WELCOME TO MELTED TRUTHS

All Truths are easy to understand once they are discovered;the point is to discover them.(Galileo Galilei)

"دریچہ" پانچویں قسط The Valve




"دریچہ"

"A Novel Based on Artificial Intelligence"

از صادقہ خان 
                                   
   


"پانچویں قسط"



التمش کا یونیورسٹی میں آخری  سمیسٹر مکمل ہونے سے پہلے ہی اسے بوسٹن ڈا ئنا مکس کی طرف سے روبوٹکس پراجیکٹ کی آفر آچکی تھی ، اور  ایگزامز ، تھیسز ہر چیز سے بڑھ کر وہ اس وقت اسی کے لیئے پر جوش تھا ، سلیبس کی پڑھائی کبھی اس کے لیئے  بڑا مسئلہ نہیں رہی تھی وہ ہمیشہ اپنے بیچ میٹس سے دس قدم آگے ہی رہا تھا ۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس اس وقت سوفٹ ویئر انجینئرز کے لیئے ایک بلکل نئی جہت تھی ،  نوے کی دہائی کے اوائل میں نہ تو پاکستان میں  باقاعدہ آئی ٹی کی کوئی وزارت تھی  نہ ہی حکومتی سطح پر  کمپیوٹر انڈسٹری کو فروغ دینے کے لیئے خاطر خواہ انتظامات  کیئے جا رہے تھے ، سو پاکستانی سوفٹ ویئر انجینئرز کا مستقبل بیرونِ ملک ملازمتوں سے وابستہ تھا۔
التمش کے اپنے بیچ میں ایک سے بڑھ کر ایک ذہین اور با صلاحیت انجینئر  موجود تھا ، جن  کی اکثریت بیرونِ ملک سکالر شپ کی تگ و دو میں لگی ہوئی تھی  جبکہ التمش پوری یکسوئی کے ساتھ اپنی ریسرچ اور پراجیکٹ  پر دھیان دیئے ہوئے تھا ۔چار سے چھ ماہ میں اس کی روانگی یقینی تھی ، اس کا دھیان اگر کہیں جا  کر اٹکتا تھا تو وہ صفہ تھی جو اس وقت بی ایس کے چھٹے سمیسٹر میں تھی ۔اس کی پسندیدگی اور انسیت کب محبت کے پاکیزہ رشتے میں ڈھلی اسے خود بھی خبر نہ تھی ۔ بنیادی طور  پر وہ ایک لوجیکل  بندہ تھا  جو چند برس پہلے تک اپنے دوستوں اور میچ میٹس کے افئیرز  کے قصے سن کر بیزاری سے کان بند کر لیا کرتا تھا ۔


تم لوگ محبت میں گرفتار ہونے کی بات ایسے کرتے ہو جیسے محبوب نہ ہوا ایس آئی یا ڈی ایس پی ہو گیا ۔ جو اچانک بنا وارنٹ کے نمودار ہوا اور جھٹ ہاتھوں میں ہتھکڑیاں جڑ دیں ۔ التمش نے  ایک روز کوفت سے اپنے روم میٹ معید کو ٹوکا ، جس کااپنی کزن کے ساتھ ایک سالہ افئیر کے بعد بریک اپ ہوتا نظر آرہا تھا ۔
ابے ۔ تیرے جیسے کتابی کیڑے بلکہ کمپیوٹر کے وائرس کیا جانیں محبت چیز کیا ہوتی ہے ، معید نے ایک ٹھنڈی آہ بھر کرسینے پر ہاتھ رکھا ، درد کچھ اور سوا ہو گیا تھا
مجھے جاننے میں کوئی دلچسپی بھی نہیں ہے اور اگر تم اسی سپیڈ سے ٹھنڈی آہیں بھرتے رہے تو مجھے یقین ہے کہ ہمیں جون ہی میں جیکٹس یا سویٹرز درکار ہونگے ۔التمش نے گلاسز اپنے شرٹ سے صاف کرتے ہوئے منہ بنایا میری آہوں کی سپیڈ انشا ءاللہ اور بڑھے گی ، بہتر ہے کہ تو گھر سے اپنے لیئے کمبل بلکہ لحاف منگوا لے ۔
ہونہہ التمش  نے ایک نظر  معید کے تپے چہرے پر ڈالی ، اچھا چلو مان لیتے ہیں کہ  محبوب بلکل کسی ایس آئی کی طرح اچانک نمودار  ہو کر گرفتار کر تا اور ڈائریکٹ تھانے میں بند کر دیتا ہے ۔۔ رائٹ ۔ وہ ایک لمحے کے لیئے رکا  پھر استفہامیہ نظروں سے معید کو دیکھا ، جو خاموشی کے سے اسی کو گھور رہا تھا ، اسے معلوم تھا " مسٹر افلاطون " بہت دور کی ایسی کوڑی ڈھونڈ کر لائیں گے کہ بے اختیار سر پیٹنے کو دل چاہے گا ۔
ہم۔۔ تو پھر اب جو تمہاری کزن ۔۔یا جو کچھ بھی ہیں وہ تمہیں بغیر ضمانت کے رہا کر رہی ہیں  یا کرنے پر آمادہ ہیں ، تو پھر یہ ٹھنڈی آہیں ، بے کلی اور ہر وقت کا رونا کس لیئے؟؟ تمہیں بنا مانگے آزادی مل رہی ہے۔۔اور تم ۔۔اور معید جو سر پیٹنے کی تیاری کر ہی رہا تھا، پہلے قہقہہ مار کر ہنسا اور پھر ہنستا ہی چلا گیا ۔ التمش کے بارے میں اس کے اندازے ہمیشہ درست ثابت ہوتے تھے ، اس جیسا نان رومینٹک بندہ اس نے آج تک نہیں دیکھا تھا ۔
بیٹا ۔ تو اپنا کام کر ۔ شاباش روبوٹ بنا ، مجھے پورا یقین ہے کہ ایک دن تو نے خود بھی ایک روبوٹ بن جانا ہے ، پھر اپنے لیئے ایک روبوٹنی ( فیمیل روبوٹ) بھی بنانا اور دونوں ہنسی خوشی اوہ سوری  بس زندگی گزارتے رہنا ۔معید نے جل کر طنز کےتیر چھوڑے ۔
 آئی ایم ناٹ ایگری و دیو ۔  بے شک روبوٹ ہماری زندگی کو آرام دہ اور سہل بنا سکتے ہیں ، ان کے ذریعے ہم انڈسٹریز میں ایک انقلاب برپا کر سکتے ہیں ۔ وہ کارہائے نمایاں سر انجام دے سکتے ہیں  جو انسان  خود با مشکل سر انجام دے سکتا ہے ، مگر روبوٹس کے ساتھ بہرحال زندگی نہیں بتائی جا سکتی ۔ بات کا رخ یکدم  دوسری جانب مڑ گیا تھا ۔معید نے نظر بھر کر اپنے  اوور جینئس دوست کو دیکھا  ، بات وہ  ہمیشہ گہری اور پتے کی کرتا تھا
کیوں ، تم ہی نہیں انٹر نیشنل لیول پر بے شمار لوگ  فیشل ری آگنیشن پر کام کر رہے ہیں  یعنی ان کے ذریعے روبوٹ نا صرف تا ثرات کو کیچ کر سکے گا  بلکہ میرا خیال ہے کہ اٹانومی میں مخصوص تبدیلیاں کر کے مستقبل قریب یا بعید میں یہ بھی ممکن ہو کہ روبوٹ از خود اموشنز کااظہار انسانوں ہی طرح کر سکیں ۔ معید نے بحث میں اپنی بساط کے مطابق حصہ ڈالا ۔
معید ڈیئر ! ٹیکنالوجی چاہے کتنی ہی ترقی کیوں نہ کر لے ، روبوٹ انسان کا  ہم پلا تو کیا اس قابل بھی نہیں ہو سکتا کہ اس کا موازنہ انسان سے کیا جائے ، کیونکہ انسان اس قادرِ مطلق کی تخلیق ہے جس نے صرف "کن" کہا تو یہ دو جہان وجود میں آئے۔
اور روبوٹ انسان کی تخلیق ہے ، ہم  لوگ چاہے کتنے ہی  پارسا، کتنے ہی نیک یا کتنے ہی ہائی لیول پر  جینیئس کیوں نہ ہوں ، ہم بشری تقاضوں سے ماوراء نہیں ہو سکتے ۔ انسان اپنے نفس کا غلام اور خطا کا پتلا ہے سو اس کی تخلیق میں  نقائص ہونگے ، خامیاں اور پیچیدگیاں ہونگی ۔ التمش نے کتاب سے نظریں ہٹائے بغیر تیزی سے جواب دیا ۔
آئی ایم ٹوٹلی ایگری و د یو ۔ کہ انسان اور روبوٹ کا کوئی مقابلہ نہیں  مگر نقائص تو انسانوں میں بھی ہوتے ہیں ، پیچیدگیاں تو ہماری زندگیوں کا ایک لازمی حصہ ہیں ۔ جب دو مختلف ماحول میں پرورش پانے والے دو افراد ایک چھت کے نیچے رہنا شروع کرتے ہیں تو چائے کی پیالی سے لیکر  بچوں کی پرورش تک ہر بات پر اختلافات بڑھتے جاتے ہیں اور بعض اوقات خوشیاں ہماری زندگی سے یوں روٹھ جاتی ہیں کہ انسان  خود بھی  ایک روبوٹ کی طرح گھر سے دفتر تک پابند ہوجاتا ہے ۔
ایگزیکٹلی ۔ ایسا ہی ہے اور ایسا ہو  بھی رہا ہے ، صرف مرد ہی نہیں عورت بھی گھر داری ، بچوں کی پرورش ، شوہر سسرال اور انکی ذمہ داریوں  ادا کرنے میں گھن چکر بن جاتی ہے ، رشتے نبھاتے نبھاتے خود کو فنا بھی کر ڈالو پھر بھی یہی سننے کو ملتا ہے کہ آخر تم نے ہمارے لیئے کیا ہی  کیا ہے ؟؟ مگر یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ ان رشتوں اور تعلقات کے بغیر زندگی ادھوری ہے ، اس کے اصل رنگ ان ہی کے دم سے ہیں ورنہ یہ محض ایک خوشنما خالی فریم ہے ۔
ایکسکیوزمی ۔  معید نے نان سٹاپ بولتے التمش کو ٹوکا ۔
یس پلیز ۔۔
آپ ابھی زندگی، رشتوں اور تعلقات کے بارے میں کچھ ارشاد فرما رہے تھے تو مائی ڈیئر جگر ، ان رشتوں کی اساس تو محبت ہے جس کے وجود سے آپ انکاری ہیں ، معید آج پچھلے سارے حساب بے باک کرنے پر اترا ہوا تھا ۔
ناٹ ایٹ آل ۔ میں کبھی بھی باہمی محبت سے  انکاری نہیں ہوا ، شادی سے پہلے کے یہ افیئرز ، یہ میل ملاقات اور ہر روز دن میں دس دفعہ بات چیت ، یہ محبت نہیں ہوتی ۔ یہ وقتی جنون اور جوانی کا جوش ہوتا ہے جو سال دو سال بعد  صابن کے جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا  ہے ۔ تم اپنی ہی سٹوری کو دیکھ لو ، نہ تم دونوں یوں صبح شام ، بات چیت کرتے ، نہ آئے روز کے یہ جھگڑے ہوتے ۔۔اور  نہ نوبت اس بریک اپ تک آتی جس کے باعث تم مجھے عین جون میں دسمبر کی سیر کروا رہے ہو ۔ التمش آج  بحث کے موڈمیں تھا  سو چوٹ بھی برابر کی  پڑی تھی ۔
خیر اس کے لیئے تو تمہیں میرا شکر گزار ہونا چاہیے، معید نے دانت نکالے ۔۔ مگر میری جان ۔ یہ سب اپنے کنٹرول میں تھوڑی ہوتا ہے ، محبت تو ایک خود رو پودا ہے ، ایک امر بیل ہے جو    دل کی زمین پر جڑیں مضبوط کرتی ،پھلتی پھولتی چلی جاتی ہے۔اور انسان خود لاعلم رہتا ہے کہ کب اس نے دل کی سرحدیں پھاند کر آپ کے پورے وجود کو جکڑ لیا ۔
I would cordially appreciate , you are having the nice guts of pen pricks.
 التمش نے معید کو مزید تپانے کے لیئے باقاعدہ تالیاں بجا کر داد دی ۔
اگر تیرے دل میں صرف کیکٹس اگتے ہیں تو اس میں میرا کیا قصور ۔ معید کا بس نہیں چلتا تھا کہ التمش کو کھا  ہی جائے۔میرے دل میں ہر گز  ہر گز کیکٹس نہیں اگتے ، اس میں بھی انشاءاللہ گلاب ہی کھلیں گے مگر اپنے وقت پر ۔  ہاں آرٹیفیشل روسز جو تیری روبوٹنی آکر اگائیگی ۔ معید نے غصے سے اپنا سر تکیے میں گھسایا ، بارہا وہ سوچ چکا تھا کہ اپنا روم تبدیل ہی کروا لے ، التمش جیسے جینیئس سٹوڈنٹ کا روم میٹ بننے کے لیئے ہر دوسرا لڑکا تیار بیٹھا تھا ، جو ہیلپ انہیں التمش سے ملتی  وہ کسی  اور سے کہاں ۔ مگر معید کسی ذاتی مفاد کی وجہ سے اس کے ساتھ نہیں تھا وہ جانتا تھا کہ التمش اس کے ساتھ کمفرٹیبل ہے۔ کوئی اور آکر شاید  سکون کی وہ دنیا برباد کر دے جو اسے اپنی  یسرچ اور پراجیکٹس پر سوچ بچار کے لیئے درکار ہوتی ہے ، اور اتنے عرصے ساتھ رہ کر تو خود معید بھی اس کا عادی سا ہو گیا تھا ۔
التمش خود بے خبر رہا کہ کب گلاب کی  ننھی کونپلیں  دل کی زمین پر پھوٹیں ، اور غیر محسوس انداز میں  نمو پاتایہ پودہ ایک تناور درخت میں ڈھلتا گیا ، جہاں اب دلفریب مہکتے سرخ گلاب کھلتے تھے ۔ وہ اب بھی سمیسٹر اینڈ پر  جب گھر جاتا تو گھنٹوں ساتھ بیٹھ کرصفہ کو پڑھاتا ، اس کے ساتھ کھیلتا ۔ وہ ایک دوسرے سے بہت مانوس تھے ، مگر صفہ اتنی معصوم تھی یا خود التمش کو اتنا کنٹرول تھا کہ وہ اس کے جذبوں کی شدت سے لاعلم ہی رہی ۔ مگر کیلی کا فورنیا روانگی سے پہلے اسے صفہ کے رائٹس ہر حال میں اپنےنام کروانے تھے ۔ وہ برسوں پہلے پلاننگ کر کے انہی روٹس پر  گامزن رہنے کا عادی تھا ۔ ایک من پسند ، حسب ِخواہش لائف پارٹنر اسے  باقی نوجوانوں کے  بر عکس بے انتہاء آسانی سے مل رہا تھا ۔ جبکہ معید ، خاور اور دوسرے بیچ میٹس آج بھی  نا مرادہی تھے ۔ کہتے ہیں کہ سچی محبت زندگی میں صرف ایک دفعہ کی جاتی ہے ، مگر آج کی یہ نوجوان نسل سچی محبت کی دعویدار ہو کر ، سال دو سال اکھٹے گزار کر اپنے اپنے راستے الگ کر لیتی ہے اور پھر کچھ ہی عرصے بعد  نئے وعدوںاور دعووں کے سات ایک نئے ساتھی کے ساتھ  نئی زندگی کی شروعات کرتے دیر نہیں لگاتی ، کیا یہ محبت ہوتی ہے ؟ 
ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﯾﮧ ﺟﺎﻧﺎﮞ
ﭼﻠﻮ ﺗﻢ ﮐﻮ ﺑﺘﺎﺗﯽ ﮨﻮﮞ
ﺟﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﻣﯿﮟ ﺳﻤجھ ﭘﺎئی
ﻭﮨﺎﮞ ﺗﮏ ﮨﯽ ﺑﺘﺎﺗﯽ ﮨﻮﮞ
ﻣﺤﺒﺖ ﺁﺳﻤﺎﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﺗﺮﺗﯽ ﺍﯾﮏ ﺁﯾﺖ ﮨﮯ
ﻣﯿﺮﮮ ﺭﺏ ﮐﯽ ﻋﻨﺎﯾﺖ ﮨﮯ
ﮐﮩﯿﮟ ﻟﮯ ﺟﺎﺋﮯ ﻣﻮﺳﯽٰ ﮐﻮ
ﺗﺠﻠﯽ ﺭﺏ ﮐﯽ ﺩﮐﮭﻼﻧﮯ
ﮐﮩﯿﮟ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﮐﻮ ﻋﺮﺷﻮﮞ ﭘﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺏ ﺳﮯ ﻣﻠﻮﺍﻧﮯ
ﮐﮩﯿﮟ ﺳﻮﻟﯽ ﭼﮍﮬﺎﺗﯽ ﮨﮯ
ﮐﺴﯽ ﻣﻨﺼﻮﺭ ﺳﺮﮐﺶ ﮐﻮ
ﮐﮩﯿﮟ ﯾﮧ ﺑﯿﭩھ ﮐﺮ ﺭﻭﺗﯽ ﮨﮯ ﭘﮭﺮ ﺷﺒﯿﺮ ﺑﮯ ﮐﺲ ﮐﻮ
ﻟﮕﺎ ﮐﺮ ﺁﮒ ﭘﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ
ﮨﻮﺍ ﻣﯿﮟ ﺯﮨﺮ ﮔﮭﻮﻟﮯ ﮔﯽ
ﮐﺮﮮ ﮔﯽ ﺭﻗﺺ ﺷﻌﻠﻮﮞ ﭘﺮ
ﻣﮕﺮ ﮐﺐ ﺑﮭﯿﺪ ﮐﮭﻮﻟﮯ ﮔﯽ
ﮐﮩﯿﮟ ﯾﮧ ﺍﯾﮍﯾﺎﮞ ﺭﮔﮍﮮ .... ﺗﻮ ﺯﻡ ﺯﻡ ﭘﮭﻮﭦ ﭘﮍﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﻧﻈﺮ ﮐﺮ ﺩﮮ ﺟﻮ ﭘﺘﮭﺮ ﭘﺮ
ﺗﻮ ﭘﺘﮭﺮ ﭨﻮﭦ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﮐﮩﯿﮟ ﯾﮧ ﻗﯿﺲ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ
ﮐﮩﯿﮟ ﻓﺮﮨﺎﺩ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ
ﮐﮩﯿﮟ ﺳﺮ ﺳﺒﺰ ﺭﮐﮭﺘﯽ ﮨﮯ
ﮐﮩﯿﮟ ﺑﺮﺑﺎﺩ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ
ﮐﮩﯿﮟ ﺭﺍﻧﺠﮭﮯ ﮐﯽ ﻗﺴﻤﺖ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﯽ ﺍﮎ ﮨﯿﺮ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ
ﯾﮧ ﺑﺲ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ
ﮐﮩﺎﮞ ﺗﻘﺪﯾﺮ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ .... ؟
ﮐﮩﯿﮟ ﺍﯾﺜﺎﺭ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ
ﮐﮩﯿﮟ ﺳﺮﺷﺎﺭ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ
ﻭﮨﯿﮟ ﯾﮧ ﺟﯿﺖ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ
ﺟﮩﺎﮞ ﯾﮧ ﮨﺎﺭ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ
ﻣﺤﺒﺖ ﺩﻝ ﮐﯽ ﺩﯾﻮﺍﺭﻭﮞ ﺳﮯ ﻟﭙﭩﯽ ﮐﺎﺋﯽ ﺟﯿﺴﯽ ﮨﮯ
ﻣﺤﺒﺖ ﺩﻝ ﻧﺸﯿﮟ ﻭﺍﺩﯼ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺪﮬﯽ ﮐﮭﺎﺋﯽ ﺟﯿﺴﯽ ﮨﮯ
ﺳﻨﻮ !!.....
ﺗﻢ ﺑﮭﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﻮ ﮐﮩﯿﮟ ﮨﻠﮑﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﯿﻨﺎ
ﺍﮔﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﭘﮧ ﺟﺎﺋﮯ
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺻﺤﺮﺍ ﻧﺸﯿﮟ ﮐﺮ ﺩﮮ
ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﺁﺳﻤﺎﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﭘﻞ ﻣﯿﮟ ﺯﻣﯿﮟ ﮐﺮ ﺩﮮ
ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺩﺍﻥ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ
ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﺟﺎﻥ ﻟﯿﺘﯽ ﮨﮯ
ﺍﮔﺮ ﮐﻨﺪﻥ ﻣﯿﮟ ﮈﮬﺎﻟﮯ ﺗﻮ
ﺳﻤﺠھ ﻟﯿﻨﺎ ﯾﮧ ﺧﺎﻟﺺ ﮨﮯ
ﻣﻦ ﺗﻮ ﻧﺎﮞ ﺑﮭﻼدﮮ ﺟﻮ
ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺳﻤﺠﮭﻮ ﮐﮧ ﻧﺎﻗﺺ ﮨﮯ
ﺩﻝ ﺑﺮﺑﺎﺩ ﯾﮧ ﺭﻭﺷﻦ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﮐﺮﮐﮯ ﭼﮭﻮﮌﮮ ﮔﯽ

ﻟﮑﮭﮯ ﮔﯽ ﺩﺭﺩ ﻣﺎﺗﮭﮯ ﭘﺮ
ستارہ کرکے چھوڑے گی




۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



یوشع کے پچھلے دو دن اس قدر مصروف گزرے تھے کہ اسے کھانے پینے تک کا ہوش نہ تھا ،  ابھی بھی رات کے دس بجے وہ تھکن سے نڈھال  پہنچا تھا تو دھم سے بیڈ پر گر کر حسبِ عادت تکیے میں منہ گھسایا ۔ پھر جیسے کرنٹ کھا کر اٹھا  ارے ۔ میں نے تو  دوپہر سے کچھ بھی نہیں کھایا ، بے اختیار سر پر ہاتھ مارا ، پیٹ میں چوہے دوڑ دوڑ کر خود ہی تھک ہار کر سو چکے تھے ۔روشنی کی سپیڈ کے ساتھ ہی اسے صفہ یا آئی ، وہ اپنے پراجیکٹس اور ریسرچ میں یونہی دنیا سے بیگانہ سارا سارا دن لگا رہتا تھا تب  صفہ ہی کبھی ڈانٹ پھٹکار کر تو کبھی پیار سے اسے کچھ نہ کچھ کھلاتی رہتی تھی ۔یوشع نے ماں کو کال کرنے کا رادہ کر کےسیل کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ یکدم سکرین روشن ہوئی ، مما کالنگ ۔۔ اوہ مائی گریٹ مام، اس نے سیل کو ہونٹوں سے لگا کر ایک طویل بوسہ دیا جیسے وہ عموما ََ ماں کی فراخ پیشانی چوما کرتا تھا ۔
اسلام و علیکم ۔ مما ۔ وہ ھیلو ، ہائے کے بجائے ہمیشہ پورا سلام  کیا کرتا تھا ، صفہ ہی نہیں التمش نے بھی اس کی تربیت کرتے ہوئے ، ان باتوں کا بھرپور خیال رکھا تھا  جو بظاہر بہت چھوٹی معلوم پڑتی ہیں اور ہماری آج کی نسل ان پر توجہ دینا بلکل پسند نہیں کرتی ، مگر جب آپ انٹر نیشنل لیول پر ، کسی بڑے فورم  پر اپنے ملک اور اپنے کلچر کی نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں تو یہ باتیں بہت اہمیت اختیار کر جاتی ہیں ۔ ہم سب سے پہلے مسلمان اور پاکستانی ہیں اور  دنیا بھر میں یہی ہماری پہچان ہے ۔سوری مما دو دن سے مصروفیات اتنی  شدید تھیں کہ میں بات کرنے کے لیئے بلکل بھی ٹائم نہیں نکال سکا ، ابھی واپس آیا تھا اور آپ کو ہی کال کرنے لگا تھا۔
اٹ از اوکے میری جان ۔ یہ بتاؤ کہ پروگریس کیا ہے ؟؟
یوشع یکدم چونکا ۔ صفہ کو ہمیشہ اس  کے پراجیکٹس سے زیادہ ، کھانے پینے اور اس کی صحت کی پرواہ ہوتی تھی ، مگر ابھی انہوں نے ڈائریکٹ کام کے بارے میں پوچھا تھا ۔
مما سب کچھ ٹھیک ٹھاک جا رہا ہے ، ڈونٹ یو وری ۔ بٹ ہوسکتا ہے کہ مجھے واپسی میں کچھ تاخیر ہوجائے ۔۔یوشع ڈرتے ڈرتے لائن پر آیا ۔کیوں ؟؟ صفہ نے یہ ایک ہفتہ کانٹوں پر گھسٹ کر گزارا تھا اور وہ  لیٹ آنے کی بات کر رہا تھا ، انہوں نے بمشکل اپنے آنسوؤں پر قابو پایا ، جو چھلکنے کو تیار تھے ۔مما یہاں کچھ مزید مصروفیات ہیں جن کے وجہ سے مجھے ہفتہ دس دن  اور لگ جائیں گے ، مگر سر آفتاب کی واپسی سنڈے کو کنفرم ہے ۔
یوشع ۔ میں تمہیں کہہ رہی ہوں تم آفتاب سر کے ساتھ ہی واپس آؤگے سمجھے ۔تم دنیا میں جہاں بھی کیریئر بنانا چاہو میں تمہیں نہیں روکوں گی ۔۔ مگر کیلیفورنا ۔ میں نہیں ۔ ہر گز نہیں
مما ، میری پیاری مما ۔اسے بے اختیار اپنی سیدھی نا سمجھ ماں پر پیار آیا ، دودھ کا جلا چھاچ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے وہ ایک پیارے کو کھو چکی تھی ۔۔ دوسرے کو انہی راہوں کا مسافر بنا دیکھنا اس کے لیئے دوبھر تھا ۔مما ، تقدیر کا لکھا ، کیلیفورنیا ، واشنگٹن یا شنگھائی سے وابستہ نہیں ہوتا ، نصیب کا لکھا کبھی بھی ، کہیں بھی ، کسی بھی طرح سامنے آکر رہتا ہے ، آپ خوفزدہ بلی کی طرح آنکھیں بند کر نا چھوڑ دیں ، آپ ایک بہادر اور  باہمت شخص کی بیوی تھیں،ابآپ کو ایک نڈر اور مضبوط ماں بھی بن کر دکھانا ہے  ۔ یوشع کی آواز میں ایک عجیب سے ٹھنڈک تھی جو صفہ کے پورے وجود کو  برف کرتی چلی گئی تھی ۔ وہ کیا کہہ رہا تھا ۔ کیا وہ سب کچھ جانتا تھا ؟
یوشع میرے بچے میں قربانیاں دیتے دیتے تھک گئی ہوں ، مجھ میں اور ہمت نہیں رہی ، پلیز واپس آجاؤ ۔ میرے لیئے واپس آجاؤ وہ  زارو قطار روتے ہوئے ہچکیوں کے درمیان بمشکل اپنی بات مکمل کر پائیں ۔اور دوسری طرف یوشع نے سختی سے اپنی آنکھیں بھینچیں ، اسے فیصلہ کرنے میں لمحے ہی لگا کرتے تھے ۔اس نے باپ کے ساتھ دس سال گزارے تھے اور اسی سے صفہ کو کنٹرول کرنا سیکھا تھا ،  وہ  صفہ کی ضد کے آگے فورا ََ ہتھیار ڈال دیا کرتا تھا مگر چند دن بعد ہوتا وہی تھا جو التمش کی مرضی ہوتی تھی ۔
سو ایک ٹھنڈی سانس بھر کر اس نے ہامی بھری ، اوکے سویٹ مما ، میں سنڈے تک سر آفتاب سے ساتھ ہی واپس آجاؤنگا ۔ڈونٹ یو وری ۔ چلیں اب آنسو پونچھیں اور مسکرا کر دکھائیں ، اسکی آواز ماں کی محبت سے سرشار تھی ۔ اور دوسری طرف مسکراتے ہوئے صفہ نے بے اختیار ہتھیلی کی پشت سے  آنکھیں  رگڑیں ۔
وہ  کہہ تو رہا ہے مگر کیا واقعی واپس بھی آجائیگا ؟؟ صفہ نے سیل آف کر کے افسردگی سے سوچا ، وہ دونوں باپ بیٹوں کی رگ رگ سے واقف تھی  جو کرتے ہمیشہ اپنے من کی تھے ۔اسی وقت حسب ِ عادت کمرے کا دروازہ دھاڑ سے کھولتی ہوئی عنایہ اندر داخل ہوئی ، اس کے ہاتھ میں کچھ بکس تھیں اور ان کے درمیان چھپایا ہوا   نمکین پینٹس کا پیکٹ ، کتابیں ایک طرف بے دلی سے پٹخ کراس نے صفہ کی گود میں سر رکھ کرپیکٹ کھولا اور مزے سے مونگ پھلیاں ٹھونگنے لگی ، اس گھر میں صرف صفہ تھی جس کے پاس بیٹھ کر  وہ آرام سے  بنا خوف و خطر کھا لیتی تھی ورنہ  گل رخ کی سختی کے باعث اب تو ملازم بھی اسکی شکایت لگا دیا کرتے تھے ۔
چاچی کیا یوشع کی کال تھی ؟؟ عنایہ نے ایک نظر صفہ کی روئی روئی آنکھوں پر ڈال کر ہی اندازہ لگا لیا تھا ۔
ہاں کہہ رہا تھا کہ سنڈے تک واپس آجائیگا ۔۔ صفہ نے اس کے صبیح چہرے پر آئی ریشمی  لٹیں سنوارتے ہوئے جواب دیا ، قدرے بھرے بھرے جسم کے باوجود عنایہ کافی خوبصورت تھی، ان کے خاندان میں لڑکیاں کم ہی تھی ، مگر جو بھی تھیں وہ حسن و جمال میں یکتا تھیں ۔
آر یو شیور چاچی ۔۔ کہ وہ سنڈے تک ہی آجائیں گے ؟؟ عنایہ نے مشکوک نظروں سے اسے دیکھا۔ اسکی  دو دن قبل یوشع سے بات ہوئی تھی  تو وہ رینک برین کے علاوہ آرٹی فیشل انٹیلیجنس کے کسی اور پراجیکٹ کی تفصیلات بتا رہا تھا، جس کے لیئےاسے وہاں مزید دو ہفتے رکنا تھا ۔  
ہاں کہہ رہا ہے توآفتاب سر کے ساتھ ہی واپس آجائیگا ۔۔ صفہ نے کمزور  سے لہجے میں جواب دیا
ڈیٹس گڈ ، صفہ کی گود میں  سر رکھے عنایہ بظاہر مونگ پھلیاں ٹھونگتی  اور اِدھر اُدھر کی باتیں کرتی ان کا دل  بہلاتی  رہی، مگر اس کی سوچوں کا مرکز اس وقت بھی یوشع ہی تھا ۔ صفہ جب کچھ دیر بعد مغرب کی نماز کے لیئے اٹھیں ،تو سیل ہاتھ میں لیئےوہ تیزی سے اپنے روم کی طرف بڑھی ، پھر سکائپ پر یوشع کو کال کی جو اس کے توقع کی عین مطابق فوراََ ہی یوں ریسیو کرلی گئی ، جیسے دوسری طرف کوئی منتظر تھا ۔
یس کیشائر کیٹ ، ہاؤ آر یو ۔؟؟
فائن ، عنایہ نے ایک گہری نظر یوشع پر ڈالی جو بظاہر ڈھیلے ڈھالے انداز میں  لیٹا آرام کے موڈ میں دکھائی دیتا تھا ، مگر اس کی پیشانی پر سوچ کی گہری لکیریں تھیں ۔عنایہ نے منہ سے کچھ کہے بغیر استفہامیہ نظروں  سے اسے دیکھا ، دونوں کی نگاہیں ملیں وہ گزشتہ دس سال سے  ایک دوسرے کے بہترین دوست تھے ، اگرچہ انکا بچپن دو علیحدہ ملکوں میں گزرا تھا  مگر یوشع جب بھی پاکستان آتا  تو اس کا زیادہ تر وقت عنایہ کے ساتھ ہی گزرتا تھااگرچہ عنایہ کے بھائی سروش سے بھی اس کی کافی دوستی تھی مگر طبیعتوں میں یکسانیت کے باعث اسکی عنایہ سے کھل کر بنتی تھی۔
مما سے تمہاری بات ہوئی نا ۔۔؟؟ یوشع نے ڈائریکٹ بات کا آغاز کیا
یس ہوئی ۔ پھر آرہے ہیں آپ سنڈے ؟؟
عنایہ ڈیئر ، اٹ از ناٹ پوسیبل ۔ میں یہ چانس مس نہیں کر سکتا ، مما کو کسی طرح سمجھانا  اور سنبھالنا ہوگا ۔ یوشع نے پتا پھینکا
اچھا ۔وہ کیسے ؟؟ کچھ سوچا آپ نے ۔ وہ جان کر انجان بنی نہیں ڈیئر کزن اٹ از یور پرابلم  ۔ میں کیوں اپنی انرجی ضائع کروں۔
واٹ ۔ مائی پرابلم ؟؟
Yes, yours problem, better you know how could handle mama!
اگر میں یہ کام نا کروں تو  ؟؟  اب  بال عنایہ کی کورٹ میں  تھی
نا ۔ نا ۔ نا ۔ کزن ڈیئرسٹ ۔ بڑوں سے پنگا نہیں لیتے  ۔ یوشع نے دانت نکالے۔۔۔بڑوں کو بھی تو چھوٹوں کی اہمیت اسی وقت پتا لگتی ہے جب ان کو کوئی کام ہوتا ہے ۔ ہونہہ عنایہ نے منہ بنایا
اچھا چلو ۔ یو آر ویلیوڈ ۔۔ یوشع نے جیسے ہاتم طائی کی قبر کو لات ماری
خیر ۔ چلیں آپ کی ہیلپ کیئے دیتی ہوں ایک تو آپ کے وہاں رکے رہنے سے دو تین ہفتے پاکستان میں امن و سکون رہے گا ، عنایہ نے باقاعدہ بتیسی دکھائی
آہاں ۔۔پلیژر مائی ڈیئر کزن ، اب ذرا جلدی سے دوسری وجہ بھی ارشا فرما دیں
دوسری وجہ یہ ہے کہ چاچی کچھ دن اور ہمارے پاس رہ لیں گی ورنہ آپ کے آتے ہی ان کو گھر جانے کی فکر لگ جائے گی ۔
کاش لوگ کبھی ہماری بھی اتنی پرواہ کیا کریں ۔ یوشع نے ایک مصنوعی سرد آہ بھری۔
لوگ اگر شرافت سے رہنا سیکھ جائیں تو سوچا جا سکتا ہے
نہ۔ عنایہ بی بی ، اگر  جو میں کسی دن شریف بن گیا نا ، تو پھر میری تمہاری بلکل نہیں بننی ، یوشع نے ہنسا ، ہم دو لڑتی کونجیں ہی ٹھیک ہیں ۔
اچھا اب مجھے سونے دو  ، بہت تھکا ہوا ہو ، اس نے ایک لمبی جمائی لیکر الوداعی کلمات کہہ کر سیل آف کیا ، اور  لائٹ بند کر کے تکیے میں منہ دیکر سو گیا مگر دوسری طرف عنایہ کو فکروں نے آگھیرا تھا ، وہ سیل وہیں چھوڑ کر لان میں آئی اور بہت دیر تک ننگے پاؤں نرم گھاس پر یہاں سے وہاں پھرتی رہی ۔صفہ کو سمجھانا تھا مگر کیسے وہ اسی ادھیڑ بن میں لگی ہوئی تھی کے اندر سے گل رخ نے اسے ڈنر سرو کرنے کے لیئے آوازیں لگائیں ۔ سارے خیالات کو جھٹکتی ہوئی وہ تیزی سے اندر لپکی ۔۔آئی ماما ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہممنگ برڈ   ہی گوگل کا وہ الگورتھم ہے جس کے ذریعے  وہ انتہائی تیزی سے لمحوں میں یوزر کی سرچ کیوری کے  متعلق اندازہ کر کے  سرچ آپشنز کو ڈسپلے کرتا ہے، جس میں سرچ کی ورڈز  کے نا صرف تمام رزلٹ موجود  ہوتے ہیں  بلکہ آٹو میٹک گیوزسے گوگل ان کو رینک بھی کرتا ہے ، یوزرز نے جو سرچ کی ورڈز سرچ بار میں درج کیئے ہوتے ہیں ، ان سے قریب تر رزلٹس انہیں ہمیشہ ٹاپ پر ملتے ہیں جبکہ اس سے تھوڑا بہت تعلق رکھنے والے لنکس کم تر درجے پرہوتے ہیں ۔۔اگر یوزر سرچ کیوری کو صحیح طرح درج نہیں کر پایا ، سپیلنگز، گریمر یا پھر موزوں الفاظ کے انتخاب میں اس سے کوئی غلطی ہوئی ہو  تب بھی گوگل کا یہی ہممنگ برڈ الگورتھم اپنی سی پوری کوشش کرتے ہوئے، سرچ کیوری کو آخری ممکنہ حد تک گیوز کرتے ہوئے کوئی نہ کوئی رزلٹ ضرور ڈسپلے کرتا ہے ۔بسا اوقات ایک سرچ کیوری سے متعلق ہزاروں کی تعداد میں لنکس اور پیجز دستیاب ہوتے ہیں ( عموما سیلیبریٹیز اور پا پولر سرچز میں ایسا ہوتا ہے)، اس صورت میں رینکنگ میں سب سے اوپر وہ لنکس ملتےہیں جن پر سب سے زیادہ کلک کیا گیا ہو ، یا وہاں فریش اور اپ ڈیٹ معلومات ہوں ۔ اسی باعث رینک برین کا شمار دنیا کے تیسرے سب سے اہم سگنلز میں کیا جاتا ہے جو گلوبلی سرچنگ میں بھرپور معاونت کر ہا  ہے ۔اور اس کے ذریعے مشین سرچ آپشنز کی ایک بڑی تعداد کو کامیابی کے ساتھ گیوز کرنے کے قابل ہو گئی ہے ۔مگر اب بھی یوزرز کو  بسا اوقات دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور انہیں سرچنگ کے دوران اپنا مطلوبہ لنک نہیں مل پاتا ، یا اس میں ان کی حسبِ ضرورت معلومات نہیں ہوتیں ۔اور انہیں دوبارہ ، سہہ بارہ اپنے کی ورڈز تبدیل کر کے سرچنگ کرنا پڑتی ہے، ہمارا نیا چیلنج اسی پرابلم سے متعلقہ ہے اور اس کمٹیشن کو منعقد کرنے کا بنیادی مقصد بھی یہی تھا  کہ  دنیا بھر سے ایسے آئیڈیاز سامنے آسکیں جن کے ذریعے مشین یوزر کی کیوری ہی نہیں اس کے دماغ کو نناوے فیصد تک جانچنے کی حامل ہو جائے۔اور ہم بہت خوشی کے ساتھ یہ اعلان کرتے ہیں کہ یہ ایونٹ ہماری توقع سے بڑھ کر کامیاب رہا ہے ، انشاءاللہ بہت جلد ہم رینک برین کو اپڈیٹ کر کے مزید بہتر رزلٹ فراہم کرنے کے قابل ہونگے ۔
گوگل کی کنٹری سی ای او کی اس تقریر کے ساتھ ہی وہ زبردست ایونٹ اختتام پزیر ہو گیا جس میں  شرکت کے لیئے دنیا بھر سے سینکڑوں آئی ٹی ، اے آئی اور سوفٹ ویئر کے ماہرین ایک ہفتے سے کیلیفورنیا میں جمع تھے۔ اور ہمیشہ کی طرح اس تقریب کا  تاج بھی یوشع ہی  کے سر رہا تھا۔ آج تک کوئی ایسا ایونٹ نہیں گزرا تھا جس میں  اس نے شرکت کی ہو اور وہ  مرکز نگاہ نا ٹہرا ہو ۔ اپنے پراجیکٹ کے متعلق اس کی تقریر قدرے  مختصر مگر مدلل تھی ، وہ ہمیشہ سے  کم سے کم الفاظ میں مؤ ثر بات کرنے کا عادی تھا اور یہ فن اس التمش سے ورثے میں ملا تھا ۔


الوداعی تقریب کے دو گھنٹے بعد ڈاکٹر آفتاب ملک  اسے چند ضروری ہدایات دیکر ائیر پورٹ کے لیئے روانہ ہو گئے تھے ، جبکہ یوشع کی واپسی پروگرام کے مطابق اگلے دو سے تین ہفتے تک ہی تھی ۔ عنایہ کی ساری لفاظی دھری کی دھری رہ گئی تھی جب صفہ نے خود ہی ہتھیار ڈال دیئے تھے ، وہ جانتی تھی کہ  وہ تو کبھی التمش سے اپنی نہیں منوا سکی تھی تو یوشع  باپ کی نسبت زیادہ ضدی اور  انا پرست تھا ۔شادی کی ابتدائی ماہ میں صفہ کو التمش اور اس کی عادات کو سمجھے میں کافی دقت ہوئی تھی ، وہ قطعاََ اس کے لیئے اجنبی نہیں تھا ، چھ برس سے  صفہ اسی کے گھر میں تھی ، مگر جب دو افراد ایک چھت تلے رہنا شروع کرتے ہیں، تب پہلی کی ساری آشنائی بہت جلد ہوا میں خوشبوؤں کی طرح بکھر کر دن بدن معدوم ہوتی چلی جاتی ہے ، دونوں پارٹنرز کو  نئے سرے سے ایک دوسرے کو جاننا اور سمجھنا  پڑتا ہے۔
اور صفہ سے پوچھو تو دنیا کا مشکل ترین کام کسی اوور جینیئس  شخص کے ساتھ زندگی گزارنا ہے ۔ایسا نہیں تھا کہ وہ خود ایک کند ذہن یا ایورج مائنڈ والی لڑکی تھی جو یہ چاہتی کہ شوہر  صبح شام اسکے حسن کے قصیدے پڑھے ، انکی صبح تازہ گلاب کی کلی سے ہو تو رات کو  ڈنر کہیں باہر کیا جائے ، وہ شادی سے پہلے جانتی تھی کہ وہ ایک غیر معمولی  صلاحیتوں والے شخص کی شریکِ حیات  بننے جا رہی ہے ، جو اس سے توقع رکھتا تھا کہ وہ محبتوں کا تقاضہ کرکے اس کی زندگی مشکل بنانے کے بجائے ،اپنی محبت ، توجہ اور ایثار سے اسکے زندگی کو مکمل کر دیگی۔
عموما ََ غیر معمولی ذہانت کے حامل افراد کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ ان کی بات کو صحیح طور پر سمجھ نہیں پاتے ، وہ جس لیول پر چیزوں ، لوگوں اور ان کے رویوں کو پرکھتے ہیں ، سامنے والا اس لیول  پر جاکر اسکو سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے ۔نتیجتا ََ پہلے پہل بدگمانیاں  جنم لیتی ہیں جو بڑھتے بڑھتےکدورت بنتی ہیں اور پھر دلوں میں اتنے فاصلے حائل ہوجاتے ہیں کہ چاہنے کے باجودبھی دونوں اطراف میں سے کوئی بھی ان فاصلوں کو پاٹ کر از سرِتعلقات استوار کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا ۔
بظاہر قصور دونوں میں سے کسی کا بھی نہیں ہوتا ، ہر شخص اپنی اپنی صلاحیت ، سوچ اور ذہنی اپچ کے مطابق ہی پرکھ سکتا ہے، مگر لوگ عموما ََ کشادہ ظرف نہیں ہوتے  وہ اختلافِ رائے کا احترام  کرنے کے بجائے اسے انا کا مسئلہ  بناکر سامنے والے کو مغرور  سمجھ بیٹھتے ہیں تو کبھی گھمنڈی ۔حالانکہ دراصل یہ انکی اپنی لا یعنی انا ہوتی ہے جو مسائل کو جنم دیتی ہے ، اگر آپ کشادہ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے صرف ایک نکتے کو قبول کر لیں کہ سامنے والے کا تھنکنگ لیول آپ سے ہائی ہے ، جو خدا کی دین ہے اس میں نا اس کا اپنا کوئی کمال ہے نا آپ کا کوئی قصور کہ آپ کے پاس وہ نہیں ، تو بہت سے مسائل پیدا ہی نہ ہو پائیں ۔ مگر لوگوں کی تنگ نظری اور فضول کی انا پرستی نا صرف غیر معمولی ذہین افراد کی زندگی کو اجیرن کر دیتی ہے بلکہ انہی مجموعی روویوں کے باعث وہ خود کو اپنی ذات تک محدود کر کے آہستہ آہستہ تنہائی کا شکار ہوتے جاتے ہیں ۔کبھی کبھی یہ حد سے بڑی ذہانت اور صلاحیتیں انہیں بوجھ سی معلوم پڑتی ہیں ۔ ایسا نہیں ہوتا کہ ان کے آنگن ہمیشہ سونے اور ویران پڑے رہتے  ہیں ، مگر بنیادی مشاہدہ یہی ہے کہ انتہائی ذہین افراد کی زندگی میں سب سے بڑا فقدان خوشیوں کا ہوتا ہے ۔
صفہ کو یہ سب حقیقتیں سمجھنے میں کم و پیش  چھ ماہ کا عرصہ لگا تھا ، انکی بارہ سالہ شادی شدہ زندگی میں کبھی عام میاں بیوی کی طرح انکے جھگڑے نہیں ہوئے تھے ۔ التمش کو اگر کوئی بات  ناگوار گزرتی تھی تو وہ منہ سے اس کا اظہار  نہیں کرتا تھا ۔ بس چند  دن کے لیئے ایک گمبھیر خاموشی اس کے گرد ہالہ کر لیتی تھی ۔ اور پھر صفہ کو یہ پزل ازخود  بوجھ کر ، اس ہالے کو عبور کرکے اس تک اپروچ کرنا پڑتی تھی ۔ ابتدائی ماہ کی کھٹن ایکسرسائز کے بعد اسےبھی اس پزل کو حل کرنے میں مزاآنے لگا تھا  وہ ایک ذہین لڑکی تھی اور چاہنے یا چاہے جانے سے زیادہ اسے کسی کو بوجھ کر فتح کرنا زیادہ متاثرکن لگتا تھا ۔
اور ہر دفعہ جب وہ پزل حل کر کے التمش تک  اپروچ کرتی تھی تو  التمش کی نگاہوں کی خیرہ کن چمک جیسے اسے اپناآپ بھلا دیتی تھی ، اور التمش کے لیئے بھی یہ لمحے یادگار ہوا کرتے تھے ، اس کی بیوی عام عورتوں کی طرح بن سنور کر، یا لذیز کھانوں کے ذریعے اس کو لبھانے کی کوشش  کرنے کے بجائے ، اسکی ذہنی سطح کو سمجھتے ہوئے آہستہ آہستہ خود کو اس لیول تک لا رہی تھی ، جہاں وہ بنا کہے ایک دوسرے کے بات سمجھ سکیں ، جہاں دعوے، وعدے یا شکوے شکایات کا انبار نہ ہو ، بلکہ جہاں اعتبار ، یقین اور بے مثال ایثار ہو ۔  اس کے دل کی ملکہ تو خیر صفہ شادی سے پہلے ہی بن چکی تھی مگر اب وہ اسکی کل کائنات بھی بنتی جا رہی تھی ۔
جاری ہے  
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔                    

کمنٹ سیکشن میں اپنا فیڈ بیک ضرور دیجیئے                         
Share on Google Plus

About Unknown

0 comments:

Post a Comment