WELCOME TO MELTED TRUTHS

All Truths are easy to understand once they are discovered;the point is to discover them.(Galileo Galilei)

" دریچہ" آٹھویں قسط The Valve





"دریچہ"



"A Novel Based on Artificial Intelligence"


"آٹھویں قسط"


 
التمش نے بلیک کافی کا تیسرا مگ اپنے اندر انڈیلتے ہوئے، فکرمندی سے پیشانی مسلی ، اگرچہ صفہ اسے دو گھنٹے پہلے پین کلر دیکر گئی تھی  اس کے باوجود سر شدید درد سے پھٹا جا رہا تھا۔ اس درد کا  حل نہ تو بلیک کافی تھی نہ ہی پین کلر ، وہ جانتا تھا ۔ اسے
اس وقت شدت سے اپنے مسیحا کی تلاش تھی ۔بچپن سے اسکی عادت تھی  جب کبھی اس کی ٹینشن حد سے بڑھ جاتی تھی تو وہ  کچھ دیر کے لیئے ہر کام ہر شے سے خود کو کاٹ کر  گل بی بی کی میٹھی محبت بھری آغوش میں سر رکھ کر  سکون سے سو جایا کرتا تھا۔ اس یقین کے ساتھ کے جب وہ جاگے گا تو ساری گھتیاں از خود کھلتی چلی جائیں گی اور کبھی اس کا یہ مان ٹوٹا نہیں تھا ۔ مگر آگے بڑھنے کی دھن اور اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کے بل بوتے پر کچھ کر دکھا نے کا عزم  میں اپنی جنت کو وہ بہت  دور چھوڑ آیا تھا ، کئی کئی ہفتے گزر جاتے تھے وہ کام کے دباؤ کے باعث   ماں باپ سے بات بھی نہ کر پاتا تھا۔
التمش کو خود خبر نہیں ہوئی اس نے کب ریسیور اٹھا کر پاکستان نمبر ڈائل کیا ، پی ٹی سی ایل پر بیل جاتی رہی۔  پاکستان میں اس وقت دن کے تین بجے کا وقت ہوگا ۔ اس نے ایک اچٹتی سی نظر رسٹ واچ پر ڈال کر  حساب و کتاب کیا ۔ پھر کال کاٹ کر تیمور خان کے پرسنل  نمبر پر کال کی جو فوراََ ہی ریسیو کرلی گئی۔
باپ کی آواز سنتے ہی جیسے گولا سا حلق میں اٹک گیا تھا ، وہ بہت کچھ شیئر کرنے کی چاہ کے با وجود محض خیر خیریت ہی پوچھ سکا ۔
التمش۔ صفہ اور یوشع تو ٹھیک ہیں نہ۔ وہ بھی باپ تھے آواز سے پریشانی بھانپنے میں انہیں چند سیکنڈ ہی لگے تھے۔
جی  بابا سب خیریت ہے ، بس آپ لوگ بہت یاد آرہے تھے نا چاہتے ہوئے بھی اسکی آواز میں ہلکی سی لغزش آہی گئی تھی۔وہ جن حالات میں گھرتا جا رہا تھا ، اتنی دور سے  باپ کو بتا کر وہ ان کی راتوں کی نیندیں حرام نہیں کرنا چاہتا تھا ۔
تو کچھ روز کے لیئے آجاؤ نہ ، تمہاری امی  کی بھی طبیعت کچھ دن سے ٹھیک نہیں ، یوشع کو بہت یاد کر رہی ہیں ۔ تیمور خان کی آواز میں پوتے کے لیئے ایک عجیب سی ہوک تھی ۔  اولاد کی اولاد میں تو ویسے ہی جان ہوتی ہے ، مگر یوشع جس قدر پیارا
شریر اور ذہین بچہ تھا اس کو راہ چلتے بھی دیکھ کر دیوانے ہو جایا کرتے تھے۔
اور پھر بس لمحے لگے تھے التمش کو فیصلہ کرنے میں ۔ ایک لہر سی اٹھتی اس کے سارے وجود کو  گھیرتی، جکڑتی اپنے ساتھ بہاتی لے گئی تھی۔ اس نے اپنے بیڈروم میں جا کر بے خبر سوئی صفہ کو جھنجھوڑ کر جگایا اور ٹھیک بارہ گھنٹے بعد  کیلیفورنیا کی حدود پار
کرتا ہوا انکا  جہاز اپنی منزلِ مقصود کی طرف رواں دواں تھا ۔ التمش نے اپنے دائیں جانب بیٹھے یوشع پر ایک اچٹتی سی مگر گہری نظر ڈالی جو ائیر لائن کے واؤچرز پر غور و فکر کرنے میں مصروف تھا ۔ اس نے  ماں باپ سے  یوں اچانک پاکستان روانگی کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں  پوچھا تھا  مگر جس طرح  سب سے پہلی اپنی پیکنگ کرکے وہ تیار ہوا تھا وہ اس کے دبے دبے جوش و خروش  کا  واضح اظہار تھا ، ورنہ وہ خاصہ نخریلہ بچہ تھا اور اپنی پلاننگ سے ہٹ کر اچانک کوئی کام اسکی طبیعت پر گراں گزرتا
تھا ۔
ادھر سبز بیلوں سے ڈھکے  کرنل تیمور خان کے گھر میں بھی جیسے بہار کا سا سماں تھا ، کئی روز سے بستر  پر لگی گل بی بی یوں تازہ دم ہوکر اٹھ بیٹھیں تھیں جیسے کسی نے نئی روح پھونک دی ہو ۔ ماں کا دل بھی خدا نے نا جانے کس مٹی سے بنایا ہے ، اسکی آدھی زندگی  جن ننھی کونپلوں کو پروان چڑھانے اور انکی آبیاری میں  گزرتی ہے، باقی آدھی عمر بھی وہ جائے نماز پر انہی کی فلاح، کامیابی اور سکھ کی دعائیں مانگتی کاٹ دیتی ہے ۔
     طویل سفر کے بعد جب التمش نے    گھر کے کشادہ لاؤنج میں قدم دھرے تو مغرب کا وقت تھا ، اور گل بی بی ، تیمور خان  سے کچھ فاصلے پر جائے نماز پر بیٹھیں تھیں ۔ التمش نے ٹوٹتی ہمتوں کو مجتمع کرکے عقب سے دونوں ماں باپ کو دعا کے لیئے ہاتھ پھیلائے دیکھا تو بے اختیار ضبط  کے سارے بندھن ٹوٹتے چلے گئے ۔  بھیگی ، ندامت اور شرمندگی سےسرخ پڑتی  آنکھوں کے ساتھ  وہ ماں کے قدموں میں گرتا گیا ۔
" کیا اپنی بھرپور جوانی ، زندگی کا ایک بڑا حصہ ہمارے نام کر کے ، خود روکھی سوکھی کھا کر ہمارے منہ میں سونے کا نوالہ ڈالنے والے ماں باپ کا  اتنا حق بھی نہیں ہوتا ، کہ جس وقت انکو ہماری ضرورت ہو تو ہم ہر مصروفیت ، ہر مفادکو پسِ پشت ڈال کر
انکی ایک پکار پر دوڑے چلے جائیں ؟ جب ٹھنڈ سے لرزتے کانپتے ان کے ہاتھوں کو زندگی کی حرارت کی ضرورت ہو تو ہم اپنے جسم کی ساری توانائیاں ، زندگی ساتھ چھوڑتے۔ آہستہ آہستہ موت کی جانب بڑھتے ان کے  لاغر ، پنجر سے وجود میں منتقل
کر دیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ماں باپ کو اتنا بڑا درجہ کیوں  دیا ہےکہ ماں کے قدموں تلے جنت رکھی تو باپ کی خدمت کو بخشش اور عذابِ قبر  کی ڈھال بنا دیا ؟؟ اس لیئے کہ والدین کا رشتہ خلوص۔ بے لوث محبت اور ایثار سے اقتباس ہے۔"
التمش کبھی بھی ماں باپ کا نا فرمان نہیں رہا تھا  مگر اپنی ذاتی مصروفیات میں وہ  بہت حد تک خونی رشتوں سے بیگانہ ہوتا جا رہا تھا ۔ گل بی بی کی ہمیشہ سے اس میں جان تھی ، پہلے وہ چار برس یونیورسٹی کے لیئے ان سے دور رہا اور پھر جلد ہی  سات سمندر پار
کا رخت سفر باندھ لیا ، اس نے کبھی ماں کی آنکھوں سے چھلکتے درد کو پڑھنے کی کوشش ہی نہیں کی جو ہر نئی موڑ پر  اس سے کچھ  اور دور ہوجانے پر چھلکا پڑتا تھا۔
ہر ماں کے پہلی اولادکی شادی کےلیئے بہت سے ارمان ہوتے ہیں ۔ مگر صفہ سے التمش کی شادی بھی اس کی شدید مصروفیات کے باعث بہت افراتفری میں ہوئی ۔ دونوں والدین یوشع کے لیئے تڑپتے تو صفہ  کچھ عرصے کے لیئے پاکستان چلی جاتی ،
مگر التمش سالوں میں کہیں جانے کا وقت نکال پاتا ۔  لیکن آج زمانے کی ٹھوکروں نے اسے انہی قدموں میں لا پٹخا تھا جن میں اسکی جنتِ گم گشتہ پنہا تھی۔ ماں کے پاؤں پر اپنی جلتی آنکھیں رکھ کر التمش کتنی دیر بلک بلک کر روتا رہا اسے کچھ خبر نہیں
تھی۔ دادا کے سینے سے لگے یوشع نے حیرت سے اپنے باہمت باپ کو دیکھا ۔ اس آغوش میں   جو ٹھنڈک، فرحت اور سکون  تھا وہ اسے کہیں اور نہیں ملتا تھا ، بے اختیار یوشع تیمور خان کے  کشادہ سینے میں اپنا سر گھساتا چلا گیا۔
رات کھانے کے بعد وہ ٹولیوں کی صورت میں محفل جمائے بیٹھے تھے، ایک طرف ننھے یوشع خان  ، سروش اور عنایہ کے ساتھ  گپے ہانکنے میں مگن تھے تو  ان سے کچھ فاصلے پر خواتین کی گروپ میں قہوے کا دور چل رہا تھا۔ یوشع نے   صفہ کے ہاتھ سے
قہوے کی چھوٹی  پیالی لیکر بغور اس کا پوسٹ مارٹم کیا۔ پھر سروش کی طرف جھک کر رازدارانہ انداز میں پوچھا ۔
آپ لوگ ایک دفعہ میں کتنی پیالیاں پیتے ہو ؟؟
سروش نے اچھنبے سے اسے اور پھر اپنی ماما کو دیکھا ۔
یوشع بیٹا ۔ یہ ایک پیالی ہی پی جاتی ہے۔ گل رخ نے سروش کی مشکل آسان کی ۔
مگر یوشع کے لیئے یہ ننھی سی ایک پیالی نا کافی تھی۔ اپنے کزنز کو  اس روبوٹکس مقابلے کی روداد سناتے ہوئے وہ چار ، پانچ پیالیاں پی گیا جس میں اس نے حال ہی میں فرسٹ پوزیشن حاصل کی تھی اور وہ اس میں شرکت کرنے والا سب سے کم عمر کونٹیسٹر تھا ۔
لاؤنج سے کچھ دور جاؤ تو باہر کی جانب کھلنے والی انیکسی میں مردوں کی نشست تھی ، تیمور خان اور افراسیاب  منتظر تھے ، بہت دیر تک خاموش رہنے کے بعد آتش دان کے دہکتے انگاروں سے نظر ہٹا کر  جب التمش نے لب وا کیئے تو  اس کے  ہمیشہ
دھیمے رہنے والے لہجے میں بھی تپش در آئی تھی ۔
بابا  جانی، میں  یو ای ٹی سے بی ایس  کرتے وقت جب اپنے مستقبل کی پلاننگ کر رہا تھا تو میرے پاس صرف فارن یونیورسٹی یا وہیں کے اعلیٰ اداروں سے منسلک ہونے کا  آپشن تھا ، کیونکہ  اپنے وطن میں اگلے پندرہ برس میں بھی پروفیشنل کیریئر  بنتا مجھے
 نظر آرہا تھا ۔ سو میں اندھا دھند اپنی تمام تو صلا حتیں ان کے نام کرتا گیا ، ایسا نہیں ہے کہ مجھے میری محنت کا صلہ نہیں ملا ، وہ نیت کے برے ضرور ہیں مگر  کرپٹ ہر گز نہیں ہیں ، میں وہاں ہر طرح سے ایک آسودہ زندگی گزارتا رہا ہوں ۔ مگر مسلسل ایک خلش میرے سکون کی دنیا کو تہہ و بالا کرتی رہی ، مگر میں اپنی بے پناہ ذہانت اور ہائی آئی کیو لیول کے با وجود  اس ذہنی خلفشار کا  سرا ڈھونڈنے سے قاصر رہا ۔
مگر میں ایک برا انسان نہیں تھا یا شاید آپ لوگوں کی دعائیں ہمیشہ میری حفاظت کرتی رہیں ، ہر دفعہ جب میں ان پر اسرار  راستوں پر بھٹکنے لگتا تھا تو کوئی غیبی ہاتھ مجھے ان بھول بھلیوں سے کھینچ نکالتا تھا ۔  میری رگوں میں دوڑتا ہوا ایک محب ِ وطن
پاک آرمی آفیسر کا خون جوش مارتا رہا ، مجھے ایک عرصے سے کسی پل قرار نہیں ، شدید تھکن کے بعد جب میں رات گئے تکیے پر سر رکھتا  ہوں تو نرم  وملائم مخملی تکیہ مجھے کسی وزنی پتھر جیسا معلوم  پڑتا  ،  پہروں گزر جاتے اور میری آنکھیں نیند سے محروم رہتیں ۔ میں اپنے سے کچھ فاصلے پر  دراز منہ تک کمبل  لپیٹے صفہ کو دیکھتا ۔ وہ بھی تو میری طرح اپنوں سے دور تھی ، میں ہی نہیں یوشع بھی اپنی اپنی روٹین میں یوں مگن رہ کر اسے نظر انداز کرتے ہیں ۔  اس کا دل بھی تو اس اجنبیت پر کڑھتا ہوگا ،
احساس ِ تنہائی اسے بھی تو کسی دیمک کی طرح چاٹتا ہوگا ، اس پر کہ وہ کبھی حرفِ شکایت تک زبان پر نہیں لاتی ۔ اس کے با وجود وہ ہر روز تکیے پر سر دھرتے ہی منٹوں میں گہری نیند کی وادیوں میں اتر جاتی ہے۔
صفہ کی   اس گہری میٹھی نیند کا سرا مجھے کچھ دیر ہی سے صحیح مگر بہر حال مل گیا ہے ۔   اس نے  ایک دفعہ اپنی زندگی کی ترجیحات مقرر کرلی ہیں اور ان وہ حدود سے نکل کر وہ میری طرح اندھا دھند  ترقی، پیسہ یا ٹیکنالوجی کے پیچھے نہیں بھاگ رہی ۔
 بہت برسوں  کے بے عنوان رت جگوں کے بعد میں  اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہماری زندگیوں میں سائنس اور ٹیکنالوجی کا بڑھتا ہوا اثرورسوخ دراصل ہمیں ایک اندھے کنویں کی طرف  لیکر جا رہا ہے اور ہم دیوانہ وار اسکی جانب  نتائج و عواقب کی پرواہ کیئے بغیر  اسکی طرف  کھنچتے چلے جا رہے ہیں ۔
جب ٹیلی وژن سیٹس یوں ہماری زندگیوں کا لازمی حصہ نہیں بننے تھے تب کیا بچوں کی شامیں اور نو جوانوں کی راتیں  نہیں گزرا کرتی تھیں ۔ جب کمپیوٹر اور انٹر نیٹ ایجاد نہ ہوئے تھے تو کیا ہمارے کام ادھورے رہ جایا کرتے تھے۔ نہیں ایسا ہر گز نہیں ہے۔ یہ تو محض اشیاء  اور ایجادات ہیں، زندگیاں تو ان کے بغیر بھی گزر جایا کرتی ہیں جنھیں  خود سے چند لمحے دور کرنا بھی کار ِ محال لگتا تھا ۔
 بہت لمبی تمہید کے بعد  التمش  سر جھٹک کر خاموش ہوا تو افراسیاب نے ایک گہری نظر اپنے ذہین و فطین بھائی پر ڈالی جس کا ہمیشہ ترو تازہ رہنے والا گریس فل چہرہ اس کے اندرونی خلفشار کی چغلی کھاتا تھا ۔ تیمور خان کے ہاتھوں میں تسبیح کے دانے
پھرتے رہے، وہ کچھ بتائے بغیر بھی بہت کچھ سمجھ چکے تھے۔
تو تم نے اب کیا فیصلہ کیا ہے ۔ تم سب کچھ چھوڑ آئے ہو ، یا چھوڑ دینا چاہتے ہو ؟ بہت دیر تک کمرے میں چھائی  گمبھیر خاموشی  کو تیمور خان کی با وقار آواز نے توڑا ۔
بابا ۔ سب کچھ چھوڑ کر آنا اگر میری صوابدید پر ہوتا  تو میں یہ فیصلہ کرنے میں ایک منٹ بھی نا لگاتا۔ مگر میں ایک نہیں کئی طرح کے انٹرنیشنل پراجیکٹس میں  بھر پور سر گرم رہا ہوں جن میں سب سے اہم " ہیومنائڈ روبوٹکس "  ہے ۔ میری برسوں
کی ان تھک محنت  اور ریسرچ سب کچھ اس وقت داؤ پر لگا ہوا ہے ۔ میرے لیئے یوں سب کچھ یکدم چھوڑ آنا کسی صورت بھی ممکن نہیں ۔
بھیا یہ اتنا بڑا مسئلہ تو نہیں ہے ۔ آپ اگر ایک حتمی فیصلہ کرلیں تو آہستہ آہستہ خود کو ان سب سے کاٹنے یا کچھ کام جلد مکمل کروا کر سال دو سال میں  وطن واپس لوٹ آنا   یقینا ََ ممکن ہوگا ۔ افراسیاب نے اپنے ذہن کے گھوڑے دوڑائے۔ پاکستان میں بھی اب آئی ٹی کی صنعت زور پکڑتی جارہی ہے ، آپ با آسانی کسی ملٹی نیشنل کمپنی میں بہترین جاب حاصل کر  لیں گے۔
مگر التمش جواب دینے کے بجائےاونی قالین کے ڈیزائنوں میں  انگلیاں پھیرتا رہا جسے ان بھول بھلیوں میں  راستے تلاش رہا ہو  مگر کوئی سرا تھا کہ مل ہی نہیں پا رہا تھا۔ تیمور خان نے تسبیح ایک جانب رکھ کر اشارے سے اسے اپنے پاس بلایا ۔
التمش کیا تم کسی طرح کی بلیک میلنگ کا شکار ہو؟ میں جانتا ہوں کہ  ہر تخلیق کار چاہے وہ مصور ہو، لکھاری یا ٹیکنالوجسٹ وہ اپنی صلاحیتوں سے معاشرے میں مثبت اقدامات لانے کا عزم لیکر نکلتا ہے۔ وہ  اچھے ، برے اور بد ترین ہر طرح کے
لوگوں سے ٹکراتا ہے، مگر ہماری زندگی میں آکر  جلد رخصت ہوجانے والا ہر شخص ایک انوکھا سبق دیکر جاتا ہےجس کے اثرات مند مل ہونے میں بعض اوقات طویل عرصہ لگ جاتا ہے۔ مگر میرے بچے زمانے کی یہ ٹھوکریں ہی ہوتی ہیں جو
 بار بار گر کر ، اپنی ٹوٹتی ہمتوں کو نئے سرے سے مجتمع کر کے اٹھنا اور سر وائیو کرنا سکھاتی ہیں ۔تم بھگوڑے نہیں ہو ، ایک جری سپاہی کی اولاد ہو ، تمہاری رگوں میں دوڑتا ہوا خون متقاضی ہےکہ تم اپنی آخری سانس تک لڑتے  رہو گے۔ کرنل ریٹائرڈ
تیمور خان کی سرخ  پڑتی آنکھوں میں بھرپور جلال تھا ۔
التمش یک ٹک باپ کا چہرہ تکے گیا ۔  گزشتہ ڈیڑھ سال جب سے ہر شے منتشر ہونا شروع ہوئی تھی اور زندگی کا قرینہ بگڑا تھا،  بہت سے کام اپنی روٹین سے ہٹ کر اس کا دردِ سر بنے تھے تب سے ان گنت راتیں اس نے اپنی روبوٹ لیبارٹری میں
ڈھیروں ڈھیر کافی اڑاتے ہوئے کاٹی تھیں ۔ مگر جو فیصلہ  کرنے کی ہمت وہ ایک طویل  عرصے میں بھی نہیں کر پایا تھا وہ تیمور خان نے صادر کرنے میں چند منٹ بھی نہیں لگائے تھے ۔ شاید اس لیئے کہ وہ التمش کی طرح سالوں کا شیڈول بنا نے کے بجائے معمول کی زندگی جیا کرتے تھے ،یا شاید اس لیئے کہ بہت سے فیصلوں کو کرنے کے لیئے آئن  سٹائن جیسے دماغ کی نہیں بلکہ راشد منہاس یا عزیز بھٹی جیسے جذبے اور ایثار کی ضرورت ہوتی ہے۔
التمش ہمیشہ سے دل کے بجائے دماغ کی سننے اور اسی پر ڈٹا رہنے کا عادی تھا ۔ اس روز پہلی دفعہ اس نے نتائج کی پرواہ کیئے  بغیر زندگی کا ایک بڑا فیصلہ جذبے اور جنون سے کیا تھا ۔ وہ ان بلیک میلرز کے ہاتھوں کبھی یرغمال نہیں بنے گا ۔ وہ کبھی ان ننگِ انسانیت لوگوں کے ہاتھوں اپنے اتنے بڑے پراجیکٹ کا سودا نہیں کریگا ۔ جن کا اولین مقصد انسان جیسے روبوٹ بنا کر اس کو اپنے شرف سے گرانا اور مشین کو اللہ پاک کی تخلیق سے بالاتر کرنا ہے ، تاکہ ساری دنیا اِن کے نیو ورلڈ آرڈر کے زیر ِ اثر آسکے۔
وہ چند ہفتے پاکستان میں مطمئن اور آسودہ گزار کر جب  کیلیفورنیا واپس لوٹا تو یہاں منظر ہی بدلا ہوا تھا ، ہر دوسرا شخص یوں اچانک روانگی پر اس سے خار کھائے بیٹھا تھا ۔ اور پہلی طلبی سی، ای، او کی تھی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


ہر سو بہت چمکیلی دھوپ پھیلی ہوئی  تھی ، ڈارک بلیو اوور کوٹ  اور سر پر بلیک سکارف لیئے صفہ تیز تیز قدموں کے ساتھ آس پاس سے گزرتے ہجوم کو چیرتی ہوئی آگے بڑھتی جارہی تھی۔ بیک مین روڈ کے اس کشادہ اور سبزے سے ڈھکے قبرستان
کے  مین گیٹ ہر پہنچ کر اس نے نئے سرے سے اپنی  ہمتوں کو مجتمع کیا ۔ ایک ہاتھ میں سفید ٹیولپ کا  بوکے تھامے چند لمحے رک کر وہ دائیں جانب مڑی جہاں التمش کی قبر تھی ۔  گیارہ سال ہوئے تھے انہیں بچھڑے ہوئے، وہ آج تک  یہاں آنے
کی ہمت نہ کر پائی تھی مگر جب سے یوشع نے  صفہ کو یہاں کی تصویریں واٹس ایپ کی تھیں ، کئی دفعہ وہ راتوں کو اس پکار پر چونک کے جاگی تھی ، وہ صدا یہیں کہیں سے اٹھتی ہوئی اس تک پہنچی تھیں ، اورکل رات  خواب میں یہ پکار اس قدر شدید تھی
کہ صبح یوشع کے جاتے ہی وہ کھنچی چلی آئی تھی ۔
بوکے راستے میں کہاں اس کے ہاتھ سے چھوٹا ، کب وہ دیوانہ وار اس کتبے کی طرف دوڑی جس پر لکھا " التمش تیمورخان" دور ہی سے بہت واضح نظر آتا تھا ، کتنی گھڑیاں ، کتنے منٹ ، کتنے گھنٹے وہ زار و قطار  اس قبر کی  لمبی گھاس کو   مٹھیوں میں بھینچے
روتی رہی اسے کچھ خبر نہ تھی ۔
پھر کسی نے بہت نرمی سے صفہ کو کندھوں سے پکڑ کر اٹھایا تو متورم آنکھوں کے پار دھندلہ دھندلہ سا منظر تھا ۔ وہ شاید قبرستان کا بوڑھا رکھوالا تھا ، جو کہیں قریب ہی سے صفہ کے  بلکنے کو بہت دیر سے نوٹ کر رہا تھا۔
دس منٹ بعد  وہ کشادہ قطعۂ زمین پر آس پاس بیٹھے تھے اور صفہ سسکیوں کے درمیان رک رک کر  گرم کافی کے مگ سے گھونٹ لیتی تھی ۔
میں گزشتہ پندرہ برس سے اس قبرستان کی نگرانی ، دیکھ بھال اور باغبانی کے فرائض سر انجام دے رہا ہوں ، اور شاید تمہیں یہ جان کر حیرت ہو کہ جہاں ابھی کچھ دیر پہلے تم رو رہی تھیں وہ اس قبرستان کی منفرد ترین قبر ہے ، میں آج تک اس تیز خوشبو کا سراغ  لگانے سے قاصر ہوں جو ہمہ وقت اس سے اٹھتی رہتی ہے،  میں تمہیں بتا نہیں سکتا کہ اپنے تجسس کے ہاتھوں مجبور  ہو کر میں کیا کیا تجربات کر چکا ہوں ، ایک لمبے عرصے کی ناکامی کی بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ  سی چیزیں  اور ہمارے ارد گرد رونما ہونے والے واقعات ہماری سمجھ بوجھ سے ماوراء ہوتے ہیں ۔
بے اختیار صفہ نے  اپنے  ہاتھوں کو سونگھا جس سے کچھ دیر پہلے اس نے اس قبر کی گھاس تھامی ہوئی تھی، یوشع کے پاس اٹھتی خوشبو آج اس کے وجود میں بھی در آئی تھی ۔
بارہا ایسا ہوا کہ  مجھے رات    کو یہاں سے تیز سبز رنگ کی روشنی پھوٹتی نظر آئی ، جب میں کسی بھی طرح اس  اسرار کا کھوج لگانے میں ناکام رہا تو میں نے گوگل سے مدد لی ، مجھے  تھوڑی سے تحقیق کے بعد پتا لگا کہ  التمش تیمور خان ایک مایہ ناز سوفٹ ویئر انجینئر تھا جس کی کم عمری میں برین کینسر کے باعث موت ہوئی مگر  کیا تم جانتی ہو  اتنے عرصے کی تلاش و جستجو کے بعد میں کس نتیجے پر پہنچا ہوں؟ بوڑھے جیمز نے صفہ کے ہاتھ سے کافی کا مگ لیکر ایک طرف دھرا پھر گہری استفہامیہ نظر اس پر ڈالی۔
صفہ نے کچھ کہے بغیر دھیرے سے نفی میں سر ہلایا ۔
میں ایک سو دو فیصد یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں ایک کہ التمش کی موت طبعی نہ تھی ، میں اس کے حالاتِ زندگی کے متعلق زیادہ نہیں جان پایا ، لیکن مجھے یقین ہے کہ "یہ ایک شہید کی قبر ہے۔"
بہت دیر سے رکے ہوئے صفہ کے آنسوؤں کا دھارا یک دفعہ پھر زور و شور سے بہنے لگا تھا ۔  کافی دیر بعد خود کو سنبھال کر  وہ مرے مرے قدم اٹھاتی   کشادہ روڈ تک آئی ۔ سورج مغرب میں اپنا چہرہ چھپانے کو بیتاب تھا  اور سردی کی شدت میں کچھ اور اضافہ ہو چکا تھا ۔تیز ہوا کا ایک یخ بستہ جھونکا آیا تو صفہ نے بے اختیار اپنے منجمد ہوتے ہاتھوں کے ساتھ سرخ پڑتی  ناک چھوئی۔ سرد ہوا کا جھونکا اپنے ساتھ یادوں کی سوغات بھی اڑاتا  لایا تھا ۔
انکی شادی التمش کی شدید مصروفیات کے باعث قسطوں میں ہوئی تھی، نکاح  کے ایک سال بعد تک جب التمش پاکستان واپسی کے لیئے ٹائم نہیں نکال سکا تو تیمور خان نے صفہ کو اس کے پاس بھیج دیا تھا ۔ اسے کیلیفورنیا آئے دوسرا ہفتہ تھا ۔وہ کچھ
شاپنگ کی غرض سے نکلے تھے مگر التمش آخری وقت میں ارادہ تبدیل کر کے اسے  ڈنر کے لیئے ایک اوپن ایئر ریسٹورنٹ میں لے آیا تھا ۔
مینو کارڈ ہاتھ میں لیکر صفہ غائب دماغی کے ساتھ  ڈشز کے نام پڑھتی رہی، التمش نے ایک پر فہم نظر اس پر ڈال کر آرڈر لکھوایا ، وہ کسی کو کبھی بھی شرمندہ  نہیں کرتا تھا ۔ پھر وہ اِدھر اُدھر بیٹھے مست بے فکرے جوڑوں کو دیکھتا رہا ، مگر  ان مغربی
حسیناؤں میں اسے کوئی بھی کشش محسوس نہ ہوتی تھی۔ اس کے سامنے سکارف لیئے جو لڑکی بیٹھی تھی بے شک وہ حسینائے عالم نہیں تھی مگر اس کی حیا ہر خوبصورتی پر بھاری تھی ۔
رات گئے جب وہ مٹر گشت کرتے ہوئے اپنے چھوٹے سے خوبصورت کاٹیج پہنچے تو  سردی سے صفہ کا برا حال تھا ، اگر التمش اسے تھام نہ لیتا تو شاید وہ دروازے پر ہی گر پڑتی ۔ وہ اسے سنبھال کر آتش دان کے پاس لایا ، بہت غور سے وہ صفہ کی حرکات
نوٹ کرتا رہاجو اسکی گہری نگاہوں سے بے خبر آگ تاپنے میں مصروف تھی ۔ لبوں پر دلکش مسکراہٹ لیئے اس نے ایک ہاتھ سے صفہ کی ٹھنڈ سے سرخ پڑتی ناک چھوئی۔
میرا خیال ہے کہ اگر ہم کچھ دیر اور باہر رہتے تو تمہاری  اس چھوٹی سی ناک سے خون بہنا شروع ہوجانا تھا ۔ 
التمش کی گہری نگاہوں کی تپش محسوس کر کے صفہ کے عارض دہکے۔ جی   نہیں اس شدید ٹھنڈ میں خون بہنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، ہاں میری ناک منجمد ضرور ہوجاتی ۔اس نے تیزی سے اپنا رخ آتش دان کی طرف موڑ کر اعتماد  سے جواب دیا ۔
ہاں یہ بھی ہے ۔  مگر تم تو آتشدان کے پاس بیٹھ کر بھی لال ، گلابی ہوجاتی ہو ۔ التمش اس روز موڈ میں  تھا اسے صفہ کو چھیڑ کر مزا آرہا تھا ۔
وہ کچھ کہے بغیر ایک ہاتھ سے سکارف اتارتی ہوئی اٹھنے لگی تو التمش نےیکدم اسکا ہاتھ تھام  کر اسے واپس بٹھایا۔ بیٹھیے جناب کہیں گر پڑیں گی آپ ۔۔ پھر کافی بنانے کچن کی طرف گیا ۔
کچھ دیر بعد وہ صوفے پر ساتھ ساتھ بیٹھے تھے ، التمش اس کے گرد  بازوؤں کا حصار کیئے ہوئے یہاں کی  شدید ٹھنڈ کے قصے سناتا رہا ، ساتھ ہی کبھی اس کی کافی سے سپ لیتا تو کبھی اپنا مگ صفہ کو آفر کرتا ۔
ایک بات پوچھوں ؟ بہت دنوں سے دماغ میں کلبلاتے سوالوں کو صفہ نے اس رات زبان دے ہی ڈالی۔
صفہ مجھے فارمیلیٹیز بلکل پسند نہیں ہیں ، تم میری شریک حیات ہو ، تم کسی اجازت کی ہر گز ضرورت نہیں ہے۔
آپ آج کل  روبوٹس کے جس پراجیکٹ پر کام کر رہے ہیں میں اس کے بارے میں تھوڑی کنفیوز ہوں ۔ صفہ اب بھی کھل کر پوچھنے سے ہچکچا رہی تھی ۔
اچھا تو تم اوپر میری روبوٹ لیبارٹری میں گئی تھیں؟ التمش کو سمجھنے میں سیکنڈ ہے لگے تھے۔ مائی ڈیئر وائف اتنے ڈرنے اور ہچکچانے کی قطعا ََ ضرورت نہیں ہے ، تمہارا مجھ سمیت میری ہر شے پر برابر کا حق ہے۔ اس نے صفہ کا جھکا چہرہ انگلیوں کی پور
سے اوپر کرکے اس کی فراخ پیشانی پر اپنے ہونٹ رکھے۔اور صفہ کا دل ان لمحوں میں بس  سینہ توڑ کر باہر آنے کو بیتاب تھا۔وہ آج تک یہی سمجھتی آئی تھی کہ التمش کے لیئے اس کا انتخاب تیمور خان اور گل بی بی نے کیا تھا ، مگر آج اس کے محبوب
نے جو اب اسکا سر تاج بھی تھا اسے بڑا مان دیا تھا ۔چند ہفتوں کی قربت نے احساسِ تفاخر بڑھا دیا تھا ۔
جانِ عزیز ۔ لگ بھگ ایک سال سے ہم روبوٹس میں ہیومن فیشل یعنی چہرہ پہچاننے کی صلا حیت پر کام کر رہے ہیں ، ہمارا اصل مشن انڈسٹریز اور تعلیمی اداروں کے لیئے ایسے روبوٹس  بنائےجائیں جو انسانوں کے تاثرات کے ساتھ انکا دماغ پڑھنے
کے حامل ہوں اور ممکنہ حد تک خود بھی اسی طرح ری ایکٹ کر سکیں ۔
لیکن التمش۔ اگر اسی طرح روبوٹس انڈسٹریز میں انسانوں کی جگہ لیتے رہے تو کیا بے روزگاری بڑھ نہیں جائیگی ۔ پاکستان  ایشیائی ممالک میں اب تک زیادہ  تکنیکی ذرائع میسر نہیں ہیں اس لیئے جو لوگ فارن یونیورسٹیز سے پڑھتے ہیں وہ اپنے وطن
واپس لوٹنے کے بجائے  یہیں ملازمت کو ترجیح دیتے ہیں ۔ مجھے معلوم ہے کہ امریکہ ہی نہیں جاپان  اور چین میں بھی  ہیوی انڈسٹریز جڑ پکڑتی جا رہی ہیں اور ان کے لیئے روبوٹس کا استعمال ناگزیر ہےلیکن اگر یہ سلسلہ اسی طرح زور و شور سے جاری رہا
تو کیا مستقبل قریب یا بعید میں صنعتوں کو روبوٹس ہی کنٹرول کیا کریں گے؟  کافی عرصے سے اپنے ذہن میں چکراتے ان گنت سوالوں کو صفہ نے ہمت کر کے زبان  دے ہی ڈالی تھی ۔
نہیں صفہ ایسا ہر گز نہیں ہوگا ، بلکہ اس طرح نئی ٹیکنالوجیز سامنے آئیں گی جن سے  نا صرف زیادہ سے زیادہ ذرائع روزگار دستیاب ہونگے بلکہ ہماری زندگی بھی ممکنہ حد سہل اور آرام دہ ہو جائیگی۔ اسے  تصور کو فی الحال "سمارٹ سیٹیز" کا نام دیا گیا
ہے جس کے پہلے مرحلے میں سمارٹ ہومز بنائے جائیں گے۔
لیکن التمش میرا پوائنٹ تو پھر بھی اپنی جگہ  ہے کیا اس طرح سمارٹ سیٹیز  یا  ہماری زندگی میں بڑھتا ہوا مشین کا استعمال انسان کی اہمیت کو گھٹا نہیں دیگا ؟؟ مجھے ڈر ہے اس طرح ہماری زندگی کے صدیوں پرانے وفا اور خلوص سے گندھے ہوئےتانے بانےالجھ کر معاشرتی زندگی کی تباہی کا سبب نہ بن جائیں ۔
صفہ ہر ٹیکنالوجی کے اچھے اور برے دونوں طرح کے  پہلو ہوتے ہیں اب یہ ہم پر  منحصرہے کہ کس طرف زیادہ رغبت رکھتے ہوئے اسی کے حصول  پر زیادہ توجہ دیتے ہیں ، ہونے کو سب کچھ ممکن ہے مگر بہر حال امید اچھے کی رکھنی چاہیئے ، تم جانتی ہو نہ کہ شیطان لاکھ دفعہ آپ کا راستہ کاٹے ، ہر دفعہ اس ہی کی جیت ہو ، مگر آخری فتح  ہمیشہ حق کی ہوتی ہے۔ التمش کے  لہجے کا عزم چھلکا پڑتا تھا۔
یکدم صفہ سے سرِراہ  کوئی زور سے ٹکرایا ، یادوں کے بھنور سے خود کو کھینچ نکالنے میں اسے لمحے لگے، ٹکرانے والے نے اسے بازو سے تھاما ورنہ اپنی دھن میں وہ گر ہی پڑتی ۔ پھر اس نو وارد نے پاس پڑا صفہ کا ہینڈ بیگ اٹھا کر اسے تھمایا اور ایک گہری نظر
ڈالتے ہوئے مصافحے کے لیئے ہاتھ آگے بڑھایا ۔
ہینس جیسن ۔
مگر صفہ اس کے بڑھے ہوئے  ہاتھ سے بے خبر ٹکر ٹکر اس کی شکل دیکھے گئی  ، اس کے دماغ میں آندھیوں کے تیز جھکڑ چلنے لگے تھے ۔یہ ایک شناسا چہرہ تھا ، وہ سو فیصد یقین سے کہہ سکتی تھی ۔
ہینس نے اپنا بڑھا ہوا ہاتھ پیچھے کرتے ہوئے دوسرے ہاتھ سے اپنا ہیٹ درست کیا ۔ امید کرتا ہوں کہ تم مجھے بھولی نہیں ہوگی اور مستقبل قریب میں بھی ملاقاتیں ہوتیں  رہیں گی ۔ اپنی بات مکمل کرکے وہ خبیث صورت شخص آگے بڑھ چکا  تھا
اور صفہ اپنی جگہ دم بخود تھی ۔ منجمد اور ساکت ۔!

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


مسٹر التمش کیا اس طرح بغیر کسی اطلاع کہ یوں غائب ہوکر تم ہمیں  یہ احساس دلانا چاہتے ہو کہ تمہارے بغیر ہمارے کام ادھورے رہ جائیں گے؟؟ فریڈرک نے قدرے خشک انداز میں اسے آڑے ہاتھوں لیا ۔
اگر ایسا نہیں ہے تو پھر رونا ہی کس بات کا ہے ، تم مجھے فارغ کر کے چلتا کیوں نہیں کر دیتے۔ التمش بھی پوری طرح تیار ہوکر آیا تھا ۔
فریڈرک کے لیئے اسکا یہ جواب خلافِ توقع تھا ، وہ چندلمحوں تک ٹیبل پر دونوں ہاتھ دھرے خشونت سے اسے گھورتا اور تولتا رہا ۔  بلکل میں ایسا کر سکتا ہوں اور یقینا ََ کر بھی گزروں گا ۔ بٹ یو نو واٹ ۔ کہ تمہارے ساتھ ہم نے بہت سا وقت اچھے
پارٹنرز کی طرح گزارا ہے، اس لیئے میری پہلی ترجیح یہی ہے کہ ہم کسی نا  خوشگوار طریقے پر علیحدہ نہ ہوں ۔
بلکل میں بھی ہر گز ایسا نہیں چاہتا ۔ مگر تمہیں یہ بات اپنے ذہن میں رکھنی ہوگی کہ بوسٹن ڈائنامکس ہی میرے لیئے حرفِ آخر نہیں ہے،میرے پاس بہر حال اور  بہت سے آپشنز بھی موجود ہیں ۔
اس کی آواز میں غیر معمولی ٹھنڈک تھی۔ جسکو محسوس کرتے ہوئے فریڈرک نے منٹوں میں چولا  بدلہ۔ ہونٹوں پر ایک زبردستی کی مسکراہٹ  سجاتے ہوئے وہ مصالحت  والے انداز میں التمش کے ساتھ والی چیئر پر آ بیٹھا ۔
میں جانتا  ہوں کہ مجبور نہ تم ہو اور نہ میں ۔ نہ  بوسٹن ڈائنامکس  کسی فردِ واحد  کے دم پر چل رہی ہے ۔ ہر کسی کے پاس متبادل آپشنز ہر وقت موجود ہوتے ہیں ، ہم نے بہت سا وقت اکھٹے مل کر اہم ٹیکنالوجیز پر کام کیا ہے جو دنیا بھر میں سراہی گئی ہیں آپشنز میرے پاس بھی ہیں مگر بہر حال میری  پہلی ترجیح تم ہی ہو ۔
شاید اس لیئے مسٹر فریڈیرک ۔ کہ التمش تیمور خان تمہارے لیئے سونے کی وہ کان ثابت ہوا  ہے جہاں تم نے کوئلہ سمجھ کر بھی کوئی پتھر اٹھایا تو وہ بھی تمہیں نفع دے گیا ۔اس کے چہرے پر زہر خند مسکراہٹ تھی ۔
نہیں میں تم سے بلکل متفق نہیں ہوں ، ہم ٹیکنالوجی کے شکاری ضرور ہیں مگر پیسہ کبھی بھی ہمارا منتہائے نظر نہیں رہا ۔ تم اپنے وطن میں  جاکر دیکھو، وہاں تمہیں کوئی بڑی سے بڑی کمپنی بھی جاب دیگی تو اس کے سب سے اہم اس کا اپنا منافع ہوگا ۔
وہ ایک سیل فون سے لیکر ڈیسک ٹاپ سوفٹ ویئر  تک کچھ بھی نیا متعارف کرواتے ہیں تو کوالٹی کے بجائے کوانٹٹی کو مدِ نظر رکھتے ہیں ۔ اسی لیئے انڈیا کی نسبت پاکستان میں آئی ٹی انڈسٹری اب تک خاطر خواہ طریقے سے پنپ نہیں سکی ۔
آئی ٹی یا اے آئی کے لیئے سب سے اہم  نکتہ کوالٹی ہے۔ بعض اوقات ہم کروڑوں لگا کر کوئی ٹول مارکیٹ میں متعارف کرواتے ہیں اور یوزرز اس کویکسر مسترد کر دیتے ہیں ۔ ہمارا پیسہ ہی نہیں برسوں کی محنت بھی دنوں میں خاک میں مل جاتی ہے اور پھر ہر شے کو نئے سرے سے سدھارنا پڑتا ہے۔ تم  جانتے ہو نہ کہ یہاں وہی سر وائیو کر پاتا ہے جس کے لیئے سب سے اہم معیار اور کوالٹی ہو ورنہ بھیڑ چال والی کمپنیاں آئے روز مارکیٹ میں آکر مختصر عرصے میں قصۂ پارینہ  ہوجاتی ہیں۔اور پھر ڈھونڈنے سے بھی ان کا نشان نہیں  ملتا ۔
ویل ڈن۔ ویری ویل ڈن ۔ آئی ول ایپریشیئٹ فریڈیرک ۔ بہت زبردست تقریر تھی ، مجھے کہنے میں بلکل عار نہیں کہ میں تمہاری ڈیبیٹنگ سکلز سے شدید متاثر ہوا ہوں ۔مگر اتنی عمدہ تقریر کے ساتھ  شاید تم  مجھے صرف یہ  سمجھانے کی کوشش کر ہو
تھے کہ اپنے وطن میں میرا مستقبل صفر ہے۔ التمش کے لہجے کی خنکی اب کچھ اور بڑھ چکی تھی ۔
ناٹ ایٹ آل ۔ تمہاری ذہانت کا میں ہمیشہ  سے قائل رہا ہوں ، یہ سامنے کی باتیں تمہیں سمجھانے کی حماقت بھلا میں کیسے کر سکتا ہوں ، میں تو صرف  تمہیں یہ بتانا چاہ رہا تھا کہ جن متبادل آپشنز پر تم غور کر ہے ہو ان کا معیار کا موازنہ ایک دفعہ  بوسٹن
ڈائنامکس  سے ضرور کرنا ۔ تمہارے لیئے اب ہماری کچھ پالیسیاں  یا مطالبات قابلِ قبول نہیں رہے تو کسی اور جگہ، یہ کچھ ، بہت کچھ نہ ہو جائے ۔ ڈیٹس اٹ۔ فریڈیرک نے کمپیوٹر سکرین سے نظر ہٹائے بغیر عام سے لہجے میں ترپ کا پتا پھینکا تھا۔
اگر تمہیں کچھ اور تقریر نہ جھاڑنی ہو تو کیا میں جا سکتا ہوں؟ التمش نے متاثر ہوئے بغیر جانے کا ارادہ باندھا ۔
یس شیور ۔ اور مجھے ایک سو دو فیصد یقین ہے کہ تم پرسوں تک آفس میں اپنی ذمہ داریاں پہلے ہی کی طرح سنبھال چکے ہوگے۔ فریڈیرک نے دوستانہ انداز میں مصافحہ کیا ۔
التمش نے ہاتھ ملاتے ہوئے ایک گہری نظر  ڈالی۔  اس کے دلائل کچھ اتنے بے وزن بھی نہ تھے ۔ " ہیومنا ئڈ روبوٹ" بنانا کوئی بچوں کا کھیل نہ تھا کہ وہ اور نکولہ کیبوبو مل  کر یہ کارہائے نمایاں سر انجام دے لیتے ، اس کے لیئے ابھی برسوں کی
ان تھک محنت کے علاوہ اعلیٰ ٹیکنالوجی اور ایک کثیر سرمائے کی ضرورت تھی ، وہ اس سلسلے میں کسی بھی یورپین ملک کے روبوٹکس ادارے سے رجوع کرتے تو شرائط  بہر حال سامنے آنی تھی ۔ ہر شخص سب سے پہلے اپنا مفاد دیکھتا ہے ۔
ایک ٹیکنالوجسٹ کے لیئے سب سے بڑا امتحان اپنی ایجاد یا اختراع کو منفی استعمال اور شیطانی ہاتھوں سے بچانا اور اسے انسانیت کی فلاح کا ضامن بنانا ہی ہوتو ہے ۔ آئن سٹائن روتے روتے مر گیا کہ اگر اسے معلوم ہوتا کہ اسکی ایٹم بم تھیوری کو یوں بے دریغ شہر پر شہر اجاڑنے  اور  سپر پاورز کی اندھی انا کی تسکین کے لیئے استعمال کیا جائیگا ، تو ایک سائنسدان بننے سے کہیں زیادہ بہتر تھا کہ وہ موچی یا گھڑی ساز بن  جاتا ۔
مگر التمش کے پاس صرف آئن سٹائن جیسا دماغ ہی نہ تھا اس کے پاس ایک سچے مسلمان اور ایک جری سپاہی  کی اولاد والا جذبہ بھی تھا سو ہر فیصلے کو قدرت اور نصیب   پر چھوڑ کراس نے فریڈیرک کے ساتھ  خوشدلی سے ہاتھ ملایا ۔
اوہ یاد آیا ۔ فریڈ کی آواز پر التمش کے بڑھتے قدم تھمے
ہاؤ از یور سن ؟ ہیئرڈ اباؤٹ  یوشع خان ۔  ہی از  سو گڈ اِن سچ اے ینگ ایج!
یوشع کے نام پر التمش  کی اندر ایک ابال سا اٹھا ، اس کا بس نہ چلتا تھا کہ وہ فریڈ کو ایک زور دار مکہ جڑ دے۔ خبیث نے ابھی سے میرے بیٹے پر بھی نظریں گاڑنا شروع کردی ہیں ۔ جب وہ سی ای او کے آفس سے نکلا تو مارے طیش کے اس کا با وقار
چہرہ سرخ پڑ چکا تھا ۔
ٹو ہیل ود دیئر کمپنی اینڈ روبوٹس ۔ اپنے لاکھ لالچی  اور خودغرض  صحیح ،بھلے ان کے لیئے لوگوں کی صلا حیتوں سے بڑھ کر  اپنا منافع اہم ہے، لاکھ  قابلیتوں ، اعلیٰ ڈگریوں اور گولڈ میڈلز والے وہاں فٹ پاتھ پر دھکے کھاتے ہیں ، مگر بہر حال وہ اپنے تھے
دکھ سکھ کے ساتھی تھے اور سب سے بڑھ کر اپنی مٹی تھی جس کا قرض ہر با صلا حیت انسان کو زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر چکانا ہی پڑتا ہے۔ اس کے پاس  فیصلے کے لیئے صرف ایک دن تھا ۔
شدید ڈپریشن اور اندرونی خلفشار میں  تیز ڈرائیونگ کرتا ہوا وہ گھر  پہنچا تو صفہ کچن میں کوکنگ میں مصروف نظر آئی، اس سے کچھ کہے بغیر وہ اوپر یوشع کے روم میں چلا آیا ، جو راک ریوریونیورسٹی کے سیزن ٹو روبوٹک مقابلے کے لیئے   فٹ بال پلیئر
روبوٹ ڈیزائن کرنے کی کوشش کر رہا تھا ،التمش غائب دماغی سے  یوشع کے پراجیکٹ کی تفصیلات سنتا رہا جو وہ سکول میں ٹیچر کے ساتھ ڈسکس کر کے آیا تھا ۔  مگر آدھے گھنٹے بعد جب صفہ اس کے لیئے کافی اور سینڈوچز لیکر اوپر آئی تب تک  اندیشوں
اور وسوسوں کے بھنور میں  پھنسا ہوا اس کا دماغ فیصلے کے ساحلوں  پر لنگر انداز ہو چکا تھا ۔
"اسے یہ جوا ہر حال میں کھیلنا تھا "



جاری ہے


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭




Share on Google Plus

About Unknown

0 comments:

Post a Comment