WELCOME TO MELTED TRUTHS

All Truths are easy to understand once they are discovered;the point is to discover them.(Galileo Galilei)

OUR BELOVED COUNTRY PAKISTAN






OUR BELOVED COUNTRY PAKISTAN



چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں      
 فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل ۔
نا جانے انسانی  ذات کی وہ کون سی جبلت ہے جو اسے  بلند اور اعلی مقاصد سے بہکا کر صرف  شخصیات   اور عمارتوں کی  پرستش  یا لکیر  پیٹتے  رہنے پر لگا دیتی ہے، خانہ کعبہ ہو یامینار ِ پاکستان ہم مسلمانوں نے تعمیرات کے سنگ ِ میل تو بیشک عبور کر لیئے لیکن ان  پر شکوہ ، خوش نما اور روح پرور عمارتوں کی دھند میں اصل ۔۔۔  کو ہم کہیں بہت دور
چھوڑ آئے ہیں ۔
پاکستانی تاریخ سے بھر پور آگاہی رکھنے والے اشخاص اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہوں گے کہ تحریکِ پاکستان میں معاشرے کہ ہر فرد نے انفرادی طور پر بھر پور حصہ لیکر اسے نا قابل  ِ مزاحمت اور  کامیاب بنایا، ادباء ، علماء کرام ، شعراء، اسا تذہ ، سٹوڈنٹس ، مذہبی شخصیات غرض یہ کہ افراد کا ایک سونامی تھا جو اپنی منزل کی جانب  آگے بڑھتا ہی چلا گیا ۔  ایک طرف قائد ِ اعظم اور لیاقت علی خان کی ولولہ انگیز قیادت اس سیل ِ رواں کی باگ سنبھالے ہوئے تھی
تو دوسری جانب شبلی نعمانی،علی برادران اور مولانا اشرف علی تھانوی جیسی جلیل القدر شخصیات بھی اسی تحریک کا ایک سرگرم حصہ تھیں ۔  تاریخ گواہ ہے کہ بر ِ صغیر کے مسلمانوں میں شمع آزادی کی لو بھڑکانے میں شعراء اور ادبا ء نے بھی ایک مؤثر کردار ادا کیا ۔23  مارچ 1940 کو جو قافلہ چلا تھا  وہ لگ بھگ سات سال کے عرصے میں اپنی منزل مقصود کو اس لیئے پہنچا  کہ ان میں چھوٹے بڑے، اعلی ادنی، عالمِ دین یا ساست دان کی کوئی تخصیص نہیں تھی ، وہ سب ایک تھے کیونکہ  انکی منزل ایک تھی ۔
لیکن جب ہم قیامِ پاکستان  کے بعد بالخصوص پچھلے دو عشروں کی تاریخ       کا بہ نظر ِ غائر جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں یہاں افراد ، گروہ یا سٹیٹس تو نظر آتے ہیں ایک ملت یا قوم نہیں۔ہر طبقۂ فکر اپنی اپنی نا کامی کا ملبہ دوسرے پر   ڈالتا اور لعن طعن کرتا دکھائی دیتا ہے  ،لیکن اپنا احتساب کوئی کرنے کو تیار نہیں ۔ ہر مولوی کے لیئے وہ تمام عالمِ دین اور مفکر ِ
قرآن و حدیث کافر ہیں جو اس سے کسی معاملے پر رتی بھر بھی اختلاف رکھتے ہوں ۔ سیاستدانوں میں اقتدار کی وہ دوڑ لگی ہوئی ہے کہ مادرِ وطن  کہیں پسِ پشت چلا گیا ہے ،اور عوام  تو جیسے خود فریبی و خود فراموشی کی شرط لگائے بیٹھے ہیں ۔
یہاں مجھ سمیت ہر تیسرا شخص خود کو سکالر یا فلا سفر سمجھتا ہے ، ہر کسی کو یہ خبط لاحق ہو گیا ہے کہ صرف وہی ارفع اور درست ہے باقی تمام بونے ہیں ، کسی کی اصلاح کے لیئے بولنا  ایسا ہی ہے جیسے بھینس کے آگے بین بجانا ۔۔جہاں کوئی  بھی انفرادی اصلاح کے لیئے آمادہ نہ ہو وہاں  قومی سطح  پر اجتماعی خود احتسابی چہ معنی ۔۔
پاکستانی معاشرے میں بڑھتا ہوا یہ عدم مساوات ، عدم برداشت   اور باہمی نفاق کا یہ چلن ، دنیا بھر میں اسلام اور اس مادر ِ وطن  کے  دشمنوں  سے ہرگز چھپا ہوا نہیں ہےاس کے باوجود پاکستان اگر قائم ہے  تو یہ یقینا خدا کا ہم  پر خاص کرم  ہے اگرچہ ہمارے اعمال ہر گز اسکے لائق نہیں رہے۔۔
ابھی گرانی ِ شب میں کمی نہیں آئی
نجات ِ دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی ۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


Share on Google Plus

About Unknown

0 comments:

Post a Comment