WELCOME TO MELTED TRUTHS

All Truths are easy to understand once they are discovered;the point is to discover them.(Galileo Galilei)

کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں ۔؟





           کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں ۔؟
                          





ایک طویل عرصے سے پاکستان پر دو سیاسی پارٹیز کی حکومت چلی آرہی ہے، بے نظیر جاتی تو نواز شریف آجاتا ، نواز شریف کو کبھی سپریم کورٹ تو کبھی افواجِ پاکستان گھر کا راستہ دکھاتے تو مارشل لا آجا تا ، یہی دھوپ چھاؤں کا کھیل دیکھتے دیکھتےشعور کو منزلوں کو پہنچے تو مستقبل کی تا ریک سیاسی راہ پر ایک ننھا سا دیا ٹمٹماتا نظر آیا ۔  ان گھٹا ٹوپ اندھیروں میں  امید کی کرن بننے والا وہ شخص ہر کسی کے لیئے یوں  بھی معتبر ٹہرا کہ اس کا تعلق کسی اعلیٰ سیاسی خانوادے سے نہیں تھا ۔وہ سپورٹس مین سپرٹ رکھنے والا ایک جنگجو فطرت اور باہمت انسان تھا جو ایک دفعہ کچھ کرنے کی ٹھان لیتا اور ساری دنیا بھی اسکی مخالفت پر اتر آتی تو وہ کسی  کو خاطر میں نہ لاتا تھا ۔
عمران خان نے جب پچھلی صدی کے اواخر میں اپنی سیاسی جماعت " پاکستان تحریک ِ انصاف " کی داغ بیل ڈالی تو پچانوے فیصد  با شعور پاکستانی عوام  کو  پکا یقین تھا کہ  عمران کی صورت میں انہیں  وہ  پر عزم لیڈر مل گیا ہے جو کرپشن اور لا قانونیت کے بھنور میں پھنسی ہماری  سیاسی ناؤ کو پار لگانے میں ضرور کامیاب ہو جائیگا۔ مگر وقت گزرتا رہا ، برس ہا برس بیت گئے،  پہلے پہل سنہرے آدرش کی جگہ کھوکھلے سیاسی نعروں نے لی، اعلی ٰ تعلیم یافتہ  نوجوان قیادت پیچھے ہٹتی گئی اور وہی گھسے پٹے ۔ ادھراُدھر لڑھکتے عمر رسیدہ لوٹے   پارٹی پر چھانے لگے۔ مگر قوم اس شخص سے امیدیں باندھ کر سرفِ نظر کرتی گئی۔ وہ " لانگ مارچ" کا اعلان کرتا  تو نوجوان تپتی  دوپہروں میں  دیوانہ وار اس کے پیچھے نکل کھڑے ہوتے ، عمران خان "دھرنوں کی کال"دیتا  تو برسوں سےظلم و ناانصافی کی چکی میں پستی  پاکستانی عوام شدید ٹھنڈ اور طوفان ِ بادو باراں کی پروا کیئے بغیر  اپنے اکلوتے مسیحا کی ایک آواز پر لبیک کہتی گھروں سے نکل کھڑی ہوتی ۔ مگر وقت نے دیکھا  عمران  خان انکا  وہ مسیحا نہ تھا جس میں  انکی تقدیر  بدلنے کی سکت  ہوتی،  جب عوام لو کے تھپیڑوں  کی زد  پہ میدانوں اور سڑکوں پر جھلس رہی ہوتی تھی تو عمران اپنے ایئر کنڈیشنڈ کنٹیز میں محو ِ استراحت ملتا  ، جب   ٹھٹرتی راتوں میں اسکی ایک کال پر اپنا گھر بار کاآرام چھوڑ کر  اپنی عصمت  کی پروا کیئے بغیر  دھرنے میں آ بیٹھنے والی خواتین موسمی حالات اور ارد گرد منڈلاتے " بھیڑیوں" سے نبرآزما  ہوتی تھیں  تو ان کا " برگرلیڈر " بنی گالا کے محل نما  بیڈروم میں نئی شادی اور حسین راتوں کے  سپنے دیکھنے میں مصروف ہوتا ۔مگر قوم پھر بھی عمران خان کا ساتھ نبھاتی رہی ۔کہ چند کوتاہیوں پر اسکی برس ہا برس کی سسٹم تبدیل کرنے کی کاوشوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا ۔ آخر کوئی تو تھا جو لالچ ، خود غرضی ، مفاد پرستی ، کینہ پروری اور کرپشن کی غلاظت میں لتھڑے اس معاشرے میں حق کے لیئے آواز اٹھا رہا تھا ۔کوئی تو تھا  جو  حب الوطنی اور پارساؤں کے لبادوں میں ملبوس ، وطن ِ عزیز کو ذاتی انا ؤں کی بھینٹ چڑھا دینے والے ان سیاسی  لوٹوں  کے  چہروں سے نقاب اتارکر ان کے اصل گھناؤنے چہرے بے نقاب کرنے کی سعی کرتا تھا ۔
سو عوام عمران خان کا ساتھ نباتی رہی ۔ لگ  بھگ ایک برس قبل پانامہ لیکس کا پینڈورا بکس کھلا  اور عمران خان نے ہر فورم پر آواز اٹھانے کے بعد  سپریم کورٹ سے رجوع کیا تب سے ہر  کسی کی نظر    اِسی طرف لگی ہوئی تھیں ، آئے روز دھماکہ دارخبریں اور الزامات سامنے آتے رہے، کیس کے اعلیٰ عدالت میں زیر ِ سماعت ہونے کے باوجود فریقین نے  اخلاقیات کی وہ دھجیاں اڑائیں کہ با شعور لوگوں کا رہا سہا اعتماد بھی جاتا رہا ۔ یوں محسوس ہونے لگا کہ یہ کرپشن کے خلاف ، یا انصاف کے لیئےلڑی جانے والی جنگ نہیں ، یہ  محض دو قائدین اور ملک کی دو بڑی جماعتوں  کے درمیان انا کی رسا کشی ہے جہاں ہار اور جیت کا پیمانہ نواز شریف کی نا  اہلی تک محدود تھا ۔
قوم پھر بھی عمران کے شانہ بشانہ کھڑی ایک بڑے فیصلے کا انتظار کرتی رہی کہ لٹیروں کی اس بستی میں  کوئی تو تھا جو ان کے حق کے لئے نا سہی، اپنی انا کی تسکین  اور حکومت کے حصول کے لیئے ہی  کرپشن کے خلاف آواز تو اٹھا رہا تھا، یہ فیصلہ ایک نئی تاریخ بھی رقم کر سکتا تھا ، مگر صد حیف کہ اس  معاشرے میں  صاف پانی سے لیکر اعلیٰ عدالتوں تک ہر شے  قابلِ فروخت ہے ، جہاں آئین ِ پاکستان محض  کاغذوں
 کا پلندہ اور ہر طرف جنگل کا قانون  را ئج ہے سو ایک دفعہ پھر  پوری قوم کو   ایک نئی پہلےسے  زیادہ گہری دلدل میں دھکیل دیا گیااور انصاف  کی جنگ لڑنے والے مرد ِ مجاھد  پھر سے وہی لانگ مارچ اور دھرنوں کا پرانا راگ الاپنے بیٹھ گئے ۔
بلاشبہ سپریم کورٹ کا یہ ایک فیصلہ پوری قوم کے لیئے لمحۂ فکریہ ہے ، اگر اعلیٰ عدالتیں سوشل میڈیا پر بڑھتی ہوئی توہین ِ  رسالت پر قانون سازی کروا  کر معاشرے میں عدم برداشت اور  جارحیت کا ایک نیا چلن روا کر سکتی ہیں تو کیا ہمارے  معزز جج صاحبان کو  ملک میں ناسور کی طرح پھیلتی ، قومی اداروں کو دیمک  بن کر چاٹتی  کرپشن نظر نہیں آتی ۔ کیا  پانامہ لیکس  کیس کو بنیاد بنا کر  کوئی ایسا اعلیٰ ترین فیصلہ صادر نہیں کیا جاسکتا  تھا جو  وطنِ عزیز کو ذاتی پراپرٹی سمجھ کر لوٹنے والے ہر صاحبِ اقتدار کو نمونۂ عبرت بنا نے کا باعث بن جاتا ، کیا اس فیصلے  کے ذریعےکرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی کوئی مؤثر سٹرٹیجی   بنانے کی داغ بیل نہیں ڈالی جاسکتی تھی ؟؟ کیا ملک کی اعلیٰ عدالتوں کے لیئے بھی یہ محض دو سیاسی پارٹیز کی سیاسی جنگ تھی یا  یہ مجموعی پاکستان معاشرے کی ایک گھناؤنی تصویر تھی جہاں  پلمبر سے لیکر  وزیر ِاعظم تک   کرپٹ ہے۔ اس ملک سے اپنا حق تو ہر کوئی لے رہا ہے مگر اپنی اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں  مجھ سمیت سب صفر ہیں۔یہاں اگر کوئی اپنے حق کے لیئے آواز اٹھاتا ہے تو اسے   مشعال خان کی طرح کیڑے مکوڑوں کی طرح کچل کر  دنیا کے لیئے نمونۂ عبرت بنا دیا جاتا ہے اور انصاف کے ٹھیکیدار اس صوبے کے برگر لیڈر اسی سپریم کورٹ کے آگے جھولی پھیلائے بیٹھےرہ جاتے ہیں ۔
مان  لیجیئے ۔ کہ ہماری حکومتیں نا ہل ، اعلیٰ عدالتیں بکاؤ اور سیاسی کرتا دھرتا  جانوروں سے بدتر تو ہیں ہی ، ہم خود ایک" کرپٹ قوم " ہیں ۔ ہمارے ضمیر مردہ اور ہاتھ پاؤں ہی نہیں ، دماغ بھی کند اور ناکارہ ہیں ، ہم میں اپنے حق کے لیئے آواز اٹھانے کی ہمت ہی نہیں رہی، ہم شب و روز ایک مسیحا کی راہ تکتے کبھی  مشرف، کبھی عمران اور کبھی راحیل شریف کی صورت میں اپنا وہ  نجات دہندہ تلاشتے رہتے ہیں جو آئیگا اور جادو کی چھڑی سے سب کچھ ٹھیک کردیگا ۔
مان لیجیئے کہ آپ کا مسیحا عمران خان نہیں ہے ، آپ کا مسیحا  سپریم کورٹ بھی  نہیں ہے ، آپ کا  ، میرا ، ہم سب کا مسیحا  دو جہانوں کا مالک خدائے بزرگ و برتر ہے ، ایک دفعہ اللہ پاک پر بھرپور توکل کے ساتھ  اپنےاور  آنے والی نسل کے جائز حق کے لیئے آواز اٹھا کر تو دیکھئے، پھر دنیا کی کوئی 
طاقت  ایک انقلاب ِ عظیم کو روک نہیں پائیگی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭                                 

                                  
Share on Google Plus

About Unknown

0 comments:

Post a Comment