WELCOME TO MELTED TRUTHS

All Truths are easy to understand once they are discovered;the point is to discover them.(Galileo Galilei)

" دریچہ" ساتویں قسط The Valve





"دریچہ"

"A Novel Based on Artificial Intelligence"



ساتویں قسط
           آ ٹھ  ماہ بعد


 یوشع نے آفس سے پیک اپ کرتے ہوئے ایک اچٹتی سی نظر  رسٹ واچ پر ڈالی ، نکلتے نکلتے بھی اسے مزید آدھے گھنٹے کی تاخیر ہو گئی تھی ۔ تیزی سے اوور کوٹ اور دستانے سنبھالتے ہوا وہ باہر لپکا تو  ہڈیوں کا گودہ جما دینے والی سرد ہوائیں ڈیرہ ڈالے
بیٹھی تھیں ، اسی وقت جیب میں پڑا اس کا سیل تھرتھرایا ۔ مما کالنگ
اس نے کچھ دیر تک گھر پہنچنے کا ٹیکسٹ کر کے اپنی رفتار بڑھا دی ، رش ڈرائیونگ کرتا ہوا وہ چالیس منٹ بعد جب گھر  پہنچا تو  صفہ گلاس ونڈو سے جھانکتی سامنے ہی دکھا ئی دیتی تھیں ۔ اف یہ مما بھی نہ ۔ وہ سر جھٹکتا ہوا کار سے باہر نکلا ۔
انہیں کیلیفورنیا شفٹ ہوئے دو ماہ سے زیادہ ہونے کو آئے تھےاور یوشع باقاعدہ  اپنے رینک برین پراجیکٹ پر کام کا آغاز کر چکا تھا ، مگر صفہ کی حالت اب بھی پہلے روز والی ہی تھی ، صبح جب وہ نکلتا تو وہ نا جانے کون کون سی دعائیں پڑھ کر اس پر دم کرتیں ، دن میں دس دفعہ انکی خیریت کی کال آتی اور رات جب تک وہ گھر واپس نہ لوٹ  جاتا انکا دم اٹکا رہتا تھا ۔  ناجانے کیسا خوف اور  کیسے خدشے تھے جو صفہ جیسی باہمت عورت کو چین سے نہ بیٹھنے دیتے تھے۔
شدید ٹھنڈ میں بھوک بھی زوروں کی لگتی ہے اور اس پر صفہ کی ہاتھ کے مزیدار آلو کے پراٹھے، دو ، تین ، چار  یوشع نے بمشکل اپنا ہاتھ کھینچا ورنہ دل تو کر رہا تھا  کہ ایک دو  اور ہی کھا جائے۔
اسی وقت سینٹر ٹیبل پر پڑا ہوا اس کا سیل تھرتھرایا ، وہ اٹھنے کو تھا کہ صفہ نے غصے سے اسے پکڑ کر دوبارہ بٹھایا۔ آرام سے بیٹھو ، کوئی طوفان نہیں آیا ہوا اور نہ ہی تم کسی ریسکیو سروس کے ملازم ہو ، جو بھی ہے وہ کچھ دیر بعد کال کر لیگا  ہونہہ
صفہ کے کڑے طیور دیکھتے ہوئے یوشع  نے خاموشی میں ہی عافیت سمجھی ، مگر کال کرنے والا بھی کوئی نمونہ ہی تھا ، بیل پر بیل بجتی رہی ۔ یوشع نے پر سوچ نظروں سی سیل اور پھر  صفہ  کو دیکھا ۔
مما یہ ہو نہ ہو عنایہ کی کال ہے ۔
تمہیں کیسے پتا ؟ صفہ کو حیرت ہوئی
مما میرے کولیگز اور دوستوں میں کوئی بھی  اتنا ڈھینٹ نہیں ہے ، یوشع نے ہنستے ہوئے اپنی جگہ چھوڑی اور سینٹرل ٹیبل کی طرف بڑھا ، جہاں دور ہی سی جگمگاتی سکرین نظر آرہی تھی ، عنایہ کالنگ
یوشع نے فاتحانہ انداز میں سیل کی سکرین ماں کی طرف  نچائی ۔ پھر کال رسیسو کی ۔
عنایہ بی بی ۔ بندہ کال کرکے دم بھی لے لیتا ہے ، تمہاری زبان کی طرح ہی نان سٹاپ تمہاری کال کی بیلز بھی ہیں ، اس نے دھم سے صوفے پر ریلیکس انداز میں گر کر سامنے ٹیبل پر پاؤں پھیلائے
ہیلو  یوشع۔ کیا حال ہیں بیٹا ،  خلافِ توقع دوسری طرف سے آتی کرنل افراسیاب کی آواز پر یوشع جھٹکا کھا کر سیدھا ہوا ۔ زیر ِ لب عنایہ کو چند مغلظات سے نوازا
اسلام و علیکم  چاچا ۔ اللہ پاک کا شکر ہے آپ سنائیے ؟
سب ٹھیک ٹھاک ہے بیٹا ، آپ سے کچھ ضروری بات کرنی تھی ، تمہیں التمش بھائی کی دوست معید ظفر  تو یاد ہیں نہ ؟
جی چاچا ، وہ بھی کو ئی بھول جانے والی شخصیت ہیں  بھلا ۔
ڈیٹس گڈ، معید بھائی آج کل شدید بیمار ہیں اور ہاسٹن کے ایک ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں میرا رابطہ ہوا تھا ان سے ،وہ تم سے ملنا چاہتے ہیں ، جتنی جلدی ممکن ہو سکے تم بھابھی کے ساتھ ان سے ملنے چلے جاؤ ۔
اوہ۔ اوکے چاچا ، نو پرابلم آپ مجھے کانٹیکٹ نمبر اینڈ ایڈریس بتائیں ، یوشع نے پین کی تلاش میں نظر   دوڑائی ۔
وہ میں تمہیں  ای میل کردونگا۔ چند اِدھر اُدھر کی باتوں کے بعد افراسیاب اپنے ساتھ  لگی بیٹھی عنایہ کے سر پر ایک چپت  لگا کر سیل اس کو تھمایا ، وہ  بھی پوری نمونی تھی ۔
ہیلو ڈیئر کزن ۔ عنایہ نے شرارت سے زبان دانتوں تلے دابی ۔
تم تو مجھ سے بات ہی مت کرو ۔ یوشع نے غصے کال کاٹی ۔ مگر عنایہ بھی ڈھینٹوں  کی سردار تھی چند ہی سیکنڈ بعد کال دوبارہ آنے لگی ۔
یوشع کال کیوں ریسیو  نہیں کر رہے ؟مسلسل بجتی گھنٹی پر  صفہ  نے اسے پکارا تو کچھ جواب دینے بجائے وہ ٹیبل سے نیوز پیپر اٹھا کر وہ  مزے سے اسکی ورق گردانی کرنے لگا ، صفہ نے برتن سمیٹتے ہوئے سر جھٹکا ، یہ دونوں لڑتی کونجیں بھی نہ ۔
کافی دیر بعد وہ کافی کا مگ ہاتھ میں لیئے اپنے کمرے میں آیا اور بیڈ پر دراز ہوکر عنایہ کا نمبر پنچ کیا ، جو توقع کے عین مطابق فوراََ ہی ریسیو کر لیا گیا ، وہ منتظر تھی ۔
مزاج درست ہوئے آپ کے کزن ڈئیرسٹ ، اس نے تکیے پر سر ٹکا کر ایک ہاتھ نیچے دھرا ، لبوں پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ تھی ۔
میرے مزاج تو پہلے بھی ٹھیک تھے آپ سنائیے ؟؟
بس کیا کروں یار اتنا زیادہ بزی شیڈول ہو گیا ہے کہ اکتاہٹ ہونے لگتی ہے ، دل چاہ رہا تھا کہ کسی نمونے سے باتیں کرکے کچھ فریش ہوجاؤں ۔
آہاں ۔ تو پھر آپکی ابھی پاپا سے بات ہوئی تھی نہ ۔۔ عنایہ نے دانت نکالے
عنایہ یو شٹ اپ ۔ بدتمیزی کی کوئی حد ہوتی ہے اچھا ۔
اچھا ۔  لیکن میں تو سمجھی تھی کہ بدتمیزی اَن لمیٹڈ ہوتی ہے۔
بہتر ہوگا کہ تم اپنی سمجھ دانی کی کچھ صفائی ہی کرلو ۔ مکڑیوں کے جالوں نے تمہاری عقل پر برا اثر ڈالا ہے ہونہہ
ڈیئر کزن ۔ بہتر ہوگا کہ آپ  بھی آج ایک فیصلہ کر ہی لیں ۔
کیسا فیصلہ ؟ یوشع شدید تھکاوٹ کے باعث کچھ غائب دماغ سا تھا
کبھی آپ کو میرے کھوپڑی میں بھوسا نظر آتا ہے تو کبھی مکڑیاں اور جالے دکھائی دیتے ہیں۔
ہاں تو اس میں فیصلے کی کیا بات ہے سٹور رومز میں ہر طرح کا کاٹھ کباڑ اور حشرات پائے جاتے ہیں ۔
لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ وقت آنے پر گھر کی سب سے کارآمد جگہ یہی سٹور روم ثابت ہوتی ہے۔
ہاں ۔ اگر گھر میں چور یا ڈاکو آجائیں تو وہاں جاکر چھپا جا سکتا ہے کیونکہ وہاں آنے کی حماقت کوئی چور نہیں کرتا وہ بیڈ رومز ہی کھنگالتے ہیں۔
جی بلکل۔ اور پھر  عالیشان  بیڈ رومز کا ہو جاتا ہے صفایا ، اور جب ہاتھ کچھ نہیں بچتا تو بندے کو وہی سامان یاد آتا ہے جسے وہ کچھ عرصے پہلے  کاٹھ کباڑ قرار دیکر  اپنی زندگی سے نکال چکا ہوتا ہے۔ انسان بھی کتنا کن ظرف ہے نا ، جن آسائشوں کی تگ و دو میں وہ اپنی ساری  عمر گنوا دیتا ہے وہی اس کے لیئے کتنی جلدی بے وقعت ہوجاتی ہیں ۔
اہم، اہم ، یہ کس انڈین مووی کے ڈائیلاگز تھے صحیح یاد نہیں آرہا اس وقت ؟ یوشع نے شرارت سے آنکھ دبائی
بہت افسوس ہوا ، ویسے کب سے لاحق ہوا آپ کو یہ بھول جانے کا مرض۔ جناب ِعالی اس مووی کا نام تھا " ایک تھی عنایہ "
اوہ آئی سی ۔ یہ مووی مارکیٹ میں شاید ابھی آئی نہیں عنایہ بی بی ۔ یا پھر باکس آفس پر پہلے ہفتے ہی فلاپ ہو گئی تھی۔
جی۔ جبھی آپ کو اس کے ڈائیلاگز بھی از بر ہیں ۔ عنایہ نے برابر کی چوٹ کی ۔تو یوشع نے بے ساختہ آنکھیں بھینچ کر اونچا قہقہہ لگایا۔ واقعی غائب دماغی کے  آج اس نے سارے ریکارڈ توڑ دیئے تھے ۔
تم کافی جینئس ہوتی  جارہی ہو  ۔ کزن ڈیئرسٹ
میں تو جو تھی وہی ہوں آپ کچھ زیادہ ہی بزی ہوتے جارہے ہیں ، جب سے گئے ہیں بمشکل تین، چار دفعہ بات ہوئی ہے وہ بھی سرسری سی ۔ عنایہ نے منہ بسورا
اچھا تو لوگ ہمیں اتنا زیادہ مس کرتے ہیں کہ دن انگلیوں پر گنے جاتے ہیں ۔ یوشع نے سر نرم تکیے میں گھسا کر وٹ بدلی ، اپنی اس ازلی دشمن سے نوک جھونک اسے ہمیشہ فریش کر دیا کرتی تھی ۔
خوش فہمی ہے لوگوں کی مجھے کیا ضرورت پڑی ہے دن گننے کی ۔
اچھا چلو خوش فہمی ہی سہی ، یہ بتاؤ کہ سٹڈیز کیسی جا رہی ہیں اور وہ سب تمہارے سڑیل بیچ میٹس ۔ کیسے ہیں سب ؟ یوشع کو اپنی یونیورسٹی یاد آئی ، ڈاکٹر آفتاب ملک سے بھی بات کیئے ہوئے ہفتوں ہو گئے تھے۔
 سب ہی فٹ ہیں ، بس سٹڈیز میں تھوڑا مسئلہ ہے ، اس نے منہ بنایا تو یوشع کے  لبوں پر بے اختیار مسکراہٹ اتری
اچھا تو اس لیئے مس یا جارہا تھا مجھے ؟؟
 جی بلکل اور اب آپ کی خوش فہمی یقیناََ کوسوں  دور بھاگ گئی ہوگی ۔ عنایہ نے پوری بتیسی دکھائی ۔
خیر یہ لڑائی کسی اور وقت کے لیئے ملتوی کرتے ہیں، تم پوچھو یا مسئلہ ہے ۔
مجھے تھوڑی  مدد چاہیے تھی۔ میں نے سمیسٹر پراجیکٹ کے لیئے آرٹی فیشل انٹیلیجنس  کا انتخاب کیا ہے۔۔
اور مجھے یقین ہے کہ آپ نے یہ انتخاب اپنے  دوستوں کے ساتھ شرط  لگا کر  کیا ہوگا، یوشع کی آنکھوں میں نیند اتری تھی مگر وہ اپنی اس بہت پیاری دوست کو ناراض کرنے کا رسک نہیں لے سکتا تھا ، کیونکہ وہ جب ایک دفعہ ناراض ہوجاتی تھی تو
 پھر بہت پاپڑ بیل کر اس کو منانا پڑتا تھا ۔
آپ کو کیسے پتا ۔ آپ کوئ یہاں ہیں ؟؟
عنایہ بی بی ۔شاید آپکو معلوم نہیں کہ آپ کی یہ شرطیں  پورے غلام اسحاق خان انسٹیٹیوٹ میں مشہور ہیں اور مجھ بے چارے پر دوہرا ستم یہ ہوتا تھا کہ آپ کو جتوانے کے لیئے مجھے اپنے دن کا چین اور راتوں کی نیندیں حرام کرنا پڑتی تھیں ۔ یوشع نے دہائی دی ۔
اوکے ٹھیک ہے پھر مت کریں میری مدد ۔  سو جائیں۔  بائی ۔
ارے ارے کیشائر کیٹ ۔ ہولڈ یور ہارسز پلیز ۔ ناراض مت ہو یہ بتاؤ کے کیا ٹاپک لیا ہے ؟
کس ڈفر نے کہا ہے کہ میں ٹا پک لے لیا ہے ، وہ تو آپ مجھے بتائیں گے نا ۔
سنو عنایہ ۔ تم ایسے کچھ نہیں کر پاؤگی ۔ یوشع سنجیدہ ہوا
تمہیں اے آئی کو ابتدا سے پڑھنا اور سمجھنا ہوگا ، خاص طور پر  آرٹی فیشل انٹیلیجنس کے جو چار اہم سکول آف تھاٹس ہیں ان کو تمام تر باریکیوں کے ساتھ سمجھو گی تبھی تم کوئی پراجیکٹ کرنے کے قابل ہوگی ، کیونکہ بنیادی طور پراے آئی انسانی
دماغ اور اس کے افعال کو سمجھنے کی سائنس ہے ، ایسی سائنٹیفک تھیوریز بنانا جن کے ذریعے دماغ کے فنکشنز کو ناصرف پوری طرح سمجھا جاسکے بلکہ انکی بیس پر ایسی مشین میکینزم بنائی جائے جو  ہمارے ذہن سے تیز تر ہی نہیں مؤثر ترین بھی ہو ۔
ایک بات بتائیں ۔
جی پوچھو ۔ یوشع نے خوش دلی  سے کہا ۔
آرٹی فیشل انٹیلی جنس 1960 سے سب سے زیادہ ریسرچ  کیا جانے والا ٹاپک  آف دی ٹاؤن سمجھا جاتا ہے تو آج تک اتنے برسوں میں لاکھوں ریسرچرز  جن میں تایا التمش ہی نہیں آپ بھی شامل ہیں ، کس حد تک انسانی دماغ کو کھوج پائیں ہیں ؟
کیا کوئی اس  کی افعال کی اصل ٹیکنیکس کو سمجھ پا یا ہے ؟؟
 نہیں عنایہ جہاں تک انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی میں ترقی کا تعلق ہے تو کوئی شک نہیں کہ آج کا انسان بہت آگے جا چکا ہے، یہاں تک کہ مصنوعی انسانی اعضاء کی تخلیق پر بھی کئی عشروں سے کام جاری ہے، بٹ یو نو واٹ کہ دماغ انسانی جسم کا پیچیدہ ترین عضو ہے ، سائنس دان آج تک اس کی اصل میکینزم کو بھی نہیں سمجھ پائے۔کیونکہ یہ سب کچھ ہمارے الجھے اور پراگندہ ذہنوں کی کارستانی ہے جو ہمیں خیر سے ہٹا کر شر کی تاریک ، پراسرار  اور حولناک راہوں  کی طرف د ھکیلتا رہتا ہے ، اور جب ایک دفعہ جب ان  راستوں  پر قدم ڈگمگا جائیں تو پھر چاہ کر بھی  انسان اِن بھول بھلیوں سے نکل نہیں  پاتا ۔
مگر میں نے تو کہیں پڑھا تھا کہ "آرٹی فیشل برین "پر  کئی عشروں سے ریسرچ جاری ہے اور اب تک شاید سائنس دان اس پر بھی کوئی چھوٹا موٹا تجربہ کر ہی چکے ہوں ۔
یہ تم نے کب اور کہاں پڑھا ، یوشع کو حیرت ہوئی وہ تو سمجھا تھا کہ عنایہ اس معاملے میں بلکل کوری ہے اور صرف اسکی وجہ سے یا  اس سے متاثر ہوکر اس فیلڈ میں کچھ کرنا چاہ رہی ہے ۔
کزن ڈیئرسٹ ۔ عنایہ اب اتنی بھی نکمی نہیں ہے ، میں کافی سرچنگ کرتی رہی ہوں، یہ گوگل ایکس لیب کا ایک پراجیکٹ ہے جس میں انکی مالی معاونت مارک زوکر برگ اور کئی اور دنیا کے امیر ترین افراد کر ہے  ہیں ، " ایم مورٹیلیٹی ٹیکنالوجی "  کئی عشروں پر مشتمل پراجیکٹ ہے جس میں اب تک کچھ خاص پیش رفت نہیں ہوسکی ۔
گوگل ایکس لیب ۔ آرٹیفیشل برین ۔ ہینس جیسن ۔ یوشع کا دماغ یہ کڑیاں کئی ماہ پہلے ، التمش کی قبر سے حالِ دل بیان کرتے وقت ہی ملا چکا تھا ۔اور اس وقت بھی جب وہ انہی کے دیس میں ، اسی ادارے کے ایک اور اہم پراجیکٹ کا حصہ بن چکا تھا
اپنے ارد گرد منڈلاتے کئی مشکوک چہروں کو وہ شناخت کرچکا تھا ۔
ہے۔ یوشع خان کہاں کھو گئے ؟؟ عنایہ نے اسے پکارا تو  وہ خیالات کے سمندر سے غوطے لگاتا ہوا باہر آیا ۔
یار عنایہ ، اس وقت بہت تھکا ہوا ہوں پھر کوئی آئیڈیا ذہن میں آیا جسے تم باآسانی کر سکو تو  خود کال کروں گا ۔
اوکے ٹھیک ہے ، لیکن جلدی پلیز ۔ بھول مت جانا ۔ عنایہ نے تنبیہ کی
تمہارے حوالےسے میں آج تک کچھ بھولا ہوں کیا ؟؟ یوشع کا لہجہ سنجیدہ ہوا  تو دوسری طرف عنایہ کو سانپ سونگھا ۔
بولو ۔ چپ کیوں ہو؟
نہیں کبھی نہیں بھولے ۔ مگر اب آپ بہت دور چلے گئے ہیں نہ اور دور جانے والوں کا کچھ پتا تھوڑی ہوتا ہے ۔" ساحل پر آج آپ کو چھو کر گزر جانے والی موج ، پھر کب زندگی کے کس موڑ پر آکر آپ سے ٹکرائیگی ۔ یا آپ کو کبھی پھر ساحل دیکھنا نصیب بھی ہوگا  یا نہیں "کوئی نہیں جانتا ۔ عنایہ کے لہجے میں اداسیوں  کے ڈیرے تھے ۔
یوشع نے کچھ لمحوں تک سنجیدگی سے سیل کی سکرین کو گھورا  پھر دوبارہ کان سے لگایا
عنایہ ۔وقت اور حالات کی گارنٹی تو کسی کے پاس بھی نہیں ہے مگر میں اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ تم میرے لیئے  بہت خاص رہی ہو اور رہو گی ، میری وہ پیاری سی شرارتی سی دوست جس سے میں بلا جھجک اپنا ہر دکھ ، ہر مسئلہ  شیئر کرسکتا ہوں جو میں
عمو ماََ مما سے بھی نہیں کرتا ۔ بات سمجھ میں آئی ہے نہ ۔
مگر دوسری طرف جواب ندارد ۔
عنایہ میں نے پوچھا ، بات سمجھ میں آئی ہے نہ ؟؟ اس کی آواز میں بے پناہ سنجیدگی تھی
جی ۔ بے حد مختصر جواب آیا
اوکے ۔ بائی ۔کیچ یو لیٹر ۔ یوشع نے کال کاٹ کر سیل سائڈپر دھر ا اور  لیمپ آف کیا ۔ شدید نیند سے اسکی آنکھیں بند ہونے لگی تھیں ، چند ہی منٹوں بعد وہ گہری نیند کی وادیوں میں تھا ، مگر اس سے سات سمندر پار  بیٹھی عنایہ نے   اپنے روم کا خ کیا ، اسے
ابھی بہت ساری  سرچنگ کرنا تھی ، وہ خوابوں میں گم ہوجانے والی لڑکی نہ تھی ، وہ جانتی تھی اسے اگر یوشع کو پانا ہے تو  اس کی ذہنی سطح کے مطابق کچھ غیر معمولی کر کے دکھانا ہوگا ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 ہسپتال کے کوریڈور میں غیر معمولی سا سناٹا طاری تھا ، یوشع تیزی سے  لمبے لمبے ڈگ بھرتا   اس کمرے کی طرف رواں تھا جہاں معید گذشتہ دو ہفتے سے ایڈمٹ تھا اور تیزی سی گرتی حالت کے باعث ڈاکٹرز اس کی زندگی سے کچھ زیادہ پر امید نہ تھے ۔
کمرے میں داخل ہوکر یوشع نے معید کو آہستگی سے سلام کیا جو تکیوں سے ٹیک لگائے بیٹھے شاید اسی کے ہی منتظر تھے، اس نے ہاتھ میں پکڑا سفید ٹیولپ کا چھوٹا سا گلدستہ سائڈ ٹیبل پر دھرا ، پھر گزشتہ روز صفہ کے لائے ہوئے پھول گلدان سے نکال کر تازہ پھول سجائے، معید یک ٹک اسے دیکھے گئے، وہ ہو بہو التمش کی کاپی تھا ، وہی نین نقش ، وہی انداز و اطوار ، وہی ذہانت چھلکتی چمکدار آنکھیں ۔۔
وہ چھوٹے چھوٹھے قدم دھرتا ان کے پاس آکر بیٹھا تو انہوں نے شفقت سے اس کا ہاتھ اپنے کمزور ہاتھوں میں لیا ، جن کی رگیں بہت نمایاں تھیں ۔
جب کل تم صفہ بھابھی کے ساتھ آئے تھے نہ تب سے مجھے  یوں لگ رہا ہے التمش یہیں کہیں میرے آس پاس موجود ہے ، ایک مانوس سی خوشبو ہے جو ہر طرف سے میرا احاطہ کیئے ہوئے ہے۔
یوشع چونکا ، صفہ اور افراسیاب کے بعد معید وہ تیسرا شخص تھا جس نے اِس مانوس خوشبو کو محسوس کرکے اس کا ذکر بھی کیا تھا ۔
یوشع ، میں رات بھر نہیں سو سکا ۔ یو ای ٹی میں التمش کے ساتھ گزارے لگ بھگ پانچ سال ، پھر یہاں کیلیفورنیا میں دونوں کی مشترکہ جدوجہد ۔۔ سب کچھ کسی فلم کی طرح میری میموری پر ریورس ہوتا رہا ۔ یوشع نے ان کی آواز میں لغزش محسوس کرتے ہوئے ان کے ہاتھ مضبوطی سے تھامے جن کی کپکپاہٹ آواز سے زیادہ نمایاں تھی ، وہ ایک ہارا ہوا جواری تھا ۔ بظاہر ہاسٹن کے اس مہنگے ترین ہسپتال کے آرام دہ بیڈ پر لیٹے شخص نے دنیا کے نامور اداروں میں ایک سوفٹ ویئر انجینئر کی حیثیت
سے ذمہ داریاں نبھائی تھیں ، مگر آج اس کے نقاہت ذدہ چہرے پر پڑی ہوئی ان گنت جھریاں جیسے گواہ تھیں ، یہ کینسر کی آخری سٹیج کی شکست و ریخت نہ تھی ۔ کچھ اور تھا جو اس با ہمت شخص کو بہت پہلے اندر تک توڑ چکا تھا ۔ یوشع خاموشی سے انہیں
سنے گیا ، اس کی ساتویں حس بتا رہی تھی آج رات بہت سے عقدے کھلنے والے تھے ۔
یوشع تم میرے لیئے میری اپنی  اولاد سے بڑھ کر ہو ، اس لیئے کہ ان میں سے کوئی بھی تمہاری طرح با صلاحیت اور پر عزم نہیں ہے ، وہ ابھی اپنے مستقبل کے متعلق کوئی صحیح فیصلہ تک نہیں کر پائے اور تم  دنیا کے نامور ترین ادارے میں ذمہ داریاں سنبھال چکے ہو ۔ مجھے التمش پر رشک آیا کرتا تھا ، جب ہم کتابوں اور اسائنمنٹس میں سر کھپائے ، ٹیچرز کو اول فول سے نواز رہے ہوتے تھے تو وہ انٹر نیشنل لیول پر اپنی پہچان بنانے لگا تھا ، اور  تم تو اس معاملے میں اس سے دس قدم آگے ہو ۔ مسلسل بولتے رہنے سے معید کی سانسیں اکھڑی تو یوشع نے آگے بڑھ کر انکو سنبھالا ۔
یوشع میں نہیں جانتا قدرت  مجھے اور کتنا وقت  دینے والی ہے، ایک ماہ ، ایک ہفتہ یا محض ایک رات ۔ میں نے تمہیں اسی لیئے بلایا تھا کہ تمہیں آنے والے خطرات سے آگاہ کر سکوں ، تم اپنے باپ کی طرح سازشوں اور مکر و فریب کے جال میں پھنسنے چلے ہو ۔ یہ صرف تمہاری ذہانت اور صلاحیتوں کے بیوپاری ہیں ، ان کے لیئے ہر شخص کی قدر اور اہمیت صرف اس وقت تک ہوتی ہے جب تک وہ  ان کام آتا رہے ۔ میں نہیں چاہتا کہ التمش کی طرح تمہیں بھی اس وقت ہوش آئے جب فرار کا کوئی راستہ نہ ہو ۔
شاید تمہیں یاد بھی نہ ہو جب تم صرف دو برس کے تھے ، تم نے باپ کی دیکھا دیکھی اپنے روم میں ایک چھوٹی سی روبوٹ لیبارٹری بنانا شروع کردی تھی ، اگرچہ وہ سب کھلونا روبوٹس تھے مگر میں گھنٹوں تمہارے پاس بیٹھ کر اس چھوٹی سی
عمر میں تمہاری مہارت دیکھا کرتا تھا ۔ معید سامنے ساؤنڈ پروف وال کو دیکھتے ہوئے ماضی کی خوشگوار یادوں میں کھوتے چلے گئے۔
بھابھی ۔ یہ ہمارا  یوشع ڈارلنگ کہاں ہے ۔ کہیں نظر نہیں آرہا ؟؟ معید نے سامنے ٹیبل سے کافی کے مگ اٹھاتی صفہ کو پکارا ۔ وہ دو گھنٹے پہلے کچھ خاص ڈسکشن کے لیئے ویک اینڈ پر  التمش کے گھر آیا تھا اور تب سے یوشع غائب تھا ۔
وہ اپنی روبوٹ لیبارٹری میں گھسا ہوا ہے ، ابھی میں سینڈوچز دینے گئی تو صاحبزادے فرما رہے تھے ، مما آپ کو پتا ہونا چاہیئے کہ میں کام کے دوران کچھ کھانا پینا پسند نہیں کرتا  ۔ صفہ نے منہ بناتے ہوئے اپنے دو سال کے بیٹے کی کارنامے سنائے
تو بے اختیار ہنستے ہوئے معید نے التمش سے اجازت چاہی ۔ میں ذرا آپ کے بیٹے کی لیبارٹری دیکھ آؤ ۔
التمش بھی اس کے ساتھ ہی اٹھ کھڑا ہوا۔ مختصر سیڑھیاں چڑھ کر وہ اوپر پہنچے اور اس کمرے میں داخل ہوئے جو کڈز روم سے زیادہ واقعی کوئی لیبارٹری لگتا تھا ، ننھے  یوشع خان کارپٹ پر لیٹے کھلونا روبوٹ کا کوئی سکریو کھولنے میں مصروف تھے اور اس کے باقی پارٹس ارد گرد قالین پر بکھرے ہوئے تھے جو اس نے گذشتہ دو تین گھنٹوں کی محنت سے کھولے تھے ۔
ہیلو یوشع ۔ مائی بوائے کیا ہو رہا ہے ؟ معید نے اس کے قریب بیٹھ کر پکارا ، جب کہ التمش کمرے میں بکھری چیزوں کو سمیٹنے  لگا ، اس کی طبیعت میں نفاست تھی ، وہ ہر شے کو قرینے سے اپنی جگہ رکھتا اور رکھا دیکھنا پسند کرتا تھا  ، مگر یوشع کی طبیعت میں
ابھی سے بکھراؤ نمایاں تھا ۔ صاحبزادے کے سکریو ٹائٹ کرنے پڑیں گے ۔ اس نے سوچا مگر بولا کچھ نہیں ۔
معید انکل ۔ کیا آپ اپنے گلاسز گھر بھول آئے ہیں ؟؟ یوشع نے اس پر ایک نظر ڈالے بغیر کام میں مگن جواب دیا ، یہ ڈول کے سائز کا ایک موونگ روبوٹ تھا  جس کے وھیل بہت زیادہ کسے ہونے کے باعث وہ کھول نہیں پا رہا تھا اور قدرے جھنجھلایا
ہوا تھا ۔
نہیں بیٹا ۔ گلاسز تو میں یونہی سمارٹ نظر آنے کے لیئے لگایا کرتا ہوں ۔ لاؤ میں کھول دوں ۔ معید نے اسے خوش دلی سے آفر کی ۔
انکل آپ یہ مجھے  کتنی دفعہ  کھول دیں گے ؟؟ اس نے سر اٹھا کر استفسار کیا
بیٹا جتنی دفعہ آپ مجھے کہیں گے میں یہ کھول دونگا ۔
لیکن انکل آپ دو چار گھنٹے بعدیازیادہ سے زیادہ  رات تک اپنے گھر چلے جائیں گے اور پھر نیکسٹ ویک اینڈ پر ہی آئیں گے ۔ رائٹ ۔ اس نے تصحیح چاہی ۔
یس رائٹ یو آر ۔ میں ابھی کچھ دیر میں چلا جاؤنگا
تو جب آپ نہیں ہونگے تب بھی تو یہ مجھے خود ہی کھولنا  پڑینگے نا ۔ کیونکہ  پاپا بھی سارا دن گھر پر نہیں ہوتے اور ہوں بھی تو وہ میری کچھ   مدد نہیں کرتے ، سو مجھے ہیلپ کی عادت ڈالنے کے بجائے مجھے میرا کام کرنے دیں ۔ہوسکتا ہے مجھے اسے کھول کر ان پارٹس کو جوڑنے میں پورا ایک ہفتہ لگ جائے ، مگر میں یہ کام خود کرونگا ، اس کی  بڑی بڑی آنکھوں میں ستاروں کی سی چمک اور عزم تھا ۔
التمش نے بیٹے کی قدرے لمبی تقریر غور سے سنی۔ پھر ہاتھ میں پکڑی چیزیں ایک طرف دھرتا ہوا گھٹنوں کے بل کارپٹ پر اس کے نزدیک بیٹھ کر  یوشع کے ہاتھ تھامے ، انہیں آنکھوں اور ہونٹوں سے لگایا ۔
معید خاموشی سے باپ بیٹے کا یہ رومانس دیکھتا رہا ۔ تو پوت کے پاؤں پالنے میں ہی نظر آنے لگے ہیں ۔ گڈ لک یار
پاپا واٹ ہی سیڈ ؟؟ التمش اٹھنے لگا تو یوشع نے باپ کو پکارا ، وہ معید کا گاڑھی اردو میں بولا گیا محاورہ صحیح طرح سمجھ نہیں پایا تھا ۔
یوشع ڈارلنگ ۔ یہ کہہ رہے ہیں کہ تم اتنی چھوٹی عمر میں بڑے بڑے کام کرنے لگے ہو ۔ التمش نے گوگلز درست کرتے ہوئے وضاحت کی ۔
نو پاپا ۔ پلیز ڈونٹ میک می فول ۔ میں نے خود سنا ہے انہوں نے پاؤں اور پالنا  ورڈز استعمال کیئے تھے ۔ اس کے ننھے چہرے پر غصہ تھا
معید نے التمش  کا چہرہ دیکھ کر زور دار قہقہہ لگایا ۔ ایک وقت تھا  جب اسی طرح التمش انکی باتیں پکڑ کر انکو زچ کیا کرتا تھا ، مگر اب خود اسے اپنے گرو کا سامنا تھا ۔
بیٹا ۔ انہوں نے اردو کا ایک محاورہ استعمال کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ  کچھ بچوں کے پاؤں جھولے میں ہی نظر آنے لگتے ہیں ، یعنی وہ بھوٹی عمر سے بڑے کام کرنے لگتے ہیں ، التمش نے تحمل سے اسے سمجھایا
سوری پاپا ۔ یہ محاورہ تو مجھ پر اپلائی ہی نہیں ہوتا ، کیونکہ یو نو واٹ میں کبھی جھولے میں بیٹھنا تو کیا گود میں لیا جانا بھی پسند  نہیں کرتا تھا ۔ یوشع نے براسا منہ بنا یا اور اپنے کام میں مگن ہو گیا۔ اور وہ دونوں لبوں پر گہری مسکراہٹ لیئے  دروازہ بند کرتے اسکے کمرے سے  نکلتے چلے گئے ۔
اسی وقت ہلکی سی آہٹ ہوئی اور دروازہ کھلا ۔ شفٹ بوائے اپنی ڈیوٹی دینے  آیا تھا ۔  یوشع  خاموشی سے سر جھکائے باہر کوریڈور میں چلا  آیا ، جہاں کچھ فاصلے پر ایک فیملی کے چند افراد کھڑے آپس میں محوِ گفتگو تھے ۔ دس برس قبل ایسے ہی ایک ہسپتال میں  یونہی ایک رات اس نے اپنے باپ کے سرہانے بیٹھ کر کاٹی تھی  جس کی صبح موت کا پیغام لیکر  آئی تھی ، فرق صرف یہ تھا   کہ التمش کے منہ پر آکسیجن ماسک تھا جس کے باعث وہ کچھ بولنے سے قاصر تھا۔ کبھی کبھی وہ اپنی نقاہت ذدہ آنکھیں کھول
کر بیٹے پر ایک نظر ڈالتا تھا تو ان میں شناسائی بہت کم  جھلکتی تھی ، کیونکہ برین ٹیومر کی وجہ سے  التمش کی یاد داشت شدید متاثر ہوئی تھی ۔
مگر آج جو شخص یوشع کے سامنے ہسپتال کے بستر پر لیٹا ہو لے ہولے سانسیں لیے رہا تھا اسکی یاد داشت سب کچھ اگل دینے پر آمادہ نظر آتی تھی ۔ یوشع کی طرح شاید اسکی ساتویں حس بھی بہت تیز تھی اور با خبر بھی کہ وقت اب بہت کم رہ گیا تھا بہت  پھر کمرے میں بہت دیر سے چھائی یاسیت ذدہ خاموشی کو معید کی مدہم سی آواز نے توڑا۔
یہ التمش کی شادی کے کچھ عرصے بعد کی بات ہے ، جب سڈنی  میں ایک کانفرنس  کے دوران اس کی رابطے نکولا کیبوبو  نامی ایک جرمن سائنٹسٹ سے بڑھے اور دونوں نے مشترکہ طور پر " ہیومنا ئڈ روبوٹکس " نامی ایک پراجیکٹ کی بنیاد رکھی ۔ جسے ابتدا  میں چار سال تک انہوں نے ہر طرح سے خفیہ رکھا ، یہاں تک کہ میں جو التمش کا  دستِ راست سمجھا جاتا تھا وہ بھی اس سب پراسس سے لا علم رہا ۔
ہیومنائڈ روبوٹ ۔ یعنی انسان سے مشابہہ اسی کی طرح سوچنے سمجھنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھنے والا روبوٹ بنانا کوئی بچوں کا کھیل نہ تھا اس کے لیئے کثیر سرمائے کے علاوہ  بھرپور ٹیکنیکل معاونت کی بھی ضرورت تھی ، مگر اس سے پہلے  وہ اپنی ریسرچ مکمل کرنے پر لگے ہوئے تھے ،کہ نا جانے کس طرح التمش کی نکولا کے نام کچھ ای میلز لیک ہوئیں اور یہ سب کچھ بوسٹن ڈائنامکس  کے اعلی ٰ عہدیداروں  کے علم میں آتا چلا گیا ۔ اور  تم جانتے ہو نا کہ جب ایک دفعہ معاملہ اپنے ہاتھ سے نکل جائے تو پھر آپ آہستہ آہستہ  ہم  دوسروں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں ۔ ماضی کی راکھ کریدتے ہوئے معید انہی بھول بھلیوں میں کھوتے چلے گئے ۔
 
                                  جاری ہے
************************



Share on Google Plus

About Unknown

2 comments: