WELCOME TO MELTED TRUTHS

All Truths are easy to understand once they are discovered;the point is to discover them.(Galileo Galilei)

"پچھتاوا" The Regression






"پچھتاوا"


                                                                                                                        ازقلم افشاں شاہد



"بہو سنو ،" شازیہ اماں کی پکار کو نظر انداز، کر کےاپنی دوست سے فون پر بات کرنےمیں مشغول رہی "بہو 

کیا کانوں میں روئ ٹھونس لی ہے کہ میری آواز تمہارے کانوں میں نہیں پڑ رہی ".......... "
چلو یار میں تم سے پھر بات کرتی ہوں ورنہ میری ساس چیخ چیخ کر پورے محلے کو جمع کر دے گی" شازیہ نہ چاہتے ہوئے بھی مجبوراً اماں کو جواب دینے گئ "بہو یہ سارا دن کانوں سے موبائل جو لگائے رکھتی ہوں اسے چھوڑ کر ذرا بچوں کی طرف دھیان دو تمہاری بیٹی سارا دن بال کھلے رکھ کر کبھی اس سہیلی کے گھر تو کبھی اس سہیلی کے گھر پھدکتی رہتی ہے اور تمہارا شہزادہ بےلگام گھوڑے کی طرح ہر وقت گھومتا رہتا ہے انہیں کہو کہ ذرا پڑھائی کی طرف بھی توجہ دیں باپ دن رات ان کے مستقبل کے لیے ہلکان رہتا ہے اور اولاد ہے کہ ہر احساس سے عاری" شازیہ نے اماں کو تو کچھ نہیں کہا لیکن جب رات کو جاوید گھر آیا تو اس کے سامنے اپنے دل کی ساری بھراس نکالی "آپکی اماں تو بےجا بچوں پر روک ٹوک کرتی رہتی ہیں میرے بچوں کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئی ہیں " "شازیہ ،وہ اگر بچوں کو کچھ کہتی ہیں تو ان کی بھلائی کے لیے کہتی ہیں وہ بچوں سے پیار کرتی ہیں اس لیے ان کی فکر کرتی ہیں " "آپ تو بس رہنے دیں ،ہمیشہ اپنی اماں کی ہی طرفداری کرتے ہیں اور سن لیں اس بار حمزہ کو اس، کی سالگرہ پر بائیک دلا کر دینا اس کے تمام دوستوں کے پاس بائیک ہے پچھلی دفعہ بھی اماں کے کہنے پر آپ نے اس کو بائیک نہیں دلا دی تھی بچے اس طرح احساس کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں جاوید " شازیہ نے اپنے شوہر کو سمجھاتے ہوئے کہا "لیکن شازیہ ابھی اس کی عمر نہیں ہے بائیک چلانے کی اور پھر اماں بھی ناراض ہونگی کیونکہ وہ بائیک کے شدید خلاف ہیں

کیونکہ میرے چھوٹے بھائی کا بائیک پر ایکسیڈنٹ ہوا تھا جس کی وجہ سے وہ اس دار فانی سے کوچ کر گیا تھا اسی وجہ سے اماں ڈرتی ہیں اور پھر آجکل کی نوجوان نسل جس طرح بائیک چلاتی ہے میرا تو دل دہل جاتا ہے " "جی اب ایسا بھی کچھ نہیں ہے جس کی جس طرح قضا لکھی ہوئی ہوتی ہے وہ اسی طرح اس دنیا سے جاتا ہے بائیک کا اس میں کیا قصور آپ کی اماں نے فضول کے وہم پالے ہوئے ہیں " شازیہ نے منہ کے تیور بگارتے ہوئے کہا " آخرکار شازیہ نے اپنی ضد منوا کر ہی دم لیا اماں جی انکار کرتی رہے گئیں "ہر طرف نئے سال کا جشن منایا جا رہاتھا سڑکوں پر بے حیائی کا بازار گرم تھا اسلامی ملک میں غیر اسلامی تہوار بڑے فخر کے ساتھ منایا جا رہا تھا حمزہ بھی اپنے دوستوں کے ساتھ نیو ائیر نائٹ منانے بائیک پر نکلا ہوا تھا اس کی دادی نے اسے بہت روکنے کی کوشش کی لیکن شازیہ نے اماں کو یہ کہہ کر چپ کروا دیاکہ "اماں اب زمانہ بدل گیا ہے لڑکے سارا دن گھر میں دبک کر نہیں بیٹھتے " اچانک حمزہ کے دوستوں نے دوسروں کی دیکھا دیکھی بائیک کی ریسینگ لگائی اور حمزہ ریس تو جیت گیا لیکن ہمشہ کے لیے اپنی ٹانگوں سے محروم ہوگیا جوان بیٹے کو یوں بستر پر پڑا دیکھ کر اب شازیہ کی آنکھیں ہمیشہ گیلی رہتی ہیں اور پچھتاوا اسے رات بھر سونے نہیں دیتا کہ کاش اس نے اماں جی کی بات مانی ہوتی تو اس کا جوان بیٹا آج معذور نہ ہوا ہوتا 

                                                                                                                 ختم شد 


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
Share on Google Plus

About Unknown

0 comments:

Post a Comment