WELCOME TO MELTED TRUTHS

All Truths are easy to understand once they are discovered;the point is to discover them.(Galileo Galilei)

وہ کون تھی۔؟؟ پہلا حصہ The unknown creature


وہ کون تھی۔؟؟
                                   






نومبر کی ایک سرد سی رات تھی، مگر خلافِ توقع مطلع بلکل صاف تھا ۔ گزشتہ ایک ہفتے کی مسلسل بارشوں کی بعد اُس روز کھل کر دھوپ نکلی ، تو  ٹھنڈ کی شدت میں کچھ کمی واقع ہوئی تھی۔ سٹیوو ایریزونا میں  اپنے چھوٹے سے  کاٹیج کے باہر  سیڑھیوں پر کھڑا بہت دیر سے آسمان کو تک رہا تھا ۔ یکدم کسی خیال کے زیر ِ اثر وہ تیزی سے اندر بھاگا اور اوپر اپنے کمرے میں جا کر الماری سے ٹیلی سکوپ نکال کر  اوپر ٹیرس پر چلا آیا ،  یہ ٹیلی  سکوپ کچھ عرصے پہلے ہی اس کے ڈیڈ نے برتھ ڈےپر اسے گفٹ کی
تھی۔وہ سپر مون کی رات تھی اور ہر طرف دودھیا چاندنی بکھری ہوئی تھی ، نومبر میں آنے والے سپر مونز عموماََ  بے انتہا روشن  ہوتے ہیں جن میں چاند کچھ زیادہ بڑے دکھائی دیتے ہیں۔ سٹیوو کو ایسٹرانومی  میں اس وقت سے دلچسپی تھی ، جب وہ صرف پانچ برس کا تھا۔   عمر کے ساتھ شوق اب بڑھتا ہی جا رہا تھا اور ذہین بیٹے کے رجحان کو دیکھتے ہوئے  اس کے ڈیڈ اپنی  بساط کے مطابق سہولیات اسے فراہم کر رہے تھے۔
 سٹیوو کافی دیر تک سپر مون کا ٹیلی سکوپ سے مشاہدہ کرنے کے  بعد واپس  نیچے کا سوچ ہی رہا تھا کہ یکدم  سپر مون کی قدرے بڑے نظر آتی چاند کی سطح پر اسے کوئی شے حرکت کرتی محسوس ہوئی، اور وہ شے لمحہ لمحہ اس کے قریب آتی گئی، اتنی نزدیک کے وہ باآسانی اسے دیکھ سکتا تھا ، وہ کوئی بہت بڑے سائز کا پرندہ تھا ،" بڑی بڑی سرخ کٹورا آنکھیں ، پتلی سبز رنگ کے پروں سے ڈھکی گردن، جس کے نیچے کہیں کہیں سرخ رنگ کے دھبے کافی نمایاں تھے۔جب کے اس کی عام پرندوں کی نسبت بہت سے بڑی دم سبز، نارنجی، زرد اور سرخ رنگوں کا ایک خوبصورت امتزاج تھی "۔ مگر  اس بھاری بھرکم جسامت کے ساتھ اتنی بڑی دم بدن پر تھرتھری  طاری کر دینے کے لیئے کافی تھی ۔ سٹیوو بارہ برس کا ایک نڈر اور بہادر لڑکا تھا ، جو ایسے ایڈونچرزکی تاک میں رہتے ہیں ، سو وہ  بنا کسی خوف کےاپنی ٹیلی سکوپ سے اس انوکھےپرندے کا جائزہ لیتا رہا جو  پہلی نظر میں طوطے  سے مشابہہ دکھائی دیتا تھا ۔پھرجس طرح وہ  اچانک نمودار ہوا تھا ، اسی طرح لمحوں میں غائب بھی ہو گیا ، سٹیوواینگل تبدیل کر کے بہت دیر تک سرچ کرتا رہا ،  مگر وہ پھر دکھائی نہ دیا۔
سٹیوو کھویا کھویا سا نیچے آیا تو اسکی ماما میری  ڈنر سرو کر چکی تھیں ، وہ بھی اپنی مخصوص چیئر سنبھال کر  قدرے بد دلی کے ساتھ  بوائلڈ پوٹاٹو اور  مشروم سوپ زہر مار کرنے لگا جو سردی میں اسکی ماما  ہر روز بنایا کرتی تھی ۔ کھانے سے ہاتھ کھینچ کر سٹیوو فوراََ اپنے روم میں چلا آیا ،  اسکی سوچوں کا محور اس وقت وہی پرندہ تھا ، تیزی کے ساتھ اپنے سکیچ بک نکال کر سٹیوو  اس کا  خاکہ بنانے لگا جو ابھی ذہن میں بہت واضح تھا، ایک گھنٹے بعد وہ اپنا کام ختم کر کے اس نے ایک نظر سکیچ پر ڈالی ، " پرفیکٹ" وہ بلکل ایسا ہی تو تھا ، سٹیوو نے خود کو داد دی اور سکیچ اپنے سکول بیگ میں رکھ  کر بستر میں گھس گیا ، ساری رات خواب میں اسے وہی پرندہ اڑتا ، اپنی طرف بڑھتا نظر آتا رہا ۔اگلے روز  سکول میں سٹیوو نے سب سے پہلے اپنے بیسٹ فرینڈ  پیٹر کو وہ سکیچ دکھا کر پورا واقع سنایا،  پیٹر چند لمحوں تک اپنی موٹی موٹی آنکھیں پٹ پٹا کر سکیچ کو دیکھتا رہا ، پھر یکدم قہقہے لگاتے ہوئے اسے جیمز کی طرف بڑھایا ۔
لگتا ہے سپر مون نے تیرے دماغ پر برا اثر ڈالا ہے، کچھ دیر بے ہنگم قہقہے لگانے کے بعد پیٹر کا تبصرہ آیا ۔
 سٹیوو نے  برا سا منہ بنا کر پیٹر کو کوسا ۔Damn it
ارے نہیں یار، مجھے لگتا ہے کہ سٹیوو سپر مون پر کوئی فکشن سٹوری  لکھنا چاہ رہا ہے، ویسے آئیڈیا اچھا ہے سویٹ ہارٹ ، جیمز نے سٹیوو کو آنکھ مار کر  دانت نکالے۔
 تم لوگوں سے تو بات ہی کرنا فضول ہے، سٹیوو نے جیمز کے ہاتھ سے سکیچ چھینا اور کلاس رروم سے باہر آیا جہاں کچھ اور کلاس فیلوز خوش گپیوں میں مصروف تھے۔
Hay! Steve what’s the matter?  
 اس کا تپا ہوا چہرہ دیکھ کر انکا رشین کلاس فیلو گوباٹو  اس کے پیچھے لپکا ۔
نتھنگ! سٹیوو کورا جواب دیکر آگے بڑھنے ہی لگا تھا کہ گوباٹو نے سکیچ اس کے ہاتھ سے جھپٹا ۔ اوہ واؤ۔ ونڈرفل ، ایکسیلینٹ۔ پرفیکٹ ۔ بٹ اسکی آنکھیں بہت زیادہ بڑی اور سرخ ہیں ، لیکن  پھر بھی یہ سائنس فکشن کے لیئے ایک اٹریکٹو آئیڈیاہے ، تم ایسے اچھوتے سکیچز بنا کر جلد ہی مشہور ہو سکتے ہو ۔ گوباٹو  نے اپنی دانست میں  نیک مشورہ دیا تھا ، مگر سٹیوو کا بس نہیں چلتا تھا کہ اس کا گلا ہی دبا دے ۔سارا دن سٹیوو دوستوں کے مذاق کا نشانہ بنتا رہا ، یہاں تک کہ اس کے  جینئس ٹیچر کولن نے بھی سکیچ دیکھ کر، اور پوری کہانی سن کر یوں مشکوک نظروں سے اسے دیکھا جیسے انہیں سٹیوو کی دماغی حالت پر شبہ ہو ۔گھر واپسی پر سٹیوو نے وہ سکیچ بہت غصے سے اپنے بیگ سے نکالا ، وہ اسے پھاڑ کر پھینک دینا چاہتا تھا ، مگر کسی ماورائی قوت نے جیسے اس کے ہاتھ تھام لیئے، کچھ سوچتے ہوئے اس نے سکیچ کو اپنی ایسٹرانومی کی  کولیکشن بک میں " نا معلوم مخلوق" کے ٹیگ کے ساتھ سیو کر دیا ،  اس  بک میں وہ پانچ برس کی عمر سے  فلکیات پر تصاویر اور سکیچز جمع  کرتا رہا تھا ۔
برس ہا برس گزرتے گئے، سٹیوو سکول کو خیر باد کہہ کر یونیورسٹی تک پہنچا ، پھر ایک روز   وہ بھی آیا جب اس نے  تھیوریٹیکل فزکس میں گریجویشن مکمل کرکےعملی زندگی کا آغاز اسی یونیورسٹی میں پڑھانے سے کیا ، مگر ایسٹرانامی میں اسکی دلچسپی آج بھی کم نہ ہوئی تھی ، ایسٹراناٹ بننے کا خواب اب بھی اندر کہیں انگرائیاں لیتا تھا ۔ اسکی لگن واقع سچی تھی، کچھ عرصے بعد اسے ناسا کے ایسٹراناٹ ٹیسٹ دینے کا موقع ہاتھ ملا اور  خلافِ توقع  با آسانی اسکی سلیکشن بھی ہو گئی۔
دو برس کی کھٹن ترین اور جان لیوا ٹریننگ کے بعد اسے ناسا کے مشن" اے جرنی ٹو مارس" کے لیئے منتخب کر لیا گیا ۔ سٹیوو کو چھ ماہ سرخ سیارے کے ہیبت ناک ماحول میں اکیلے گزار کر ڈیٹا جمع کر کے اس پر ریسرچ کرنی تھی۔میں اپنے ساتھ تنہائی کا کوئی ساتھی رکھ سکتا ہو ں کیا ۔؟ کچھ دنوں کی سوچ بچار کے بعد سٹیوو نے اپنا مدعا ناسا  پراجیکٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر جوناتھن سے بیان کیا ۔
ہاں تم چاہو تو اپنے ساتھ کوئی روبوٹ ساتھ رکھ سکتے ہو۔بٹ واٹ اباؤٹ ا ے پیٹ ؟؟
ہاں یہ بھی ایک اچھا آئیڈیا ہے اور اس سے پراجیکٹ کو مزید بوسٹ ملے گا ، کہ کوئی جانور مارس پر کس طرح اور کتنے عرصے سروائیو کر سکتا ہے، کیا تمہارے پاس کوئی پالتو جانور ہے ، میرا خیال ہے کی کیٹ بہترین ساتھی ثابت ہوگی۔
نہیں میرے پاس تو نہیں مگر اس کا انتظام کیا جا سکتا ہے ۔ سٹیوو نے پر سوچ انداز میں جواب دیا
نو پرابلم۔ جوناتھن نے چٹکی بجائی  میرے ایک دوست کی  گرینڈ مام نے تنہائی سے بچنے کے لیئے بہت سے پیٹ پال رکھے ہیں ، میرا خیال ہے کہ تم کل ہی ان سے مل لو ، جانی نے ایک چٹ پر ایڈریس لکھ کر سٹیوو کو تھمایا ۔اگلے روز  شام کو سٹیوو نے  مطلوبہ ایڈریس پر پہنچ کر ڈور بیل دی۔ تو ایک ادھیڑ عمر خاتون نے دروازہ کھولا ، وہ یقین جینی ہی تھی۔
ہیلو گرینی! سٹیوو نے مصافحہ کرتے  ہوئے ایک چھوٹا سا بوکے ان کی جانب بڑھایا ۔ ادھیڑ عمر جینی اس سے کافی خوش دلی سے ملیں اور اپنے پالتو جانور دکھاتی رہیں ، مگر سٹیوو کی نگاہوں کا مرکز  پنجرے میں جھولتا سبز و سرخ طوطا تھا ، وہ کافی دیر تک کھوئے کھوئے سے انداز میں اسے دیکھتا رہا اور پھر گرینی سے اسے مانگ لیا ۔
ہلیپ ، ہیلپ۔ سیو می گرینی ۔۔ جینی   کے کچھ بولنے سے پہلی ہی طوطا چلا اٹھا ۔
سٹیوو نے اچھنبے سے پہلے اس طوطے اور مڑ کر گرینی کو دیکھا ۔
 جینی کے پوپلے منہ پر ایک کھسیانی سی ہنسی آئی، یہ یونہی بولتا رہتا ہے ۔ سٹیوو تم فکر مت کرو ، تم اسے بہت جلد سپیس مشن کے لیئے ٹرینڈ کر لوگے اور مجھے پوری امید ہے کہ اگر یہ وہاں سروائیو کر گیا تو تمہارا بہت اچھا ساتھی ثابت ہوگا ۔بڑی بی کو ڈر تھا کہ سٹیوو کہیں خالی ہاتھ ہی واپس نہ چلا جائے ، ان کے پالتو جانوروں میں سے کوئی سپیس میں جائے یہ تو کبھی انہوں نے خواب میں بھی نہ سوچا تھا ۔اگلے روز اپنے اپارٹمنٹ میں ناشتہ کرتے ہوئے سٹیوو نے  "کیک " نامی اس طوطے کو پنجرے سے نکال کر  بریڈ کرمبز دیئے تو وہ کچھ دیر تک اپنی  چھوٹی چھوٹی آنکھوں سے اسے غصے سے گھورتا رہا ۔
تمہیں گرینی سے میرے مینو کے بارے میں معلومات لینے چاہیے ۔ کیک  نے کرمبز کی طرف ایک نظر بھی نہ ڈالی تھی
اوہ شٹ۔ سٹیوو نے بے اختیار سر پیٹا ۔ چند ہی روز میں سٹیوو کیک کے بارے میں سب کچھ معلوم ہو چکا تھا ، وہ خاصہ اڑیل اور نخریلہ طوطا تھا جسے سپیس سے ذرا بھی دلچسپی نہ تھی یہ بھی خوب رہے گی کیک ۔ مجھے ایگو  اور ایٹیٹیوڈ والے ذہین لوگ پسند ہیں ، میں پر امید ہوں کہ مارس پر ہمارا اچھا وقت گزرے گا ۔

www.meltedtruths.com 





بلا آخر وہ دن بھی آیا جب طویل سفر کے بعد انکی سپیس شپ نے سرخ سیارے کی پتھریلی اور نا ہموار زمین کا چھوا۔ ناسا کے ہیڈ کوارٹر میں اس وقت جشن کا سماں تھا ، اور خود سٹیوو بھی حد سے زیادہ ایکسائیٹڈ تھا ، مگر  کیک ان سب ہنگاموں سے لا تعلق بد دل سا منہ پھلائے بیٹھا تھا ۔
کیا تمہیں یقین ہے کہ ہم  واقعی ایک نئی تا ریخ رقم کرنے جا رہے ہیں ؟؟  کیک  اپنی پتلی سی آواز میں بڑ بڑایا۔
 ہم تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں کیک ، جلد ہی تم بھی مارس پر قدم رکھنے والے پہلے پیٹ کی حیثیت سے دنیا بھر  میں خبروں کا مرکز ہوگے ۔
پلیز سٹیوو تم اپنی تصحیح کر لو ، میں ایک پرندہ ہوں اور میں چلنے سے زیادہ اڑنا پسند کرتا ہوں ، ہونہہ
نو مائی ڈیئر کیک !  تم اس بھاری بھرکم ایسٹراناٹ کاسٹیوم کے ساتھ کسی صورت بھی نہیں اڑ سکتے اور مارس کی جو آب و ہوا ہے اس میں تو  بلکل ممکن نہیں ۔
تو پھر تم اکیلے جا سکتے ہو ، مجھے تمہارے ساتھ چلنے کا کوئی شوق نہیں ، پلیز مجھے لیپ ٹاپ پر کوئی انڈین مووی لگا دو ۔
سٹیوو نے نظر بھر کر کیک کو دیکھا ۔ تیرا تو باپ بھی جائےگا بیٹا ، ہم اتنی دور سے تجھے انڈین موویز دکھانے کے لیئے لائے ہیں کیا ۔
بہت زور زبردستی کے بعدسٹیوو کیک کو کاسٹیوم پہنا کر شٹل سے باہر لانے میں کامیاب ہوا ، تاکہ اسکی کچھ تصویریں بنا کر ناسا کو ریفر کر سکے ، مگر وہ بھی پورا اڑیل ٹٹو تھا ، ہل کر ہی نہ دیتا تھا،  چارو نا چار سٹیو ، کیک کو اس کے حال پر چھوڑ کر پتھروں  کے سیمپلز جمع کرنے لگا ۔
کچھ دیر بعد اس نے مڑ کر دیکھا ، کیک وہاں موجود نہیں تھا ، وہ کافی فاصلے پر ایک پتھریلی چٹان کی اوٹ میں کھڑا  ایک جانب بہت غور سے تک رہا تھا ۔ سٹیوو نے اسکی نگاہوں کا تعاقب کیا تو چند لمحوں کے لیئے اس کا ذہن ماؤف اور خون خشک ہو گیا ۔ کیک سے کچھ فاصلے پر نیم اندھیرے میں  بڑی بڑی سرخ آنکھوں والی ایک مخلوق کھڑی تھی۔ یکدم سٹیوو کی نگاہوں کے سامنے جھماکا سا ہوا ، یہ ہو  بہ ہو وہی مخلوق تھی جو برسوں پہلے اس نے سپر مون کی رات دیکھی تھی ۔
سٹیوو نے پھرتی کے ساتھ چٹان کی آڑ لیکر اپنے جدید ترین ڈیجیٹل کیمرے کو متحرک کرتے ہوئے اس  مخلوق کی چند تصاویر لیں جو ، اب کیک کے مزید قریب آچکی تھی اور دور سے دیکھنے میں یوں لگتا تھا کہ وہ دونوں آپس میں محوِ گفتگو تھے۔
 پھر یہ روز کا معمول بن گیا وہ  پیروٹ نما محلوق روز ہی آنے لگی اور کیک صاحب بھی اب  کشاں کشاں  باہر جایا کرتے تھے، سٹیوو سامنے جانے کے بجائے پہلے روز کی طرح چھپ کر انکی ویڈیوز اور پکچرز بناتا رہا ، مگر ناسا  کو ریفر کرنے کے بجائےوہ اپنے پاس سیو کرتا گیا ۔
چھ ماہ بعد مشن کی کامیاب تکمیل کے بعد جب وہ زمین پر واپس لوٹے تو انکا پرتپاک استقبال کیا گیا ، کیک ،سب کی توجہ کا مرکز تھا ، جو زندہ سلامت مارس سے واپس آگیا تھا ، مگر وہ کافی بجھا بجھا سا تھا ۔ شاید ایلین پیروٹ سے بچھڑنے کا غم ستا رہا تھا۔پھر دو روز  بعدمکمل تنہائی میں سٹیوو نے جوناتھن  کو ایلین پیروٹ کی ساری کہانی سناتے ہوئے ، اسکی تصاویر اور ویڈیوز کی فائل اوپن کی ، اس سے کہیں زیادہ جونی ایکسائیٹڈ تھا ۔
مگر یہ کیا وہاں تو صرف کیک تھا ، وہ پوری فائل کھنگالتا گیا ، مگر یوں لگتا تھا کہ ایلین پیروٹ  کا ایک ایک نقش اس سے مٹا دیا گیا تھا ۔ جوناتھن نے اچھنبے سے سٹیوو کو دیکھا ، وہ ناسا  کا ایک بے انتہاء قابل اور ذہین  ایسٹراناٹ تھا ، وہ اس سے کسی مذاق یاحماقت کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا ۔
میں کیک سے پوچھنا چاہونگا ، بلاآخر جوناتھن نے فیصلہ صادر کیا ۔
ہاں ۔ کیک تم جونی کو اس ایلین پیروٹ کے بارے میں بتاؤ  جس سے مارس پر تم روز  ملنے جاتے تھے ، سٹیوو کی آواز بہت پر جوش تھی ۔کیک چند لمحوں تک اپنے مخصوص غصیلے انداز سے سٹیوو کو گھورتا رہا ۔
میں کسی ایلین کو نہیں جانتا ۔ میں تمہیں سیو ( قانونی چارہ جوئی) کرنے کا حق رکھتا ہوں ، تم ایک  بے انتہاء شریف طوطے پر  آوارہ گردی کا  الزام لگا رہے ہو وہ بھی مارس جیسے بکواس پلینٹ اور کسی سڑی ہوئی ایلین پیروٹ  کے ساتھ ڈیٹنگ کا ۔
جوناتھن نے ایک نظر سٹیوو پر ڈال کر بے اختیار اونچا قہقہہ لگایا ، مارے خفت کے سٹیوو کا چہرہ لال بھبوکاہو گیا تھا ۔خیر جو بھی رہا ہو، جو بھی ہوا ہو ، مجھے یقین ہے کہ مارس پر کیک کے ساتھ تمہارا وقت بہت اچھا گزرا ہوگا ، میں چاہونگا کہ اگلے مشن پر بھی یہی تمہارا ہم سفر ہو ۔!
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭



Share on Google Plus

About Unknown

0 comments:

Post a Comment