WELCOME TO MELTED TRUTHS

All Truths are easy to understand once they are discovered;the point is to discover them.(Galileo Galilei)

Electrical Voting


الیکٹورل ووٹنگ




پاکستان میں صرف دو  ہفتے بعد جنرل الیکشن ہونے والے ہیں اور اس وقت سیاسی پارٹیوں کے  امیدواروں  سے لیکر میڈیا تک ہر کوئی الیکشن کے بخار میں مبتلا ہے، مگر عام افراد  میں ووٹنگ کے حوالے سے کافی تحفظات پائے جاتے ہیں۔  اگرچہ چاروں صوبوں میں الیکشن کمپینز  عروج پر ہیں مگر دیکھا جائے تو  کوئی بھی بڑی سیاسی پارٹی نئے ،قابل اور  با صلاحیت امیدواروں  کو سامنے لانے میں ناکام رہی ہے، وہی برسوں  سے باریاں لگاتے پرانے چہرے اور ان کے جھوٹے وعدے  با شعور افراد کو  الیکشن کے دن  ووٹ ڈالنے کے لیئے پولنگ بوتھ تک لانے کے لیئے  ناکا فی  ہیں ۔  اس کے علاوہ گزشتہ پانچ سال میں بہت سے دعووں کے باوجود الیکشن کمیشن آف پاکستان انتخابی عمل کو شفاف بنانے کے لیئے الیکٹورل ووٹنگ یا  نئی   تکنیکس  متعارف کروانے میں  ناکام رہا ہے اور اس دفعہ بھی وہی برسوں پرانے فرسودہ طریقۂ کار کے مطابق عوام کو جولائی کی شدید گرمی میں لمبی لمبی قطاروں میں گھنٹوں انتظار کرنے کے بعد بیلٹ پیپرز پر مہر ، انگوٹھے  پر سیاہی اورعملے کی سست روی و بدلحاظیوں  کا سامنا رہے گا جو  عشروں  سے پاکستان میں انتخابی عمل کا خاصہ رہا ہے۔

الیکشن 2018   میں یہ صورتحال اس لیئے بھی پیچیدگی کا باعث  بنے گی کہ 2013 کے الیکشن پر نتائج آنے سے پہلے ہی دھاندلی  ہونےکے الزامات لگائے جانے لگے تھے اور بلوچستان سمیت ملک کے دیگر علاقوں  کے  اہم حلقوں  کے انتخابی نتائج آج تک سوالیہ نشان ہیں ، جہاں پانچ سال میں بھی کوئی  احتساب نہیں ہوسکا۔ مجھ سمیت پاکستان کا ہر با شعور شہری  اس وقت اسی خدشے میں مبتلا ہے کہ  آیا  اس کا ووٹ ملک کی تقدیر  بدلنے میں کچھ معاونت کریگا  یا پھر پچھلی بار کی طرح انجینئرڈ نتائج کے ذریعے ہم پر جوڑ توڑ والی حکومت اور نا اہل حکمران  مسلط کر دیئے جا ئیں گے جو اگلے پانچ سال تک کسی جونک کی طرح ملکی معیشت کے ساتھ عوام کا خون بھی چوستے رہیں گے؟ ان حالات میں ہر شہری کے لیئے یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ کون سی جدید  تکنیکس ہیں جو انڈیا سمیت دنیا بھر میں  انتخابات میں 
دھاندلی روکنے اور  بروقت اور شفاف نتائج حاصل کرنے کے لیئے استعمال کی جارہی ہیں ۔

دنیا کے مختلف خطوں  میں تقریبا ایک صدی قبل ووٹنگ مشین کا ستعمال شروع ہوا ۔ کسی بھی ملک میں 
شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہو کہ ہارنے والے امیدوار  نے نتائج کو کھلے دل  کے ساتھ تسلیم کیا ہو، امریکہ سے لیکر بھارت تک  اپوزیشن   کی جماعتیں دھاندلی کا رونا روتی رہتی ہیں لیکن وہاں کے الیکشن کمیشنز اور حکومتوں  نے اس کے سد باب کے لیئے ایک مکمل شفاف سسٹم متعارف کروایا ہے۔
بھارت میں پہلی دفعہ 1999 کے انتخابات میں الیٹرانک ووٹنگ مشین استعمال کی گئی اور پانچ سال بعد 

2004 کے انتخابات  ہونے تک اس سسٹم کو پوری طرح اپ  گریڈ کیا جاچکا تھا ۔ اگرچہ اس  سارے عمل  میں خطیر رقم سرف ہوئی مگر  بیلٹ پیپرز کی چھپا ئی، بیلٹ باکسزاور دیگر سامان پر آنے والا خرچہ بھی کم نہیں ہوا کرتا تھا پھر انکو با حفاظت ملک کے دور دراز علاقوں تک پہنچانا اور  پوری طرح حفاظت کرنے پر بھی خطیر رقم  خرچ ہوا کرتی تھی اس کے باوجود دھاندلی کے الزامات الیکشن کمیشن کی ساری محنت پر پانی پھیر دیا کرتے تھے۔  بیلٹ پیپر کی  جگہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال سے نا صرف انتخابی عمل میں آسانی ہوئی  بلکہ  نتائج بھی شفاف ہو ئے۔لیکن بعد ازاں ان  ای وی ایم  کے استعمال میں  بے ضابطگیاں سامنے آئیں اور ہیکرز  نے  ان  کے سسٹم میں خلل ڈالنے کے نئے طریقے دریافت کر لیئے ، جس کے بعد ان مشنیوں کا استعمال بھی مشکوک ہو گیا ہے۔

 اگرچہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین اپنے مخصوص سسٹم اور سوفٹ ویئر پر کام کرتی ہے  جس  سے ووٹ کاسٹ کرنے کے لیئے ہر شہری  کومخصوص وقت دیا جاتا ہے اور ایک منٹ میں پانچ سے زیادہ ووٹ کسی صورت کاسٹ نہیں کیئے جاسکتے۔ لہذا اگر شہری یا خود انتخابی عملہ بھی جعلی ووٹ ڈالنا چاہے تو مشین  ایکسز نہیں دیتی  یا ووٹ از خود  رد ہو جاتے ہیں ۔ اسی طرح انٹرنیٹ ووٹنگ 'ایستونیا ' ایک ایسی سہولت ہے جس کے ذریعے شہری اپنی مرضی کی جگہ سے با آسانی ووٹ  ڈال سکتے ہیں ۔لیکن  الیکٹرانک ووٹنگ صرف ووٹ ڈالنے میں ہی مدد گار نہیں ہوتی بلکہ اس کے ذریعے کم وقت میں اور بلکل درست ووٹ گننے جاسکتے ہیں جس سے دھاندلی کو روکنے میں مدد  ملتی ہے۔ اپنے اپنے تحفظات کے باعث مختلف  ممالک میں ابھی تک مختلف طریقۂ کار رائج ہیں ۔ کچھ الیکٹرانک  اور انٹرنیٹ ووٹنگ دونوں کا استعمال کر رہے ہیں تو  کہیں پیپر بیلٹ اور ای پیپر بیلٹ استعمال  کرتے ہیں ۔
  
پاکستان میں  دیگر مسائل کے علاوہ سب سے زیادہ مسئلہ انتخا بی نتائج کے تاخیر سے اعلان  میں ہوتا  ہےلہذا  یہ ای وی ایم  ووٹ کو فورا گن کر بر وقت اور درست اعداد و شمار فراہم  کر سکتی ہیں لیکن دور دراز کے علاقوں میں جہاں عملہ یا ووٹرز زیادہ پڑھے لکھے نہ ہوں  وہاں انھیں استعمال کرنے میں مسائل 
کا سامنا ہوگا۔

اس مقصد کے لیئے ان ای وی ایم کو اس طرح پروگرامڈ  کیا جاسکتا ہے کہ ووٹر  اپنا مطلوبہ امیدوار 
منتخب کر کے باقاعدہ اسکی تصدیق کرے اس طرح کم پڑھے لکھے افراد جو مشینوں کے استعمال  کا علم  نہیں رکھتے ان سے غلط ووٹ کاسٹ ہوجانے کے اندیشے کو کم کیا جاسکتا ہے۔ پھر بھی حاصل ہونے والے نتائج کا  کائی باقاعدہ ثبوت نہیں ہوتا کہ آیا  یہ ووٹرز ہی کی چوائس تھی یا مشین میں کوئی گڑ بڑ کر کے  مطلوبہ نتائج حاصل کیئے گئے۔ اس  مسئلے کو دور  کرنے کے لیئے  دنیا کے مختلف ممالک میں ای پیپر بیلٹ  استعمال ہو رہے ہیں اور ان کے ساتھ  یہ ای وی مشینیں ،پیپر سے معلومات کو مانیٹر کرتی ہیں ۔
اگرچہ ان ووٹنگ مشینوں کے نقصانات بھی سامنے آئے ہیں مگر ان کے ساتھ یہ بھی نوٹ کیا گیا ہے کہ جن ممالک میں یہ استعمال کی جارہی ہیں وہاں کا الیکٹورل ٹرن آؤٹ بڑھ گیا ہے کیونکہ مشین کے ذریعے جلدی  ووٹ کاسٹ ہوجاتے ہیں اور لوگوں کو گھنٹوں تک قطار میں نہیں رہنا پڑتا ۔
 اسی طرح انتخابی اخراجات ، انتطامات اور خاص کر عملے کی تعداد کم ہوجانے سے الیکشن کمیشن کے کئی دوسرے مسائل بھی با آسانی حل ہوسکتے ہیں اور الیکٹرانک ووٹنگ سے یقینا خواتین کے ووٹ کاسٹ میں اضافہ ہوگا ۔

اس  کے لیئے ایکشن کمیشن کو باقاعدہ ایک لیگل فریم ورک بنا کر  مناسب اصلا حات کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔ کیونکہ جہاں ٹیکنالوجی میں روز افزوں ترقی سے  فراڈ کو ختم کرنے کے  لیئے نئی جہت سامنے آ رہی ہیں اسی طرح  ان کے توڑ کے لیئے بھی نئے طریقے ایجاد  کیئے جارہے ہیں  اور امریکہ سمیت ترقی یافتہ ممالک کے انتخابی نتائج بھی مکمل شفاف نہیں ہوتے۔ مگر  الیکٹورل  ووٹنگ  سے پاکستان میں 2013 کے انتخابات میں ہونے والی کھلی دھاندلی  جیسی صورتحال پر ضرور قابو پایا جا سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭


Copyrights Reserved to @Saadeqakhan!

Any concerned person found copying or publishing this Novel with his or someone's else name would be legally treated
Share on Google Plus

About Unknown

1 comments:

  1. Good but don't you think these techniques is unsecured.

    ReplyDelete