WELCOME TO MELTED TRUTHS

All Truths are easy to understand once they are discovered;the point is to discover them.(Galileo Galilei)

"دریچہ" چھٹی قسط The Valve





"دریچہ"

"A Novel Based on Artificial Intelligence"




"چھٹی قسط"



التمش کے کام کی نوعیت ایسی تھی جب وہ ایک دفعہ اپنی روبوٹ لیبارٹری میں جاتاتو پھر اسکی واپسی اگلے روز ہی ہوتی ، اکثر وہ آفس سے آکر رات گئے تک وہیں مصروف رہتا۔گزشتہ ڈھائی سال سے وہ بوسٹن ڈائنامکس سے ہی وابستہ تھا ، روبوٹس میں فیشل ری آگنیشن کے جس پراجیکٹ کے لیئے اسے ہائر کیا گیا تھا اس پر تاحال ریسرچ جاری تھی اور انہیں مکمل طور پر تو نہیں مگر کسی حد تک کامیابی ضرور حاصل ہو ئی تھی۔ اسی سلسلے میں اسے کثر اوقات کانفرنسز اور سیمینارز میں شرکت کرنے کےلیئے دوسرے ممالک جانا ہوتا تھا ، جب وہ اکیلا تھا تو  کہیں آنا جانا کوئی مسئلہ ہی نہ تھا دن رات اس کے اپنے تھے ، مگر صفہ کے  اسکی زندگی میں آجانے کے بعد روٹین تبدیل ہوئی تھی ، وہ اکیلی  رہنے سے ڈرتی تھی۔پہلی دفعہ شادی کے چھ ماہ بعد اسے ایک سیمینار کے لئے سڈنی جانا تھا ، صفہ  ایک ماہ پہلے ہی  یو سی برکلے میں ایڈمیشن لے چکی تھی ، مگر اب بھی وہ اتنی بہادر نہیں ہوئی تھی کہ ایک ہفتہ اکیلی گھر میں رہ  لے۔
 کن خیالوں میں گم ہو ؟ معید نے التمش کی آنکھوں کے آگے ہاتھ لہرایا، تو وہ  چونکا ۔ معیدگزشتہ ایک برس سے بوسٹن ڈائنامکس میں اس کے ساتھ ہی تھا ۔
خیر ہے نہ ، کہیں بھابھی سے لڑائی تو نہیں ہو گئی ؟
 التمش نے پشت چیئر کی سے ٹکا کر ایک نظر معید پر ڈالی۔ وہ عام لڑکی ، گھریلو بیوی نہیں ہے ، جو چھوٹی چھوٹی باتوں کو مسئلہ بنا کر منہ پھلائے، وہ التمش خان کی چوائس ہے ، سو وہ اچھی طرح جانتی ہے کہ اسے میرے معیار کے مطابق خود کو کیسے ڈھالناہے ، ہمارے درمیان ابھی تک  عام میاں بیوی کی طرح جھگڑے یا روٹھ راٹھ نہیں ہوئی ۔
اوہ آئی سی۔بڑا چھپا رستم نکلا تو ۔ کب سے چل رہا تھا یہ چکر ۔؟ جو نوبت یہاں تک آگئی کہ ابھی شادی کی ابتدا ہی ہے اور دونوں حضرات ایک دوسرے کو پوری طرح  جان چکے ہیں ۔معید نے حسبِ عادت شوشا چھوڑا
جسٹ شٹ اپ معید ۔ ہمارے درمیان ایسا کوئی تعلق نہیں تھا  بے شک صفہ کئی برس سے میرے ہی گھر میں رہتی تھی ، ہم ساتھ کھاتے پیتے ، ہنستے بولتے۔  کھیلتے رہے ، میں اسے پڑھاتا بھی تھا ، مگر ہمارے درمیان کوئی افیئر ہر گز نہیں تھا ۔ صفہ تومیری پسندیدگی سے بھی واقف نہ تھی ۔
اہم ۔ اہم ۔ اہم ۔  معید شرارت سے کھنکارا ۔  یعنی تم معید ظفر کے سامنے آفیشلی اقرار کرتے ہو کہ صفہ جمال خان تمہیں شادی سے پہلے سے پسند تھی ؟
یس۔ آئی ایم آفیشلی ایکسیپٹڈ۔ صفہ میرا اپنا انتخاب تھی مگر مجھے تمہاری طرح کوئی دھواں دھار قسم کا عشق ہر گز نہیں تھا ۔ میری ہمیشہ سے یہی سوچ رہی ہے کہ اگر آپ خود کو اتنا سمجھ دار  اور با شعور سمجھتے ہیں کہ اپنے فیصلے پوری ذمہ داری کے ساتھ کر سکتے ہیں اور ان کے اچھے یا برے نتائج کو  دل سے قبول کرنے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں تو اپنے لیئے شریکِ حیات کے انتخاب میں آپ  آزاد ہیں ۔ بصورتِ دیگر  فیصلہ والدین  پر چھوڑ دیجیئے اور یہ یقین رکھیے  کہ انکا تجربہ آپ کے لیئے بہترین ساتھی کا انتخاب کریگا ۔
 کسی حد تک میں تمہاری بات سے متفق ہوں لیکن جب بندہ چوائس اپنے ہاتھ میں لیتا ہے تو لازمی اسے سامنے والے کو سمجھنے اور پرکھنے کے لیئےوقت چاہئے ہوتا ہے، جب تک شادی سے پہلے کے کانٹیکٹ کے خلاف ہو ، تو پھر کہیں خوابوں میں تو ملاقاتیں ہونے سے رہیں ۔
 معید ڈیئر ! کسی کو اپنے معیارپر پرکھنے اور سمجھنے کے لیئےدن رات کی کالز، ای میلز یا آئے روز کی ملاقاتوں کی ہر گز ضرورت نہیں ہوتی۔ اگروہ آپ کے خاندان سے ہے تو مہینہ سوا مہینہ میں کسی نہ کسی بہانے ملاقات ہو ہی جاتی ہے ، ورنہ پھر کسی ڈیسنٹ طریقے سے ملاقات کاموقع ڈھونڈاجاسکتا ہے ، اگر وہ آپکی یونیورسٹی، کالج فیلو  ، یا آفس کولیگ ہے تو پھر روز کی ملاقات لازمی ہے۔ لیکن اس میں بھی معاشرتی اور اخلاقی حدود کا خیال رکھتے ہوئے آگے پیش قدمی کی جائے تب ہی صحیح رہتا ہے۔ بات اس وقت بگڑتی ہے  جب آپ وقت سے پہلے ایک دوسرے کو  حد سے زیادہ جان لیتے ہیں، اور آج کل کی نسل کا جو حال ہے  وہ تم بھی جانتے ہوانکا دل بھرتے دیر ہی کتنی لگتی ہے ۔ یوں یہ تعلق کسی انجام کو پہنچنے کے بجائے راہ کی بھول بھلیوں میں گم ہو کر محض دل کی خلش بن جاتا ہے۔
 ہم۔۔ یہ تو ہے۔ اسی لیئے اب اچھے لڑکوں کی طرح میں نے انتخاب اب ماما پر چھوڑ دیا ہے اور وہ آج کل  یہیں امریکہ میں مقیم رشتہ داروں میں ما بدولت کے لیئے کوئی چاند سی لڑکی ڈھونڈنے میں مصروف ہیں۔
ڈ یٹس گڈ۔ اس کا مطلب ہے کہ اب تم میچور ہوتے جا رہے ہو ؟؟
 بس ذرا نوازی ہے حضور کی ۔ آپ کے یہ طویل لیکچرزمیرے دماغ کی بنجر زمین پرچند کیکٹس اگانے میں کامیاب ہو ہی گئے ہیں ۔
نا ۔ نا۔ نا ۔  التمش اپنی سیٹ سے اٹھ کر معید کے قریب گیا  اور  جھک کر اسے کندھوں سے تھاما ۔ میرے لیکچرز کبھی بھی  کیکٹس نہیں اگاتے۔ تم دیکھو گے کہ جلد ہی آنٹی کی منتخب کی ہوئی ایک بہت پیاری سی لڑکی  تمہاری زندگی میں آکر محبت کےدلفریب پھول کھلائے گیاور تب ہی تم محبت کے اصل مفہوم سے آشنا ہو سکو گے۔ التمش نے اپنے جگری یار کے لیئے خلوص ِ دل سے نیک خواہشات کا اظہار کیا ۔ دونوں کچھ دیر تک ایک دوسرے کی آنکھوں میں جھانکتے رہے جہاں سچی دوستی کے اصل رنگ قوس و قزح بکھیرے ہوئے تھے۔
اچھا  چلو اب ہٹو ۔ مجھے سیمینار کے لیئے اپنے لیکچر کو  فائنل ٹچز دینے ہیں ۔التمش نے معید کو پرے دکھیلا ۔ تو وہ بھی جانے کے لیئے اٹھ کھڑا ہوا ۔ پھر گلاس ڈور تک پہنچ کر واپس پلٹا۔
یار۔ تو بھابھی کو کیا اکیلا چھوڑ کر جائے گا ؟
التمش بے اختیار چونکا  ،ارے یار ۔ باتوں باتوں میں اصل مسئلہ تو دماغ ہی سے نکل گیا ۔ ابھی صفہ اکیلی نہیں رہ پائیگی ، اسی سوچ میں لگا تھا ، کچھ نہ کچھ انتطام کرنا ہوگا ۔
 نو پرابلم۔ معید نے ٹیبل تک آکر چٹکی بجائی ۔ تم بھابھی کو مما کے پاس چھوڑ دو ، وہ آجکل سارا دن سعد بھائی کی ننھی گوگو کے ساتھ لگی رہتی ہیں ، اچھا ہے انکو بھی کمپنی مل جائیگی اور بھابھی  بھی ان کے پاس آرام سے رہ لیں گی ، باقی ہر طرح کی کیئرکے لیئے یہ بندہ ہر وقت حاضر ہے ، معید نے سینے پر ہاتھ رکھ کر باقاعدہ تعظیم دی ۔
تھینکس اے لاٹ یار ۔
یو آر ایور ویلکم سویٹ ہارٹ۔  معید نے آنکھ مار کر ایک فلائنگ کس اچھالی اور دروازے کے پیچھے غائب ہوتا چلا گیا ، التمش نے سر جھٹک کر دوبارہ سے اپنا کام شروع کیا  ۔ سر سے ایک بھاری بوجھ اتر گیا تھا یہ روبوٹکس میں فیشل ری آگنیشن سے متعلق ایک انڈسٹریل سیمینار تھا، جس کا مقصد انڈسٹریز کے لیئے ایسے روبوٹس کی راہ ہموار کرنا تھا جن کا سسٹم اور پروگرامنگ  مخصوص نہ ہو ں بلکہ  ان کی  از خود فیصلہ کرنے کی صلاحیت کو مزید بڑھایا جا سکے۔دنیا بھر سے سوفٹ ویئر انجینئرز اور آرٹیفیشل انٹیلی جینس  کے ماہرین اس سیمینار میں شرکت کرنے آرہے تھے، سو التمش اس کی بھرپور تیاریوں  میں اس قدر مگن تھا کہ اسے جانے سے دو دن پہلے خیال آیا تھا کہ صفہ  اکیلی نہیں رہ سکے گی ، وہ آہستہ آہستہ خود کو یہاں کے ماحول سے ہم آہنگ کرتی جا رہی تھی ، گھر کا سودہ سلف وہ دونوں مل کر ساتھ لایا کرتا تھے۔ ہفتہ دس  دن میں التمش تھوڑا ٹائم نکالتا تو یوں  شاپنگ کے بہانے انکی کچھ تفریح بھی ہوجاتی ۔
ن   کے پاس چھوڑ دو ، وہ آجکل   سولہ برس تک سوات کے ایک چھوٹے سے متعفن گھر اور دیمک ذدہ ما حول  میں پرورش پانے والی اس لڑکی کی زندگی میں یوں انقلاب آیا تھا کہ اب جب کبھی وہ تنہائی میں ماضی کی راکھ کریدتی  تھی تو خود بھی حیرت ذدہ رہ جاتی تھی ۔ یہ یقیناََ  اس کی مجبور لا چار ماں کی دعائیں تھیں جن کی بدولت وہ آج نا صرف ایک پر آسائش اور بے فکر زندگی گزار رہی تھی بلکہ ایک بے انتہاء چاہنے والے وفا پرست شوہر کی محبوب بیوی بھی تھی ۔" اتنی ڈھیر ساری خوشیاں ، راحتوں اور نعمتوں کو پاکر بھی نا اسکی چال میں کوئی فرق آیا تھا ، نا گردن  میں اکڑ۔ کیونکہ وہ اس حقیقت سے آگاہ تھی کہ وقت نے اگرآج اسے تختے سے تاج بخشا ہے تو کل یہی وقت اسے آسمان سے زمین پر لا پٹخنے میں دیر نہیں  لگائیگا ۔ عقل مند وہی ہے جو راحتوں کو پاکر اپنی اوقات نہ بھولےاور انسان کی اوقات کیا ہے؟"
"وہ اسی مٹی سے تشکیل پاتا ہے اور اپنا عرصۂ حیات مکمل کرکے اسی مٹی میں فنا ہوجاتا ہے، باقی رہ جاتی ہیں تو اسکی یادیں، باتیں اور اس کے نیک اعمال ۔"

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭




التمش کو سڈنی گئے ہوئے دوسرا روز تھا ، صفہ یونیورسٹی سے معید کے گھر پہنچی ہی تھی کہ اسے التمش کی کال موصول ہوئی۔ہیلو صفہ۔ تم کہاں ہو ؟ وہ بہت جلدی میں تھا
ہیلو آپ کیسے ہیں ؟  سب ٹھیک ہے نا ۔ صفہ کو اسکی فکر لگی تھی
یس ۔ میں ٹھیک ہوں ، تمہیں فوری طور پر گھر پہنچنا ہے، وہاں سیکرٹ کبینٹ سے تمہیں میری  دراز کی چابیاں ملیں گی ، اس میں بلیو کلر کی ایک کانٹیکٹ ڈائری ہوگی، جب تم وہ نکال لو تو مجھے اسے نمبر پر  کال کرنا ، ہری اپ۔
صفہ ہیلو ہیلو کرتی رہ گئی مگردوسری طرف التمش کال کاٹ چکا تھا ۔ صفہ کا دل بجھا ۔ دو دن بعد کال کی تھی اور خیریت تک نہیں پوچھی بس اپنے کام کی پڑی رہتی ہے ۔ اسکا دل بجھا  بجھا سا تھا ، مگر فوراََ حکم کی تعمیل بھی ضروری تھی ۔ گھر پہنچتے تک وہ سارا راستہ یونہی دل مسوستی اور کڑھتی رہی۔ مگر اب تک وہ التمش کو اتنا تو جان ہی چکی تھی کہ اپنے کاموں میں مصروف ہو کر وہ جتنی بھی لاتعلقی ظاہر کرے ، فرصت ملتے ہی وہ بھرپور طریقے سے اپنے ہر رویئے کی تلافی کر دیتا تھا ۔
گھر پہنچ کر مطلوبہ ڈائری نکال کر اس نے لینڈ لائن نمبر سے کال کی تو فوراََ ہی ریسیو کرلی گئی، وہ شاید انتظار میں ہی تھا۔
التمش کو کسی "نیکولہ کیبیبو" نامی شخص کا  کانٹیکٹ نمبر اور ایڈریس درکار تھا
کال بند کر کے صفہ ڈائری واپس ڈالنے التمش کی رو بوٹ لیبارٹری واپس آئی ،  تو ایک طائرانہ نظر ہر شے پر ڈالی ، یہاں وہ ہمیشہ اسکی موجودگی میں  ٹی، کافی یا کام کے دوران ہلکا پھلکا کھانا  دینے ہی آیا کرتی تھی ۔ ہر چیز بہت قرینے سے سیٹ کی گئی تھی ۔ ماشاءاللہ۔  شوہرِ نامدار ہیں تو بہت سگھڑ ، اس نے دل ہی دل میں داد تھی، پھر ہاتھ میں پکڑی ڈائری دراز میں واپس ڈالنا چاہی تو ایک لمحے کے لیئے اس کے ہاتھ تھمے، نیچے ایک  سبز رنگ کی خوبصورت سی ڈائری پر سنہری روشنائی سے بڑے حروف میں کندہ تھا "  یادوں کا خزانہ
اگرچہ یہ ایک چیپ حرکت تھی مگر التمش کی ذات  اب تک صفہ کے لیئے ایک معمہ تھی سو تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر  وہیں   کمپیوٹر چیئر پر بیٹھ کر صفہ ڈائری کے ورق الٹتی گئی۔ التمش کی یونیورسٹی کی تصاویر کے ساتھ  بہت سے یادگارواقعات درج تھے، آگے تیمور خان، گل بی بی اور افراسیاب کی ساتھ گزارے  محبت بھرے یاد گار لمحات، صفہ دلکش مسکراہٹ کےساتھ اپنے محبوب شوہر کے کمال اندازِ بیاں سے لطف اندوز ہوتی گئی، وہ اردو بھی اتنی اچھی لکھ لیتا تھا ۔پھر ایک صفحے پر صفہ کی نگاہیں ٹہریں اور دیر تک ٹہری رہیں ۔" صفہ کی آمد "۔۔
نیچے سے آتی متواتر بجتی ڈور بیل کی آواز صفہ کو خیالات کی دنیا سے کھینچ کر  حقیقت میں واپس لائی تو اسے وقت گزرنے کا احساس ہوا ، رات ہو چکی تھی  ۔تیزی سے روم لاک کرتے ہوئے وہ نیچے لپکی مگر افرا تفری میں بھی وہ ڈائری اپنے بیگ میں ڈالنا نہیں بھولی تھی۔۔ دروازے پر معید تھا جو اسے  رات ہو جانے کی وجہ سے  واپس لینے آیا تھا۔رات بستر میں گھس کر  صفہ نے ایک نظر دو سالہ گوگو پر ڈالی ، وہ بے خبر سو رہی تھی ، صفہ کی رہائش کا عارضی انتطام گو گو (غمامہ) کے کڈز روم میں کیا گیا تھا۔صفہ نے بہت آہستگی سے ٹیبل لیمپ آن کر کے ڈائری وہیں سے کھولی جہاں سے  بند کی تھی ، التمش کے جمال خان کے ہاتھوں اغواء سے لیکر ان کی دوستی اور گھل مل جانے تک بہت سے واقعات بہت دل نشین انداز میں یوں لکھے گئے تھے جیسے وہ اس ڈائری کے ساتھ اپنے احساسات شئیر کرتا رہا ہو ، اسے پڑھاتے ہوئے وہ کس طرح اسکی ذہانت اور صلاحیتوں کو جج کرتا رہا ۔۔
 مگر صفہ کی سوئی تو اس کے اغواء کے واقعے پر ہی اٹکی رہ گئی تھی ، رات کا آخری پہر تھا اور صفہ  کندھوں تک کمبل لپیٹے، گھٹنوں میں سر دیئے  خاموشی سے آنسو بہاتی رہی،  بس سناٹے میں اس کی دبی دبی سسکیاں گونجتی تھی ۔سارے سوئے زخم ،برسوں کے دبے ناسور ایک ساتھ جاگ اٹھے تھےاور درد کی شدت اسے ادھ موا کیئے دے رہی تھی ۔ اس کے باپ بھائی بے غیرت تو تھے ہی مگر انکا خون اس قدر سفید ہو چکا تھا یہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا ۔ اب وہ کیونکر تیمور چاچا اورخود التمش کا سامنا کر پائیگی، شرمندگی اور  ندامت سے وہ زمین میں گڑی جاتی تھی۔
ساتویں روز جب التمش سڈنی سےواپس آیا، تب تک صفہ خود کو بہت حد تک سنبھال چکی تھی مگر اس کی بجھی بجھی نگاہوں کی جوت التمش سے کیونکر چھپی رہ سکتی تھی۔
 رات وہ بیڈ پر دراز آرام کے موڈ میں تھا ، صفہ اسے کافی دیکر پلٹی تو التش نے نرمی سے اسکا ہاتھ تھام کر اپنے پاس بٹھایا۔ لگتا ہے تم نے مجھے کچھ زیادہ ہی مس کیا ہے، اسکی گہری عار پار گزر جانے والی نگاہیں صفہ کے وجود کا احاطہ کیئے ہوئے تھیں ، یہ اس قدر مضبوط حصار تھا کہ اسے توڑ کر نکل  بھاگنا کسی طور ممکن ہی نہ تھا ۔
التمش نے تھوڑی تلے ہاتھ رکھ کر  بہت محبت سے اس  کا جھکا چہرہ اوپر اٹھایا ، مگر یہ کیا وہاں تو  بن موسم برسات  برسنے کو تلی بیٹھی تھی، گذشتہ تین چار روز کے رکے آنسو ، التمش کے سینے سے لگتے ہی یوں سارے بند توڑ کر بہے تھے کہ اسے صفہ کو
چپ کرانا مشکل ہو گیا ، اسے یہ جاننے میں لمحے بھی نہیں لگے تھے کہ صفہ صرف اسکی جدائی سے اپ سیٹ نہیں تھی، کوئی اور بات تھی جس نے اسے یوں مضطرب کیا تھا، مگر  کریدنے کے بجائے وہ  اسے نارمل کر کے سلانے کی کوشش کرتا رہا ، تھوڑی ہی دیر میں وہ گہری نیند کی وادیوں میں تھی، التمش نے اس کے بال سنوار کر لیمپ آف کیا اور اوپر اپنی روبوٹ لیبارٹری چلا آیا ۔
سب کچھ ویسا ہی تھا جیسا وہ چھوڑ کر گیا تھا ، کسی احساس کے تحت التمش نے اپنی  خفیہ دراز کھولی،  اور پھر اس جیسے زیرک اور ذہین بندے کو یہ سمجھنے میں بس ایک لمحہ لگا تھاکہ صفہ نے اسکی ڈائری نکال کر پڑھی تھی،  التمش نے سختی سے آنکھیں بھینچ کر اپنی گیلی شرٹ کو دیکھا  جو صفہ کے آنسوؤں سے تر تھی۔ وہ  صرف دکھی نہیں تھی ، یہ شرمندگی اورندامت کے آنسو تھے ،وہ خودکو اسکا مجرم سمجھ رہی تھی۔
خیر صفہ بی بی سے تو نمٹ کیا جائیگا ،  وہ آدھی رات کو یہاں اپنی لیبارٹری میں صفہ کو کھوجنے نہیں آیا تھا ، اسے اپنی ای میل چیک کرنی تھیں اور اس کی توقع کے عین مطابق  اس کے ان باکس میں نکولا کیبیبو کی دو  میلز موجود تھی  ۔" ہیومنائڈ روبوٹ"
روبوٹکس میں ایک بلکل نیا اور اچھوتا تصور تھا، یعنی انسانوں سے مشابہہ ایسے روبوٹس جو  انہی کی طرح  ہیومن فیشل کو ریپلیکیٹ بھی کر سکے۔

So here is my new challenge “Humanoid robot”.
    التمش نے قدرے جوش سے بڑبڑاتے ہوئے ای میل کھولی ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭






 یوشع نے گلاس ونڈو سے باہر برستی موسلا دھار بارش کو دیکھا اور پھر اپنی رسٹ واچ کو ، اس کے چہرے پر کوفت تھی ، اسے یہاں کافی شاپ پر کسی نے ملاقات کے لیئے بلایا تھا مگر آدھے گھنٹے سے اوپر ہو چکا تھا ، مہمان موجود تھا مگر میزبان خود ہی غائب تھا۔ کافی کا آخری سپ لیکر وہ اپنا  برساتی کوٹ اٹھا کر  جانے کے لیئے اٹھا ہی تھا کہ کسی سے ٹکراتے ٹکراتے بچا، وہ جو کوئی بھی تھا  اپنی دھن میں بہت تیزی سے اسی کی جانب آرہا تھا ۔یوشع سنبھلتے ہوئے  پیچھے ہٹا تو مخالف نے مصافحہ کے لیئےاسکی جانب ہاتھ بڑھایا ۔
ہینس جیسن، گلیڈ ٹو میٹ یو ۔
یوشع خان، اس کےانداز میں بلکل بھی گرمجوشی نہ تھی ، وہ کم عمر ضرور تھا مگر  نا سمجھ ہر گز نہیں ، اس نے اپنے بچپن کے دس برس اسی سر زمین پر گزارے تھے، وہ جانتا تھا کہ  پہلی ملاقات میں امریکی کتنی ہی اخلاقیات و گرم جو شی کامظاہرہ کریں اگلی یا مزید چند ملاقاتوں کے بعد ان کے اندر کا کینہ اور مفاد سامنے آہی جاتا ہے
ہینس نے ویٹر کو اشارہ کرتے ہوئے یوشع کی جانب سوالیہ انداز میں دیکھا ، نو تھینکس ۔ میں کافی پی چکا ہوں، تم پہلے ہی آدھا گھنٹہ لیٹ آئے ہو ، سوتم اس کافی سیشن کو چھوڑو اور پلیزبراہِ راست اس مقصد پر آؤ جس کے لیئے تم نے مجھے یہاں بلایا ہے۔
یوشع کی آواز میں اب کے قدرے بیزاری تھی ۔
ہینس نے اس کے لہجے کی سرد مہری نوٹ کرتے ہوئے ایک گہری نظر اس  کم عمر لڑکے پر ڈالی ذہانت جس کی آنکھوں سے چھلکی پڑتی تھی، ہمارا انتخاب کبھی غلط نہیں ہوتا ، ہینس زیرِ لب بڑ بڑایا۔
ایکچولی تیز بارش کی وجہ سےمجھے پہنچنے میں دیر ہوئی ، میں امید کرتا ہوں کہ تمہیں زیادہ کوفت نہیں ہوئی ہوگی ۔
اٹس اوکے، یوشع   خود کو کچھ مضطرب محسوس کر رہا تھا ،دو جینیئس افرادمدِ مقابل تھے، آنکھوں میں آنکھیں ڈا لے ایک دوسرے کو جانچ رہے تھے ، اور یوشع کی ساتویں اسے قبل از وقت کسی خطرے سے آگاہ کر رہی تھی ، وہ جلد سے جلد اس منحوس آدمی کے پاس سے بھاگ جانا چاہتا تھا ۔
ایسا ہے کہ تم میرے لیئے اجنبی نہیں ، میں تمہیں کئی برسوں سے کیچ کرتا رہا ہوں ، ہینس نے محتاط الفاظ میں بساط بچھانا شروع کی۔
آئی نو دیٹ ویری  ویل۔ تم گذشتہ تین برس سے ٹویٹر پر میرے فولوورز میں ہو ،اور یقینا ََ میرے بارے میں ہر طرح کی بھرپور معلومات رکھتے ہوگے۔ان فارمل باتوں کی بجائے کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ تم کام کی بات کرو ۔ یوشع کا لہجہ برف تھا۔ہینس کے لبوں پر بے اختیارمسکراہٹ آئی جس میں مکاری اب بھی عیاں تھی، تم سٹریٹ فارورڈ ہومجھے ایسے ہی لوگ پسند ہیں ۔ ایکچولی میں گوگل ایکس لیب کا ایک اہم ورکر ہوں اور مجھے تم سے ملاقات کے لیئے بھیجا گیا ہے، ہم ایکس لیب کے ایک پراجیکٹ کے لیئے تمہاری سروسز ہائر کرنا چاہتے ہیں۔
کس طرح کا پراجیکٹ۔؟
 یہ معلومات تمہیں قبل از وقت نہیں دی جاسکتیں ، سب کچھ  اس وقت آفیشل طریقے سے ہوگا جب تم ہمیں رجامندی دو گے ، ہینس کی تیز سفاک نگاہیں یوشع کے چہرے کا احاطہ کیئے ہوئے تھیں مگر اسے بھی اپنے تاثرات چھپانے میں ملکہ حاصل تھا ۔
ابھی تم نے خود اعتراف کیا تھا کہ تم میرے بارے میں مکمل معلومات رکھتے ہو تو ، آئی ایم شیور کہ یہ بھی جانتے ہوگے کہ پاکستان میں  میری سٹڈیز ابھی مکمل نہیں ہوئی ہیں اور سیکنڈلی میں ابھی گوگل کا ہی رینک برین پراجیکٹ اپنی اگلی اسائنمنٹ کے طور پر سائن کر چکا ہوں ۔
یس۔ آئی نو آل ڈیٹ ، مگر شاید تم یہ نہیں جانتے کہ ایکس لیب کے پراجیکٹ کتنے بڑے ، اہم اور خفیہ ہوتے ہیں ، جن کے بارے میں عموماََ چیف ایگزیکٹو کو بھی پوری معلومات نہیں ہوتیں ۔ ہینس ایک ایک کر کے کسی شاطر کھلاڑی کی طرح اپنے   پتے پھینک رہاتھا




مجھے سب معلوم ہے، اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ گوگل ایکس لیب  کی اصل لوکیشن تک کے بارے میں  گنتی کے افراد ہی جانتے ہیں اور میں ا س کے پراجیکٹس کی نوعیت کا بھی اندازہ کر سکتا ہوں ، یوشع اپنی جگہ بے حد محتاط تھا ۔تو کیا تم رینک برین کے  بجائے اس سے بھی بڑے اور خفیہ پراجیکٹ کا حصہ بننا پسند نہیں کروگے جس سے نا صرف تمہاری صلاحیتیں کھل کر سامنے آئیں گی بلکہ تم بہت جلد دولت میں کھیل رہے ہوگے ، ہینس نے بہت جلد اپنا نقاب اتار دیا تھا۔
لالچ۔  یو ایڈیٹ۔۔ یوشع نے غصے سے مٹھیاں بھینچیں ۔ اس کا فیصلہ وقت کریگا ، فی الحال تو میں پاکستان واپس جا رہا ہوں ، انتہائی سرد لہجے میں جواب دیتے ہوئے یوشع اٹھ کھڑا ہوا ،وہ مزید  ایک منٹ بھی اس منحوس امریکی کی شکل نہیں دیکھنا چاہتا تھا ۔
ہماری آفر بہرحال تمہارا انتظار کرتی رہے گی ،  یہ ایک بہت بڑا پراجیکٹ ہے جس کو تکمیل تک پہنچنے میں برسوں نہیں عشرے بھی لگ سکتے ہیں ۔ اپنا ہیٹ سر پر درست کرتے ہوئے ہینس یوشع کے برابر سے یوں نکلتا گزرا تھا کہ اس کا کندھا ، یوشع کے کندھے کو چھوا تھا ۔
 اس نے غصے سے پیچھے ہٹ کر ایک ہاتھ کا مکا  بنا کر دوسرے ہاتھ کی ہے ہتھیلی پر زور سے مارا ۔ یو باسٹرڈ  بلیک کیٹ ۔میں تم جیسے کمینوں کے دام میں نہیں آنے والا سمجھے ۔ ہونہہ
یوشع کافی شاپ سے کافی بد دل نکلا  اور یونہی ایک سمت چل پڑا ، بارش اب قدرے  ہو چکی تھی اور سڑکوں پر پہلے کی طرح پیدل چلنے والوں کا تانتا سا بندھا تھا ۔ وہ آس پاس سے گزرتی خلقت، بھانت بھانت کے چہروں کو بلا مقصد تکتا آگے بڑھتا گیا ، کیا وہ واقعی ان جانی راہوں کا مسافر ہونے چلا ہے۔ سوچوں میں گھرا وہ قدم پر قدم بڑھاتا گیا ،  یکدم ٹھوکر لگی تو وہ چونک کر واپس حقیقت کی دنیا میں آیا ۔ سامنے ہی سبزے سے ڈھکا وہ قبرستان تھا  جہاں اس کا باپ محوِ خرام تھا ۔نہیں میری راہ نمائی کرنے والے ابھی موجود ہیں وہ مجھے کبھی نہیں بھٹکنے دینگے، ایک عزم کے ساتھ وہ التمش کی قبر کی جانب بڑھا ، اس کے پاس باپ سے شئیر کرنے کے لیئے بہت کچھ تھا ۔
اگر کوئی اس وقت اسے یوںایک قبر سے باتیں کرتا دیکھ لے تو دیوانہ  سمجھتا ، مگر وہ نہ مجنون تھا نہ دیوانہ ، وہ دنیا کا ایک جینئس ترین نوجوان تھا  جو اپنی صلاحیتوں اور ذہانت کی بدولت  دنیا  کو بدلنے کا متمنی تھا ،  اس دنیا کو تباہی کی جانب یہ کرپٹ سیاستدان بزنس مینزیا دہشت گردنہیں لیکرجا رہےاسے تباہی کے دہانے پر ان شیطان صفت  جینیئس افراد نے پہنچایا ہے جس کہ ذہانت انہیں صرف شر کے راستے دکھاتی ہے ، اور ایسے ہی کئی ملعونوں کی طرف  یوشع خان کا بھی کچھ حساب نکلتا تھا اور اعدادو شمار ، حساب و کتاب کا دفتر اب جلد کھلنے وا لا تھا ۔
" ہاں میں   جانتا ہوں پاپا کہ آپ طبعی موت نہیں مرے تھے ، آپ نے اپنے ایمان اور ضمیر کو ان بے غیرتوں کے ہاتھوں بیچنے سے نکار کر دیا تھا ، یہ خبیث شیطان  آپ کی صلاحیتوں کو استعمال کر کے ایسی ٹیکنالوجیز بنانا چاہتے تھے جو  انسانیت کی تباہی کا مؤجب بن جانی تھیں ، آپ ہر طرح کے دباؤ کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے مگر آپ نے ننگ ِ انسانیت لوگوں کے ہاتھوں اپنی ذہانت کا سودا نہیں کیا ، اور یہ تو مغرب کا ہمیشہ سے چلن رہا ہے کہ سب سے  پہلے وہی آواز ہمیشہ کے لیئے دبائی جاتی ہے جس سے یا تو کام لیا جا چکا ہو  یا وہ کام کا رہا ہی نہ ہو ، سو آپ کو بھی ایک منصوبہ بندی کے تحت موت کی گھاٹ اتار دیا گیا ، دنیا کے لیئے یہ برین کینسر کے ہاتھوں ایک طبعی موت تھی ، مگر میں ، میری ماں ، چا چا اور آپ کے قریبی ساتھی سب ہی جانتے ہیں کہ آپ شہید تھے ، جس کا ثبوت آپ کی قبر سے اٹھتی یہ دلفریب مہک ہے جو اب میرے وجود کا حصہ بن گئی ہے ۔"
پاپا آج ایسا ہی ایک کالا بلا مجھے بھی ملا تھا  اور خطرے کی گھنٹیاں میرے ارد گردبجنے لگی ہیں ، مگر میں ڈرنے والوں میں سے نہیں ہوں ، مجھے چیلنج پسند ہیں میں خطروں سے نمٹنا جانتا ہوں ۔ وہ باپ کی قبر کو الوداعی سلام دیکر تیزی سے قبرستان سےنکلتا چلا گیا تھا ، اسے ہوٹل سے پیک اپ کر کے رات 2 بجے تک ائیر پورٹ پہنچنا تھا ۔
ہلکی سی آہٹ پر یوشع نے ذرا کی ذرا اپنی پی کیپ ہٹا کر دیکھا ، ائیر ہوسٹس کافی اور کولڈرنک سرو کر ہی تھی ، یوشع نے ایک انرجی ڈرنک لیکر کین کھولا ، جہاز ٹیک آف کرنے والا تھا مگر اسے گھر پہنچنے کے لیئے ابھی طویل سفر کرنا تھا ۔
ایک کے بعد دوسرا سفر شروع ہوا ، وہ الجھے ذہن کے ساتھ بس کھڑکی سے باہر تیزی سے گزرتے مناظر کو تکتا رہا ، دن کے تین بجے تھے جب یوشع نے کرنل افراسیاب کے سبز بیلوں سے ڈھکے خوبصورت سے گھر کی ڈور بیل دینے کے لیئے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ یکدم گیٹ ایک جھٹکے سے کھلا اور اس کی توقع کی عین مطابق صفہ بازو وا کیئے اسکی ہی منتظر تھیں۔
وہ ماں کو سنبھالتا ہوا اندر لاؤنج تک لایا تو وہاں گلرخ اور افراسیاب بھی موجود تھے مگر صفہ اسے کسی طور چھوڑنے پر آمادہ ہی نہ تھیں کہ کوئی اور اس سے گلے مل پاتا ۔ افراسیاب نے ایک نظر یوشع کے گرمی سے مضمحل اور تھکے چہرے پر ڈالی۔
 بھابھی اب تو یہ آپ کے پاس آہی گیا ہے نہ پلیز اسے تھوڑی دیر آرام کرنے دیں ، طویل سفر نے تھکا ڈالا ہوگا ۔ افراسیاب نے نرمی سے صفہ کو الگ کرتے ہوئے یوشع کو اشارہ کیا تو وہ  تیزی سے کمرے کی طرف لپکا ۔
صفہ نے کمرے میں آکر اے سی آن کیا تب تک یوشع گھوڑے  گدھے، اونٹ سب کچھ بیچ کر سو چکا تھا ، اسے یقیناََ شدید گرمی نے اَدھ موا کیا تھا ۔صفہ اس کے قریب بیٹھ کر نرمی سے بال سہلاتی رہیں ، پھر کچھ  چونک کر انہوں نےدو تین دفعہ سونگھا ، دلفریب کلون کی  مہک  یوشع کے وجود سے  نکل کر ان کے حواسوں پر چھانے لگی تھی ، اس خوشبو کو وہ لاکھوں میں بھی پہچان سکتی تھیں۔
یوشع کی ساری عادتیں کم و بیش باپ جیسی ہی تھیں مگر وہ ہمیشہ سے بہت تیز پرفیومز استعمال کر نے کا عادی تھا ، یہ مدہم حواسوں کو جکڑتی التمش کی خوشبو تھی ۔صفہ اپنی جگہ گنگ جہاں کی تہاں بیٹھی رہ گئیں۔
"وہ بے خبر تھیں یہ خوشبو اب تا عمر یوشع کی ہم سفر رہنی تھی ۔

                                                                                                                                                                    جاری ہے۔
                      
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

                      کمنٹ سیکشن میں اپنا فیڈ بیک ضرور دیجیئے     





Share on Google Plus

About Unknown

0 comments:

Post a Comment