WELCOME TO MELTED TRUTHS

All Truths are easy to understand once they are discovered;the point is to discover them.(Galileo Galilei)

" دریچہ" نویں قسط The Valve






"دریچہ"



"A Novel Based on Artificial Intelligence" 
   

نویں قسط 


یوشع نےاپنی جلتی ہوئی آنکھوں کو انگلیوں کی پور سے کے ساتھ بے دردی سے مسلتے ہوئے   سامنے کھڑے ڈاکٹرز اور نرسوں سے آنکھوں میں اتر آنے والی نمی چھپانے کی ایک ناکام کوشش کی ، ساری رات اس نے خاموشی سے معید ظفر کو تکتے
ان کی باتیں سنتے کاٹی تھی ، یوں لگتا تھا کہ آج وہ سب کچھ شیئر کر دینا چاہتے ہیں جو   ناجانے کب سے وہ اپنے سینے میں چھپائے بیٹھے تھے ، پھر کس پہر اس کی آنکھ لگی ، اور انہی لمحوں میں فرشتۂ اجل وارد ہوا۔
کچھ اسی طرح بارہ برس قبل التمش بھی اس سے بچھڑا تھا ، آج  یوشع نے باپ کی وہ آخری نشانی بھی کھو دی تھی جس سے اسے بچپن ہی سے بے حد  انسیت تھی ۔ وہ کب روم سے باہر آیا اور میکانکی انداز میں صفہ کا نمبر ڈائل کیا ، اسے کچھ خبر نہیں تھی
مما ۔ معید انکل از نو مور ۔ رندھی ہوئی آواز میں وہ بس اتنا ہی بول پایا ۔ اور دوسری طرف  خاموشی کے ساتھ بغیر ایک لفظ کہے صفہ نے کال کاٹ دی تھی ، بچپن سے غمو ں کی ماری صفہ نے اتنے دکھ جھیل لیئے تھے کہ اب  ہر نئے ستم پر آنکھیں
بھی بمشکل چھلکا کرتی تھیں ۔
معید کی وصیت کے مطابق  پاکستان میں انکی تدفین کے انتطامات پہلے  ہی کیئے جا چکے تھے ، اسے فیصل آباد میں آبائی قبرستان میں  دفن کیا جانا تھا ۔ تین روز بعد وہ سب سوات میں کرنل افراسیاب کے کشادہ ڈرائنگ روم میں آمنے سامنے بیٹھے تھے
اور خاموشی اتنی گہری تھی کے گلاس وال کی پرلی طرف  سرسراتے پتوں کی آواز بھی واضح سنائی دیتی تھی ۔ ہر کسی کے پاس کہنے کے لیئے بہت کچھ تھا ، مگر شاید کچھ بھی نہ تھا ۔ کافی دیر کی چھائی اس گمبھیرتا کو دور سے آتی عصر کی اذان نے توڑا
حی الا الفلاح ۔ حی الصلوۃ ۔
 اس پکار پر لبیک کہنے والوں میں پہل صفہ نے کی ، پھر انکے پیچھے افراسیاب اور  گل رخ بھی لاؤنج سے نکلتے چلے گئے۔ یوشع نے جو بہت دیر سے سامنے وال کو تکتے ہوئے ناجانے کن سوچوں میں غرق تھا  ایک اچٹتی نظر دوسرے صوفے پر  بیٹھی عنایہ
پر ڈالی پھر   براؤن جیکٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا ۔ آؤ عنایہ  باہر لان میں چلتے ہیں ۔
کچھ دیر بعد وہ لان کی چھوٹی سیڑھیوں  پر ساتھ ساتھ بیٹھے تھے ، عنایہ نے آس پاس  بکھرے خزاں ذدہ پتوں کو ہٹا  کر جگہ صاف کی پھر ننگے پاؤں ٹھنڈی سیڑھی پر دھرے ، اس روز موسم معمول سے زیادہ خنک تھا  مگر وہ اس وقت اتنی ڈپریشن کا
شکار تھی کہ اسے  یہ ٹھنڈک اپنے اندر اترتی محسوس ہوئی تھی ۔"  قبر میں بھی تو کچھ ایسی  ہی ٹھنڈک ہوتی ہوگی ؟؟" یکدم اس کے ذہن میں ایک تصور ابھرا تو اس نے جھر جھری لی، پھرچونک کر یوشع کو دیکھا ، جو  چند سوکھے پتوں کو مٹھیوں
میں  بھینچ کر مسل رہا تھا ۔
 عنایہ کبھی تم نے  بہار کو خزاں میں ڈھلتے دیکھا ہے ؟؟ لا محالہ یوشع کی سوچوں کا مرکز بھی اس وقت وہی تھا جو عنایہ کا ۔
 بچپن سے  دیکھتی آئی ہوں ، جب میں چھوٹی تھی  تو ان گرتے پتوں سے مجھے چڑ ہوتی تھی ، میں ماما سے کہا کرتی کہ   لان میں کوڑے کا ڈھیر لگ گیا ہے، ہر طرف پتے بکھرے پڑے ہیں ، مگر اب  ناجانے کیوں  مجھے یہ خزاں بری نہیں لگتی ۔
اس لیئے عنایہ کہ  تم اب میچو ر ہو گئی ہو  ، تمہیں یہ ادراک ہو گیا ہے  کہ جس طرح ہر عروج کو زوال ہے  اسی طرح  ہر بہار اپنا جوبن دکھلا کر بلا آخر  خزاں میں ڈھل جاتی ہے ۔ ہم ساری عمر جن خواہشات کے حصول کے لیئے اندھا دھند بھاگتے
ہیں ، جو ایک عرصے تک   ہماری انا کا مسئلہ  بننی رہتی ہیں وہی   کتنی جلدی  بے معنی ہوجاتی ہیں ۔ بس ایک سانس کی ڈوری ہے  جس سے زندگی کے یہ سب میلے ، سارے خواب اور خواہشات ، یہ سب گورکھ دھندے  جڑے ہوئے ہیں ۔ کبھی یہ ڈوری
آہستہ آہستہ  کمزور پڑ کر  اپنے مقررہ وقت پر ٹوٹتی ہے، تو کبھی اچانک ۔ مگر موت بہر حال بر حق ہے ۔
اگرچہ  ہم اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ ہیں  کہ ہماری ساری سرگرمیاں ، تمنائیں اور آنکھوں تلے در آنے والا ہر نیا خواب  ، سانسوں کے اسی آتے جاتے سلسلے سے جڑا ہوا ہے ، مگر پھر بھی ہم کسی کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے اس سے بے خبر
رہنا پسند کرتے ہیں ۔
 یوشع ۔ ہمیں موت اسی وقت کیوں یاد آتی ہے  جب ہم کسی کے جنازے کو کاندھا دیکر آتے ہیں ؟؟ عنایہ  غیر معمولی اداس تھی ۔
 عنایہ ڈیئر ۔ بھول جاؤ ان اچھے وقتوں کو  جب کسی کا جنازہ اٹھتا دیکھ کر  لوگوں پر موت کی ہیبت اور تھرتھری طاری ہو جایا کرتی تھی ، بھول جاؤ ان بیتے سنہرے  دنوں کو جب دلوں میں خوفِ خدا  ، آنکھوں میں حیا  تھی اور ضمیر زندہ تھے۔ آج چند گھنٹے
پہلے تک جنازے سے لپٹ کر دھاڑے مار کر رونے والے ، کچھ دیر بعد دستر خوان پر بیٹھے ، ذردہ پلاؤ اور بریانی سے شکم سیر کر رہے ہوتے ہیں ۔ بھول جاؤ  ان نایاب وقتوں کو  جب اولاد ماں  باپ کے ایصال ِ ثواب کے لیئے صرف اگلی جمعرات تک  کلمہ
درود  کا تردد نہیں کرتی تھی ، آج کل تو  قرآن خوانی کے ساتھ فیس بک اور واٹس ایپ چل رہے ہوتے ہیں ، ایک ہاتھ میں تسبیح اور دوسرے میں سمارٹ فون ہوتا ہے۔ یوشع کے گرم لہجے میں شدت کی کاٹ تھی ۔
اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ  ہماری زندگی میں بڑھتا  ہوا ٹیکنالوجی کا اثر و رسوخ  نا صرف صدیوں پرانے ہمارے معاشرتی ڈھانچے کی تباہی کا سبب بن رہا ہے بلکہ اس طرح ہم  اپنی اخلاقی اقدار او ر سوہنے مذہب  اسلام سے بھی دور ہوتے جا رہے ہیں ؟
 بلکل ایسا ہی ہے کزن ڈئیرسٹ ۔ ہم تیزی کے ساتھ ایک اندھے کنویں کی طرف بڑھتے جارہے ہیں ، اور ہمارے لیئے  یہ سب کچھ دیگر اقوام کی نسبت زیادہ تباہ کن ہماری ازلی جہالت کی وجہ سے ہے۔ اب تم فیس بک کو ہی دیکھ لو ، ایک پلیٹ فارم بنایا گیا تھا ،  دنیا بھر کے لوگوں کو  جوڑنے کے لیئے ، تاکہ قومیتوں کے فرق  اور اختلافات کو ختم کرکے  دیرپا عالمی امن  اور استحکام کو ممکن بنایا جا سکے ، مگر تم خود دیکھ رہی ہو نا کہ ہم نے اس کا بھی کیا حشر کیا ہے ۔ آج پاکستان میں سبزی والے سے لیکر پلمبر تک آٹھ آٹھ آئی ڈیز کے ساتھ  فیس بک  استعمال کرتا ہے  جن میں نصف لازمی خواتین  کے ناموں سے بنی ہوتی ہیں ۔ ایک انٹرنیشنل فورم پر یہ  ناصرف پاکستان کی جگ  ہنسائی کا باعث بنی بلکہ  ان کی وجہ سے دوسرے ممالک کے لوگوں کا پاکستانیوں
پر سے اعتبار اٹھتا گیا ۔
ہم نے اگر اسی پر بس کر لیا ہوتا تو صورتحال اتنی گمبھیر نہ ہوئی ہوتی  مگر یو نو واٹ کہ ہم سے زیادہ سچا اور خالص مسلمان تو کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا ۔ پانی پینے کے طریقوں سے لیکر ، حلالہ جیسے حساس مسائل تک کے لیئے اگر تمہیں  کوئی فتویٰ درکار ہو
تو کسی بھی اسلامک نالج والے فیس بک گروپ سے رجوع کر سکتی ہو ، تمہیں منٹوں میں  قرآن اور حدیث  کے حوالوں کے ساتھ مطلوبہ معلومات مل جائیں گی ،  مگر پتا ہے کیا ، سب سے بڑا کمال یہ ہوگا  کہ ہر گروپ بلکل الگ فیصلہ صادر کریگا اور اپنے
 قرآن و سنت  کے حوالوں  کے ساتھ مصر رہے گا کہ  صرف وہی درست ہیں ، باقی سب غلط ہیں ، کافر ہیں ، مشرک ہیں ۔ زندیق ہیں ۔  یوشع لگاتار بولتا اپنی بھڑاس نکالتا چلا  گیا ۔
 مگر ایسا کیوں ہے یوشع ؟ تمام  تعلیمات کا ماخذ تو ایک قرآن ، حدیث اور سنت ِ رسولﷺ ہے نا تو پھر یہ سر پھٹول کیوں ؟؟ سوچنے یا سمجھنے کے اختلاف کے باعث اصل تھیوری تو تبدیل نہیں  کی جاسکتی ؟؟
یہی تو اصل مسئلہ ہے  عنایہ ، آج کے مسلمان کے لیئے دین سے زیادہ اہم ذاتیات ہیں ، وہ جب چار افراد میں کوئی اسلامی ایشو زیر ِ بحث دیکھتا ہے  تو اس کے لیئے سب سے اہم خود کو دوسروں سے بر تر اور باقی سب کو کم تر ثابت کرنا ہوتا ہے ۔ حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ انبیاء ہوں یا رسل یا اولیائے کرام سب ہی نے تبلیغ ِ اسلام دلائل کے ساتھ حسنِ عمل سے کی تھی ۔ اللہ تعالیٰ کے پیغام کو دلوں میں اتارنے کے لیئے  حجت کی ضرورت  نہیں پڑتی ، اس میں از خود اتنی تاثیر ہے کہ  یہ پتھر سے پتھر دل کو بھی موم کرنے کی خاصیت رکھتا ہے۔ لیکن اگر آپ قرآن و سنت سے ہٹ کر اپنی ذاتی فلاسفی دوسروں کے دماغوں میں ڈالنے کی کوشش کریں او ر بضد رہیں کہ صرف آپ ہی درست ہیں ، غیر مسلم کے پتھر کا جواب  گالی اور گالی کا جواب اس
سے  گندی مغلظات سے دیں تو  میرے خیال میں آپ اس کافر سے بھی بد تر ہیں ، کیونکہ اس کے اخلاقیات سے گرے ہوئے عمل میں  اسکی لاعلمی کا بھی دخل تھا مگر آپ تو خود کو صاحب ِ علم کہہ کر  اس کی سطح سے بھی  نیچےجا رہے ہیں ۔اس بڑھتی ہوئی جارحیت اور عدم برداشت کے رویوں کا نتیجہ  لا محالہ وہی نکلنا تھا  جو سپریم کورٹ نے نکالنے کی کوشش کی ہے۔
لیکن یوشع ۔ میرا نہیں خیال کہ اس طرح  یہ سب کچھ بند ہو جائیگا ، یہ عدم برداشت اب ہمارے رویوں کا حصہ بنتی جارہی ہے ، کوئی کسی کی سننے ماننے کو تیار نہیں ، آپس کی محبتیں ، اخلاقیات کے ماں باپ کے پڑھائے درس سب کچھ ہم لوگ بھولتے
جارہے ہیں ۔  کیا اسلام کے خلاف بڑھتا مخاصمانہ عالمی رویہ اور  دشمنی  سپریم کورٹ کے ایک فیصلے سے  ختم ہوجائیگی ؟؟
 نیور  عنایہ ۔ بلکہ مجھے نوے فیصد یقین  ہے کہ اس طرح عدم برداشت  مزید پروان چڑھے گی  اور دنیا بھر میں مسلمانوں کے انتہا پسندانہ امیج اجاگر کرنے میں اس طرح کا کوئی فیصلہ مزید معاون ثابت ہوگا ۔ کیونکہ انتہا پسندی اور جارحیت کی تعلیم
اسلام ہی نہیں  بدھ مت سمیت کوئی بھی دوسرا مذہب نہیں دیتا ۔ ایک طرف آپ خود کو  اسلام کا جانباز سپاہی بھی قرار دے رہے ہیں دوسری طرف  سر ِ عام یہ اعلان بھی کہ مذہب اور عظیم المرتبت ہستیوں  کی خلاف ایک لفظ برداشت نہیں  کیا جا ئیگا
 حالانکہ اسلام تو دین ہے استقامت اور صبر کا ، برائی  کا جواب نیکی ، اور گا لی کے جواب میں دعا دینے کا ۔ عنایہ نے  چونک کر یوشع کو دیکھا اس کے لہجے  کی تپش بہت نمایاں تھی اور   وہ چیڑ کے درخت سے  لگاتار   گرتے پتوں کو دیکھ کر  نان سٹاپ بولے چلا جا رہا  تھا ۔  عنایہ نے اسے شاذو نادر ہی نماز پڑھتے دیکھا تھا ، صفہ کی ڈانٹ پھٹکار پر وہ نماز پڑھتا تو ضرور تھا  مگر کہیں کسی کونے میں  دوسروں سے نظر بچا کر   یوں پڑھ آتا تھا کہ کسی کو کانوں  کان خبر نہیں ہو پاتی تھی ۔ مگر اس  لاتعلقی کے با وجود وہ اسلام اور اس کی اقدار کے بارے  میں کس قدر شدت سے محسوس کرتا تھا ۔۔
پھر وہ اپنی بات ختم کر کے  یونہی سر جھکائے اٹھا  اور چھوٹے چھوٹے قدم  اٹھاتا اندر چلا گیا ، حسبِ عادت کسی کونے کھدڑے میں نماز ادا کرنے کے لیئے ۔۔
اگلے روز انکی  کیلیفورنیا واپسی تھی ،" زندگی  نے کچھ دن کے توقف کے بعد پھر سے اسی ڈگر پر رواں ہوجانا تھا  ، جہاں  ہر کوئی ایک دوسرے کو مات دینے اور پچھاڑنے کے لیئے اندھا دھند  بھاگے چلا جا رہا تھا ، خواہشات کا ایک سیل ِ رواں  ہے  جو اسے لمحے بھر کو تھم کر سانس ہموار کرنے کی مہلت دینے پر  بھی آمادہ نہ تھا ۔ ہوش اس وقت آتا ہے جب  دماغ شل اور اعضاء مفلوج ہونے کے در پر ہوتے ہیں اور زندگی کی دوڑ سے ہمارا پتا کاٹا جا چکا ہوتا ہے ۔"

  ﻋﻤﺮ ﮐﯽ ﻧﻘﺪﯼ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﺋﯽ
  ﮨﻢ ﮐﻮ  ﺩﮬﺎﺭ ﮐﯽ ﺣﺎﺟﺖ ہے
ﮨﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺟﻮ ﺳﺎﮨﻮ ﮐﺎﺭ ﺑﻨﮯ



ﮨﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺟﻮ ﺩﯾﻮﻥ ﮨﺎﺭ ﺑﻨﮯ
ﮐﭽﮫ ﺳﺎﻝ ،ﻣﮩﯿﻨﮯ، ﺩﻥ ﻟﻮﮔﻮ



ﭘﺮ ﺳﻮﺩ ﺑﯿﺎﺝ ﮐﮯ ﺑﻦ ﻟﻮﮔﻮ
ﮨﺎﮞ  ﭘﻨﯽ ﺟﺎ  ﮐﮯ ﺧﺰﺍﻧﮯ سے



ﮨﺎ  ﻋﻤﺮ ﮐﮯ ﺗﻮﺷﮧ ﺧﺎﻧﮯ ﺳﮯ
ﮐﯿﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﺳﺎﮨﻮ ﮐﺎﺭ ﻧﮩﯿﮟ



ﮐﯿﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﺩﯾﻮﻥ ﮨﺎﺭ ﻧﮩﯿﮟ
ﺟﺐ ﻧﺎﻡ  ﺩﮬﺮ ﮐﺎ ﺁﯾﺎ ﮐﯿﻮﮞ

ﺳﺐ ﻧﮯ ﺳﺮ ﮐﻮ ﺟﮭﮑﺎﯾﺎ  ہے

ﮐﭽﮫ ﮐﺎﻡ ﮨﻤﯿﮟ ﻧﭙﭩﺎﻧﮯ ﮨﯿﮟ
ﺟﻨﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﮨﯿﮟ
ﮐﭽﮫ ﭘﯿﺎﺭ ﻭﻻﺭ ﮐﮯ ﺩﮬﻨﺪﮮ ﮨﯿﮟ
ﮐﭽﮫ ﺟﮓ ﮐﮯ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﭘﮭﻨﺪﮮ ہیں
ﮨﻢ ﻣﺎﻧﮕﺘﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﺰﺍ  ﺑﺮﺱ
ﺩﺱ ﭘﺎﻧﭻ ﺑﺮﺱ ﺩﻭ ﭼﺎﺭ ﺑﺮﺱ
ﮨﺎﮞ ،ﺳﻮﺩ ﺑﯿﺎ  ﺑﮭﯽ ﺩﮮ ﻟﯿﮟ گے
ﮨﺎ   ﻭﺭ ﺧﺮﺍ  ﺑﮭﯽ ﺩﮮ ﻟﯿﮟ گے
ﺁﺳﺎﻥ ﺑﻨﮯ، ﺩﺷﻮﺍﺭ ﺑﻨﮯ



ﭘﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﺩﯾﻮﻥ ﮨﺎﺭ ﺑﻨﮯ
ﺗﻢ ﮐﻮﻥ ﮨﻮ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﻧﺎﻡ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ
ﮐﭽﮫ ﮨﻢ ﺳﮯ ﺗﻢ ﮐﻮ ﮐﺎﻡ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ
ﮐﯿﻮﮞ   ﻣﺠﻤﻊ ﻣﯿﮟ ﺁﺋﯽ ﮨﻮ
ﮐﭽﮫ ﻣﺎﻧﮕﺘﯽ ﮨﻮ ؟ ﮐﭽﮫ ﻻﺗﯽ ہو
ﯾﮧ ﮐﺎﺭﻭﺑﺎﺭ ﮐﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮨﯿﮟ



ﯾﮧ ﻧﻘﺪ ﺍﺩﮬﺎﺭ ﮐﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮨﯿﮟ
ﮨﻢ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﺸﮑﻮﻝ ﻟﯿﮯ



ﺳﺐ ﻋﻤﺮ ﮐﯽ ﻧﻘﺪﯼ ﺧﺘﻢ ﮐﯿﮯ
ﮔﺮ ﺷﻌﺮ ﮐﮯ ﺭﺷﺘﮯ ﺁﺋﯽ ﮨﻮ



ﺗﺐ ﺳﻤﺠﮭﻮ ﺟﻠﺪ ﺟﺪﺍﺋﯽ ﮨﻮ
  ﮔﯿﺖ ﮔﯿﺎ ﺳﻨﮕﯿﺖ ﮔﯿﺎ



ﮨﺎ  ﺷﻌﺮ ﮐﺎ ﻣﻮﺳﻢ ﺑﯿﺖ ﮔﯿﺎ
  ﭘﺖ ﺟﮭﮍ ﺁﺋﯽ ﭘﺎﺕ ﮔﺮﯾﮟ



ﮐﭽﮫ ﺻﺒﺢ ﮔﺮﯾﮟ، ﮐﭽﮫ ﺭﺍ ﺕ گریں
ﯾﮧ  ﭘﻨﮯ ﯾﺎﺭ ﭘﺮﺍﻧﮯ ﮨﯿﮟ



ﺍﮎ ﻋﻤﺮ ﺳﮯ ﮨﻢ ﮐﻮ ﺟﺎﻧﮯ ﮨﯿﮟ
  ﺳﺐ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮨﮯ ﻣﺎﻝ بہت



ﮨﺎ  ﻋﻤﺮ ﮐﮯ ﻣﺎﮦ  ﺳﺎﻝ ﺑﮩﺖ
  ﺳﺐ ﮐﻮ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺑﻼﯾﺎ ﮨﮯ



 ﻭﺭ ﺟﮭﻮﻟﯽ ﮐﻮ ﭘﮭﯿﻼﯾﺎ ﮨﮯ
ﺗﻢ ﺟﺎؤ ﺍ  ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﯾﮟ
ﮨﻢ ﺗﻢ ﺳﮯ ﻧﺎ ﻣﻼﻗﺎﺕ ﮐﺮﯾﮟ



ﮐﯿﺎ ﭘﺎﻧﭻ ﺑﺮﺱ ؟
ﮐﯿﺎ ﻋﻤﺮ  ﭘﻨﯽ ﮐﮯ ﭘﺎﻧﭻ ﺑﺮﺱ ؟
ﺗﻢ ﺟﺎ  ﮐﯽ ﺗﮭﯿﻠﯽ ﻻﺋﯽ ﮨﻮ ؟
ﮐﯿﺎ ﭘﺎﮔﻞ ﮨﻮ ؟ ﺳﻮ ﺩﺍﺋﯽ ﮨﻮ ؟
ﺟﺐ ﻋﻤﺮ ﮐﺎ  ﺧﺮ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ



ﮨﺮ ﺩﻥ ﺻﺪﯾﺎﮞ ﺑﻦ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ
ﺟﯿﻨﮯ ﮐﯽ ﮨﻮﺱ ﮨﯽ نرﺍﻟﯽ ﮨﮯ
ﮨﮯ ﮐﻮﻥ ﺟﻮ   ﺳﮯ ﺧﺎﻟﯽ ہے
ﮐﯿﺎ ﻣﻮﺕ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻣﺮﻧﺎ



ﺗﻢ ﮐﻮ ﺗﻮ ﺑﮩﺖ ﮐﭽﮫ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﮯ
ﭘﮭﺮ ﺗﻢ ﮨﻮ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﮐﻮﻥ ﺑﮭﻼ



ﮨﺎ  ﺗﻢ ﺳﮯ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺭﺷﺘﮧ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ
ﮐﯿﺎ ﺳﻮﺩ ﺑﯿﺎﺝ ﮐﺎ ﻻﻟﭻ ﮨﮯ ؟
ﮐﺴﯽ  ﻭﺭ ﺧﺮﺍ  ﮐﺎ ﻻﻟﭻ ﮨﮯ ؟
ﺗﻢ ﺳﻮﮨﻨﯽ ﮨﻮ ، ﻣﻦ ﻣﻮﮨﻨﯽ ﮨﻮ ،
ﺗﻢ ﺟﺎ ﮐﺮ ﭘﻮﺭﯼ ﻋﻤﺮ ﺟﯿﻮ



ﯾﮧ ﭘﺎﻧﭻ ﺑﺮﺱ، ﯾﮧ ﭼﺎﺭ ﺑﺮﺱ
ﭼﮭﻦ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﻟﮕﯿﮟ ﮨﺰﺍﺭ برس
ﺳﺐ ﺩﻭﺳﺖ ﮔﺌﮯ ﺳﺐ ﯾﺎﺭ ﮔﺌﮯ
ﺗﮭﮯ ﺟﺘﻨﮯ ﺳﺎﮨﻮ ﮐﺎﺭ ، ﮔﺌﮯ



ﺑﺲ ﺍﯾﮏ ﯾﮧ ﻧﺎﺭﯼ ﺑﯿﭩﮭﯽ ﮨﮯ
ﯾﮧ ﮐﻮﻥ ﮨﮯ ؟ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ؟ ﮐﯿﺴﯽ ہے؟
ﮨﺎ  ﻋﻤﺮ ﮨﻤﯿﮟ ﺩﺭﮐﺎﺭ ﺑﮭﯽہے؟
ﮨﺎ  ﺟﯿﻨﮯ ﺳﮯ ﮨﻤﯿﮟ ﭘﯿﺎﺭ ﺑﮭﯽہے
ﺟﺐ ﻣﺎﻧﮕﯿﮟ ﺟﯿﻮﻥ ﮐﯽ گھڑیاں



ﮔﺴﺘﺎﺥ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﺖ ﺟﺎ ﻟﮍﯾﺎﮞ
ﮨﻢ ﻗﺮﺽ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻟﻮﭨﺎ ﺩﯾﮟ ﮔﮯ



ﮐﭽﮫ  ﻭﺭ ﺑﮭﯽ ﮔﮭﮍﯾﺎﮞ ﻻ دیں گے
ﺟﻮ ﺳﺎﻋﺖ  ﻣﺎﮦ  ﺳﺎﻝ ﻧﮩﯿﮟ



ﻭﮦ ﮔﮭﮍﯾﺎﮞ ﺟﻦ ﮐﻮ ﺯﻭﺍﻝ ﻧﮩﯿﮟ
ﻟﻮ  ﭘﻨﮯ ﺟﯽ ﻣﯿﮟ  ﺗﺎﺭ ﻟﯿﺎ



ﻟﻮ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺗﻢ ﮐﻮ ﺍﺩﮬﺎﺭ ﻟﯿﺎ


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

آرٹی فیشل  برین یا مصنوعی  دماغ ، انسانی دماغ کو  سپر کمپیوٹر پر  ماڈل کرنے کا ایک پراجیکٹ ہے جو 2013 سے عالمی خبروں کا  مرکز رہا ہے ، بنیادی طور پر یہ ہنری مارکم کے زرخیز دماغ کی تخلیق تھا اور اس مقصد کے لیئے  یورپی یونین  نے ایک  خطیر رقم بھی مختص کی تھی ، مگر اس حوالے سے اصل پیش رفت گوگل ایکس لیب اور فیس بک آرٹی فیشل برین پراجیکٹ میں ہوئی ، جس میں  مصنوعی نیورونز کے ذریعے  کمپیوٹر کو اس صلاحیت کا  انسانی دماغ جیسی صلاحیت کا حامل بنانا ہے ، مگر ابھی تک  ایسا ہونا ممکن
نہیں  کیونکہ دماغ کوئی مشین نہیں ہے جس کی  میکینزم بنائی جا سکے بلکہ  یہ ایک عضو ہو  جو قدرتی عوامل  اور ارتقائی منازل طے کر کے وجود میں آتا ہے ، اسے کسی مشین کی طرح سیلیکون  چپ  ہر منتقل  کر لینا کچھ عرصے پہلے تک دیوانے کی بڑ معلوم ہوتا
تھا ،  مگر  گذشتہ  کچھ عرصے میں اس حوالے سے کافی پیش رفت بھی ہوئی ہے مگر پھر بھی اگلے آٹھ سے دس سال تک   اس آئیڈیا کا حقیقت میں ڈھل  جانا نا ممکن نظر آتا ہے ۔ انسانی کا وشیں ابھی تک اتنی خود کار اور فعال نہیں ہو سکیں کہ وہ دماغ جیسا پیچیدہ ترین عضو تخلیق کر سکیں۔۔
 ہینس جیسن نے سکرین سے نظر ہٹا کر سامنے پڑے  پیڈ پر  کچھ پوائنٹس نوٹ کیئے ، پھر کافی دیر تک کسی گہری سوچ میں غرق رہنے کے بعد  یکدم لیپ ٹاپ سکرین فولڈ کی جیسے کسی حتمی نتیجے پر پہنچ چکا ہو ، پھر  ٹیبل پر بکھری چیزیں سمیٹتا ہو ا اٹھ کھڑا ہوا  اسی لمحے  گلاس ڈور پر انگلیوں کی پوروں سے  مدہم سی  دستک دیتا ہوا  اسکا دستِ راست نک کمرے میں داخل ہوا ۔ ہینس کے بر عکس  نک  خاصہ  خوش شکل تھا اور نازک گلاسز سے چھلکتی اس کے نیلی گہری آنکھوں سے ذہانت  جھانکتی تھی۔
واٹس اپ ۔  نک نے تھکے تھکے سے انداز میں      کرسی پر گرتے ہوئے سوالیہ انداز میں  ہینس کو دیکھا ۔
 کچھ خاص نہیں میں دو برس پہلے کے کچھ آرٹیکلز  پڑھ کر   اپنی  دوسالہ کارکردگی کا موازنہ کر رہا تھا ، اگرچہ رزلٹ اتنا برا بھی نہیں ، لیکن ہماری سپیڈ  بہت  آہستہ ہے ۔
ہینس حتمی  طور ہر تو کوئی کچھ بھی نہیں کہہ سکتا کیونکہ آنے والے کل کی خبر کسی کو بھی نہیں ، مگر  میرے اندازے کے مطابق   اگلے آٹھ برس  تک ہم   سیلیکون  چپ پر دماغ کی میکینزم کو پوری طرح  منتقل کرنے میں  کامیاب ہو چکے ہونگے، ہوسکتا ہے یہ عرصہ کچھ  بڑھ جائے ، مگر بہرحال یہ ناممکن ہر گز نہیں ۔ نک کے لہجے میں ایک عزم تھا ۔
لیکن نک ۔ یہ عرصہ جتنا طویل ہوگا  اس منصوبے کی مخالفت اتنی ہی بڑھتی جائیگی ، اگرچہ اہم ابھی تک اپنی لوکیشن تک خفیہ رکھتے آئے ہیں ، مگر تاڑنے والے بھی  شیر کی آنکھ رکھتے ہیں ۔ لو گوں میں اس حوالے سے یقین بڑھتا جا رہا ہے کہ سپر اے
آئی انسانیت کی تباہی کا موجب بن جائیگی ۔ ہمیں اپنے کام کی رفتار  تیز تر کرنا ہوگی ۔
بلکل میں تم سے پوری طرح متفق ہوں ، مگر   ہمیں ایک بات بہت اچھی طرح ذہن نشین کرنا ہوگی ۔
 وہ کیا ۔؟؟ ہینس نے دلچسبی سے  نک کو دیکھا جو بلاشبہ اس کا رائٹ ہینڈ تھا ۔
وہ  یہی مائی ڈیئر ہینس ۔ کہ اے آئی اب لوئر لیول سے نکل کر سپر انٹیلی جینس  کی طرف بڑھنے لگی ہے  جو بلاشبہ انسانیت کے لیئے تیسرا بڑا انقلاب ثابت ہوگا  اور کمپیوٹر سے لیکر خلا کی تسخیر تک ہر فیلڈ میں ایک  نئی  راہیں  وا  کرنے کا سبب بنے گی، ہمیں ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہوگا ، کوئی بھی چھوٹی سی لغزش ہمیں ہی نہیں  اربوں کو  پلک  جھپکتے  میں گہری کھائی میں دکھیل سکتی ہے ۔ نک نے اپنے گلاسز اتار کر ٹشو سے صاف کرتے ہوئے فلاسفی جھاڑی ۔
 ہینس  چونک کر اسے دیکھے گیا ، وہی انداز ، کم و بیش وہی الفاظ ۔۔ ایک لمحے کو  اسے یوں لگا تھا کہ   ماضی، حال بن کر اس کے سامنے آکھڑا  تھا ۔ اور اس کے سامنے چیئر پر ڈھیلی ٹائی  اور تھکے تھکے انداز  میں التمش تیمور خان بیٹھا ہو ۔
" ہینس کیا تم جانتے ہو  ہم ایک نئی ٹیکنا لوجی نہیں بنا رہے ، ہم ایک پوری جنریشن کو آگے بڑھانے کے لیئے ایک پل تعمیر کر  رہے ہیں ، اور یو نو واٹ کے یہ کنکریٹ یا فولاد کا بنا ہوا کوئی پل نہیں ہے  جسے مرمت کرکے دوبارہ سے قابلِ استعمال بنایا جا  سکے ،  ہمارے الگورتھم  تک کی ایک چھوٹی سے غلطی  پوری ایک جنریشن کی تباہی کا 

مؤجب بن جائیگی ۔"




 ہینس کو گہری سوچوں میں ڈوبا دیکھ کر نک نے ٹیبل  بجائی ، تو وہ چونک کر ماضی کے دریچوں سے نکل کر حال میں واپس لوٹا ۔
بات نکلی تو پھر  چلتی ہی چلی گئی ، میں تمہیں لنچ کے لیئے لینے آیا تھا ، نک رسٹ واچ دیکھتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا ۔
ایسا ہے نک کے میری شام کی فلائٹ ریسروڈ ہے، میرے خیال میں دو دن تک لنچ پر تمہیں سوزین بہت اچھی کمپنی دیگی ۔ دوستانہ انداز میں   نک کاکاندھا  دباتے ہوئے ہینس آفس سے نکلتا چلا گیا ۔
اگلے روز   ٹھیک انہی وقتوں میں  ہینس  اس ریسٹورنٹ کا شیشے کا بھاری دروازہ کھولتے ہوئے  اندر داخل ہوا جہاں یوشع  ہر روز لنچ کے لیئے آیا کرتا تھا۔حسبِ  معمول وہ آج بھی ڈھیلے ڈھالے قدرے کھلنڈرے انداز میں اپنی مخصوص ٹیبل پر موجود
تھا اور ارد گرد سے  بے نیاز  کافی  کے بھاپ اڑاتے مگ سے چھوٹے چھوٹے گھونٹ لیتے ہوئے اپنے سمارٹ فون پر  مصروف  تھا ۔ ہونٹوں پر بکھری دلکش مسکراہٹ بتاتی  تھی ، یقینا ِِ وہ اپنی ازلی دشمن کے ساتھ نوک جھونک میں مصروف تھا۔
یکدم ہینس کسی عفریت کی طرح نمودار ہو کر بنا اجازت اس کے سامنے والی چیئر پر آبیٹھا ،  یوشع نے جھٹکے سے سیدھے ہوکر اسے دیکھا اور پھر اس کا حلق تک کڑوا ہوتا چلا گیا ۔ آ گئی بلیک کیٹ۔۔
عنایہ کو رات بات کرنے کا ٹیکسٹ کرتا  ہوا  وہ سنبھل کر بیٹھا ۔
ہیلو بوائے ۔ میرا خیال ہے کہ تم لنچ سے فارغ ہوچکے ہو ، مگر پھر بھی چاہو تو میرا ساتھ دے سکتے  ہو ، ہینس نے اپنا ہیٹ ایک طرف دھرتے ہوئے ویٹر کو اشارہ دیا ۔
یوشع نے اس کی بات کا کوئی جواب دینے کے بجائے  کافی مگ سے آخری گھونٹ اپنے اندر انڈیلے ۔۔ والٹ سے بل کے مطلوبہ نوٹ نکالتا ۔۔ میز پر دھرتا وہ  بنا ایک لفظ  کہے اٹھ کھڑا ہوا ۔
ہے بوائے۔ اب ایسی بھی کیا بے مروتی ، لنچ نا سہی ، تم پندرہ ، بیس تو مجھے دے ہی سکتے ہو ۔  ہینس کی آواز نے اس کے بڑھتے قدم روکے ۔ پھر کچھ سوچتا ہوا وہ پلٹا اور واپس اپنی چیئر پر آبیٹھا ۔ آج اس قصے کو  پاک ہی کر دینا چاہیئے ، مگر اسکی ساتویں حس
ہمیشہ سے بہت تیز رہی تھی ۔ ہینس اتنی آسانی سے جان چھوڑ دینی والی بلا  نہ تھا ۔
صرف اور صرف پندرہ منٹ ۔ یوشع نے انگلی اٹھا کر ہینس کو تنبیہ کی ۔
آل رائٹ بوائے ۔ آئی نو کہ اب تم اب گوگل جیسے مایہ ناز ادارے کے ایک مصروف ترین انجینئر ہو ۔
بہتر ہوگا کہ تم کام کی بات کرو ، یوشع نے ناک سے مکھی اڑائی ۔
کام کی بات ۔۔ ہینس نے ہنکارا بھرا ۔  یوشع خان کام کی بات وہی ہے۔ ہم اپنے پراجیکٹ کے لیئے تمہاری سروسز ہائر کرنا چاہتے ہیں۔ ہینس نے کانٹے سے گرلڈ  فش کا قتلہ اپنے منہ میں ڈا لا ، تو یوشع نے بمشکل اپنی ہنسی ضبط کی ۔
یوں لگتا تھا کہ اس کا منہ نہ ہو کوئی اندھا کنواں ہو ، جہاں فش کا قتلہ کیا پوری وھیل بھی منٹوں میں غائب ہو جاتی ۔
مگر وہ گویا ہوا تو  اس کے لہجے میں بلا کی سنجیدگی تھی ،  تم جانتے ہو کہ ابھی رینک برین پر ہمارا بہت سا کام باقی ہے اور یہ تمہارے " ایم مورٹیلیٹی پراجیکٹ" سے کہیں زیادہ اہم ہے ، کیونکہ گوگل کو  بہت سے سرچ انجنز کے ساتھ  شدید مسابقت کا سامنا
ہے اور یقینا ََ ہر کمپنی کے لیئے سب سے اہم اسکی اپنی بقا ہوتی ہے ۔
یس مائی بوائے ، یو آر کوئیٹ رائٹ ۔ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ تم اگلے چھ ماہ تک اپنا  عمومی کام ختم کرکے باقی دوسروں انجینئرز پر چھوڑ دو اور ہمارے ساتھ آجاؤ ۔ ہینس نے اپنے کارڈ کھیلنا شروع کیئے ۔
 یوشع نے زیر ِ لب اسے چند مغلظات سے نوازا ۔   جتنی بری اسکی شکل تھی اتنا ہی برا  شاید اسکا دماغ بھی تھا ۔ یوشع کو جب  آخری رات معید ظفر نے ہینس جیسن کے بارے میں بتایا تھا  تو اسے ایک لمحے کو شدید حیرت ہوئی تھی ، اس کا زیرک باپ
اس جیسی عفریت  کے  ہاتھوں لگ کیسے گیا تھا ۔
مسٹر ہینس جیسن ۔ تمہارے پراجیکٹ کے بارے میں میرے بہت سے تحفظات ہیں ، اور میں بہت اچھی  طرح سے جانتا ہوں کہ تم لوگوں کو جلدی کس لیئے مچی ہوئی ہے ، اس لیئے کہ آکسفورڈ کے پروفیسرز سے لیکر سٹیفن ہاکنگ تک  ، ہر کوئی تمہارے اس منصوبے کے خلاف ہے ۔
دیکھو ، ہینس نے یوشع کی جانب جھک کر مصالحانہ انداز میں ہاتھ پھیلائے ۔ ہر کام کے اچھے اور برے دونوں طرح کے اثرات ہو سکتے ہیں ۔ اگر کسی منصوبے کی   عالمی میڈیا بھرپور حمایت کرے تب بھی کہیں نہ کہیں سے   اسکی  مخالفت میں بھی آواز
اٹھتی ہے۔ یہ اس دنیا کا  پرانا دستور ہے جسے الیکٹرانک میڈیا نے اپنا  کاروبار چمکانے کے لیئے  سب سے زیادہ استعمال کیا ہے ۔ اگر وہ  متنازعہ  خبریں  نشر نہیں کریں گے ، ان کے بلاگز صرف سچ بیان کرنے لگیں  تو   سب کچھ دنوں میں ڈوب جائیگا ۔
 ہر  کسی کو اپنی اپنی دکان چمکانے کے لیئے بہت سے اوچھے ہتھکنڈوں کا سہارا  لینا پڑتا ہے ، ہمارا مسئلہ  فی الوقت یہ  ہے کہ  ہم ابھی اس پراجیکٹ کی تفصیلات پبلک کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ، اس لیئے  جس کے منہ میں جو آرہا ہے وہ بول رہا ہے۔
 تو  تمہارے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ سب میڈیا کی کارستانی ہے ، در حقیقت تم لوگوں کے عزائم نیک ہیں ۔ یوشع نے دلچسبی سے اس چرب زبان شخص کو دیکھا جو باتوں کا جال بچھانے میں ماہر  لگتا تھا ۔
بلکل بات صرف سمجھنے کے فرق کی ہے ۔ اور ہم فی الحال لوگوں کو سمجھانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ،  مگر جب ہماری کارکردگی سامنے آئیگی تو مجھے اسی فیصد یقین ہے کہ سارے پروپیگینڈے   دم توڑ جائیں گے ، ویسے تو رینک برین کی تفصیلات بھی
بہت حد تک  مخفی ہیں ۔ ہینس نے کولڈ ڈرنک کا گھونٹ لیتے ہوئے ایک  اور ترپ کا پتا پھینکا ۔
لیکن بہر حال اب تک کہیں سے بھی رینک برین کے خالف آواز بھی نہیں اٹھی ہے ، کیونکہ  اس ٹیکنالوجی کو کسی بھی منفی رخ پر لیکر جانے کے بجائے ہمارا مقصد صرف اور صرف سرچ انجن کو اپ ڈیٹ کرکے  صارف کی کیوری کو بھرپور طریقے سے سمجھنا ہے ۔
یوشع خان تم ایک بہت قابل سوفٹ ویئر انجینئر ہو اور   میں تمہاری صلاحیتوں کا دل سے معترف ہوں ، کیا تم نہیں جانتے  کہ ایک دماغ ہی دوسرے دماغ کو  بھرپور طریقے سے سمجھ کر ریسپونڈ کیا کرتا ہے ، تو کیا رینک برین بھی ایم مورٹیلیٹی ٹیکنالوجی
کا ایک حصہ نہیں ہے ؟؟
یوشع نے جو میز پر انگلی کی پور سے آڑھی ترچھی لکیریں بنانے میں مشغول تھا اس سوال پر سر اٹھا کر ہینس کو دیکھا ۔ ہم اس طرح صارف کو صرف  ایک سروس دے رہے ہیں ، میں  مانتا ہوں کہ لوگ فی الوقت بھی گوگل پر بہت زیادہ انحصار
کرنے لگے ہیں  اور رینک برین اپ ڈیٹ کے بعد  یہ شرح اور تیزی سے بڑھی گی ، مگر میری پوری کوشش ہوگی کہ لوگوں میں اس شعور کو اجاگر کروں کہ انسان کے لیئے بہرحال اسکی اپنی صلاحیتیں ہی قابل ِ فخر اور قابلِ بھروسہ ہونی چاہییں۔
مشین صرف ہمارا ہیلپر ہے ، اسے نعم البدل مت بنائیں ۔ اور  میں اس حوالے سے ابھی بھی سر گرم ہوں ۔
تمہاری کوششیں لا ئق ِ ستائش ہیں مائی بوائے اور یقین جانو کہ ہم بھی کچھ ایسے ہی عزائم رکھتے ہیں ۔ ہینس نے کھانا ختم کر کے پلیٹ اپنے آگے سے سرکائی تو یوشع نے چونک کر رسٹ واچ دیکھی ، آدھے گھنٹے سے زیادہ ہو چکا تھا ، اور اس خبیث ہینس
کی چالبازیاں ختم ہونے میں ہی نہیں آرہی تھیں ۔ وہ سر جھٹکتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا ۔
ہماری آفر تمہاری منتظر رہے گی ۔ ہنیس نے خوش دلی سے مصافحے کے لیئے ہاتھ بڑھایا تو نا چاہتے ہوئے بھی یوشع کو  ہاتھ ملانا پڑا ۔



ارے ہاں ۔ یاد آیا چند روز قبل سر ِ راہ تمہاری مما سے ملاقات ہوئی تھی ، " اے گریس فل لیڈی شی از " ہینس کے لہجے میں بہت کچھ تھا ۔
اور یوشع جس نے روانگی کے لیئے قدم آگے بڑھائے ہی تھے ان الفاظ پر مٹھیاں بھینچتا ہوا  تیزی سے مڑا ۔
پھر ہینس کے سامنے ٹیبل پر ہاتھ دھرتے ہوئے  جھکا ،  میری مما سے وہ تمہاری پہلی  ملاقات نہیں تھی ، تم اس باہمت عورت سے پہلے بھی بہت دفعہ مل چکے ہو ، مگر آج کے بعد اگر تم مجھے ان کے قریب بھی پھٹکتے نظر آئے نہ تو مجھ سے برا کوئی
نہیں ہوگا ، ایک ایک لفظ نفرت سے چبا چبا کر بولتا ہوا یوشع ایک جھٹکے سے  سیدھا ہوا اور   لمبے لمبے ڈگ بھرتا ریسٹورنٹ سے نکلتا چلا گیا ۔
وہاں روٹین لنچ  پر آنے والے اکثر لوگ اس سے شناسا تھے ، وہ دلکش  خدوخال والا ایک ذہین اور کھلنڈرا سا نوجوان   تھا جو اکثر لنچ کے بعد اپنی کسی دوست سے گپے ہانکتے ہوئے اونچے قہقہے بھی لگایا کرتا تھا ۔ مگر اس روز  اس اجنبی حبشی نژاد سے
باتیں کرتے ہوئے اس کے چہرے کی کرختگی  دیدنی تھی ،    اس روز  طیش کے عالم میں ریسٹورنٹ سے نکلتا وہ آخری دفعہ دیکھا گیا تھا ، کئی روز وہ ٹیبل اپنے مانوس گاہک کی منتظر رہی اور پھر ہفتے بھر بعد اسے نیا مکین میسر آگیا ۔
" وہ یوشع خان کا اس ریسٹورنٹ میں ہی نہیں اس شہر میں آخری دن تھا "


جاری ہے

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


  
Share on Google Plus

About Unknown

0 comments:

Post a Comment