WELCOME TO MELTED TRUTHS

All Truths are easy to understand once they are discovered;the point is to discover them.(Galileo Galilei)

The Celebrities we lost in 2016




مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں۔۔
سال 2016 میں ہم سے  بچھڑ جانے والی چند نامور شخصیات

از صادقہ خان
  





زندگی دھوپ چھاؤں کا کھیل ہے ۔ کوئی نہیں جانتا کہ آج کا تخت نشین کل سڑکوں پر  رل رہا ہوگا ۔ یا آج  زمانے کی ٹھوکریں کھا تا ، کل حاکم ِ وقت ٹہرے گا ۔ زندگی ہر لمحہ تغیر و تبدل کا نام ہے ۔ ہر آتی جاتی سانس  بہت سے امتحان اور آزمائشیں لیکر وارد ہوتی ہے، اب یہ خود انسان پر منحصر ہے کہ وہ آزمائشوں کی اس بھٹی سے کندن بن کر نکلتا ہے  یا پھر آگ کی تپش اس کو جلا کر بھسم کر  ڈالتی ہے ۔ زندگی کا ایک اور سال اپنے جلو میں بہت سے دکھ ، سانحے اور رنج و غم کی داستانیں اپنے پیچھے چھوڑے رخصت ہونے کو ہے ، ایسا نہیں ہے کہ  یہ برس صرف دکھ ہی دے کر گیا ہے  ۔ ہر  کسی  نے قلیل ہی سہی مگر کچھ نہ کچھ بہترین بھی ضرور  پایا ہوگا ۔
عالمی افق کی طرح پاکستان میں بھی کئی نئے ستارے ابھرے تو کئی نامور شخصیات ، ایک عالم کی آ نکھوں کو اپنی چکا چوند سے خیرہ کر دینے والے کئی ستارے ہمیشہ کے لیئے ڈوب گئے۔ آج یہ بزم  ہم نے ایسی ہی کچھ شخصیات سے آپکو از سرِ نو متعارف کروانے کے لیئے سجائی ہے  ، تاکہ جاتے سال کے آخری دنوں میں  ان سیلیبریٹیز کو ایک دفعہ پھر   شاندار ٹرائیبیوٹ دے سکیں جو بظاہر اب ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں  مگر اپنے پیچھے جو اثاثہ وہ چھوڑ گئے ہیں ، وہ تاریخ میں انہیں امر
کرنے کے لیئے کافی ہے ۔
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کے اے لیئم
تجھ میں وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا ہوئے ۔۔
 

فاطمہ ثریا بجیا 

فاطمہ ثریا  بجیا 

پیدائش۔۔ 1 ستمبر 1930 حیدر آباد  انڈیا 

انتقال ۔۔10 فروری 2016  کراچی
 فاطمہ ثریا  بجیا ۔  المعروف بجیا ، صرف انور مقصود ، زبیدہ طارق ، بنٹو کاظمی اور زہرہ نگار ہی  کی نہیں پورے پاکستان کی بجیا تھیں ۔ اردو ادب کی نامور شخصیات سے لیکر  پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری تک ہر چھوٹا ، بڑا  انکا بڑی آپا اور ماں کی طرح احترام کیا کرتا تھا ۔ بجیا کا تعلق ایک علمی اور ادبی خاندان سے تھا اور وہ اپنے نو بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھیں ۔ ان کے والد کا انتقال اس وقت ہوگیا تھا جب وہ سب بہن بھائی بہت چھوٹے تھے اور ان کی کم عمر مگر با ہمت ماں نے تن تنہا ان نو بچوں کو نا صر  ف  پروان چڑھایا ،بلکہ ان میں سے ہر ایک اپنے شعبے کا لیجینڈ ٹہرا ۔ انور مقصود سمیت ان کے تمام بہن بھائی  ، بلکہ تیسری نسل سے بلال مقصود بھی کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں ۔ بجیا کے پاس کائی خاص ڈگریاں نہیں تھیں ۔ ان کی فارملتعلیم کم تھی ۔  مگرمنحنی سے قد کی دھان پان سی بظاہر گھریلو خاتون نظر آنے والی فاطمہ ثریا کے قلم میں بے پناہ طاقت تھی ۔ انہوں نے ستر کی دھائی میں ان معاشرتی مسائل اور ایشوز پر قلم اٹھایا جن پر اس وقت خواتین  لکھاری لکھنا پسند نہیں کرتی تھیں ۔ ان کے ڈرامے شہ زوری ،  شمع، آگاہی ۔ عروسہ، انا اور زینت  آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں اس دور کی یادیں تازہ کرتے ہیں ، جب ڈرامے میں گلیمر نام کو بھی نہ تھا ۔ نا آج کی طرح  اعلی شان سیٹس ہوا کرتے تھے  نا ہی ان کی ہیروئن لاکھوں کی ساڑھیاں اور زیورات زیب ِ تن  کرتی تھی ، یہ سادے سے گھریلو ماحول میں فلمائے جانے والے ڈرامے تھے جو مؤثر اور مضبوط  کہانی کے باعث  شائقین کے دل و دماغ پر دیرپا اثر چھوڑتے تھے ۔ بجیا کافی عرصے سے شدید علیل تھیں مگر یہ با ہمت خاتون آخری دم تک کسی نا کسی حوالے سے مستقل سر گرم رہیں ، ان کی انہی خدمات کے صلے میں انہیں جاپان کے ہائیسٹ سول اعزاز سے نوازا گیا۔ فروری 2016 میں بجیا  ہم سب کو ہمیشہ کے لیئے چھوڑ کر اپنی آخری منزل کو روانہ ہو گئیں ، اردو ادب کو مستقبل میں بجیا جیسا کوئی ڈرامہ نگار  شاید پھر کبھی نہ مل سکے ۔
 اللہ پاک ان کے درجات بلند فرمائے اور جنت میں  بہت اعلیٰ مقام عطا فرمائے ۔ آمین
 
انتظار حسین

 انتظار حسین   
پیدائش۔۔ 7 دسمبر 1923  انڈیا
وفات ۔۔ 2 فروری 2016 لاہور
 اردو ناول نگاری کا ذکر ِ خیر    انتطار حسین کے بغیر ہمیشہ ادھورا رہے گا  ۔ " نیا گھر " اور "بستی "جیسے اعلٰی ناولز کا  مصنف آج کی نوجوان نسل کے لیئے نسبتا ََ اجنبی ہے کیونکہ اس نے دیگرمصنیفین کی طرح  کبھی لائم لائٹ میں آنے اور دھڑا دھڑاخبارات و رسائل کو  انٹرویوز دینے کی کوشش نہیں کی۔ ڈان جیسے معروف اخبار سے با حیثیت کالم نگار  وابستہ ہونے کے  با وجود   انتظار حسین لو پروفائل میں رہنا پسند کرتا تھا ۔ گلی کوچے ، کنکری ، دن اور داستان ، شہر ِ افسوس ، خیمے سے دور،خالی  پنجرہ اور شہر زاد  جیسے کتابیں یکے باد دیگرِ ے فکشن اردو ادب میں ان کا قد بڑھاتی گئیں  تو وہ خود کو اپنی ذات تک اتنا ہی محدود کرتا گئے۔ انتظار حسین بر ملا کہا کرتے تھے کہ انہیں کبھی یہ پرواہ نہیں رہی کہ لوگ ان کی تصانیف کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں اور کس طرح اظہارِ خیال کر تے ہیں ، وہ من کا موجی تھا جو اپنے لیئے ، اپنی روح اور  نفس کی تسکین  کے لیئے لکھا کرتا تھا، سو مرتے دم تک  اسکا قلم حرکت میں رہا ۔ 2013 میں انتطار حسین کو  دنیا بھر کے فکشن رائٹرز کی  ٹاپ ٹین فہرست میں شامل کیا گیا جو بلا شبہ اردو ادب کے لیئے ایک اعزاز  تھا ، اس جیسے لکھاری صدیوں میں جنم لیتے ہیں ، افسوس کے 2016 سے اردو ادب سے اسکا یہ گوہر ِ بے بہا ہمیشہ کے لیئے چھین لیا ، جس کا خلا شاید کبھی پر نہ  ہو سکے ۔ اللہ تعالیٰ انتظارحسین کو غریق ِ رحمت کریں ۔ آمین 


محمد علی کلے




محمد علی کلے
پیدائش۔۔17 جنوری 1942 کینٹکی ۔ امریکہ
وفات ۔۔3 جون 2016  ایریزونا ۔ امریکہ
 اس  برس جو انمول موتی ہم ہمیشہ کے لئے کھو بیٹھے  ، ان میں سے ایک انمول رتن عزم و ہمت کا پیکر محمد علی کلے بھی تھا ، جسے بیسویں صدی کے مایہ ناز اور پسندیدہ ترین کھلاڑیوں میں  شمار کیا جاتا تھا ۔ امریکن- افریقن فیملی میں  جنم لینے والے  علی نے محض بارہ برس کی عمر میں  باکسنگ کا باقاعدہ آغاز کر دیا تھا ، رنگ میں بجلی کے سی تیزی سے پھدکتے ، مخالف پر  تابڑ توڑ  حملے کرتے اس بارہ برس کے لڑکے کو دیکھ کر  شائقین  حیرت سے دانتوں تلے انگلیاں داب لیا کرتے تھے ، وہ ایک پیدا  ئشی فائٹر تھا،جو مرتے دم تک کسی نا کسی حوالے سے زندگی سے نبرد آزما رہا ۔  نوجوانی میں ہی اس  لڑکے کی اٹھان بتاتی تھی کہ  یہ ستارہ جلد ہی باکسنگ کی دنیا میں عالمی افق پر اپنے تابانیاں بکھیر رہا ہوگا ، اور علی نے بھی کبھی اپنےشائقین کو  مایوس نہیں کیا ۔



 جب وہ صرف  بائیس برس کا تھا تو  باکسنگ کے تمام بڑے عالمی اعزازات اسکی جھولی میں تھے ، مگر اسکی وجہ شہرت صرف کھیل ہی نہ تھا ، وہ ایک ساتھ کئی محاذوں پر نبرد آزما رہا ۔ ایک طرف امریکن- افریقن  ہیومن رائٹس  موومنٹ ایک سر گرم رکن تھا  تو دوسری طرف اس نے ویت نام میں ہونے والے قتل ِ عام پر بھی بھر پور آواز اٹھائی ۔ جس کے نتیجے میں وہ بارہا  عالمی طاقتوں کے عتاب کا شکار ہوا ، اس کے انٹر نیشنل کیرئیر کو بین کر دیا گیا ۔ مگر وہ محمد علی ہی کیا جو ہار مان لے ۔ وہ اپنےحق کے لیئے امریکی سپریم کورٹ تک کیا  اور بلا آخر انصاف لیکر ہی دم لیا ۔

 اس پر پہ در ہی گرنے والی بجلیوں کی ایک اور اہم وجہ اسکاقبول ِ اسلام بھی تھا ، محمد علی جس وقت عیسائیت سے تائب ہو کر مشرف ِ با اسلام ہوا اس وقت  وہ اپنے کیریئر کے عروج پر تھا ، مگر  دین ِ محمدی کی کشش ہر شے پر حاوی رہی ۔ اگر کبھی دنیا بھر کی ایسی مشہور و معروف  شخصیات کی فہرست بنائی جائے  جنھوں نے نا صرف اسلام قبول کیا بلکہ وہ مرتے دم تک با حیثیت مبلغ اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے رہے ، تو بلا شبہ محمد علی اس  میں سر ِ فہرست ٹہریں گے۔ علی ایک جنگجو تھا وہ گزشتہ بائیس  برس سے ان اندرونی دماغی انجریز سے لڑ رہا تھا ، جو کھیل کے دوران اسے جھیلنا پڑی تھیں  اور انہی کے باعث وہ کافی عرصے سے صاحب ِ فراش تھا ۔ علی موت سے لڑتے لڑتے ہار گیا مگر وہ اپنے پیچھے عزم و ہمت کی ایک ان مٹ داستان چھوڑ گیا ہے ۔ اسکاکہنا تھا " یہ آپ کے سامنا منہ پھاڑے کھڑا  پہاڑ نہیں ہوتا جو آپ کو آگے بڑھاتا ہے بلکہ یہ ہمارے قدموں تلے آتے چھوٹے چھوٹے کنکر ہوتے ہیں جو ہمیں منزل کی طرف دھکیلتے ہیں ۔ خدا محمد علی کو جنت و فردوس میں بہت خوبصورت مقام عطا فرمائے ۔ آمین 
 

امجد صابری 

امجد صابری
پیدائش۔۔تئیس دسمبر 1976 کراچی
وفات ۔۔ بائیس جون 2016 کراچی
 جاتے سال کے ان آخری دنوں میں اگر بہ نظرِ غور جائزہ لیا جائے  تو یقینا ََ اس کا سب سے بڑا سانحہ  بین الاقوامی شہرت یافتہ قوال امجد صابری کا  سر ِ راہ قتل تھا ۔ رمضان المبارک کا مہینہ تو غیر مسلموں کے لیئے بھی قابلِ احترام ہوتا ہے ، مگر  ان بے رحم قاتلوں کا نہ کوئی مذہب ہے نا کوئی خدا ۔۔ یہ قتل اس حوالے سے بھی  بہت شرمناک تھا  کہ ایسے بے ضرر شخص کو سر ِ راہ روک کر دن دھاڑے اس پر گولیاں برسائی گئیں ، جو نا تو کوئی اعلی ٰ پائے کا سیاستدان تھا ، نہ ہی کوئی
امیر و کبیر بزنس میں  یا بیو روکریٹ، وہ اخلاص و محبت کا پیکر  اپنی آواز سے دنیا بھر میں عشق ِ رسول ﷺ کا پرچار کرنے والا  حبیب ِ خدا کا ایک سچا شیدائی  و متوالا تھا ،  قوالی اور صوفیانہ کلام جس کے خون میں شامل تھی ۔ جس نے محض دس برس کی عمر سے باقا عدہ   پرفارمنس کا  آغاز کیا ،  امجد دنیا بھر میں صوفیانہ کلام اور  قوالی کے حوالے سے ایک آئیکون سمجھا جاتا تھا ، جو اپنے بھاری بھرکم وجود کے ساتھ مست ہو کر  وجد میں  جب سما باند ھتا تھا تو  مسلمان تو کیا ، غیر مسلم بھی بے اختیار سر دھنا کرتے تھے۔ عاجزی و وفا کے پیکر امجد صابری کا  خون ِ ناحق بہا کر بے رحم طالبان نے  شاید  دنیا کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی تھی کہ  اب جہاں سے بھی کوئی آواز  اسلام کی سر بلندی اور عشق ِ رسولﷺ کی سرشاری میں بلند ہوگی تو اُسے یونہی  بے دردی سے ہمیشہ کے لیئے سلا دیا جائیگا ، مگر یہ  ننگ ِ انسا نیت  یہ نہیں جانتے کہ شہید کا خون تو ہمیشہ تاریک راہوں کو اجالنے کا سبب بنتا ہے ۔
تم " تاجدار ِ حرم ۔ نگاہ ِ کرم ۔۔۔" کی کتنی ہی آوازوں کو خاموش کرواؤ گے  ۔۔ اتنی ہی اور آوازیں اٹھیں گی ۔۔ تم جتنی جھولیوں کو   بے دردی سے تار تار کروگے ۔ اتنی ہی مزید جھولیاں  پھیلتی رہیں گی اور جھولی بھرنے والا  جو اس کائنات کاخالق و مالک اور رکھوالا ہے ۔۔ ہر بے کس کی جھولی بھرتا رہے گا ۔۔  اپنی آواز سے کروڑوں دلوں پر ہیبت طاری کرنے والا امجد صابری اب ہمارے درمیان نہیں رہا ۔ وہ اب اپنے حقیقی ٹھکانے پر پہنچ چکا ہے ۔  جہاں  " تاجدار ِ حرم ۔ ہو ووتاجدار ِ حرم ۔۔ نگاہِ کرم ۔۔" کی صدائیں  جب بلند ہوتی ہونگی تو یقینا ِِ حور و غلمان بھی جھوم اٹھتے ہونگے ۔۔
عبدالستار ایدھی



عبدالستار ایدھی
پیدائش۔۔ یکم جنوری 1928 گجرات انڈیا
وفات ۔۔آٹھ جولائی 2016 کراچی
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ۔۔
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

 یہ شعر اگر کسی ہستی پر حقیقتاََیوں پورا اترتا ہے کہ جیسے اسی کے لیئے کہا گیا ہو تو وہ  شخصیت  عبدالاستار ایدھی ہوں گے ، جن کی داستان ِ حیات بلا شبہ عزم، حوصلے اور خدمتِ خلق سے عبارت تھی ۔ 1957 میں ایک چھوٹی سی ڈسپنسری سے اپنی جدوجہد کا آغاز  کرنے والے عبد الستار ایدھی مرتے دم تک اپنے عاجزانہ اور سادہ طرز ِ زندگی  پر قائم رہے، عمو ما ََ مشاہدہ  کیا جاتا ہے کہ دولت بڑے بڑے پارساؤں کا ایمان ڈانو ڈول کردیتی ہے ،  ہوس انسان کو اشرف المخلوقات سے  درجےسےگرا کر شیطان بنانے میں دیر نہیں لگاتی ، مگر ایدھی کروڑوں میں  کھیل کر بھی  خود کو عوام کا  خادم اور اس پیسے کو ان کی امانت سمجھ کر  ، دن رات غرباء ، فقراء  اور یتیموں کی دکھ بھری زندگی میں خوشیوں کے گلاب کھلانے کے لیئے سر گرم رہا ۔
وہ جنھیں مائیں جن کر زمانے کی رسوائی کے ڈر سے رات کے اندھیرے میں کچرے کے ڈھیروں اور نالوں میں ڈال آیا کرتی تھیں ، ایدھی نے انہیں بھی گندگیوں سے اٹھا کر انسانیت کا شرف اور اپنا نام دیا ، اپنی اولاد کی طرح پالا ۔  اس نے زمانےکے ٹھوکروں اور سڑکوں پر رلتے  بے آسرا یتیم بچوں کو پاکستان بھر میں " سائبان " تلے پناہ دی ، جہاں  تعلیم کے ساتھ زندگی تمام تر سہولتیں انہیں دستیاب ہیں ، لاکھوں جوان بچیاں جو جہیز نہ ہونے کے باعث ماں باپ کے در پر بیٹھی بوڑھی ہو رہی تھیں ایدھی نے  انکی شادی کا انتطام کر کے پاکستان کے پُر ہوس معاشرے میں  ایک انوکھی بنیاد ڈالی ، جس سے نا صرف جہیز کی لعنت کسی حد تک کم ہوئی بلکہ  دیگر فلاحی ادارے بھی اپنے طور پر غریب بچیوں کی شادی کے انتطامات کا فریضہ سرانجام دینے لگے۔ جو بیج  عبدالستار ایدھی نے بوئے تھے آج وہ تناور درخت بن کر لاکھوں کو گھنی چھاؤں فراہم کر ہے ہیں ، ایدھی فاؤنڈیشن کا شمار دنیا کی سب سے بڑی والنٹیر   فاؤنڈیشن میں کیا جاتا ہے اور ان کی انہی خدمات کے صلے میں بارہا انکو امن کے نوبل پرائز کے لیئے نا مزد کیا گیا ، مگر ایدھی کی جدوجہد ہر طرح کے ٹائٹلز اور اعزازات سے ماورا تھی ۔
وہ عوام کا خادم تھا اشرافیہ اور امراء کی محفلوں سے دور بھاگتا تھا ، وہ جس لوئر مڈل کلاس میں پیدا ہوا ، جن لوگوں کی فلاح کے لیئے اس نے اپنی زندگی دان کردی ، وہ انہی کے درمیان  آخری  سانسیں لیتا   رخصت بھی ہوگیا ، اسکی وفات پر نہ تواکیس توپوں کی سلامی دی گئی ، نہ ہی اس کی قبر  پر سیلیبریٹیز کی طرح مالاؤں کے ڈھیر نظر آئے ، وہ جس انفرادیت کے ساتھ جیا ، اسی طرح منفرد طریقے پر اس نے مرنا قبول کیا ۔ مگر دلوں میں زندہ رہنے والے تو کبھی نہیں مرتے ۔عبدالستارایدھی  انسانیت کی تاریخ میں امر ہو چکا ہے ۔  خدمت ِ خلق کی عالمی تاریخ جب بھی لکھی جائے گی ایدھی کا نام اس میں سر فہرست ہوگا ۔ 

قندیل بلوچ


قندیل بلوچ
پیدائش۔ یکم مارچ 1990
وفات ۔۔ پندرہ  جولائی 2016
  فوزیہ عظیم المعروف قندیل بلوچ  کا بلا شبہ ان کم عمر سیلیبریٹیز میں  کیا جاتا ہے جن کے لیئے یہ کہنا  بے جا نہ ہوگا  کہ " وہ آئی ۔۔ اس نے دیکھا ۔۔ اور فتح کر لیا ۔" مگر  فوزیہ عظیم کا المیہ یہ رہا   اس کا دور ِ عروج نہایت مختصر تھا ، صرف چھبیس برس کی عمر میں  " انٹر نیٹ کوئن "  کا لقب پا کر وہ جتنا اچانک شو بز کے افق پر نمودار ہوئی تھی ، ویسے ہی اچانک ایک روز اس کے قتل کی خبر ۔ جنگل کی آگ کی طرح پھیل  کر دنیا کو دہلا گئی ۔ کسی  نے اسےغیرت کے نام پر قتل قرار دیا تو بہت سو ں کے لیئے قندیل کی مشکوک اور قابل ِ اعتراض سرگرمیوں کے باعث یہ قتل جائز ٹہرا ، جتنے منہ اتنی باتیں ۔۔ ہر شخص آزا دئ رائے کا حق محفوظ رکھتا ہے مگر  موت ایک  نا قابل ِ تغیر حقیقت ہے جس  کا آج یا کل ، جلد یا بدیر ہم سب کو سامنا کرنا ہے ۔
اسکی وفات کے بعد ان کہانیوں کو دفنا دینا چاہیے تھا جو اسکی زندگی میں زبانِ زدِ عام تھیں ، اس لیئے بھی کہ خود قندیل نے کبھی انہیں چھپانے کی کوشش نہیں کی ، اگر وہ بری تھی  اور غلط کرتی تھی تو ڈنکے کی چوٹ پر کرتی تھی ، ورنہ شو بز کی دنیا
میں پس ِ پردہ بہت کچھ قابلِ اعتراض ہوتا رہتا ہے ، ہمارے معاشرے میں اشرافیہ کا نقاب چڑھائے  ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے کہ جن کے اصل گھناؤنے چہرے اگر منظر ِ عام پر آجائیں تو  آئینہ بھی شرما جائے ۔ قندیل شاید اسی لیئے قتل کروا دی گئی کہ وہ کچھ ایسی ہی  بھڑوں کی چھتے کو چھیڑ بیٹھی تھی ، نادان تھی ۔۔ نہیں جانتی تھی کہ یہ مرد کا معاشرہ ہے ،وہ رات کے اندھیرے میں سب کچھ کر کے دن میں تسبیح ٹوپی سنبھال لیتا ہے ۔۔ سنگ سار تو یہاں صرف عورت کی جاتی ہے ۔
قندیل آج ہمارے درمیان موجود نہیں ہے مگر وہ اپنے پیچھے پاکستانی عورت کےلیئے بہت سے سوالیہ نشان چھوڑ گئی ہے ۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی تمام کوتاہیوں  اور لغزشوں کو بخشتے ہوئے اسے جنت میں اعلی ٰ مقام عطا فرمائیں ، کہ وہ رحمان و رحیم ہے ، دلوں اور نیتوں کا حال سب سے بہتر جا نتا ہے ۔ آمین
جہانگیر بدر

جہانگیر بدر  
پیدائش۔۔ پچیس دسمبر 1944
وفات ۔۔  تیرہ نومبر 2016
 پاکستانی سیاستدانوں میں ایک معتبر  نام سینیٹر جہانگیر بدر کا ہے  ، جن کی زندگی جدوجہد اور وفا   کا عملی نمونہ تھی ، تقریبا ََ چار دہائیوں تک ہر طرح کی لالچ ، دباؤ اور مشکلات کے باوجود  جہانگیر بدر مرتے دم تک اپنے لیڈر اور دیرینہ ساتھی ذوالفقارعلی بھٹو اور ان کی پارٹی کے وفادار رہے ، پاکستانی سیاست جسے عموماََ لوٹوں کی سیاست سے تشبیح دی جاتی ہے ، میں یو ٹرن ماسٹرز کی کمی نہیں ہے۔  لوگ اپنی پارٹیاں سیاسی ماحول میں ذرا سی تبدیلی دیکھتے ہوئے  اتنی جلدی تبدیل کرتے ہیں کہ موسم بھی اتنی جلدی رنگ نہیں بدلتا ۔ اس طرح کےگندے سیاسی  میدان میں جہانگیر بدر بلا شبہ  کھلا  ہوئے تازہ گلاب تھے ۔ انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ عملی سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا  ، ضیاء الحق اور جنرک یحییٰ کے ادوار میں انہیں  شدید مشکلات کے علاوہ قید و بند کی اذیتیں بھی جھیلنا پڑیں ، یہا ں تک کہ  انکا تعلیمی سلسلہ بھی اس باعث کئی دفعہ منقطع ہوا ۔ مگر  وہ مرد ِ آہن کی طرح سیاسی میدان میں ڈٹے رہے ۔ 1988 میں وہ پہلی دفعہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور اس کے بعد کی تمام اسمبلیوں میں رکن  کے علاوہ وہ سینیٹ کے ممبر بھی تھے ۔ انکا شمار بے نظیر کے قریب ترین اور با اعتماد ساتھیوں میں کیا جاتا تھا اور وہ ایک لمبے عرصے تک  پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل بھی رہے ، مگر بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد جب سے زرداری ٹولہ پیپلز پارٹی کا کرتا دھرتا بنا ہے جہانگیر بدر لو پرو فائل میں رہنا پسند کرتے تھے ۔ 2016 جاتے جاتے پاکستانی سیاست کے اس انمول رتن کو  بھی ساتھ لے گیا جو بلاشبہ آج کی گندی اور مفاد پرست  پولیٹکس میں اشرافیہ کی علامت تھا۔
اللہ تعالیٰ جہانگیر بدر کو اپنے جوار ِ رحمت میں جگہ عطا فرمائیں ۔ آمین   


جنید جمشید

جنید جمشید 
پیدائش ۔۔ تین ستمبر  کراچی
وفات ۔۔ سات دسمبر  ہویلیاں
وہ لاکھوں دلوں پر راج کرنے والا ۔ دولت اور شہرت جس کے گھر کی باندی تھی دراصل وہ بد نصیب شہزادہ تھا جو سکون کی متائے حیات کہیں گنوا بیٹھا تھا ۔اور اب اسکی کھوج اور جستجو ہی ۔۔ جنید کی زندگی کا ماحصل تھی ۔مگر وہ نادان بے خبر تھا کہ تلاش کا یہ سفر بہت پر خطر اور کانٹوں بھرا ہے ۔آسائشوں اور نازو نعم میں پلا بڑھا ۔ماڈرن سٹائلش اور الائٹ لائف سٹائل کا دلدادہ   جنید۔ لاعلم تھا کہ جن راہوں کا مسافر وہ ہونے چلا ہے۔وہاں منزل کو وہی پہنچتے ہیں۔۔ جن میں  راہ کی کٹھنائیاں جھیلنے کا حوصلہ سب سے زیادہ ہوتا ہے ۔ان  جانی پر خار راہوں پر چلتے ہوئے جن کے مقدر میں سب سے بڑھ کر آبلہ پائی آئے۔۔ وہی شاد کام ٹہرتے ہیں ۔تلاش و جستجو کا یہی جنون 1997 میں اس جیسے مشہور پاپ سٹار کو ایک تبلیغی اجتماع میں لے گیا ۔ جو بلاشبہ جنید کی زندگی کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا ۔۔ کبھی کبھی قدرت آپکو ایک ایسے کنارے پر لا کھڑا کرتی ہے ۔۔ جہاں سے بیتی زندگی کا ایک ایک پل  کار ِفضول ہوتا  ہے ۔یوں جیسے آج تک ہم صرف کھیلتے ۔۔لطف اٹھاتے چلے آ ئے تھے ۔۔ اور دنیا کی لذتوں نے حیات کے اصل مقصد کو  ہماری نظروں سے اوجھل کردیا تھا ۔   مگروہ دوسرا  راستہ جسے جنید کا دل و دماغ پوری طرح قبول کرنے پر آمادہ تھے۔ایک گھر گھرستی والے شخص کے لیئے یوں اچانک  سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اختیار کر لینا  ۔۔ بہت مشکل تھا ۔۔ میوزک اسکا جنون ہی نہیں ذریعۂ معاش بھی تھا ۔۔ اور سب سے بڑھ کر ۔پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں اُس کی ایک ادا ایک گانے پر مٹنے والوں کی تعداد اب کروڑوں میں تھی ۔زندگی اُس  سے ایک بہت بڑی قربانی مانگ رہی تھی جس کی سکت وہ فی الحال اپنے اندر نہیں پاتا تھا ۔۔ 
)جنید جمشید کے حالات ِ زندگی پر ایک پوسٹ اسی ویب سائٹ پر موجود ہے(

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
Share on Google Plus

About Unknown

0 comments:

Post a Comment