WELCOME TO MELTED TRUTHS

All Truths are easy to understand once they are discovered;the point is to discover them.(Galileo Galilei)

"لبیک" The Book (REVIEW)




         " HAJJ E BAIT U ALLAH "
          LABAIK by Mumtaz Mufti 
        " A Review " By: Saadeqa khan



ممتاز مفتی کا نام ذہن میں آتے ہی ایک بے لاگ کڑوا سچ بولنے والے لکھاری کا تصور ذہن میں ابھرتا ہے ۔۔ جس کا قلم گھنا ؤنے معاشرتی مسائل سے لیکر ، مذہبی ایشوز پر بے دھڑک ، کھرا تبصرہ کرنے پر کبھی نہیں ڈگمگایا ۔۔۔ مفتی کی تحریروں نے ہمیشہ ان سماجی مسائل پر سے پردے اٹھائے ۔۔ وہ مخفی حقیقتیں عریاں کیں ۔۔ جنھیں لوگ ساتھ پردوں میں چھپا کر کہیں اپنے ماتھوں پر نیک نامی کے ٹیگ لگا کر ۔۔ تو کہیں تسبیح ۔۔ٹوپی ۔۔ اور جا نمازوں کے کھڑاگ تلے۔۔ خود کو اشرافیاں میں شمار کرواتے رہتے ہیں ۔مفتی نے اپنی تحریروں کے ذریعے بہت سے ا ن د اتاؤں کے چہروں سے نقاب نوچ کر دنیا کو انکا ۔۔اصل گھناؤنا چہرہ دکھایا ۔۔ وہ اپنے قلم سے مخالف کو چاروں شانے چت کر کے مات دینے کا ہنر جانتا تھا ۔۔
ممتا ز مفتی کی تحریروں کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ اسکی ذاتی ذندگی جتنے ادوار سے گزری ۔۔ اسکی تحریروں میں اتنے ہی رنگ بکھرے نظر آتے ہیں ۔۔ علی پور کا ایلی سے ۔۔تلاش اور پھر لبیک تک اسکی سوچ اور قلم میں آنے والا انقلاب بہت واضح ہے ۔۔ پیا ز کے چھلکے اتارتے اتارتے وہ کون سے مخفی طاقت تھی جو اسے روحانیات کی ان بھول بھلیوں میں لے گئی ۔۔ جن سے اسکا کبھی دور کا بھی واسطہ نہیں رہا تھا ۔۔ بلاشبہ اس انقلاب کا سر چشمہ قدرت اللہ شہاب کی ذات تھی ۔۔ بظاہر شخصیتوں اور سوچوں میں زمین اور آسمان کا فرق رکھنے والے قدرت اللہ اور ممتازمفتی کو ۔۔ کس طاقت نے یکجا رکھا ۔۔ یہ معمہ آج تک حل طلب ہے ۔۔۔!!
علی پور کا ایلی ۔۔ دہریت کی طرف مائل سکہ بند دانشور جسکا اوڑھنا بچھونا ہی شکوک اور شبہات تھے۔۔ خود کو ناپاک اور پیشاب کے مٹکے سے تشبیہ دینے والے مفتی کے متعلق کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔۔ وہ نا صرف حج پر جائیگا بلکہ۔۔ اپنے اس سفر کی روئیداد بھی کچھ اس انداز میں تحریر کریگا ۔۔ کہ وہ کتاب تاریخ میں امر ہو جا ئیگی ۔۔ ’ لبیک ‘ اردو ادب میں اپنی نوعیت کی وہ انوکھی کتاب ہے ۔۔ جو بظاہر اسلام سے برائے نام ربط رکھنے والے ایک دانشور کی رپوتاژ ہے مگر آج بھی یہ کتاب جہاں اردو ادب کی مایہ ناز کتابوں کے شیلف میں رکھی نظر آتی ہے ۔۔ وہیں یہ اسلامی کتب ۔۔کے ساتھ بھی دستیاب ہے ۔۔ یہ صرف اس کے ٹائٹل یا نام کا اعجاز نہیں ہو سکتا ۔۔ نہ ہی قدرت اللہ شہاب کے ساتھ ۔۔یا انکی ذات کا کرشمہ ہے ۔۔ اس کتاب میں یقیناًکچھ ایسا ہے ۔۔ جو اسے عشروں بعد بھی۔۔ ممتاز رکھے ہوئے ہے ۔۔اا

دراصل یہ ایک مجذوب کے اندر سے باہر سفر کی روداد ہے ۔۔ شک سے کامل یقین ۔۔ لاعلمی سے عرفان تک کا ۔۔ ایک دماغ کی چولیں ہلا دینے والا سفر ۔۔ جہاں مفتی خود کو ایلس ان ونڈر لینڈ کی طرح بھٹکتا ہوا پاتا تھا ۔تصوف ۔۔ آگاہی۔ یہ سب مفتی کے لیئے عجوبوں سے کم نہیں تھے ۔۔ وہ ایک سکہ بند دانشور تھا ۔۔ دماغ ان واقعات کی تہہ تک پہنچنے سے قاصر تھا۔۔ جو ایک لمبے عرصے سے اس کی ذندگی میں در آئے تھے۔۔ عقل آنکھوں دیکھا ماننے کو تیار نہ تھی ۔۔ قدرت اللہ کی شخصیت مفتی کے لیئے ایک معمہ تھی۔۔ وہ ساری عمر انہی معموں کو حل کرتا رہا ۔۔ مگر اس پار ۔۔کا کوئی سرا ۔۔اس کے ہاتھ نہیں لگ سکا ۔۔ وہ لکھتا ہے ۔۔
”پتا نہیں توازن کی کیفیت اتنی کمیاب کیوں ہے ۔۔؟؟ افراد میں یا تو عقلی شکوک کے ڈھیر لگ جاتے ہیں ۔۔ یا ایمان کے دھارے بہنے لگتے ہیں ۔۔ توازن کی کیفیت تو صرف قدرت اللہ میں پائی جاتی ہے ۔۔ قدرت کے شکوک اور ایمان میں عجیب قسم کی ہم آہنگی ہے ۔۔ شکوک ایمان کی راہ میں حائل نہیں ہوتے ۔۔ بلکہ اسے تقویت دیتے ہیں ۔۔‘‘
جبکہ مفتی کے شکوک اسے کسی کروٹ سکون سے نہیں بیٹھنے دیتے ۔۔ وہ احرام باندھنے سے لیکر ۔۔ سعی اور رمی تک تمام مناسکِ حج کو ہی نہیں حجاج کو بھی ہر لمحہ جج کرتا ہے ۔۔ ایک شریر بچہ جس طرح ماں سے لاڈ کر کے اپنی ضدیں منواتا ہے مفتی بھی اپنے’ اللہ ‘ سے کچھ اسی طرح لاڈ کرتا نظر آتا ہے ۔۔’’ میرے اللہ میاں نے مجھے اتنی دور سے بلایا ہے۔ میں اس کے در کا مہمان ہوں۔۔ میرا دل کرتا ہے حال ڈالوں۔۔ چیخ چیخ کر لوگوں کو بتا ؤں ۔۔ کہ میرے اللہ نے مجھے کتنی بڑی سعادت دی ہے ۔۔
اس کی شخصیت میں شدت اور مجذوبانہ عنصر کثرت سے تھا ۔۔اس لیئے وہ ہر شے کو عشق اور وجدان کے ترازو پر تولتا رہا تمام مناسکِ حج پر ایک سکہ بند دانشور کیطرح ۔۔وہی بے لاگ تبصرہ کرتا نظر آتا ہے ۔۔ جو مفتی کی تحریروں کا خاصہ ہے ۔۔ اگرچہ یہ انداز ۔۔ مناسکِ حج پر یہ طرزِ تحریر بہت سوں کو ۔۔ بہت نا گوار گزرا ۔۔ مفتی پر فتوے دائر کیئے گئے ۔۔ تو کہیں لبیک کو بین کرنے کی مہم چلائی گئی ۔۔ اس سب مخالفت کے باوجود یہ کتاب ۔۔ عشروں بعد آج نئی نسل میں بھی اتنی ہی مقبول ہے ۔۔ کیونکہ آج کا نو جوان ۔۔ اسلام کو عقیدت کے ڈھیروں غلافوں تلے لپیٹ کر۔۔ طاق پر نہیں رکھ چھوڑتا ۔۔ بڑھتی ہوئی علمی سطح نے اس کے اندازِ فکر میں وسعت پیدا کی ہے ۔۔ وہ اسلام کوموروثی سمجھ کر جوں کا توں آباؤ اجداد کے نقشِ قدم پر چلنے کے بجائے ۔۔ خود جج کرنا چاہتا ہے ۔۔ بظاہر جو اسلام آج کی نسل کو ورثے میں ملا ہے وہ مُلا ۔۔ کا ریچول اور معجزوں سے اٹا اٹ بھرا ایک تصور ہے ۔۔ جس میں چھینکنے سے لیکر ۔۔ تک ہر سنت۔۔ ہر معاشرتی مسئلے کا حل صرف دعاؤں ، وظیفوں اور فتووں میں پنہا نظر آتا ہے ۔۔۔ مفتی اس تصور کی یکسر نفی کرتا ہے ۔۔ وہ عبد اور خالق کے تعلق کو ترجیح دیتا ہے ۔۔وہ تعلق ۔۔ جو مسنون دعاؤں کے سہارے کا محتاج نہیں ہے ۔۔ بلکہ اس میں ایک یقین ہے ۔۔ اپنے خالق پر ایک انوکھا توکل ہے ۔۔ ایک ناقابلِ بیان سرور کی سی کیفیت ہے ۔۔ اللہ پاک اپنے بندوں کو یقیناً۔۔ دعاؤں ۔۔ سعی ۔۔ یا رمی کے لیئے ۔۔اتنی دور سے بلاوا نہیں بھیجتا بلکہ یہ خالق کا اپنے بندے کو ودیعت کردہ ایک موقع ہے۔۔ کہ وہ اپنے رب سے اس تعلق کی تجدید کر سکے جو دنیاوی مسائل میں گھر کر ۔۔روز بروز کمزور ہوتا جاتا ہے ۔۔
مگر مفتی کیا دیکھتا ہے کہ جدہ ائیر پورٹ پر اترتے ہی ہر کسی کو اپنے سامان کی فکر کھائے جاتی ہے ۔۔کوئی معلم کے لیئے سرگرداں و پریشان حال پھرتا نظر آتا ہے ۔۔ تو کسی کے لیئے رہائش ، قیام و طعام کے انتظامات دردِ سر بنے ہوتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کے در پر پہنچ کر ۔۔ لبوں پر ہم دم دعاؤں کا ورد جاری رکھ کر بھی ۔۔سب کے دل اور دماغ دنیاوی جھمیلوں میں الجھے رہ جاتے ہیں ۔۔ اور مفتی کا خدا دور کھڑا حسرت سے اپنے در کے ان مہمانوں کو تکتا رہ جاتا ہے ۔۔ جنھیں اس نے بہت دور سے ۔بہت لاڈ اور مان کے ساتھ بلاوا بھیجا تھا ۔ حالانکہ اس مقدس سر زمین پر قدم رکھنے سے پہلے ۔۔ ہر شخص دل میں یہ یقینِ کامل لیئے بیٹھا ہوتا ہے کہ یہاں قدم رکھتے ہی وہ یوں پوتر ہو جائیگا ۔۔ جیسا ماں کے بطن سے جنم لیتے وقت تھا ۔۔ مگر یہاں پہنچتے ہی اس کے نفس کا کتا یوں سر چڑھ کر بولنا لگتا ہے کہ ۔۔اس کے شور میں اسے نا کچھ سنائی دیاتا ہے نا دکھائی ۔۔ قدرت اللہ کہتے تھے ۔۔ دنیا میں بھونکنے والے کتے بہت ہیں ۔۔ جینا چاہتے ہیں تو انکی آوا زنا سننے کی صلاحیت پیدا کریں ۔۔ مگر مفتی کے لیئے یہ امر کسی طور ممکن ہی نہیں ۔۔ کہ وہ راستے کے پتھروں کو نظرانداز کر کے ۔۔اپنا دھیان صرف منزل کی طرف رکھ سکے ۔۔ وہ ہر پتھر کو اٹھا کر ۔۔اس کا رنگ ۔۔وزن۔۔ اور خدو خال کو جانچ کر ان پر بھرپور تبصرہ کیئے بغیر آگے بڑھنے سے قاصر ہے ۔۔۔ نتیجتاٌ وہ کبھی کسی منزل تک نہیں پہنچ سکا ۔۔ راستوں کی بھول بھلیوں میں ہی بھٹکتا رہا ۔۔ اگر کبھی ۔۔ پہنچا بھی تو اتنا لیٹ کہ محفل برخاست ہو چکی تھی ۔!!
وہ خطہ عرب میں تیل کی تجارت سے آنے والے انقلاب تلے اس مقدس سر زمین کے تقدس کو پامال اور زائل ہوتے دیکھ کر کڑھتا ہے ۔۔ افراط کا ڈھیر اسے نالاں و بے چین کرتا ہے ۔۔ اسے سر زمینِ حجاز میں وہ رنگ کہیں نظر نہیں آتے جن کا صرف تصور ہی ۔۔ ہر فاسق ، فاجر ۔۔اور ماکر۔۔ کے بھی رونگٹے کھڑے کر دیا کرتا تھا ۔۔ مگر ہر شے کو جانچتے پرکھتے ہوئے مفتی ایک بہت بڑی حقیقت نظر انداز کر دیتا ہے کہ دلوں میں انقلاب تو اللہ پاک کی رحمت سے میسر آتا ہے
اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کو سونے چاندی کی جالیوں ۔۔ منقش ٹائلوں ۔۔اور آسائشوں سے مزین حرمِ پاک کے ذریعے روکنا کسی کے لیئے کبھی بھی ممکن نہیں ۔ یہ صرف شیطان کا بچھایا ہوا ایک جال ہے ۔۔جس سے انسان صرف اسی صورت میں نکل13سکتا ہے ۔۔ جب وہ قدرت اللہ شہاب کی طرح ’’ لک بٹ ڈونٹ سی ‘‘ پر عمل کرنا جانتا ہو ۔۔ اور مفتی کے لیئے ۔۔ یہ امر جوئے شیر لانے سے کم نہیں تھا ۔۔ سو وہ زائرین اورحجاج کو جج کرنے میں اتناز یادہ مگن رہا۔۔ کہ اپنے رب سے اسکا اپنا تعلق تجدیدِ نو نا پا سکا ۔۔ وہ مزے کی بات یہ کہ وہ اس حقیقت سے خود بھی آگاہ تھا ۔۔!!
ہم نے اسلام کو عقیدت کے اتنے ڈھیر سارے غلافوں تلے لپیٹ رکھا ہے کہ اسکا صحیح رخ ۔۔ ہم خود بھی نہیں دیکھ پاتےہم عبادت اور عبدیت کے اصل راستوں سے ہٹ کر تعمیرات کے شاہکار تخلیق کرنے میں اتنے مگن ہیں کہ ارکانِ اسلام کی فرضیت۔۔غرض و غایت کا اصل مقصد ہم کہیں بہت پیچھے زمانوں کی دھول میں گم کر آئیں ہیں ۔۔ آج سر زمین حجاز پر کہیں صفا و مروہ کے درمیان سرنگوں کو ائیر کنڈیشنڈ کیا جا رہا ہے ۔۔ تو کہیں رمی کے لیئے نئے راستے بنائے جا رہے ہیں حرمِ پاک کے صحن سے لیکر مسجدِ نبوی تک ۔۔ تعمیرات کا ایک جال بچھایا جا چکا ہے ۔۔ جن پر اٹھنے والے کثیر اخراجات عازمینِ حج سے کثیر رقم حاصل کر کے پورے کیئے جاتے ہیں ۔۔ آج حج بیت اللہ ۔۔ خدا کے در تک رسائی ۔۔روپوں، درہم اور ریال کا ایک کھیل بن کر رہ گئی ہے ۔۔متوسط طبقے کے فرد کے کیئے اپنی حلال کمائی پر حج کسی صورت ممکن نہیں رہا ۔۔۔
مفتی نے انہی تبدیلیوں اور مستقبل میں ان کی بدولت رونما ہونے والے اثرات کو کئی دہائیوں قبل نا صرف محسوس کیا ۔۔ بلکہ لبیک لکھ کر ۔۔ بڑے دھڑلے سے سرِ عام انکا پردہ بھی چاک کیا ۔۔ آج کا حج ایک ریچول ہے جس میں لاکھوں کا  اجتماع بھی امتِ مسلمہ میں وہ اتحاد ۔۔اخوت اور مساوات قائم کرنے سے قاصر ہے ۔۔جو حج کی فرضیت کی اصل غایت تھا ۔۔دل سو ز سے خالی تھے ۔۔ خالی ہی رہ جاتے ہیں ۔۔ اندر کا شیطان جوں کا توں واپس ساتھ چلا جاتا ہے ۔۔ اور نام کےساتھ ایک لفظ ’’ حاجی‘‘ کا اضافہ کر لیا جاتا ہے ۔۔ لبیک ‘‘ انہی تلخ حقیقتوں پر سے پردے اٹھاتی ۔۔ایک کاوش ہے ۔۔اپنی نوعیت کی واحد کتاب ۔۔ جسے ممتاز مفتی جیسا  کھرا ۔۔ انو کھا ۔۔ اور بے باک ۔۔شخص ہی تحریر کرسکتا تھا ۔۔


*********************************


Share on Google Plus

About Unknown

0 comments:

Post a Comment