٹوں پر دلکش مسکراہٹ سجی تھی ۔۔بے شک وہ دل جیتنے والی پرسنالٹی رکھتا تھا۔
ایسے کیا دیکھ رہے ہیں۔۔؟؟ منتہیٰ خجل ہوئی 
منتہیٰ بی بی ۔کوئی چار ہفتے پہلے آپ کے جملہ حقوق میرے نام لکھ دیئے گئے ہیں میں ایسے دیکھوں یا ویسےمیری
پراپرٹی ہے میری مرضی ۔۔!! ارمان بہت اچھے موڈ میں تھا ۔
پھر سوچ لیجیئے ۔۔آپ کے رائٹس بھی میرے نام ہیں ۔۔منتہیٰ نے جواباٌ چوٹ کی
اچھا۔۔تو زیادہ سے زیادہ آپ اِس خاکسار کے ساتھ کیا کر لیں گی ۔۔؟؟؟ وہ اُسکی طرف شرارت سے جھکا
بہت کچھ ۔۔منتہیٰ نے تیزی سے پیچھے ہٹ کر اسے آنکھیں دکھائیں ۔۔ شکر تھا اس جگہ وہ اکیلے تھے۔
ہم۔۔ارمان کی لمبی سی ہم پر اسے فاریہ یاد آئی تھی ۔۔ جس کے پاس ا سلام آباد انہیں اب جانا تھا ۔۔کس سوچ میں گم ہو
گئیں ۔۔؟؟ارمان نے اُسکی آنکھوں سے سامنے ہاتھ لہرایا ۔
کچھ نہیں بس یونہی ۔۔ آئیں واپس چلتے ہیں ۔۔ڈھلتی شام کے ساتھ خنکی بڑھنے لگی تھی ۔
مگر اٹھنے کے بجائے ۔۔ارمان نے ہاتھ پکڑ کر اسے واپس بٹھایا۔ منتہیٰ۔ میں چاہتا ہوں کہ مکمل صحت یاب ہونے کے بعد تم واپس جاکر اپنا ناسا کا مشن مکمل کرو ۔
اور منتہیٰ کو لگا تھا جیسے کسی نے اُسکی سماعت پر بم پھوڑا ہو ۔۔ ارمان میں وہ سب چھوڑ آئی ہوں ۔۔ کبھی نا پلٹنے کے لیئے ۔۔اس نے اپنا ہاتھ چھڑایا ۔۔
یار مینا۔۔don’t be so emotional کٹھن وقت گزر گیا۔۔ہم سب تمہارے ساتھ ہیں ۔۔کچھ بھی تو نہیں بدلا
ارمان ۔۔بس میں خود بدل گئی ہوں میں یہاں رہنا چاہتی ہوںاپنے وطن میں ، اپنے لوگوں کے ساتھ آپ کے
پاس اُس نے ارمان نے کندھے پر سر رکھا ۔
اوہ آئی سی ۔ارمان نے سیٹی بجائی ۔وہ خاصہ محفوظ ہوا تھا ایسا ہےمسز ارمان کے میں چند ماہ کے لیئے کچھ نہ کچھ کر کے 
آپ کےپاس آجاؤنگا ۔۔ ڈونٹ یو وری ۔۔ ارمان نے اسے راہ دکھائی 
اور جو میں سپیس سے واپس ہی نہ لوٹی تو ۔۔؟؟ منتہیٰ نے خدشہ ظاہر کیا تب آپکا یہ مجنوں، قیس ۔۔رانجھا ۔۔ انٹرنیشنل سپیس سٹیشن تک آجائیگا ۔۔ارمان نے اُس کے گرد اپنے بازو پھیلائے۔
ناسا کے سارے ٹیسٹ پاس کرنے ہونگے آپ کو ۔۔ منتہیٰ نے برا سا منہ بنایا 
منتہیٰ بی بی ، جو عشق کے امتحان پاس کر لیں ۔اُن کے سامنے یہ ٹیسٹ کیا چیز ہیں ۔۔ارمان نے ناک سے مکھی اڑائی ۔۔ویسےآپ فکر مت کریں ۔۔ابھی Aliens کا ذوق اتنا برا نہیں ہوا ۔۔ کہ آپ جیسی ضدی ، سر پھری اور بد لحاظ لڑکی کو غائب کرنےلگیں۔۔کوئی لے بھی گیا تو ۔۔شکریہ کے ساتھ مجھے واپس کرکے جائے گا ۔۔اپنا فضول مال اپنے پاس رکھیں ۔۔ارمان نےشرارت سے اسے چھیڑا ۔
مگر منتہیٰ اپنے سپید ہاتھوں کو گھورتے ہوئے کہیں اور گم تھی۔۔ منتہیٰ ڈونٹ وری ۔۔مجھے یقین ہے وہ ایک ٹرائل کا موقع ضروردیں گے ۔۔ یہ صرف تمہارا ہی نہیں ہم سب کا خواب تھا ۔۔یہ پاکستان کے لیئے ایک اعزاز تھا ۔۔!!!
مگر دوسری طرف بدستور گہری خاموشی رہی۔۔’’ وہ اسے کیا بتاتی کہ بعض خوابوں کی تعبیر کتنی بھیانک ہوا کرتی ہے۔‘‘
ویسے یار میں کبھی کبھی سوچتا ہوں ۔۔ شاعروں ادیبوں کو اِس بھدے سے چاند میں پتا نہیں کیا رومانس نظر آتا ہے ۔۔اصل چارم تو یہ ہے کہ ۔۔کوئی آپ سے کروڑوں میل کے فاصلے پر انٹر نیشنل سپیس سٹیشن میں بیٹھ کے دن رات آپ کو یاد کرے۔۔
ارمان نے منتہیٰ کا موڈ بدلنے کی ایک سعی کی ۔۔
جسٹ شٹ اَپ ارمان ۔۔ بے اختیار ہنستے ہوئے ۔۔منتہیٰ نے اُسے ایک مکا مارا ۔۔وہ بھی کم نہیں تھا ۔
یُو ٹو شٹ اَپ ۔۔
آپ کی اطلاع کے لیئے عرض ہے کہ میرا ایسا کوئی ارادہ ہرگز نہیں  منتہیٰ نے ناک سے مکھی اڑائی کیا مطلب ؟؟ تم مجھے مِس نہیں کروگی ۔۔ارمان نے منہ بسورا ۔
نہیں ۔۔میرا ناسا مشن پر واپس جانے کا کوئی ارادہ نہیں ۔۔ میں وہ سب چھوڑ آئی تھی ۔
اُف منتہیٰ خیر ۔ ابھی بہت ٹائم ہے ۔۔ تمہارے پوری طرح صحت یاب ہونے میں ۔۔آئی ایم شیور کے تم میری بات مانو گی ۔۔!! آؤ چلیں ۔۔ ارمان نے اسکا ہاتھ تھام کر ریسٹ ہاؤس کے طرف قدم بڑھائے۔۔
لیکن منتہیٰ اُس روز رات لیٹنے تک اِسی طرح گم صم تھی ۔۔ ارمان نے خود کو ۔کوسا ۔۔ وہ قبل از وقت ایک موضوع چھیڑنے کی غلطی کر چکا تھا۔۔۔وہ آتشدان کے پاس گھنٹوں میں سر دیئے کسی گہری سوچ میں غرق تھی ۔۔ارمان لیپ ٹاپ لیکر اُس کےپاس جا کر بیٹھا اور فلیش ڈرائیو لگا کر اسے سیو دی ارتھ کے کچھ نئے پراجیکٹس دکھانے لگا ۔۔مگر دوسری طرف ہنوز لاتعلقی سی تھی ۔۔!! 
ارمان کے صبر کا پیمانہ چھلکا ۔۔ یار منتہیٰ کچھ تو بولو ۔۔ ٹھیک ہے اگر تم نہیں جانا چاہتیں تو مجھ سمیعت ۔۔کوئی بھی فورس نہیں کریگامنتہیٰ نے کچھ جواب دیئے بغیر لیپ ٹاپ اُس کے ہاتھ سے لیکر سکرین فولڈ کر کے پیچھے رکھا ۔۔پھر وہ اٹھ کر اپنے ساتھ لائےسامان تک گئی ۔۔ارمان دم سادھے اسکی ایک ایک حرکت نوٹ کر رہا تھا ۔۔اُسکی چھٹی حس خبردارکر رہی تھی ۔۔کہ کچھ انہونی ہونے والی تھی ۔۔۔!!!!
منتہیٰ پلٹی ۔اُس کے ہاتھ میں لکڑی کا منقش باکس تھا ۔۔پھر واپس آتشدان تک آکر وہ ارمان کو تھمایا ۔
یہ کیا ہے ۔۔؟؟ وہ حیران ہوا یہ باکس میں نے جانسن سپیس سینٹر جانے سے پہلے نینسی کو دیا تھا ۔۔کہ اگر مجھے کچھ ہو جائے تو ۔۔وہ آپکو دیدےکیا مطلب۔۔؟؟ کیا تمہیں پتا تھا کہ تمہیں کچھ ہو جائیگا ۔۔؟؟
نہیں۔ احتیاطٌ رکھوایا تھا ۔۔ اچھا ۔۔لیکن اِس میں ہے کیا ۔۔ارمان اُسے کھولنے ہی لگا تھا کہ منتہیٰ نے اُس کے ہاتھ روکے۔۔
اِس میں ایک پزل ہے جو آپ کو خود حل کرنا تھا ۔۔ اور اب بھی آپ ہی حل کریں گے۔۔ بہت خشکی سے جواب دیکر وہ اٹھی کمبل اوڑھتے ہوئے ۔۔اُس نے ایک نظر ارمان پر ڈالی وہ باکس ہاتھ میں لیئے کسی گہری سوچ میں غرق تھا ۔۔!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارمان یوسف کو منتہیٰ پر پہلا شک اُس وقت ہوا تھا جب وہ ہارورڈ کی سمر ویکیشنز میں اپنی ڈورم میٹ کیلی کے ساتھ الاسکاگئی تھی ۔۔بظاہر وہ کافی عرصے سے سیو دی ارتھ سے لا تعلق تھی ۔۔لیکن الاسکا یونیورسٹی اور ہارپ میں جتنی دلچسبی منتہیٰ کورہی تھی وہ کسی سے چھپی ہوئی نہیں تھی ۔۔ وہ اُس کے لیئے فکر مند تھا ۔۔!!
اور آج اِس لکڑی کے باکس کو کھولتے ہوئے ارمان کے سب خدشات نے ایک دفعہ پھر سر ابھارا تھا۔۔۔ دھڑکتے دل کے اس نے باکس کھولا ۔۔اُس میں کچھ گفٹس تھے ۔۔ایک رنگ کیس ۔۔ایک برانڈڈ پرفیوم ۔۔کچھ فلیش ڈرائیوز ۔۔اور۔۔ ارمان کا منتہیٰ کو دیا ہوا واحد گفٹ بریسلٹ کیس ۔۔وہ ہر شے کو کارپٹ پر انڈیلتا گیا ۔۔
پھر اُس نے تیزی سے لیپ ٹاپ اٹھا کر وہ فلیش ڈرائیو ز ۔۔ایک ایک کر کے لگائیں ۔۔ان میں ایس ٹی ای کے کچھ پرانےپراجیکٹس کی تفصیلات تھیں ۔۔لیکن ارما ن کو اِس جگ سا پزل کا پہلا ٹکڑا مل چکا تھا ۔۔ سیو دی ارتھ ۔۔!!
اب اسے مزید ٹکڑے ڈھونڈ کر اس پزل کو مکمل کرنا تھا ۔۔وہ ہر چیز کو ایک دفعہ پھر کھنگالتا گیا ۔۔ یقیناٌ منتہیٰ نے اس گفٹ باکس کا پزل اس لیئے createکیا کہ نینسی کو شک نہ ہو ۔اور اِس کے ذریعے وہ کچھ ا س تک پہنچانا چاہتی تھی ۔۔ محفوظ طریقےسے۔ لیکن کیا ۔۔؟؟ 
یکدم اسکی آنکھوں کے سامنے جھماکا ہوا ۔۔ ڈیٹا پہچانے کا بہترین سورس ۔۔فلیش ڈرا ئیوز ۔۔وہ سیکرٹ کسی فلیش ڈرائیو میں تھا ۔۔ رات آدھی سے زیادہ بیت چکی تھی ۔۔ارمان نے مڑ کر منتہیٰ کو دیکھا ۔۔ اس کے چہرے پر بے انتہا سکون تھا ۔۔ جیسےصدیوں کی جاگی ۔آج سوئی ہو ۔۔ ارمان نے اٹھ کر غٹا غٹ پانی کے دو گلاس چڑھائے ۔۔ اسے کافی شدید طلب تھی ۔۔
وہ ہمیشہ ایک چھوٹا کافی میکر اپنے ساتھ رکھتا تھا ۔۔ گرما گرم کافی کے گھونٹ لیتا ہوا وہ کمرے میں اِدھر اُدھر ٹہلتا رہا ۔۔
باکس کا سارا سامان اُسی طرح کارپٹ پر بکھرا پڑا تھا ۔۔۔
کچھ سوچتے ہوئے جھک کر اس نے بریسلٹ کیس اٹھایا جو اس تمام سامان میں وہ واحد گفٹ تھا جو ارمان نے منتہیٰ کو دیا تھا ۔۔جب یہ منتہیٰ نے نینسی کو دیا ۔۔تو اس میں بریسلٹ موجود ہوگا ۔۔ جو اَب ہمہ وقت ۔۔اسکی نازک سی کلائی کی زینت بنا رہتاتھا ۔۔وہ سوچتا گیا ۔۔!! 
کسی خیال کے تحت اُس نے کیس کے فومی کور کو دبایا ۔۔ وہ دبتا چلا گیا ۔۔ لیکن اس کا ایک کونا اسے کچھ اکھڑا ہوا سا لگا ۔۔ ارمان کا دورانِ خون تیز ہوا ۔۔اُس نے چٹکی سے پکڑ کر فوم کھینچا ۔۔وہ اکھڑتا چلا گیا ۔۔ کور کی دوسری جانب کچھ لکھا تھا ۔۔ وہ اِس رائٹنگ سے آشنا تھا ۔۔A riddle wrapped in an enigma ......
پزل کا تیسرا ٹکڑا اُسے مل چکا تھا ۔۔ ارمان نے تیزی سے لیپ ٹاپ اٹھا کر یہ الفاظ گوگل کیئے ۔۔ یہ ونسٹن چرچل کی ایک ریڈیو سپیچ سے ماخوذ الفاظ تھے ۔جب وہ دوران جنگRussians کو سیکیورٹی سے متعلق کوئی خفیہ پیغام دینا چاہتا تھا۔
ارمان یوسف نے کڑی سے کڑی ملا ئی ۔۔ سیو دی ارتھ ۔۔، فلیش ڈرائیوز ۔۔،سیکرٹ میسج ۔۔ اگرچہ پزل کا چوتھا ٹکڑا باکس میں نہیں تھا ۔۔ مگر اُس کے ذہن میں ضرور تھا ۔۔ ہارپ ۔۔ اینٹی ہارپ ٹیکنالوجی ۔۔ اور ایسی دوسری تمام ٹیکنالوجیز کا توڑجو ہماری اِس پیاری زمین کو تیزی کے ساتھ تباہی کے دہانے پر لیکر جا رہی ہیں ۔۔ وہ جانتا تھا ۔ منتہیٰ اِنکی تلاش میں آخری حدتک گئی ہوگی ۔۔۱۲۰ آئی کیو رکھنے والی منتہیٰ کے لیئے کسی بھی ٹیکنالوجی کی root تک پہنچنا بائیں ہاتھ کا کام تھا ۔۔اور پزل تقریباٌ مکمل ہو چکا تھا ۔۔یکدم بہت سارے خدشات نے سرا بھارا ۔۔ فلیش ڈرائیو اُس کے ذہن سے محو ہوچکی تھی۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منتہیٰ ڈورم میں ہاتھ میں کافی کا مگ لیئے انتہائی دلچسبی سے سٹیفن ہاکنگ کے نئے کارنامے پڑھنے میں مصروف تھی ۔۔ جبکہساتھ والے بیڈ پر کیلی لیپ ٹاپ کھولے بیٹھی تھی ۔۔ کیلی ہاروورڈ سے انوائرمینٹل سائنسز میں پی ایچ ڈی کر رہی تھی ۔۔یہاںآنے سے پہلے وہ یونیورسٹی آف الاسکا میں اسسٹنٹ پروفیسر تھی ۔ ۔بنیادی طور پر وہ ایک گونگی عورت تھی ۔۔جسے شاذو نادرہی مسکراتے دیکھا گیا تھا۔۔کیلی ۔منتہی سے لاتعلق اپنا کام کرنے میں مصروف تھی کہ اسکا سیل تھرتھرایا ۔ دوسری طرف کی بات سن کر وہ لیپ ٹاپ سائڈپر ڈال کر تیزی سے باہر لپکی ۔۔منتہیٰ نے کچھ خاص تردد کرنے کی کوشش نہیں کی ۔۔ اُسے پتا تھا ۔۔۔جواب نہیں ملنا ۔
کیلی جلدی میں لیپ ٹاپ اِس طرح پھینک کر گئی تھی کہ اسکی سکرین منتہیٰ کی جانب تھی ۔۔اگرچہ یہ غیر اخلاقی تھا ۔۔ مگر کبھی کبھی ہر بندے کو کچھ غیر اخلاقی کام کرنے ہی پڑتے ہیں ۔۔ سکرین پر جو فائل کھلی ہوئی تھی اُسے دیکھ کر منتہیٰ کے چودہ طبق روشن ہوئے۔۔ہارپ اینڈ الاسکا یونیورسٹی ۔۔ joint venture ۔۔ چند منٹوں میں وہ فائل منتہیٰ کی یو ایس بی میں کاپی ہو چکی تھیں ۔۔ جب پانچ منٹ بعد کیلی ہانپتی ہوئی واپس لوٹی ۔۔تو منتہیٰ اُسی طرح بیٹھی کافی کی چسکیاں لے رہی تھی
اگلے رو ز کیمبرج لائبریری کے ایک سنسان گوشے میں بیٹھ کر منتہی ٰنے وہ فائلز کھنگالی تھی ۔۔ اور پھر ہر آ تے دن کیساتھ کیلی سے فرینک ہونے کی اُسکی کوششیں بڑھتی گئیں ۔۔ !!
بعض اوقات کسی کا اعتماد جیتنے کے لیئے آپ کو ایک بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے ۔۔ سو منتہیٰ بھی کیلی سے دوستی بڑھانےکیلیئے آخری حد تک گئی ۔۔ وہ ایک اہم ذریعہ تھی ۔۔ بہت سے رازوں تک با آسانی رسائی کا ۔۔۔!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارمان فجر کی نماز کے بعد ۔ چائے کے دو کپ لیکر کمرے میں واپس آیا تو توقع کے عین مطابق منتہیٰ آتشدان کے پاس بیٹھی آگ سینک رہی تھی ۔۔ارمان نے ساتھ بیٹھ کر ایک کپ اسے تھمایا ۔۔ وہ ساری رات جاگا تھا ۔۔ اور منتہیٰ اسے جگا کر مزےسے سوتی رہی تھی ۔۔وہ عادی تھا ۔۔اسکی اِن عادتوں کا وہ اب بھی ویسی ہی تھی ۔۔!!
دوسروں کو جگا کر ۔۔خوب سوئیں آپ ۔۔!! ارمان نے چائے کا گھونٹ بھرا میں نے آپ سے یہ کہا تھا ۔۔کہ آپ ایک ہی شفٹ میں پزل حل کریں۔ سو جاتے آپ ۔۔ 
ارمان نے ہنس کر عادتاٌ اپنا بازو اُس کے کندھے پر پھیلایا ۔۔ مجھے صرف ایک سوال پوچھنا ہے۔۔ جواب دینا پسند کریں گی آپ۔۔؟؟
نہیں ۔۔ میں نہیں رہتی تو کس سے پوچھتے ۔۔ وہ پہلی جیسی بد لحاظ منتہیٰ بننی ہوئی تھی ۔۔ ارمان جانتا تھا وہ اُسے آزما رہی تھی
تم نہ رہتیں ۔۔ تو اِس سے بڑے سوالیہ نشان میری زندگی میں در آتے ۔۔ میں خود کیسے جیتا ۔۔ وہ جذباتی ہوا ۔
جی لیتے ۔۔!! منتہیٰ کی نظریں آتشدان کے لپکتے شعلوں پر تھیں ۔
تمہیں میری محبت پر شک ہے ۔۔ ارمان نے سختی سے اُسکا رخ اپنی جانب موڑا ۔۔
نہیں ۔۔ مجھے آپ کی محبت پر فخر ہے ۔۔ اس نے ارمان کی گہری براؤن آنکھوں میں جھانکتے ہوئے ہر لفظ ٹہر ٹہر کر ادا کیا ۔
’’محبت یہ نہیں ہوتی کہ آپ کسی کے نہ ملنے پر ۔یا ہمیشہ کے لیئے کھو جانے پر دنیا تیاگ کے بیٹھ جائیں ۔ کیا ہوا کہ آپکا دل ہی
نہیں روح بھی زخمی ہے ۔۔ کیا ہوا کہ آپ کی آنکھوں کے دیپ بجھ چکے ہیں ۔۔ کیا ہوا کہ آپ کے ہونٹ مسکرانے کو ترس گئے ہیں ۔۔ دنیا میں لاکھوں ، کروڑوں آپ سے بھی زیادہ دکھی ہیں ۔۔آپ اپنے کرچی کرچی وجود کے ساتھ بہت سےدوسروں کا سہارا بن سکتے ہیں ۔۔ بہت سے بکھرے ہوؤں کو اپنی آغوش میں پناہ دے سکتے ہیں ۔۔ محبت کا اصل مفہوم انسان اُسی وقت سمجھتا ہے جب وہ اپنی ذات کے دائرے سے نکل کر ۔۔اوروں کے لیئے جینا شروع کرتا ہے ۔۔‘‘
اور مجھے یقین ہے کہ میرا ارمان بھی میرے بغیر جی سکتا ہے ۔۔!!!
ارمان اپنی جگہ ساکت تھا ۔۔ یہ لڑکی جو اب اُسکی بیوی تھی ۔۔ گزشتہ سات سال سے اُس کے ساتھ تھی ۔۔ ہر دفعہ ۔۔ ہر نئےموڑ پر وہ اُسے زندگی کے نئے مفہوم سے آشنا کراتی تھی ۔۔ وہ آل راؤنڈر تھی ۔۔ ہر دفعہ جیت جاتی تھی ۔۔!!
ارمان نے جھک کرُ اسکی فراخ پیشانی کو چوما ۔۔ لیکن اِس بوسے میں محبت کم تھی ۔۔ احترام تھا ۔۔ عقیدت تھی ۔۔!!
پھر اُس نے ساتھ دھرے ہوئے لکڑی کے باکس سے ۔۔ پلاٹینم رِنگ نکال کر منتہیٰ کی طرف بڑھائی۔۔ جس میں اوپر سات
آٹھ آر ٹیفیشل ڈائمنڈ لگے ہوئے تھے ۔۔ جن کے نیچے مائیکرو یو ایس بی ڈرائیو کی پن تھی۔۔!!
اگر تم ۱۲۰ آئی کیو رکھتی ہو ۔۔ تو ۱۱۸ سے کم میں بھی نہیں ۔۔ مجھے نہیں معلوم کے اِس فلیش ڈرائیو میں کیا کچھ سیو ہے ۔۔ لیکن
تم نے کیلی سے روابط کیوں بڑھائے ۔۔ تم الاسکا کیا کچھ کرنے گئیں۔۔ میرے علم میں ہے ۔۔ ہارورڈ اور MIT میں بھی دو چا ر ٹیکنالوجیکل سیکرٹس ۔۔پرتم نے ہاتھ ضرور صاف کیئے ہو نگے ۔۔
لیکن مجھے صرف ایک چیز پریشان کر رہی ہے ۔۔ ؟؟ وہ ایک لمحے کو رکا 
وہ کیا ۔۔؟؟ منتہیٰ چونکی 
تمہارا یہ پیرا گلائیڈنگ ایکسیڈنٹ ۔۔!! منتہیٰ کو ارمان کی آواز بہت دور سے آتی محسوس ہوئی ۔۔ کانوں میں سیٹیاں سی گونجیں ۔۔ تو اعتراف کا وقت ۔۔آ ہی گیا تھا ۔۔!!منتہیٰ۔۔ ارمان نے اُس کے جھکے چہرے کو تھوڑی تلے ہاتھ رکھ کر اوپر اٹھایا ۔۔ کیا یہ حادثہ pre plannedتھا ؟؟
ہاں ۔۔ بہت دیر بعد ۔۔اُسکی آواز بمشکل نکل پائی ۔۔ حلق میں آنسوؤں کا گولا سا اٹکا تھا ۔
ارمان نے آنکھیں سختی سے بھینچ کر گہرا سانس لیا ۔۔ تو اُس کے خدشات درست تھے 
اگر ایسا تھا ۔۔ اور تمہاری سرگرمیاں کسی۔۔ کی نظر میںآچکی تھیں ۔۔تو انہوں نے تمہیں زندہ کیوں چھوڑا ۔۔ تمہیں پاکستان کیونکر آنے دیا ۔؟؟ کیا تم اِسکی کوئی قیمت ادا کر کے آئی ہو ۔۔؟؟ اسکی گہری کھوجتی آنکھیں منتہیٰ کے چہرے کو ٹٹول رہی تھیں۔
ایسا کچھ نہیں ہوا ارمان ۔۔ منتہیٰ نے اسے سختی سے گھورا کیا مطلب ۔۔؟؟ تم نے ابھی کہا کہ یہ حادثہ پری پلانڈ تھا ۔۔پھر ۔۔؟؟
ہاں یہ حادثہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا ۔۔ لیکن کسی اور کا نہیں ۔۔ ارمان کو اُس کا چہرہ ایک لمحے کو چٹخا ہوا لگا تھا ۔۔ یہ میرا
اپنا پری پلانڈ تھا ۔۔ پیرا شوٹ میں وہ فالٹ ۔۔ٹریننگ کے آخری مرحلے سے ایک رات قبل ،میں نے خود createکیا تھا ۔۔!!!!
اور ارمان کو لگا تھا کہ بہت زور کا زلزلہ آیا ہو ۔۔ دیواریں ، چھت ۔۔ ریسٹ ہاؤس کی ایک ایک چیز ۔۔اس پر گر رہی تھی ۔۔اور اِس ملبے کے نیچے وہ فنا ہوتا جا رہا تھا ۔۔۔!!!


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات آدھی سے زیادہ بیت چکی تھی ۔۔ڈاکٹر یوسف اپنی سٹڈی میں دم بخود بیٹھے ۔اِس لڑکی کو سن رہے تھے جس کے بارے میں انہیں گمان تھا کہ وہ اُسے دنیامیں سب سے زیادہ اچھی طرح جانتے ہیں ۔مگر نہیں اِس ویڈیو کو دیکھ کر انہیں لگا تھا ۔۔ منتہیٰ دستگیرسے انکا ا صل تعارف آج ہوا ہے۔۔گزشتہ روز ارمان کے ساتھ مری روانہ ہونے سے پہلے منتہیٰ انہیں ایک فلیش ڈرائیو دیکرگئی تھی ۔۔اور اب وہ اِسی ڈرائیو میں سیو ویڈیو دیکھ رہے تھے جوُ اس نے سیلفی کیمرے سے شاید کچھ دن پہلے ہی بنائی تھی ۔
اسلام و علیکم پاپا!! اس ویڈیو کے ساتھ کچھ فائلز attached ہیں جن کے متعلق آپ نے استفسار کیا تھا ۔۔ آئی نو کہ میری اِن تمام سرگرمیوں کا ادراک آپ اور ارمان سمیعت میری ذ ات سے منسلک بہت سے لوگوں کا تھا ۔۔ لیکن ایک بڑی حقیقت اب تک آپ سب کی نظر سے پوشیدہ ہے ۔۔ اور وہ میری زندگی کا یہ اندوہناک حادثہ ہے جو مجھے تحفے میں یہ مفلوج ٹانگ دیکرگیا ہے ۔۔لیکن مجھے کچھ افسوس نہیں ۔۔ کیونکہ زندگی کی ہمیشہ سے یہی ریت رہی ہے کہ ہار کے بعد جیت مقدر بنتی ہے۔۔
دنیا بھر میں ایک معتبر ادارہ سمجھا جانے والا ناسا ۔۔ اندرونِ خانہ ایک گورکھ دھندہ ہے ۔۔دنیا نہیں جانتی کہ اربوں ، کھربوںڈالر Lunar، مارس اور انٹر نیشنل سپیس سٹیشن کے جن مشنز پر جھونکے جارہے ہیں اُن میں سے کتنے انسانیت کی فلاح کےلیئے ہیں ۔۔ وہ تمام انسانی سرگرمیاں جو موجودہ ماحولیاتی تبدیلیوں کا سبب بنی ہیں ۔۔ ناسا اُن سے کئی عشروں سے واقف ہے ۔۔وہ الینز تو ڈھونڈ رہے ہیں ۔۔ مارس پر پانی بھی تلاش کر ہے ہیں ۔۔ لیکن اس سیارۂ زمین کے استحکام کے لیئے۔انکا کوئی مشن نہیں ہے ۔۔ میری بے پناہ صلاحیتیوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ۔۔وہ میرے لیئے سپیشل مشن تشکیل دینے لگے تھےلیکن انکے کسی بھی ایسے مشن کا حصہ بننے کے بعد میری حیثیت ایک ناکارہ پرزے کی ہوتی ۔یا ایکapparatus ۔۔دو چار مشنز کے بعد جس کا مقدر سی آئی اے کے ہاتھوں کسی اندھیری سڑک ۔۔کسی گمنام ہوٹل میں خاموش موت ہوتا ۔۔ یاپھر عمر قید ۔۔ مجھے ساری عمر اُنکی نگرانی میں کاٹنی پڑتی ۔۔ اور اپنے ہم وطنوں کے لیئے جو کچھ کرنے کا عزم میں رکھتی تھی ۔۔میرے وہ خواب ادھورے رہ جاتے ۔۔!!!
زندگی کی بساط پر شہہ ہے یا مات ۔۔سو میں نے بھی ایک داؤ کھیلا تھا ۔۔ اگر میرے اللہ کو مجھ سے انسانیت کی فلاح کے لیئےکچھ کروانا منظور ہے ۔۔ تو وہ مجھے کسی بھی طرح بچا لے گا ۔۔جس طرح اُس نے ارمان کو بچایا تھا ۔۔یہ حادثہ میرا اپنا منصوبہ تھا کیونکہ ناسا کا آلۂ کار بننا میری اَنا کو قبول نہ تھا ۔۔اور فرار کے سب راستے مسدود تھے ۔۔!!
پاپا۔۔ میری یہ اعلیٰ صلاحیتیں ۔۔ یہ غیر معمولی ذہانت ۔۔ میرا پاس میرے خدا کی ا مانت ہیں۔۔ جن کے لیئے میں اپنےرب کو جواب دہ ہوں کہ میں نے اُسکی اِن بے پایاں نوازشات کہاں اور کس مقصد کے لیئے استعمال کیا ۔۔؟؟ میرے وطن ہی نہیں دنیا بھر میں غربت، افلاس ، امراض اور آفات سے سسکتے بلکتے لوگوں کے لیئے میں کیا کچھ کر سکی ۔۔؟؟
میں ایک عام لڑکی نہیں تھی ۔۔ میں منتہیٰ دستگیر تھی ۔۔ ’’اگر ناسا مجھے ڈسکور کرسکتا تھا ۔۔ تو میں خود کیوں نہیں۔۔‘‘
ڈاکٹر یوسف سانس روکے ۔۔ سب سنتے رہے ۔۔ یہ لڑکی جو انکی سٹوڈنٹ رہی تھی ۔۔آج انہیں وفا ،ایثار اور حب الوطنی کاایک انوکھادرس دے گئی تھی ۔۔۔!!!
ایک ایسی ہی ویڈیو چند روز قبل ڈاکٹر عبدالحق کو بھی ملی تھی ۔۔ اور اب وہ بے چینی کے ساتھ اِس دھان پان سی لڑکی کی اسلام آبادآمد کے منتظر تھے جو پاکستان کا سرمایۂ افتخار تھی ۔۔ جو آج کی یوتھ کا ایک انمول ستارہ تھی ۔۔
دنیا بھر میں پاکستانی نوجوان
MIT سے ورلڈ بینک تک اپنی صلاحیتیوں کا لوہا منوا رہے ہیں ۔۔۔لیکن باہر کی چمک دمک نےانہیں اپنے مٹی کی مہک ہی نہیں ۔۔وہ قرض بھی بھلا دیا ہے جو اُن پر تا عمر واجب ہے ۔ وہ دنیا کی بہترین یونیورسٹیز اور نامور اداروں میں جو کچھ بھی ہیں اِس وطنِ عزیز کی وجہ سے ہیں ۔۔ مگر صد حیف کے آج کی نسل نے تو ماں باپ کی اِن قبروں کو بھی قطعاٌ فراموش کر دیا ہے ۔جو انکی راہ تکتیں ہیں۔ ۔ کہ کسی عید ، کسی بقر عید ، کسی شبِ برات پر۔۔کوئی اُن پر بھی فاتحہ کے دو بول پڑھنے کو لوٹے گا۔!!!


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری پیدائش سے قبل میری ماں اپنے ماڈلنگ کیریئر کے عروج پر تھی ۔۔اگر اُسے ذرا بھی اندازہ ہوتا کہ میری پیدائش کےبعداُس کا جسم دوسروں کے لیئے اپنی وقعت کھو دیگا ،جس کی نمائش کر کے اسے پیسا ملا کرتا تھا ۔۔تو وہ مجھے اِس دنیا میں ہر گزنہ آنے دیتی ۔۔کیلی کی مضطرب انگلیوں میں جلتا ہوا سگریٹ ختم ہونے کو تھا ۔۔
وہ آئی وی یارڈ کے باہر کشادہ لان میں بیٹھی تھیں ۔۔ اور ہلکی بوند اباندی ہو رہی تھی ۔۔ میری ماں نے مجھے ابتدا سے ہی نظر اندازکیا۔جیسے ہی اسکا ماڈلنگ کیرئیر ڈوبا وہ خود کو ڈرگز اور الکوحل کے نشے میں غرق کرتی چلی گئی ۔۔ یو نو ۔مینا کہ یہاں امریکہ
اور یورپ میں مجھ سمیعت ہر تیسرا شخص اس فرسٹریشن کا شکار ہے کہ جب اُسے ماں باپ ہی پیار نہیں دے سکے ۔ تو کوئی اورکس طرح اس سے سچا پیار کر سکتا ہے ۔یہ خوف اب مجھے کسی سے گھلنے ملنے نہیں دیتا ۔کیلی نے نفرت سے سگریٹ دور اچھالامنتہیٰ کسی گہری سوچ میں غرق تھی ۔۔ہم مسلمان ۔۔ ایشینز کو آنکھ کھولتے ہی ماں کی آغوش میسر آتی ہے ۔۔ باپ ہمیں انگلی پکڑ کر چلنا سکھاتا ہے ۔۔ جہاں والدین جوانی تک اولاد کے لیئے گھنی چھا ؤں ہوتے ہیں ۔۔مگر ہم اِن مہربان رشتوں کی قدر نہیں کرتے ۔۔ اِنکی اصل قدر کیلی جیسے بے انتہا ذہین اور با صلاحیت لوگوں کے ہاں تھی جو زندگی کے ہر میدان میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ کر بھی ۔۔ماں باپ کی اولین توجہ اور پیار کو ترستے تھے۔ جہاں سچے پیار کو بہت عرصے پہلےدیس نکالا مل چکا تھا ۔۔
منتہیٰ چھوٹے چھوٹے قدم لیتی ۔۔کیلی تک آئی جو ہاتھ میں بلیک کافی کا مگ لیئے ایک درخت سے ٹیک لگائے۔کہیں کسی دوسرے جہان میں گُم تھی ۔اس نے آہستہ سے کیلی کا ہاتھ تھاما ۔۔ میں نہیں جانتی کہ تمہیں سچا پیار ۔ کب اور کہاں ملے گا ؟؟
لیکن میں ایک ایسی جگہ سے واقف ہوں جہاں تمہاری اِس بے چین روح کو سکون ضرور مل جا ئیگا ۔۔
so tell me where is that meena..??کیلی نے تیزی سے اُسکی طرف رخ موڑا ۔
یہ سکون تمہیں ۔۔میرے پیارے مذہب اِسلام اور سوہنے رب کی کتاب قرآن پاک میں ملیگا۔۔ جس میں ہر مضطرب دلاور بے چین روح کے لیئے ابدی سکون ہے ۔۔ میں تمہاری ہر طرح کی مدد اور راہنمائی کے لیئے ہمیشہ حاضر ہوں ۔۔ منتہیٰ
نے ہاتھ بڑھا کر اُسے گلے لگایا ۔۔ یہ ہارورڈ چھوڑنے سے پہلے اُنکی آخری ملاقات تھی ۔۔۔!!!!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
I am speechless my child .. you are our true asset.. dnt worry every
wound you suffered.. will be soon heal ...!!
وہ ارمان کے ساتھ ڈاکٹر عبدالحق کی سٹڈی میں تھی ۔۔ جنھوں نے اُسے پورا ٹرائیبیوٹ دیا تھا ۔
تھینک یو سر ۔۔ ہم اور سیو دی ارتھ آج جہاں کہیں بھی ہیں ۔۔آپ کی وجہ سے ہیں۔۔ اور میں چاہونگی کے سپارکو کی طرح
پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کا پلیٹ فارم بھی آج کی یوتھ کو available ہو۔۔ !!
ارمان نے چونک کر منتہیٰ کو دیکھا ۔۔ وہ پچھلے روز سے مسلسل گُم صُم تھا ۔۔
منتہیٰ فی الحال یہ ممکن نہیں ہو سکے گا ۔۔ میرا خیال ہے کہ ہم low profile میں رہتے ہوئے اِن ٹیکنالوجیز پر کام کریں جن سے بڑھتی ہوئی ماحولیاتی تبدیلیوں کا کسی حد تک سدِ باب کیا جاسکے ۔ ڈاکٹر عبدالحق ایک جہاندیدہ سائنسدان تھے ۔ وہ ایک ساتھ بہت سی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کا رسک نہیں لے سکتے تھے ۔۔ایگزیکٹلی سر ۔۔ اس کے لیئے سب سے پہلے ہمیں کسی ایسی موضوع جگہ کی ضرورت ہے جہاں ہماری سرگرمیاں۔۔ امریکی سیٹیلائٹس سے پوشیدہ رہ سکیں ۔۔ہوں ۔۔ انہوں نے ہنکارا بھرا ۔۔ کوئی ایسی جگہ ہے تمہاری نظر میں ۔۔؟؟
سر بلوچستان میں چاغی کے پہاڑی سلسلے ایک بہترین جگہ تھے ۔۔ لیکن وہاں سٹیلائٹس مانیٹرنگ کا خطرہ بھی زیادہ ہے ۔۔ میں نے کچھ علاقوں کی نشاندہی کی ہے ۔ اُس نے اپنے ساتھ لایا ہوا پاکستان کا میپ پھیلایا ۔۔!!!اُنکی دو ڈھائی گھنٹے کی میٹنگ میں ارمان صرف دو چار دفعہ ہی بولا تھا ۔۔ اور اب واپسی کے سفر پر بھی وہ خاموش تھا منتہیٰ نے ایک ترچھی نظر اُس پر ڈالی ۔۔ یہ چپ کا روزہ کب افطار کرنا ہے ۔۔؟؟
تم نے کچھ بولنے کے قابل کب چھوڑا ہے ۔۔!! وہ بدستور ونڈ سکرین کے پار دیکھتا رہا ویل۔۔ اب ساری عمر کیا یونہی چپ رہنا ہے ۔۔؟؟
جی ۔۔ بلکل ۔۔ دل کرتا ہے کہ آپ بولتی رہیں ۔۔ میں سنتا رہوں ۔۔ !! وہ جذباتی ہواجی ۔۔ سال ، دو سال بعد آپ فرمائیں گے ۔۔اُف کتنا بولتی ہو تم ۔۔ ہونہہ اگر ایسا نہ ہوا تو ۔۔؟؟ ارمان نے ہنستے ہوئے اُسکا ہاتھ تھاما
تو پھر آپکا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں آنے کے قوی امکانات ہیں ۔برسوں تک لگاتار بیوی کو سنتے رہنے کا عالمی ریکارڈ ۔ارمان کا زندگی سے بھرپور اونچا قہقہہ گونجا ۔۔۔ وہ ایک نیا دور شروع کرنے جا رہے تھے ۔۔ جو پہلے سے زیادہ پُرخطر بھی تھااور سنگین بھی ۔۔۔ لیکن انہیں یہ جوا بھی ہر حال میں کھیلنا تھا ۔۔
’’ہم غازی رہیں گے یا شہید ۔۔ لیکن ہم میدان چھوڑ کر ہر گز نہیں بھاگیں گے ۔۔۔‘‘


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منتہیٰ گزشتہ دس دن سے ایس ٹی ای کے برین ونگ کارکنان کے ساتھ آزاد کشمیر اور جہلم کے درمیانی علاقے میں اپنے نئےپراجیکٹ پر کام کے آغاز کے لیئے پوری طرح سر گرم تھی ۔۔ شدید مصروفیات کے باعث پاؤں کا درد سِوا ہو چکا تھا ۔۔ وہ دردسے نڈھال کمرے میں آکر لیٹی ہی تھی کی سیل تھرتھرایا ۔۔
تم میڈیسن کب سے نہیں لے رہی ہو۔۔؟؟ کوئی تھا جو اب اُس کے درد کو بتائے بغیر جاننے لگا تھا ۔۔
ابھی لی ہیں ۔۔ اُس نے لیٹے لیٹے جواب دیا ۔۔اٹھنے کی ہمت کس میں تھی ۔
وہ تم نے درد کو انتہا پر پہنچا کر لیں ہیں ۔۔ ارمان کا لہجہ درشت ہوا ۔
آپکو کیا پتا ۔۔ آپ کوئی یہاں ہیں۔۔؟؟ ہونہہ 
منتہیٰ بی بی ۔۔ میرا خیال ہے کہ مجھے اِس وضاحت کی قطعاٌ ضرورت نہیں ہے ۔۔ اُسکا لہجہ برفیلا تھا ۔۔ ہم مم۔۔ لمبی سی ہم کر کے منتہیٰ نے ارمان کی نقل اتاری۔
ملو تم مجھے ۔۔ لیتا ہوں میں تمہاری خبر ۔۔۔!! 
میں ہفتہ دس دن تک نہیں آنے والی ۔۔ منتہیٰ نے اُسےِ چڑایا ۔
جی نہیں ۔۔!! میں نے ونگ کمانڈر آزر کو کہا ہے ۔۔وہ کل تمہیں یہاں پہنچائے گا ۔۔ایس ٹی ای کی میٹنگ میں تمہاری شرکت ضروری ہے ۔۔
واٹ ۔۔؟؟ ایسی کیا خاص بات ہے ۔۔؟؟ 
خاص ہی ہے ۔۔آؤ گی تو پتا لگ جائے گا ۔۔ اور اب آرام کرو سمجھیں ۔۔ وہ ڈانٹ کر کال کاٹ چکا تھا ۔۔ منتہیٰ نے سکون سے آنکھیں موندیں ۔۔ اسکی یہ ڈانٹ کتنی اچھی لگتی تھی ۔۔!!
اگلے روز مصروفیت اور موسم کی خرابی کے باعث ۔۔ وہ میٹنگ ٹائم ۶ بجے ہی ایس ٹی ای آفس پہنچ سکی ۔۔اُسے حیرت ہوئی وہاں کسی فنکشن کی تیاریاں تھیں ۔۔منتہیٰ کی نگاہیں ارمان کی متلاشی تھیں کہ کسی نے پیچھے سے نرمی کیساتھ اسکا ہاتھ تھاما۔
وہ چونک کر مڑی ۔۔ آپ تو کہہ رہے تھے کہ میٹنگ ہے ۔۔ پر یہاں ۔۔اس نے ارینجمنٹ کی طرف اشارہ کیا
ہاں یہاں ایک چھوٹی سی تعارفی تقریب ہے ۔۔!!
واٹ۔۔؟؟ کس چیز کی ۔۔؟؟ اُس نے مڑ کر سٹیج کی طرف دیکھا ۔۔ بینر لگا تھا
Cosmology in the light of Holy Quran .... By Muntaha Arman
ایک تعارف ۔۔ایک جائزہ ۔۔!!
منتہیٰ نے مڑ کر خوشگوار حیرت سے ارمان کو دیکھا ۔۔ وہ ہمیشہ ایسی ہی سرپرائز دیتا تھا ۔۔
تقریب میں ڈاکٹر یوسف اور ڈاکٹر عبدالحق کے علاوہ کئی نامور شخصیات نے منتہیٰ کی اِس کاوش کو بھرپور سراہا ۔۔ یہ ایک ایسی معلوماتی کتاب تھی ۔۔ جس پر آج تک کسی عالمِ دین ،کسی مولوی نے قلم نہیں اٹھایا تھا ۔۔ مقامی طور پر اِس کتاب کو سیو دی ارتھ پبلکشن ہاؤس نے شائع کیا تھا ۔۔جبکہ اسکا ایک مسودہ۔ ارمان پینگوئن پبلیکیشنز نیو یارک کو بھی بھیج چکا تھا ۔۔
ایس ٹی پبلیکیشنز کے تحت ارمان کی اپنی سات سالہ جدوجہد کی داستان
The routes I passed by .... بھی جلد ہی منظرِ عام پر آنے والی تھی ۔۔!!
تقریب کے بعد ۔۔منتہیٰ ایس ٹی ای کے کارکنان کو اپنے آٹو گراف کے ساتھ بک دیتی رہی ۔۔ آٹو گراف پلیز میم ۔۔ ارمان نے ایک جلد اُسکی طرف بڑھائی ۔۔ کچھ سوچتے ہوئے منتہیٰ نے لکھنا شروع کیا ۔۔!!

Sitting next
to you ...
Is like
Taking a sip of eternity
The sun , the stars , the sky
Never tasted so good..!!
Chrristy Ann Martine


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تھر اور چولستان میں سیو دی ارتھ کے پراجیکٹس کامیابی کے ساتھ مکمل ہونے کو تھے ۔۔انہوں نے بہت قلیل مدت اور نا کافی ذرائع کے با وجود وہاں قحط ، خشک سالی او روبائی امراض پر قابو پانے کے لئے ہیلتھ سینٹرز کے علاوہ فوڈ اینڈ ڈیزاسٹرسینٹر قائم کیئے تھے ۔۔جبکہ اگلا مرحلہ سال کے مختلف مہینوں میں وہاں مصنوئی بارش برسانے کا تھا ۔۔ جبکہ دوسری طرف جہلم کے قریب منتہیٰ کا پراجیکٹ بھی کامیابی کے ساتھ رواں تھا ۔۔ جسے فی الحال پوری طرح خفیہ رکھا گیا تھا۔۔
کئی ہفتوں کی شدید مصروفیات کے بعد وہ دونوں گھر پر اکھٹے ہوئے تھے ۔۔ رات دیر سے سونے کے باعث ارمان بارہ بجےتک خوابِ خرگوش کے مزے لے رہا تھا ۔۔ اور منتہیٰ کچن میں ممی کے پاس تھی جب ملازم نے اُسکی کسی مہمان کے آنے کی اطلاعcدی ۔۔ وہ اِس وقت گھر کے سادہ سے کپڑوں میں تھی ۔۔ دوپٹہ درست کرتی ہوئی ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے ہوئے ٹھٹکی ۔۔
بلیک عبایہ اور شلوار قمیض میں ملبوس وہ لڑکی ۔۔ یقیناٌکیلی تھی ۔۔!!
کیلی تم یہاں ۔۔؟؟منتہیٰ خوشگوار حیرت کے ساتھ اُس سے گلے ملی ۔۔
کیلی نہیں ۔۔ آمنہ ۔۔!!! میں نے اسلام قبول کر لیا ہے ۔۔ اُس نے اپنی ٹوٹی پھوٹی اردو میں جواب دیا 
ماشاء اللہ ۔۔ لیکن تم یہاں کب آئیں ۔۔ بتایا کیوں نہیں ۔۔؟؟
میں ایک ہفتہ پہلے لاہور آئی تھی ۔۔ پچھلے دو ماہ سے میں مکہ میں تھی ۔۔
ایم سو ہیپی کیلی۔۔ اُوہ سوری آمنہ ۔۔ منتہیٰ ایک دفعہ پھر اسکے گلے لگی ۔
یُو نو مینا ۔۔ کہ میں نے اپنے لیئے یہ نام اِ س لیئے منتخب کیا ہے ۔۔کہ یہ حضرت محمد ﷺ کی والدہ کا نام تھا ۔۔ میں سوچتی ہوں کہ وہ ہستی جو سراپا محبت اور کرم تھی ۔ اسکی عظیم ماں کیسی ہوگی۔۔؟؟ آمنہ کے دل میں ماں کی اولین محبت کا خلا آج بھی باقی تھا ۔۔ آنکھوں کی نمی چھپا کر کر وہ مسکرائی ۔۔
تم کیسی ہو۔۔؟؟ مجھے نینسی سے تمہارے حادثے اور پھر شادی کا پتا لگا تھا ۔۔تم بہت خوش لگ رہی ہو ۔۔ ارمان کیسا ہے ؟؟
وہ بہت نائس اور خیال کرنے والا شوہر ہے ۔۔ منتہیٰ کی آنکھوں میں قندیلیں سی روشن تھیں ۔
تم آرام سے بیٹھو نا ۔۔ میں تمہیں ممی پاپا سے ملواتی ہوں ۔۔ منتہیٰ اٹھی ۔۔
پھر دو گھنٹے تک وہ نان سٹاپ باتیں کرتی رہیں ۔۔ منتہیٰ کو ارمان بھی یاد نہیں آیا۔۔ جو سویا پڑا تھا ۔
تم آج کل کیا کر رہی ہو منتہیٰ ۔۔؟؟ آمنہ نے سرسری اندا ز میں پوچھا ۔۔
وہ بس ۔۔ارمان کی آرگنائیزیشن کے کچھ پراجیکٹس ہیں ۔۔ اُس نے گول مول جواب دیا 
آمنہ کے چہرے پر گہری مسکراہٹ اتری ۔۔ اُس نے منتہیٰ کے دونوں ہاتھ تھامے ۔۔ یو نو مینا ۔۔ کہ ہارورڈ میں تمہاری بہت ساری سرگرمیوں سے میں واقف تھی ۔۔ وہ ایک لمحے کو رکی ۔اسکی آنکھوں میں جھانکا ۔۔ اور جو فائلز تم نے میرےلیپ ٹاپ سے کاپی کی تھیں نہ۔۔ تو وہ میں نے دیکھ لیا تھا ۔۔ منتہیٰ کا رنگ اُڑا ۔۔اس نے ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی پھر تم مجھ سے دوستی کی کوششیں بڑھاتی گئیں ۔۔ مجھے سب معلوم تھا ۔۔ مگر تم مجھے بہت اچھی لگتی تھیں ۔۔اور اب بھی لگتی ہو ۔۔
I adore you ..اُس نے مینا کے دونوں ہاتھ ہونٹوں سے لگائے ۔۔
تمہارا ساتھ۔۔ تمہاری دوستی نے مجھے زندگی کے ایک نئے مفہوم سے آ شنا کرایا ۔۔میں جو اند رسے ایک مری ہوئی عورت تھی ۔۔ اب دوبارہ جینے لگی ہوں ۔۔ میں جینا چاہتی ہوں ۔۔ زندگی سے اپنے حصے کی خوشیاں کشید کرنا چاہتی ہوں ۔۔!!
منتہیٰ ساکت سی اُسے دیکھے گئی۔۔ وہ پلکیں تک جھپکانا بھول گئی تھی ۔۔
میں تمہارا شکریہ ادا نہیں کرو ں گی ۔۔ میں اِن کاموں میں تمہارا بھرپور ساتھ دونگی ۔۔ انشا ء اللہ ہم ملکر بہت کچھ کریں گےانسانیت کی فلاح کے لیئے ۔۔ اپنی زمین کے دوام کے لیئے ۔۔!!! اُسکا لہجہ بہت پُر عزم تھا ۔
اور ہم ملکر تمہارے لیئے ایک پیارا سا محبت کرنے والا دولہا بھی ڈھونڈیں گے انشا ء اللہ ۔۔ ارمان کی آواز پر وہ دونوں چونکیں جو نہ جانے کب سے پیچھے کھڑا ۔۔دونوں دوستوں کا رومانس دیکھ رہا تھا ۔۔
شیور ۔۔ اور وہ بلکل تمہارے جیسا ۔۔ سمارٹ ۔ محبت اور خیال کرنے والا ہونا چاہئے ۔۔ آمنہ چہکی یہ تو مشکل ہو جائیگی آمنہ بی بی ۔۔ کیونکہ میرے جیسا کوئی اور پیس نہیں دنیا میں ۔۔ جس کا مقدر ۔یہ آپکی بد لحاظ اور سر پھری دوست تھی ۔ منتہیٰ نے اُسے گھورا 
ڈونٹ وری آمنہ تمہیں اِن سے بہت اچھا ۔۔ آئیڈیل سا۔۔ ہزبینڈ ملے گا ۔۔ 
یا اللہ ۔۔یہ تیرے نا شکرے بندے ۔۔ ارمان ہاتھ اٹھا کر دہائی دینے لگا تھا کہ منتہیٰ نے اُسے کھینچ کر کشن مارا ۔ وہ بہت خوشتھی ۔’’کہتے ہیں کہ آپکی نیکی لوٹ کرواپس آپ کے پاس ہی آتی ہے۔‘‘ اُس نے صدقِ دل سے چاہا تھا کہ کیلی اِس فرسٹرشن سے باہر نکل آئے ۔۔جس میں وہ بچپن سے مبتلا تھی ۔۔!!
انکی ٹیم میں آمنہ جیسی ذہین و فطین اور تجربہ کار انوائرمینٹل سائنٹسٹ کی شمولیت بلا شبہ ایک سنگِ میل تھی ۔۔!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر وقت کی روانی کوسمجھنا ہو توکبھی کسی اُونچی چٹان پر کھڑے ہوکر ۔نیچے ساحل سے ٹکراتی موجوں کو دیکھنا،وقت بھی اِن موجوں کی طرح انسان کی زندگی میں وارد ہوتا  ہےکبھی دبے قدموں مسرتوں اور شادمانیوں کے تازہ جھو نکوں کی طرح کبھی شوریدہ سر موجوں کی صورت میں انسانی ذات کے اندر اور باہر بہت کچھ توڑتا فنا کرتا ہوا ،کبھی بے رحم طوفانوں
جیسا ہر شے تہس نہس کردینے والا ۔لیکن اچھا یا برابہرحال وقت کٹ ہی جاتا ہے ۔ساحل پر کس کے نقشِ پا ہمیشہ رہے ہیں ۔۔ مگر داعمی حیات اُنہی کو ملتی ہے ۔جو دلوں میں زندہ رہتے ہیں ۔۔۔!!!
وہ ایک دفعہ پھر نیویارک میں تھی ۔۔منتہیٰ ارمان یوسف کو یونیسکو کی تقریب میں شرکت کر کے اپنا L' oreal،
for woman in science international award
ایوارڈ وصول کرنا تھا ۔۔وہ نہ صرف ایشیا سے یہ اعزاز پانے والی پہلی خاتون تھی ۔۔ بلکہ اب تک ایوارڈ پانے والیوں میں سب
سے کم عمر بھی تھی ۔۔!!!
وہاں موجود شرکاء اُسے ایک ایسی بہادر لڑکی کے طور پر خراجِ تحسین پیش کر رہے تھے ۔۔ جو ایک بڑے حادثے سے گزرنےاور ایک عالمی اعزاز سے محرومی کے با وجود ہمت نہیں ہاری ۔۔ جس نے اپنی معذوری کو چیلنج سمجھ کے قبول کیا ۔۔اور آج جس کا شمار دنیا کے مایہ ناز فزکسٹ اور ٹیکنالوجسٹ میں کیا جا رہا تھا ۔۔ وہ بہت گہری مسکراہٹ کے ساتھ تعریفوں کے یہ سارے ہارگلے میں ڈالتی ہوئی ۔۔ مائک تک آئی ۔۔
میرا بچپن گورنمنٹ کے طرف سے ملے ہوئے ایک چھوٹے گھر میں گزرا ۔۔ اُس کے کشادہ آنگن میں ایک گھنا نیم کا درختتھا ۔جس پر ایک چڑیا کئی سالوں سے بسیرا کئے ہوئے تھی ۔۔ اُس کے بچوں کی چہچہا ہٹ ۔۔ہماری زندگی کا ایک حصہ تھی ۔۔ پھریوں ہوا کہ ایک روز بہت زور کی آندھی آئی ۔۔ ایسی کے گھروں کی چھتیں اُڑ گئیں ۔۔اور طوفانی جھکڑ درختوں کو جڑ سے اکھاڑ کرلے گئے ۔۔ میری دادی مجھے اور میری چھوٹی بہن کو اپنی گود میں چھپا کر سارا وقت تسبیح کا ورد کرتی رہیں ۔۔پھر جب طوفان تھما تو میں نے دیکھا کہ ہمارے آنگن کا وہ اکلوتا درخت جڑ سے اکھڑا پڑا تھا ۔۔ اور چڑیا کے گھونسلے کو طوفانی جھکڑاُڑا کر لیجا چکے تھے ۔ میرے ننھے سے ذہن کے لیئے یہ زندگی کا پہلا بڑا حادثہ تھا ۔۔ میں ساری رات روتی رہی۔۔کئی روز تک میں نے کھانا نہیں کھایا ۔۔ ۔پھر میرے ابو مجھے ہاتھ تھام کر ، سڑک کے پار کچی جھگیوں کی بستی لیکر گئے ۔۔ جہاں طوفان ہر شے کوفنا کر چکا تھا ۔۔ اور وہ خانہ بدوش اِدھر اُدھر سے ٹوٹا پھوٹا سامان جمع کر ہے تھے ۔۔
منتہیٰ۔۔ تم کئی دن سے روتی رہی ہو کہ تمہاری چڑیا کا گھونسلہ نہیں رہا ۔۔ انہیں دیکھو ۔۔اِن لوگوں کا کُل مال و متاع ۔آندھی اُڑاکر لے گئی ہے ۔۔لیکن یہ لوگ رو نہیں رہے ۔۔ کیونکہ انکا ایمان ہم پکے گھروں میں رہنے والے لوگوں جیسا نہیں ہے ۔۔چڑیا کا آشیانہ ہو ۔۔یا یہ کچی جھگیاں ۔ سب اللہ تعالی کی عطا ہیں ۔۔ انسان کی ملکیت نہیں ۔۔ وہ خدا چڑیا کو دوبارہ گھونسلہ بھی دیگا ۔۔اور اِن خانہ بدوشوں کو بھی کہیں نہ کہیں پناہ مل جائیگی ۔۔!!!میرے ننھے ذہن میں ایک مدت تک کئی سوال کلبلاتے رہے ۔ جب اللہ پاک اتنا رحمن و رحیم ہے تو پھر یہ طوفان آتے ہی کیوں
ہیں ۔۔؟؟ کیوں زلزلے کی ایک چنگھاڑ شہر کے شہر برباد کر دیتی ہے ۔۔؟؟ کیوں یہ سیلاب بستیوں پر بستیاں اجاڑتے گزرجاتے ہیں ۔۔؟؟
مذہب نے مجھے بتایا کہ یہ انسان کے برے اعمال پر اللہ تعالیٰ کا قہر ہوتے ہیں ۔۔سائنس کہتی تھی ۔۔۔ کہ انسانی سرگرمیوں نے
Ionosphere heating اور گلوبل وارمنگ جیسے امراض کو جنم دیا ۔۔ جن سے زمین پر آفات کی شرح روز بروزبڑھتی چلی گئی ۔۔ یعنی مذہب اور سائنس ایک ہی تھیوری کے دو مختلف اندازِ بیاں تھے ۔۔!!!
میری تلاش کا سفر سیو دی ارتھ نامی کمپین سے ہوا ۔۔ میری سوچ تھی کہ جہاں انسان تباہی پھیلانے والی ٹیکنالوجی بنا سکتا ہے تو کہیں نہ کہیں فلاح کی ٹیکنالوجی کا سرا بھی ہوگا ۔۔جہاں شر ہو وہاں اللہ تعالیٰ خیر بھی ضرور اتارتا ہے ۔۔ یہ نیکی اور بدی کا ارتقاء ہی ہے جس نے زمین پر زندگی کے پہیے کو رواں رکھا ہوا ہے ۔۔ لیکن انسان کی رغبت ہمیشہ سے شر کی طرف زیادہ رہی
ہے ۔۔ کہیں وہ خود حفاظتی کے نام پر نیو کلیئر اور کیمیائی ہتھیار بناتا ہے ۔۔ تو کہیں با یومیڈیکل انجینئرنگ میں ٹیکنالوجی کی انتہا پر پہنچ کر مصنوعی انسانی تخلیق کے تجربات کرتا ہے۔۔ !! خدا کے وجود کے منکر اِن زمینی نا خداؤں کو اپنی آخری سانس کے ساتھ یہ یقین ضرور آجاتا ہوگا ۔۔کہ اِس کائنات کا رکھوالا صرف اور صرف ایک اللہ تعالیٰ ہے ۔۔!!!!
میری جدوجہد کا سفر جاری رہا ۔۔ آج میرا ضمیر مطمئن ہے کہ اپنے ہم وطنوں ہی کے لیئے نہیں ۔۔انسانیت کی فلاح کے لیئےمیں جو کچھ کر سکتی تھی ۔۔ میں نے اُس میں اپنی طرف سے کوئی کمی نہیں رہنے دی ۔۔ یونیسکو کا یہ L' oreal ، فار وومن اِن سائنس ایوارڈ اور اِس کے ساتھ ملنے والی لاکھوں ڈالر کی رقم میں اپنے ہم وطنوں کے نام کرتی ہوں ۔۔ پاکستان کی اُن پسماندہ خواتین کے نام کرتی ہوں ۔۔جو اکیسویں صدی میں جی کر بھی ٹیکنالوجی کے نام سے بھی ہنوز نا بلد ہیں ۔۔!!
میرا مشن میری آخری سانس تک انشا ء اللہ جاری رہے گا ۔۔!!
دنیا کی نامور شخصیات نیچے حاضرین میں بیٹھی دم بخود اِس دھان پان سی لڑکی کو سن رہی تھیں ۔۔ جو عزم اور حوصلے کی ایک چٹان تھی ۔۔!! انہی حاضرین کی پہلی صف میں ارمان یوسف بھی تھا ۔۔ جسکی گود میں بیٹھی ۔۔ ایک ننھی پری کی ستارہ آنکھیں بہت دیر سے سٹیج پر کھڑی اپنی ماں پر مرکوز تھیں ۔۔ یوں جیسے وہ ماں کا ایک ایک لفظ اپنے اندر اتار رہی ہو ۔۔
ارمان نے دیکھا ۔۔اُس نے اپنے ننھے ہاتھوں کی انگلیاںآپس میں یوں پیوست کی ہوئی تھیں جیسے وہ ہاتھ۔ کوئی عہد باندھ
رہے ہوں ۔۔۔!! 
دس ماہ کی ستارہ آنکھوں اور فراخ پیشانی والی اِس ننھی گڑیا کو دیکھ کر کوئی بھی کہہ سکتا تھا ۔۔ کہ وہ ایک غیرمعمولی صلاحیتوں والی بچی تھی ۔۔ جس نے اپنی ماں سے بے پناہ ذہانت اور مضبوط قوتِ ارادی ورثے میں پائی تھی ۔۔ تو باپ سے اُسے وفا ، ایثار ۔اور استقامت جیسی نیک صفات ملی تھیں ۔۔!!یہ ننھی پری ۔۔اَمل ارمان تھی ۔!! بہت جلد عالمی اُفق پر نمودار ہونے والا ۔۔پاکستان کا ایک درخشندہ ستارا ۔۔۔!!!



۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ختم شد


ناول کے بارے میں کمنٹ سیکشن میں اظہار ِ خیال ضرور کیجیئے ۔ انتظار رہے گا 

Share on Google Plus

About Unknown

2 comments:

  1. Keep on writing such fantabulous piece of writings :)
    Just wondering NASA wale ap ko pakar k na le jaen apne sath ;)
    Best wishes to you!
    I used to wait impatiently for every episode of dawaam.

    ReplyDelete