WELCOME TO MELTED TRUTHS

All Truths are easy to understand once they are discovered;the point is to discover them.(Galileo Galilei)

" دریچہ" دسویں قسط The Valve






"دریچہ"

"A Novel Based on Artificial Intelligence" 


دسویں قسط


التمش  نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگا  ئی تو یکدم ہونٹوں سے کراہ سی نکلی، مسلسل چھتیس گھنٹے کام کے باعث اس کی کمر اکڑ کر تختہ ہو گئی تھی ۔تلخ کافی کے آخری گھونٹ اپنےاندر انڈیلتے  ہوئے اپنا سیل فون اٹھایا ہی تھا کہ یکدم تاریک سکرین جگمگا اٹھی ، "صفہ کالنگ۔۔"
کال ریسیو کرتے ہوئے اس کے ہونٹوں پر  تھکاوٹ کے با وجود دلکش مسکان تھی، دل کے تار یوں جڑے ہوئے تھے کہ دونوں کو ایک دوسرے کی یاد بھی ایک ساتھ آتی تھی۔
"آپ کو یاد ہے کہ  آپ کا ایک گھر بھی تھا ؟" دوسری طرف سے کھٹاک سے سوال آیا ۔ یعنی بیگم صاحبہ کے مزاج برہم ہیں ۔
 "جی جان ِ عزیز "، مجھے ناصرف یہ یاد ہے بلکہ یہ بھی بہت اچھی طرح یاد ہے کہ اس گھر میں میری ایک بے انتہاء پیاری اور محبت کرنے والی بیوی بھی ہے جو آج کل میرے بغیربہت اداس ہے۔
ہاں۔ آپ کو  بڑا خیال رہتا ہے میرا۔ ہونہہ
"بے شک ، ہر دم رہتا ہے تمہارا خیال، یہ تم ہی تو ہو جو میرے اندر محبت کی چاشنی  گھولے رکھتی ہو ، "اسکا لہجہ محبتوں  میں ڈوبا ہوا تھا۔
"جی" ، ورنہ آپ نے روبوٹ بناتے بناتے  ایک روز خود بھی روبوٹ  بن جا نا تھا ۔ صفہ اس روز کسی طرح بھی ہاتھ رکھنے پر آمادہ نظر نہ آتی تھی ۔
التمش نے  اس کے موڈ کے طیور دیکھ کر صلح کی جھنڈی لہرائی۔
اچھا ۔"  تمہارے سارے گلے شکوے میں گھر آکر   سنوں گا اور تم سے نمٹ بھی لونگا ،" یہ بتاؤ کہ یوشع ڈارلنگ کیسا ہے ؟
اس کو کیا ہونا ہے؟، " انجینئر باپ کی انجینئر اولاد  مصروف ہے اپنی روبوٹ لیبارٹری میں ۔۔" اگر تم دونوں  باپ بیٹے کا یہی چلن رہا نہ تو میں  اماں کے پاس پاکستان چلی جاؤنگی"
قدرے غصے سے اپنی بات مکمل کرکے صفہ کھٹاک سے ریسیور کریڈل پر دھر چکی تھی ۔
التمش نے  سیل کی سکرین کو گھورا ، "  بیگم صاحبہ کے طیور واقعی خطرناک ہیں " اب گھر جانا ضروری تھا ۔ کچھ سوچتے ہوئے اس نے اپنی ضروری اشیاء کوٹ کی جیب میں ڈالی اورآفس لاکڈ کرتا ہوا معید کے کمرے میں پہنچا ۔
خیر تو  ہے نا یار ۔  تو ایسے اچانک کیوں جا رہا ہے ؟؟ معید کو تشویش نے گھیرا ۔
"ہاں" خیریت ہی ہے ،  یارمیں ایک ہفتے سے گھر نہیں گیا ، صفہ بہت تعاون کرنے والی بیوی ہے مگر ابھی اس کی ناراضگی بجا ہے۔کچھ مسئلہ ہو تو تم سنبھال لینا ، معید کو ہدایات دیتا ہوا التمش کسی سے کوئی بات کیئے بغیر سیدھا نکلتا چلا گیا ۔
اپنے چھوٹے سے کاٹیج میں بے آواز قدم دھرتے ہی اسے کچن سے آوازیں  آتی سنائی دیں ۔
یوشع کچھ دیر پہلے ہی اپنی روبوٹ لیبارٹری سے نیچے آیا تھا ، بلکہ آیا کیا تھا اسے شدید بھوک کھینچ لائی تھی ۔
وہ ٹن فوڈ پسند نہیں کرتا تھا سو صفہ اس کے لیئے سنیک ، سینڈوچ یا  کچھ ہلکا پھلکا ناشتہ بنا چھوڑتی تھی ۔
فریج کھول کر اس نےگول گول دیدے گھمائے۔ خالی فریج اسے منہ چڑا رہا تھا ۔
مما ۔ اس نے پیچھے سے آواز لگائی۔ مگر صفہ نوٹس لیئے بغیر ریموٹ سے چینل تبدیل کرتی رہی۔
مما ۔ "بہت بھوک لگی ہے ، کچھ کھانے کو دیں "، وہ بلبلایا
" مجھے کھا لو " تڑ سے جواب آیا تو یوشع نے دیدے پھاڑ کر  ماں کو دیکھا
مما ۔" مجھے یقین ہے کہ آپ بہت مزے کی ہونگی ، لیکن یو نو واٹ کہ آپ پر پا پا کا حق ہے"، سو جب تک میری والی نہیں آجاتی آپ کو مجھے پکا کر دینا پڑےگا ۔  یوشع نے باقاعدہ بتیسی دکھائی ۔
صفہ نے طیش میں  ہاتھ سے ریموٹ صوفے پر پھینک کر اپنے آٹھ سالہ بیٹے کو دیکھا جو اپنی زبردست اٹھان کے باعث بارہ سال کا  لگتا تھا
"بہت زبان چلنے لگی ہے تمہاری"
"مما"، جب پیٹ خالی ہو تو زبان ہی چل سکتی ہے نا کیونکہ یہ انسانی جسم کا وہ واحد عضو ہے جس کو سب سے کم انرجی کی ضرورت پڑتی ہے،   ماں کو ستاتے ہوئے اسکی نظر اچانک کوریڈور کے کونے میں سینے پر دونوں ہاتھ باندھے، ساری صورتحال سے لطف اندوز ہوتے اپنے باپ پر پڑی تو اس نے بے ہوش ہونے کی اداکاری کی ۔ اور کچن کے فرش پر گرتا چلا گیا ۔
اور صفہ جو التمش کی موجودگی سے بے خبر تھی، دیوانہ وار اس کی طرف دوڑی ، اس نے گرتے ہوئے اپنا سر جان بوجھ کرکچن کاؤنٹر سے ٹکرایا تھا ۔
صفہ اس کے سر اور ہاتھوں کو سہلاتے ہوئے آوازیں دیتی ہوئےاسے ہوش میں لانے کی کوشش کرتی رہیں ۔
وہ پانی پانی  کرتا ہوا  ہوش میں آیا ، تو گھبراہٹ میں صفہ نے اسے دو گلاس پانی پلا دیئے۔
"مما"  ایک تو میرا بھوک سے برا حال ہے اور اوپر سے آپ مجھے خالی پیٹ پر پانی پلائے چلی جا رہی ہیں ۔وہ کراہا ۔ پھر سامنے دیکھتے ہوئے باپ کو آنکھ ماری صفہ نے اسکی نگاہوں کا تعاقب کیا ،" بس پھر منٹ لگے تھے انہیں یوشع کی ساری ڈرامے بازی سمجھنے میں ، غصے سے اس کے بال دونوں مٹھیوں میں بھینچتی ہوئی ، وہ التمش پرنظر ڈالے بغیر اپنے بیڈ روم کی طرف بڑھ گئیں ۔
"مما از ان سٹرینج موڈ  پاپا "، میرا چانس تو گیا ۔" یور ٹرن ناؤ"
اس نے سر سہلاتے ہوئے دوبارہ کسی آس پر فریج کھولا ، اداکاری  کافی مہنگی پڑ گئی تھی ۔
التمش بیٹے کا سر چوم کر اپنا کوٹ صوفے پر پھینکتا خوا ب گاہ کی طرف بڑھا ہی تھا کہ کھٹاک سے دروازہ کھولتی صفہ برآمد ہوئی اور کچن کی طرف بڑھی دونوں باپ بیٹا نے معنی خیز انداز میں ایک دوسرے کو دیکھا  پھر صفہ کو جو کیبنٹ سے چیزیں نکال کر کوکنگ کی تیاری کرر ہی تھی ۔
" اس طرح غصے میں پکاؤ گی تو ہضم کس کو ہوگا ؟؟  "التمش نے فرائی پین اس کے ہاتھ سے لیکر ایپرن باندھا ، کیوں یوشع ڈارلنگ آج ہم ٹرائی مار کے دیکھتے ہیں "
صفہ کچھ کہے بغیر منہ پھلائے لاؤنج میں چلی آئی مگر ٹی وی دیکھتے ہوئے  بھی اس کا دھیان  انکی طرف تھا ، التمش ہمیشہ صرف کھانے کے لیئے کچن میں آیا کرتا تھا ، مگر ابھی وہ ایک ماہر شیف کی طرح کھٹا کھٹ سبزیاں کاٹنے میں مصروف تھا ۔ گھنٹہ بھر کی محنت سے انہوں نے " پاستہ"، " لوبیا سلاد" اور چند اور ہلکی پھلکی اشیاء بنا ئیں۔
پھر التمش ایپرن اتارتا ہوا صفہ کے پاس آیا ۔
"ڈنر تیار ہے مادام "، اس نے گھنٹوں کے بل اس کے آگے بیٹھ کر اپنا ہاتھ بڑھایا تو صفہ  جو ہمیشہ کی موم تھی مزید  پتھر  بنے رہنے کی اداکاری نہیں کر سکی ، کہ یہی دونوں تو  اسکی کل کائنات تھے۔
کھانے کے بعد وہ تینوں ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے گھر سے نکل کر قریب کی ایک آئس کریم شاپ تک گئے، یوشع کے چٹکلوں پر بے تحاشہ ہنستے ہوئی صفہ پر التمش نے ایک گہری نظر ڈالی وہ آج بھی ویسی ہی  دکھتی تھی جیسی  بارہ، تیرہ برس قبل  عین عنفوانِ شباب میں تھی، گزرے وقت اور ایک بیٹے کی پیدائش نے کچھ بھی تو نہ گہنایا تھا۔
یکدم اس کے  جب میں  پڑا سیل تھراتھرایا تو جیسے کوئی طلسم ٹوٹا تھا۔
"التمش نے برا سا منہ بناتے ہوئے سیل کی سکرین دیکھی ۔" ہینس جیسن کالنگ "
ساری تفریح اور مزیدار آئس کریم کا مزا لمحوں میں اڑن چھو ہوا  ، اس عذاب سے کب میری جان چھوٹے گی، منہ میں بڑبڑاتے ہوئے اس نے سیل آف کیا اور دوبارہ  ان دونوں کی طرف متوجہ ہوا جو ایک دوسرے کی آئس کریم سے بائٹ لینے میں مگن تھے ۔
" یہ لمحے لوٹ کر تھوڑی آنے تھے " 
اگلے روز وہ آفس پہنچا ہی تھا کہ ہینس کسی عفریت کی طرح اس کے سر پر نازل ہوا ۔
" جہاں تک میری معلومات ہیں بوسٹن ڈائنامکس  نے تمہیں اس پراجیکٹ کی لیئے منہ مانگے داموں ہائر کیا ہے اور تم اپنی پر سرگرمی کے لیئے ہمیں جواب دہ ہو " اس کا لہجہ کٹیلا تھا ۔
"مسٹر جیسن، اور جہاں تک میری معلومات ہیں بوسٹن ڈائنامکس نے تمہیں بھی منہ مانگیں داموں ہائر کیا ہے مگر تم غلط  فہمی میں خود کو اس کا "سی ای او" سمجھ بیٹھے ہو ، میں اپنی کسی بھی طرح کی سرگرمی کے لیئے تمہیں ہر گز جواب دہ نہیں ہوں ۔ ناؤ گیٹ لاسٹ۔۔
یہ شخص دن بدن اس کے لیئے عذاب بنتا جا رہا تھا ، اور صرف وہی ہی نہیں کئی اور لوگ بھی اس کے ہتک آمیز رویئے سے نالاں تھے۔
" ہینس ابتداء سے اس پراجیکٹ  کا حصہ نہ تھا  اسے چھ ماہ  پہلے  التمش  کے دستِ راست" نکولا کیبیبو" کی حادثاتی موت کے بعد شامل کیا گیا تھا  ، وہ نہ صرف  خود سر اور بدتمیز تھا  بلکہ ہر معاملے میں  بلا ضرورت ٹانگ اڑانے کا بھی شوقین تھا۔  التمش   ،نکولا کی اچانک موت کو اب تک ہضم نہیں کر پا رہا تھا  ۔
وہ اپنا پراجیکٹ آدھے سے زیادہ مکمل کر چکے تھے اور ان کا ارادہ تھا کہ ابتدائی طور   پر انڈسٹریز  کی لیئے ایسے روبوٹس فراہم کیئے جائیں جو از خود فوری فیصلہ کرنے کی  صلاحیت کے حامل ہوں ، اگرچہ اس میں کافی رسک تھے کہ    اگر یہ ٹرینڈ جڑ پکڑتا گیا تو لاکھوں افراد کے بے روزگار ہونے کا خدشہ تھا ، اور دوسری طرف کسی بھی  ٹیکنیکل خرابی کی صورت میں روبوٹ کی مرمت اور اپ ڈیٹ پر ایک کثیر سرمایہ لگانا پڑتا ، اس حوالے سے نکولا  اپنے کچھ پوائنٹس رکھتا تھا ، جس پر پیٹر  کے ساتھ اسکی کئی دفعہ گرما گرم بحث بھی ہو چکی تھی۔
التمش کسی حد تک نکولا سے متفق بھی تھا کہ بے روزگاری دنیا  بھر  کے افراد کا ایک بڑا مسئلہ ہے اس لیئے  پوری پروگرامنگ کے ساتھ ہی کسی نئے کام کا آغاز کرنا  چاہیئے،  روبوٹس کو انسان کے  متبادل کے طور پر استعمال نہ کیا جائے بلکہ   ان کے ذریعےایسی ریفارمز سامنے لائی جائیں کہ انڈسٹریز تیزی سے ترقی کریں اورمیسر روزگار میں کمی کے بجائےاضافہ ہو ۔
پھر اچانک نکولا   ایک ٹریفک حادثے کا شکار ہوا ، اور چند دن بعد ہی پراجیکٹ میں لیڈ انجینئر کے طور پر ہینس جیسن کی آمد ہوئی ، اور  تب سے التمش کا سکون درہم برہم تھا ۔  
ٹھیک آدھے گھنٹے بعد اسکی توقع کی عین مطابق " سی ای او " کے آفس سے اس کا بلاوا آیا ،  آفس میں قدم دھرتے ہی التمش نے سکون کا سانس  لیا ۔ ہینس وہاں موجود نہیں تھا۔
وہ ایک دفعہ پھر اس منحوس شخص کی صورت نہیں دیکھنا چاہتا تھا ، " کالا بلا نہ ہو تو ۔۔  ہونہہ
پیٹر نے اس کے بیٹھتے ہی ایک درشت نظر اس پر ڈالی۔
"مسٹر خان"، تمہیں معلوم ہے نہ کہ تم ایک انتہائی حساس نوعیت کے پراجیکٹ کا  اہم حصہ ہو ، اس لیئے تمہیں ہر طرح کی پبلک سرگرمیوں سے  اس دوران دور رہنا ہے ، اگر ذرا سی بھی بھنک  ہمارے مخالفین اور مسا بقین کو پڑ گئی تو ہمارے برسوں کے کیئے کرائے  پر  لمحوں میں پانی پھر جانے کا  امکان ہے۔
"پیٹر"ایک تو میں تمہاری اس طولانی تمہید کی عادت سے بیزار ہوں ، میں خود "ٹو دی پوائنٹ" بات کرنے کا عادی ہوں اور  دوسروں سے بھی توقع رکھتا ہوں کہ وہ بات چیت کے دوران لا یعنی باتوں میں میرا کم سے کم وقت برباد کریں ۔  التمش نے ناک سے مکھی اڑائی۔
"اوکے" تم کل رات بغیر بتائے کہاں غائب رہے؟؟
میں معید کو آگاہ کرکے گھر گیا تھا ، میری بیوی نے کافی پریشانی میں کال کی تھی سو مجھے جانا پڑا ۔
اچھا ، "تو کوئی ایمرجینسی تھی کیا ؟ پیٹر نے دلچسپی سے اسے دیکھا ، کیونکہ اس کے جانے سے واپس آنے تک کی لمحہ لمحہ رپورٹ  اسےمل چکی تھی ۔
"ہاں تھی بھی اور نہیں بھی "۔ میرے بیٹے نے ایک چھوٹا سا ڈرامہ کیا تھا ، کیونکہ میں گذشتہ ایک ہفتے سے گھر سے غائب ہوں، التمش نے کچھ جھوٹ سچ ملا کر بات بنائی۔
"مسٹر خان"، تمہارا بیٹا ایک بے انتہاء ذہین  لڑکا ہے،  اس طرح کی بچکانہ حرکت کی میں اس سے ہر گز توقع نہیں رکھتا ۔ پیٹر کا  انداز مشکوک تھا ۔
" بیوی اور اولاد تمہاری بھی ہے پیٹر اور میرے خیال میں ہینس کی بھی ، مگر پتا ہے کیا کہ تم لوگوں کے ہاں گھر تو ہوتے ہیں ، خاندان نہیں ۔تم بھی  ہماری ہی طرح سماجی  بندھنوں میں بندھے ہوتے ہو مگر  اُن میں محبت کی چاشنی، ایثار اور وفا نہیں ہوتی۔وہ مان نہیں ہوتا کہ جس  پر بیوی روٹھتی ، منہ پھلاتی یا آنسو بہاتی ہے کہ اس کا شوہر ، اسکامحبوب اس کی ایک خفگی پر ہر رکاوٹ کو پھلانگتا ، روندتا ہوا دوڑا چلا آئیگا  رشتے  تمہارےہاں بھی وہی ہیں مگر ان میں وہ اخلاص نہیں ۔کہ تمہارا جوانی کی حد کو چھوتا بیٹا
اپنی گرل فرینڈ کے بجائے باپ  کو یاد کرتا ، اسکی کمی محسوس کرتا ہو ۔" اس لیئے تم مجھے فائن کرنے میں حق بجانب ہو ۔
" میں منتظر ہوں تم سزا سناؤ "، التمش کے لہجے میں پہاڑوں جیسی سختی تھی ۔
مگر پیٹر ہاتھ میں تھامے پین پر نظریں جمائے خاموش رہا ۔ بہت سے لمحے گمبھیر  خاموشی کی نظر ہوئے، کوئی  جواب نا پاکر التمش  جانے کے لیئے اٹھا ، مگر مڑتے ہوئے پہلی نظر
پڑتے ہی اسکا حلق تک کڑوا ہوگیا ، گلاس ڈور سے ٹیک لگائے دونوں ہاتھ سینے  پر باندھے ہینس اسی طرف متوجہ تھا ۔ التمش اسے نظر انداز کرتا ہوا سائڈ سے نکلتا چلا گیا ۔
ہینس چھوٹے چھوٹے قدم دھرتا پیٹر کی ٹیبل تک آیا  پھر دونوں ہاتھ دھر کر جھکا ۔
" تم نے اسے خاموشی سے کیوں جانے دیا ؟"
اس لیئے وہ جھوٹ نہیں بول رہا تھا ، جو تم بھی جانتے ہو اور میں بھی ، اسکو ہائر کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اسکی ذاتی زندگی کے بھی  باس بن گئے ہیں ۔
اف، " تم اسکی لفاظی میں اتنی جلدی آجاؤگے مجھے اسکی ہر گز توقع  نا تھی، کیا ممکن نہیں ہے کہ وہ بیوی کے ذریعے کوئی خفیہ سرگرمی جاری رکھے ہوئے  ہو ، یا وہ  اس کا چلتاپرزہ بیٹا ۔جو ابھی سے باپ سے پانچ قدم آگے ہے۔"
"مسٹر جیسن"، میرے خیال میں اپنی جوانی میں نے دھوپ میں بیٹھ کر نہیں کاٹی ، لوگوں کی پہچان مجھے بھی ہے ۔ " التمش تیمور خان ایک سچا اور کھرا مسلمان ہے اور  کیا تم  جانتے ہو کہ ایک مسلمان کی سب سے بڑی خوبی کون سی ہوتی ہے؟؟"
"وہ اپنی زبان اور معاہدوں کا پاسدار ہوتا ہے" ، درشتی سے بات ختم کرکے پیٹر نے فائل کھولی، یہ اشارہ تھا کہ ہینس اب جا سکتا ہے۔
شدید طیش میں تلملاتا ہوا ہینس اپنے آفس کی طرف بڑھا تو  ارد گرد  سے گزرتے کئی لوگوں نے اسکی کیفیت نوٹ کی ،  سیاہ چہرے پر غصے کی لالی اسے کچھ اور خوفناک بناتی تھی ۔
اپنی آفس چیئر پر بیٹھ کر اس نے ساری صورتحال کا جائزہ لیا ، چلو صبح سے اتنی بک بک کا یہ فائدہ تو ہوا کہ  اسے التمش کا ایک کمزور پوائنٹ ضرور معلوم ہوا ۔
" دنیا کے بہترین سوفٹ ویئر  روبوٹک انجینئر  کی جان ایک معصوم سی چڑیا میں تھی ، جس کا نام " صفہ خان" تھا "۔ ہینس اپنی کرسی پر جھولتے ہوئے بے ہنگم قہقہے لگاتا گیا ۔
دو روز بعد صفہ قریب کے   ڈیپارٹ مینٹل سٹور   سےخریداری کرکے نکلی ہی تھی کہ ایک حبشی کسی عفریت کی طرح اس کے سر پر نازل ہوا ۔
"بلکہ وہ عفریت اس کے سر پر نازل نہ ہوئی تھی وہ اسکی پرسکون زندگی میں ہل چل مچانے والا تباہی کا پہلا پتھر تھا ، جس کی انتہاء ڈیڑھ برس  بعد التمش کی موت پر ہوئی ۔"
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

صفہ نے آنسوؤں کو ہاتھ کی پشت سے صاف کرتے ہوئے ، ایک دفعہ پھر یوشع کا نمبر پنچ کیا ۔ مگر وہ  مسلسل بند تھا ۔وہ ماں کی پریشانی سے واقف تھا ، اس لیئے وہ خود بھی دو ، تین گھنٹے بعد انہیں کال کر لیا کرتا تھا ، مگر لنچ کے بعد سے اسکی کوئی خبر نہ تھی۔
تنگ آکر صفہ نے اس کے آفس پر رابطہ کیا تو وہاں بھی  ہل چل سی مچی ہوئی تھی ، وہ لنچ کے لیئے نکلا تھا اور پھر واپس نہیں لوٹا۔  آدھی رات تک پریشانی اور غم سے نڈھال صفہ،یوشع کے کمرے میں ایک ایک چیز کھنگالتی رہیں کہ کہیں سے اسکی کسی نئی سرگرمی کا سراغ مل جائے جس کے ذریعے اسکو  تلاش کرنا ممکن ہو ، مگر بے سود ۔۔
" دیار ِ غیر ، تنہائی اور   دوسری دفعہ اجڑتا ہوا  نکا  گلشن ۔۔زارو قطار روتے ہوئے ، بے اختیار انہوں نے کرنل افراسیاب کے پرسنل نمبر پر کال کی جو فورا َََ ہی ریسیو کرلی گئی ۔
مگر شدت ِ گریہ سے صفہ کے لیئے ایک لفظ بولنا بھی محال تھا ۔ افراسیاب پریشانی میں انہیں پکارتے گئے۔
کال کاٹ کر افراسیاب نے تیزی سے یوشع کا نمبر ملایا مگر وہ  مسلسل بند تھا ۔ انہوں نے کچھ سوچتے ہوئے عنایہ کے کمرے کا رخ کیا جو انکی توقع کے بر خلاف تکیہ گود میں رکھےمنہ لٹکائے بیٹھی تھی ۔
"عنایہ، یوشع سے تمہاری آخری دفعہ بات کب ہوئی تھی ؟؟" کرنل افراسیاب نے کسی تمہید کے بغیر سوال کیا تو عنایہ منہ پھاڑے ہکا بکا انہیں دیکھے  گئی۔
"پا پا " آج لنچ ٹائم بات ہو ئی تھی ۔یوشع نے عجلت میں  بات ختم کرکے رات کال کرنے کا کہا تھا مگر اب۔۔
"اور اب ۔ اس کا سیل مسلسل بند ہے ؟؟" افراسیاب  اسکی بات مکمل کرتے ہوئے بڑ بڑائے۔ صورتحال کو سمجھنے میں انہیں چند لمحےلگے تھے۔
بہت پھرتی کے ساتھ کچھ فیصلے کرتے ہوئے انہوں نے پاکستان میں امریکی ایمبیسی سے رابطہ کرتے ہوئے یوشع کی گمشدگی کی اطلاع دی۔
لاؤنج کی گلاس وال سے ٹیک لگائےاجڑی صورت کے ساتھ عنایہ ٹکر ٹکر انہیں دیکھے گئے، غیر معمولی صورتحال کو نوٹ کرتے ہوئے گل رخ بھی چلی آئی تھیں اور پریشانی میں بار بار صفہ کا نمبر ملا رہی تھیں ،مگر دوسری طرف کوئی اٹھا نہیں رہا تھا ۔
کسی سوچ کے زیر ِاثر عنایہ تیزی سے  اند ر کمرے میں لپکی اور اپنا لیپ ٹاپ اٹھا لائی،  فیس بک، ٹویٹر ، انسٹا گرام ۔۔ایک ایک کرکے وہ یوشع کی ساری سوشل نیٹ ورک آئی ڈیز کھنگالتی گئی مگر وہاں  کوئی غیر معمولی چیز نہیں تھی جس سے اندازہ ہو سکے کہ اس کے ساتھ کیا ہوا تھا۔
افراسیاب اس کے پیچھے کھڑے  اسکی سرچنگ نوٹ کر رہے تھے، وہ  کمپیوٹر ایکسپرٹ ہی نہ تھی ، وہ یوشع کے بہت سے رازوں کی "امین " تھی جو وہ صفہ کو بھی نہیں بتاتا تھا ۔
"عنایہ" اگر اس کے ساتھ کوئی حادثہ ہوا ہوتا  تو اب تک اس کے آفس اطلاع آچکی ہوتی یو نو واٹ کہ وہ انتہائی اہم  انٹر نیشنل پراجیکٹ کا لیڈ انجینئر  تھا ۔
"لیکن پاپا یہ بھی تو ممکن ہے کہ کسی خطرے کے پیش ِ نظر وہ خود ہی روپوش ہو گیا ہو اور ابھی صفہ چاچی سے رابطہ نہ کر سکا ہو ۔۔"
اس یقین کی وجہ ۔۔؟؟ کرنل افراسیاب نے گھاگ  فوجیوں کی طرح بیٹی کو گھورا تو وہ  گڑ بڑائی۔
" وہ پاپا "، یوشع کو  کافی عرصے سے گوگل ایکس لیب کے ایک خفیہ پراجیکٹ کی آفر آئی ہوئی تھی ، مگر وہ اس سے مطمئن نہیں تھا سو وہ مسلسل انکار کر رہا تھا ۔۔عنایہ نے
ہکلاتے ہوئے جھکی نظر سے بات مکمل کی ۔
اور روپوش ہونے کی صورت میں وہ کون سا  پہلا کام تھا جو اسے کرنا چاہیے تھا ؟؟
لازمی اسے انٹر نیٹ سے اپنی ہر طرح کی موجودگی ختم کرنی تھی ۔۔ مگر اسکی ساری آئی ڈیز اور پرسنل معلومات جوں کی توں ہیں ۔ عنایہ کی آواز کچھ اور ڈوبی ۔۔
کرنل خان نے ایک جھٹکے سے اسکی گود سے لیپ ٹاپ ہٹا کر اسکا ہاتھ پکڑ کر اٹھایا اور کھینچتے ہوئے اسے باہر لان تک لائے ۔   بات اگر اتنے اونچے لیول کی تھی تو ان کے اپنے گھر میں جاسوسی آلات  کی موجودگی بعید از قیاس نہ تھی ۔

" گوگل کے ذریعے راہ چلتے  مسافر سے لیکر جی ایچ کیو تک ہر شخص کی ذاتی معلومات کا ڈیٹا اس کی "لائف چپ" میں محفوظ کیا جا رہا ہے، عشروں  پر محیط  اس پراجیکٹ کے ذریعے،کسی بھی صارف کو ،کسی بھی وقت با آسانی ٹریک کرنا اب مشکل نہیں رہا ۔"
"دن رات انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا پر  مصروف رہنے والوں کی اکثریت ان تفصیلات سے لاعلم ہے، سب سےزیادہ خطرے میں "وائس سرچنگ" ( آواز کے ذریعے سرچ) کی سہولت استعمال کرنے والے لوگ ہیں کیونکہ اس طرح انکا متعلقہ ڈیٹا ٹیکسٹ کے بجائے آواز کی صورت میں گوگل کے پاس ذخیرہ ہو رہا ہے۔ اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ گوگل آپ کے بارے میں کیا کچھ جانتا ہے  تو "گوگل ایڈز" میں جاکر اپنی پروفائل دیکھئے جو آپکی سرچ ہسٹری کی بنیاد پر اوٹومیٹڈ ہوتی ہے اور اس کا خطرناک ترین پہلو یہ ہے کہ گوگل اسکو خفیہ رکھنے کا ذمہ دار یا مجاز ہر گز نہیں ہے ۔"
 "سرچ ہسٹری کے علاوہ گوگل کے پاس آپ کا لوکیشن میپ بھی ہوتا ہے، موبائل سے " جی پلس یا گوگل اکاؤنٹ "سائن ان کرنے والے بہت سے افراد اس سے واقف نہیں ہیں  اور اپنی لوکیشن آن رکھتے ہیں ۔اگرچہ یہ صارف کے لیئے ایک اہم سہولت تھی  جس کے ذریعے  نا صرف  کسی بھی حادثے  یا ناگہانی آفت کی صورت میں متعلقہ شخص کی آخری موجودگی ٹریک کی جا سکتی تھی، بلکہ  کسی نا مانوس  جگہ پر راستہ تلاش کرنا بھی آسان تھا ، مگر فائدہ سے زیادہ اس کے نقصانات سامنے آئے ہیں اور سی آئی اے سمیت
دنیا بھر کی خفیہ ایجنسیاں لاکھوں کی تعداد میں  بے گناہ لوگوں کو اس طرح ٹریپ کر کے غائب کر چکی ہیں ۔لہذاٰ موجودہ حالات میں ہر صارف کے لیئے بہت ضروری ہے کہ نا صرف وہ اپنی سرچ ہسٹری ساتھ ساتھ مٹاتا رہے بلکہ بلا ضرورت لوکیشن آن کرنے سے بھی پر ہیز کرے، کہ نا جانے کس وقت ،کسی منحوس گھڑی میں آپ بھی"لا پتہ" ہو جائیں ۔
صارف کی ذاتی معلومات کو اسکی لائف چپ پر ذخیرہ کرنے کے منصوبے میں اب سب سے زیادہ معاونت " فیس بک اور واٹس ایپ" جیسے زیادہ استعمال کیئے جانےوالےسوشل میڈیا فورمز بھی کر رہے ہیں  جو نوجوان نسل کی پسندیدہ ترین ایپلی کیشنز میں شمار کیئے جاتے ہیں ۔ ان کا ہر اپ ڈیٹ ، کوئی بھی نیا فیچر جو بظاہر صارف کی تفریح یا   سہولت کے رنگ برنگے سلوگنز  میں لپٹا ہوتا ہے اندرونِ خانہ  اسے مزید جکڑنے اور گھیرنے کا سامان لیئے ہوتا ہے ۔ اس کا مشاہدہ آپ فیس بک پر اپنی نیوز فیڈ میں کر سکتے
ہیں ، اگر آپ سائنس میں دلچسپی رکھتے ہیں تو فیس بک آپ کو نیوز فیڈ میں زیادہ سے زیادہ سائنسی معلومات والے پیجز یا  سپونسرڈ پوسٹ دکھائیگا ۔ بظاہر یہ صارف کے لیئے
سرچنگ کے جھنجھٹ سے نجات اور وقت کی بچت کاایک طریقہ ہے مگر اصل معاملہ یہ ہے ان فیچرز سے صارف کی سوچ، پسند نا پسند اور طبعی رجحانات ہی نہیں سٹیٹس کے
ذریعے ذاتی زندگی کی معلومات بھی  حاصل کی جا رہی ہیں ۔"
"یعنی سوشل میڈیا پر ہر وقت ایکٹو رہنے والوں کی زندگی ایک کھلی کتاب کی طرح ہےجس کے تمام رازوں کی کنجی اب " سندر راجن پچائی " اور" مارک زوکر برگ "کے پاس ہے۔"،  اگر آپ کسی وجہ سے کہیں روپوش ہو ناچاہتے  ہیں تو آپ کو سب سے پہلے انٹر نیٹ سے اپنی ہر طرح کی موجودگی کا صفا یاکرنا ہوگا ۔ لیکن عام صارف ا ن باریکیوں سےقطعا ََ واقف نہیں ہے۔
لان میں پہنچتے ہی عنایہ  نے ایک جھرجھری سی لی ، اس روز فروری کی جاتی سردی کی ٹھنڈی یادگار ہوائیں اپنا جوبن دکھلانے لوٹ آئی تھیں ۔ باپ کی سخت رویئے کو دیکھ کراس میں مزید کچھ چھپائے رکھنے کی ہمت نہ تھی ۔سو یوشع کے کیلیفورنیا پہلے سفر میں ہینس جیسن سے ملاقات سے لیکر وہ سب کچھ انہیں بتاتی گئی جو یوشع وقتا ََ فقتا ََ موڈ میں اس سے شیئر کرتا رہا تھا ۔
کرنل افراسیاب نے  فکر مندی سے پیشانی مسلی ، ان کے بھائی کا آشیانہ ایک دفعہ پھر انہی لوگوں کے ہاتھوں تند و تیز آندھیوں کی زد پر تھا ۔  وہ اپنے کانٹیکٹس میں کسی ایسےشنا سا کا نمبر تلاشنے لگے جو رات کے آخری پہر یوشع کے گھر جاکر انہیں صفہ کی کوئی خیر خبر دے سکے
"غمامہ " ، عنایہ کے ذہن میں جھماکہ سا ہوا ۔اس نے اپنا سیل لانے کے لیئے اندر کمرے میں دوڑ لگائی ۔ معید ظفر کی بھتیجی غمامہ سے اسکی دوستی ان کے جنازے پر ہوئی تھی اور تب سے وہ سوشل میڈیا کے ذریعے ایک دوسرے سے رابطہ میں تھیں ۔
افق پر سپیدۂ سحر نمودار ہونے کو تھا مگر اس روز   وہاں سرخی حد سے بڑھ کر تھی ، جیسے کوئی ستم ٹوٹا ہو ۔ یا کوئی طوفان تباہی مچاتا گزرا تھا ۔
"سردی سے ٹھٹر تی غمامہ  جب یوشع کے چھوٹے سے کاٹیج پہنچی  تو اسکی توقع کے عین مطابق پیٹرولنگ والے آفیسرز وہاں  موجود تھے، وہ کچھ اور آگے بڑھی ۔ دروازہ یقینا َََلاک توڑ کر کھولا گیا تھا ۔۔ اسکی سانسیں ڈوبتی چلی گئیں ۔اور پاؤں من من بھر کے ہوئے۔
ایک آفیسر نے اسے مڑ کر دیکھا ،  " شی از نومور "۔ وہ مایوسی سے سر ہلاتا آگے سے ہٹتا چلا گیا اور سامنے صوفے پر صفہ کی سفید لٹھا سی لاش دھری تھی ۔ 
" یوں لگتا تھا کہ  کسی ڈریکولا  نےاس کا سارا خون پی کر پنجر وجود چھوڑ  دیا تھا ۔اور  وہ عفریت وہی تھی جس نے ایک دفعہ پہلے  صفہ کا گلشن اجاڑا تھا ،" ہینس جیسن "۔
کانپتے ہاتھوں کے ساتھ بہت سی ہمت مجتمع کرکے غمامہ نے عنایہ کا نمبر پنچ کیا ۔  کال فورا ََ ہی ریسیو کرلی گئی ۔
" عنایہ صفہ آنٹی از ڈیڈ ناؤ"۔ لرزتے ہونٹوں کے ساتھ بمشکل اپنی بات مکمل کی۔ اور دوسری طرف کرنل افراسیاب نے ایک لفظ کہے بغیر کال کاٹ دی تھی۔
وہ موبائل صوفے پر پھینک کر تیزی سے اپنے کمرے کی طرف بڑھے ، گل رخ اور عنایہ ان کے پیچھے لپکیں مگر تب تک وہ خود کو واش روم میں لاکڈ کر چکے تھے، واش بیسن پر دونوں ہاتھ دھرے وہ بہت دیر تک اندر کا غبار آنسوؤں کی صورت میں نکالتے رہے۔
" ان کی جان سے زیادہ عزیز بہن ، بھابھی ، بچپن سے دکھوں کی ماری ایک بہت صابر  با ہمت عورت، آج وقت کے ہاتھوں ہار گئی تھی ۔"
" یا  میرے مالک ، کیا سارے جہان کے دکھ تو نے اس معصوم عورت کے نصیب میں لکھ دیئے تھے ،  بے اختیار لبوں پر شکوہ آیا تو آنکھیں پھر سے بھیگتی  چلی گئیں ۔"
 بہت دیر بعد وہ خود کو سنبھال کر باہر لاؤنج میں آئے تو منظر تبدیل تھا ، گل رخ زارو قطار روتے ہوئے  عنایہ کو ہوش میں لانے کی کوشش کر رہی تھیں ۔ ایک طوفان آکر گزر چکا تھا مگر ابھی بہت سی تباہیاں منہ پھاڑے کھڑی تھیں ۔ عنایہ، صفہ سے جتنی  شدید محبت کرتی تھی اس کو اب سنبھلنے میں مہینوں لگ جانے تھے ، اور سب سے بڑھ کر یوشع۔۔
وہ کہاں تھا ؟؟ کرنل افراسیاب نے صوفے پر دھرا اپنا موبائل اٹھایا ۔
امریکن ایمبیسی کی کئی  مسڈ کالز تھیں۔ بہت تیزی  کے ساتھ کچھ فیصلے کرتے ہوئے انہوں نے پہلے غمامہ اور پھر اپنے بیٹے کیپٹن سروش کو کال کی جو ان دنوں ٹریننگ کے لیئےمنگلا میں تھا ۔
" صفہ کی تدفین یقینا ََ التمش کے برابر کیلیفورنیا میں ہی ہونی تھی ، برسوں سے بچھڑی دو روحوں کا  آسمانوں پر سنجوگ ہونے والا  تھا مگر وہ دو ایسی بد نصیب روحیں تھیں  جنھیں یکجا ہو کر بھی سکون نہ ملا تھا کہ انکی نشانی "یوشع خان "دشمنوں کے نرغے میں تھا۔

" تین روز بعد علی الصبح  بیک مین روڈ کے کشادہ قبرستان کا بوڑھا رکھوالا جیمز   ڈھلان پر  سبزے  سے ڈھکی  التمش کی قبر کے برابر ایک اور  قبر تیار کرنے میں مصروف تھا ۔ یہ جگہ  وہ برسوں  سےٹھٹرتی سردیوں میں دھوپ تاپنے کے لیئے استعمال کرتا  آیا تھا کیونکہ وہاں پورے قبرستا ن سے زیادہ چمکیلی دھوپ پڑتی تھی۔
"مگر اس کے ہاتھ معمول کے مطابق تیز تیز  چلنے کے بجائے کافی سست تھے، کبھی وہ رک کر ساتھ والی التمش کی قبر پر ایک نظر ڈالتا ، تو اسے چند ماہ پہلے اس خوبصورت عورت سے اپنی ملاقات یاد آجاتی جو گھنٹوں یہاں بیٹھی روتی رہی تھی۔"
بارہ بجے کے قریب آبنوسی تابوت میں جنازہ لایا گیا تو جیمز ارد گرد سے بہت سے پھول جمع کرچکا تھا ، برسوں سے ایک دوسرے کے لیئے ترستی دو روحوں کا ملاپ ۔سو اہتمام تو ضروری تھا ۔"
آدھے گھنٹے میں تدفین کے بعد ایک ایک کر کے سب لوگ جاتے گئے مگر  ان میں ایک گریس فل سا  آدمی ساتھ والی التمش کی قبر پر اگی لمبی گھاس کو مٹھیوں میں بھینچے خاموشی سے آنسو بہاتا ۔ "یہ ندامت کے آنسو تھے وہ بھائی کی آخری نشانی کی حفا ظت کرنے سے قاصر رہا تھا ۔"
جیمز چھوٹے چھوٹے قدم دھرتا افراسیاب کے برابر جاکر بیٹھا ۔
کیا تم مجھے بتانا  پسند کروگے  کہ انکا بیٹا یوشع خان آج تدفین میں موجود کیوں نہیں تھا ؟؟"وہ کل صبح ہی  باپ کی قبر پر آیا تھا ، وہ ہر روز آتا تھا ۔  بہت دیر سے اپنے اندر کلبلاتےسوالوں کو جیمز زبان پر لے ہی آیا ۔"
افراسیاب نے اپنی جلتی ہوئی سرخ آنکھوں  سے  لمحے بھر کو اسے دیکھا ۔
" وہ آئیگا ، ضرور آئیگا ۔ اور تم اس نمبر پر مجھے فورا ََ مطلع کروگے ۔
" انہوں نے جیب سے ایک کارڈ نکال کر غیر محسوس انداز میں جیمز کی طرف بڑھایا کہ ارد گرد اگر نگرانی کی جارہی ہو تو کسی کے نوٹس میں نا سکے۔ پھر اپنی آنکھیں خشک کرتے ہوئے وہ تیزی سے قبرستان کا مین گیٹ پار کرتے چلے گئے ۔ اور پیچھے منظر میں تازہ پھولوں سے ڈکھی دو قبریں دھندلاتی گئیں ۔ جیمز نے کسی احساس کے زیر ِاثر ان کے آس پاس کی جگہ کو غور سے دیکھا ۔۔
"وہاں ابھی ایک قبر کی گنجائش تھی ۔۔"
رات دس بجے کا وقت  تھا ، جیمز اپنے چھوٹے سے کاٹیج میں گرم بستر میں  گھسا سونے کی ناکام کوشش کر رہا تھا ، مگر ناجانے کیوں نیند کی دیوی اس روز خاصی نا مہربان تھی ۔
وہ کوئی کتاب پڑھنے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ باہر سے کچھ کھٹکا اور دور سے آتی ہلکے قدموں کی چاپ سنائی دی ۔
جیمز کی سماعتوں میں کرنل افراسیاب کے الفاظ کی بازگشت گونجی۔" وہ آئیگا اور بہت جلد آئیگا "
یقینا ََ کوئی گڑ بڑ ہوئی تھی ۔ جیمز دبے قدموں کھڑکی تک آیا ۔اور ذرا سا پردہ ہٹا کر باہر جھانکا ، وہ تین افراد تھے جن کا رخ ڈھلان پر بنی انہی دو قبروں کی جانب تھا ۔
جیمز نے بجلی کی سی تیزی سے اپنا موبائل اٹھا کر وہ خفیہ نمبر ڈائل کیا ۔
"وہ آ گیا ہے ، مگر وہ اکیلا نہیں ہے ۔۔ وہ دو مسلح افراد کے نرغے میں ہے ۔"
"اور دوسری طرف  یوشع کے کمرے کی تلاشی لیتے کرنل افراسیاب جھٹکے سے اٹھے تھے ، وہ اسی کال کے منتظر تھے ۔"

جاری ہے                                             
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭





Share on Google Plus

About Unknown

0 comments:

Post a Comment