WELCOME TO MELTED TRUTHS

All Truths are easy to understand once they are discovered;the point is to discover them.(Galileo Galilei)

Progress in treating Hearing Loss






Progress in treating Hearing Loss

A report of Harvard Stem cell Institute & MIT eye and ear Infirmary 


دائمی ثقلِ سماعت کا علاج

انسانی جسم میں کان کو نازک ترین عضو میں شمار کیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ جینیاتی عوارض ، کسی انفیکشن ، ادویات(اینٹی بایوٹکس) یا ما حولیاتی اثرات  سے کان  دیگر اعضاء کی نسبت جلدی متاثر ہوتے ہیں اور دنیا بھر میں ثقلِ سماعت کا مرض تیزی سے بڑھتا جارہا ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق صرف امریکہ میں  گذشتہ  دس برس میں  یہ تیسرا بڑا مرض بن کر ابھرا ہےاور اب تک اڑتالیس ملین افراد جزوی یا مکمل سماعت سے محروم ہو چکے ہیں ۔


Internal structure of Human ear

سماعت میں ثقل دو طرح سے واقع ہوتا ہے،  عموماََ دیکھا گیا ہے بڑھتی عمر کے ساتھ    بوڑھے  افرادمیں   سننے کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے ۔ ایک حالیہ ریسرچ کے مطابق پیسنٹھ سے چوہتر  برس کی عمر کے لوگوں  میں خون کی کمی اور اعضاء کی کمزوری کے باعث کان کی رگیں صحیح طور پر کام نہیں کر پاتیں جو جزوی یا مکمل بہرے پن کا  باعث بنتی ہیں ، جبکہ پچھتر  برس  سے زیادہ عمر کے افراد سے  روزمرہ، ٹیلیفون یا موبائل پر بات کرنے کے لیئے عموماََ اونچا بولنا پڑتا ہے۔ثقلِ سماعت کی دوسری  وجہ کسی انفیکشن، ادویات یا شور  کی آلودگی ( دھماکہ یا قابلِ سماعت حد سے بڑھ کر آواز) کے باعث اچانک  کان متاثر ہوتے ہیں ۔  عام بول چال کے لیئے ساٹھ ڈیسی بل کی حد میں آواز لازمی تصور کی  جاتی ہے، جبکہ  بیرونی اثرات سے  کان متاثر ہوں تو چند گھنٹوں یا ایک دن میں یہ صلاحیت گھٹ کر محض تیس ڈیسی بل رہ جاتی ہے۔ ابتدا میں صرف ایک کان پر اثر پڑتا ہے  لیکن چند ہی ماہ میں دونوں کانوں میں سننے کی حس ختم ہوجاتی ہے۔
ٹیکنالوجی نے جہاں ہماری زندگی کو سہل اور آرام دہ بنایا ہے وہیں کچھ ایسے ناقابلِ علاج امراض بھی  عطا کیئے ہیں جو تیزی کے ساتھ کسی ناسور کی طرح پھیل کر   لوگوں کی سماجی اور معاشرتی زندگی کی تباہی کا سبب بن رہے ہیں ، انہی میں سے ایک  مرض شورکی آلودگی بھی ہے۔ بڑے کاخانوں ، بھاری صنعتوں یا ہوائی اڈوںپر کام کرنے والے افراد ہی نہیں ، ان کے اطراف میں بسنے والے لوگ بھی  دن رات  سماعت کی حد سے بڑھ کر آوازیں سننے کے باعث نا صرف سماعتی مسائل بلکہ چڑ چڑے پن اور دیگر نفسیاتی عوارض کا تیزی کے ساتھ شکار ہو رہی ہیں ، یہ مسئلہ جدید شہروں بیجنگ، نیویارک، ہانگ کانگ میں شدید تر ہے جہاں ہوائی اڈے آبادی کے عین بیچوں بیچ بنائے گئے ہیں ۔جسکا حل ائیر بڈز کی صورت میں نکالاگیا ہے۔


انسانی کان کا اندرونی حصہ سنیل(گھونگے) کے خول کی  طرح ہوتا ہے، جسے " کوکلیہ" کہا جاتا ہے جس میں اپنے مرکز کے گرد تقریباَََ دو اعشاریہ   پانچ دائرے بنے ہوتے ہیں ۔ اس میں اندر کی جانب  تقریبا ِِ پندرہ سو بال نما ساختیں ہوتی ہیں ۔  دراصل یہی ساختیں بیرونی ذرائع سے آواز کی لہروں کو وصول کرکے  سگنل دماغ تک منتقل کرتی ہیں۔ کسی انفیکشن، ادویات یا قابل سماعت حد سے بڑھ کر آواز سننے کے باعث ان میں مختلف طرح کی پیچیدگیاں  پیدا ہوتی  رہتی ہیں اور دماغ کو آواز کے سگنل کی فراہمی کلی کا جزوی طور پر معطل ہو جاتی ہے۔ آواز کو محسوس کرنےوالے ان حسیاتی خلیات کی تباہی سے چقلِ سماعت کا مرض اب تک لاعلاج ہے اور اس کا تاریک ترین پہلو یہ ہے کہ ایسے مریضوں کے لیئے آلۂ سماعت بھی کارگر ثابت نہیں ہوتا، نہ ہی  کوکلیئرا یمپلانٹ ( کان کی سرجری )  اُن کے لیئے فائدہ مند ہوسکتی ہے اور وہ بتدریج  سماجی اور معاشرتی حلقوں سے کٹ کر تنہائی کا شکار ہوتےچلے جاتے ہیں ۔
اس سلسلے میں حال ہی میں ایک بڑی پیش رفت ہوئی ہے اور ہارورڈ یونیورسٹی کے سٹیم سیل انسٹی ٹیوٹ کے ریسرچرز نے ایم آئی ٹی کے آئی اینڈ ایئر انفرمری اور بریگھم وومن ہاسپٹل کے ڈاکٹرز کے ساتھ ملکر ان تباہ شدہ ساؤنڈ سینسنگ سیلز ( صوتی حس رکھنے والے خلیات)  کی از سر ِ نو بالیدگی کے لیئے ایک بایو میڈیکل تکنیک دریافت کی ہے جس سے کان کے اندرونی حصے کی تھراپی کے ذریعے  مکمل بہرے پن کا علاج ممکن ہوگا ۔ اس تحقیق کی سرپرستی  ہارورڈ سٹیم سلیز انسٹی ٹیوٹ کے پرنسپل آف فیکلٹی جیف کارپ، فیکلٹی سے منسلک ایج لیبارٹری کے  سربراہ البرٹ ایج اور ایم آئی ٹی کے  رابرٹ لینگر  نے کی ہے جبکہ ایج لیبارٹری کے ول میکلین اور بریگھم  ہاسٹل کی ڈاکٹر زئیو لی ین انکی معاونت کر رہے ہیں،  اس کے علاوہ ہارورڈ میڈیکل سکول کےپروفیسرز بھی اس تحقیق میں بھرپور دلچسپی رکھتے ہوئے پوری طرح سر گرم ہیں 


بائیو میڈیکل انجینئرنگ کی اس نئی جہت پر تحقیق کا آغاز البرٹ ایج نے 2012 میں اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ ملکر کیا تھا۔ اور ابتدائی طور پر سٹیم سیلز ( ایسے خلیات جن کی مدد سے دیگر خلیات کی بڑھوتری ممکن ہو یا جن کے ذریعے دیگر اقسام کے سیل بنائے جا سکیں ) کی نشونما اور بالیدگی پر تجربات کیئے جنھیں ایل آر جی فائیو مارکر کا نام دیا گیا ۔ ان خلیات کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ  انکو لیبارٹری کی پیٹری ڈش میں صوتی حس رکھنے والے خلیات ( بال نما ساختیں )میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔اگرچہ ابتدا میں اس تکنیک سے مکمل  بہرے پن کے  کامیاب علاج کی امید بہت کم تھی مگر البرٹ ایج نے چوہوں  پر اپنے تجربات جاری رکھے،  ایج کو ایک بڑا مسئلہ یہ درپیش تھا کوکلیہ سائز میں  کسی بوتل کے منہ کی طرح  بہت چھوٹا ہوتا ہےاور  اس میں خلیات کی  تعدادبھی محدود ہوتی ہے۔ تقریبا ََ ایک برس تک چوہوں پر تجربات کرنے کے بعد البرٹ ایج  اِن آر جی ایل فائیو سیلز سے دم بریدہ  چھوٹے خلیات (کوکٹیل) بنانے میں کامیاب ہو گئے جس سے سٹیم سیلز کی بالیدگی(گروتھ) کو تقریبا دو ہزار فولڈ (تہوں) تک بڑھایاجاسکتا ہے۔
جیف کارپ کے مطابق اس تکنیک میں چھوٹے سائز کے اِن خلیات کو مرکزی حیثیت حاصل ہےجن کے ذریعے پانیتھ سیلز( انسانی جسم کے دفاعی خلیات) اور انٹیس ٹینل سٹیم سیلز ( خلیات کی از سر ِ نو بالیدگی  میں  معاون سیلز )اور نئے دریافت شدہ آر جی ایل فائیو سیلز کے درمیان  اُس خاص میکینزم سے پردہ اٹھانا ممکن ہوگا جس سے کان کے صوتی حس رکھنے والے خلیات کی دوبارہ بالیدگی کے ذریعے چقلِ سماعت کے مریضوں کی باقاعدہ کلینکل تھراپی  ممکن ہوگی ۔ اس متوقع تھراپی کے بارے میں البرٹ ایج کا کہنا ہے کہ فی الحال ہم ڈرگ سکیرننگ( مضر اثرات کا تکنیکی تجزیہ)کی مدد سے اس طریقۂ کار پر  مزید تجربات کر رہے ہیں جس سے سٹیم سیلز کے پھیلاؤ اور ان کو علیحدہ کرنے کے عمل کو بہتر طور پر سمجھنا ممکن ہوگا ، اس کے بعد اگلے ڈیڑھ سے دو برس کے دوران  ان چھوٹے خلیات والی کوکٹیل سے بہرے پن کا باقاعدہ علاج شروع کیا جائیگا ۔
یہی وجہ ہے کہ ہارورڈ سٹیم سیلز سے پرنسپل آف فیکلٹی جیف کارپ اس نئی تکنیک کے مستقبل سے پر امیدہیں ، ان کا کہنا ہے کہ یہ صرف عارضۂ سماعت کے لیئے ہی ایک بریک تھرو ثابت نہیں ہوگا بلکہ اس  سے محققین کو باقاعدہ ایک پلیٹ فارم میسر آئیگا جہاں انسانی جسم میں سٹیم سیلز اور پروجینائیٹر (وراثتی ، جینیاتی خلیات) کی مدد سے چھوٹے سائز کے ان خلیات پر باقاعدہ تحقیق کی جائیگی ، جن سے  نا صرف مستقبل قریب میں ٹشوز کی بڑھوتری ممکن ہوگی بلکہ مختلف جسمانی انظام  کے ان لا علاج  عوارض کا بھی مؤثر طریقے سے علاج ممکن ہوگا جن کے باعث اعضا ء ناکارہ ہوجاتے ہیں اور پھر پیوند کاری کے ذریعے عطیہ شدہ  عضو لگانا نا گزیر ہوتا ہے ۔


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭



Share on Google Plus

About Unknown

0 comments:

Post a Comment