WELCOME TO MELTED TRUTHS

All Truths are easy to understand once they are discovered;the point is to discover them.(Galileo Galilei)

THE FORTY RULES OF LOVE (Translation)




THE FORTY RULES OF LOVE 

BY: Elif Shafak
The Last Three Rules (from pg. 206 to 225)
Translation by Saadeqa Khan

A BOOK OF RUMI 

محبت کے چالیس اصول
ایلف شفق

“KIMYA”
کمیا۔۔
میں نے اُس  رات کے بعد شمس کو دوبارہ نہیں دیکھا ، میں  پھر کبھی اپنے  کمرے سے نہیں نکلی ۔ میں سارا وقت بستر پر لیٹ کر یوں گزارتی کہ میرے اندر سے  باہر نکلنے کی خواہش ہی مرتی گئی ۔ ایک ہفتہ گزرا ۔۔ پھر دوسرا یہاں تک کہ پھر میں نے دنوں کا شمار کرنا ہی چھوڑ دیا ۔ آہستہ آہستہ  میرے جسم کی ساری طاقت ختم ہوتی گئی ، یوں لگتا تھا  کہ صرف میری وہ ہتھیلی زندہ ہے جس پر شمس کے ہاتھ کا لمس آج بھی اُس رات کی طرح ترو تازہ تھا ۔ اس کے لمس کی حرارت کا احساس آج بھی میرے بے جان وجود میں ایک نئی روح پھونک دیتا تھا ۔
میں نہیں جانتی تھی کہ موت کی بھی ایک مخصوص بہت پر اثر بو ہوتی ہے ۔ جیسے اچار کی تیز بو ، یا صنوبر کی ٹوٹی ہوئی ڈنڈیاں جو اندر تک چبھتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں ، مگر ضروری نہیں  ،کہ موت کی یہ مہک انسان کی  طبیعت پر ناگوارِ خاطر ہی گزرے ۔ مجھے یہ ادراک کچھ دیر سے اُس وقت ہوا جب موت نے میرے کمرے کے گرد اپنا دائرہ تنگ کرنا شروع کیا  ، اور میرے وجود کے گرد  بھیگی بھیگی سی گہری دھند کا ہالہ بناتی گئی۔ پہلے پہل مجھے تیز بخار چڑھا  اور میں زیادہ تر بے ہوشی کی سی حالت میں رہنے لگی ، تب ہمسائے اور میرے دوست  خیریت دریافت کرنے کے لیئے آنے لگے ۔ کیرا بیڈ کی ایک جانب کھڑی اپنی سوجی متورم آنکھوں کے ساتھ میرے  ہوش میں آنے کا انتظار کرتی تو دوسری جانب کھڑی  گہور اپنی مخصوص ڈمپل مسکراہٹ کے ساتھ مجھے تکتی رہتی۔خدا کی  پناہ ۔ کیسا ظالم اور بے رحم انسان ہے بچی کی جان ہی لے ڈالی۔ صفیہ میری گرتی حالت دیکھ کر کہے بنا نہیں رہ سکی میں نے اپنی حتی المقدور قوت استعمال کر کے اس کو جواب دینا چاہا مگر آواز جیسے اب حلق سے نکلتی ہی نہ تھی ۔ میری قوت گویائی تقریبا ََ ختم ہو چکی تھی
آپ یہ کیسے کہہ سکتی ہیں ؟؟ کیا  شمس خدا ہے ؟؟ موت و حیات اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اس کو ایک فانی انسان سے کیسے  منسوب کیا جا سکتا ہے ۔؟؟ کیرا نے جیسے  میرے الفاظ کو زبان دی مگر اِ ن میں سے کوئی بھی کیرا کی بات سننے پر آمادہ نہ تھا  ، جتنے منہ اتنی باتیں تھیں  ہر کوئی اپنی ہی ہانک رہا تھا اور میں خود میں اتنی طاقت نہ پاتی تھی کہ لوگوں کو اپنی اس حالت کی اصل وجہ بتا سکوں ۔ جلد ہی میں نے محسوس کیا کہ میرے  کچھ کہنے یا  چپ رہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ، بہت سے لوگ اپنی ذاتی وجوہات کی بنا پر شمس کو پسند نہیں کرتے تھے انہیں میری بیماری کے ذریعے اسے کوستے رہنے کا ایک بہانہ مل گیا تھا ۔ مگر میں اب بھی چاہنے کے با وجود اس سے نفرت کرنے سے قاصر تھی۔
موت آہستہ آہستہ اپنا آہنی شکنجہ میرے گرد کستی گئی۔ ایک وقت آیا جب نہ مجھے اپنے ارد گرد موجود چہرے شناسا لگتے تھے نہ ہی میں پوری طرح ان کی باتیں سمجھ پاتی تھی ۔ موت کی وادی میں اترنے سے پہلے ، میں اُس کیفیت میں تھی جہاں شوخ رنگ تحلیل ہو کر صرف ایک سفید رنگ میں تحلیل ہو جاتے ہیں ، جہاں تمام آوازیں محض بھنبھناہٹ محسوس ہوتی ہیں ، جہاں صرف ایک آواز گونجتی رہتی ہے ۔۔ عدم کی آواز ۔۔
مجھے نہیں معلوم کہ شمس تبریز پھر کبھی میرے کمرے میں  میری حالتِ زار دیکھنے کے لیئے آیا یا نہیں ۔ عین ممکن ہے کہ وہ آیا ہو مگر  لوگوں نے اسے اندر ہی داخل نہ ہونے دیا ہو ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ آیا ہو ۔ بلا آخر  اسے مجھ پر رحم آہی گیا ہو ۔ وہ گھنٹوں میرےسرہانے بیٹھ کر میرے بال سنوارتا رہا ہو ۔ یا میرے ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھوں میں تھام کر میری روح کے ابدی سکون کے لیئے دعائیں کرتا رہا ہو۔لیکن میں اب اس مقام پر پہنچ چکی ہوں کہ مجھے اب کسی بھی چیز سے  کوئی رغبت نہیں رہی ۔ میرے لیئے  شمس کا آنا یا نہ آنا دونوں برابر ہیں ۔ نہ میں اس سے خفا ہوں نہ ہی بیزار ۔ سب کچھ کھو دینے کے بعد اب میں خو د کو کامل آگاہی اور وجدان  کی  ابدی جھیل میں تیرتا ہوا ایک کنول محسوس کرتی  ہوں ، جس کے لیئے دنیا کی ہر شے بے معنی ہوتی ہے ۔
 اللہ تعالیٰ بہت رحمان اور رحیم ہے ، اسکی اپنے بندوں سے بے پایاں محبت کا یہ عالم ہے کہ اس نے ان کی رام نمائی کے لیئے قرآن پاک کی صورت میں  آفاقی پیغام عطا کیا  جس میں ہر شے کی مکمل تفصیل موجود ہے ۔دس روز قبل میں ریشمی مخملی لباس میں ملبوس ، سر سے پاؤں تک سجی بنی ، خوشبوؤں میں بسی اپنی محبت کو تسخیر کرنے کے جنون میں  شمس کی کمرے میں گئی تھی ۔ پھر اسی رات سے میں بیمار پڑی ۔اور یہ بیماری دراصل  مجھے اس مقام تک لانے کا سبب بنی جس کے پار ادراک کے در وا ہوتے ہیں۔ وہ ادراک کیا تھا ؟؟ وہ دراصل قرآن کا  آفاقی پیغام  تھا کی اِس بے کراں کائنات میں  انسان کی حیثیت پانی کی ایک قطرے کی سی ہے ،اور میں آہستہ آہستہ جھیل کے ٹھنڈے پانیوں میں تیرتی ، زندگی کو الوداع کہتی ہوئی ، موت کی سرحدوں میں داخل ہوتی گئی ۔۔
  *******************************
The Killer
قاتل
قونیہ  ۔ مارچ 1248
بے ہودہ ، بدتمیز۔۔ میں نے کہا تھا نہ کہ میرے ساتھ کوئی نہیں آئے۔ کتنی دفعہ بتا  چکا ہوں کہ کام میں پورا  کرتا ہوں مگر  اس میں دوسروں کی مداخلت مجھے بلکل پسند نہیں  ۔ مگر وہ یہی اصرار کرتے رہے کہ چونکہ درویش نے  اپنی ما ورائی قوتوں سے ایک عالم  کی آنکھوں میں دھول جھونکی ہوئی ہے ، اس لیئے اُس جیسے مکار  شخص کا انجام وہ اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے ہیں ۔ٹھیک ہے ۔ بالاآخر میں نے ان کے اصرار کے  آگے ہتھیار ڈال دیئے، لیکن خیال رکھنا کہ جب تک کام ختم نہیں ہو جاتا  کوئی بھی میرے قریب نہ آئے ۔وہ تینوں فوراََ مان گئے ، انہوں نے اپنے چہرے نقاب سے ڈھانپے ہوئے تھے ، تاکہ شناخت نہ کیئے  جا سکیں ، ان میں سے دو   سےمیں پہلے سے واقف تھا، مگر تیسرا جو  نسبتاََ جوان اور  زیادہ مضطرب نظر آتا تھا ، میرے لیئے قطعاََ اجنبی تھا ۔رات آدھی ڈھل چکی تھی جب میں منصوبے کے مطابق  رومی کے گھر پہنچا ، اور پتھریلی دیوار پر چڑھ کر اندر صحن میں بے آواز چھالانگ لگائی ، اور ایک جھاڑی کے پیچھے چھپ کر بیٹھ گیا ۔ میرے گاہکوں  کی معلومات کے مطابق  شمس رات کوتہجد کی نماز سے پہلے یا بعد میں ضرور باہر آتا ہے ، سو مجھے اب چھپ کر اس کے باہر آنے کا انتظار کرنا تھا ۔
سال کے ان مہینوں میں موسم عمو ماََ ٹھنڈا ہو جاتا ہے اور اس رات تو ہوائیں بھی بہت زوروں کی چل رہی تھیں جن کی وجہ سے خنکی کچھ اور بڑھ گئی تھی ۔ مجھے اپنی ہاتھ میں پکڑی تلوار بھاری محسوس ہو رہی تھی اور اس پر لگے  مرجان اور  آرائش کے موتی جیسے میری انگلیوں میں دھنسنے لگے تھے ۔ میں  احتیاط کے طور پر  ایک تیز دھار چھرا بھی ساتھ رکھتا تھا  تاکہ ایسی صورتحال ہو جہاں تلوار کا استعمال ممکن نہ ہو تا وہاں چھرا کام آئے ۔
اُس رات موسم بھی کچھ عجیب سا تھا  تیز ہوا کے باوجود نہ جانے کیوں حبس  کا سا احساس ہوتا تھا ، میں نے ایک نظر آسمان پر ڈالی ، زرد سے ہالے نے چاند کا احاطہ کیا ہوا تھا ۔ ہر طرف گمبھیر سی خاموشی چھائی تھی جس میں کبھی کبھی مینڈکوں کے ٹر ٹرانے اور دیگر حشرات کے سرسرانے  کی آوازیں ماحول کو کچھ اور ہیبت ناک بناتی تھیں ،  اس پورے منظر میں اگر کوئی چیز بھلی تھی تو وہ ہوا کے زور پر جھومتے  گلاب اور دور تک پھیلی انکی دلفریب مہک تھی ۔ مگر  جلد ہی اس مہک پر ایک تیز عجیب سی بو حاوی ہوتی چلی گئی ، جو اس قدر تیز تھی کے میرا وہاں بیٹھے رہنے مشکل ہو گیا تھا ،   میرے اندر شدت سے یہ خواہش بیدار ہوئی کہ  منصوبے  کو ملتوی کر کے ابھی اس ڈراؤنی جگہ سے بھاگ جاؤں ، مگر اب یہ ممکن نہیں تھا ، میں اپنےالفاظ کا پکا تھا  اور میں  اپنے گاہکوں کو یقین دلا کر آیا تھا کہ کام آج رات ہی بہر صورت ہو جائیگا ۔
نا جانے کتنا وقت مزید گزرا ، نیند کی شدت سے میری پلکیں یوں بھاری ہونے لگیں تھیں کہ مجھے خود کو جگائے رکھنا دو بھر ہو گیا ، خود کو جگائے رکھنے کی مشق کرتے ہوئے میں نے سوچوں کا دھارا  بدلہ اور اس پر ہیبت جگہ  سے اپنی توجہ ہٹائی ۔میری گزری زندگی  کے اوراق ایک بعد ایک کر کے میری نگاہوں کے سامنے آتے گئے ، وہ ساری اندھوناک  وارداتیں اور سیاہ قتل  یاد آتے گئے جن پر میرے ضمیر نے مجھے کبھی ملامت نہیں کی تھی ، یادوں کے بھنور سے خود کو کھینچ کر نکالتے ہوئےمیں  دم بخود تھا ۔ یہ جگہ یقیناََ پس اسرار تھی آج سے پہلے  کبھی میرے اندر اپنے اعمال ِ سیاہ پر یوں احساس ندامت نہیں جاگا تھا ، نہ ہی مجھے اپنے مجرم ہونے پر اس طرح قلق ہوا تھا ۔ مگر اس رات یہ  اس قدر شدید تھا کہ اپنا مورال بلند رکھنے   اور دھیان بٹانے کے لیئے میں ایک نغمہ گنگنانے لگا ،دل کی خلش کسے پل سکون سے بیٹھنے نا دیتی تھی سا چار و ناچار میں گھر کے اندرونی حصے کے طرف نظریں گاڑ کر بڑابڑانے لگا ، " شمس اب مجھ میں انتظار کی مزید سکت نہیں رہی ، براہِ مہربانی  جلدی باہر آجاؤ۔
مگر ہر طرف وہی حولناک سناٹا چھایا رہا  ، ایک خیال سا میرے ذہن  میں کوندا ، اندر کوئی موجود بھی تھا یا نہیں ، میں ابھی اسی ادھیڑ بن میں لگا ہوا تھا کہ یکدم  تیز موسلا دھار بارش شروع ہوگئی ، یہ ایک نئی مصیبت وارد ہو گئی۔ میں غصے سے بڑ بڑایا بارش اس قدر تیز تھی کہ  چند ہی منٹوں میں  گلیاں ندی نالوں کا منظر پیش کرنے لگی تھیں اور میں پوری طرح بھیگا ہوا ، سردی سے کپکپاتے ہوئے  ، یہاں سے نکلنے کی سوچ ہی رہا تھا  کہ باہر سڑک سے تیز تیز قدموں کی  چاپ سنائی دی ، ٹھیک اسی وقت عمارت کا دروازہ کھول کر کوئی ہاتھ میں دیا لیئے ہوئے باہر نکلا ۔
یہ شمس تبریز تھا  جو میری ہی طرف آرہا تھا ۔ پھر وہ مجھ سے چند قدم کے فاصلے  پر آرکا اور بہت دوستانہ انداز میں گویا ہوا ، یہ یقینا ََ آپ کے لیئے ایک خوشگوار رات ثابت ہوئی ہوگی ؟؟
 شدید حیرت سے آنکھیں پھاڑتے ہوئے میں نے  تبریز کے دائیں بائیں دیکھا کہ شاید اس کے ساتھ کوئی اور بھی ہے جس سے وہ مخاطب ہے، مگر اس کے ساتھ تو کوئی بھی نہ تھا وو یقینا ََ مجھ ہی سے بات کر رہا تھا ۔ دوسرے ہی لمحے مجھ پر  ایک اور تازیانہ گرا ، شمس نے ہاتھ میں جو دیا پکڑا ہوا تھا  وہ شدید تیز بارش اور تیز ہواؤں کے جھکڑ کے با وجود  پوری آب و تاب کے ساتھ  اپنی روشنی یوں بکھیر رہا تھا کہ ایک  ساعت کے لیئے بھی اس کی لو نہ ٹمٹماتی تھی ۔ اس ادراک  کے سا تھ ہی میری ریڑھ کی ہڈی میں ایک سرد سی لہر دوڑتی چلی گئی ۔
میں نے شمس کے بارے میں بارہا ایسی داستانیں سنی تھیں  کہ وہ کالا جادو کا بہت بڑا ماہر ہے، اس کے پاس ایسی ماورائی قوتیں ہیں کہ وہ پلک جھپکتے میں کسی انسان کو گدھا  بنا دیتا ہے ، یا کسی کے جسم پر موجود کپڑوں سے ایک دھاگا لیکر اسے اندھی مکھی کے روپ میں ڈھال دینے جیسے کمالات پر عبور رکھتا ہے  ، مگر میں اس طرح کی لغویات پر کبھی یقین نہیں رکھتا ۔ اس وقت بھی میرا  دھیان ان  بے سرو پا باتوں کے بجائے   اس دیے کی طرف تھا جو شمس ہاتھوں میں تھامے میرے سامنے کھڑا تھا ۔
اور جو موسلا دھار بارش کے با وجود اب بھی اسی طرح جل رہا تھا ۔ خوف کا احساس اتنا شدیدتھا کہ با وجود کوشش کے میں اپنی کپکپاہٹ پر قابو پانے  سے قاصر تھا ۔ کئی برس قبل تبریز میں میرا ایک آقا تھا ، کچھ توقف کے بعد شمس دوبارا گویا ہوا اور ہاتھ میں پکڑا ہوا دیافاصلے پر یوں زمین پر رکھا کہ اب وہ میری نظر سے اوجھل تھا ۔ کیا تم جانتے ہو اس نے مجھے زندگی کی کون سی سب سے بڑی حقیقت سے روشناس کرایا ۔ وہ ایک لمحے کو رکا اور بغور میری جانب دیکھا جیسے جواب چاہتا ہو ، مگر میں تو اپنی جگہ گنگ تھا ۔
میرے آقا نے  مجھے بتایا کہ دنیا میں آنے والے کو ایک روز جانا بھی ہوتا ہے اور وہ دن اللہ تعالیٰ لوحِ محفوظ میں درج کر دیتا ہے اور یہ  اس کائنات کا نا قابلِ تغیر  اصول ہے ۔ 
مگر مجھے ان پیچیدہ  قوانین اور الجھی  باتوں سے کوئی سروکار نہیں تھا ، شاید وہ باتوں میں لگا کر کسی کو مدد کے لیئے بلانا چاہتا ہے ۔۔ سو تیزی سے اپنے خوف پر قابو پاتے ہوئے مجھے آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنا تھا ، فی الحال میں جھاڑی سے نکل کر اس پر حملہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا ، لیکن اگر وہ اسی رخ پر میرے سامنے موجود رہا تو پھر سامنے آکر اس پر بھرپور وار کرنا ہوگا ۔ میں ابھی اسی شش و پنج میں تھا کہ مجھے کچھ فاصلے پر ایک پناہ گاہ کے نیچے اپنےتینوں گاہک کھڑے نظر آئے ، وہ اب بھی خود کو پوری طرح ڈھانپے ہوئے تھےاور یقینا ََ حیران تھے کہ میں آگے بڑھ کر  درویش کا کام تمام کیوں نہیں کر دیتا ۔۔؟؟
یہ خدا کہ قوانین میں  اصول نمبر سینتیس  ہے کہ ہر کام اپنے  مقررہ وقت پر ہی انجام پاتا ہے، جب مالکِ کا ئنات کا حکم ہوتا ہے کہ " ہو جا " تو وہ کام بلا تاخیر  ہو جاتا ہے ، کسی کی مجال نہیں کہ اس کے حکم کے بعد گھڑی دو گھڑی کا بھی رخنہ ڈال سکے۔اس لمحے مجھے یہ ادراک ہوا کہ شمس نہ صرف  یہاں میری موجودگی سے واقف ہے بلکہ وہ مجھ ہی  سے مخا طب ہے ، وہ یقینا ََ صحن میں آنے سے پہلے ہی آگاہ ہو چکا تھا، یہ حقیقت آشکار ہوتے ہی میرا دل یوں دھڑکنے لگا  جیسے سینہ توڑ کر باہر آجا ئیگا ۔کچھ لمحوں کے لیئے میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے، یوں لگتا تھا کہ  ہوائیں تھم چکی ہوں اور ہر شے اپنی جگہ ساکت ہو ۔۔ حتیٰ کے کچھ دیر پہلے زور و شور سے برستا مینہ بھی یکدم  برسنا  بند ہو گیا تھا ۔ سو اب مزید چھپے رہنا بیکار تھا ۔ اپنی تمام ہمت کو  مجتمع کرتے ہوئے میں اوٹ سے باہر نکلا  تو رات کے آخری پہر کے سناٹے میں ، میں اور شمس یعنی قاتل اور مقتول ایک دوسرے کے  بالمقابل آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑے تھےاور معاملے کی نزاکت کے بر عکس ہر شے ایک طے شدہ سکیم کےمطابق ، بلکل قدرتی اور پر سکون تھی ۔
میں نے اپنے جسم کی پوری طاقت استعمال کرتے ہوئے  تلوار نیام سے نکال کر درویش پر وار کیا ، مگر میری توقع  اور اپنی عمر  کے بر عکس وہ انتہائی پھرتی سے جھکائی دے گیا ۔ اگلے لمحے میں پلٹ کر اس پر وار کرنے کے لیئے  پوری طرح مستعد تھا کہ گہرے اندھیرے میں چہار سمت سے  چھ نقاب پوش  بھوتوں کی طرح یکایک نمودار ہوئے ، انہیں یقینا ََ میرے گاہک اپنے ساتھ لائے تھے اور وہ بہت دیر سے  ایسی ہی صورتحال کے لیئے چھپے بیٹھے تھے ۔  مگر درویش بھی حد کا بہادر اور پھرتیلا تھا۔ابتدا میں ان چھ نقاب پوشوں کی نہتے شمس کے ساتھ لڑائی اتنی خطرناک تھی کہ وہ ایک کے بعد دوسرے حملہ آور کو دور اچھالتا گیا ، وہ لڑ کھڑا کر اٹھتےپھر دوبارہ پلٹ کر اس پر حملہ کرتے مگر ہر دفعہ انہیں منہ کی کھانی پڑتی ۔ ایک کے بعد ایک ان کی پرچھیاں ٹوٹ کر گرتی رہیں ، میں اس ساری صورتحال میں محض  ایک احمق تماشائی تھا ،یہ لڑائی تو مجھے تن تنہا لڑنی تھی ۔ مجھے اس شدت کا غصہ آیا تھا  کہ میرا بس نہیں چلتا تھا کہ درویش کے ساتھ مل کر ان چھ احمق حملہ آوروں کا کام تمام کردوں ۔ مگر اب یہ میری انا کا مسئلہ کا تھا ۔
  اگلے لمحے بجلی کی سی تیزی کے ساتھ اپنی تلوار پھینکتے ہوئے  میں نے اپنا تیز دھار چھرا نکالا  اور  ان سب کو اشارہ دیا ، ہم ساتوں نے ملکر شمس کو بے بس کرتے ہوئے زمین پر چاروں شانے چت گرایااور میں نے بھرپور طاقت کے ساتھ وار کرتے ہوئے چھرا درویش کے سینے کے عین وست میں پیوست کر دیا ۔ دوسری ہی لمحے شمس کی ایک تیز چنگھاڑ نما چیخ  ہر سمت یوں گونجتی چلی گئی کہ بے اختیار ہم نے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ لیئے ، یہ اس کے لبوں سے نکلنے والی آخری آواز تھی ، اس کے بعد وہ ہمیشہ کے لیئے ساکت ہو چکا تھا ، بہت دیر تک ہم ساتوں ساکت کھڑے ایک دوسرے کی شکل دیکھتے رہے ، ہمارا دشمن مر چکا تھا مگر ہم میں سے کوئی بھی خوش نہ تھا ۔ ایک عجیب سی نا قابلِ بیان  ندامت تھی جو ہم سب کو گھیرے ہوئے تھی۔    
پھر سب نے ملکر اسکی لاش کو اٹھایا تو ہماری توقع کے بر خلاف وہ بہت ہلکی تھی،  روح کا رشتہ جسم سے ٹوٹتے ہی وہ پھول کی طرح یوں بے وزن ہو گئی تھی کہ جب ہم نے اسے گہرے کنویں میں پھینکا تو پانی میں گرنے کی آواز تک سنائی نہ دیتی تھی ایک، دو ، تین ہم کئی لمحوں تک کنویں کی منڈیر پر کان لگائے  کھڑے رہے مگر وہاں ہنوز گہرا سکوت طاری رہا ۔ شاید لاش کنویں کے کسی ہک میں اٹک گئی ہو ، ایک نقاب پوش نے سب کو تسلی دینے کی کوشش کی ۔ مگر مجھ سمیت ہر کوئی  جانتا تھا کہ یہ محض خود فریبی اور طفل تسلی تھی کیونکہ اس علاقے  کے کنوؤں میں تو  کھونٹے بنائے ہی نہیں جاتے ۔
 نا جانے کتنی دیر تک ہم وہاں کھڑےبے مقصد ایک دوسرے کو تکتے رہے، ہمارے کندھوں پر ایک نا دیدہ بوجھ آن پڑا تھا ، جس سے نجات پانے کی کوئی راہ فی الحال سجھائی نہ دیتی تھی ۔ ہوائیں اب کچھ  مزید سرد  اور تیز ہو چکی تھیں  جیسے صحن کےدرو دیوار کے ساتھ سر پٹک کر ماتم کر رہی ہوں اور  ان کے زور پر   لگاتار گرتے خزاں ذدہ پتے  زمین پر چادر سے بچھا کر اس نوحہ خوانی میں اپنا حصہ ڈال رہے تھے ۔ آسمان کا رنگ آہستہ آہستہ ہلکا بنفشی ہونے لگا تھا  یعنی افق پر پو پھٹنے کو تھی  ، ہم نہ جانےاور کتنی دیر اسی طرح  ساکت وہیں کھڑے رہتے کہ یکدم عمارت کا مرکزی دروازہ کھلا اور ایک شخص شمس کو آوازیں دیتا ہوا باہر آیا ۔
مجھے اسے پہچاننے میں چند سیکنڈ بھی نہیں لگے ، وہ رومی تھا ۔۔ مولانا رومی !
شمس تم کہاں ہو ؟؟ وہ ایک دفعہ پھر اونچا چلایا اور ساتھ ساتھ ادھر ادھر ڈھونڈتا ہوا آگے بڑھتا گیا ۔ پریشانی اس کے چہرے سے ہویدہ تھی
مولانا رومی کی آوازیں رات کے سناٹے میں دور دور تک گونجتی سنائی دیتی تھیں ۔۔ ہم سب کو یکدم ہوش آیا اور میرے ساتھ موجودچھ کے چھ حملہ آورسر پر پاؤں رکھ کر بھاگے،علی الصبح کے ملجگے سے اجالے میں وہ بجلی کی سی پھرتی سے دیواریں پھاندتے ہوئے جیسے آئے تھےویسے ہی غائب بھی ہو گئے  اور میں وہیں اپنا چھرا ڈھونڈتا رہ گیا  جس سے کچھ  دیر پہلے میں نے شمس تبریز کا کام تمام کیا تھا ۔چھرا پاس ہی ایک جھاڑی  میں  مٹی  کے ڈھیر میں پڑا تھا، اسے اٹھاتے ہی میں بھی یہاں سے رفو چکر ہونے کے لیئے دیوار کی طرف لپکا  ، اس ڈراؤنی جگہ پر مزید  ایک منٹ بھی رکنا میرے لیئے دو بھر تھا ، دیوار پر چڑھنے سے پہلے میں نے اپنی  ساری ہمت مجتمع  کرتے ہوئے میں نے ایک دفعہ مڑ کر دیکھا ۔ منظر کچھ دھندلہ دھندلہ سا تھا  ، رومی  اب سیدھا کنویں کی طرف   یوں بڑھ رہا تھا  جیسے ٹرانس میں ہو، قریب پہنچ کر اس نے منڈیر پر جھک کر اندر جھا نکا ۔
میرا دل  بس سینے توڑ کر باہر آنے کو تھا ، کئی لمحوں تک منڈیر پر ہاتھ رکھے مولانا رومی اندر جھانکتا رہا ،  اس کی نگاہیں گھپ اندھیرے میں کسی شے پر مر کوز تھیں ۔ پھر اس کے بت سے ساکت وجود میں حرکت ہوئی اور وہ چیختا ، سینہ کوبی کرتا  ہوا وہیں منڈیر کی دیوار کے ساتھ بیٹھتا چلا گیا ۔مار دیا ۔۔ انہوں نے میرے شمس کو مار ڈالایہ منظر ایسا ہیبت ناک تھا کہ میں چھرا وہیں پھینک کرتیزی سے دیوار پھاندتا ،اپنی پوری قوت سے بھاگتا چلا گیا ۔ میں اس روز سے آج تک  میں مسلسل بھاگ رہا ہوں ، مگر فرار کا کوئی راستہ ہی نہیں مل پاتا ، کنویں میں پڑی ایک درویش کی لاش اوراس کے خون میں ڈوبا  چھرا ۔ یہ منظر ہر موڑ پر  میرے راستے روکے  کھڑاملتا ہے ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نارتھ ہمپٹن 12  اگست 2008
یہ اگست کی  معمول کی طرح ایک خوشگوار صبح تھی ، سورج پوری آب و تاب کے ساتھ طلوع ہو چکا تھا اور الا اپنے خوبصورت کچن میں بچوں اور شوہر کے لیئے ناشتہ  بنانے میں مشغول تھی ۔ ناشتہ کرتے ہی وہ ایک ایک کر کے آفس ، شطرنج اورٹینس  کلب کے لیئے روانہ ہوتے گئے ، کچن کے بکھیڑے کو سمیٹ کر الا نے حسبِ معمول اپنی کک بک کھولی ، کوکنگ اسکی ہابی تھی اور وہ بہت سوچ بچار کے بعد روز کا مینو منتخب کرتی تھی ۔
سپینش سوپ ود کریمی مش روم میش  ، گارڈن سلاد ،  رائز گراٹین ،  وینیلا کریم ۔۔ وہ جم کر دوپہر تک سب کچھ تیار کرتی رہی ، آ ج اہتمام ِ خصو صی تھا ، سو اس نے اپنی بہترین چائنہ کی  کراکری نکالی ، نیپکن فولڈ کرکے رکھے  پھر گلدان میں ڈھیرسارے پھول سجائے ،  ابھی  سب کی آمد میں کافی ٹائم تھا سو اس  نے اوون کو چالیس منٹ گرم رکھنے  پر چھوڑا تاکہ سب کو گراٹین گرما گرم ملے ، پھر اس نے روسٹڈ بریڈ تیار کی اور ایوی کی  پسند کے مطابق  سلاد پر موٹی تہوں کی ڈریسنگ کی ۔ سب کچھ پرفیکٹ لگتا تھا ، پھر اسے موم بتی جلانے کا خیال آیا مگر دوسرے ہی لمحے الا نے خود ہی  مسترد کر دیا ، اوں ہوں ۔ ٹیبل ایسے ہی اچھی لگتی ہے بے داغ اور ساکت ،  ایک اَن چھوئی تصویر۔۔
ہر شے پر آخری نظر ڈالتے ہوئے ، الا نے اپنا رات سے تیار کیا ہوا سوٹ کیس اٹھایا ، وہ اپنے اس گھر کو ہمیشہ  کے لیئے خیر باد کہنے جا رہی تھی جسے  برسوں کی محنت  اور بہت لگن سے اس نے سجایا سنوارا تھا ، جس کے درو دیوار سے سنہری یادیں وابستہ تھیں ، مگر الا کے دل پر کوئی بوجھ نہیں تھا ، پیدل سڑک تک آتے ہوئے اس کے موڈ کی خوشگواری یوں دو چند ہو چکی تھی کہ  وہ جولانیِ  طبع میں بے اختیار رومی کی یہ مثنوی  گنگنانے  لگی۔
"اگر آپ زندگی میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو کبھی یہ مت سوچیئے کہ اب بہت دیر ہو چکی ہے، آپ کو اس تبدیلی کی لئے خود کو تیار کر کے اس کا خیر مقدم کرنا ہوگا ۔ وہ شخص یقیناََ قابلِ رحم ہے جس کی زندگی کا نیا دن ، پچھلے  روز  جیسا ہی تھا ، کیونکہ زندگی ہمہ وقت تغیر و تبدل کا نام ہے ۔ انسان اگر خود خواہش اور جذبہ رکھتا ہو  تو وہ ہر آنے والے لمحے ، ہر آتی جاتی سانس  کے ساتھ ایک نیا جنم لے سکتا ہے ۔ اپنے اندر ایک نئے انسان کو دریافت کرنا کچھ اتنا زیادہ مشکل بھی نہیں  ، بس کچھ اور نئی اچھوتی راہیں دریافت کر کے پورے عزم کے ساتھ ان پر گامزن ہونا ہوگا۔ لیکن ایک نئی زندگی  کی شروعات کرنے سے پہلے ہر شخص کو ایک دفعہ موت سے پہلے مرنا پڑتا ہے، یہی کائنات کا اصول ہے ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
   رومی:
وقت کبھی رکتا نہیں ہے ، یہ ہر گھاؤ کا بہترین مرہم ہے ۔ وقت کے بہتے دھارے کے ساتھ درد کم ہو کر  دکھ میں ڈھلتا ہے  اور پھر ایک اذیت ناک خاموشی  انسانی ذات کا حصہ بنتی جاتی ہیں یوں جیسے روح میں عمیق سناٹے ہمیشہ کی لیئے  ڈیرے ڈال کر بیٹھ گئے ہوں جیسے تاریکی میں  ٹھاٹیں مارتا بے کراں سمندر ،  خاموش  اور پرسکون، نا قابلِ برداشت درد سے  شروع ہونے والا یہ سفر  سمندر جیسی وسعت ، گہرائی اور خاموشی پر آکر تمام ہوتا ہے  جس کے بعد روح ہمیشہ کے لیئے شانت ہو جاتی ہے ۔
مجھے آج بھی وہ دن پوری طرح  یاد ہے ، ٹھیک سولہ برس قبل  میری شمس سے پہلی ملاقات ہوئی تھی ۔ وہ چینی کے گوداموں کے  اطراف کی  بظاہر ایک عام  سی کاروباری جگہ تھی مگر ا س ملاقات نے اسے ہمارے لیئے یادگار بنا دیا۔ اسی لیئے ہر برس جب اکتوبر کے آخری دنوں میں تنہائی کا احساس  شدید تر ہوجاتا ہے تو میں چلے میں بیٹھ کر انہی چالیس قوانین پر غور و غوض کیا کرتا ہوں جو مجھے اب از بر ہو چکے ہیں ، بظاہر میں ان پر نظر ِ ثانی میں مصروف ہوتا ہوں مگر میرے خیالات کا مرکز و محور اب بھی شمس تبریز ہی ہوتا ہے۔
یہ دنیا فانی ہے یہاں آنے والے کو اک روز جانا بھی ہوتا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ موت کے بعد صرف ایک تاریکی ہے ، اتاہ عمیق تاریکی مگر جب انسان ہر طرف سے ان گھمبیر تاریکیوں کے جال میں  الجھ جاتا ہے اور فرار کی کوئی صورت سجھائی نہیں دیتی ، تب اس کے اندر ایک تیسری آنکھ بیدار ہوتی ہے جو گھٹا ٹوپ اندھیروں میں بھی واضح دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے، مگر ہر آنکھ انسان کی  علمی سطح اورذہنی اپچ تک ہی  پرکھ سکتی ہے ۔ مگر چشم ِ محبت سے تیز آج تک کوئی بھی نہیں دیکھ پایا ۔ جب  گہری دھند کے پار ایک نئی وادی میں زندگی ایک نئی دور کا آغاز کرتی ہے تو محبت کا وہ مفہوم سمجھ میں آتا ہے جس سے ہم پہلے یکسر نا بلد تھے ۔ تب بارش کی برستی  بوندوں میں ، سمندر میں چاندنی سے اٹھتے جوار بھاٹے میں ، مٹی کے ذروں میں، دھوپ میں سونے کی طرح جھلملاتی چٹانوں میں، ننھے پھول سے بچوں کی مسکراہٹ میں ،  یہاں تک کہ ہر آتی جاتی سانس ، رگوں میں دوڑتے خون اور دل کی ہر دھڑکن میں  بس ایک ہی جلوۂ جاناں نظر آتا ہے ۔
 کہنے کو شمس مجھ سے جدا ہو کر اُن اَن جانی راہوں پر  روانہ ہو چکا ہے  جہان سے واپسی ممکن نہیں ، مگر در حقیقت وہ مجھے ہر شے میں نظر آتا  تھا ، میں دکھ کی اس بھٹی میں آہستہ آہستہ یوں دہکتا گیا  ، کہ ہر دن ، ہر منٹ اور ہر لمحہ شمس میرے ساتھ ہوتا ۔ میرا سینہ وہ غار بنتا گیا  جس میں صرف میرا محبوب مکین تھا ۔اس کی آوازسنگلاخ پہاڑوں سے ٹکرا کر میرا کا نوں میں گونجتی رہتی۔ مجھے قطعاََ بھول گیا تھا کہ میں کبھی ایک اعلیٰ پائے کا مفکرتھا ، جس کے دن رات زندگی کے اسرار و رموزپر غور و فکر میں گزرا کرتے تھے ۔ یہ فراق ِ محبت جیسے میری ساری پرانی عادتوں کو کسی اژدھے کی طرح نگلتا جا رہا تھا ، مگر  وقت نے دیکھا کہ میں خسارے میں نہیں رہا ۔ مجھ پر اشعار وارد ہونے لگے۔
حالانکہ میں جانتا تھا کہ ابھی وہ الفاظ ہی دریافت نہیں ہوئے  جن سے وہ داستانِ الم بیان کی جا سکے  جو شمس کی دائمی جدا ئی کے بعد مجھ پر لمحہ لمحہ بیتی تھی ، درد قطرہ طرح میری اندر زہر کی طرح سرائیت کرتا گیا۔ مگر میں الفاظ پر ایمان رکھتا ہوں میں الفاظ کے کرشموں  پر یقین کرنے والوں میں سے ہوں۔اس دشوار ترین دور میں میرے بڑے بیٹے اور صوفی صلادین نے میرا بھرپور ساتھ  نبھایا ۔ صلہ دین جب اپنے چھوٹے سے کارخانے میں سونے کے ٹکڑوں کو کوٹ کر ان سے با کمال زیورات  تیار کرتا تو میں گھنٹوں خاموشی سے اس کے پاس بیٹھ کر اسے  کام میں مگن تکتا رہتا ،یوں ہتھوڑے کی پڑتی ہر ضرب کے ساتھ مجھ پر آگاہی کے نئے در وارد ہوتے گئے، مجھ پریہ حقیقت منکشف ہوئی کہ ایک درویش کے مست رقص میں کیونکر اتنی کشش ہوتی ہے ۔ صلہ دین  کے کارخانے سے اٹھنے ولا شور مجھے اس دلفریب دھن کی طرح معلوم ہوتا جس پر ایک مجذوب کے پاؤں خود بہ خود  تھرکنے لگتے ہیں ۔ یہ عدم کے وہ سر تھے جن کا شمس ہمیشہ سے دیوانہ رہا تھا ۔
اسی دوران میرے بڑے بیٹے کا بیاہ صلہ دین کی بیٹی سے ہو گیا جو  ماشاء اللہ ایک ذہین  اور متجسس لڑکی تھی ، اسے دیکھ کر بارہا مجھے کمیا یاد آجاتی تھی جس  نے برسوں  قبل مجھ سے قرآن پاک پڑھا تھا  اور اس دوران مجھ پر ادراک ہوا  کہ صرف مردہی اچھے شاگرد نہیں ہوتے بلکہ اگر لگن اور شوق ہو اور حوصلہ افزائی کی جائے تو لڑکیاں بھی کسی سے کم نہیں ہوتیں ۔ تھوڑے ہی عرصے میں مجھے کمیا اور اسکی بہن ہادیہ اتنی عزیز ہو گئی تھیں کہ میں انہیں اپنی دائیں اور بائیں آنکھ سے تشبیہ دیا کرتا  تھا ۔ ان دونوں  اور کچھ اور لڑکیوں کا شوق دیکھتے ہوئے میں نے وقتا ََ فقتاََ خواتین کی تعلیم کے لیئے کئی دور شروع کیئے اور دوسرے عالمِ دین پر بھی زور دیا کے وہ مردوں کی طرح  تعلیمِ نسواں پھر بھی بھر پور توجہ دیں ۔
چار برس قبل مجھ پر پہلی مثنوی کا ظہور اس وقت ہوا جب میں اندھیرے میں بیزار سا بیٹھا ایک درز سے چھن کر آنے والی سورج کی  کرنوں کو  یونہی تکنے میں مصروف تھا، اس روز کے بعد جیسے اشعار میرے لبوں سے برسات کے مینہ کی طرح لگاتاربرسنے لگے۔ مگر  ابتدا میں مجھے ان میں کوئی خاص کشش محسوس نہیں ہوتی تھی ، یہ صلہ دین تھا جو میری ساری ابتدائی شاعری کو ساتھ ساتھ لکھ کر محفوظ کرتا گیا اور پھر میرے بڑے بیٹے نے ان کی نقل تیار کرکے اپنے پاس محفوظ کرلی ۔ مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ ان دونوں کی وجہ سے میرا ابتدائی کلام با حفاظت اگلی نسل کو منتقل ہوا ، ورنہ سچی بات تو یہ ہے کہ  اگر کوئی چند دن بعد بھی مجھ سے ان اشعار کی فرمائش کرتا تو میرا ذہن کوری سلیٹ تھا ۔ دراصل یہ میری قلبی وارداتوں کا بیان تھا جو ایک نا قابلِ بیان کیفیت میں لکھا گیا سو مجھے اس میں سے کچھ بھی از بر نہ تھا ۔ حتیٰ کہ مجھے تو یہ بھی صحیح طرح یاد نہیں کہ یہ کلام نثری صورت میں تھا یا شاعری ۔ الفاظ لمحوں میں ذہن کے پردے پر نمودار ہوکر  زبان تک آتے اور پھر  پلک جھپکتے میں  بلندیوں پر محوِ پرواز پنچھیوں کی طرح اڑان بھر کر میری نظروں سے اوجھل ہوجاتے ۔ گویا ٹھنڈے پانیوں  ایک دریا تھا جو تیزی سے بہتا ، میرے ذہن کی سرحدوں سے ٹکراتا ، آگے گرم زمینوں کی طرف بڑھ جاتا۔
 میں جب کچھ لکھنے بیٹھتا تو کبھی یہ نظمیں بہت طویل ہو جاتیں تو کبھی بہت ہی مختصر ہوتیں ۔ نزول کے لمحات میں میرے لب بے اختیار حرکت میں آتے اور وہ کیفیت ختم ہوتے ہی میرا ذہن دوبارہ سے وہی کوری سلیٹ ہوتا ، اور وہی ہر جانب آسیب کی طرح چھایا بے کراں سکوت ۔ میری غزلوں کے دو ہی نمایاں پہلو تھے ، ایک یہ گہری عمیق خاموشی اور دوسرا میرا محبوب " شمس تبریز " ۔
وقت کا پہیہ  گھومتا رہا ، دنیا قلیل عرصے  میں اتنی جلدی تبدیل ہو جاتی ہے کہ انسانی عقل انگشت ِ بدنداں ہے ،وقت کے بہاؤ کو روکنا کسی کے  لیئے بھی ممکن نہیں، کائنات کا اصول ہے کہ یہاں کوئی بھی شے مستقل اور فانی نہیں ہے ، مگر میں اپنی شاعری میں کچھ اس طرح سے گم تھا کہ مجھے بدلتے زمانے کا احساس ہی جاتا رہا ۔ 1258 میں منگولوں نے بغداد کو ایک خون ریز لڑائی کے بعد فتح کر لیا ۔ ایک زمانے میں علم و فنون  اور خوبصورتی اور تاریخی اہمیت کے باعث ایک عالم میں کشش رکھنے والا بغدادجنگ کہ مہیب سیاہ بادل میں یوں گھرتا گیا  کہ گلی گلی خون کی ندیاں  بہنے لگی اور علم و فنون  کےمدارس پر قفل پڑ گئے ۔ اسی سال مجھ پر ایک تازیانہ گرا ، میرا رفیق اور ہمدم دیرینہ صوفی صلہ دین ہمیشہ کے لیئے مجھے داغِ مفارقت دے گیا ۔
مگر اب مجھ میں درد کو کمال برداشت کے ساتھ سہنے کے ہنر سے واقف ہو چکا تھا ، سو ہم سب درویشوں نے مل کر  گلی گلی ڈھول بجائے ، دھمالیں ڈالیں اور اس شان اور تزک و احتشام سے صلہ دین کا جنازہ اٹھایا کہ ایک عالم ورطۂ حیرت میں تھا ، دنیا کو معلوم ہوا کہ یہ کسی عام شخص کا نہیں بلکہ ایک صوفی کا جنازہ تھا۔
دو برس بعد 1260 میں بغداد ایک بار پھر جنگ و جدل کا مرکز بنا مگر اس دفعہ منگولوں کو مصر کے مملوکوں کے ہاتھوں بد ترین شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ وقت نے یوں پلٹا کھایا کہ جو کل کے فاتح اور جشن منانے والے آج کے مفتوح اور رسوا تھے۔ہر فاتح جیتنے کے بعد اس غرور میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ اب وقت کی باگ اس کے ہاتھوں میں ہے، ہمیشہ رہے گی اور زمانہ اس کا محکوم ہے ۔ اور ہر مفتوح دل چھوڑ بیٹھتا ہے کہ کیا ہمیشہ ہار ہی اس کا مقدر بنتی  رہے گی ۔ مگر اپنی اپنی جگہ فاتح اور مفتوح دونوں ہی غلط ہوتے ہیں ۔ دنیا میں دوام کسی کو بھی نہیں ، ساری قوت ، سارا اقتدار اور اختیار صرف اس مالکِ کل کے نام منسوب ہے جو اس کائنات کا خالق  اور رکھوالا ہے ۔
صلہ دین کی موت کے بعد میرا ایک اور زیرک اور ذہین شاگرد حسام میری شاعری کو محفوظ کرنے کے کام پر معمور ہو گیا ۔وہ علم ِ تصوف پر اس قدر گہری دسترس رکھتا تھا  کہ وہ لوگوں میں جلد ہی حسام جلیبی کے نام سے مشہور ہوگیا تھا ۔ ذاتی طور پر خود مجھے بھی حیادار اور  کام سے لگن رکھنے والا حسام  بہت پسند تھا ، اس جیسے  محنتی شاگرد شاذو نادر ہی ملتے ہیں ، اگر میں ایک ہی شفٹ میں گھنٹوں  بٹھا کر اس سے مثنوی لکھواتا  تو وہ بلا تکان بے انتہا ء دلجعی اور رغبت کے ساتھ  لکھتا رہتا ۔ وہ شمس تبریز کا  سچا عاشق تھا  اور خود کو پوری طرح اس کے روپ میں ڈھالنے کے لیئے ہمہ وقت سر گرم تھا ۔
وقت کا دھارا بہتا رہا ۔ایک کے بعد دوسرا عشرہ آیا اور دبے پاؤں گزرتا گیا ۔  بلا شبہ اللہ پاک کی اس کائنات کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہاں  چاند ، سورج  ، ستاروں سمیت  ہر شے متحرک ہے ، اس حرکت کا محور خدا ہے مگر یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے  یہ انسان ہے جس کے دم سے یہ عمل  ارتقاء ازل سے ابد تک چلتا رہے گا ۔ یہی وہ ادراک ہے جو ایک درویش کے ساکت قدموں کو تھرکنے پر مائل کرتا ہے ، دنیا کہ نظر میں وہ ایک مجنون  دیوانے کا  لا یعنی سا رقص ہوتا ہے  جو نہ جگہ کاپابند ہے، نہ ہی موقع محل اس کے قدموں کی زنجیر بنتے ہیں ۔ میدانِ جنگ ہو یا بے آب و گیاہ نخلستان ، یا سر سبز و شاداب وادیاں ، درویش کے لیئے سب برابر ہیں ۔  جس طرح دائرے کے ہر نقظے پر مرکز سے فاصلہ ایک ہی رہتا ہے بلکل اسی طرح ایک مجذوب  کے رقصِ بسمل کا مرکز و محور صرف ذاتِ باری تعا لیٰ ہی رہتی ہے ، وہی خدا اس کائنات کے طرح تھام کر اُس کا توازن برقرار رکھتا ہے ، وہ نہ چکراتا ہے نہ تھکتا ہے ۔ اس کا رقص جاری رہتا ہے۔ اور یہی اس حیات ِ انسانی کا اصول نمبرانتالیس ہے ، اجزاء کی تبدیلی سے کل کی ہییت میں کبھی تبدیلی واقع نہیں ہوتی ۔ اگر دنیا کے کسی کونے میں ایک کالا چوردم توڑتا ہے تو ٹھیک اسے لمحے ، کسی اورکونے میں ایک اور چور جنم لے لیتا ہے ، بلکل اسی طرح نیک لوگوں کی رحلت سے دنیا میں اچھے لوگوں کی قلت نہیں ہو جاتی ، بہت جلد کوئی اور اس سے بھی بڑا متقی  اس خلا کو پر دیتا ہے ۔ اللہ پاک کی اس کائنات کا نظام ازل سے عبد تک  بنا کسی تغیر کے یونہی چلتا رہے گا۔
"اسلام محبت اور امن کا دائی ہے ،اس میں ہم سب کی زندگیاں ایک بہت بڑے دائرے کا حصہ ہیں جس کی ہر کڑی محبت سے جڑی ہوئی ہے ، اگر ایک کڑی کمزور ہو کر ٹوٹ جائےتو بہت جلددوسری کڑی اس خلا کو پر کرکےاس زنجیر کو بکھرنےنہیں دیتی ۔ میرا شمس  اس دنیا سے رخصت ہوا تو کہیں  کسی اور شہر میں  ، ایک نئے نام سے کوئی اور تبریز پیدا ہوا ہوگا ، آنا  جانا لگا رہتا ہے ۔ شخصیت ، جگہ یا نام  تبدیل ہو جاتے ہیں مگر روح  وہی رہتی ہے ۔"
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
الا:   7 ستمبر  2009
 وہ پلاسٹک کی کرسی پر بیٹھے بیٹھے کب نیند کی دلنشین وادیوں میں اترتی چلی گئی ، اسے کچھ خبر نہیں تھی ، گہری نیند میں دور سے آتی کوئی تیز آواز تھی جو الا  کو واپس ہسپتال کے اس کمرے میں لائی جہاں وہ گزشتہ ایک ہفتے سے تھی ،حواس بحال ہوتےہی اس پر انکشاف ہوا کہ وہ کہیں قریب ہی کی مسجد سے آتی فجر کی اذان کی آواز تھی۔  ایک نئے دن کا آغاز ہوا چاہتا تھا ، مگر کہیں اندر یہ احساس آہستہ آہستہ جڑ پکڑتا جا رہا تھا کہ آج کا دن غیر معمولی ہوگا  کچھ تھا جو آج اس سے ہمیشہ کے لیئے چھننےجارہا تھا ۔
اذان کی آواز تو ہر کوئی دن میں پانچ دفعہ سنتا ہے مگر  بہت کم لوگ زندگی میں شاذو نادر اس تجربے سے گزرتے ہیں جب یہ اذان واقعتاَََ اللہ تعا لیٰ کا بلاوا محسوس ہوتی ہے ۔اس دعوت میں جہاں بے پناہ کشش، جاذبیت اور انوکھا پن پنہا ہوتا ہے وہیں اس میں  ایک غیر طبعی عنصر ، دل پر ہیبت طاری کرنےوالا ایک تاثر بھی چھپا ہوتا ہے ۔ جیسے کہ محبت جو  بیک وقت پر کشش بھی ہے اور بے پناہ ظالم بھی ، انسان کو اندر تک توڑ کر ادھ موا کر دیتی ہے ۔
رات کے اس آخری پہر کے سکوت میں کھڑکی سے ہوا کے دوش پر آنے والی  اذان کی آوازتھی جو الا کو گہری نیند سے جگا کر  واپس ہسپتال کے کمرے میں لائی تھی ۔ اس نے کسلمندی سے آنکھیں مل کر  ملجگے سے اندھیرے میں کمرے کے در و دیواردیکھے ، وہ میسا چوسسٹس میں اپنے شاندار گھر کے پر تعیش بیڈ روم میں نہیں تھی ۔  وہ خوبصورت سا گھر ، تین بچے اور شوہر اسے اب ایک پریوں کی داستان معلوم پڑتی تھی ، شاید وہ کبھی اس کہانی کا ایک حصہ تھی ۔ وہ ترکی کے ایک چھوٹے قصبے قونیہ کے ایک ہسپتال میں اپنے اس محبوب کے سرہانے کھڑی تھی جسے پانے کی چاہ میں الا نےپچھلے موسم ِ گرما میں  اپنا گھر اور بچے چھوڑے تھے ۔ جس محبت کے جنون میں اس نے اپنے شوہر سے بائیس سالہ پرانا رشتہ توڑ کر  ، محبت کی میٹھی چھاؤں میں ایک نئی زندگی گزارنے کے خواب کو تعبیر دینا چاہی تھی ، وہ دشمنِ جاں قونیہ کے اس ہسپتال کے ایک بیڈ ہر پڑا ہولے ہولے سانس لیتا تھا۔
عزیز کے سرہانے کھڑے وہ ماضی کی یادوں میں کھوتی چلی گئی ،  یہ خود احتسابی تھی یا کچھ اور  اسے ایک ایک کر کے اپنے دوستوں اور عزیز و اقرباء کے وہ طعنے یاد آئے جو گھر چھوڑنے کا فیصلہ کرتے وقت اسے سننے پڑے تھے ۔ دنیا کے لیئے گھر ، شوہر ، بچے ، انکی ذمہ داریاں  تو اہم تھیں مگر کسی کو بھی اسکی خوشی، روح کی تسکین اور آزادئ نفس کا  ذرہ برابر بھی خیال نہیں تھا۔ ایک نا محرم کے لیئے اپنے شوہر کو چھوڑ دیناتو معاشرے کے لیئے قابلِ نفرین ٹہرتا ہے ، مگر جب دو افراد  بنا کسی قلبی تعلق کے ایک چھت کے نیچے رہ کر بھی ایک دوسرے سے کوسوں دور رہتے ہیں اور عورت اپنے مستقبل کے لیئے حال داؤ پر لگا کرقربانی دیتی رہتی ہے تب کہیں سے آواز نہیں اٹھتی ۔
الا نے بہت آہستگی سے ٹیبل لیمپ آن کر کےزرد سے روشنی میں کمرے کا طائرانہ جائزہ لیا ، وہ ہسپتال کا ایک عام سا کمرہ تھا اور ہر شے معمول کے مطابق تھی ، ایک چھوٹا سا بیڈ  اور ساتھ رکھی پلاسٹک کی وہ کرسی جس پر وہ کچھ دیر پہلے بیٹھے بیٹھے سو گئی تھی ، ایک کافی ٹیبل اور اس پر دھری دوائیوں کی ٹرے جو رنگ برنگی گولیوں سے اب بھی  بھری ہوئی تھی ۔اور اس کے ساتھ رکھی عزیز کی دلپسند کتاب جو سفر کے آغاز سے مستقل اس کے پاس تھی  " میں اور رومی "وہ دونوں چار روز قبل عام سیاحوں کی طرح میوزیم ، نوادرات  اور تاریخی  جگہوں کی سیر کرنے کے لیئے قونیہ آئے تھے  تب ہر شے معمول کے مطابق تھی ، وہ سارا   دن اِدھر اُدھر گھوم  پھر کر ڈھیر ساری تصویریں بناتے  کی جب کبھی یہ سنہرے لمحے   زمانے کی گرد میں گم ہونے لگیں تو یہ یادگار تصاویر  زندگی میں دوبارہ سے قوس و قزح کے   یہی رنگ بھکر جائیں جو ان دنوں  ہمہ وقت   ان کے گرد محوِ رقص تھے ۔ ایک روز پہلے تک یہ وہی آئیڈیل زندگی تھی  جس کے الا نے کبھی خواب دیکھے تھے مگر پھر لمحوں میں  ہر شے بکھرتی چلی گئی ، کل شام سے عزیز ہسپتال میں داخل تھا  وہ دوپہر کا کھانا کھاتے ہوئے اچانک چکرا کر گرا تھا اور تب سے اسکی حالت تشویشناک تھی ۔  الا امید بیم  کے درمیان  معلق ، خود سے اور اپنی تقدیر سے لڑتی عزیز کے سرہانےبیٹھی کسی معجزے کے انتظار میں تھی ،یہ قدرت کا کیسا ستم تھا کہ جو محبت اس نے ساری عمر کی دشت پیمائی کے بعد حاصل کی تھی وہ صرف ایک  برس ساتھ گزار کر اسے داغِ مفارقت دینے جا رہی تھی ۔
الا نے عزیز کے قریب ہو کر کسی گہرے احساس کے زیر ِ اثر  اس کو پکارا ، مگر وہاں کوئی جنبش نہ ہوئی ، بس وہی اس کی سانسوں کی مدھم کی آوازیں تھی جو کبھی الا کو دیوانہ کر دیا کرتی تھیں ۔  اس نے عزیز کو دوسری پھر تیسری دفعہ پکارا تو یکدم اس کے پپوٹوں میں  حرکت ہوئی اور اس نے آنکھیں کھول دیں ،  عزیز  کا نقاہت ذدہ چہرہ اسکی اندرونی حالت کی چغلی کھا رہا تھا ، ایک لمحے کو الا کا دل ڈوبا ، وقتِ رخصت شاید اب کچھ اور قریب سرک آیا تھا ، ہونی کو آج  تک کون روک پایا ہے ۔
تم ساری رات جاگتی رہی ہو کیا ؟ عزیز نے  دور  سے آتی اذان کی آواز سن کر پوچھا ، ایک طویل اور کھٹن رات اختتام پزیر ہونے کو تھی ، مگر کون جانتا تھا کہ  آج سویرا اندھیروں کو کچھ اور بڑھا دیگا۔
الا ۔ عزیز نے ہولے سے اسے پکارا تو وہ  اس کے کچھ اور قریب ہوئی ، تمہیں پتا ہے کہ ساری اذانوں میں فجر کی اذان سب سے خاص اورایک بڑا امتحان کیونکر ہوتی ہے ؟ وہ ایک لمحے کو رکا  ، اس کا چہرہ اس روز زرد چاند کی طرح جگمگاتا تھا، مگرجب وہ بولا تو اسکی آواز بہت مدہم تھی، جیسے سرگوشی ہو ۔
پتا ہے الا مجھے ایسا کیوں لگتا ہے اس لیئے  کہ فجر کی اذان ہمیں گہری نیند سے اس وقت بیدار کرتی ہے جب ہم میٹھے خوابوں کی دل نشین وادیوں میں اترے ، مستی کے جھولوں میں لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں ۔اور مجھ سمیت خوابوں کا ٹوٹنا تو کسی کو بھی پسند نہیں  نا ۔۔  فجر کی اذان میں اضافی  الفاظ " نماز نیند سے بہتر ہے" اسے لیئے شامل کیئے گئے تھے  تاکہ یہ ہمیں احساس دلا ئیں کہ اگرچہ خواب بہت دلفریب  اور رنگین ہوتے ہیں مگر رہنا انسان کو تلخ حقیقتوں میں ہی چاہیئے ، یہ مشکل ضرور ہے مگر خوابوں  کےفریب سے کم اذیت ناک ہے ۔
اور الا  جو بظاہر عزیز کی طرف متوجہ تھی سوچ رہی تھی کہ ہم دونوں میں سے کسی ایک کا سو جانا ہی بہتر ہے، مجھے لگتا ہے کہ اگر جو کبھی ہم دونوں اکھٹے نیند کی وادیوں میں اتر گئے  تو یہ نیندرنگین خوابوں سے زیادہ طلسماتی ہوگی ،مگر یہ ایسا اذیت ناک  درد بن جائے گی کہ پھر صدیوں کی مسافت کے بعد میسر نیند بھی وہ پرانا سکون واپس نہیں لا سکے گی ،بلکہ وہ نیند بھی نہیں ہوگی وہ تو بس ایک کامل بے حسی کی سی کیفیت ہوگی۔
دورسے ہوا کے دوش پر آتی اذانوں کی آوازیں  کمرے کی دیواروں سے ٹکرا کر پلٹ جاتی تھیں ، پہلے مدہم ہوئیں اور پھر  ہر طرف ویسا ہی سکوت چھا گیا  جس میں بظاہر زندگی بہت پر سکون معلوم پڑتی تھی مگر اس میں کچھ کھو دینے کی ایک ناقابلِ بیان اذیت بھی تھی ۔ پورے ایک برس سے وہ دن رات ایک دوسرے کے ساتھ تھے  جس میں ان کا زیادہ تر وقت مختلف ملکوں کی سیر و سیاحت میں گزرا تھا ، یہ ان دونوں کے لیئے زندگی کا سنہرا دور تھا ۔ ایک ایک لمحے سے خوشیاں کشید کرکے انہوں نے جانا تھا کہ محبت اس کائنات کی سب سے بڑی قوت ہے ۔ اس دوران عزیز پوری طرح صحت مند اور چاک و چوبند تھا ، مگر پچھلے دو روز کی بیماری نے جیسے اسے توڑ کر رکھ دیا تھا ۔ وقت ِجدائی اب قریب ہی تھا ۔
 الا نے نماز کے لیئے کمرے سے نکلتے ہوئے عزیز کے نقاہت ذدہ چہرے  کو دیکھا پھر ایک  گہرا سانس لیکر کمرے سے باہر سے باہر آئی ، کوریڈور سے گزرتے ہوئے ارد گرد ایک اچٹتی نظر ڈالی، اس کی نیلی آنکھوں اور سنہرے گیسوؤں کی باعث ہر کوئی  پہلی نظر ہی میں جان لیتا تھا   کہ وہ ایک فارنر ہے ۔ لوگوں کی گہری چھبتی نگاہوں سے  بچتے ہوئے  وہ تیزی سے کوریڈور سے گزرتی گئی جس کی دیواروں پر سبز رنگ سے  کچھ عبارتیں رقم تھیں ، بڑے بوڑھے ، بچےوہاں بھانت بھانت کے مریض داخل تھے جن میں کچھ تیزی سے روبۂ صحت تھے  اور کچھ کی حالت عزیز کی طرح دن بدن گرتی جا رہی تھی ۔
ہسپتال کی چھوٹے سے صاف ستھرے فوارے پر بیٹھ کر الا نے  وضو کرنا شروع کیا تو  بے اختیاراس کی نظر فوارے کے بیچو  ں بیچ نصب فرشتے کی مجسمے پر ٹہر گئی جس کے قدموں میں چاندی کے سکوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا ، یہاں آنے والوں کا دستور تھا  کہ وہ  فوارے کے پانی میں سکے ڈال کر اپنی ناآسودہ خواہشات کی قبولیت کے لیئے دعا مانگا کرتے تھے ۔ الا نے تیزی سے اپنے لباس کی اندرونی جیبیں ٹٹو لیں ،  مگر اس کے پاس ایک سکہ بھی نہ تھا ۔ یکدم اس کی نگاہ گھاس پر  جگمگاتے کالے رنگ کے ہموار کنکروں پر پڑی ۔ درمیانے سائز کا  ایک پتھر منتخب کر کے زیر ِ لب اپنا مقصودِ من دوہراتے ہوئے اسے فوارے کی جانب اچھالا تو وہ  داخلی دیوار سے ٹکرا کر عین مجسمے کے قدموں میں گرا ۔ اگر عزیز یہاں موجود ہوتا تو یقینا ََ  کوئی نہ کوئی نتیجہ اخذکر لیتا ، مگر وہ تو بہت دور اَن جانی راہوں پر روانہ ہوچکا تھا ۔ آدھے گھنٹے بعد جب الا نماز سے فارغ ہوکر  کمرے میں لوٹی تو ڈاکٹر اور نرسیں وہاں سے نکل رہے تھے اور عزیز کا چہرہ سفید چادر سے ڈھانپ دیا گیا تھا ۔ وہ ہمیشہ کے لیئے اپنے محبوب کو کھو چکی تھی ۔
عزیز کو قونیہ ہی میں ہی اس کے دلپسندرومی کے قدموں میں سپرد خاک کر دیا گیا ، میں نے اپنی ساری ہمت مجتمع کر کے تدفین کے سارے انتظامات اعلیٰ پیمانے پر کروائے تاکہ عزیز کی خواہش پوری کرنے میں  کوئی کمی نہ رہ جائے، اگرچہ دکھ نے مجھے اندر تک توڑ کر رکھ دیا تھا  مگر میں نے خدا کی ذاتِ پاک پر بھروسہ کرتے ہوئے کمر باندھی کہ جو میرے بس میں نہیں ہیں ، اے خدا ان کی تکمیل میں میری مدد اور راہ نمائی فرما ۔ سب سے پہلے میں نے عزیز کی قبر کی لیئےگرجے کے احاطے کے نزدیک ایک منگولین درخت کے نیچے  جگہ منتخب کی ۔ پھر کئی صوفی موسیقاروں سےاز خود رابطہ کرکے  جنازے میں طربیہ نغمے گانے والوں کا بندوبست کیا ۔ ساتھ ساتھ میں ای میل کے ذریعے عزیز کےرشتہ داروں سے تقریب میں شرکت کی درخواست بھی کرتی رہی ۔ مگر میری خواہش اور توقع کے بر خلاف محض کیپ ٹاؤن ، سینٹ پیٹرزبرگ اور مرشد آباد سے اس کے چند دوست ہی شریک ہوئے۔ اس کے علاوہ عزیز کے لے پالک بچوں اور مقامی خواتین ، کسانوں اور بزنس مینزنے میری خوشی کی خاطر اس تقریب کو رونق بخشی ۔ ہم سب اس خوبصورت شام ایک نفیس اور  پیارے شخص کو الوداع کہنے اور خراجِ تحسین پیش کرنے جمع ہوئے تھے ۔ بچے ہر شے سے بے نیاز اِ دھر اُدھر بھاگتے پھرتے تھے ۔ 
ایک میکسیکین شاعر نے  عزیز کی لیئے لکھی گئی اپنی نظم  سب  شرکاء کو باری باری پیش کی ، پھر  اس کا ایک ہمدم ِ دیرینہ بہت دیر تک سب لوگوں پر یوں  گلاب پاشی کرتا رہا کہ زمین پر ہر جانب گلاب کی پتیاں  بکھری نظر آتی تھیں۔ یہ قونیہ کی تاریخ کا ایک یادگار ترین جنازہ تھا صدیوں قبل  ایسا جنازہ  مولانا رومی کی وفات پر اٹھا تھا ۔  یہ جلوس  جہاں سے گزرتا لوگ اسے حیرانگی مگر مسرور انداز سے دیکھتے اور ہمارے ساتھ شامل ہو جاتے ، موت خوف کھانے والی شے نہیں کہ اس سے دور بھاگا جائے ، جلد یا بدیر ہر ایک کو اپنےمقررہ وقت پر اس دنیا سے رخصت ہوجانا ہے تو کیوں نا اپنے پیارے کو پورے اعزاز محبت اور نیک خواہشات کے ساتھ اگلی منزل کو روانہ کیا جائے ۔ عزیز   مولانا رومی کا سا جنازہ چاہتا تھا سو میں نے  ہر طرح کا انتظام کرکے اس کی یہ آخری خواہش پوری کردی تھی۔
 اس یادگار اور تاریخی جنازے کے دو دن بعدقونیہ کی باسی حیران و پریشان ، بکھرے بالوں اور اجڑی صورت والی اس عورت کو دیکھتے  رہے جو دو دن قبل انہیں ہمت کی چٹان نظرآتی تھی ، وہ کئی روز تک قونیہ کے بازاروں گلی کوچوں میں شدت ِ گریہ سے سرخ ، سوجی ہوئی آنکھوں کے ساتھ  ہر شے کو بے مقصد تکتی گزر جاتی  تھی ، وہ ان کے لیئے اجنبی تھی سو اجنبی ہی رہی ، مگر  الا تو شاید اب ہر ملک ، ہر دیس میں اجنبی ہی تھی ، ایک ایسا مسافر جس کی کوئی منزل نہ تھی ۔ائیر پورٹ کے لیئے  ہوٹل سے روانہ ہونے سے پہلے الا نے ایک انگوری رنگ کا سویٹر زیبِ تن کیا جو ایک ایسی  متحمل مزاج عورت کی نشانی ہے جو زندگی سے اپنا حصہ وصول کر چکی ہو  ، جس کو مزید کسی شے کی نا طلب باقی تھی نا خواہش ۔۔
ایک نئی زندگی کی طرف اڑان بھرنے سے پہلے اس نے اپنے تینوں بچوں میں سے سب سے چھوٹی بیٹی کو کال کی جس نے گھر چھوڑنے کے فیصلے میں اس کا بھر پور ساتھ دیا تھا ، جب بڑے دونوں بچے اب بھی ماں سے بات تک کرنا پسند نہیں کرتے تھے ۔ جینیٹی نے ہمیشہ کی طرح والہانہ انداز میں اس کی کال ریسیو کی تو  بے اختیار ممتا کی محبت سے چور ایک گہری مسکراہٹ الا نے ہونٹوں پر در آئی ، مگر جب وہ بولی تو اس کی آواز بہت سرد تھی ۔
جینیٹی عزیز کی وفات کی خبر  سن کر چند لمحوں تک گنگ اپنے سیل کو دیکھتی رہی کہ آیا اسکی ماں نے وہی کہا ہے جو اس نے سنا ہے مام مجھے بہت افسوس ہوا ، بہت دیر بعد بمشکل اس کے حلق سے آواز بر آمد ہوئی ۔ وہ ماں کے درد کو سمجھتی تھی ، کئی  منٹ تک ان کے درمیان لا یعنی سا سکوت حائل رہا ۔ دونوں کے پاس کہنے سننے کو بہت کچھ تھا مگر شاید کچھ بھی نہ تھا ، پھر جینیٹی ہی نے اس سکوت کو توڑا ۔
مام کیا اب آپ اب گھر واپس آجائیں گی ؟؟
الا نے بیٹی کے عام سے سوال کی گہرائی کو سمجھتے ہوئے ، الجھے سے انداز میں پیچھے صوفے کی پشت سے سر ٹکایا ، کیا اسے  واپس  نارتھ ہمپٹن جاکر اپنے شوہر سے طلاق حاصل کرنی چاہیئے ؟؟  اس معاملے کو وہ  بہت عرصے سے ملتوی کرتی چلی آرہی تھی عدالتی کاروائی  کافی عرصے سےجاری تھی ،باہمی اختلافات اور رنجش اب اتنی  بڑھ چکی تھی کہ واپسی کا کوئی راستہ باقی نہ رہا تھا ،  دونوں جانب سے الزام تراشی عروج پر تھی ۔ مگر اس وقت اس سے زیادہ کئی اہم سوال کسی اژدھے کی طرح منہ پھاڑے اس کے سامنے کھڑے تھے ،  الا کے پاس پیسہ نہ ہونے کے برابر تھا ، نہ کوئی  ملازمت تھی نہ ہی کوئی مناسب رہائش ۔۔، مگر یہ کوئی اتنا برا مسئلہ  نہیں تھا وہ انگلش  میں لیکچرز دینے کا کافی تجربہ رکھتی تھی ، اس کے علاوہ کسی میگزین میں انگلش ایڈیٹر کی کوئی مناسب آسامی بھی حاصل کی جا سکتی تھی ۔ جدوجہد کرنی تھی کیونکر اگر  انسان عزم ررکھتا ہو تو پھر ناممکن تو کچھ بھی نہیں ۔ وہ اب تنہا ہوکر بھی خود کو تنہا محسوس نہیں کرتی تھی، عزیز کے ساتھ بتائے سنہرے دن اس کی زندگی کا سرمایہ تھے۔
سوچوں کی بھنور سے نکل کر الا نے فیصلے کے ساحل پر قدم دھرے ۔ میں تمہیں اور  دونوں بچوں کو بہت مس کرتی رہونگی ، تم لوگ جب چاہو مجھ سے ملنے آسکتے ہو ۔ وہ بولی تو اس کی آواز ممتا کی محبت سے سرشار تھی ممی ہم بھی آپ کو بہت  یاد کرتے ہیں ، مگر آپ اکیلی کیسے رہیں گی ؟ کیا آپ گھر واپس نہیں آرہیں ؟
ڈارلنگ !  میں نے اب زندگی کو منصوبہ بندی کر کے گزارنا چھوڑ دیا ہے  ، میں ہر  آنے والے دن کو ، پہلے سے مختلف   ایک نئے انداز  سےجینا  چاہتی ہوں ۔ میں ایمسٹرڈم جا رہی ہوں ، وہاں خوبصورت ندیوں اور سر سبز میدانوں کے ساتھ بہت اچھے چھوٹے چھوٹے فلیٹ بنے ہوئے ہیں ، ان میں ایک کرائے پر لیکر اس میں رہونگی ، اپنا بائیک چلانے کا شوق پورا کرونگی ۔میں  اپنی ایسی تمام  نا آسودہ خواہشات پو ری کرنا چاہتی ہوں جو زندگی کی جھمیلوں میں میرے اندر دفن ہوتی گئی تھیں ، میں اب اپنی زندگی اپنے طور پر جینا چاہتی  ہوں ۔کیا تم جانتی ہو کہ محبت کا آخری قانون کیا ہے ؟؟
مام کیسا قانون ؟؟ آپ کس کی بات کر رہی ہیں ؟ جینیٹی نے  الجھے سے انداز میں سیل کی سکرین کو دیکھا ، اس کا خیال تھا کہ صدمے نے ماں کے اعصاب پر برا اثر ڈالا ہے  جو وہ بہکی بہکی باتیں کر رہی ہے۔الا بیٹی کی الجھن کو  سمجھتے ہوئے اپنی جگہ سے اٹھ کر کھڑکی کے قریب گئی پھر دھوپ سے چمکتے ہوئے نیلے  آسمان کو دیکھا ۔ کتنے خوبصورت رنگ ہر  جانب بکھر کر شدت سے اپنے ہونے کا احساس دلاتے تھے  اور ان کی گہرائیوں میں ڈوب کر اپنی کم مائیگی کچھ اور سوا ہو جاتی تھی ۔ انسان اگر چاہے تو ہر رنگ میں  ڈھل کر ایک نئی زندگی جی سکتا ہے، صرف اس کی سوچ محدود ہوتی ہے ورنہ امکانات تو لا محدود ہیں ۔
سوچوں کی رنگین خوشنما وادیوں سے نکل کر الا نے ہاتھ میں پکڑے سیل فون کو دیکھا پھر لب وا کیئے 
 ڈارلنگ ۔ یہ اس کائنات کا چالیسواں اور آخری اصول ہے، محبت کے بغیر زندگی ادھوری اور نا  مکمل رہتی ہے ، مگر کبھی بھی ان بکھیڑوں میں نا پڑنا کہ آپ مغربی محبت چاہتے ہیں یا شرم و حیا کا پیکر مشرقی محبوب آپ کا منتہائے نظر ہے ۔ آپ کو مالدارجائیداد ، بینک بیلنس  والا جیون ساتھی مرغوب ہے یا آپ  اخلاق و کردار کو اہمیت دیتے ہیں ۔ محبوب ہر رنگ میں یکتا ، منفرد اور سادہ ہے ۔اس پر لیبل لگا کر محبت کے وسیع تر  مفہوم کو قید کردینا کسی صورت بھی ممکن نہیں ۔
" زندگی کے لیئے محبت کی اہمیت بلکل پانی کی طرح ہے ، جس کے بغیر حیات کا تصور ہی محال ہے ۔ مگر محبوب کی تخلیق آگ سے ہوتی ہے ، جب یہ آگ اور پانی ایک دوسرے کے  عشق میں گرفتار ہوجائیں ، تب ہی زندگی ایک نئے مفہوم سے آشنا ہوتی ہے "۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

A Series of Translation from famous "FICTION" Books





Share on Google Plus

About Unknown

1 comments: